لطیف الزماں خاں کی خاکہ نگاری "ان سے ملئیے" کے آئینےمیں

محمد عباس

Abstract

“Khaka Nigari” is quite a popular genre in Urdu literature and many books have been published. “En Say Meiley” by Latif uz Zaman Khan is pretty interesting having “Khakas” (Pen Portraits) and opinions about different poets and writers. His writing is replete with criticism, history, culture and psycho-analysis. Sometimes, the writer digresses and indulges in unnecessary details. But due to the beauty of expression and aesthetic appeal, they mostly don’t count. He tries to inculcate his likes and dislikes into the mind of his readers. Out of the sixteen “Khakas” only five or six are of the standard of Khaka Nigari and the rest are mere introductory and impressionistic.

خاکہ نگاری کے سلسلے میں لطیف الزماں خاں کا مجموعہ "ان سے ملیئے" کے زیر عنوان مئی ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں مختلف ادبا وشعرا سے متعلق سولہ تحریریں شامل ہیں۔ یہ تحریریں مختلف کتب و رسائل میں وقتاً فوقتاً چھپتی رہی تھیں جنہیں سید عامر سہیل نے تلاش کرکے ترتیب و انتخاب کا بیڑا اُٹھایا۔ ان شخصیات میں سے زیادہ تر کے ساتھ مصنف کے دوستانہ مراسم رہے جبکہ بعض کے ساتھ محبت اور احترام کے رشتے ہی قائم رہے۔ الفاظ کے دروبست، منفرد اسلوب، اور طرز اظہار کی شائستگی نے انہیں جہاں تابندگی عطا کی وہاں مشاہدے کی تیزی نے جزئیات کا روپ دھار کر منظر نگاری اور حلیہ نگاری کو بھی حسن عطا کیا۔ اس کے علاوہ ان تحریوں میں تنقید، تاریخ، تہذیب، فلسفہ اور نفسیات کے داو پیچ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی لطف الزماں خاں نے زیرِ بحث شخصیات کی عظمت کے سائے تلے کھڑے ہوکر انہیں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی صورت میں تاثراتی اور تنقیدی و تعارفی مضامین کی تخلیق تو ہوسکتی ہے لیکن خاکہ نگاری کی دودھاری تلوار پر چل کر خیروشر کے بشری پہلووں پر مشتمل شخصیت کے اصل چہرے تک رسائی کا سفر نہیں کیا جاسکتا۔

"میں" کے بے تحاشا اظہار کے علاوہ ان تحریروں کی ایک اور خامی جگہ جگہ موضوع خاکہ سے دوسرے افراد کی مماثلت کا رجحان ہے۔ جس نے عجیب فضا پیدا کردی ہے۔ اسی دوران میں اگر کہیں کسی ناپسندیدہ شخص کا ذکر یا ذکر کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا ہے تو مصنف نے دل کی بھڑاس نکالنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔ اور پھر بڑی ہوشیاری سے تجابلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے انجان بن کر اپنے سفر پر چل پڑے ہیں۔
بعض اوقات ان تحریروں پر ادب اور ادیبوں سے متعلق بے حساب معلومات اور آراء کا گمان گزرتا ہے جنہیں ایک ہی مضمون میں کھپانے کی کوشش کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر تحریر میں بے شمار شخصیات سے واسطہ پڑتا ہے جن میں اصل شخصیت کا چہرہ دُھندلاسا جاتا ہے۔ بعض تحریروں میں شخصیت کو پس منظر میں دھکیل کر اس کے کارناموں اور تحریروں کو نہ صرف سامنے لایا گیا ہے۔ بلکہ ان تحریروں سے متعلق دوسروں کے تبصرے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مختلف مقامات پر نفسیاتی انداز سے شخصیت کی پسند نا پسند کی آڑ میں بھی اسے تلاش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
اس کتاب کے مقدمے میں سید عامر سہیل نے تمام تحریروں کو مکمل اور پھر پور خاکے قرار دیا ہے۔ جبکہ صورتحال مختلف ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایک غلط قسم کی روایت نے جنم لیا ہے کہ جس شخص کی کتاب کے بارے میں بھی مقدمہ یا دیباچہ وغیرہ لکھنے کا موقع مل جائے اس کی مدح اور کتاب کی تعریف فرضِ عین سمجھنے لگے ہیں۔ سید عامر سہیل لکھتے ہیں:۔
"ان کے ہاں خاکہ سوانحی نوٹ بنا ہے نہ ہی سیرت نگاری کا نمونہ بلکہ انہوں نے خاکہ نگارے کے روایتی لوازمات اور تکنیک سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے اُس میں خاطر خواہ اضافے کیے ہیں"۔ ۱
دراصل لطیف الزماں خاں نے خاکہ نگاری کے کڑے معیار سے روگردانی ہی کی ہے جسے عامر سہیل نے "جزوی اختلاف" اور "خاطر خواہ اضافے" قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس کتاب کی نصف سے زیادہ تحریروں میں تنقیدی اور تاثراتی رنگ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح سید عامر سہیل صاحب نے یہ رائے بھی دی ہے کہ:
"لطیف الزماں خاں کے خاکے پڑھنے والے کو کبھی ہنساتے ہیں، کبھی رُلاتے ہیں اور کبھی پیچ و تاب میں مبتلا کر دیتے ہیں"۔ ۲
ان کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مذکورہ خصوصیات ان کے ہاں صرف چار پانچ تحریروں میں پائی جاتی ہیں۔ جبکہ باقی تمام تحریروں تاثرات، تنقید، معلومات اور تعارف کا مجموعہ ہیں۔ البتہ پیچ و تاب والی بات چند تحریوں میں خاکہ نگار کے ذاتی نقطہ نظر اور تلخ پیرائے کے بھینٹ چڑھنے والی بعض مشہور شخصیات کے حوالے سے درست ہوسکتی ہے۔ مقدمہ نگار نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ:
"لطیف صاحب کے یہاں ایک آدھ خاکے کو چھوڑ کر باقی خاکوں میں خاکہ اور تنقیدی مضمون ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوئے"۔ ۳
ان کی یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ ماسوائے چار پانچ تحریروں کے یہ خامی ہر تحریر میں پائی جاتی ہے۔ اسے ڈاکٹر احسن فاروقی، راجندر سنگھ بیدی، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، شید احسن زیدی اور مجنون گورکھپوری کی تحریروں میں تو بڑی واضح صورت میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام حقیقتوں کے اِدراک اور آخری نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

            "قاموس الادب" اس کتاب کا پہلا مضمون ہے جو مجنوں گورکھپوری کے بارے میں ہے۔ چار صفحے کے اس مضمون میں بمشکل ڈیڑھ صفحہ ان کی شخصیت کے بعض گوشوں کو اُجاگر کرتا ہے۔ بقیہ مضمون ان کی تحریروں کے محاسن اور ان سے جذباتی وابستگی کی بنا پر تاثراتی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اگرچہ تحریر کی ابتدا اور مجنوں گور کھپوری کے حلیے کی پیش کش خالص خاکہ نگاری کے اُصولوں پر مصنف کے عبور و ادراک کا پتا دیتی ہے لیکن مضمون کے آخر تک وہ اپنے اس انداز کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔

            ڈاکٹر احسن فاروقی کے بارے میں سات صفحے کے مضمون میں بھی ابتدائی چار صفحات میں ناول پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ البتہ آخری تین صفحات میں احسن فاروقی کی شخصیت کا عکس ضرور ملتا ہے۔ اس مضمون میں ساحر لدھیانوی اور کلیم الدین احمد کا تذکرہ بھی مصنف کے بغض کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
ناول سے متعلق اظہارِ خیال کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
"ناول میں قصہ کی دلکشی اور تاثر کو پیش نظر رکھنا ضروری سہی، لیکن دورِ جدید میں زندگی انفرادی ہیں نہیں، اجتماعی زندگی جس طرح پیچ درپیچ واقع ہوئی ہے، اس کا مطالعہ ناول کے کینوس پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وہ بنیادی عناصر جو فطرتِ انسانی پر محیط ہیں، ناول میں آسانی سے بیان کیے جاسکتے ہیں۔
فسانہ آزاد، گیودان، لیڈی چیٹر لیزلور، یولی سز کسی کا مطالعہ کر لیجئے، پیش کش، نقطہ نظر اور اظہارِ واقعہ میں ہم رنگ ملیں گے"۔ ۴
ناول سے متعلق یہ رائے کسی خاکے میں شامل کرنا ایک نا کام تجربہ تو ہوسکتا ہے۔ لیکن خاکے کی تخلیق کا نہ ذریعہ بن سکتا ہے اور نہ اس سے میل کھاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس مضمون کے ابتدائی چار صفحات الگ کرکے آخری تین صفحات کو ہی رہنے دیا جاتا تو شاید یہ ایک متوازن خاکہ بن جاتا بصورتِ دیگر تنقیدی مضمون کا پلڑا بھاری ہے۔
راجندر سنگھ بیدی سے متعلق "غم و افسانہ" بھی تاثراتی اور تنقیدی مضمون ہے جس میں ان کے ادبی مقام، افسانوں اور ان کے کرداروں تک کا بیان بڑی ہی اندوہ ناک انداز میں کیا گیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کی درد بھری زندگی کے کئی رنگ روپ اس میں نظر آتے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی، انسان دوستی اور ہمدردی تک کا احاطہ اس میں کیا گیا ہے لیکن تفصیلات نے اسے خاکہ کی بجائے سوانحی مضمون سے زیادہ قریب کردیا ہے۔

            سجاد باقر رضوی پر مضمون بھی حسبِ سابق تاثراتی تحریر ہے جس میں باقر صاحب کی شخصیت کے سحر سے مصنف آزاد نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کی شاعری اور محبوبہ کے تصور اور خدوخال تک پرسیر حاصل گفتگو بھی کی گئی ہے۔ خاکہ نگاری کے حوالے سے بعض عناصر اس میں ملتے ہیں لیکن یہ گنے چنے آٹھ صفحے کے تاثراتی اور تنقیدی مضمون کو خاکہ بنانے کے لیے کافی نہیں۔
عزیز احمد کا "زبان دراز" بھی ادیبوں اور ناولوں کا بازار ہے۔ جس میں مشرق اور مغرب دونوں کے ادبا اور ان کے ناولوں پر تبصرہ اور تنقیدی آراہ ملتی ہیں۔
محمد طفیل نقوش سے متعلق مضمون "بُوئے گل" بظاہر جذباتی وابستگی کے نتیجے میں لکھا گیا تاثراتی مضمون نظر آتا ہے لیکن لطیف الزماں کی موضوع شخصیت سے واقفیت اور تعلق نے اسے بلاشبہ ایک عمدہ خاکہ بنادیا ہے۔ خاکہ کے بنیادی لوازم حقیقت نگاری، حلیہ نگاری، بشری خصائل وغیرہ کی دلچسپ عکاسی، سخاوت، شعرا و ادبا کے ساتھ بے ریا مالی امداد، غریب غربا کی اعانت، ہومیو پیتھی کے شوق میں کامیاب طرزِ علاج اور گھر کے اندر باہر سب حالات میں ان کی عادات و اطوار کا خوبصورت پیرائے میں اظہار وہ اجزا ہیں جن سے کوئی بھی عمدہ خاکہ تشکیل پاتا ہے۔ طفیل صاحب کے کرکٹ کے شوق کے بارے میں لکھتے ہیں:
"انہماک کی ایک صورت وہ ہوتی جب ٹی وی پر کرکٹ ٹیسٹ میچ دکھایا جا رہا ہو یا ریڈیو پر کمنٹری نشر ہو رہی ہو۔ جب پاکستانی ٹیم کھیل رہی ہو تو ان کا چہرہ گلنار ہو جاتا ہے۔ انہیں کرکٹ کی ہر اصطلاح کا علم ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ایک روزہ میچ ہو تو پھر ان کی بھنویں اور زیادہ گھنی ہو جاتی ہیں۔ یہ تن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں اور خون کا دوران بڑھ جاتا ہے"۔ ۵
ہر انسان باہر سے دوسروں کو جیسا نظر آتا ہے اپنے اندر بعض ایسے گوشے اور عادات ضرور رکھتا ہے جن سے صرف چند قریبی افراد ہی واقف ہوتے ہیں۔ اور انہی عادات و اطوار کے مجموعے سے شخصیت جنم لیتی ہے۔ طفیل خود جس انداز سے دبے پاوں شخصیت کے باطن میں اترنے کا رستہ بتاتے رہے لطیف الزماں اسی رستے چل کر واقع ان کے باطن میں اترنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ طفیل صاحب کی گھبراہٹوں کا حال ملاحظہ ہو:
"دو مواقع پر بہت گھبراتے ہیں موصوف کو پسینہ آجاتا ہے، حلق خشک اور اکثر آواز رُندھ جاتی ہے۔ ایک موقع تو وہ ہے جب کوئی خاتون ملنے آجائیں اور دوسرا موقع وہ جب کہیں برسرِ محفل تقریر کرنی پڑے یا تحریر سنانی پڑے"۔ ۶
اگرچہ بعض جگہوں پر دوسرے افراد کا ذکر اور "نقوش" پر تبصرہ بھی غیر ضروری اور بے محل معلوم ہوتا ہے جبکہ موضوع شخصیت سے لوگوں کی مخالفتوں کا مدلل جواب بھی مضمون کی یک رُخی کا باعث بنتا محسوس ہوتا ہے لیکن تحریر کی سادگی اور روانی کے علاوہ جابجا لطافت کے احساس نے ایک اضافی خوبی کا کردار ادا کرکے ان خامیوں کو دبا دیا ہے۔

ایک مثال:
"ایک شب کہنے لگے یار، آج جلدی سوجاو، صبح چہل قدمی کو چلیں گے، صبح ہوئی، اردو بازار سے نکلے اور سڑک پر آخر رکشہ میں بیٹھے اور مینارِ پاکستان پہنچ گئے۔ ایک ناٹے قد کا پہلوان دوڑ لگا رہا تھا اور ایک خاتون، خیمہ نما برقع پہنے تیز رفتاری سے سبزہ پر سیر میں مصروف تھیں۔ طفیل صاحب نے سلیپر اتارے اور پھر کُرتا۔ سوکھے ہوئے ہاتھ دو تین بار ہوا میں لہرائے۔ میں، بنیان کے نیچے سے جھانکتی ہوئی پسلیوں کو گن بھی نہیں پایا تھا کہ ان کی ورزش ختم ہوگئی، بھاٹی دروازے سے ہوتے ہوئے کچھ کھانے کی چیزیں خرید کر گھر آگئے"۔ ۷
اسے یقیناً اس کتاب کا عمدہ اور خوبصورت خاکہ کہا جاسکتا ہے۔
جابر علی سید سے متعلق "قرارِ بے قراراں" تعارفی اور تاثراتی مضمون ہے۔ جو ان کے اساتذہ اور دیگر شعرا و ادبا کہ جب سے جابر صاحب نے اثر لیا، کی تفصیلات اور ان کی تحریروں کے تجزیوں پر مشتمل ہے۔ حتٰی کہ جابر صاحب کے دوستوں اور شاگردوں کا مفصل حال بھی درج کیا گیا ہے۔ دس صفحے کے اس مضمون میں صرف آخری تین پیراگراف میں موجود حلیہ نگاری اور جابر صاحب کی بعض عادات و اطوار کی ایک ہلکی سی جھلک کو خاکے کا درجہ دینا نا انصافی ہوگی کیونکہ ایسی خصوصیات تو شخصیات سے متعلق ہر قسم کی تحریروں میں پائی جاتی ہیں۔

            "محرم راز" ڈاکٹر نصیر احمد ناصر کے بارے میں تعارفی اور تاثراتی مضمون ہے جو ان کے کارناموں اور معمولات و محسن پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے حوالے سے "سخن ور" بھی تاثراتی مضمون ہے جس میں سلیم اختر صاحب کی وکالت میں کئی دوسروں کو رگڑا بھی دیا ہے جبکہ ان کے ادبی کام کی عظمت کے سلسلے میں ان کے نامور شاگردوں اور پھر ان کے ادبی کارناموں کا مفصل حال بھی لکھا گیا ہے۔ معاشرے میں ادیبوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے بُرے سلوک پر طنز بھی کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں اس تحریر نے تاثرات اور مدلل مداحی کی شکل تو اختیار کرلی ہے۔ لیکن موضوع شخصیت کے صحیح ادراک کے نتیجے میں ابھرنے والے خاکے سے یہ کوسوں دور رہے۔
ڈاکٹر طاہر تو نسوی کے بارے میں مضمون "دوسری کرن" میں موضوع کا صرف حلیہ اور ان کے اساتذہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ البتہ ایک انوکھا تجربہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ شخصیت کو اس کی عادات و اطوار کی بجائے اس کی ادبی پسند و نا پسند کے معیار سے پرکھنے اور پہچاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں:
"کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انسان اُن ادبا و شعرا کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے جن کی تحریریں وہ پڑھتا ہے"۔ ۸
اسی لیے مصنف نے موضوع شخصیت کی شاعری، افسانہ، نظم، خاکہ نگاری اور تنقید میں پسند و ناپسند کا ذکر کرکے اسے ایک نئے انداز سے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ موضوع شخصیت کے استاد ڈاکٹر سلیم اختر کی بعض خصوصیات کے ساتھ ان کی خصوصیات کا موازنہ بھی خاکہ کے لحاظ سے غیر ضروری دکھائی دیتا ہے۔ خالص خاکہ نگاری کے لحاظ سے دیکھ لیا جائے تو مصنف نے اس تعارفی تحریر میں خود اپنی معذوری کا اعلان کیا ہے کہ:
"میں نے کوشش کی ہے کہ اس کی تصویر بناوں۔ یہ اندھیروں اور اُجالے کا سنگم جہاں سے دوسری کرن پھوٹتی ہے، نظر تو آتا ہے قلم کی گرفت میں نہیں آتا"۔ ۹
"سخن طراز" شید احسن زیدی سے متعلق تحریر ہے جس میں موضوع شخصیت کی زبانی ان کے بعض خصائل کو پیش کیا گیا ہے۔ یہاں بھی صاحبِ خاکہ کی ادب کے معاملے میں پسند نا پسند کا فارمولا کارفرما نظر آتا ہے۔ لیکن شمیم ترمذی اور علی عباس عابدی کے بے محل اور غیر ضروری تذکرے سمیت مرثیے پر سیر حاصل گفتگو اور صاحبِ خاکہ کی شاعری پر تنقید نے اسے عمومی مضمون بنادیا ہے۔ اسے بھی محض گنی چنی خصوصیات کی بنا پر خاکہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔  علی عباس عابدی کے بارے میں تحریر "درویش" بھی سوانحی اور تعارفی مضمون ہے جو ان کی افسانہ نگاری کی خوبیوں اور محاسن سے متعلق ہے۔
آذر ملتانی کے متعلق تحریر "قلم کار" خاکہ کہلاسکتی  ہے لیکن یہاں بھی مصنف کی نظر محاسن ہی پر رہی ہے۔ تحریر کا آغاز اور حلیہ نگاری کا ڈرامائی انداز بلاشبہ اپنی گرفت میں لینے والا ہے۔ "سرکش، فراخ درانی" بھی اس کتاب کا خوبصورت اور دلکش خاکہ ہے جس سے موضوع شخصیت کے سامنے آنے کے علاوہ لطیف الزماں خاں کی فنِ خاکہ نگاری سے واقفیت اور اسے برتنے کی خوبی کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہ خاکہ اپنی بُنت، حقیقت نگاری، بے ساختگی، حلیہ نگاری، اختصار و جامعیت، وحدتِ تاثر اور سب سے بڑھ کر مزاح کی آمیزش سے ایک جاندار اور توانا خاکہ بن گیا ہے۔ فرخ درانی کے لباس و عادات کے بارے میں خاکہ نگار نے اپنی مہارت اور لفظوں کے دروبست کا وہ ثبوت دیا ہے کہ زبان ہر ہر جملے پر چٹخارے لیتی ہے، مثال:
"پہلے سوٹ پہنتے تھے اب قومی لباس قمیص اور شلوار پہنتے ہیں۔ بازار میں جتنے رنگ کے کپڑے ملتے ہیں اتنے ہی رنگوں میں شلواریں اور قمیص بنوالی ہیں۔ اور ارادہ یہ ہے کہ جب تک کوئی نیا رنگ ایجاد نہیں ہو جاتا یہ نیا لباس نہیں بنائیں گے۔ ہر وقت ہاتھ میں سرخ رنگ کی پنسل ہوتی ہے۔ ایک رومال ایسے رنگ کا جس میں تمام رنگ سماگئے ہیں، ہر وقت ساتھ رہتا ہے۔ اس سے منہ کے علاوہ کبھی کبھی جوتا بھی صاف کر لیتے ہیں۔ سرخ رنگ کے سکوٹر پر ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ موڑ ہو یا سیدھی سڑک، رفتار ایک ہی رہتی ہے"۔ ۱۰
خاکہ نگار نے اس خاکے میں موضوع شخصیت کے تقریباً تمام اہم پہلووں کی عمدگی سے اُجاگر کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد امین سے متعلق خاکہ "میاں آدمی" بھی اچھی کوشش ے لیکن ایک آدھ جگہ غیر ضروری شخصیات و تفصیلات بھی کھٹکتی ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال سے متعلق تحریر "مشکِ اذفر" اس کتاب کی آخری تحریر ہے جو خاکے کی صفات سے متصف ہے۔ اگرچہ اس میں بھی تاثراتی پہلو زیادہ روشن ہے لیکن شخصیت کی پیشکش میں خاکہ نگار پھر بھی کامیاب رہے ہیں۔
بحیثیت مجموعی دیکھ لیا جائے تو اس کتاب میں سرکش (فرخ درانی)، بوئے گل (محمد طفیل محمد نقوش)، قلم کار (آذر ملتانی)، میاں آدمی (ڈاکٹر محمد امین) اور مشکِ اذفر (ڈاکٹر نجیب جمال) خوبصورت اور دلکش خاکے ٹھہرتے ہیں جبکہ باقی تنقیدی اور تاثراتی مضامین ہیں جنہیں معلومات میں اضافہ اور ادبی لحاظ سے گراں قدر تو کہا جاسکتا ہے لیکن خاکہ نگاری کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔

            اِسی کتاب کو اِسی نام سے ڈاکٹر علی اطہر شوکت نے ترتیب و تدوین کے بعد ۲۰۰۴ء میں دوبارہ شائع کیا۔ اب کی دفعہ اس میں ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، آذر ملتانی، علی عباس عابدی، فرخ درانی۔ ڈاکٹر محمد امین اور ڈاکٹر نجیب جمال کی تحریریں نکال کر ان کی جگہ قرۃ العین حیدر، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، ڈاکٹر عارف ثاقب اور انوار انجم سے متعلق مضامین شامل کیے گئے۔ بہ الفاظِ دیگر چار خوبصورت خاکوں اور دو تعارفی و تاثراتی مضامین کو نکال کر ان کی جگہ ایک خاکے اور چار تاثراتی و تنقیدی مضامین کو رکھ دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی سے کتاب بحیثیت خاکہ نگاری کے مزید کمزور ہو کر صرف دو خاکوں تک محدود ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر علی اطہر نے بھی انہیں خاکے ہی قرار دیا ہے جبکہ صورتحال وہی ہے جو پہلے انتخاب کی تھی بلکہ اس سے بھی کم تر۔ ان نئی تحریروں میں پہلی تحریر "ماہ و سالِ عندلیب" ہے، جو قرۃ العین حیدر سے چند ملاقاتوں اور بعض تقاریب کی روداد ہے۔ جس کا زیادہ تر حصہ "آگ کا دریا"، اس کے کرداروں کے تنقیدی جائزے، غالب اور اس کی شاعری پر بحث کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اُردو، فارسی اور انگریزی شاعری کے طویل اقتباسات بھی اس میں شامل ہیں۔ نہ معلوم ڈاکٹر علی اطہر نے اسے کس خوبی کی بنا پر خاکوں کی فہرست میں رکھ دیا ہے۔
علی سردار جعفری کے بارے میں "گلِ سُرخ" بھی تاثراتی مضمون ہے جس میں ان کے علی گڑھ سے نکالے جانے، حق پر ڈٹے رہنے شاعری میں ہیت کے تجربات کرنے، بے لاگ تقاریر اور عظمتوں کا بیان ہے۔ صرف حلیہ نگاری کی بنا پر اسے خاکہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ڈاکٹر عارف ثاقب سے متعلق "زرد گلاب" حقیقت نگاری، حلیے کی پیشکش، ظاہر کے ساتھ ساتھ صاحبِ خاکہ کی زندگی کے بعض پوشیدہ گوشوں کے اظہار، روانی اور زیرِ لب مسکراہٹ پیدا کرنے والے ہلکے پھلکے جملوں کی بنا پر خاکہ ضرور بن گیا ہے لیکن صادقین کی مصوری پر ڈیڑھ صفحے کی مفصل و مدلل گفتگو، غالب کے زین العابدین کے لیے لکھے گئے اشعار کے اندراج اور مختلف ممالک کے مختلف عالمی شہرت یافتہ فنکاروں کے تذکروں نے اسے کمزور بھی کردیا ہے۔
البتہ ڈاکٹر علی اطہر کے منتخب کردہ دوسرے مضامین کے مقابلے میں یہ زیادہ دلکش ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"بہت چھوٹا سا غسل خانہ جو نہانے کے کم اور گانا گنگنانے کے زیادہ کام آتا ہے۔ سب سے زیادہ اہم اس چھوٹے سے مکان (اسے مکان کہنا لفظ مکان پر تہمت ہے) میں اس کی سیڑھیاں تھیں۔ کیسے کیسے قدم، کس کس کے قدم، کسی کیسی سرگوشیاں، کیسے کیسے لباس، کیسی کیسی خوشبو، کیسی کیسی سر سراہٹیں، یہ سیڑھیاں نہیں رازداں تھیں۔ ہر بات کو جانتی اور خاموش رہتی تھیں۔ آنے والوں کی کج ادائی اور جانے والوں کی بے وفائی سے واقف، ان سیڑھیوں نے مسکراہٹیں دیکھی ہیں۔ سسکیاں سنی ہیں۔ دل کی دھڑکنوں کو تیز ہوتے دیکھا ہے اور کبھی کبھی دو انسانوں کو دنیا و مافیھا سے بے خبر اور دور روحوں کو ایک دوسرے میں مدغم ہوتے دیکھا ہے۔" ۱۱
"آوازِ خاموشی" انوار انجم کی موت کے بعد اس کی یاد میں لکھا گیا مضمون ہے جس میں موضوع شخصیت اور فیاض تحسین کی گہری دوستی کے علاوہ انوار انجم کی شاعری کے پس منظر پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس مضمون کے ڈانڈے بھی تعارفی اور تاثراتی مضمون سے ملتے ہیں۔
غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو کتاب کا پہلا انتخاب (۱۹۹۸ء) اس سے کہیں بہتر ہے۔ جبکہ ان چند خاکوں کی بنا پر بھی لطیف الزماں کا نام خاکہ نگاروں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ البتہ کتب کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں مجموعوں میں شامل بیس مضامین میں سے صرف چھے مضامین خاکے کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ لہٰذا اسے جزوی طور پر خاکوں کا مجموعہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن ایک مکمل مجموعہ نہیں بن سکا ہے۔

حواشی
نمبر شمار           نام کتاب                                                  نام مصنف                       صفہ
۱۔                     ان سے ملیے (مرتبہ سید عامر سلہیل)            لطیف الزماں خاں              ۱۶
۲۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۲۳
۳۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۳۰
۴۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۸۶۔۸۷
۵۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۹۳
۶۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۹۸
۷۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۱۳۶
۸۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۱۴۱
۹۔                     ایضاً                                                      ایضاً                              ۱۷۲
۱۰۔                   ایضاً                                                      ایضاً                              ۱۷۴
۱۱۔                   ان سے ملیے (مرتبہ ڈاکٹر علی اطہر شوکت)   لطیف الزماں خاں              ۱۶۳


کتابیات
۱۔         ان سے ملیے، لطیف الزماں خاں (ترتیب و انتخاب سید عامر سہیل)۔ سطور پبلکیشنز لاہور، ملتان، مئی ۱۹۹۸۔
۲۔         ان سے ملیے، لطیف الزماں خاں (ترتیب و تدوین ڈاکٹر علی اطہر شوکت)۔ ملتان آرٹس فورم، ملتان ۲۰۰۴ء۔

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com