احسن فاروقی کے ناول "دل کے آئینے میں" کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

سید شیر


Abstract

Ahsan Farooqi is one of the well reputed novelists of Urdu. He wrote not only novels but also book on its criticism. His novel “Shame Awadh” has got a dignified position in Urdu fiction. “Dil Kay Aeiny Main” his unpublished novel. Novel is serially published in the journal “SEEP” of Karachi. The novel contains biographical events. It’s a difficult task to arrange biographical events in the shape of novel. From this novel we come to know that Ahsan Farooqi, to a great extant, has overcome this difficulty. The writer has presented the biograhial material in the technique of stream of conscience before the readers. This article shows Ahsan Farooqi’s novel art and psychological aspects, and has tried to show literary rate of the novel.

            ڈاکٹر احسن فاروقی کا ناول "دل کے آئینے میں" ایک سوانحی ناول ہے۔ یہ ناول ابھی تک کتابی صورت میں شائع نہیں ہوا۔ نسیم درانی صاحب کے جریدے "سیپ" میں یہ ناول آٹھ قسطوں میں شمارہ نمبر ۱۳ سے شمارہ نمبر ۲۰ میں ۱۹۶۴ء تک شائع ہوا ہے۔ اردو ادب میں سوانحی ناول کے تجربے بہت کم ہوئے ہیں۔ ممتاز مفتی نے "علی پور کا ایلی" لکھ کر اردو ادب میں سوانحی ناول نگاری کا آغاز کیا۔
سوانحی ناول کے حوالے سے ڈاکٹر ممتاز احمد خان لکھتے ہیں:
"خود سوانحی رجحان پر مبنی ناول لکھنا اتنا آسان نہیں، جتنا بظاہر نظر آتاہے۔ اس راہ میں ذاتی زندگی کے واقعات آڑے آتے ہیں۔ اگر ناول نگار محض دوسروں کی زندگیوں کا مطالعہ کرتا ہے، تو اس کے لیے ایک آسانی یہ ہے کہ تخیل کی مدد سے اسے پیش کردے۔ لیکن جب اس کے پیش نظر اپنی زندگی کے واقعات ہوں تو اسے سنبھل کر واقعات کی دروبست کرنا پڑتی ہے۔ بہت سے واقعات اور ان سے منسوب جزئیات کو نکالنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ اپنی مکمل شخصیت کو اسی ترتیب سے جیسے کہ وہ رونما ہوئیں پیش کردینے سے وہ ناول کےبجائے محض خود نوشت بن جاتی ہیں۔ ذاتی زندگی کے واقعات کو یوں پیش کرنا کہ وہ قصہ یا فکشن بن جائے ایک بڑا فن ہے۔" (1)
ڈاکٹر احسن فاروقی کے ناول "دل کے آئینے میں" کے بارے میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان لکھتے ہیں:
"اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر احسن فاروقی نے اپنی پوری زندگی کو فکشن کے قالب میں فنی کامیابی کے ساتھ ڈھال دیا ہے"۔ (2)
انسان کا شعور اس کی خالص نجی اور ذاتی چیز ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا سے سمجھ نہیں پاتا۔ یہ دوسروں کے لیے ناقابلِ فہم ہوتا ہے۔ اس میں خیالات کی روہر وقت چلتی رہتی ہے۔ اور یہ سلسلہ لمحے بھر کے لیے بھی نہیں رکتا، شعور کی رو کی سطح پر جو خیالات ابھرتے ہیں۔ ان کا حال آسمان پر چمکنے والی بجلیوں کی طرح ہوتا ہے ان میں آپس میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ اور یہ کسی منطق کے تابع نہیں ہوتے۔ بلکہ انہیں آزاد تلازمہ خیال کہا جاتا ہے۔
احسن فاروقی کے اس ناول میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ بکھری ہوئی یادوں اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کی دھجیاں ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ واقعات جو صفحہ قرطاس پر آتے ہیں۔ ان میں کوئی زمانی ربط نہیں۔ کسی وقت ایک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ اور کسی وقت کوئی دوسرا واقعہ۔ پورے قصے میں واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے گھتی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر احسن فاروقی اس حوالے سے اپنے ناول "دل کے آئینےمیں" لکھتے ہیں:
"شعور کی رو کو بھی ایک ربط کے ساتھ چلانے کی عادت ڈالنا چاہیے۔ میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں۔ خیالات کہاں سے کہاں نکلے جارہے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ان کو بھٹکنے نہ دیا جائے۔ کوشش یہ کی جائے کہ یہ مربوط طریقہ پر آئیں۔ ایک پلان کے موافق چلیں ایک پٹیرن بناتے چلے۔ جہاں بھی یہ بگڑتا دیکھوں وہیں اپنی قوت ارادی سے اسے روک دوں۔ ہاں یہی ہو۔ تک بے تک تاثرات کے بجائے پورے پورے سین یاد آئیں ایک دوسرے سے جڑیں اور ایک مربوط بنائیں"۔ (3)
اس ناول میں واقعات کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ نجی ہوتے ہوئے بھی آفاقیت کی سطح کو چھو رہے ہیں۔ خوابوں کی وادیوں میں سے یادوں کےانمول موتی چن کر انہیں لفظوں کی مانگ میں پرونے کی شاید سب سے بہتر تکنیک بھی یہی ہے جسے احسن فاروقی نے اپنے اس ناول میں برتا ہے۔ ناول میں زندگی کے حقیقی روپ کو بغیر مداخلت یا ترمیم و تنسیخ کے پیش کیا گیا ہے اور پورے قصے میں کرداروں کی نفسیاتی زندگی سے یہی واسطہ رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ احسن فاروقی کا عقیدہ یہی تھا۔ کہ انسان کی حقیقت، اس کا خارجی عمل نہیں۔ بلکہ اس کی باطنی کیفیات ہیں جن کے زیر اثر خارجی وجود پذیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اور خود سے متعلقہ دیگر کرداروں کی حقیقی زندگی کو انتہائی قطیعت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے شعور کی رو کی تکنیک کی مبہم اور پیچیدہ تکنیک استعمال کی ہے۔
شعور کی رو کی بنیاد پر جو ناول لکھا جاتا ہے اس میں قدیم ناولوں کی طرح باضابطہ پلاٹ نہیں ہوتا، کہانی بھی برائے نام ہوتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ توجہ کردار کے نفس پردی جاتی ہے اور قاری براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس کردار کے نفس کا مطالعہ اور مشاہد کرسکتا ہے۔
جہاں تک اس ناول کے پلاٹ کا تعلق ہے ۔ تو اس میں باقاعدہ کوئی پلاٹ نہیں۔ مصنف نے شعور کی روکی تکنیک کے استعمال سے اپنی زندگی کے حالات و واقعات کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
شعور کی روکوپیش کرنے کے لیے ناول نگاروں نے مختلف طریقے آزمائے ہیں۔ ان میں چار طریقے اہم ہیں۔ جن میں (۱) بلاواسطہ داخلی کام (۲) بالواسطہ داخلی کام (۳) ہمہ بین وہمہ دان مصنف کا بیان (۴) خود کلامی ۔
پروفیسر عبدالسلام لکھتے ہیں۔
"اس ناول میں ڈاکٹر صاحب نے دوسرے طریقے یعنی "بالواسطہ داخلی کام" کو برتا ہے۔ بالواسطہ داخلی کام میں ناول نگار خود بیان کرتا ہے۔ ناول نگار ہمہ بین وہمہ دان مصنف کا روب دھار کر اپنے کردار کی ماقبل تکلم کو پیش کرتا ہے۔ اسے صیغہ واحد غائب میں پیش کیا جاتا ہے۔ مصنف کی مداخلت کے باوجود اسے داخلی کام اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں کردار کا شعور من وعن اس کے نفس کے مخصوص محاورے اور علامات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ البتہ اس میں مصنف جہاں جہاں ضروری سمجھتا ہے ۔ تشریحی اشارے بھی دیتا جاتا ہے"۔(4)
ڈاکٹر احسن فاروقی نے اس ناول میں شعور کی روکی تکنیک کے اس طریقے سے سترہ (۱۷) مناظر میں ۱۹۶۴ء تک کی اپنی داستان حیات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف ریل میں بیٹھ کر اپنے آبائی گاؤں مرادآباد(لکھنو) جارہے ہیں۔ ریل میں بیٹھ کر وہ اپنی پچھلی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنی زندگی کے ایک ایک منظر سے نقاب اٹھاتے جاتے ہیں۔ پہلے منظر میں وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ جب ان کی عمر اکیس برس تھی اور وہ اورانکا پورا خاندان کربلاجانے کے لیے اس مقام سے گزرا تھا۔ دوسرے منظر میں انہوں نے اپنی پھوپھی رانی بلہرہ صاحبہ کا ذکر کیا ہے جو کربلا سے واپس اپنی ریاست جارہی تھیں۔ اور انہیں دیکھنے ایک اسٹیشن پر ان کے منجھلے چچا آتے ہیں۔ دوسری اسٹیشن پر احسن فاروقی کے بڑے بھائی یوسف حسین خان اور ان کا بیٹا ظہوردرانی صاحب سے ملتے ہیں۔ اور آخر میں لکھنو پہنچنے پر احسن فاروقی کے والد اور رانی صاحبہ کا عملہ کا اسٹیشن پر آنے کا ذکر ہے۔ تیسرے منظر میں رانی صاحبہ کی حویلی اور اس حویلی میں احسن فاروقی اور ان کی بہن کے رہنے کے بارے میں بیان ہے۔
چوتھے منظر میں قلعہ کے اندر محرم کے دوران ہونے والی رسومات، منجھلے چچا کے پاگل پن کا قصہ، رانی صاحبہ کی گھر گرہستی، نوکروں کے ساتھ رویہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
پانچویں منظر میں رانی صاحبہ کے حالات، والد کی نوکری ختم ہونے اور احسن فاروقی کے تمام گھر والوں کا رانی صاحبہ کے گھر آکر رہنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
چھٹے منظر میں مصنف نے والد کی زندگی ان کے کردار، اپنے پہلے عشق کی داستان، شادی، بیوی کی کوٹھی میں آکر رہنے اور ساس کی محبت کا ذکر کیا ہے۔
ساتویں منظر میں مصنف نے اپنی ادبی سرگرمیوں، ناول کے پڑھنے اور لکھنے کا شوق، مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے، پروفیسر سدھانت کے کردار اور ماں کی بہن کو رانی بنانے کی خواہش کا بیان کیاہے۔
آٹھویں منظر میں مصنف نے لکھنو کی رسومات، محرم میں بے دریغ پیسہ خرچ کرنے، اپنی بہن کی راجہ ساجد حسین آف کٹوارہ سے شادی کے پروگرام اور اپنی بیوی اور ساس کے کردار کا ذکر کیا ہے۔
نویں منظر میں، عورتوں کے مجالس کا ذکر ہے اور راجہ ساجد حسین آف کٹوارہ کی ترک شہزادی سے شادی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
دسویں منظر میں رانی صاحبہ کی موت کا ذکر کیا گیا ہے۔
گیارھویں منظر میں راجہ ساجد حسین آف کٹوارہ کے ساتھ اپنی بہن کی شادی، اپنی پی ایچ ڈی اور لکھنو یونیورسٹی میں اپنی نوکری کا قصہ بیان کیا ہے۔
بارھویں منظر میں اپنی بہن کی شادی کے بعد کی پریشان اور بھائی یوسف حسین کی وفات کا ذکر کیا ہے۔ تیرھویں منظر میں یونیورسٹی میں پڑھانے سے لطف کےاحساس، اور بہن کی فضول خرچی کا بیان ہے۔چودھویں منظر میں پروفیسر سدھانت کی متعصبانہ شخصیت کی عکاسی، آزادی کے بعد ہندووں کے بدلتے ہوئے رویے اور مصنف کے پاکستان آنے کا ذکر ہے۔ پندرھویں منظر میں پاکستان آنے کے بعد یہاں کی پریشانی اور بدحالی، کراچی یونیورسٹی میں نوکری، وہاں مظفرحسین اور مسیح الدین کی بے ایمانی، مسیح الدین کے کہنے پر اپنی بیٹی کے پرچے میں نمبر دینے اور بعد میں یونیورسٹی سے اپنے استعفٰی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ سولہویں باب میں اپنی غلطی کے احساس پر پھر اسلامیہ کالج میں نوکری، کربلا جانے، لکھنو جانے اور وہاں صحت کی خرابی کے بعد واپس پاکستان کا رخ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ سترھویں منظر میں بہن کی موت اور ان کے جنازے میں شامل نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس ناول کے کرداروں میں مصنف کے اپنے کردار کے علاوہ رانی بلہرہ صاحبہ (امتہ الفاطمہ)، مصنف کے والدین، مصنف کی بہن رحمت الفاطمہ، مصنف کی چھوٹی پھوپھی، منجھلےچچا، رشتے کےچچا یوسف حسین خان، مصنف کے بھائی نورالحسن اور یوسف حسین خان، مصنف کے بھتیجے منو بھائی اور ظہور، مصنف کی بیوی، سرنواب منصور علی خان، ساس سرفراز بیگم، سالے رضا علی خان، مصنف کا نوکر رحیم، مصنف کےعزیز نواب عظمت اللہ خان، پروفیسر سدھانت، راجہ سید ساجد حسین آف کٹوارہ، لکھنو یونیورسٹی کے پروفیسر شہنشاہ حسین، معین صاحب، کراچی یونیورسٹی کے ہم پیشہ ڈاکٹر جمیل الدین، مسیح الدین وغیرہ شامل ہیں۔
یہ ناول ایک خود نوشت سوانح ہے۔ اس لیے اس ناول میں ہمیں مصنف کی شخصیت کے تمام پہلووں سے آگاہی ہوتی ہے۔ پیدا ہوتے ہی والدین انہیں رانی صاحبہ کے حوالے کرتے ہیں:
"رانی صاحبہ لپک کر آئیں بولیں "بھائی لڑکا ہوا ہے" میاں نےکہا "بیٹی تمہارا ہےتم میر عنایت حسین سے اس کے کان میں اپنی اذان دلواؤ"۔ (5)
اس کے بعد احسن فاروقی رانی صاحبہ کے ہاں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی۔ اپنےشجرہ نسب کے حوالے سے احسن فاروقی لکھتے ہیں:
"میں نے اپنا پورا شجرہ لکھ کر رکھ چھوڑا ہے۔ مجھے اعلیٰ نسل ہونے پر ناز ہے اس لیے میں نے اپنے نام کے ساتھ فاروقی لگا رکھا ہے۔ عمر فاروق سے اب تک باون پشتیں ہوئیں۔" (6)
بچپن میں انہوں نے جیکب نامی ایک انگریز سے تعلیم حاصل کی۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
"جیکب صاحب کے گھر میں وہ دیوار کے پاس اپنا ٹاٹ بچھا کر بیٹھ جاتا"۔ (7)
احسن فاروقی شیعہ تھے۔ حالانکہ ان کے والد کٹر سنی تھے۔ احسن فاروقی کے شیعہ ہونے کہ وجہ یہ تھی کہ ان کی پرورش رانی بلہرہ صاحبہ نے کی تھی جو شیعہ تھیں۔ اسی شیعہ ماحول میں وہ رہے اور شیعہ بن گئے۔ لیکن ساتھ ساتھ ان کے والد ان کو سمجھاتے رہے۔ کہ بظاہر شیعہ بنے رہو لیکن دل سے سنی ہی رہو۔ اسی دہرے پن نے احسن فاروقی کو مذہب سے متنفر کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
"میں کسی مذہب پر اٹھایا ہی نہ گیا تھا۔ والد کی اس تعلیم نے کہ ظاہر شیعہ رہو اور دل میں سنی۔ مجھے دونوں مذاہب سے منحرف کردیا تھا۔ وہ طرفداریاں اور تعصبات جو ہر فرد میں اپنے گھر کی مذہب سے پیدا ہوجاتی ہیں اور جو اس کے کردار کی بنیادیں ہوں۔ غلط یا صحیح مگر ایک خاص قسم کی پختگی اور خود اعتمادی عطا کرتی ہیں۔ مجھ میں نہ تھیں۔" (8)
اس سوانحی ناول سے ہمیں ان کے عشق کے بارے میں بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ وہ بپچن ہی سے حسن پرست تھے۔ چھ برس کی عمر میں ان کو ایک لڑکی نے متاثر کیا تھا۔
"تخت پر قبلہ رو دو میری ہمسن لڑکیاں بیٹھی تھیں اوران کے درمیان ایک سن رسیدہ صاحبہ تھیں۔ دونوں قرآن شریف پڑھ رہی تھیں۔ ایک کچھ بڑی تھی، دوسری چھوٹی، میری نگاہ دونوں پر گئی تھی۔ بڑی سنجیدہ مغموم اور پھیکی نظر آتی تھی۔ چھوٹی بشاش تھی۔ نور کا ٹکڑا ہو رہی تھی۔ ہل ہل کر وہ پڑھ رہی تھی۔ تسراًناظرین، تسراًناظرین۔ عجب راگ تھا۔ اس آواز میں کیفیت تھا۔ اس کے ہلنے میں عجیب نور تھا۔ اس کے چہرے پر۔ میں نہ معلوم کس عالم میں گم تھا آج پینتالیس برس کے بعد بھی وہی چہرہ اس طرح نگاہ کے سامنے ہے۔" (9)
دوسرا عشق انہوں نے لیلیٰ دتی سے کیا۔ اس کے بعد چودہ برس کی عمر میں ایک ہندولڑکی کیساتھ عشق کیا۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں۔
"ہاں لیلیٰ دتی کچھ دونوں اچھی لگی اور اسے تکتا رہا۔ مگر اسکا حسن بالکل دھوکا تھا۔ میراحسن ظن تھا۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں چودہ برس کا تھا۔ سامنے کی کوٹھی میں ایک دن برآمدے پر ایک لڑکی دکھائی دی۔ یوں ہی جھلک دکھائی دی تھی۔ اور اس کی طرف توجہ ہوگئی تھی۔ پھر ایک دن، ہاں وہ دن عجیب تھا۔ عینی دن ساون کا مہینہ، گھٹا چھائی ہوئی، جھڑی لگ کر رک چکی تھی۔  کھتے کے پیڑ میں جھولا پڑا تھا۔ میں پڑے پر بیٹھا تھا اور وہ برآمدے پر کھڑی تھی۔ سفید ساڑی لمبی چوٹی۔ ساراقد نورمیں نہایا ہوا۔ آنکھیں عجیب کھیل دکھاتی ہوئی۔ ہونٹ مسکراتے ہوئے، دل نےمحسوس کیا کہ اس کی ہر چیز ویسی تھی کہ میں حسین ترین تصور کیا کرتا تھا۔ یہ تصویر دل پر ثبت ہوگئی۔ دن میں نہ معلوم کئی کئی دفعہ ادھر سے گزرا کرتا۔ وہ پیر کی چاپ پاکر برآمدے میں آجاتی۔ اپنے کمرے میں بیٹھا برآمدے پر نگاہ جماکے رہتا۔ وہ آتی جاتی دکھائی دیتی۔ مگر کبھی کوئی قدم آگے نہ بڑھایا۔ تسراًناظرین۔" (10)
چوتھا عشق انہوں نے یونیورسٹی میں "پشپا" نامی لڑکی سے کیا۔ لیکن چونکہ ان میں ہمت نہ تھی اس لیے وہ کبھی بھی کسی لڑکی کے قریب نہ ہوئے اور نہ ہی دل کا حال کسی کےسامنے بیان کرسکے۔ وہ لکھتے ہیں:
"ہمیشہ پسپائی غالب رہی۔ زندگی کو بدل دینے کی ہمت نہ تھی۔ ساری مصیبت اپنے سرلینا اور ہائے ہائے کرنا، سوچتے رہنا، ارے یہ کیا ہوا۔ ارے اب کیا ہوگا۔ بزدل کہیں کا۔ یہ بزدلی دل و دماغ میں رچ گئی تھی۔ بچپن میں ڈرایا گیا۔ ہر چیز سے کبھی اکیلا نہ چھوڑا گیا۔ خواب کی دنیا میں رکھا گیا۔" (11)
احسن فاروقی کی شادی ان کے والدین نے جہیز کی لالچ میں نواب منصور علی خان کی بیٹی سے طے کی تھی۔ احسن فاروقی اس شادی کےلیے تیار نہ تھے۔ لیکن ان کے والدین نے انہیں مجبوراً اس شادی کےلیے راضی کردیا۔
"دوسری صبح کو والد میرے کمرے میں آئے۔ "دیکھو میں بات دے آیا ہوں"میری بات جائے گی۔ ابھی شادی کرلو۔ تم مرد آدمی ہواچھی نہ لگےاور کرلینا۔ میں نے تین نہیں کیں۔"(12)
لیکن شادی کے بعد ان کے والدین پر واضح ہوا کہ انہوں نے جہاں اپنے بیٹے کی شادی کی ہے وہ لوگ اتنے مالدار نہیں لیکن کچھ نہیں ہوسکتا۔
شادی کے بعد احسن فاروقی کے تعلقات اپنی بیوی سے بس واجبی سے رہے۔ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں:
"بیوی سے میری دلچسپی عجیب و غریب تھی۔ ایک طرف میرا جسم اس کے جسم سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ دوسری طرف میری روح اس سے فرار ڈھونڈتی تھی۔ وہ اپنے میکے جاتی۔ تو میں بے قرار ہو کر وہاں پہنچ جاتا۔ مگر دل میں یمیشہ یہ سوچتا کہ اگر اس سے کسی طرح پیچھا چھوٹ جائے تو اچھا ہو۔" (13) لیکن ان کی بیوی نے آخری وقت تک ان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا۔ اور کبھی انہیں اکیلا نہیں رہنے دیا۔ وہ ہر مشکل وقت میں ان کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔
اس ناول سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ احسن فاروقی نے مقابلے کے تین امتحان دیے۔ لیکن ایک میں بھی انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔
"۱۹۲۵ء سے لے کر ۱۹۳۸ تک تین مقابلے کے امتحانوں کی طرف متوجہ رہا۔ جن کا کوئی نتیجہ نہ ہوا۔"(14) احسن فاروقی کی پھوپھی رانی صاحبہ جب وفات پاگئیں تو انہیں مجبوراً اس کی کوٹھی میں آنا پڑا جو رانی صاحبہ نے ان کی بیوی کے نام سے خریدی تھی۔ کوٹھی سے نکلنے کے بعد راجہ صاحب اور رانی صاحبہ محمود آباد نے ان کا اور ان کے خاندان کا وظیفہ مقرر کیا۔
"کوٹھی کو کئی مہینے پہلے چھوڑ ہی چکے تھے۔ راجہ صاحب اور رانی صاحبہ محمود آباد بلہرہ نے اپنا سلوک جاری رکھا تھا۔ اور میرے والد اور میری تنخواہیں مقرر کر دی تھیں۔ راجہ صاحب اپنے اثرات سے بھی مددگار ہوئے تھے۔ وہ دونوں اب بھی اسی اخلاق سے پیش آتے ہیں اور ہر طرح کی مدد کرتے ہیں۔"(15)
کوٹھی سے نکلنے کے بعد احسن فاروقی کافی پریشان رہے۔ کیونکہ انہیں اپنےآپ پر اعتماد نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے زندگی کا سامنا کرنے سے ڈرتے تھے۔ اس حالت میں ان کی بیوی نے انہیں سہارا دیا۔ اور آہستہ آہستہ ان میں زندگی کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔
پھر احسن فاروقی نے اخبار "پانیر" کو جوائن کرتے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی طرف بھی توجہ دی۔ جووہ تقریباً چھوڑچکے تھے۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
"اب میں مثبت خیالات سوچنے لگا۔ پی۔ایچ۔ڈی کے لیے تھیسس لکھ ہی رہا تھا مگر گڑ بڑ ہوگیا تھا۔ وہ کام بھی کچھ آگے بڑھایا۔ پانیر اخبار میں کام کیا۔ اس نے مجھے تیزی سے لکھنے کی عادت دی۔" (16)
اس دور کو احسن فاروقی نے اپنی زندگی کا دورِخزاں کہا ہے۔ اس کے بعد احسن فاروقی نے اپنا موضوع پی۔ایچ۔ڈی تبدیل کیا اور نو مہینے میں تھیسس لکھ کر جمع کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
"میری زندگی کا عجیب تماشہ یہ بھی تھا کہ میں ضد میں آکر اپنے کام میں زیادہ زور سے لگ جایا کرتا تھا۔ ہاں وہ سکھ گربچن سدھو اپنی ریسرچ کی بڑی ڈینگ مارتا تھا میں ریسرچ سے مایوس ہو کر اس کا خیال بھی چھوڑ بیٹھا تھا۔ مگر اس کی ضد میں، میں نے پرانے موضوع کو تبدیل کرکے نئے موضوع پر کام کرنا شروع کیا اور نو مہینے میں تھیسس مکمل کرکے دے دیا۔" (17)
اس کے بعد وہ لکھنو یونیورسٹی میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے اور اس طرح ان کی دلی آرزو بھرآئی۔ لکھنو یونیورسٹی میں انہوں نے بہت شوق اور محنت سے پڑھایا۔ طالب علم ان کے لیکچر بڑے شوق سے سنتے تھے۔
"میرے سیکشن میں کوئی سواسو لڑکے ہوں گے۔ مگر دوسرے سیکشنوں کے لڑکے۔ باہر کے لڑکے کھڑکیوں تک پر آکر بیٹھ جاتے اور بڑی محو ہو کر میرے لیکچروں کو سنتے۔ میرے لیے یہی منزل جاناں تھی۔" (18) اپنے اساتذہ میں ڈاکٹر صاحب، پروفیسر سدھانت سے بہت متاثر ہوئے۔ لیکن بعد میں جب انہیں پروفیسر سدھانت کے متعصبانہ رویہ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہیں بہت دکھ ہوا۔
احسن فاروقی ایک رحم دل شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہر ایک کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان میں خدمت خلق کا جذبہ بہت تھا۔ اسی مروت اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت انہوں نے امتحانوں کے پرچوں اور کاپیوں میں نہایت غیر ذمہ دارانہ طریقہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
"امتحان کے پرچوں اور کاپیوں میں نہایت غیر ذمہ دارانہ طریقہ پرمحض مروت، محض دوستی میں وہ زبردست بے ایمانیاں کیں کہ پکڑا جاتا۔ تو کہیں کا نہ رہتا۔" (19)
یونیورسٹی میں احسن فاروقی اپنے دوستوں کے لیے کلاسیس لیتا۔ ہر وقت ان کی گاڑی ان کے دوستوں کےلیے حاضر رہیتی تھی۔ لیکن دوست احباب ان کی اس بے لوث خدمت کو بے وقوفی سے تعبیر کرتے تھے:
"میں نے بھی محسوس کیا کہ لوگ مجھے نگاہ سے گرادیتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل الدین نے ڈاکٹر سنہا سے کہا تھا "اگر کوئی احمق بنتا ہے تو کیوں نہ بنایا جائے" میں ان کے تمام درجے پڑھادیا کرتا تھا ۔ اس کے صلے میں ان کی یہ رائے تھی۔ میری موٹر اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ہر فرد کے لیے وقف تھی۔ ہر ایک کو میں اس کے گھر پہنچا دیتا۔ ہر ایک کی ضرورت کے وقت دوڑا دیتا۔ اور اس کے صلے میں میری کارکا نام لوگوں نے "ڈیپارٹمنٹل بس" رکھ لیا تھا۔ میری بے لوث خدمت سے بھی کوئی شکرگزار نہ ہوا۔ بلکہ مجھ کو احمق سمجھا اور میری مشکل میں کبھی کوئی کام نہ آیا۔" (20)
آزادی کے بعد ڈاکٹر صاحب ہندووں کے رویے سے تنگ آکر ۱۹۵۵ء میں پاکستان آئے اور یہاں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں لیکچرار مقرر ہوئے کراچی یونیورسٹی میں انہیں مظفر حسین جیسے لوگوں سے مل کر اندازہ ہوا کہ ان لوگوں کا ایمان صرف اور صرف پیسہ ہے۔ مسیح الدین جیسےلالچی آدمی کی باتوں میں آکر انہوں نے امتحان میں اپنی بیٹی کا پرچہ حل کیا اور بعد میں رازفاش ہونے پر انہیں یونیورسٹی سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا:
"مسیح الدین کےاس جملے پر "دیکھ لیجئےگا، انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں کچھ نہیں ہوتا۔ آپ تو ڈرتے ہیں" میں نے ہاتھ میں قرآن لیا اور سوچا کہ میں مسیح الدین کی بات ہی لوں۔ خدا غفورالرحیم ہے۔ معاف کردے گا۔ اور فوراً لڑکی کی کاپی کو درست کرانے میں اس کے ساتھ ہوگیا۔ میں نے پہلے بھی دوسروں کی امتحان کے سلسلے میں مدد کی تھی۔ مگر اپنے بچوں کے سلسلے میں ایسا کرنا برا سمجھتا تھا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے میرے بچوں کو بری عادت پڑ جائے گی اور آگے چل کر وہ برا نتیجہ بھگتیں گے۔ مگر مسیح الدین کے کہنے میں آکر میں نے اپنی لڑکی کے امتحان کی کاپی میں اس سے لکھوایا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ یہ سب کس خواب یا نشے کے عالم میں کرگیا تھا۔"(21) لیکن احسن فاروقی اس سزا کے لیے تیار تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے غلط کام کیا ہے۔ اور اس کی سزا انہیں مل گئی۔
کراچی یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ان پر مایوسی چھاگئی۔ قریشی صاحب نے انہیں اسلامیہ کالج میں ملازمت دلا دی۔ لیکن وہاں ان کی بھی لوگوں کے ساتھ نہ نبھی۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ مغربی پاکستان کے دورے پر چلے گئے۔ اور پھر ۱۹۶۲ء میں اپنی بہنوں کے پاس لکھنو چلے گئے۔ وہاں انہوں نے دوبارہ لکھنو یونیورسٹی میں لیکچر دینے شروع کئے۔ لیکن اب کی بار انہیں لکھنو کی آب و ہوا راس نہ آئی اور ان کی صحت روز بروز خراب ہوتی گئی۔ چنانچہ اپریل کے مہینے میں ان کی بہن انہیں اسٹیشن پر چھوڑنے آئیں انہیں رخصت کرتے ہوئے بہت روئیں:
"اپریل کے مہینے میں واپس ہوا۔ سترہ دن کی بیماری سے اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ چل بھی نہ پاتا تھا۔ میں نے اپنی بہن سے کہا "کیا معلوم میں اب تم کو نہ دیکھ سکوں۔ میں بہت بیمار ہوں وہ رونے لگی مجھےاسٹیشن پہنچانے آئی تو کس قدر بلک بلک رو رہی تھی۔" (22)
واپس پاکستان آکر انہوں نے پڑھنے کی طرف توجہ دی۔ انہوں نے ادب کو پڑھاوہ کہتے ہیں:
"میں ادب کے لیے بنا تھا۔ ادب میرے لیے اور کسی چیز سے سروکار ہی نہ تھا۔ رام گنگا کےکنارے چھونپڑے میں ادب پڑھتا رہتا۔ گومتی کے کنارے کوٹھی میں ادب پڑھتا رہتا۔ دوسرے کام کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔" (23)
۱۹۶۳ء میں ان کی بہت بیمار ہوئیں ان دنوں احسن فاروقی کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ اس لیے باوجود دلی خواہش کے وہ لکھنو نہ جاسکے۔ اور ان کی بہن ان کا راستہ تکتے تکتے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں:
"ہاں وہ فردوس ختم ہوگئیں۔ وہ تڑپ تڑپ کر ختم ہوگئی۔ اکتوبر ۶۳ء میں خبر آئی کہ وہ سخت بیمار ہے۔ غدودوں کا آپریشن ہوا۔ خون خشک ہونے لگا۔ ٹرانسفیوژن ہوتا تو کچھ دن چل جاتی۔ پھر مجھے دیکھنے کو تڑپتی ہے۔ ہوش میں آتی ہے تو بھیا بھیا پکارتی ہے۔ کیسے جاتا۔ کرائے کے لیے پانچ سو کہاں سےآتے۔ میں نےپیسہ لٹایا۔ مگر اب ضرورت مند تھا۔" (24)
دوسرا اہم کردار اس سوانحی ناول میں احسن فاروقی کی پھوپھی امتہ الفاطمہ(رانی صاحبہ) کا ہے۔ مصنف نے رانی صاحبہ کی سراپا نگاری کچھ یوں کی ہے۔
"اونچی ناک، میری جیسی ناک، بڑی بڑی آنکھیں، چہرہ بہت چھوٹا مگر اس پر رعب بڑا۔ کیا شان ہے۔ اس چہر پر سمجھ میں نہیں آتا۔ رتبہ کی شان، اطمینان کی شان۔ غرض عجیب شان ہے جس کے سامنے مجھے کبھی بدتمیزی کی جسارت نہ ہوئی۔" (25)
رانی صاحبہ نے احسن فاروقی کی پیدائش کے فوراًبعد ہی انہیں گود لیا تھا۔ کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کی طرح انہیں پالا۔ احسن فاروقی لکھتے ہیں:
"وہ میری ماں بھی ہیں اور باپ بھی۔ ہاں ماں سے زیادہ باپ کیونکہ یہی میری کفالت کا ذریعہ ہیں۔ میری ہی نہیں بلکہ میرے ماں باپ کا بھی۔ میرے باپ، بہن کی روٹیوں پر نہ معلوم کب سے پڑے ہیں۔" (26)
رانی صاحبہ کی شادی نو برس کی عمر میں راجہ کاظم حسین خان بلہرہ کے ساتھ ہوئی اس طرح وہ بلہرہ آگئیں۔ ساس کے اثر میں دبی رہیں لیکن جب ساس مرگئی تو رانی بن گئیں پھر بھی میاں کے زور میں تو تھیں۔ لیکن جب میاں مر گئے تو مکمل طور پر بلہرہ ہاؤس کی مالک ہوگئی۔ آپ رحم دل، فیاض اور با اخلاق تھیں تو محض اس وجہ سے کہ ان کے ماحول نے انہیں ایسا بنایا تھا۔ خود غرض بننے کی ضرورت ہی نہ پڑی بے غرضی کی عادت ہوگئی۔ رانی صاحبہ بڑی فراخ دل تھی۔ ان کی یہ فراخ دلی سب کے لیے تھی۔ نوکر، چاکر سب ان سے خوش تھے۔ سب کا خیال رکھتی تھیں۔ سب خاندان والوں پر ان کا رعب تھا۔
رانی صاحبہ موت سے بہت ڈرتی تھیں وہ ایک مذہب پرست عورت تھیں۔ اپنی کوٹھی میں مجالس کراتیں۔ اور ان مجالس پر خوب پیسہ خرچ کرتیں۔ رانی صاحبہ جب مرنے لگیں تو آخری وقت تک ان کی زبان پر سورۃ یٰسین کی آیات تھیں۔ سورۃ یٰسین کا دور کرتے ہی وہ ۱۹۳۹ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
احسن فاروقی نے اس ناول میں اپنے والد کی شخصیت کو کھل کر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت لالچی تھے۔ دولت کی لالچ میں آکر انہوں نے انہیں رانی صاحبہ کے حوالے کیا۔ اور پھر اسی لالچ میں ان کی شادی کرادی۔ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ان میں بناوٹ، مکر، دکھاوا ہے۔ ہزار دانوں کی تسبیح ان کے ہاتھ میں لپٹی ہوئی ہے۔ بڑے عبادت گزار ہیں۔ مگر مکار "رسول اللہ کا قول ہے کہ دنیا مکر سے حاصل ہوتی ہے۔" مجھ کو اگر انہوں نے کوئی ہدایت کی تو یہ "احمق والدین لڑکوں کے لیے نعمت نہیں ہوتے" ان کے ایک دوست نے مجھ سے کہا تھا۔ میں ان کو بہت چاہتا تھا۔ شاید ان سے زیادہ کسی کو نہ چاہا مگر انہوں نے مجھے سودا بنایا۔ بہن کےہاتھ بیچ ڈالا اور پھر قلیل رقم کی لالچ میں میری شادی کردی۔ میری زندگی پر عجیب ضرب لگائی۔ میں اسی ضرب سے اب تک چکرایا ہوا ہوں۔ میں اب انہیں بالکل نہیں چاہتا۔" (27)
احسن فاروقی کے والد کو نظم لکھنے میں بڑا ملکہ حاصل تھا۔ وہ فارسی میں اچھے قصیدے لکھتے تھے۔ انہیں شیعہ سنی مباحث کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ احسن فاروق لکھتے ہیں:
"بڑی والدہ کو وہ بہت چاہتے تھے۔ میری ماں سے کوئی لگاؤ نہ تھا میری ماں کو تو ان سے بڑی ہی نفرت تھی۔ اپنے تمام بچوں میں وہ مجھے سب سے زیادہ چاہتے تھے۔" (28)
عورتوں کے رسیا تھے اور ایک عورت ہی کی وجہ سے ان کی نوکری چلی گئی تھی:
"والد کی ملازمت چھوڑ کر بہن کےگھر آپڑنے کا قصہ میری سوتیلی والدہ بیان کرتی تھیں "ہم لوگ بڑے اطمینان سے تھے۔ کٹھیوں میں اناج تھا۔ کتنے طوطے مینائیں، بکریاں، بھینس، گائیں تھیں۔ بی منہاری کا خدا بھلا کرے۔ میاں اسے دبوچ بیٹھے اس کا شوہر تھااس نے دعویٰ کردیا۔ انگریز نے کہا۔ صاحب آپ کی بڑی بدنامی ہوگی۔ آپ بڑی خاندان کے آدمی ہیں۔ استعفیٰ دے دیجئے۔ تو استعفیٰ دے دیا۔" (29)
احسن فاروقی کی ماں ان کی والد احمد حسن کی تیسری بیوی تھیں جو ان سے اکتالیس سال چھوٹی تھیں۔ احسن فاروقی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
"میری ماں میرے والد سے اکتالیس برس چھوٹی تھیں۔ والد ان کے باپ سے بھی آٹھ برس بڑے تھے۔ ان کے یہاں ایک لڑکا ہوا جو نوبرس کا تھا۔ کہ مرگیا۔ پھر دو لڑکیاں جو جڑواں ہوئیں وہ بھی مرگئیں۔ پھر میں ہوا اور میرے آٹھ برس بعد بہن ہوئی۔ وہ مجھے بہت چاہتی تھی۔ اور بہن کو تو ہر وقت کلیجے سے لگائے رہتی تھیں۔ آخری زمانے میں وہ ہر روز ہی میرے گھر سے میری بہن کے گھر آیا جایا کرتی تھیں ان کا دم بھی آدھا میری بہن کے گھر نکلا اور آدھا میرے گھر۔ ان کے مرنے پر میں کس قدر رویا تھا۔" (30)
ماں کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بچے اچھی زندگی گزاریں۔ اس لیے انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر ڈاکٹر صاحب کو پھوپھی کے حوالے کیا۔ وہ اپنی بیٹی کو بھی رانی بنانا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے راجہ ساجد حسین آف کٹوارہ سی ان کی شادی کرکے ہی دم لیا۔
رحمت الفاطمہ احسن فاروقی کی چھوٹی بہن تھیں۔ جو ان سے آٹھ برس چھوٹی تھیں۔ احسن فاروقی کی ماں انہیں بھی رانی بنانا چاہتی تھی اس لیے انہوں نے بچپن ہی میں رانی بلہرہ صاحبہ کے حوالے کیا۔ وہ ان کی کوٹھی میں رہنے لگیں۔ وہاں کے شیعہ ماحول میں وہ بھی احسن فاروقی کی طرح شیعہ بن گئیں۔ ان کی ماں ان کی شادی کسی راجہ کے ساتھ کرانا چاہتی تھی جس کے لیے آخر کار راجہ ساجد حسین آف کٹوارہ کو پھانس ہی لیا۔ رحمت الفاطمہ کا کردار ایک عام گھریلو لڑکی کا ہے۔ والدین جو ان کے لیے چاہتے ہیں جو کہتے ہیں وہ کرتی ہیں اسی وجہ سے وہ شادی کے بعد پریشان رہتی ہیں:
"وہ روتے روتے غصہ کرنے لگی اور رتھ میں منے میاں کی طرف رخ کرکے میرے اوپر برس پڑی" آپ میرے بھائی، اکیلے بھائی، آپ کو معلوم نہیں تھا۔ مجھ کو یہاں جھونک دیا۔" (31)
راجہ کے گھر میں ان کی اہمیت تب پیدا ہوتی ہے جب ان کا بیٹا پیدا ہوجاتا ہے۔ ماں بننے کے بعد وہ راجہ کے گھر کی مکمل رانی بن جاتی ہے۔
راجہ سید ساجد حسین آف کٹوارہ مٹتی ہوئی تہذیب کانواب ہے جو ایک ترک شہزادی سے شادی کرتا ہے۔ بعد میں وہ شہزادی اس کا سب کچھ لوٹ کر واپس اپنے وطن بھاگ جاتی ہے۔ پھر وہ امتہ الفاطمہ سے شادی کرتا ہے۔ لیکن ہر وقت غصہ اسکے سر پر سوار رہتا ہے۔ بات بات پر اپنی بیوی کو ڈانٹتا ہے اور مارنا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ لیکن بیٹے کی پیدائش کے بعد وہ راہ راست پر آجاتا ہے۔ اور پھر معمول کی زندگی گزارتا ہے۔
"دل کے آئینے میں" ایک سوانحی ناول ہے، اور مصنف نے شعور کی روکی تکنیک کے استعمال سے بیانیہ انداز میں اپنی کہانی بیان کی ہے۔ اس لیے ناول میں مکالمے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جہاں تک منظر نگاری کا تعلق ہے تو اس ناول میں احسن فاروقی نے بہترین انداز سے منطر کشی کی ہے۔ مثلاً "ریل چلی جارہی ہے، ڈبہ ہلے جارہا ہے، دن چلتا جارہا ہے۔ لمبے لمبے درخت نظر آنے لگے، یہ درخت میرے وطن کے درختوں سے زیادہ لمبےہیں۔ پنجاب کےآدمیوں کی طرح درخت بھی لمبے ہوتےہیں۔ ہرے ہرے کھیت، نہریں اور لمبے لمبے درخت گزرتے جارہے ہیں۔ غروب کا وقت آجاتا ہے۔ میں کتاب بند کرکے فضاء کو دیکھ رہا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے گاوں چرتے ہوئے مویشی، ان کا ہنکاتے ہوئے آدمی، موٹی موٹی دیہاتی عورتیں، سب گزرتے چلے جارہے ہیں۔" (32)
اس طرح ایک اور منظر ملاحظہ ہو جس سے ان کی بہترین منظر نگاری کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
"ریل پھر چلی۔ گنگا پارکرگئی۔ یہ کیسی کیسی بھینی بھینی ہوا ہے۔ میں اس میں سانس لینے کے لیے بے قرار تھا۔ اب قرار آگیا۔ میں جنت میں آگیا ہوں۔ سورج بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔ جنت میں ایسی ہی روشنی ہوگی۔ برکھارت آچکی ہے۔ کچھ کھیت بوئے ہوئے پڑے ہیں کچھ میں فصل کھڑی نظر آرہی ہے۔ ہر طرف ہریالی ہے۔ دوسرے گہرے سبز پیڑوں کا دائرہ آسمان سے ملا ہوا، آسمان پر تصویر کی طرح کھینچا ہوا۔ کہیں کہیں گائیں بھینس چرتی ہوئی کبھی کبھی گھنے درختوں کا ایک باغ پاس سے گزرجاتا ہوا۔ گاؤں کے بعد گاؤں جلدی جلدی آتے اور گزرجاتے ہوئے۔" (33)
اس ناول میں احسن فاروقی نے سادہ زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے اس ناول میں انگریزی، فارسی، عربی اور اردو کے اقوال واشعارکے استعمال سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ملٹن، براوننگ، شیکسپئیر، گوئٹے، عرفی، شیلے،حافظ، غالب اور اقبال کے حوالے دے کر اپنے مختلف زبانوں پر عبور کا احساس دیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ناول میں بعض جگہوں پر فلسفیانہ خیالات کے اظہار سے ناول میں ایک بوجھل پن آگیا ہے۔جس سے قاری اکتا جاتا ہے۔
اس ناول سے ہمیں احسن فاروقی کے سوانحی حالات کے علاوہ ان رسموں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ جو لکھنو نوابین کے ہاں ہوا کرتی تھیں۔ مصنف رانی صاحبہ کی کوٹھی کے اندر ہونے والی رسومات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"ساری زندگی رسموں ہی رسموں سے بھری ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا جو کوئی رسم نہ ادا ہوتی ہو۔ ہرہندوانی تہوار کے دن کوئی نہ کوئی رسم ہوتی۔ جو موسم کی تبدیلی یا فصل کی کٹائی سے متعلق ہو۔ ہولی سے ملا ہوا نوروز تھا۔ جس میں رنگ کھیلا جاتا تھا۔ اور نوروز کا دسترخوان ہوتا تھا۔ ہر فصل کے کٹنے پر "ہنا" ہوتا۔ ۔۔۔۔۔ پھر اسلامی رسمیں، عید بقرعید، محرم، رمضان اوران کے علاوہ شعیہ مذہب کے مخصوص رسمیں ہر امام کی پیدائش پر مولودوفات پر مجلس اور پھر ہر ایک کی سالگرہ۔ ہر نئے پھل آنے پر مخصوص رسم اور حصے بٹنا۔ ہر جمعرات کی مجلس ہر روز ایک شوروشعب رہتا۔ اب وہ تمام رسمیں یاد نہیں۔" (34)
مصنف نے ان رسموں کا ذکرکرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان رسموں پر نوابین لکھنو پانی کی طرح پیسہ بہاتے تھے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے لکھنو کے تو ہم پرستانہ ذہنیت کی بھی عکاسی کی ہے۔

"جنت میں پہنچنے کے لیے دوزخ سے گزرنا ضروری ہے۔ پل صراط، بال سے زیادہ باریک تیغ سے زیادہ تیز، جن کے اعمال خراب ہونگے وہ کٹ کرنیچے جہنم میں گرجائیں گے۔ جو عید قربان کے دن قربانی کرتے ہیں۔ وہ بکرے پر بیٹھ کر نکل جائیں گے۔۔۔۔۔۔ شارٹ کٹ۔ مذہب جنت کے شارٹ کٹ بناتا ہے۔ نہ جاننے کی ضرورت نہ ماننے کی ضرورت نہ برتنے کی ضرورت۔ یہ سب مشکل کام ہیں صرف زبان سے چند الفاظ دہرادو اور جنت کا پاسپورٹ مل گیا۔ کھل جا سم سم اور کثیر خزانہ سامنے آگیا۔ گدھوں پر لادلاد کر گھر لے جاؤ۔ خوب خرچ کرو۔ آرام طلبی، Unbeding Teruh عام آدمی کے لیے یہی حاصل زندگی ہے۔ اور یہی حاصل عقبیٰ۔ جناب تجری من تحتہ الانہار خالدین فیہا ابدً" (35)
اس ناول میں انہوں نے جدید تعلیم یافتہ لڑکوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے:
"ہماری تعلیم یافتہ لڑکی کا کردار یہ ہے کہ وہ ڈگری رکھتی ہے انگریزی جانتی ہے۔ جہاں انگریزی بولنے کی ضرورت ہو وہاں غلط اردو بولتی ہے اور جہاں اردو بولنے کی ضرورت ہو وہاں غلط انگریزی بولتی ہے۔ تعلیم کے پہلے درجے یعنی خودبینی سے وہ آگے نہیں بڑھی ہے۔ یا پڑھی ہے تو اتنی کہ بے تکان خود نمائی پر آگئی ہے اور یہ سب جب تک چلتا ہے جب تک کوئی مالدار شوہر نہ مل جائے۔ اور ادھر وہ ملا اور ادھر ساری فنکاری ختم۔" (36)
اس کے علاوہ انہوں نے ناول میں ان یونیورسٹی پروفیسروں کے چہروں سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی ہے جو سفارش پر لوگ منتخب کرتے ہیں۔ اور میرٹ پر فیصلے نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
"جب میں نے جوائن کرلیا تو سدھانت کو عجیب طرح برہم پایا۔ میں سمجھتا تھا کہ اس کی طرفداری یا سفارش کے بغیر میرا ہونا ناممکن تھا مگر اب کھلا کہ معاملہ اور ہی کچھ تھا۔ راجہ شیشر دیال سیٹھ سے میری سفارش مہاراجہ اعجاز رسول جہانگیر آباد نے کی تھی۔ ان کی بات وہ ٹال نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ ان ہی کے اثر سے وائس چانسلر ہوئے تھے۔ اور آگے پھر ہونے کی امید رکھتے تھے۔ ان کو دکھانا چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے طرفدار ہیں ادھر سدھانت خود وائس چانسلری کے خواب دیکھ رہا تھا اور جسٹس راکم کمارورما کو خوش کرنے کے لیے ان کے لڑکے نریش کمار ورما کو رکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ راجہ شیشر دیال نے میرے لیے گھٹنے ٹیک دیے اور سدھانت کو ان کی بات ماننا پڑی۔" (37)
اگرچہ یہ ایک سوانحی ناول ہے۔ لیکن پھر بھی احسن فاروقی نے لکھنو کے حالات، واقعات اور نوابین لکھنو کی تنزلی کے اسباب بہت ہی اچھے انداز میں بیان کیے ہیں۔
اس ناول کے بارے میں ڈاکٹر ممتاز احمد لکھتے ہیں:
"اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے تخلیقیت اور تخیل کے حسین امتزاج سے اپنی زندگی کو فکشن بنادیا۔ جو مصنف کی طرح کے معاشرے میں موجود ہر شخص کی کہانی ہوسکتی ہے۔ اسے ہم ناستلجیا کی کیفیت کے روبرورکھ کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم یہ عنصر نہ تو غالب ہے اور نہ مقصود بالذات، ویسے مصنف کا یہ ناول خود سوانح ناول کی کمزور روایت کے باوجود اس اعتبار سے خوش آئندہ ہے کہ اس میں تکنیک کا تجربہ ملتا ہے۔ ساتھ ہی زندگی کو فکشن میں تبدیل کرنے کا فن بھی جو کہ اس قبیل کے ناولوں کے لیے لازمی ٹھہرتا ہے۔" (38)

حواشی
۱۔         آزادی کے بعد اردو ناول                 ص: ۱۸۸
۲۔         اردو ناول آزادی کے بعد                 ص: ۱۸۹
۳۔         "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" قسط نمبر۴ شمارہ نمبر ۱۶                ص: ۳۰۴
۴۔         قرۃ العین حیدر اور ناول کا جدید فن                                                   ص: ۱۷
۵۔         "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۶                               ص: ۱۹۰
۶۔         "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۰۹
۷۔         "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۴                               ص: ۱۸۵
۸۔         "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۷                               ص: ۳۲۷
۹۔         "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۵                               ص: ۷۶۰
۱۰۔       ایضاً
۱۱۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۵                               ص: ۷۶۱
۱۲۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۴                               ص: ۱۹۲
۱۳۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۱۹
۱۴۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۶                               ص: ۳۱۰
۱۵۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۷                               ص: ۳۲۲
۱۶۔       ایضاً
۱۷۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۷                               ص: ۳۳۰
۱۸۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۸                               ص: ۲۸۶۔۲۸۷
۱۹۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۹                               ص: ۲۸۵
۲۰۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۹                               ص: ۲۸۶
۲۱۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۹                               ص: ۲۹۸
۲۲۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۲۰                               ص: ۲۹۱
۲۳۔       ایضاً
۲۴۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۲۰                               ص: ۲۹۶
۲۵۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۰۵
۲۶۔       ایضاً
۲۷۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۱۱
۲۸۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۱۶
۲۹۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۴                               ص: ۱۹۰
۳۰۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۱۵
۳۱۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۸                               ص: ۲۸۱
۳۲۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۳                               ص: ۳۰۷
۳۳۔       ایضاً
۳۴۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۴                               ص: ۱۸۰
۳۵۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۶                               ص: ۲۹۴
۳۶۔       ایضاً                                                                                          ص: ۲۹۹
۳۷۔       "دل کے آئینے میں" مشمولہ"سیپ" شمارہ نمبر ۱۹                               ص: ۲۸۴
۳۸۔       آزاد کے بعد اردو ناول                                                                   ص: ۲۶۱

کتابیات

۱۔         اسلم آزاد ڈاکٹر                  اردو ناول آزادی کے بعد                 سیمانت پرکاش نئی دہلی ۱۹۹۰ء
۲۔         عبدالسلام پروفیسر                        قرۃ العین حیدراورناول کاجدیدفن       اردو پبلی کیشنر لکھنو ۱۹۸۵ء
۳۔         ممتاز احمد خان ڈاکٹر         آزادی کے بعد اردو ناول                 انجمن ترقی اردو پاکستان ۱۹۹۷ء

رسائل

۱۔         سیپ                              کراچی                           شمارہ نمبر۲،۴،۷،۸،۳۱تا ۲۰،۲۶،۹۲          

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com