پشاور کی چند گمنام ادبی انجمنیں

مشتاق احمد

Abstract

This article unveiled the forgotten memories of the old Literary Societies of Peshawar. Peshawar has a rich past of Urdu literature which was produced and exposed through these literary circles/ societies. The article is a study of their contribution, aims and objects-methodology etc. author also discusses literary persons who runs and supervised these literary circles.

بزمِ انیس پشاور:
۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک فعال رہنے والی اس تنظیم کے پہلے صدر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سجاد سرحدی کے خیال میں تنظیم کے پہلے صدر آغا جگر کاظمی تھے۔ (۱) جبکہ یونس قیاسی اس کے پہلے صدر، ملک ناصر علی بتاتے ہیں (۲) ندا کلکتوی اس کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اس تنظیم کے شرکاء ارکان اکثر اہل تشیع تھے اور انیس کی طرز پر قصہ کربلا کے حوالے سے شاعری ان کا مطمح نظر تھا۔ اس تنظیم کے شرکا میں ضیا جعفری، ابوالکیف کیفی، محمود الحسن کو کب، استاد غلام رسول گھائل، خادم کربلائی، حیرت جعفری اور ساجد سرحدی صاحب تھے۔ یہاں مشاعرے مرثیہ، سلام اور حزنیہ غزلوں پر ہی محیط تھے اور انیس کی پیروی ہی مستند سمجھی جاتی تھی۔
بزمِ اردو:
یہ بزم پشاور صدر میں ۱۹۴۹ء میں قائم کی گئی۔ اس انجمن کے اراکین زیادہ تر مہاجرین ہندوستان میں سے تھے جن میں رعنا دہلوی مجاہد لکھنوی اور شرر نعمانی شامل تھے۔ تین سال تک مسلسل یہ بزم طرحی وغیرہ طرحی مشاعرے منعقد کرتی رہی لیکن پھر بہت جلد ہی ختم ہوگئی۔
بزمِ غالب:
۵۰، کی دہائی میں بننے والی اس تنظیم کی تاریخ تاسیس نہ مل سکی۔ لیکن پشاور کی ادبی فضا میں اس تنظیم نے کم عرصے میں جو محرک پیدا کیا اس کی مثالیں بعد میں کم ہی ملتی ہیں۔ لالہ ایوب صحرائی اور فدا حسین نیر اس تنظیم کے بنانے میں پیش پیش تھے۔ اس کے سر پرست سید مظہر گلیلانی اور پروپیگنڈہ سیکرٹری ایوب صحرائی تھے۔ اس تنظیم کے افق پر مسعود انور شفقی، محمود سرحدی اور ندا کلکتوی بھی نظر آتے تھے۔ اس تنظیم نے "ضیغم لاج" رہائش گاہِ مظہر گیلانی پر بڑے اچھے اچھے مشاعرے کروائے۔ لیکن یہ تنظیم طویل عرصے تک خود کو برقرار نہ رکھ سکی جس کی بڑی وجہ ایوب صحرائی کی عجیب و غریب مجذوبانہ حرکتیں تھیں۔ (۳)
"زخموں کے پھول" کے نام سے شاعروع کے منتخب کلام کو بزمِ غالب ہی نے چھاپا۔ بزمِ غالب کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ ایوب صحرائی سالانہ کیلنڈر بھی شائع کرتے تھے جس پر پشاور کے تمام بڑے ادیبوں کی تصاویر چھاپی جاتی تھیں۔
انجمن تحفط اردو:
۱۹۵۰ء کے زمانے میں ادبی جمود میں ہلچل مچانے والی اس تنظیم کے اراکین میں سعید الدین کو ثرشیر کوٹی، اشفاق حسین، آل احمد سحر، آصف طرب، انصرلدھیانوی، قمر نجمی، اکرم عزیز اور شرر نعمانی شامل تھے۔ اس انجمن نے ترقی پسند مصنفین پر مصیبت آنے کے بعد ادباء کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس انجمن نے یومِ ظفر علی خان، یوم غالب اور یوم بہادر شاہ ظفر بڑی دھوم دھام سے منائے، نیز اس انجمن نے اپنا ایک پندرہ روزہ آرگن "اردو" بھی جاری کیا جو تقریباً ایک سال تک کوثر شیر کوٹی، آصف طرب اور آل احمد صحر کی زیرادارت پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ "اردو" کا "نعت نمبر" ایک بہترین ادبی اور مذہبی تحفہ تھا۔(۴)
مجلس اربابِ سخن پشاور:
۱۹۵۲ء میں تشکیل پانے والی اس تنظیم کے پہلے صدر قاسم حسرت اور طارق نسیم جنرل سیکرٹری تھے۔ دو سال بعد یونس قیاسی اس کے جنرل سیکرٹری بنے۔ اس تنظیم سے منسلکہ افراد میں فقیر حسین ساحر، حیرت جعفری، ندا کلکتوی، ساحر مصطفائی، اور نسیم شاہد شامل تھے۔ یہ تنظیم مقامی سطح پر مشاعرے کرانے تک ہی محدود رہی۔ اس زمانے میں پشاور میں نثر پر تنقیدی اجلاس کرانے کی روایت گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ یہ تنظیم کافی عرصہ چلی لیکن ادب کے افق پر نمایاں اثرات چھوڑ نے میں ناکام رہی۔ آج بھی یہ تنظیم ختم نہیں کی گئی لیکن نہ ہی اس کے اجلاس ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کے زیر اہتمام کوئی مشاعرے۔(۵)
بزمِ یاران یک شب پشاور:
تقسیم ہند کے بعد اکثر مہاجرین نے سندھ پنجاب کو اپنا مسکن بنایا لیکن جنہیں وہاں مناسب مقام و روزگار نہ ملا۔ ان میں سے کچھ سرحد کی طرف بھی آئے۔ ان لوگوں میں شاعر ادیب بھی شامل تھے۔ پشاور میں قیام اور یہاں کی فضا کا جائزہ لینے کے بعد مھاجر شاعروں اور ادیبوں نے اپنی ایک انجمن بزمِ یارانِ یک شب کے نام سے ۱۹۵۰ء میں سجائی۔ اس کے پہلے صدر صحرائی سامری جو کہ شہباز اخبار سے وابستہ تھے مقرر کیے گئے۔ دیگر ساتھیوں میں قمر عثمان آبادی، آغا گوہر، امتیاز فطرت، شریف صادق، محمد علی فطرت اور ہارون پاشا قابلِ ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے کلیم جلسیری اور خلیل رام پوری کے اعزاز میں مشاعرے کرائے۔ یہ تنظیم بھی صرف مشاعروں کی حد تک محدود رہی۔ (۶)

آل پاکستان اردو لیٹریری سوسائٹی مرکزی دفتر پشاور:
جب ۱۹۶۲ء میں PAF کا دفتر پشاور آیا تو اس کے ساتھ بہت سے شعرائے کرام کو بھی آنا پڑا۔ جن میں ازفر زیدی بھی شامل تھے۔ سو ایک شام ان کے گھر پر اس انجمن کی بنیاد رکھی گئی۔ اس انجمن کا آئین ۱۹۶۳ء میں پاس ہوا۔ آغا محمد شاہ برق کوہاٹی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کی شاخیں راولپنڈی، لاہور، کراچی اور ڈھاکہ میں بھی قائم ہوئیں لیکن زیادہ دیر نہ چلیں۔ اس تنظیم نے ایک سکول بھی شروع کرایا جس میں طلباء کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ حسن چراغ نے اس سکول کے لیے اپنا گھر واقع رام پورہ پشاور خالی کرایا تھا۔
اس تنظیم نے بہت بڑے بڑے مشاعرے کروائے جن کے نمایاں شرکاء میں حفیظ جالندھری، قمر جلالوی، سجاد سخن، اقبال صفی پوری، کلیم جلیسری، سبط حسن صبا، احمد فراز، محسن احسان، چاند رومانی طارق نسیم، محمود سرحدی، مسعود انور شفتی اور پشار کے دیگر شعراء شامل تھے۔ پشاور ہی میں اس تنظیم کی دو ذیلی شاخیں خواتین اردو لیٹریری سوسائٹی اور شہاین اردو لیٹریری سوسائٹی بھی قائم ہوئیں۔ جن میں موخرالذکر کا دفتر مینا بازار کے سامنے تھا۔ خواتین اہل قلم میں محترمہ بدر سلطانہ انصاری، راحت جوش، منور سلطانہ وغیرہ شامل تھیں۔ اس تنظیم کے تحت مشاعرے بڑی باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے۔ اس کے اجلاس محلّہ جیون مل سیٹھ بیرون ہشتنگری پشاور میں منعقد ہوا کرتے تھے۔(۷)
کرسچین لٹریری سوسائٹی:
۸۰ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں آل پاکستان کرسچین رائٹرز گلڈ کی ایک شاخ پشاور میں بھی قائم ہوئی جس کے کرتا دھرتا جناب صادق گل اور یونس صابر تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے کرسچین لٹریری سوسائٹی پشاور بھی بنائی تھی جس میں ڈاکٹر ڈینس آئزک کی آمد سے مزید رونق پیدا ہوگئی تھی۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ یہ دونوں انجمنیں پشاور میں اپنا ریکارڈ محفوظ رکھ سکیں اور نہ ہی ان سے وابستہ افراد میرے ساتھ وہ تعاون کرسکے جس کی ضرورت تھی البتہ پشاور کے معتبر شعراء کی زبانی اتنا معلوم ہوسکا کہ یہ لوگ اپنے مذہبی تقریبات کے مواقع پر بڑے اچھے مشاعرے منعقد کراتے تھے۔
رائٹرز ایکویٹی پشاور:
۱۹۸۴ء میں یہ انجمن مشتاق شباب اور یوسف عزیز زاہد نے مل کر بنائی۔ مشتاق شباب اس کے صدر یوسف عزیز زاہد جنرل سیکرٹری اور سید سہیل امجد فوق گیلانی اس کے فنانس سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس انجمن نے کچھ مشاعرے کرائے اس کے علاوہ کچھ کتابوں کی رونمائیاں بھی کیں۔ کچھ موسیقی اور مصوری کے مقابلے بھی کروائے۔ ان مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو انعامات بھی دیے۔ محسن احسان، خاطر غزنوی، تاج سید اور یوسف رجا چشتی کے اعزاز میں شامیں بھی منائیں لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس بزم سے دیگر لوگوں کی دلچسپی ختم ہونے لگی۔ اراکین بھی اپنی محکمانہ مصروفیات کی بنا پر اسے زیادہ وقت نہ دے سکے۔ اگرچہ اس انجمن نے بڑے بھرپور انداز سے ابتداء کی تھی لیکن بہت جلد ہی یہ انجمن بھی ختم ہوگئی۔
بزمِ یارانِ سخن:
۱۹۸۷ء میں قائم ہونے والی یہ تنظیم سرحد کے افقِ ادب پر کچھ گہرے اثرات چھوڑنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے پہلے اور آخری صدر ش شوکت تھے۔ افتخار احمد تشنہ اور نشاط سرحدی اس کے سیکرٹری رہے۔ مقامی سطح پر مشاعرے اور تنقیدی محفلوں کے علاوہ اس انجمن نے کوئی نمایاں کام نہیں کیا۔ ایک مشاعرے کے دوران جب ش شوکت کو ریڈیو پاکستان جانا پڑا تو احباب اس پر بہت برہم ہوئے اور یہیں اختلافات کا شکار ہوئی اور کچھ عرصہ بعد یہ انجمن ختم ہوگئی۔ چونکہ یہ لوگ اپنے مشاعروں اور نتقیدی نشستوں کی تشہیر نہیں کرتے تھے اس لیے کسی کو بھی اس بارے میں زیادہ پتہ نہیں۔
ایجوکیٹر کلب:
یہ انجمن ۱۹۶۴ء میں جامعہ پشاور میں بنی۔ اس انجمن کے سرخیل خاطر غزنوی، احمد فراز اور محسن احسان تھے جو ان دنوں پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج میں درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ اس انجمن نے طلباء اور خصوصاً شعبہ اردو کے طلباء میں ادبی ذوق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ جو مہمان باہر سے پشاور یونیورسٹی آئے ان کے اعزاز میں شام پزیرائی منانے کے پروگرام بھی اس بزم نے کافی زیادہ کیے۔ لیکن یہ انجمن زیادہ عرصہ چل نہ سکی اور تھوڑے عرصے بعد ہی ختم ہوگئی۔
اسی طرح شرر نعمانی کے مطابق ۶۱۔ ۱۹۶۹ء میں اشرف بخاری کی "بزم خیابان ادب" نے اردو ادب کی خدمت اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ "انجمن اردو" شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی کو بھی نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ جس کے سرپرست پروفیسر طاہر فاروقی اور سرگرم اراکین مرتضی اختر جعفری، خاطر غزنوی اور شمس الدین صدیقی ہیں۔ اس انجمن کے تحت ہر سال یوم اقبال اعلٰی پیمانے پر منایا جاتاتھا اور مناسب وقفوں کے بعد ادبی اجلاس بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔(۸)

حوالہ جات
۱۔         ماجد سرحدی                   انٹرویو                                                   ۲۰۰۸۔۰۱۔۱۳
۲۔         یونس قیاسی                     انٹرویو                                                   ۲۰۰۸۔۰۱۔۱۲
۳۔         ماجد سرحدی                   انٹرویو                                                   ۲۰۰۸۔۰۱۔۱۳
۴۔         شرر نعمانی                     علاقہ سرحد میں اردو مشمولہ خیابان خاص نمبر شمار ۵ ص: ۱۲۰۔۱۲۱
۵۔         یونس قیاسی                     انٹرویو                                                   ۲۰۰۸۔۰۱۔۱۲
۶۔         ماجد سرحدی                   انٹرویو                                                   ۲۰۰۸۔۰۱۔۱۳
۷۔         ماجد سرحدی                   انٹرویو                                                   ۲۰۰۸۔۰۱۔۱۴
۸۔         شرر نعمانی                     علاقہ سرحد میں اردو مشمولہ خیابان خاص نمبر شمارہ ۵ ص: ۱۲۱

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com