مالک رام ۔۔۔۔ ابوالکلام آزاد کا ایک محقق
اطہر قسیم صدیقی
Abstract
“Malik Raam Shines like a star in a galaxy of Urdu critics. He possessed Matchless command over principles of research. He compiled writings of Molana Abu al Kalam Azad. The articles of Malik Raam about the writings of Azad prove that he was not only the lover of Molana Azad but he was a great critic of him. In this article, the critical works of Malik Raam about Azad’s writings have been analyzed”.
مولانا ابوالکلام آزاد کی حیات اور ان کے علمی و ادبی کارناموں پر ان کی بہت سے نیاز مندوں نے بہت کچھ لکھا۔ مختلف رسائل و جرائد ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتے ہیں۔ بے شمار تقاریب میں ابوالکلام آزاد پر مقالے بھی پڑھے گئے۔ بہت سے رسائل نے ابوالکلام آزاد نمبر بھی نکالے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد کے علمی کارناموں سے متاثر ہوکر ذوق خالص کی راہنمائی میں جن حضرات نے قلم اٹھایا ان میں مالک رام کو ایک خاص اور اہم مقام حاصل ہے۔ اگر مالک رام کی مرتب کردہ مولانا آزاد کی تصنیفات اور مالک رام کے قلم سے ان کے اعزاز میں لکھے گئے مقالات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مالک رام مولانا ابوالکلام آزاد کے معتقد نہیں بلکہ محقق ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے کلام کی تدوین جدید کرنے کے پیچھے جو چیز کار فرما تھی وہ درحقیقت مالک رام کی عربی زبان سے واقفیت اور اسلام کا گہرا مطالعہ ہے۔ ۱۹۶۵ء میں جب مالک رام سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو ساہتیہ اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے انہیں ساہتیہ اکیڈمی میں بطور ایڈیٹر ( اُردو) کام کرنے کی پیشکش کی جسے آپ نے اپنی فراغت کا سد باب سمجھتے ہوئے قبول کرلیا۔ اسی سال مولانا ابوالکلام آزاد کی تصانیف کی تدوین جدید کا فیصلہ ہوا تو یہ کام مالک رام کے سپرد کردیا گیا۔ کیونکہ یہ اس قدر عرق ریزی کا کام تھا کہ شاید مالک رام کے سوا کوئی اور اسے کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ مالک رام کی مشکل پسند طبیعت نے اس دشوار کام کو بھی ہنس کر قبول کیا اور ابوالکلام آزاد کے کام کی تدوین کا کام شروع کردیا۔
مالک رام نے مولانا آزاد کے حوالے سے جو کام کیے ان میں مولانا کی حسب ذیل کتابوں کی تدوین شامل ہے۔ یہ تمام کتابیں ساہیتہ اکیڈمی نئی دلی نے ازسر نو شائع کیں۔ ترجمان القرآن کی جدید سائنٹفک انداز میں ترتیب و تدوین کی گئی لیکن چونکہ اس کتاب کی تدوین سے مالک رام کا بہت زیادہ تعلق نہیں تھا لٰہذا ان کتابوں کے متعلق جائزہ پیش کیا جاتا ہے جن کی تدوین مکمل طور پر مالک رام نے کی۔
غبار خاطر:
یہ کتاب ابوالکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے اس سب سے پہلے خود مولانا آزاد نے اپنی زندگی میں شائع کروایا۔ اس کتاب میں جتنے بھی خطوط ہیں وہ سب کے سب نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے نام لکھے گئے ہیں۔ یہ خطوط مولانا آزاد نے اس وقت لکھے جب وہ قلعہ احمد نگر میں قید کاٹ رہے تھے۔ "غبار خاطر کے پہلے دو ایڈیشن حالی پبلشنگ ہاوس دلی نے مئی اور اگست ۱۹۴۶ء میں شائع کیے تھے"۔(۱) پھر اس کتاب کو غیر قانونی طور پر بھی چھاپا گیا۔
غبار خاطر ابوالکلام آزاد کی وہ کتاب ہے جسے بہت زیادہ قبول عام حاصل ہوا۔ اس میں موجود خطوط میں ادب فلسفہ، نفسیات، علوم و فنون اور آزاد کی ذاتی سوانح اور حالات سے متعلق بہت سے مضامین ہم تک پہنچتے ہیں۔ مولانا نے ان خطوط میں اتنی سادہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے کہ مالک رام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔
"اگر ہم پورے مجموعے پر نظر ڈالیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ زبان و بیان کے لحاظ سے مولانا کے اسلوب و نگارش کا نقطہ معراج غبار خاطر ہے۔ اس کی نثر ایسی نپی تلی ہے اور یہاں الفاظ کا استعمال اس حد تک افراط و تفریط سے بھری ہے کہ اس سے زیادہ خیال میں نہیں آسکتا"۔(۲)
جناب مالک رام غبار خاطر کی زبان اور اسلوب تحریر کا جائزہ نہایت وقت نظر سے لیا ہے۔ اس کے ساتھ متن کے خصائص پر بھی گہری نظر ڈالی ہے اور اس کتاب کے علمی و افادی پہلووں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس کتاب کی کتابت و طباعت تو اس سے بہتر ہوسکتی تھی لیکن اس کی تدوین و ترتیب میں متن کی صحت کا جو اہتمام مالک رام نے کیا ہے اس کی مثال شاید کہیں نہ مل سکے۔
ابوالکلام آزاد نے اپنی اس کتاب میں جہاں نثر کے بہترین جوہر دکھائے ہیں وہاں اردو فارسی کے اشعار اور آیات قرآنی سے بھی اسے مزین کیا ہے۔ مالک رام نے تدوین کے دوران اس میں شامل آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کی تخریج میں بڑی محنت کی ہے لیکن اصل محنت وہاں درکار تھی جہاں مالک رام کو اردو اور فارسی اشعار کے حوالے تلاش کرنا تھے۔ اس سلسلے میں مالک رام خود لکھتے ہیں: "غبار خاطر کی ترتیب میں مجھے سے زیادہ وقت مختلف کتابوں اور اشعار کے حوالوں کی تلاش میں ہوئی"۔(۳) "غبار خاطر" آزاد کی بہترین علمی اور فنی تحریروں کا مجموعہ ہے لیکن ہر کوئی اس سے استفادہ یا اس کے فیضان سے مستفید نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ مشکل بھی مالک رام نے اس کتاب کے حواشی تحریر کرکے حل کردی۔
دوسرے ایڈیشن (۱۹۸۳)ء میں حواشی کی تحقیق و جامعیت میں اور اضافہ ہوگیا۔ اب یہ حواشی غبار خاطر کے متن کا حصہ ہیں اور اس طرح مالک رام کے مرتب کردہ ایڈیشن کو اگر غبار خاطر کا مکمل ترین ایڈیشن قرار دیا جائے تواس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔
کتاب کے آخر میں "کتابیات" کے عنوان سے ان تمام کتابوں کی فہرست بھی شامل کردی گئی جو مختلف زبانوں میں ہیں اور جن سے مالک رام نے استفادہ کیا تھا۔ مالک رام کا یہ کارنامہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور "غبار خاطر" کے مطالعے سے خوش ہونے والا مرتب کے حسن ذوق کی داد ضرور دے گا۔ مالک رام نے "غبارخاطر" کے شروع میں ایک دلاآویز مقدمہ بھی تحریر کیا ہے یہ کتاب سہیتہ اکیڈمی کے سلسلہ اشاعت میں مولانا آزاد کی جملہ تصانیف کا دوسرا حصہ ہے۔
تذکرہ:
مالک رام کی مرتب کردہ دوری کتاب "تذکرہ" ہے جو ساہیتہ اکیڈمی سے پہلی مرتبہ ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مالک رام کا پیش لفظ اور حواشی بھی شامل ہیں۔ اس کتاب کی تدوین و ترتیب نو کے وقت مالک رام کے پیش نظر "تذکرہ" کا وہی نسخہ تھا جو ابوالکلام آزاد کے پاس ہوا کرتا تھا۔ مالک رام اس نسخہ کے بارے میں لکھتے ہی:
"انہوں نے عبارت میں، طرز کتابت میں اصلاحیں کی ہیں بلکہ دو ایک جگہ عبارت گھٹا بڑھا بھی دی۔ یہ تبدیلیاں کئی لحاظ سے اہم اور نتیجہ خیز ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب اس زمانے میں لکھی تھی جب ان پر عربی کا بہت غلبہ تھا۔ چنانچہ آپ کو عربی رسم الخط کے مطابق پہلے ایڈیشن میں ہر جگہ سنتہ، نبوہ، نعرۃ، جیسے لفظ ہی ملیں گے۔ یقیناً انہوں نے مسودے میں اسی طرح لکھا ہوگا جس کی طباعت میں بھی پیروی کی گئی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مطبوعہ نسخے میں بیشتر پورا لفظ سنت، نبوت، نصرف وغیرہ بنا دیا۔ ایک آدھ جگہ ان کی نگاہ چوک گئی تو چونکہ ان کا اصول معلوم ہوگیا تھا، یہ کمی میں نے پوری کردی ہے"۔(۴)
تذکرہ کے حواشی ۱۴۰ صفحات پر مشتمل ہیں جس میں نہایت تحقیق اور تلاش کے بعد مالک رام نے اردو فارسی اور عربی کے شعرا اور ان کے کلام کی نشاندھی کی ہے۔ اشخاص کا مختصر تعارف کروایا ہے اور جو باتیں تشریح طلب تھیں ان کی خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہے۔ مالک رام کی اس محنت اور لگن ہی کا اعجاز ہے کہ اب اس ایڈیشن کی اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔
فہارس (۱) فہرست اعلام (۲) فہرست بلادوا ماکن (۳) فہرست آیات قرآنی واردہ متن (۴) فہرست احادیث واردہ متن (۵) فہرست کتب واردہ متن اور (۶) فہرست مآخذ حواشی درج ہیں۔(۵)
ان فہارس کو دیکھ کر مالک رام کے شوق تحقیق کی شدت اور اس کے معیار مطالعے اور نظر کی گہرائی کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ "غبارِ خاطر" کی تدوین و ترتیب کی یہ کام بھی مالک رام کو اردو ادب کی تاریخ تصنیف اسلوب نگارش اور ادبی و علمی حیثیت سے متعلق بحث کی ہے۔
ڈاکٹر ابوسلیمان شاہ جہاں پوری "تذکرہ" کی تدوین کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
"تذکرہ ایسی ہی تصنیف ہے جس کا فیضان کیس خاص زمانے تک محدود نہیں جب تک اردو زبان باقی ہے اور ادب کا ذوق مفقود نہیں ہو جاتا اس کے مطالعے سے کیف و سرور حاصل کیا جاتا رہے گا اور جب تک باغ انسانیت کو اپنی سرسبزی و شادابی کیلئے حق و صداقت کے پانی کی تہہ انسانیت کی خدمت اور اس کی حیات تازہ کیلئے اصحاب عزم و ایثار کی ضرورت پیش آتی رہے گی اور حق و انسانیت کی خدمت کیلئے ذوق کی تربیت اور سیرت کی تشکیل کی ضرورت باقی رہے گی۔ تذکرہ کا مطالعہ ناگزیر ہوگا اور آزاد کے ساتھ مالک رام کا نام بھی زندہ رہے گا"۔ (۶)
خطباتِ آزاد:
سہیتہ اکیڈمی نے ابوالکلام آزاد کی تصانیف کا جو سلسلہ شروع کیا اُس کی آخری کتاب "خطاباتِ آزاد" ہے۔ یہ کتاب مولانا آزاد کے مختلف خطابات پر مشتمل ہے جو اُنہوں نہ ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کے عرصے کے دوران مختلف مقامات پر دیئے اس قدر طویل مدت پر پھیلی ہوئی تحریروں کو یکجا کرنا بہت مشکل کام تھا۔ لیکن مالک رام کو ہمیشہ یہ اعزاز حاصل رہا کہ تحقیق کے میدان میں اُن کی بلند ہمتی ہمیشہ سر بلند رہی اور اُنہوں نے مشکل سے مشکل کام کو بھی آسان بنادیا۔ یہی وجہ ہے خطباتِ آزاد کو ازسرِ نو مرتب کرنے کا سہرا بھی مالک رام کے ماتھے پر سجا۔
مولانا ابوالکلام کے یہ تمام خطابات علمی لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اُن سے جہاں مولانا کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے وہاں یہ اُن کے فکرو عمل کی نشاندھی بھی کرتے ہیں۔ بکھرے ہوئے خطابات کو یکجا کرنے کی کاوش مالک رام کی طرف سے مولانا آزاد کے معتقدین کے لئے ایک انعام ہے۔ مولانا آزاد کے خطابات کو بہت سے اداروں نے وقتاً فوقتاً کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ خاص طور پر اُن کی وہ تقریریں جو اُنہوں نے بحیثیت وزیر تعلیم کی تھی
کے نام سے چھپ چکی ہیں۔ “Speaches of Moulana Azad”
شورش کاشمیری نے بھی خطباتِ آزاد کے نام سے مجموعہ مرتب کیا۔ ایم ثناء اللہ کا مرتب کردہ مجموعہ "خطبات ابوالکلام آزاد" بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں کل نو تقاریر و خطباتِ صدارت شامل ہیں لیکن مالک رام کے مرتب کردہ مجموعے میں آٹھ مزید تقاریر شامل کی گئی ہیں۔ یہ اضافہ بہت اہم ہے۔(۷)
"غبارِ خاطر" اور "تذکرہ" کی طرح اس مجموعے کی تدوین میں بھی مالک رام نے صحتِ متن کا خاص اہتمام کیا ہے۔ نہایت محققانہ حواشی تالیف کیے ہیں اور سب سے اہم چیز جو اس کتاب میں شامل ہے وہ مالک رام کا "مقدمہ" ہے۔ اس میں مالک رام نے خطابت کی تاریخ، غایت، اس کے عناصر ترکیبی، مولانا کے ذوقِ خطابت کی ترتیب اور اس فن میں مولانا کے خصائص، نیز خطبات کی علمی حیثیت کا جائزہ لیا ہے۔
مالک رام اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ اُن کے کام کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے لئے ساہیتہ اکیڈمی جس معتبر ادارہ میسر آیا اور اُردو ادب کو یہ ناز ہے کہ اُسے اس اہم کام کے لئے مالک رام جیسا کہنہ مشق اور معتبر محقق مل گیا۔
"کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں" (ازمالک رام)
مالک رام نے مولانا ابوالکلام آزاد پر کئی ایک مقالے بھی لکھے جس میں مولانا کی زندگی اور اُن کی تصانیف سے متعلق مواد موجود ہے۔ جون ۱۹۸۹ء میں مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے ان تمام مقالات کو ایک کتابی شکل میں شائع کردیا اور اس کا نام "کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں" رکھا۔ اس کتاب میں "پیش گفتار" کے عنوان سے ۱۷ صفحات پر مشتمل ایک دیباچہ بھی شامل ہے جسے مالک رام نے یکم جون ۱۹۸۹ء کو تحریر کیا۔
فہرستِ مضامین میں کل گیارہ مضامین دیے گئے ہیں جن کی ترتیب حسب ذیل ہے:
۱۔ مولانا آزاد کی تاریخ ولادت
۲۔ مولانا ابوالکلام آزاد (پہلے بیس سال)
۳۔ مولانا آزاد بحیثیت صحافی
۴۔ مولانا آزاد کے خطبات
۵۔ مولانا آزاد کے خطبات
۶۔ تحریک آزادی کی مذہبی بنیاد (افکار آزاد کی روشنی میں)
۷۔ غالب اور ابوالکلام آزاد
۸۔ غبارِ خاطر
۹۔ تذکرہ
۱۰۔ کچھ کرنے کے کام
۱۱۔ ابوالنصر غلام یاسین آہ
یہ تمام وہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں تزک و احتشام کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی میں مالک رام کو اُن کے بہت قریب رہنے کا موقع میسر آیا۔ اُن کی وفات کے بعد یہ ایک قدرتی امر تھا کہ وہ مالک رام کی توجہ کا مرکز بنے۔ اس سلسلے میں مالک رام نے مولانا آزاد پر جو پہلا مضمون لکھا، وہ تھا "مولانا آزاد کے احسانات اُردو ادب پر"۔ یہ فروری، مارچ ۱۹۵۹ء ک ماہنامہ "صبا" حیدر آباد کے آزاد نمبر میں شائع ہوا۔ "صبا" نے ۱۹۵۸ء میں مولانا کی وفات پر اُن کے نام سے منسوب ایک خاص نمبر نکالنے کا موضوع پر مفصل مضمون تحریر کیا جو "ابوالکلام آزاد احوال و آثار" مرتبہ مسعود الحسن عثمانی (لکھنو؛ ۱۹۷۷ء) میں شامل ہے۔ مالک رام کا یہی مضمون ہفت روزہ "ماحول" کراچی کے مولانا آزاد نمبر ۱۹۶۰ء میں بھی شائع ہوا۔
۱۹۶۷ء میں "غبارِ خاطر" کے عنوان سے ایک مضمون "تحریر" دہلی میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں آزاد کی شہرہ آفاق کتاب "غبارِ خاطر" کے متعلق مفصل بیان ملتا ہے۔ "تحریر" ہی کے ۱۹۶۸ء کے شمارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کے عنوان سے ایک مضمون چھپا۔ مالک رام نے اس میں بھی آزاد کی شخصیت کے بہت سے پہلو اجاگر کئے ہیں۔ "تحریر" کے ۱۹۶۸ء ہی کے شمارے میں مالک رام کا مضمون "مولانا آزاد پہلے بیس سال" شائع ہوا۔ یہ خاصا طویل مضمون تھا۔ اس میں ابوالکلام آزاد کے آباو اجداد، اُن کی ابتدائی زندگی کے حالات پر بہت سیر حاصل اور مدلل بحث کی گئی ہے۔ مالک رام نے یہ مضمون لکھتے وقت فن تحقیق کے اصولوں کا خاص طور پر خیال رکھتے ہوئے واقعات کی مکمل چھان بین کرکے اُنہیں یہاں رقم کیا ہے۔
دہلی میں شائع ہونے والے رسالے "صبح" کے آزاد نمبر ۱۹۷۰ء میں مالک رام کا ایک اور مضمون "مولانا آزاد صحافی اور ادیب" شائع ہوا۔ یہ بھی خاصا مدلل اور واقعات کی صحت کے لحاظ سے کافی معتبر مضمون ہے۔ اس میں مالک رام نے مولانا آزاد کی صحافتی سرگرمیوں کا ذکر بہت تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ مولانا کس سن میں کس اخبار یا رسالہ کے ساتھ منسلک رہے اور کب اس سے علیحدگی اختیار کی؟ یہ سب کچھ اس مضمون میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں مولانا آزاد کو بطورِ ادیب کے پیش کرکے مالک رام نے اس کی اہمیت بہت بڑھادی ہے۔
یہ تمام مضامین "کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں" میں موجود ہیں۔ کتاب میں تمام مضامین ابوالکلام آزاد کے متعلق ہیں جبکہ آخری مضمون اُن کی بھائی غلام یاسین آہ پر لکھا گیا ہے۔ اس میں "آہ" کے متعلق بہت سی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
کتاب کے آخر میں مالک رام نے اردو غزلیات اور بہت سی اصنافِ سخن میں مولانا کا کلام بھی لکھا ہے۔ اس کتاب میں مالک رام نے "غبارِ خاطر" اور "تذکرہ" کے وہ "مقدمے" بھی شامل کردیے ہیں جو ساہیتہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام مالک رام کے ہاتھوں ازسرِ نو ترتیب دی گئیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے کارناموں اور زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے یہ کتاب ایک بہترین ماخذ قرار پاتی ہے۔
مالک رام کے اس تحقیقی کام سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ غالب کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد ہستی ہیں جن پر مالک رام نے بہت کچھ لکھا۔ یہ مولانا آزاد سے مالک رام کی محبت اور عقیدت کا عملی اظہار تھا۔ مالک رام کی یہی محنت و کاوش مالک رام کو ابوالکلام آزاد کا ایک بہترین اور معتبر محقق ثابت کرتی ہے۔
حوالہ جات
۱۔ علی جوادزیدی، مرتب، "مالک رام ایک مطالعہ"، نئی دہلی، مکتبہ جامعہ، ۱۹۸۶ء ص ۲۸۲
۲۔ مالک رام، "کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں" نئی دہلی، مکتبہ جامعہ، ۱۹۸۹ء ص ۱۵۰
۳۔ ایضاً، ص ۱۵۹
۴۔ مالک رام، مرتب، "تذکرہ"، ابوالکلام آزاد، ساہیتہ اکادمی، دہلی، ۱۹۹۰ء ص ۱۵
۵۔ مالک رام اور ابوالکلام آزاد، مشمولہ "مالک رام ایک مطالعہ"، مرتب علی جوادزیدی، مکتبہ جامعہ،
۱۹۸۶ء ص ۳۱۴
۶۔ علی جواد زیدی، مرتب، "مالک رام ایک مطالعہ"، نئی دہلی، مکتبہ جامعہ، ۱۹۸۶ء، ص ۲۹۲
۷۔ ایضاً، ص ۲۹۵