مغل شہزادیوں میں ذوقِ ادبی، ایک مطالعہ

ڈاکٹر نصرت جہاں خٹک

Abstract

Mughal dynasty remembered unprecedented with respect to its civilization, culture, education dispersal and affiliation with literature. Besides Mughal Kings, the Mughal princes had great taste for literature and they were not behind from the men in this respect. In this article the Mughal princes are described in wide manner who patronized the authors and scholars during Mugahl dynasty. They were conferred with special privileges besides they also made poetry in Persian language as well. The author light on their poetical merits in a very comprehensive manner.

مغلیہ سلطنت کاموسس شہنشاہ بابر عظیم المرتب فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ شعروادب کا فطری ذوق رکھتا تھا۔ امور سلطنت سے فارغ ہوتے تو شعراوب کی دنیا سے جی بہلاتے وہ زیادہ تر ترکی میں شعر کہتا تھا لیکن کبھی کبھی اس کے واردات قلبی فارسی شعر کا بھی قالب اختیار کر لیتے تھے۔ نمونے کے طور پر ان کے اشعار:
درویشان راگرچہ ازخویشانیم
لیک ازدل وجان مقصد ایشانیم
دوراست مگوئی، شاہی ازدرویشی
شاھیم ولی بندہ، درویشانیم
بابر کا یہ شعر تو اکثر زبانوں پر ہے:
نوروزونوبھاررمی ودلبری خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
صفوی بادشاہوں بالخصوص طہماسب اور عباس اعظم کا حکم تھا کہ قصیدے صرف ائمہ کے کہے جائیں امر اور رؤسا کی مدح خودی نہ کی جائے۔ اس سے شاعروں کے دنیاوی انعام واکرام  کے وسیلے ختم ہوگئےادھر برصغیر پاک و ہند میں مغل بادشاہوں اور ان کے امرا کی معارف پروری اور معارف نوازی کے چرچے عام تھے۔ اس لیے نامور علما وشعراء نے وطن کو چھوڑ کر یہاں کا رخ کیا۔ بدایوانی نے ایسے شعرا کے نام جو تقریباً ۱۷۰ تھے بتائے ہیں، جو ایرانی النسل تھے۔ اگرچہ بعض برصغیر ہی میں پیدا ہوئے۔

بعض کے اشعار نمونے کےطور پر
نیست درایران زمین سامان تحصیل کمال
تانیامدسوئی ہندوستان حنازنگین نشد

            بہرحال ان شعراء کے آنے سے سرزمین ایران کے شعروادب کو جو نقصان ہوا اس کا فائدہ برصغیر پاک و ہند کو پہنچا۔ جھانگیر کی تعلیم و تربیت کےلیے اکبر اعظم نے بطور خاص اہتمام کیا تھا۔ فیضی، مولانا کلون ہراتی ۔ قطب الدین اور عبدالرحیم خانخاناں ایسے باکمال استادوں اور اتالیقوں کی تعلیم نے اس کے فطری ذوق کی بوجوہ احسن تربیت کی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ عربی، فارسی اور ترکی میں اس نے مہارت حاصل کی اور آگے چل کر وہ فارسی کا بلند پایہ انشاء پر دارز تسلیم کیا گیا اس کی تصنیف تزک جہانگیر سوانحی ادب کا شاہکار ہے۔
سلسہ تیموریہ کا یوں تو ہر فرمانرواادب شناس گزرا ہے لیکن جہانگیر اس فن میں اجتہاد کا درجہ رکھتا ہے وہ فطرتاً محب کیش اور ازل سے دردمند دل لے کر آیا تھا اور عشق اس کا خمیر تھا اس لیے شعروشاعری کا نکتہ دان اس سے بڑھ کر اور کون ہوسکتاہے۔
من چون کنم کہ تیر غمت برجگررسد
تاچشم نارسیدہ وگربردگررسد
دروصل دوست مستم ودرھجربی قرار
دادازچیشن غمی کہ مراسربسر رسد
وقت نیازوعجز جہانگیر ہرسحر
امید آنکہ شعلہ نورواثر رسد (1)
کرہ ارض پر جو ممالک مہذب اور ترقی یافتہ خیال کئے جاتے ہیں۔ ان کے عروج، انکی ترقی اور تہذیب و تمدن کا ذریعہ تعلیم نسواں رہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں تعلیم نسواں کی طرف سب سے پہلے ۱۸۶۲ء کے لگ بھگ گورنمنٹ پنجاب نے توجہ دی اور اس توجہ کے نتیجے میں نارمل سکول اور دوسرے مدرسہ جات برائے خواتین معرض وجود میں آئے لیکن قوم کی جھوٹی انا، بے توجہی اور ناقص العقلی نے ان کا عدم وجود برابرکردیا اول تو ان سکولوں میں معمولی درجہ کے لوگوں کی بچیاں حصول علم کے لیے آتی تھیں اور اعلیٰ درجہ یا متوسط طبقہ کے لوگ اپنی بچیوں کو نچلے درجے کی لڑکیوں کے سکول میں بھیجنا اور ان کے ساتھ پڑھنا نہ صرف گوارا ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کسر شان سمجھتے تھے اور دوسرے اس دور کا رواج تھا کہ کمسنی ہی میں لڑکیوں کی شادی کردی جاتی تھی جو یقیناً حصول علم کے لیے زہر ہلاہل کا حکم رکھتی تھی۔
اس دور میں ادیبوں نے شعوری طور پر ایسے ادب کو جنم دیا جس سے تین مقاصد حاصل ہوسکتے تھے اول یہ کہ اس ادب سے عورتوں کی تعلیم و تربیت، اصلاح اورتہذیب ہوسکتی تھی، دوسرے اس میں تفریح کا پہلو بھی موجود تھا اور تیسرے یہ کہ اس ادب سے افہام وتفہیم کا مقصد بھی حل ہوجاتا تھا اور قارئین کو فطرت انسانی کے نئے نئے پہلوؤں سے آگاہی ہوجاتی تھی لیکن اصلاح کا پہلو اس سارے ادب پر غالب رہا چنانچہ مولانا حالی کی "مجالس النساء" سے لے کر نذیر احمد کی "مراۃ العروس" اور مراۃ العروس سے لے کر راشد الخیری کی "صبح زندگی" تک جہاں معاشرہ اور روزمرہ زندگی کی بھرپور عکاسی ہو رہی تھی اور ایسے ایسے جیتے جاگتے کردار تخلیق ہو رہے تھے جو آج تک زندہ اور تابند ہ ہیں۔ وہاں معاشرہ میں عورتوں، مردوں اور خصوصیت سے عورتوں کو نہ صرف ان کے فرائض سے واقفیت کرائی جاتی تھی بلکہ ان کے حقوق سے بھی انہیں روشنا کرایا جاتا تھا۔ (2)
عورت تو تمام محاذوں پر استعبدادِ جھانی کے خلاف لڑتی رہی ہے اپنے حقوق اور مراعات سے بہرہ ور نہیں تھی اور قیدوبند کی زندگی بسر کرتی تھی لیکن پھر بھی نہ صرف یہ کہ خاندان کے اندر ایک مؤثرعامل کے طور پر شمار ہوتی تھی بلکہ زندگی کا پہیہ چلانے اور دوسرے اجتماعی کاموں میں بھی مرد کے شانہ بشانہ اس کی مددگار رہی ہے مناسب مواقع نہ ہونے کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں عورتیں انجنئیر، ریاضی دان، فلسفی، زبان شناس، محقق، ڈاکٹر، استاد اور دانشور کے طور پر تاریخ کے صفحوں پر موجود ہیں۔ مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود یہ ثابت کردیا کہ مہستی، پروین، نورجھان اور مخفی جیسی عورتیں موجود ہیں اور موجود رہیں گی۔
ہر زمانے میں عورت سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور دفتری کاموں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی۔ حتیٰ کہ حکمرانی اور فرمانروائی میں بھی مردوں سے پہچھے نہیں رہی ہے۔ شعروادب کے میدان میں بھی ایسی شہرہ آفاق عورتیں موجود ہیں جن کے نام تاریخ کے صفحوں پر سنہری حروف سے درج ہیں۔ فارسی شعروادب میں عورتوں کے اشتراک نے ساری دنیا کے شعروادب والوں کو حیران کردیا ہے۔ یہاں پر برصغیر کی شاعرات کا ذکر کرنا نامناسب نہیں ہوگا۔ جنہوں نے ایسے ناموافق حالات میں کہ لڑکی کا گھر سے نکلنا باعث شرم سمجھا جاتا تھا غزل کہنا اپنا شیوہ بنادیا ہے۔ اگلے زمانوں میں علوم و فنون کی ترقی کا انحصار زیادہ تر بادشاہوں کی سرپرستی پر ہوتا تھا۔ یہ حقیقت شاہان مغلیہ کے عہد میں اور بھی نمایاں ہوئی وہ جہاں کشور کشاتھے وہاں بلند پایہ انشاء پردارز سخن شناس، سخن پرور اور علم وفن کے دلدادہ بھی تھے۔ اسی طرح اکثر شہزادےاور شہزادیاں بھی شعروادب کا ذوق رکھتی تھیں۔ اکثر عورتیں پڑھنے کے علاوہ تیراندازی وغیرہ میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ سیروسیاحت اور شکاروغیرہ میں عموماً گھوڑے پر سوار ہوتی تھیں۔ شاھان مغلیہ نے شہزادوں کے ساتھ ساتھ شہزادیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا تھا ان میں بعض کوعلمی اور ادبی اعتبار سے ممتاز حیثیت حاصل ہوئی۔ (3)

مغل شہزادیاں
گل رخ بیگم یا گل چہرہ بیگم:
ہندوستان کی فارسی گو عورت تھی۔ بادشاہ بابر کی بیٹی اور فرقہ نقشبندیہ کے بزرگ میرزانورالدین محمد کی بیوی تھی گلبدن کی بہن اور سلیمہ کی ماں تھی۔ زمانے کی مشہور شاعرہ تھی اپنی بہن کے استقبال میں مندرجہ ذیل بیت کہا ہے:
ھیچگہ آن شوخ گلر خسار بی اغیار نیست
راست بودہ است انکہ درعالم گلی بی خار نیست
زبدۃ النساء
برصغٰر کی بارہوں صدی ہجری کی فارسی گو شاعرہ تھی۔ ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب کی بیٹی تھی۔ زنان سخنور میں مشیر سلمی نے اس کا نام زبیدہ بتایا ہے۔

اشعارکا نمونہ:
ہرکجائی اخلاقی، لاابابی آئینی
پندناصحان مشنو، حرف کسی مکن گوشی
زیب النساء
ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب کی بیٹی عالمہ، فاضلہ، عارفہ اور فارسی زبان کی شاعرہ تھی۔ زیب النساء نے تین سال کے عرصے میں قرآن مجید حفظ کیا۔ فارسی، عربی اور اردو زبان سے کافی واقفیت پیدا کرلی۔ ہیت، فلسفہ اور ادبیات میں بھی کافی درک حاصل کرلی۔ دانشمند، ادب دوست اور شاعر پرورتھی۔ ان کی حمایت کرتی یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ کتابیں، رسالے اور دیوان اس کے نام لکھے گئے ہیں۔ ان کے والد ہر کام میں اس سے مشورہ کرتے تھے۔ شادی نہیں کی۔ ۶۵سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ زیب المنشات اور زیب التفاسیر کتابیں ان کے آثار ہیں۔ نمونہ کلام:
گرچہ من لیلیٰ اساسم دل چومجنون دونواست
سربہ صحرامی زنم لیکن حیازنجیر پااست
دختر شاھم ولیکن روبہ فقر آوردہ ام
'زیب' و 'زینت' بس ھمینم نام من زیب النساء است (5)
تاریخ پاک و ہند میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ زیب النساء نے عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی حفظ کیا۔ شعروشاعری میں اپنے استاد ملا محمد سعید اشرف ماژندارانی سے اصلاح لی، علماء اور اہل فن کی بھر پور سرپرستی کی اور ان کے لیے ایک اعلیٰ پائے کا کتب خانہ قائم کیا۔ اشعار کا نمونہ ملاحظہ ہو:۔
بشکنددستی کہ خم درگردن یاری نشد
کوربہ چشمی کہ لذت گیردیداری نشد
صد بہار آخر شدوھرگل بہ خرقی جاگرفت
غنچہ باغ دل مازیب دستاری نشد      (6)

سلیمہ بیگم
برصغیر کی فارسی شاعرہ اور فاضلہ عورت تھی۔ گلرخ کی بیٹی اور ظہیرالدین بابر کی نواسی تھی۔ سلیمہ بیگم بڑی پاکدامن اور مومن عورت تھی۔ چاردفعہ حج کیا۔ شعروشاعری کا ذوق رکھتی تھی اور فخری ھروی کی ممدوح بھی تھی۔ (7) تاریخ پاک و ہند میں سلیمہ بیگم کے بارے میں یوں بتایاگیا ہے۔ بابرکی نواسی سلیمہ بیگم شاعرہ تھی۔ مآثرالامراء میں اس کا تخلص مخفی بتایا گیا ہے۔ تذکروں میں اس کا صرف ایک شعر ملتا ہے۔
کاکلت رامن زمستی رشتہ جان گفتہ ام
مست بودم زین سبب حرف پریشان گفتہ ام (8)

جھان آرا بیگم
برصغیر کی فارسی گوشاعرہ اور صوفی خاتون تھی۔ ہندوستان کے بادشاہ نورالدین جھانگیر کی پہلی اولاد تھی۔ بہت ہی خوبصورت اور خوش اخلاق تھی۔ دانشمندوں اور شاعروں پر عنایات، اکرامات اور انعامات نچھاور کرتی تھی۔ ۱۰۹۲ھ ق میں وفات پاگئیں ان کی آرام گاہ دہلی میں ہندوستان کے صوفیوں کے رہبر حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کے احاطہ میں ہے۔ بڑی شخصیت کی مالکہ تھی۔ اس کی قبر کی لوح پر یہ شعر درج ہے۔
بغیر سبزہ نپوشد کسی مزارمرا
کہ قبر پوش غریباں ھمین گیاہ بس است
مندرجہ ذیل اشعار اس مرثیے میں سے ہیں جو اس نے اپنے باپ کی موت پر کہے ہیں:
ای آفتاب من کہ شدی غائب ازنظر
آیاشب فراق تراھم بودسحر
ای بادشاہ عالم وای قبلہ جہان
بگشای چشم رحمت وبرحال من نگر
نالم چنین زغصہ وبارم بودست
سوزم چوشمع درغم ودودمرودبہ سر (9)
تاریخ پاک و ہند میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔ جہان آرا بیگم نامور شہزادی ممتاز محل کی بیٹی شاعرہ اور مصنفہ تھی۔ "مونس الارواح" اس کی علمی یادگار ہے جو حضرت معین الدین چشتی اور ان کےخلفاء کے حالات پر مشتمل ہے۔ (10)

گلبدن بیگم:
ہمایون نامہ گلبدن بیگم کی تصنیف ہے۔ بابر کی بیٹی گلبدن بیگم ہمایون نامہ میں لکھتی ہیں کہ اکبر بادشاہ کی طرف سے ایک فرمان جاری ہوا کہ فردوس مکانی، یعنی بابر بادشاہ اور حضرت جنت آشیانی یعنی ہمایون بادشاہ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے۔ اسے تحریر میں لے آؤں۔ بابر بادشاہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ حقیر صرف آٹھ سال کی تھی۔ اس لیے مجھے اس وقت کی باتیں اچھی طرح یاد نہیں ہیں۔ تاہم شاہی فرمان کی تعمیل میں میرے حافظہ کو جو کچھ یاد ہے یا میں نے جو کچھ سنا ہے اسے ضبط تحریر میں لارہی ہوں۔ (11)
گلبدن بیگم بڑی فیاض اور سخی خاتون تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت خیرات و صدقے کئے۔ جوں جوں بوڑھی ہوتی گئی زیادہ سخی ہوگئی اور خدا کی خوشنودی کے لیے بہت لوگوں کو خوشحال کیا۔ ۸۰برس کی عمر میں وفات پائی۔ بہت نیک، حساس، ذہین اور فرض شناس تھی۔ گھریلو معاملات کو بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی تھی۔ ہمایون نامہ کوئی ادبی کارنامہ نہیں ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے جو کچھ سنایا دیکھا اسے بڑی سادگی سے قلمبند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ زمانے کے دستور کے مطابق نظمیں بھی لکھتی تھی۔ میر مہدی شیرازی نے اپنی تصنیف تذکرہ الخواتین میں گلبدن بیگم کے دو مصرعے نقل کیے ہیں۔
ہرپری روی کہ اوبا عاشق خودیارنیست
تویقین می دان کہ ھیچ ازشعرخوردارنیست

            گلبدن بیگم برصغیر کی فارسی گوشاعرہ، پارسا اور عالمہ فاضلہ عورت تھی۔ ظہیرالدین بابر کی بیٹی ہمایون اور گلرخ کی بہن تھی۔ خراسان میں پیدا ہوئی۔ چھ سال کی عمر میں اپنی والدہ دالدار بیگم کے ہمراہ ہندوستان آئی۔ اپنے باپ اور بھائی کے سایہ تلے پلی بڑھی۔ فارسی اور ترکی ادبیات کی انشاء سیکھی اور دوسرے فنون حاصل کیے اور ہمایون شاہ کے صدراعظم حضرت خواجہ چغتائی سے شادی کرلی۔ (12)
گیارھویں صدی ھجری کی برصغیر کی فارسی گوشاعرہ تھی۔ یہ بھی جہانگیر کی بیویوں میں سے ایک ہے۔ بڑی خوبصورت اور فی البدیہہ خاتون تھی۔ جہانگیر کے ساتھ اور اس کی بیوی نورجہان کے ساتھ بھی شعر میں ہنسی مذاق کرتی تھی۔ جیسے مندرجہ ذیل اشعار:
چھراویک خلدحوروروی اویک عرس نور
خط اویک گلہ موروزلف اویک سلہ مار
دردولعل می خروشش ھرچہ درصہبا سرمد
دردوچشم بادہ نوشش ھرچہ درمستی خمار
ارغوان عارضش راحسن وطلعت رنگ وبوی
پرنیاں پیرکش رالطف و خوبی پوروتار
یہ بھی اس کے اشعار ہیں:
حدیث عشق من خوانی ودل بادیگران بندی
دوتیغ آخر نمی دانم چساں دریک نیام آیند
اور نمونہ اشعار:
ساغر کشان سحر سر مینا چوواکنند
آیا بودکہ گوشہ چشمی بہ ماکنند
زھی ضلابت حشمت کہ ماہیان درآب
زبیم ناوک مژگان تو زرہ پوشند (13)

دل آرام:
گیارھویں صدی کی فارسی گوشاعرہ تھی جو جہانگیر کی بیویوں میں ایک تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن جہانگیر ایک شاہزادے کے ساتھ شطرنج کھیل رہا تھا۔ یہ طے ہوا کہ ہارا شخص جیتنے والے کو اپنی بیویوں میں سےایک دے گا۔ بالکل قریب تھا کہ جہانگیر ہارجائے اس بارےمیں اپنی عورتوں سے مشورہ کیا۔ نورجھان نے جس کا تخلص جہان تھا۔ مندرجہ ذیل شعر کہا:
توبادشاہ جھانی جھان ازدست مدہ
کہ بادشاہ جہان راجہان بہ کارآمد
حیات النساء جو اس کی دوسری بیوی تھی اور حیات تخلص کرتی تھی اس نے جواب دیا:
جھان خوشت لیکن حیات می باید
اگرحیات نبا شدجھان چہ کارآید
فناء النساء نے جس کا تخلص فنا ہے اور جھانگیر کی بیوی ہے۔ مندرجہ ذیل بیت کہا ہے:
جھان وحیات این ھمہ بی وفاست
فنارانگھدار آخر فناست
اس موقع پر دل آرام جوتب تک خاموش بیٹھی شطرنج کے مسئلہ پر غور کر رہی تھی، مندرجہ ذیل بیت کہنے سے جہانگیر کو بارنے سے نجاب دلا دی۔
شاہا دورخ بدہ ودل آرام رامدہ          
پیل پیادہ پیش کن واسب گشت مات
نمونے کے طور پر درجہ ذیل شعر:
بنوشیدم سحرگہ چون شراب ارغوانی را
گروکردم بہ جان می لباس پارسای را
فناء النسا بیگم
اس کا تخلص فنا ہے۔ یہ بھی برصغیر کی فارسی گو خواتین میں سے ایک ہے اور جہانگیر کی بیویوں میں سے تھی۔ مندرجہ ذیل اشعار نمونے کے طور پر:
ہنگام سحر دلبر من جلوہ گرآمد
صد فتنہ خوابیدہ محشر برسرآمد
ایک اور جگہ کہتی ہے:
مکن تکرار ای دل ھر زمان درس محبت را
مدہ برھر دو عالم نشہ  صہبای حسرت را
یہ بھی اس کے ایبات کا نمونہ ہے:
من از فراق توالماس غم بہ دل خورم
تودل شکستی و سودای وصل ماخوری

حیات النساء
جہانگیربادشاہ کی بیوی اور برصغیر کی فارسی گو شاعرہ تھی۔ تخلص حیات کرتی تھی بہت بلند طبیعت اور شعری ذوق رکھتی تھی۔ نورجہان اور حیات دونوں شعری ذوق رکھتی تھیں۔ مندرجہ ذیل شعری مکالمہ انہی دوعورتوں کے درمیان ہے۔
نورجہان:            توبادشاہ جہانی، تراجہانی باید          (14)
حیات النساء:        اگر حیات بنا شدجھان چہ کارآید
مہرالنساء
ہندوستان کی ملکہ جس کا لقب نورجہان ہے۔ شاعرہ، تجربہ کار،ہنرمنداور مدبرخاتون تھی۔ یہ خواجہ غیاث الدین محمد کی بیٹی جو قابل احترام خاندان خواجہ محمد شریف تہرانی کابیٹا تھا اور کئی سال خراسان کے گورنر کا وزیر رہا ہے۔ نورجہان قندھار کے بیابان میں پیدا ہوئی۔ باپ نے نام مہرالنساء رکھا۔ اس کا باپ تجارت کے سلسلے میں ہر سال ہندوستان کے شہنشاہ اکبر کے لیے تحفے تحائف لے جاتا کرتا تھا۔ اس کی سفارش سے خواجہ نے اکبر بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کی۔ اکبر نے اس کی بہت دلجوئی کی اور اس نے اپنی قابلیت اور علم کی وجہ سے بہت جلد ترقی کرلی۔ جہانگیر بادشاہ کی سلطنت کے شروع میں اس کو اعتماد الدولہ کا لقب ملا۔ خواجہ کی بیوی اور بیٹی اکبر بادشاہ کے حرم کے اندر آمدورفت کرتی تھیں۔ میرزاغیاث کی بیوی نے قابلیت، شائستگی اور مختلف ہنرمندیوں کی وجہ سے بادشاہ کی بیٹیوں کی سرپرستی اور تربیت اس کے حوالے کردی گئی۔ مہرالنساء بھی اپنی ماں کے ساتھ شہزادیوں کے محلوں میں سیھکنے اور تربیت میں شریک رہی۔ تھوڑی مدت کے بعد مہرالنساء نے نمایاں ترقی کرلی اور آگے بڑھی۔ خوبصورتی اور خوش کلامی میں دوسروں کے برابر ہوگئی۔ اچھے ذوق، موزوں اور پسندیدہ طبیعت کی مالک تھی۔ اسی دلیل کی بناء پر اپنی اچھی اچھی اور پرکشش باتوں سے شاہی دربار کی بہت سی عورتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرادی۔ سولہ سال کی عمر میں سواری اور تیر اندازی سیکھ لی۔ شہزادہ خرم جو بعد میں جہانگیر کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا عاشق ہوگیا۔ لیکن اکبر بادشاہ نے اس بات کی مخالفت کی۔ اکبر کے اشارے سے خواجہ نے اس کی شادی علی قلی خان سے جو شیرافگن کے نام سے مشہور تھا کردی اور مہرالنساء بعد میں شیرافگن کے قتل ہونے کے بعد جہانگیر کی بیوی بن گئی۔ یہ خاتون کفایت شعار، خوبصورت، تجربہ کار اور باسلیقہ تھی۔ جلدہی اپنے شوہر کا دل موہ لیا سکہ کی ایک رخ پر جہانگیر اور نورجہان کی تصویر تھی اور دوسری طرف یہ بیت:
بہ حکم شاہ جہانگیر یافت صدزیور
بہ نام نورجہان بادشاہ بیگم زر
نورجہان کےمشورے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تھا اس صرف شاھانہ کاموں میں کمال حاصل نہیں تھا بلکہ شعر کے سلیقے، ذوق بے نظیر اور کہنے میں بھی بے مثال تھی۔ مندرجہ ذیل بیت اسی کا ہے جو اس کے مزار کی لوح پر لکھا گیا ہے۔
برمزار ماغریبان نی چراغی نی گلی
نی پرپروانہ سوزد نی صادی بلبلی (15)
ایک موقع پر جہانگیر نے یہ شعر کہا:
بلبل نیم کہ نعرہ کشم درد سرد ھم
پرونہ ئی کہ سوزم ودم برنیا ورم
نورجہان نےفوراً جواب دیا:
پروانہ من نیم کہ بہ یک شعلہ جان دھم
شمعم کہ شب بسوزم ودم برنیا ورم
ٍ                      وای بر شاعران نادیدہ
غلطی را بہ خود پسندیدہ
سرورا قد یار می گویند
ماہ را روہ اوسنجیدہ
ماہ کرمی است ناتمام عیار
سرو چوبی است ناتراشیدہ
تاریخ ادبیات پاک و ہند میں نورجہان کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔ "نورجہان بیگم نورالدین محمد جہانگیر کی رفیقہ حیات ایک عالمہ اور فاضلہ خاتون تھی حسق ذوق اور علم و ادب کی دولت سے سرفراز تھی۔ جہانگیر کی رفاقت حیات سے اس کی علمی صلاحیتیں اور بھی نمایاں ہوئیں نورجہان کی بدیہہ گوئی کے لطائف آج بھی زبان زدعوام ہیں ایک دن جہانگیر نے ایسا لباس پہنچا جس کا ایک تکمہ (بٹن) لعل بے بہا کا تھا نورجہان نے اسے دیکھتے ہی یہ شعر کہا:
ترانہ تکمہ لعل است برقبای حریر
شدہ است قطرہ خون منت گریہ با جہانگیر (16)
تزک جہانگیری میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:۔
نورجہان جہانگیر کے دل میں اتنا گھر کر چکی تھی کہ سوائے خطبہ تمام کاروبار اس کے حکم سے سرانجام پاتے وہ تھوڑی دیر کے لیے جھروکہ میں بیٹھتی امراء اور وزراء حاضر ہو کر آداب بجالاتے اور احکامات سنتے تھے اس کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ (17)

منابع ومآخذ
۱۔         تاریخ ادبیات پاک وہند نویں جلد اردوادب چہارم ۱۹۶۷ء تا ۱۹۱۴ء
مدیران خصوصی سید فیاض محمود و ڈاکٹر عبادت بریلوی۔                    ص ۴۷۳ تا ۴۷۴
۲۔         سہم زبان شبہ قارہ درشعر فارسی سروش اسلام نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ء      ص ۲۶، ۲۷
۳۔         تاریخ مسلمانان پاک و ہند چوتھی جلد پنجاب یونیورسٹی لاہور                 ص ۴۲، ۴۳
۴۔         سروش اسلام آباد نومبر، دسمبر ۲۰۰۵                                               ص ۳۷
۵۔         ایضاً                                                                                          ص ۳۴
۶۔         تاریخ مسلمانان پاک وہندچوتھی جلدپنجاب یونیورسٹی لاہور                    ص ۹۷ تا ۹۸
۷۔         سروش اسلام آباد نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ء                                             ص ۲۷۔۲۸
۸۔         تاریخ مسلمانان پاک وہندچوتھی جلدپنجاب یونیورسٹی لاہور                    ص ۹۵
۹۔         سروش اسلام آباد نومبر۔ دسمبر ۲۰۰۵ء                                             ص ۲۷۔۲۸
۱۰۔       تاریخ مسلمانان پاک وہندچوتھی جلدپنجاب یونیورسٹی لاہور                    ص ۹۷
۱۱۔       ہمایون نامہ گلبدن بیگم ترجمہ رشید اختر ندوی سنگ میل پبلی کیشنز
اردو باراز لاہور                                                                           ص ۷۔۸، ۲۷۱، ۲۷۲۔۲۷۰
۱۲۔       سروش اسلام آباد نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ء                                             ص ۳۷
۱۳۔       سروش اسلام آباد نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ء                                             ص ۳۶
۱۴۔       سروش اسلام آباد نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ء                                             ص ۶۸۔۳۲، ۳۶
۱۵۔       سروش اسلام آباد نومبر، دسمبر ۲۰۰۵ء                                             ص ۳۸۔۴۰
۱۶۔       تاریخ ادبیات پاک وہند چوتھی جلد، پنجاب یونیورسٹی لاہور                    ص ۹۵۔۹۶
۱۷۔       تزک جہانگیری تصنیف نورالدین جہانگیر                                          ص ۳۳
۱۸۔       بادشاہ ترجمہ مولوی احمد علی صاحب رامپوری سنگ میل پبلی کیشنز
چوک اردو بازار لاہور، سال چاپ ۱۹۷۲،                                          ص ۲۱

                                             

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com