اُردو خاکہ نگاری پر تحقیقی و تنقیدی کام کی رفتار اور امکانات
Abstract
Khaka Niagari is that one genre of Urdu Literature which has attracted the attentions of the readers since its inception. This trend accelerated with the passage of time which resulted in compilation of great treasure of Khaka Nigari in the world of Urdu literature. This treasure trove of Khaka Nigari also lured critics and researchers towards it. Now, it will be worthwhile to study the works of these critics and researchers to analyse different aspects covered by them so that new avenues of Khaka Nigari are discovered. The material which is available on Urdu Khaka Nigari include: published and unpublished research papers of different universities, critical and analytical research papers published different newspapers and magazines, information about Khaka Nigari and Khaka Nigar available in miscellaneous topics and books on Khaka Nigari. Besides this, different point of views and commentaries are also available in prefaces of different books regarding Khaka Nigari. Above mentioned critical and analytical work on Khaka Nigari is quality work but without novelty. Therefore, it becomes imperative to dig out new facets of Urdu Khaka Nigari. So that new and different ways of Khaka Nigari emerge in the world of Urdu literature which will further enrich this versatile language.
اُردو اصنافِ ادب میں خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس نے اپنے آغازہی سے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی، پھر اس کی پسندیدگی میں روز افزون اضافہ ہوتا ہی چلا گیا جس کی وجہ سے اُردو خاکہ نگاری کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا، جس نے ناقدین و محقّقین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، چنانچہ اب یہ دیکھنا بے جا نہ ہوگا کہ جب سے اُردو میں خاکہ نگاری نے رواج پایا ہمارے محققین اور ناقدین نے اس صنف پر ضمناً ہی سہی کن کن پہلووں پر اظہار کیا ہے۔ تاکہ مزید کاموں کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔
اس وقت اُردو خاکہ نگاری پر جو مواد دستیاب ہے اس کی نوعیت درج ذیل ہے۔
۱۔ جامعات میں لکھے جانے والے مطبوعہ تحقیقی مقالات ۱
۲۔ جامعات میں لکھے جانے والے غیر مطبوعہ تحقیقی مقالات ۲
۳۔ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی و تنقیدی مضامین و مقالات ۳
۴۔ مضامین کے مجموعوں میں شامل خاکہ نگاری پر مضمون
۵۔ متفرق موضوعات پرلکھے جانے والے مقالات میں ضمناً خاکہ نگاری اور خاکہ نگاروں پر معلومات
۶۔ "خاکہ نگاری" پر کتابیں
۷۔ اُردو خاکوں کے مجموعوں پر لکھے جانے والے دیباچوں اور مقدّمات میں ضمناً خاکہ نگاری پر نادر معلومات
۸۔ اُردو خاکہ نگاری پر لکھے جانے والے تاثراتی اور تنقیدی مضامین میں اس صنفِ ادب سے متعلق اظہارِ خیال۔
اب سب سے پہلے ہم جامعات میں لکھے جانے والے مطبوعہ مقالات کی طرف آتے ہیں۔
۱۔ اُردو خاکہ نگاری سے متعلق سب سے پہلا کام مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں ۱۹۴۶ء میں ہوا۔ شجاع احمد زیبا نے ایم کی سطح پر "اُردو میں قلمی خاکے" کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا جو بغیر کسی ترمیم و اضافے کے ۱۹۹۳ء میں کراچی سے شائع ہوا۔ یہ مطبوعہ مقالہ نگاری کے ارتقاء پر "آبِ حیات" تک بحث کی گئی ہے۔ بعد ازاں خاکہ نگاروں کے فن کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک معیاری تحقیقی و تنقیدی کام قرار پاتا ہے۔
اُردو خاکہ نگاری پر دوسرا مقالہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن میں ڈاکٹر صابرہ سعید کا تحریر کردہ ہے۔ ۱۹۶۸ء میں لکھا جانے والا یہ تحقیقی مقالہ ۱۹۷۸ء میں "اُردو ادب میں خاکہ نگاری" کے عنوان سے بغیر کسی ترمیم واضافے کے شائع ہوا۔
اِس قابلِ ذکر مقالے میں خاکے کی ماہیت، فن، محرکات، موضوعات اقسام اور اجزائے ترکیبی پر تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں مماثل اصنافِ ادب سے خاکہ نگاری کا موازنہ، اُردو خاکہ نگاری کے اوّ لین نقوش اور ارتقاء اور آخر میں اُردو کے منتخب خاکہ نگاروں کے فن کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کام تشنگی کے باوجود دستیاب مواد پر معیاری کام قرار دیا جاسکتا ہے۔
۲۔ راقم الحروف کی دسترس میں دو غیر مطبوعہ مقالات بھی ہیں۔
پہلا مقالہ گل ناز بانو نے ۲۰۰۲ء میں، پشاور یونیورسٹی میں ایم فِل کی ڈگری کے لیے تحریر کیا۔ اس مقالے کا عنوان ہے "صوبہ سرحد میں خاکہ نگاری (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)"۔ چار ابواب پر مشتمل اس مقالے کے ابتدائی دو ابواب میں جو معلومات پیش کی گئی ہیں اُن میں اب تک خاکہ نگاری کے بتہرین مطالعات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ آخری دو ابواب اس لحاظ سے قابلِ ذکر قرار پاتے ہیں کہ اس میں اہم خاکہ نگاری اور سرحد میں اُردو خاکہ نگاری کے ارتقاء پر قیمتی معلومات پیش کی گئی ہیں۔
دوسرا مقالہ بشریٰ ثمینہ کا تحریر کردہ ہے جو بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان میں لکھا گیا۔ مقالے کا عنوان "اُردوں میں شخصیت نگاری۔ تحقیقی و تنقیدی جائزہ (سرسید کے دور سے ۱۹۸۵ء تک)" ہے۔ چھے ابواب پر مشتمل یہ مقالہ بشریٰ ثمینہ کی فکری اور تحقیقی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے جس میں شخصیت نگاری کے رجحانات پر نہایت عرق ریزی اور تلاش و جستجو کے ساتھ مواد پیش کیا گیا ہے۔
۳۔ اب ہم ادبی رسائل ہونے والے مضامین کی طرف آتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا دستیاب مضمون بہ عنوان "اُردو میں خاکہ نگاری" نثار احمد فاروقی کا ہے جو مئی ۱۹۵۹ء میں "نقوش" لاہور میں شائع ہوا۔ مضمون میں خاکے کی تعریف، اُس کے مترادفات، شرائط، حدود و قیود اور خاکہ نگار کے اوصاف کے علاوہ ابتدا سے لے کر ۱۹۵۰ء تک کی اُردو خاکہ نگاری کا ارتقائی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
۱۹۶۶ء میں "نگار" پاکستان کے اصنافِ ادب نمبر میں "اُردو میں خاکہ نگاری" کے عنوان سے امجد کندیانی کا مضمون بھی شامِل اشاعت تھا جس میں آغاز سے ۱۹۶۳ء اُردو تک، اُردو میں خاکہ نگاری کا تاریخ وار تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
ماہ نامہ "کتاب نما" نئی دہلی میں عبدالمغنی کا مضمون "خاکہ نگاری کیا ہے؟" جنوری ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ جس میں مضمون نگار نے موضوع کی انفرادیت و خصوصیات کو اُجاگر کرنے کے لیے واقعات کے بیان، زبان و اُسلوب اور خاکے کی مخصوص ترتیب پر زور دیا ہے اور اس مقصد کے لیے مضمون میں اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
۱۹۸۷ء میں شعبّہ اُردو، سندھ یونیورسٹی جام شورو کے شعبہ جاتی تحقیقی مجّلے "تحقیق" کا شمارہ اوّ ل منظرِ عام پر آیا جس میں فہمیدہ شیخ کا مضمون بہ عنوان "اُردو خاکہ نگاری ۔۔۔ ایک مطالعہ" بھی شامِل اشاعت تھا۔ جس میں خاکے کی تعریف فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس صنف کے آغاز و ارتقاء پر بھی موثر اندز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
"خاکہ اور خاکہ نگار" کے عنوان سے ماہ نامہ "قومی زبان" کے دسمبر ۱۹۹۴ء کے شمارے میں اشتیاق طالب کا مضمون شایع ہوا۔ جس میں خاکہ نگاری کے اجزائے ترکیبی اور مقصد کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ایک اچھے خاکے کے معیار اور اُس کے تخلیقی تقاضوں اور شرائط کی تشریح بھی بہ احسن و خوبی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مزکورہ صنف کا آغاز و ارتقاء کے حوالے سے بھی معلومات ہیں۔
روزنامہ "نوائے وقت" کراچی میں ۱۵ جنوری ۲۰۰۳ء کو ممتاز رفیق کا تنقیدی مضمون بہ عنوان "ادب میں خاکہ نگاری کا مسلہ" شائع ہوا جس میں اُنھوں نے خاکہ نگار کے اوصاف کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
۴۔ اب ہم کچھ ایسے مضامین کا ذکر کرتے ہیں جو مختلف کتابوں میں شامل ہیں۔
پہلا مضمون محمد عالم خان کی کتاب "چند نئے ادبی مسائل" دسمبر ۱۹۹۱ء میں ملتا ہے، جس کا عنوان "خاکہ نگاری میں غیر ادبی روش" ہے۔ اس میں مذکورہ صنف کے اجرائے ترکیبی کے ساتھ ساتھ موضوع شخصیت کے انتخاب کے جدید معیارات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ نیز خاکہ نویس کے اوصاف کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے۔
اگست ۲۰۰۰ء میں پروفیسر غفور شاہ قاسم کی کتاب "پاکستانی ادب۔ شناخت کی نصف صدی" منظرِ عام پر آئی جس میں "خاکہ نگاری" کے فن کے علاوہ قیامِ پاکستان کے بعد اُردو خاکہ نگاری کے ارتقاء کا جائزہ پییش کیا گیا ہے۔
اسلوب احمد انصاری نے رشید احمد صدیقی کی ادبی حیثیات اور خدمات کا جائزہ مختلف مضامین میں پیش کیا ہے جو "اطرفِ رشید احمد صدیقی" کے عنوان سے کتابی صورت میں شایع ہوئے ہیں۔ اسی کتاب میں "قلمی مرقعے" کے عنوان سے ایک مضمون بھی شامل ہے جس میں رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ مرقع نگاری کے فن پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں خاکے کے لیے مضمون میں مسلسل مرقعے کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے مرقع نگاری اور مرقع نگار کی شرائط اور اوصاف کی بابت تفصیلی اظہار، خیال کیا گیا ہے۔
"تشّخص" کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے مضامین کا مجموعہ ۱۹۸۹ء میں شایع ہوا۔ جس میں مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری سے متعلق ایک مضمون "خاکہ نگاری کا انڈیا گیٹ" بھی شامل ہے۔ جس میں خاکہ نگاری کی صنف سے متعلق بھی چیدہ چیدہ معلومات ملتی ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اجمل نے خاکہ نویسی کے لیے ہمدردی، غیر جانب داری اور مزاح کو لازمی قرا دیا ہے۔
"اکبر حمیدہ کا فن" رقیب سندیوی کی تالیف ہے۔ جس میں ایک مضمون پروفسیر نظیر صدیقی کا بھی ہے جو اکبر حمیدی کے خاکوں کے مجموعے "قدِ آدم" سے متعلق ہے۔ مضمون بہ عنوان "قدِ آدم خاکہ نگاری کی ایک اچھی کتاب" میں اکبر حمیدی کی خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ فنِ خاکہ نگاری پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ خاکہ نگاری اور تصویر نگاری (قلمی تصویر) کے مابین فرق کی وضاحت کے ساتھ ساتھ خاکے میں شخصیت کے انتخاب پر بھی زور دیا ہے۔
۱۹۸۲ء میں ڈاکٹر سیّد معین الرحمٰن کی تالیف "محمد نقوش" شایع ہوئی جس مین محمد طفیل کی زندگی کے ایک اہم پہلو، خاکہ نگاری پر بھی متعدد نامور اُدباء کے سیر حاصل مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ جن میں ہمیں فنِ خاکہ نگاری کے حوالے سے بھی قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں اس ضمن میں سب سے پہلے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کا مضمون "محمد طفیل کے خاکے اور فنِ خاکہ نگاری" سامنے آتا ہے جس میں انھوں نے محمد طفیل کے خاکوں کے متعدد مجموعوں میں سے اُن سطور اور اقتباسات کو پیش کیا ہے جس میں بلاواسطہ خاکہ نگاری کی غرض وغایّت، قواعد و شرائط، حدود و قیّود اور محرکات کے متعلق خود محمد طفیل کا نقطہ نظر واضح ہوتا ہے۔ ابوالاعجازحفیظ صدیقی نے مضمون میں انھی اقتباسات کا تجزیہ کرکے خاکہ نگاری کے حوالے سے محمد طفیل کے اندازِ فکر پر روشنی ڈالی ہے جو خاکہ نگاری کے فن سے متعلق سائینٹی فیک معلومات کا ذریعہ بنتی ہے۔
"اُردو میں خاکہ نگاری" کے عنوان سے ڈاکٹر انور سدید کا تحریر کردہ مضمون بھی ڈاکٹر سیّد معین الرحٰمن کی تالیف "محمد نقوش" کا اہم حصّہ ہے۔ جس کے آغاز میں خاکہ نگاری کے آغاز و ارتقاء اور فن پر مختصراً اظہارِ خیال کے بعد تین ابتدائی خاکہ نگار مرزا فرحت اللہ بیگ، مولوی عبدالحق اور رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری پر جامع رائے دی ہے۔ متذکرہ مضمون میں ہمیں فنِ خاکہ نگاری کے حوالے سے براہِ راست معلومات حاصل نہیں ہوتیں لیکن اس ہمہ جہت صنف کے متعلق ڈاکٹر انور سدید نے اپنی اور دیگر ادباء کی آراء کو اقتباس کیا ہے۔ مندرج اقتباسات کے ذریعے خاکے کی ماہیّت، لوازم اور خاکہ نگار کے اوصاف کی وضاحت کی گئی ہے۔
ڈاکٹر سیّد محمد عقیل کا مضمون "محمد طفیل ایک خاکہ نگار" بھی مزکورہ تالیف میں شامل ہے۔ جس میں محمد طفیل کی خاکہ نگاری کے ضمن میں ایک خاکہ نگار کو بھی اس کے اوصاف اور مقاصد سمجھائے گئے ہیں۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ ایک خاکہ نگار کو ایمان داری، سچّائی، غیر جانبداری، دلچسپی، قوتِ فیصلہ اور تاریخی بصیرت کے ساتھ خاکہ تخلیق کرنا چاہیے۔
۵۔ اب ہم متفرق موضوعات پر لکھے جانے والے مقالات میں ضمناً خاکہ نگاری اور خاکہ نگاروں پر معلومات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق احمد درک کی تصنیف "اُردو نثر میں طنز و مزاح (تقسیم کے بعد)" ان کا پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے جو ۲۰۰۴ء میں کتابی صورت میں شایع ہوا۔ جس میں ایک باب "خاکہ نگاری اور مزاح" بھی ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے خاکہ نگاری کے آغاز یعنی ۱۹۲۷ء سے لے کر ۱۹۹۷ء تک تمام اہم خاکہ نگاروں کے مجموعوں میں مزاح کے عنصر کا تاریخ وار جائزہ لیا ہے۔ قبل ازیں خاکہ نگاری کی تعریف، مقصد اور تقاضوں پر بھی مختصراً اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
۲۰۰۶ء میں فوزیہ سحر ملک کی کتاب "محمد اسحٰق بھٹی کی خاکہ نگاری (تنقیدی و تحقیقی جائزہ)" فیصل آباد سے شایع ہوئی۔ مذکورہ تصنیف مصنفہ کا ایم۔ فِل کا مقالہ ہے جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا حصّہ (ب) "اُردو خاکہ نگاری کا تعارف و ارتقاء" کے عنوان سے ہے۔ جس میں خاکے کی تعریف، اُردو خاکہ نگاری کی اصطلاھات اور اُن کا تجزیہ، مقاصد، لوازم، خاکہ نگار کے اوصاف کے ساتھ ساتھ آغازو ارتقاء کے حوالے سے بھی مفید معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
۶۔ جامعات میں لکھے جانے والے مقالات کے علاوہ اُردو خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک مختصر مگر قابلِ ذکر کتاب ڈاکٹر بشیر سیفی کی بھی ہے جو تین مرتبہ شایع ہوچکی ہے۔ اس میں خاکے کی مبادیات، آزادی سے قبل اُردو خاکہ نگاری اور پاکستان میں اُردو خاکہ نگاری کا جامعیت کے ساتھ تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
۷۔ اُردو خاکہ نگاری کا فن اور آغاز و ارتقاء کے حوالے سے ان دیباچوں اور مقدموں سے بھی اہم اور مفید معلومات ملتی ہیں جو مصنفین اور مشاہیرِ ادب نے مختلف خاکوں کے مجموعوں میں وقتاً فوقتاً تحریر کیے۔
حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے خاکہ نگار طیّب انصاری کا مجموعہ "یارانِ شہر" منظرِ عام پر آیا۔ کتاب کے آغاز میں "پیش رفت" کے عنوان سے مصنف کا دیباچہ شامل ہے جس میں خاکہ نگاری کے فنی تقاضوں کو مختصراً بیان کرنے کے بعد اُن خاکہ نگاروں اور ان کی تصنیفات کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے اس صنف کو پروان چڑھانے میں نمایاں حصّہ لیا۔ بعد ازاں اس کے روشن مستقبل کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنے خاکوں کے مجموعے "آوارگانِ عشق" کے "پیش لفظ" میں اپنے خاکوں کی موضوع سے دیباچے میں سوانحی مضامین، خاکہ نگاری اور مستقل سوانح عمری کا باہمی فرق واضح کیا ہے نیز ایک کامیاب سوانحی خاکے کی تخلیق کے لیے اہم نکات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔
۱۹۸۵ء میں حافظ لدھیانوی کے خاکوں کا مجموعہ "متاعِ گم گشتہ" منظرِ عام پر آیا۔ کتاب کی ابتدا میں سّرِ آغاز" کے عنوان سے مشفق خواجہ کا مقدّمہ شامل ہے جس میں خاکہ نگاری کے فن اور آغاز و ارتقاء پر مختصر لیکن جامعّیت کے ساتھ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
شاہد احمد دہلوی کی تصنیف "گنجینہ گوہر" پہلی بار ۱۹۶۲ء اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۶ء میں شایع ہوئی۔ ڈاکٹرجمیل جالبی نے اس کتاب کا سیر حاصل مقدّمہ تحریر کیا ہے جس میں اوّ لاً خاکہ نگاری کا پس منظر، جامع تعریف اور اجزائے ترکیبی کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعد ازاں مرزا فرحت اللہ بیگ سے "نقوش" کے شخصیات نمبر تک اہم خاکوں اور خاکہ نگاروں کا مختصر ذکر بھی مقدّمے میں شامل ہے۔
"دیدوشنید" رئیس احمد جعفری کے خاکوں کا مجموعہ ہے جو پہلی بار ۱۹۴۸ء میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۷ء میں منظرِ عام پر آیا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر کیا جس میں اُردو خاکہ نگاری کی روایت کا آغاز آزاد کی "آبِ حیات" کو قراردینے کے بعد کامیاب خاکہ نگاری کے ضمن میں مرزا فرحت اللہ بیگ مولوی عبدالحق اور رشید احمد صدیقی کے خاکوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعدازاں ان کے معاصر خاکہ نگاروں سے لے کر موجودہ دور تک کے خاکہ نگاروں کے فن پر مختصر جائزہ شامل ہے۔ آخر میں کامیاب خاکہ نگاری کے لیے چند بنیادی شرائط کا ذکر کرنے کے بعد اُن کی روشنی میں رئیس احمد جعفری کی خاکہ نگاری کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔
شفیع ہمدم کے خاکوں کا مجموعہ "دلِ دوستاں سلامت" کا دیباچہ اکبر حمیدی نے تحریر کیا جس میں مصنف کی خاکہ نگاری اور مذکورہ کتاب پر تفصیلی اظہارِ خیال سے قبل صنفِ خاکہ نگاری اور اُس کے اُسلوب پر مختصر بات کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی ایک اہم تالیف "خواجہ حسن نظامی خاکہ نگاری" ہے جس میں خواجہ حسن نظامی کی زندگی، ہمہ جہت شخصیت اور ان کی ادبی خدمات و حیثیات کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک خاکہ نگار کی حیثیت سے خواجہ صاحب کے باقاعدہ اور ارادی طور پر لکھے ہوئے خاکے تو بہت کم ملتے ہیں لیکن ادب کی دوسری اصناف میں مختلف شخصیات کے حوالے سے ان کے مشاہدات، تجربات اور احساسات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مولف نے ایسی تمام مختصر اور طویل تحریروں اور اقتباسات کو زیرِ تعارف کتاب میں کجا کردیا ہے۔ نیز کتاب میں ضمیمے کے طور پر اُردو خاکہ نگاری کے فن اور اُس کے ارتقاء پر بھی مولف کے سیر حاصل مضامین شامل ہیں۔ چناںچہ اسی بابت ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری نے "خاکہ نگاری ایک صنفِ ادب" میں سب سہے پہلے اس بات کو مدلّل انداز میں ثابت کیا ہے کہ اُردو میں خاکہ نگاری کے آغاز اور نشوونما کی تاریخ کا انگریزی ادب کے اسکیچ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر خاکے کے تین مترادفات سراپا نگاری، چہرہ نگاری قلمی چہرہ اور حلیہ نگاری کے معانی اور اطلاقات سمجھا کر ہر لفظ اور ترکیب کو صحیح موقع محل کے مطابق استعمال پر زوردیا ہے۔ مضمون کے آخری حصّے میں ڈاکٹر ابوسلمان نے خاکہ نگاری کی حدود، شرائط اور خصوصیات کو نکات کی صورت میں واضح کیا ہے۔
آمنہ صدیقی کی تصنیف "افکارِ عبدالحق" میں مولوی عبدالحق کی تخلیقات کی روشنی میں ان کی فکر کا کماحقہ جائزہ لیا گیا ہے۔ چنانچہ "چند ہم عصر" کے حوالے سے بابائے اُردو کی خاکہ نگاری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں اس ضمن میں خاکہ نگاری کے بعض فنی نکات مثلاً تعریف، غیر جانبداری اور توازن اور موضوع کے انتخاب کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اُردو خاکہ نگاری کی روایت کے متعلق مصنفہ کے خیال میں "آبِ حیات" میں ذوق کا تذکرہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس صنف کو اُردو میں صحیح طورپر متعارف کرانے کا سہرا مولوی عبدالحق کے سر ہے۔
۸۔ اُردو خاکہ نگاروں پر لکھے جانے والے تاثراتی اور تنقیدی مضامین میں بھی مذکورہ صنف کے متعلق چیدہ چیدہ اظہارِ خیال ملتا ہے۔
"مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری" کے عنوان سے "نگار" پاکستان میں ڈاکٹر خلیق انجم کا مضمون شایع ہوا۔
جس میں مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ان کی تصنیف "چند ہم عصر" کے حوالے سے لیا گیا ہے۔ قبل ازیں مضمون نگار نے خاکہ نگاری کے فنی نکات پر بحث کرتے ہوئے ایک معیاری اور اوّ ل درجے کے خاکے کی تخلیق کا مشکل قراردیا ہے۔
ماہ نامہ "قومی زبان" کراچی میں "مولوی عبدالحق اور خاکہ نگاری" کے عنوان سے مسعود سراج کا مضمون شایع ہوا۔ جس میں بابائے اُردو کو خاکہ نویسی کے جائزے سے قبل خاکہ نگاری کے فن پر بھی مختصراً اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ مذکورہ دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔ اوّ لاً خاکے کی موضوع شخصیت کا حقیقی ہونا لازم ہے اور ثانیاً آزاد کی "آبِ حیات" میں موجود شعراء کے مرقعوں کو خاکے نہیں کہا جاسکتا۔
ڈاکٹر یونس حسنی کا مضمون "خاکہ نگاری کا فن اور چند ہم عصر"، "قومی زبان" کراچی میں شایع ہوا۔ مولوی عبدالحق کی تصنیف "چند ہم عصر" کے جائزے سے قبل مضمون میں خاکہ نگاری کی تعریف، اقسام، خاکہ نگار کے اوصاف، مقاصد اور خاکہ نگار اور مورخ یا سوانح نگار کے درمیان فرق سے متعلق بھی اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
ماہ نامہ "ادب پاک انٹرنیشنل" کراچی میں پروفیسر خاطر غزنوی کا مضمون "قلمی تصویریں دوستوں کی" کے عنوان سے شایع ہوا۔ مضمون میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی خاکہ نگاری کا جائزہ ان کے مجموے "حساب دوستاں" کے حوالے سے لیا گیا ہے۔ نیز مذکورہ مضمون خاکہ نگاری اور اُس کی فنّی مبادیات کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتا ہے۔
مجموعی طور پر اُردو خاکہ نگاری پر قابلِ ذکر تحقیقی و تنقیدی مطالعات سامنے آئے ہیں جس میں اس صنف کے آغاز و ارتقاء اور فنی تقاضوں کا متعدد پہلووں سے تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے کسی موقع پر بھی جان داری کا عنصر نیں ملتا ہے۔ اس فن کی آب یاری کے لیے جو بھی تجاویز اور تجزیے پیش کیے گئے ہیں وہ مدلل ہیں اور اُس میں ادبی دیانت داری بھی جابجا ملتی ہے۔ لیکن اب تک ایسا کوئی جائزہ سامنے نہیں آیا جس میں فنِ خاکہ نگاری سے متعلق لکھے گئے تمام مضامین و مقالات کا تجزیہ کیا گیا ہو۔ اس نوعیت کا کام نہ ہونے کی وجہ سے مضامین مقالات میں مسلسل موضوعاتی تکرار پائی جاتی ہے۔ اور متعدد مواقع پر تجاویز ایک دوسرے سے متضاد لگی ہیں۔
خاکہ نگاری ایک دلچسپ صنفِ ادب ہے۔ اس پر تحقیقی و تنقیدی کاموں کے بہت امکانات پائے جاتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ اس صنف کا تعلق براہِ راست "انسان" ہے اور انسان، اللہ تعالٰی کی ایسی تخلیق ہے جس کی شخصیت و کردار کے بے شمار پہلو ہیں اور یہ انسان جس ملک اور طبقے سے تعلق رکھتا ہے اُس کی تاریک بھی اس انسان کی زندگی سے جِلا پاتی ہے۔
راقمہ نا چیز کے خیال میں اب تک جو تحقیقی و تنقیدی کام سامنے آئے ہیں وہ معیاری ہیں لیکن اُن میں نیا پن کم کم ہے اس میں نئے پہلووں کی تلاش ضروری ہوتی جا رہی ہے چنا نچہ راقمہ کا خیال ہے کہ مذکورہ تحقیقی و تنقیدی کاموں کے علاوہ اُردو خاکہ نگاری کے حوالے سے درجہ ذیل موضوعات ایسے ہیں جن پر توجہ کی جانی چاہیے۔ مثلاً:
۱۔ پاکستان میں اُردو خاکہ نگاری کا فنّی اور موضوعاتی معیار۔
۲۔ اُردو خاکہ نگاری پر سیاسی اثرات۔
۳۔ اُردو خاکہ نگاری پر مذہبی اثرات۔
۴۔ اُردو خاکہ نگاری پر پروفیشنل لابنگ۔
توقع کی جاتی ہے کہ اس سے خاکہ نگاری کے فن کی نئی راہیں سامنے آئیں گی اور خاکہ نگاری میں اسلوب نمایاں ہوں گے۔
حوالہ جات
۱۔(i) "اُردو میں قلمی خاکے" از شجاع احمد زیبا (علی گڑھ یونیورسٹی، بھارت)، مطبوعہ اکیڈمی آف ایجوکیشنل (i) کانفرنس ، کراچی، ۱۹۹۳ء ۔
(ii) "اُردو ادب میں خاکہ نگاری" از ڈاکٹر صابرہ سعید (جامعہ عثمانیہ، بھارت) مطبوعہ مکتبہ شعرو
حکمت، حیدر آباد دکن، ۱۹۷۸ء ۔
۲۔ (i) "صوبہ سرحد میں خاکہ نگاری (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)"، ازگل ناز بانو (پشاور یونیورسٹی، پاکستان)
نگران پروفیسر خاطر غزنوی، ۲۰۰۲ء۔
(ii)"اُردو میں شخصیت نگاری، تحقیقی و تنقیدی جائزہ (سرسیّد کے دور سے ۱۹۸۵ء تک)"، از بشرٰی ثمینہ
(بہاءالدین زکریا یونیورسٹیم، ملتان) نگران ڈاکٹر روبینہ ترین، ۲۰۰۰ء۔
۳۔ (i)"اُردومیں خاکہ نگاری" از نثار احمد فاروقی مشمولہ "نقوش" لاہور، مئی ۱۹۵۹ء۔
(ii)"اُردو میں خاکہ نگاری" از امجد فاروقی مشمولہ "نگار" پاکستان، ۱۹۶۶ء۔
(iii) "خاکہ نگاری کیا ہے؟ ازعبدالمغنی مشمولہ ماہ نامہ "کتاب نما" نئی دہلی، ۱۹۸۵ء۔
(iv) "اُردو خاکہ نگاری۔ ایک مطالعہ" از پروفیسر فہمیدہ شیخ، مشمولہ تحقیقی مجلّہ "تحقیق" شعبہ اُردو سندھ
یونیورسٹی، جام شورو، ۱۹۸۷ء۔
(v)"خاکہ اور خاکہ نگار" از اشتیاق طالب مشمولہ ماہ نام "قومی زبان" کراچی، دسمبر ۱۹۹۴ء۔
(vi) "ادب میں خاکہ نگاری کا مسلہ" از ممتاز رفیق مشمولہ روز نامہ "نوائے وقت" کراچی،
۱۵جنوری ۲۰۰۳ء۔
۴(i)"خاکہ نگاری میں غیر ادبی روش" از محمد عالم خان مضمون مشمولہ "چند نئے ادبی مسائل"، لاہور، ۔
پاکستان بکس اینڈ لٹریری ساونڈز، ۱۹۹۱ء۔
"خاکہ نگاری" از پروفیسر غفور شاہ قاسم مضمون مشمولہ "پاکستانی ادب، شناخت کی نصف صدی"، (ii)
راول پنڈی، ریز پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء۔
"قلمی مرقعے" ازاسلوب احمد انصری مضمون مشمولہ "اطرافِ رشید احمد صدیقی"، کراچی، انجمن (iii)
ترقی اُردو پاکستان، ۱۹۹۸ء۔
"خاکہ نگاری کا انڈیا گیٹ" از ڈاکٹرمحمد اجمل نیازی مضمون مشمولہ "تشخّص" لاہور، عباس نجمی، (iv)
زاہد مسعود، ۱۹۸۹ء۔
"قدِ آدم خاکہ نگاری کی ایک اچھی کتاب" ، از پروفیسر نظیر صدیقی، مضمون مشمولہ "اکبر حمیدی کا (v)
فن" از رفیق سندیلوی، اسلام آباد، بٹر پبلشرز، ۲۰۰۳ء۔
"محمد طفیل کے خاکے اور فنِ خاکہ نگاری" از ابوالاعجاز حفیظ صدیقی مضمون مشمولہ "محمد نقوش" (vi)
از ڈاکٹر سیّد معین الرّاحمٰن، ملتان، کاروانِ ادب، ۱۹۸۳ء۔
"اُردو میں خاکہ نگاری" از ڈاکتڑ انور سدید مضمون مشمولہ "محمد نقوش" از ڈاکٹر سیّد معین الرحمٰن (vii)
ملتان، کاروانِ ادب، ۱۹۸۳ء۔
"محمد طفیل ایک خاکہ نگار" از ڈاکٹر سیّد محمد عقیل مضمون مشمولہ "محمد نقوش" از ڈاکٹر (viii)
سیّد معین الرحمٰن، ملتان، کاروانِ ادب، ۱۹۸۳ء۔
"خاکہ نگاری اور مزاح" از ڈاکٹر اشفاق احمد درک مشمولہ "اُردو نثر میں طنز و مزاح (تقسیم کے بعد)" (i) ۵۔
(مقالہ برائے پی، ایچ، ڈی)، لاہور، بیت الحکمت، ۲۰۰۴ء۔
"اُردو خاکہ نگاری کا تعارف و ارتقاء" از فوزیہ سحر ملک باب مشمولہ "محمد اسحٰق بھٹی کی خاکہ (ii)
نگاری (تنقیدی و تحقیقی جائزہ)" (مقالہ برائے ایم، فِل)، فیصل آباد، قرطاس، ۲۰۰۶ء۔
۶۔ "خاکہ نگاری (فن و تنقید)" از ڈاکٹر بشیر سیفی، لاہور، نذیر سنز پبلشرز، ۱۹۸۳ء۔
"یارانِ شہر" از طیّب انصاری، حیدر آباد دکن، ادارہ بیاتِ اُردو، ایوانِ اُردو، ۱۹۷۷ء۔ (i) ۷۔
"آوارگانِ عشق" از ڈاکٹر عبادت بریلوی، لاہور، ندارد، ۱۹۷۹ء۔ (ii)
"محفل"از حسن الدین احمد، حیدر آباد دکن، وِلا اکیڈمی، ۱۹۸۲ء۔ (iii)
"سرِ آغاز" از مشفق خواجہ مشمولہ "متاعِ گم گشتہ" از حافظ لدھیانوی، فیصل آباد، بیت الادت، ۱۹۸۵ء۔ (iv)
"مقدّمہ" از ڈاکٹر جمیل جالبی مشمولہ "گنجینہ گوہر" از شاہد احمد دہلوی، کراچی، مکتبہ اسلوب ۱۹۸۶ء۔ (v)
"دیباچہ" از ڈاکٹر تحسین فراقی مشمولہ "دید و شنید" از رئیس احمد جعفری، کراچی، رئیس احمد جعفری (vi)
اکیڈمی، ۱۹۸۷ء۔
"دیباچہ" از اکبر حمیدی مشمولہ "دلِ دوستان سلامت"، از شفیع ہمدم، بقیہ کوائف ندارد۔ (vii)
"خاکہ نگاری ایک صنفِ ادب" از ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری مشمولہ "خواجہ حسن نظامی خاکے (viii)
اور خاکہ نگاری"، اسلام آباد، پورب اکادمی، ۲۰۰۷ء۔
"افکارِ عبدالحق" از آمنہ صدیقی، کراچی، اُردو اکیڈمی، سندھ، ۱۹۶۲ء۔ (ix)
"مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری" از ڈاکٹر خلیق انجم مشمولہ "نگار" پاکستان، جولائی، اگست ۱۹۷۱ء (i) ۸۔
"مولوی عبدالحق اور خاکہ نگاری" از مسعود سراج مشمولہ ماہ نامہ "قومی زبان" کراچی، ستمبر ۱۹۷۵ء۔ (ii) "خاکہ نگاری کا فن اور چند ہم عصر" از ڈاکٹر یونس حسنی مشمولہ ماہ نام "قومی زبان" کراچی، (iii)
اگست ۱۹۷۶ء۔
"قلمی تصویریں دوستون کی" از پروفیسر خاطر غزنوی مشمولہ "ادب پاک انٹرنیشنل" کراچی، (iv)
مئی ۱۹۹۷ء۔
کتابیات
۱۔ آمنہ صدیقی: "افکارِ عبدالحق"، کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۶۲ء۔
۲۔ ابوسلمان شاہ جہاں پوری، ڈاکٹر: "خواجہ حسن نظامی، خاکے اور خاکہ نگاری"، اسلام آباد، پورب اکادمی،
۲۰۰۷ء۔
۳۔ اسلوب احمد انصاری: "اطرافِ رشید احمد صدیقی"، کراچی، انجمن ترقی اُردو، پاکستان، ۱۹۹۸ء۔
۴۔ بشیر سیفی، ڈاکٹر؛ "خاکہ نگاری (فن و تنقید)"، لاہور، نذیر سنز پبلشرز، ۱۹۸۳ء۔
۵۔ حافظ لدھیانوی:"متاعِ گم گشتہ" فیصل آباد، بیت الادب، ۱۹۸۵ء۔
۶۔ حسن الدین احمد: "محفل"، حیدر آباد دکن، وِلا اکیڈمی، ۱۹۸۲ء۔
۷۔ درک، اشفاق احمد، ڈاکٹر: "اُردو نثر میں طنز و مزاح ّتقسیم کے بعد)"، لاہور، بیت الحکمت، ۲۰۰۴ء۔
۸۔ رفیق سندیلوی: "اکبر حمیدی کا فن"، اسلام آباد، بٹر پبلشرز، ۲۰۰۳ء۔
۹۔ رئیس احمد جعفری: "دید وشنید"، کراچی، رئیس احمد جعفری اکیڈمی، ۱۹۸۷ء۔
۱۰۔ زیبا، شجاع احمد :"اُردو میں قلمی خاکے"، کراچی، اکیڈمی آف ایجوکیشنل کانفرنس، ۱۹۹۳ء۔
۱۱۔ شاہد احمد دہلوی: "گنجینہ گوہر"، کراچی، مکتبہ اسلوب، ۱۹۸۶ء۔
۱۲۔ صابرہ سعید، ڈاکٹر: "اُردو ادب میں خاکہ نگاری"، حیدر آباد دکن، مکتبہ شعروحکمت، ۱۹۸۷ء۔
۱۳۔ طیّب انصاری: "یارانِ شہر"، حیدر آباد دکن، ادارہ ادبیات اُردو ایوان، اُردو، ۱۹۷۷ء۔
۱۴۔ عبادت بریلوی، ڈاکٹر:"آوارگانِ عشق "، لاہور، ناشرندارد، ۱۹۷۹ء۔
۱۵۔ غفور شاہ قاسم:"پاکستانی ادب۔ شناخت کی نصف صدی"، راول پنڈی، ریز پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء۔
۱۶۔ فوزیہ سحر ملک: "محمد اسحٰق بھٹی کی خاکہ نگاری (تنقیدی و تحقیقی جائزہ)"، فیصل آباد، قرطاس،
۲۰۰۶ء۔
۱۷۔ محمد اجمل نیازی:"تشخّص"، لاہور، عباس نجمی، زاہد مسعود، ۱۹۸۹ء۔
۱۸۔ محمد عالم خان:"چند نئے ادبی مسائل"، لاہور، پاکستان بکس اینڈ لٹریری ساونڈز، ۱۹۹۱ء۔
۱۹۔ معین الرحمٰن، سیّد، ڈاکٹر: "محمد نقوش"، ملتان، کاروانِ ادب، ۱۹۸۳ء۔
۲۰۔ ہمدم شفیع: "دلِ دوستاں ملامت"، بقیہ کوائف ندارد۔
غیر مطبوعہ مقالات
۱۔ بشرٰی ثمینہ: "اُردو میں شخصیت نگاری۔ تحقیقی و تنقیدی جائزہ (سرسیّد کے دور سے ۱۹۸۵ء تک)"، مقالہ
برائے پی۔ ایچ، ڈی اُردو، شعبہ اُردو، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ، ملتان ۲۰۰۰ء۔
۲۔ گل ناز بانو: "صوبہ سرحد میں خاکہ نگاری (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)"، مقالہ برائے ایم، فِل اُردو، جامعہ
پشاور، ۲۰۰۲ء۔
رسائل و جرائد
۱۔ ماہ نامہ "ادب پاک انٹرنیشنل" کراچی، مئی ۱۹۹۷ء۔
۲۔ تحقیقی مجّلہ "تحقیق"، شعبہ اُردو، سندھ یونیورسٹی، جام شورو، ۱۹۸۷ء۔
۳۔ ماہ نامہ "قومی زبان" کراچی، شمارہ: ستمبر ۱۹۷۵ء، اگست ۱۹۷۶ء، دسمبر ۱۹۹۴ء۔
۴۔ ماہ نامہ "کتاب نما" نئی دہلی، ۱۹۸۵ء۔
۵۔ "نقوش" لاہور، مئی ۱۹۵۹ء۔
۶۔ "نگار"، پاکستان، شمارہ: ۱۹۶۶ء، جولائی، اگست ۱۹۷۱ء۔
۷۔ روزنامہ "نوائے وقت" کراچ، ۱۵ جنوری ۲۰۰۳ء۔