انگارے تکنیکی تجربات کی روشنی میں

ڈاکٹر سلمان علی

Abstract

This article is they study of “Angaray” an anthology of short stories written by progressive Urdu written in early thirties. This anthology remained under discussion up till now and has great effect on our literary tradition. Author analyzes this book (short stories) in a scientific and critical way. He discusses the style and literary techniques of these short stories and their importance and significance in history of Urdu fiction.

۱۹۳۲ء کے آخر میں نو افسانوں اور ایک ڈرامے کا ۳۴ا صفحات پر مشتمل مجموعہ "انگارے" منظر عام پر آیا۔ جس کے مرتب اور پبلشر سجاد ظہیر تھے۔
اس مجموعے میں پانچ افسانے سید سجاد ظہیر کے، ایک افسانہ اور ایک ڈرامہ رشید جہاں کا، دو افسانے احمد علی اور ایک محمود الظفر کا شامل تھا۔ انگارے کے منظر عام پر آتے ہی اردو کے زیادہ تر اخبارات و رسائل نے انگارے کے خلاف مضامین شائع کئے، ان افسانوں کو خلاف مذہب اور فحش قرار دیا اور کتاب کی ضبطی کا مطالبہ کیا۔ جب انگارے کی ضبطی کا مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا تو ۱۵ مارچ ۱۹۳۳ء کے سرکاری گزٹ میں ایک اعلان کے ذریعے "انگارے" ضبط کر لیا گیا، اعلان میں کہا گیا تھا کہ "انگارے" زیر دفعہ ۲۹۵ الف تعزیرات ہند اس بنا پر ضبط کر لیا گیا ہے کہ یہ کتاب ایک خاص فرقہ کے مذہبی جذبات اور عقائد کو مجروح کرتی ہے۔ آئندہ اس کتاب کا فروخت کرنا یا شائع کرنا جرم تصور کیا جائے گا۔ (۱)
انگارے کے نوجوان افسانہ نگاروں نے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انگارے میں جہاں تک موضوعاتی لحاظ سے نیا پن تھا بعینہ تکنیکی لحاظ سے بھی نئے اور منفرد تجربات کئے گئے تھے۔ اس سلسلے میں وقار عظیم رقم طرز ہیں:
"ان افسانوں میں ایک خاص بات جو اردو میں عام نہیں ہے یہ ہے کہ الفاظ اور معنی کا حتی الامکان مترادف سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خیالات کے اظہار میں زبان اور محاورہ کی قیدوں کی قطعی پروا نہیں کی گئی۔ آزادی اور بے باکی خیالات سے لے کر زبان تک اور ان دونوں چیزوں سے ہٹ کر مجموعی طرز بیان پر چھائی ہوئے ہے۔ جوش، تیزی و تندی کے علاوہ جدت اور اختراع کو ہر جگہ کام میں لایا گیا ہے۔ اس لئے فن کا حسن ہر جگہ بڑھتا گیا ہے" ۲
غرض انگارے کے اثرات دوررس ثابت ہوئے اور ہر دور میں لکھنے والے صوری یا معنوی کسی نہ کسی حیثیت سے ان اثرات کو اپناتے رہے۔
انگارے میں سجاد ظہیر کے پانچ افسانے بعنوان "نیند نہیں آتی"، جنت کی بشارت"، گرمیوں کی ایک رات"، دُلاری"، اور "پھر یہ ہنگامہ" احمد علی کے دو افسانے "بادل نہیں آتے" اور "مہاوٹوں کی ایک رات" رشید جہاں کا ایک افسانہ "دلی کی سیر" اور محمود الظفر کا ایک افسانہ "جوانمردی" شامل ہیں اس کتاب میں رشید جہاں کا ایک ڈرامہ "پردے کے پیچھے" بھی موجود ہے اس مجموعے کا پہلا افسانہ سجاد ظہیر کا "نیند نہیں آتی" ہے جس کا ابتدائیہ انہوں نے تکنیکی لحاظ سے اسم صورت سے کیا ہے اور پھر ایک نچلے متوسطہ طبقے کے شاعر اکبر کی نفسی واردات کو شعور کی روکی تکنیک میں پیش کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
"گھڑ گھڑ گھڑ گھڑ، ٹخ ٹخ، چٹ، ٹخ، ٹخ، چٹ چٹ چٹ۔ گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاموشی اور تاریکی۔ تاریکی۔ تاریکی آنکھ ایک پل کے بعد کھلی، تکیہ کے غلاف کی سفیدی، تاریکی، مگر بالکل تاریکی نہیں ۔۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پھر آنکھ بند ہوگئی۔ مگر پوری تاریکی نہیں۔ آنکھ دبا کر بند کی پھر بھی روشنی آہی جاتی ہے۔ پوری تاریکی کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں نہیں؟
بڑا میرا دوست بنتا ہے، جب ملاقات ہوئی، آیئے اکبر بھائی آپ کی دیکھنے کو تو آنکھیں ترس گئیں۔ ہیں ہیں ہیں۔ کچھ تازہ کلام سنائیے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  لیجئے سیگرٹ نوش فرمائیے مگر سمجھتا ہے، شعر خوب سمجھتا ہے وہ دوسرا اُلوکا پٹھا تو بالکل خر دماغ ہے۔ اخّاہ! آج تو آپ نئی اچکن پہنے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے باپ کا کیا بگڑتا ہے جو میں نئی اچکن پہنے ہوں۔ تو چاہتا ہے کہ بس ایک تیرے ہی پاس نئی اچکن ہو اور شعر سمجھنا تو درکنار صحیح پڑھ بھی نہیں سکتا۔ ناک میں دم کردیتا ہے۔ بیہودہ، بدتمیز کہیں کا! مگر بڑا بھائی میرا دوست بنتا ہے۔ ایسوں کی دوستی ہے۔ مفت کا مصاحب ملا، چلو مزے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا سب کچھ کرے غریب نہ کرے، دوسروں کی خوشامد کرتے زبان گھس جاتی ہے، اور وہ ہیں کہ چار پیسے جو جیب میں ہم سے زیادہ ہیں تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ میں نے آخر ایک دن کہہ دیا کہ میں نوکر ہوں، کوئی آپ کا غلام نہیں ہوں، تو کیا آنکھیں نکال کر لگا مجھے دیکھنے۔ بس جی میں آیا کہ کان پکڑ کے ایک چانٹا رسید کروں، سالے کا مزاج درست ہو جائے۔
ٹپ ٹپ کھٹ ٹپ ٹپ کھٹ ٹپ ٹپ کھٹ، ٹپ تپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔  ۔ ۔ ۔" ۳
اس منقولہ پیراگراف کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ متعدد تصویریں ایک دوسرے میں گھل مل کر پڑھنے والے کے ذہن پر متعدد نقوش چھوڑتی ہیں کوئی منظر دیکھ کر لکھنے والے کے ذہن میں کسی ایک واقعہ کی تصویر آتی ہے، اور اس تصویر کے ساتھ ذہن میں طرح طرح کے خیال پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان تمام ملے جلے خیالوں میں سے کوئی ایک اچانک ذہن کو کسی دوسرے واقعے کی طرف منتقل کردیتا ہے خیالات کا یہ سلسلہ اس طرح بنتا رہتا ہے اور ذہن پھر عمل میں مصروف ہو جاتا ہے وہی خیالات کا تانا بانا، خیال کے ساتھ اپنی رائے جو داخلی خود کلامی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ "جنت کی بشارت" میں کسی قدر شائستگی پائی جاتی ہے اور تکنیکی لحاظ سے بھی "نیند نہیں آتی" سے قدرے مختلف ہے کیونکہ اس میں مذہبی عقائد پر براہ راست وار کرنے کی بجائے مولانا داود کے حوالے سے ریاکاری، ہوس رانی اور فریب خوردگی کا پردہ چاک کیا گیا ہے جس کے لئے سجاد ظہیر نے Irony کی تکنیک استعمال کی ہے Irony میں لفظوں کے وہ معنی نہیں ہوتے جو بادی النظر میں دکھائی دیتے ہیں بلکہ یہاں صورت حال میں مضمرالمیے پر یا آنکھوں سے اوجھل حقیقت کے کسی دردناک پہلو پر طنزیہ وار مقصود ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
"لکھنو  اس زوال کی حالت میں علوم اسلامیہ کا مرکز ہے۔ متعدد عربی مدارس آج کل کے پرآشوب زمانے میں شمع ہدایت روشن کئے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اساتذہ اور طلباء پر نظر ڈالیں تو ہم ان سب کے چہروں پر اس ایمانی نور کی جھلک پائیں گے جس سے ان کے دل و دماغ منور ہیں۔ ان کے لمبے کُرتے اور قبائیں، ان کی کفش اور سیلپر، انکی دو پلی ٹوپیاں، انکا گھٹا ہوا گول سر اور ان کی متبرک داڑھیاں جن کے ایک ایک بال کو حوریں اپنی آنکھوں سے ملیں گی۔ ان سب سے ان کا تقدس اور زہد ٹپکتا ہے مولوی محمد داود صاحب برسوں سے ایک مدرسہ میں رہتے تھے اور اپنی ذہانت کے لئے مشہور تھے۔ عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ ماہ مبارک رمضان میں رات کی رات، تلاوت و نماز خوانی میں گزر جاتی تھی اور انہیں خبر تک نہ ہوتی۔ دوسرے دن جب دوران درس میں نیند کا غلبہ ہوتا تھا تو طالب علم سمجھتے تھے کہ مولانا پر کیف روحانی طاری ہے اور خاموشی سے اٹھ کر چلے جاتے"۴
"گرمیوں کی رات" روکھا پھیکا افسانہ ہے البتہ اختتام کسی قدر موثر ہے۔ "دلاری" ایک مجبور عورت کی کہانی ہے جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک رئیس زادے کاظم علی کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے آخر میں سماج اس مظلوم عورت کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور اسی طرح یہ تمام حالات و واقعات ایک معصوم کی بربادی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
"دلاری" ایک کرداری افسانہ ہے کیونکہ اصل توجہ اس کہانی میں قصہ کی شخصیت پر ہے واقعات صرف اس کی ذات سے متعلق ہیں بلکہ ایسے مختصر افسانوں کو ان حالات کی روداد سمجھنا چاہئے جو کسی شخص کے ساتھ پیش آتے ہیں ان میں کردار اہم ہوتے ہیں اور پلاٹ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ تکنیکی لحاظ سے اس افسانے کا اختتامی منظر بے حد موثر ہے اور کفایت لفظی سے کام لیتے ہوئے اس ایک منظر میں کئی حسی اور جذباتی جزئیات سمیٹی گئی ہیں بقول انوار احمد:
"انگارے میں سے اگر دو بھی ایسے افسانوں کا انتخاب کیا جائے جو فنی اعتبار سے کامیاب اور فکری و جذباتی اعتبار سے ہنگامی اثرات کی بجائے دیرپا اثرات کے حامل ہیں تو "دُلاری" ان میں سے ایک افسانہ ہوگا"۵
"پھر یہ ہنگامہ" مختلف کہانیوں، افسانوی واقعات، مکالماتی ابتدائے اور خود کلامی کا عجیب مرکب ہے بلکہ تکنیکی لحاظ سے سجاد ظہیر نے اس کو "مونٹاج" بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس تکنیک کے بارے میں اصغر بٹ کہتے ہیں:
"مون ٹاج انگریزی کا لفظ ہے لیکن اس کا منبع فرانسیسی ہے۔ لغوی طور پر ایک مطلوبہ تاثر کے حصول کے لئے فلمی ٹکٹروں کی خاص ترتیب کو "مون ٹاج" کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یورپ اور انگلستان میں انیسویں صدی کے ناولوں میں جابجا یہی تکنیک ملتی ہے ڈیوٹا اور ڈکنز، کہانی میں المیہ تاثر گہرا کرانے کے لئے منظر میں اشاریت کو تقویت دینے کے لئے یا بحرانی کیفیت کے لئے قلمی تصاویر کو کچھ اسی طرح مرتب کیا کرتے تھے"۶
علاوہ ازیں اس مانٹاج (افسانے) میں سجاد ظہیر کسی اوپری سطح سے زندگی کے سٹیج کو دیکھ رہا ہے جہاں سے انہیں زندگی کے مختلف شیڈز نظر آ رہے ہیں جو کہانیوں اور قصوں کی شکل میں یکے بعد دیگرے مصنف بیان کرتا جاتا ہے جیسے ہی کوئی کہانی یا قصہ ختم ہوتا ہے تو دوسری کہانی شروع ہوجاتی ہے ایک کہانی سے دوسری کہانی کی طرف گریز کا خیال نہیں رکھا گیا۔ لیکن آخر میں ان تمام کہانیوں، مناظر کو ایک علامتی Symbolic انجام ایک سلسلے میں پرو دیتا ہے ملاحظہ کیجئے:
"چاروں طرف سانپ رینگ رہے ہیں۔ کالے کالے، لمبے لمبے، پھن اٹھا اٹھا کر جھوم رہے ہیں ان کو کون مارے؟ کس چیز سے ماریں؟ برسات میں بادل کی گرج، اور پہاڑوں کی تنہائی میں ایک چشمے کے بننے کی آواز، لہلہاتے ہوئے شاداب کھیت اور بندوق کے فیر کے تڑاقے دار صدا اس کے بعد ایک زخمی سارس کی دردناک قائیں قائیں قائیں"۷
افسانے کا یہ علامتی اختتام نہ صرف باقی کہانیوں کو ایک وحدت میں پرو دیتا ہے بلکہ اس علامتی اختتام سے افسانے میں موجود ہر کہانی کی مشکل گتھیاں دھیرے دھیرے سلجھتی چلی جاتی ہیں تکنیکی لحاظ سے سجاد ظہیر کا یہ تجربہ انوکھا بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔
اس مجموعے میں احمد علی کے دو افسانے "بادل نہیں آتے" اور "مہاوٹوں کی ایک رات" شامل ہیں۔ تکنیک کے میدان میں احمد علی اضافے کا باعث بنے ہیں۔ بقول ممتاز شیرین:
"احمد علی نے آزاد خیال کو سرریلزم کے ذریعے پیش کیا یعنی خیال اپنی اصلی شکل میں، جب کہ وہ کسی عقلی یا جمالیاتی یا اخلاقی پابندی یا رکاوٹ کے بغیر انسانی دماغ میں اپنا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ چنانچہ سرریلزم کی اس تحریک سے، جو مغرب میں ۱۹۱۹ء میں شروع ہوئی تھی، اردو افسانے کے آغاز ہی میں احمد علی نے روشناس کرایا"۸
احمد علی نے نہ صرف افسانے کے ابتدائی برسوں میں ہی سریلسٹ انداز سے متعارف کروایا بلکہ آزاد تلازمہ خیال میں لارنس اور جوائس کی تدبیرکاری کے تحت اپنا اولین افسانہ "مہاوٹوں کی ایک رات" بھی تخلیق کیا۔ "بادل نہیں آتے" ازدواجی زندگی کے بہت تلخ حقائق سے پُر ہے جس کو احمد علی نے سریلسٹ انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس وجہ سے افسانے میں داخلی خودکلامی، آزاد تلازمہ خیال اور شعور کی روکی تکنیک بھی درآئی ہے ان تمام تکنیکوں کو احمد علی نے اس چابکدستی اور فنکاری سے استعمال کیا ہے کہ یہ کہانی بلاشبہ وقائع نگاری اور صاف گوئی کا بہترین نمونہ بن گیا ہے۔
"مہاوٹوں کی ایک رات" مفلسی ار امارات و ریاست کا ایک ایسا کنٹراسٹ ہے جس میں ایک طرف مفلسی اور اس کے دردناک نتائج اور دوسری طرف زندگی کی عیاشیاں ہیں۔
افسانے کے ابتدائی حصے میں غربت اور محرومی کے حوالے سے خدا، تقدیر اور جنت کے مروجہ تصورات پر طنز کے تیر برسائے گئے ہیں۔
اس افسانے میں داخلی واردات اور خارجی وقوعات جس میں ایک مفلس عورت اپنے شکستہ مکان میں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ موسلادھار بارش کا مقابلہ کر رہی ہے بچے خوف زدہ ہیں بچوں کو تسلیاں دیتے ہوئے بھی اس کے دل میں متضاد خیالات اٹھتے رہتے ہیں۔ وہ عورت لامذہب یا ترقی پسند نہیں لیکن اس کا ایمان متزلزل ہو رہا ہے ان تمام واقعات کو ملاکر فنی چابکدستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس طرح جنت کا نقشہ (عالم خواب) بھی نہایت خوبی سے پیش کیا گیا ہے چونکہ خواب دیکھنے والی عورت کی چھت ٹپک رہی ہے اس لئے وہ جنت کی عمارت کے بارے میں پہلا سوال ہی یہ کرتی ہے کہ یہ ٹپکتی تو نہیں؟
الغرض اس افسانے کا اختتام تنہائی اور لایعنیت کا احساس لئے ختم ہو جاتا ہے اس کا معاشی اور معاشرتی تاثر فرد کی تنہائی میں ڈھل جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
"نہ تسلی نہ تشفی نہ دلاسا" تنہائی، تنہائی، رات اندھیری اور بھیانک رات، ارے لادو کوئی
جنگل مجھے ۔ ۔ ۔ ۔۔ جنگل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ بازار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا بازار ۔ ۔ ۔ ۔ موو ۔ ۔ ۔ ۔  اوجھ۔ ۔ ۔ رات"۹
احمد علی کے ہاں شعور کی رو ان کے افسانوں میں حال، ماضی اور مستقبل کو کبھی باہم یکجا کرتی ہے اور کبھی قطع اس کے ساتھ ساتھ سرریلزم، داخلی خود کلامی آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک اس انداز سے استعمال نہیں کی گئی ہے کہ سجاد ظہیر نے بھی یہ تکنیک اس کمال بصیرت سے استعمال نہیں کی ہوگی اس سلسلے میں ڈاکٹر خالد علوی کا احمد علی پر تبصرہ بھی محل نظر ہے:
"انہوں نے موضوع، روایت اور مروجہ زبان کے شیشوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا اور ایک نئے فن کی بنیاد ڈالی۔ جس میں جدید نفسیاتی محرکات، نئے معاشی نظریوں اور اقتصادی مسائل کا امتزاج تھا۔ مذہبی اور روحانی قدروں کی شکست وریخت اور پلاٹ، کردار نگاری جیسی فرسودہ چیزوں سے بے نیازی سے افسانوی دنیا میں ایک بھونچال آگیا۔ ان کی تمام کہانیاں ہمارے اردگرد کے ایسے معمولی کرداروں کی کہانیاں ہیں جن سے ہم واقف تو ہیں مگر آگاہ نہیں ہیں۔ اور یہی آگاہ کرنے کا عمل احمد علی کا فن ٹھہرا" ۱۰
انگارے میں رشید جہاں کا ایک افسانہ "دلی کی سیر" اور ایک ڈرامہ "پردے کے پیچھے" شامل ہے۔ "دلی کی سیر" کو اس کتاب کا سب سے بے ضرر اور مختصر ترین افسانہ کہا جاسکتا ہے یہ کہانی عورت کی بے چارگی، بے بسی اور مردوں کے ندیدے پن کو دکھانے کے لئے افسانے کی مرکزی کردار ملکہ بیگم کی زبانی فلیش بیک کی تکنیک میں لکھی گئے ہے۔
تکنکی لحاظ سے چونکہ یہ کہانی مرکزی کردار کی زبانی بیان کی گئی ہے اس لئے کہانی میں بھرپور تاثر درآیا ہے خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں بھولے بھالے سامعین ملکہ بیگم کے ارد گرد بیٹھے کہانی کے دوران مختلف قسم کے سوالات کرتے ہیں۔ اس سے ایک طرف کہانی میں دلچسپی بڑھتی ہے تو دوسری طرف سامعین کی موجودگی بیان کرنے والے کے اعتماد کو بھی بڑھادیتی ہے۔ انگارے کے انہیں تکنیکی تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بلاجھجک کہی جاسکتی ہے کہ "انگارے" کے اثرات اردو افسانہ نگاری پر بہت گہرے ہیں اور موجودہ دور کا کوئی افسانہ نگار بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اس کی صوری و معنوی اور تکنیکی حیثیتوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر نہ ہوا ہو۔
حواشی
۱۔         بازیافت، ص ۲۸
۲۔         ہمارے افسانے، ص ۷۸
۳۔         انگارے، ص ۱، ۳
۴۔         انگارے، ص ۲۰، ۲۱
۵۔         اردو افسانہ تحقیق و تنقید، ص ۱۳۸
۶۔         مونٹاج کی فنی حیثیت، مشمولہ افکار منتخب مضامین نمبر اپریل مئی ۱۹۹۵ء، ص ۳۰
۷۔         انگارے، ص ۶۷
۸۔         اردو افسانے پر مغربی افسانے کا اثر، مشمولہ اردو افسانہ روایت اور مسائل مرتبہ گوپی چند نارنگ، ص ۱۸۳
۹۔         انگارے، ص ۹۲، ۹۳
۱۰۔       بازیافت، ص ۶۷
کتابیات
۱۔         اردو افسانہ تحقیق و تنقید، انور احمد (ڈاکٹر) بیکن بکس ملتان۔ ۱۹۸۸ء
۲۔         اردو افسانہ روایت اور مسائل، مرتبہ گوپی چند نارنگ سنگ میل کیشنزلاہور۔ ۱۹۸۶ء
۳۔         افکار منتخب مضامین نمبر اپریل مئی۔ ۱۹۹۵ء
۴۔         انگارے مرتبہ سجاد ظہیر، مرزا احمد جواد نظامی پریس وکٹوریہ لکھنو۔ ۱۹۳۲ء
۵۔         بازیافت، خالد علوی ایجوکیشن پبلیکیشن ہاوس دہلی۔ ۱۹۹۵ء
۶۔         ہمارے افسانے، وقار عظیم سر سوتی پبلشنگ الہ آباد۔ س ن

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com