میر ولی اللہ، بطور ماہر اقبالیات
Abstract
In this chapter the researcher has discussed Mir Wali Ullah as expert of Iqbaliat. Mir Wali Ullah was the re-knewned urdu translator, gennine elucidator, critic, research scholar, poet, article and humour writer, and expert of iqbaliat. He met Allama Iqbal in the age of sixteen and maintained this relation until his last breath. His best work about Iqbaliat is the explanation of talmihot-e-Iqbal.
میر ولی اللہ (۱۸۸۷ء تا ۱۹۶۴ء) ایک مستند مترجم، شارح، شاعر، مضمون نگار، مزاح نگار، عالم، محقق، نقاد اور ماہر اقبالیات تھے۔ اور اس وجہ سے وہ نہ صرف سرحد بلکہ پورے برصغیر کے اردو ادب میں ممتاز مرتبہ کے مالک ہیں۔
میر ولی اللہ کی ادبی بلوغت کا زمانہ علامہ اقبال کے عروج کا زمانہ ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت کا اثر اس دور کے اکثر شعراء خاص کر مسلمان شعراء پر بہت زیادہ تھا۔ اور میر صاحب کو اپنے بچپن ہی میں علامہ اقبال سے ملنے کا موقع ملا۔ یہ ۱۹۰۴ء کا زمانہ تھا۔ اس وقت میر ولی اللہ کی عمر تقریباً سولہ سال تھی۔ اور وہ میٹرک کے طالب علم تھے۔ اپنی اس ملاقات کا ذکر میر صاحب خود ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
"میرا طالب عالمی کا زمانہ تھا۔ کہ اقبال دو تین بار ایبٹ آباد تشریف لائے۔ ان کے بڑے بھائی ان دنوں وہاں پی، ڈبلیو، ڈی میں تھے۔ پہلی بار میں انہیں وہیں ملا۔ اس کے بعد ان کی آخری بیماری کے دوران تک ہر سال کئی کئی دفعہ میں ان کے شرف ملاقات سے مستفیض ہوتا رہا"۔ (1)
ڈاکٹر صابر کلوروی، علامہ اقبال اور میر ولی اللہ کے والد مولوی سلطان میر کے تعارف کے بارے میں لکھتے ہیں:
"بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ (مولوی سلطان میر) فارسی شعر بھی کہتے تھے:۔ ان کا کلام "مخزن" میں بھی شائع ہوتا تھا۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ مخزن کا کلام ہی مولوی صاحب سے اقبال کے تعارف کا باعث بنا ہوگا۔ قرین قیاس ہے کہ اقبال مولوی صاحب کے گھر بھی گئے ہونگے"۔ ()
بچپن کی ان ملاقاتوں کی وجہ سے میر صاحب کے دل میں علامہ اقبال کے لئے عقیدت کے جذبات پیدا ہوگئے۔ اور وہ علامہ اقبال کے ایسے قدردان ہوگئے کہ ۲۵ فروری ۱۹۵۳ء کو پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:۔
"اپنے ملک کی ہزارہا سال کی تاریخ کی ورق گردانی کرجائیے۔ معلوم ہوگا کہ سیالکوٹ کے شہر نے جس میں اس عرصے میں کروڑوں آدمی آئے اور گئے۔ دو اور صرف دو دیدہ ور پیدا کیے۔ ایک ملا عبدالحکیم سیالکوٹی اور ایک علامہ اقبال"۔ (3)
میر ولی اللہ، علامہ اقبال کی شاعری، فلسفے اور عملی زندگی کے بارے میں گراں قدر معلومات رکھتے تھے اور اس وجہ سے وہ علامہ اقبال کی علمیت کے نہ صرف معترف بلکہ ان کے فلسفے کے پرچارک بھی تھے۔ وہ اس بات کے خواہشمند تھے کہ علامہ اقبال کا پیغام ہندوستان کے گھر گھر تک پہنچ جائے۔ جیسا کہ خود لکھتے ہیں:۔
"ملک میں اور خاص کر مسلمانوں میں اگر کچھ احساس باقی ہوتا۔ تو آپ دیکھتے کہ اقبال کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے کے لیے ہندوستان میں متعدہ جماعتیں ایک خاص نظام کے ماتحت کام کر رہی ہوتیں اور کلام اقبال کا اس قدر پروپیگنڈا ہوتا۔ کہ ان کی کتابوں کے سینکڑوں ایڈیشن مختلف شکلوں اور مختلف رنگوں میں شائع ہو کر ان کے نسخے پر خواندہ آدمی کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہوتے"۔ (4)
علامہ اقبال اور میر ولی اللہ دونوں کی شاعری میں روح اسلام کی تڑپ اور فلسفہ مغرب کی چاشنی پائی جاتی ہے اور اسی قدر مشترک نے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے یہ دونوں بے عملی کے مخالف تھے اور اسی وجہ سے اس تصوف کے بھی جو لوگوں کو عمل سے دور کردے۔
برصغیر میں جب مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے جسمانی اور روحانی قویٰ مضمحل ہوگئے اور یہ لوگ غلامی کی سیمیں اور زریں زنجیروں کو عورتوں کی طرح پاؤں میں ڈال کر انہیں پازیب سمجھنے لگے۔ تو ایسے میں، بقول میر ولی اللہ، علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو عمل کا درس دیا۔ میر صاحب لکھتے ہیں:۔
"خدا بھلا کرے علامہ (شیخ، ڈاکٹر، سر) محمد اقبال کا، کہ انہوں نے بیسیوں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شاعری کے ایک نئے دور اور ایک علیحدہ رنگ کا آغاز کردیا"۔ (5)
علامہ کے اس علیحدہ رنگ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میر صاحب لکھتے ہیں:۔
"وہ خودی کو جسے صوفیائے کرام مٹانے کی فکر میں رہتے تھے۔ سنوارنے اور ابھارنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ صوفی کہتے ہیں، کہ اور سب کچھ ہے لیکن ہم کچھ بھی نہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ صرف ہم ہی ہم ہیں اور کچھ بھی نہیں"۔ (6)
دراصل میر صاحب کے خیال میں علامہ کے قلزم خیالات میں انقلاب مولانا جلال الدین رومی کے کلام کے مطالعہ نے پیدا کیا ہے اور رومی کا فلسفہ جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے میر ولی اللہ لکھتے ہیں کہ:۔
"جب کسی قوم پر ادبار کے دن آتے ہیں تو وہ سعی وعمل سے بچنے کے لیے طرح طرح کی دلیلیں گھڑلیا کرتی ہے۔ انحطاط کے زمانے کا یہ فلسفہ ہر قوم میں مشترک ہے۔ اسلامی فلسفے میں جبرواختیار ی بحثیں جب شروع ہوئیں تو مسلمانوں نے توکل اور تقدیر کے یہ معنی نکالے۔ کہ جب سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کے حکم کے سوا پتا بھی نہیں ہل سکتا تو پھر ہماری کوشش بے سود اور بیہودہ ہے۔ جو کچھ ملنا ہے، مل جائے گا اور جو کچھ ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ ہم خواہ مخواہ اپنے آپ کو تکالیف میں کیوں ڈالیں۔ مولانائے روم نے اس فلسفہ کے خلاف مثنوی میں اتنا کامیاب جہاد کیا ہے۔ کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ رنگ رنگ کی دلیلیں، طرح طرح کی بحثیں اور عجیب عجیب کہانیاں سنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ سعی وعمل اور جدوجہد نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا"۔ (7)
علامہ اقبال نے سعی وعمل اور جدوجہد کے اس نظریے پر کاربند ہو کر خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ انہوں نے صرف خودی کا درس نہیں دیا بلکہ خود بھی ہمیشہ اپنی خودی میں مستغرق رہے۔ میر صاحب کے خیال میں:۔
"اقبال کا مرد قلندر خود اقبال ہے اور اقبال کے شاہ باز وشاہین خود اقبال۔ جن لوگوں کو اقبال کی نزدیکی نصیب ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کہ اقبال کی زندگی سرتاسر قلندرانہ زندگی تھی"۔ (8)
میر ولی اللہ اپنے ہاں اقبالیات کے باقاعدہ درس دیا کرتے تھے۔ اس سے اقبالیات کے ساتھ میر صاحب کی دلچسپی اور اقبالیات پر ان کی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے ۔ میر نعیم اللہ نے ایک ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا کہ:۔
"رام لبھایا نے میر صاحب کی وفات پر چوہدری محمد علی صاحب کو ہندوستان سے خط لکھا کہ آج کل میں اقبالیات پڑھ رہا ہوں۔ اور اس وقت میر صاحب جو درس دیتے تھے وہ یاد آرہے ہیں"۔ (9)
کلام اقبال سے میر صاحب کی واقفیت کا اندازہ میر صاحب کی ذاتی ڈائری کے اس ورق سے بھی ہوتا ہے لکھتے ہیں:
"ارمغان حجاز قریباً ساری پڑھ لی۔ پانچ دس صفحے باقی ہیں۔ رباعیاں ہی رباعیاں ہیں۔ دو چار متفرق نظمیں بھی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی رباعی ہو جس میں دوچار یا نئے تنکیر نہ ہوں۔ مضموں کتاب کا وہی ہے۔ جو اقبال کی ہر کتاب اور ہر شعر میں ہے۔ یہ مرحوم کا آخری کلام ہے۔ اس لئے درتہ جام کی حیثیت رکھتا ہے"۔ (10)
ایک اور جگہ علامہ اقبال کی شاعری پر تنقیدی رائے پیش کرتے ہوئے میر صاحب کہتے ہیں:۔
"اقبال کی شاعری پرانی، پامال، افسردہ وپژمردہ روش سے بہت دور ہٹ چکی تھی۔ اس لئے ان کے شعروں میں غلو تو درکنار معمولی مبالغہ بھی کم نظر آتا ہے"۔ (11)
میر صاحب کے مطابق علامہ اقبال کے ذہن میں ایک دو قابل قدر کتابیں لکھنے کا خیال بھی تھا لیکن وہ اپنے اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ میر صاحب لکھتے ہیں:۔
"میں علامہ اقبال کی خود اپنی زبانی شہادت کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ان کے ذہن میں کم از کم دو نہایت مہتمم بالشان موضوعات پر نثر میں د وضخیم کتابوں کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ زمانے کی ناقدر شناسی کے باعث وہ یہ کام نہ کرسکے۔ ایک موضوع "فقہ اسلامی کی تشکیل نو" اور دوسرا "معراج نبوی کے حقائق و کوائف کے متعلق تھا"۔ (12)
علامہ اقبال کے حوالے سے میر ولی اللہ کا سب سے اہم کام تلمیحات اقبال ہے۔ میر صاحب نے بڑی جانفشانی سے کلام اقبال کی تشریح کی۔ ۲۱ جون ۱۹۴۸ء کو میر صاحب نے "بانگ درا" کی تلمیحات ختم کیں۔ ۲۲ جون ۱۹۴۸ء کو انہوں نے "ضرب کلیم" کی تلمیحات پر کام شروع کیا تھا۔ لیکن اس کے بوجوہ مکمل نہ کرسکے۔ ان تلمیحات کا غیر مطبوعہ مسودہ ڈاکٹر صابر کلوروی کی تحویل میں تھا۔ اور اس کی ایک نقل راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔ ان تلمیحات میں سے ۲۲ تلمیحات میں سے چند تلمیحات یہاں پر دی جاتی ہیں۔ (13)
سر پہ سبزہ کے کھڑے ہو کر کہا قم میں نے
غنچہ گل کو دیا ذوقِ تبسم میں نے
قم ۔ اٹھ کھڑا ہو۔ جی اٹھ
قم باذن اللہ: خدا تعالیٰ کے حکم سے جی اٹھ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ تھا کہ آپ علیہ السلام مردہ کو یہ کلمہ کہہ کر جلا دیا کرتے تھے۔ شعراء اکثر اس لفظ کو معشوق کی تعریف میں استعمال کرکے اس معجزے کی طرف تلمیح کرتے ہیں۔
قم باذنی: میرے حکم سے جی اٹھ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ شاعر کا معشوق اپنے حکم سے یہ کام کر لیتا ہے۔
قم باذن اللہ میں فرق ہے ارضی وسما کا اے مسیح (عاشق) بعض دفعہ قم باذنی کو حضرت مسیح سے بھی منسوب کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ قم باذنی سے نہ اٹھا تو جناب عیسیٰ۔ مجھ کو دم دبے سے جلاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں۔
۲ (دل) فرہاد
حسن کا گنج گرانما یہ تجھے مل جاتا
تونے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل
فرہاد فارس کا ایک سنگ تراش تھا۔ ایک شہزادی شیریں نام پر عاشق ہوگیا۔ شیرین کی خاطر وہ ایک نہر کوہِ بے ستون سے کھود کر شیرین کے گھر تک لایا تھا۔ تاکہ شیرین کی لونڈی باندیاں جو چار کوس جاکر دودھ لانے کی مشقت اٹھاتی ہیں، اس سے بچیں۔ شیرین کو دودھ سے بہت رغبت تھی۔ چنانچہ شہر سے دور اس پہاڑ پر بکریاں چرانے کو چھوڑ رکھی تھیں۔ فرہاد رات دن مشقت کرکے پہاڑ کو تراشتا اور جابجا شیرین کی مورتیں نئے نئے انداز سے بناتا ہوا ایک مدت دراز میں وہاں تک نالی لے آیا۔ اس اثناء میں خسرو پرویز نے شیرین سے شادی کرلی تھی۔ جب فرہاد نہر مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ خسرو نے خبر اُڑا دی کہ آج رات کو شیرین گزر گئی۔ فرہاد نے یہ خبر سن کر ایک تیشہ اپنے سر میں مارا اور اسی صدمے سے جاں بحق ہوا۔ جب شیرین کو یہ خبر ہوئی تو وہ بھی کوٹھے سے گر کر مرگئی۔ جوئے شیر لانے کی سبب فرہاد کا لقب کوہکن پڑگیا۔
۳ (شکوہ) مور۔ سلیمان
مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کردے
موربے مایہ کوہمدوش سلیماں کردے
قرآن مجید میں ہے "اور جمع کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر، جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے پس وہ تقسیم کئے جاتے تھے، ٹولیوں میں۔ یہاں تک کہ جب وہ آئے۔ چیونٹیوں کے ایک میدان میں، تو کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیوں! گھس جاؤ اپنے بلوں میں، تاکہ نہ کچل ڈالیں تم کو سلیمان اور ان کے لشکر اور انہیں خبر تک نہ ہو۔ پس سلیمان مسکرایا، ہنستے ہوئے چیونٹی کی بات سے"۔ (۲۷۔۱۷ تا ۱۹)
حوالہ جات
۱۔ میر ولی اللہ "اقبال میری نظر میں" مشمولہ "خیابان" نوادر اقبال نمبر شعبہ اردو جامعہ پشاور ۲۰۰۳ء، ص ۲۸۰۔
۲۔ صابر کلوروی ڈاکٹر "اقبال اور ہزار" مشمولہ "اقبال اور ہزارہ" مرتبہ بشیر احمد سوز، سرحد اردو اکیڈمی، قلندر آباد، ایبٹ آباد، ۲۰۰۲ء۔ ص ۸۔
۳۔ میر ولی اللہ "اقبال میری نظر میں" مشمولہ "خیابان" نوادر اقبال۔ ص ۲۷۸۔
۴۔ میر ولی اللہ "علامہ اقبال اور فلسفہ تصوف" مشمولہ "نیرنگ خیال" لاہور ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء ص ۲۳۹۔
۵۔ ایضاً ص ۲۳۸
۶۔ ایضاً ص ۲۳۹
۷۔ میر ولی اللہ "رومی" جلد اول فروز پرنٹنگ پریس لاہور (بار اول ص ۹)
۸۔ میر ولی اللہ "اقبال میری نظر میں" مشمولہ "خیابان" نوادر اقبال نمبر شعبہ اردو جامعہ پشاور ۲۰۰۳ء، ص ۲۸۰۔
۹۔ ملاقات میر نعیم اللہ ۱۸ جون ۲۰۰۶ء، میر منزل ایبٹ آباد۔
۱۰۔ ذاتی ڈائری میر ولی اللہ مملوکہ میر نعیم اللہ۔
۱۱۔ میر ولی اللہ "اقبال میری نظر میں" مشمولہ "خیابان" نوادر اقبال نمبر شعبہ اردو جامعہ پشاور ۲۰۰۳ء، ص ۲۷۷۔
۱۲۔ ایضاً ص ۲۸۰
۱۳۔ میر ولی اللہ "تلمیحات اقبال" غیر مطبوعہ مملوکہ راقم الحروف۔