پشتو زبان میں قرآن پاک کے تفاسیر و تراجم
چھے منتخب تراجم و تفاسیر کا مختصر جائزہ
Abstract
Al-Qur’n al-Hakim holds the central position in a Muslim’s faith and everyday life. Cognizing of its Arabic script and themes has therefore been very common and a sacred duty in the Muslim societies all over the world. Pathan’ Pukhtoon Society, who converted to Islam as a chunk, as history reveal, also play their part in transferring themes of the Qur’an into their mother tongue, Pahsto/Pukhto. Partial translations of the Qur’an were made as early as the first half of the 17th century AD in Pashto. It seems unlikely that Pathan had no contact with the Qur’an before this date; in fact the work already done in this field was destroyed during their conflicts with Sikhs and others. The article presents a list of 63 published/unpublished Pashto translations /Commentaries of the Qur’an till date and analyses six of them briefly. These six include one complete translation of the Qur’an made in poetic form. Analysis includes style of the translator, his grip over the Arabic language and his awareness of the necessary sciences compulsory for a translator of the Qur’an.انسان کو کرہ ارض پر بسانے کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی نے اس کی رہنمائی کا بندوبست بھی فرمایا۔ تاکہ وہ جادہ حق سے نہ بھٹکے۔ اس مقصد کے لئے اللہ تعالٰی نے انبیائے کرام علیہم السلام کو اپنی ہدایات کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اور مختلف زبانوں میں مختلف اقوام کے پاس انہی کی زبان بولنے والے انبیاء و رسل بھیجے۔ یہ سلسلہ حضرت آدمٌ سے شروع ہوا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اختتام پذیر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا سلسلہ منقطع ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کی گئی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کو قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے منتخب کیا گیا۔
عربی زبان میں نازل کیے گئے قرآن کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ اس کا پیغام آفاقی اور اس کی ہدایت بے مثل ہے۔ اس کی انہی خصوصیات کی وجہ سے یہ نہ صرف وادئی حجاز میں بسنے والے مکامی لوگوں کے لئے مشعل راہ تھا۔ جو نزول قرآن کے وقت زندہ تھے۔ بلکہ جوں جوں اسلام کی روشنی قرب و جوار میں پھیلتی گئی تو قرآان مجید کے درخت بارآور کے اثمار سے وہاں کے مکین بھی مستفید ہونے لگے۔ ابدی نور سے فیض یابی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور یقیناً قیامت جاری رہےگا۔
جزیرۃ العرب کے حدود سے نکل کر جب دین اسلام غیر عرب اقوام کی سرزمین میں داخل ہوا۔ تو انہیں بھی قرآن کا پیغام سمجھنے اور اسے اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس لئے کہ یہ کتاب اسلام کا دستور و آئین اور شریعت کا منبع ہے۔ اسے سمجھے بغیر شرعی قوانین کا نفاذ ممکن نہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ تو کیا ایک فرد کی اسلامی طرز معاشرت کے لئے بھی قرآن کا سمجھنا از حد ضروری ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہر زمانے کے کئی علمائے کرام نے مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کی کوشش کی ہے۔ اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ (۱)
ترجمے کے حوالے سے البتہ اس مسلمہ حقیقت کو ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ کہ قرآن مجید کا کسی بھی زبان میں کوئی بھی ترجمہ خواہ کتنی ہی محنت اور دقت نظر سے انجام پایا ہو، ان عظیم معانی کو کما حقہ ادا کرنے سے بہر حال قاصر رہتا ہے جو قرآن کریم کے معجزانہ متن کے عربی مدلولات ہیں۔ نیز یہ کہ ترجمہ میں جن مطالب کو پیش کیا جاتا ہے، وہ دراصل مترجم کی قرآن فہمی کاماحاصل ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر انسان کی طرح ترجمہ قرآن میں بھی غلطی، کوتاہی اور نقص کا امکان باقی رہتا ہے۔(۲)
پشتو تراجم تفاسیر قرآن:
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پشتو زبان دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ پختونوں کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ من حیث القوم مسلمان ہیں۔ اس لئے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ پشتو زبان کا دامن تراجم تفاسیر قرآن سے خالی نہ ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے متعدد تراجم و تفاسیر زمانے کے دست برد سے محفوظ نہیں رہے اور ہم تک پہنچ نہ سکے(۳)۔ دوسری بات یہ ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اور بعد میں بھی برصغیر پاک و ہند میں مقامی زبانوں کے ساتھ دفتری زبان فارسی تھی۔ اور عالم دین بننے کے لئے فارسی زبان و ادب پر بھی عبور حاصل کرنا ضروری تھا۔ اس لئے علماء عموماً فارسی کی تفسیر، تفسیرِ حسینی اور اس طرح کی دیگر تفاسیر پڑھتے تھے۔ اور پشتو تراجم اور تفاسیر کی طرف کماحقہ توجہ نہ دے پاتے۔ اور جب پاکستان بننے کے بعد اردو کو سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت حاصل ہوگئی تو چونکہ ہر پختون آسانی سے اردو بھی پڑھ سکتا تھا، اس لئے وہ شاہ عبدالقادر اور اشرف علی تھانوی کے تراجم اور تفاسیر سے اپنی علمی تشنگی بجھاتے تھے۔ تاہم صوبہ سرحد، بلوچستان اور افغانستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی، جو پشتو کے علا وہ کوئی دوسری زبان پڑھنے سے عاجز تھے۔ خصوصاً وہ پردہ نشین عورتین جو باقاعدہ طور پر سکول کی تعلیم حاصل نہ کرسکیں، وہ اپنے گھروں میں اپنے بزرگوں یا محلے میں کسی بوڑھی عورت سے دینی مضامین پر مشتمل رشید البیان، نورنامہ اور جنگ نامہ وغیرہ منظوم کتابیں پشتو میں پڑھتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ قرآن پاک کا پشتو میں ترجمہ بھی پڑھتی تھیں جو ملا صاحب درمنگی نے کیا ہے۔ تاہم یہ دعویٰ کرنا مناسب نہ ہوگا کہ انیسویں صدی سے پہلے پشتو زبان میں قرآن کریم کی کوئی خاص خدمت نہیں ہوئی، جب کہ پوری کی پوری قوم مسلمان تھی اور ان میں علوم اسلامیہ کی تحصیل کا شوق عام تھا خصوصی طور پر علم فقہ کے جید علماء موجود تھے۔اور یہ علماء قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی طرف بھی تھوڑی بہت توجہ دیا کرتے تھے۔(۴)
اٹھارویں اور انیسویں صدیوں کے نصف اول میں پختونوں کا علاقہ ایک بڑے سیاسی بحران میں مبتلا تھا۔ یہ لوگ کبھی قبائلی خانہ جنگیوں میں مصروف رہے اور کھبی سکھوں کے سیلاب بلا کو بزورِ شمشیر روکتے رہے۔ ان مسلسل جنگوں میں عموماً سیاسی رہنما وہی حضرات ہوتے جو مذہبی پیشوا کہلاتے تھے۔ اس لئے جب دشمن غلبہ پاتا تو سب سے پہلے انہی علماء کا سرمایہ لٹتا اور ان کے گھر مسمار ہوتے، اس طرح کئی علمی ذخیرے تباہ ہوگئے اور شاید اس لئے انیسویں صدی کے وسط تک متفرق صورتوں کے تراجم اور ایات کا مکمل ترجمہ یا تفسیر کے علاوہ ہمیں زیادہ تعداد میں قرآنی ترجم و تفاسیر کا سراغ نہیں ملتا۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پختون قوم نسبتاً زیادہ قدامت پسند تھی۔ قرآن شریف کے بارے میں وہ حد درجہ محتاط تھے جس طرح شاہ ولی اللہ کی فارسی ترجمہ پر دہلی میں اودھم مچا اور لوگ ان کے قتل کے درپے ہو گئے، اسی طرح انیسویں صدی کے اوائل میں جو آدمی بھی پشتو تفسیر اور ترجمہ لکھنے کی جرات کرتا، تیم ملا قسم کے لوگ اس کی جان کے دشمن بن جاتے اور اسے لینے کے دینے پڑجاتے۔ انیسویں صدی کے وسط میں اس علاقے میں ایک منظم حکومت قائم ہوئی اور سیاسی بحران ختم ہوگا۔ زندگی کی نئی قدریں سامنے آنے لگیں۔ ہندوستان کی طرف آمدورفت بڑھ گئی اور لوگوں کے ذہنوں میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا ہوئی۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس اپنی زبان میں کلام اللہ کا ترجمہ و تفسیر ہونی چاہیے تاکہ وہ اللہ کے احکامات کو آسانی سے سمجھ سکیں اور ان پر خاطر خواہ عمل کر سکیں۔ چنانچہ رفتہ رفتہ پشتو میں قرآن مجید سے متعلق قابل قدر ذخیرہ جمع ہوگیا۔
39 تک 1940ڈاکٹر ہدایت اللہ نعیم کی تحقیق کے مطابق سترھویں صدی عیسوی سے لے کر 76 تک جاپہنچی 1200 تک ان کی تعداد 1986 تراجم ہیں۔ 123مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں 12 تک برصغیر پاک وہند میں 1986مختلف عالمی اور قومی زبانوں میں لکھی گئیں۔ تراجم (مکمل و نا مکمل) منظر عام پر آئیں (۵)۔ ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔ 252قرآن کریم کے
بلوچی: 01
بنگالی: 50
انگریزی: 12
ہندی: 10
پشتو: 54
پنجابی: 15
سندھی: 10
اردو: 100
مذکورہ زبانوں میں قدیم ترین تراجم کی تواریخ حسبِ ذیل ہیں: (۶)
سندھی: 370ھ بمطابق 980ء
پشتو: 1093ھ 1979ء
اردو: 1147ھ 1733ء (۷)
بنگالی: 1247ھ 1828ء
ہندی: 1333ھ 1915ء
پنجابی: بیسویں صدی کے اوائل
بلوچی: 1392ھ 1972ء
مکمل پشتو تراجم و تفاسیر قرآن کی الف بائی ترتیب(۸)
سن طباعت |
نام مترجم و مفسر |
نام ترجمہ یا تفسیر |
نمبر شمار |
1194 |
مولانا عبدالسلام رستمی |
احسن الکلام |
1 |
1995 |
ڈاکٹر سید سید اللہ جان |
آسان تفسیر(ترجمہ تفسیر شاہ ولی اللہ) |
2 |
1983 |
محمد افضل خان (شیخ شاہ پور) |
افضل التراجم |
3 |
غیر مطبوع |
حافظ ولی سید |
انعام الرحمٰن |
4 |
2007 |
تسنیم الحق کاکا خیل |
ترجمہ تفسیر عثمانی |
5 |
غیر مطبوع |
مولانا عبدالجبار، باجوڑ |
ترجمتہ القرآن |
6 |
غیر مطبوع |
حافظ لطف الرحمٰن ادینہ |
ترجمتہ القرآن |
7 |
1983 تا 2008 |
ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف |
ترجمتہ القرآن الحکیم |
8 |
1287ھ بھوپال |
علامائے افغانستان و ہندوستان |
ترجمہ قرآن مع فوائد |
9 |
1975 سے پہلے |
مولانا عبدالحق داربنگی |
ترجمہ قرآن |
10 |
نا معلوم |
مولانا حبیب الحق زروبی |
ترجمہ قرآن مجید |
11 |
تاج کتب خانہ، پشاور |
ڈاکٹر محمد دین |
تعلیم القرآن (قرآن مجید کا پشتو ترجمہ) |
12 |
کتب خانہ، 2008 |
مولوی زاہدی احمد زئی |
تفسیر ابن کثیر، تالیف امام عماد الدین |
13 |
غیر مطبوع |
مولانا سید انوارالحق کا کاخیل |
تفسیر انوارالقرآن |
14 |
مکتبہ قراءت و تجوی، کوئٹہ |
مولانا عبیداللہ قندھاری |
تفسیر ایوبی |
15 |
1956 |
مولان سید بادشاہ گل بخاری |
تفسیر بخاری |
16 |
1873 |
دوست محمد خٹک |
تفسیر بدر منیر (تفسیر حسینی کا پشتو ترجمہ) |
17 |
نامعلوم |
مولوی عبدالشکورطوروی |
تفسیر بیان القرآن المعروف تشریح القرآن |
18 |
1882 |
نا معلوم |
تفسیر بینظیر مترجم |
19 |
مکتبتہ الحدیٰ، مردان |
مولانا شفیق الرحمٰن |
تفسیر تعلیم القرآن |
20 |
غیر مطبوع |
شیخ القرآن مولان محمد طاہر |
تفسیر تیسیرالقرآن |
21 |
1963 |
مولانا حبیب الرحمٰن |
تفسیر حبیبی |
22 |
1330ھ۔ لاہور |
میاں عبداللہ کا کاخیل |
تفسیر حسینی کا پشتو ترجمہ |
23 |
معراج کتب خانہ، محلّہ جنگی پشاور |
مولوی امین اللہ |
تفسیر خیرالکلام |
24 |
زیب آرٹ پبلشرز، محلّہ جنگی، پشاور |
مولوی عبدالسلام، درگئی |
تفسیر فخرالاسلام |
25 |
1304ھ ، دہلی و لاہور |
مولانا عبیدالحق داربنگی |
تفسیر فوق الیسیر |
26 |
1925 |
قاضی عبداللطیف گالوچ |
تفسیر فوق الیسیر |
27 |
1944-1948 |
پختو ٹولنہ کابل |
تفسیر قرآن مجید (شیخ الہند مولانا محمود الحسن و علامہ شبیر احمد عثمانی کا پشتو ترجمہ) المعروف بہ تفسیر کابلی |
28 |
1961 (جلد اول) |
حافظ محمد ادریس |
تفسیر کشاف القرآن |
29 |
معراج کتب خانہ، قصہ خوانی بازار، پشاور |
عبداللہ فانی |
تفسیر لامثال |
30 |
غیر مطبوع |
عبدالعزیز مظاہری، طورو |
تفسیر مظاہری |
31 |
تاک کتب خانہ، محلّہ جنگی پشاور |
پروفیسر ڈاکٹر قاضی محمد مبارک، مولانا گل برخان، مولانا سیف الحنان موسیٰی زئی |
تفسیر معارف القرآن کا پشتو ترجمہ |
32 |
1403ھ |
محمد افضل خان |
تفسیر نشرالمر جان من مشکلات القرآن |
33 |
نامعلوم |
مولانا سلطان محمود مردانی |
تفسیر وضاح القرآن |
34 |
1302ھ ۔ دہلی / لاہور |
نامعلوم |
تفسیر یعقوب چرخی |
35 |
1866 |
مراد علی صاحبزادہ |
تفسیر یسیر |
36 |
1980-1989 |
قیام الدین کشاف، مولانا راحت گل |
تفہیم القرآن، مولانا ابوالاعلی مودودی |
37 |
1968 |
مولانا امیر ترخوی |
تلاوت قرآن مشہور بہ تفسیر زبیدہ |
38 |
1943 |
قاری عبدالعزیز |
جمال القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی |
39 |
نامعلوم |
مولوی گل برخان |
جواہر القرآن مولانا غلام اللہ خان |
40 |
کتب خانہ وحید یہ، محلّہ جنگی، پشاور 2008 |
مولانا عبدالمالک |
جواہر القرآن مولانا غلام اللہ خان |
41 |
نامعلوم |
عبداللہ فانی |
خیرالکلام، پشتو ترجمہ |
42 |
نامعلوم |
مولانا روح اللہ |
سراج القرآن |
43 |
ضفیی کتب خانہ، پشاور |
مولانا عبدالمستان |
ضیاء الکلام |
44 |
نامعلوم |
مولانا عزیز احمد |
عزیز التفسیر |
45 |
نامعلوم |
میاں فضلِ رازق کاکاخیل |
القرآن الحکیم (پشتو ترجمہ) |
46 |
نامعلوم |
نامعلوم |
القرآن الحکیم (شاہ ولی اللہ کے ترجمے کا پشتو ترجمہ) |
47 |
نامعلوم |
مولانا عبدالرحیم |
القرآن المجید (مولانا اشرف علی تھانوی کے بیان الفرید کا پشتو ترجمہ) |
48 |
1933-1937 |
صدیق اللہ ریحثین |
قرآن مجید، تفسیر و ترجمہ |
49 |
1968/حمیدیہ پریس پشاور |
الھاج سید جعفر حسین شاہ ریحثونے |
قرآن مجید مع منظوم پشتو ترجمہ |
50 |
1975 سے پہلے |
مولانا عبدالحق داربنگی |
قرآن مجید مترجم پشتو مع حواشی |
51 |
1990 |
مولانا رکن الدین |
قرآن مجید مع تفسیر افضلیہ |
52 |
1953 |
مولانا فضل ودود (پارہ 1تا 18) مولانا گل رحیم اسماری (پارہ 19تا آخر) |
قرآن مجید (ترجمہ مع تفسیر ودودی) |
53 |
نامعلوم |
مولانا محمد امین اضاخیل |
قرآن مجید پشتو ترجمہ |
54 |
1929 |
وزارت اطلاعات و کلچر کابل |
قرآن مجید، مولانا محمد الحسن و شبیر احمد |
55 |
نامعلوم |
علی محمد |
قرآن مجید (ترجمہ شیخ الہند کا پشتو ترجمہ) |
56 |
1965 |
صباح الدین خشکی |
قرآن مجید انگریزی ترجمہ و تفسیر، عبداللہ یوسف علی |
57 |
افغانستان |
گلبدین حکمتیار |
قرآنی پلوشے |
58 |
نامعلوم |
محمد عباس |
لغات القرآن، مولانا عبدالکریم ناگپوری |
59 |
1855۔ دہلی |
مولانا محمد الیاس کوچانی |
مخزن التفاسیر |
60 |
غیر طمبوع |
مولانا احمد منیب وردگ |
مرشد الحیران، دروش شیخ القرآن محمد طاہر |
61 |
نامعلوم |
ملا احمد، تنگی |
مفتاح القرآن |
62 |
1993 |
محمد عباس |
معارف القرآن، مفتی محمد شفیع |
63 |
چھ منتخب تفاسیر و تراجم کا مختصر جائزہ
1۔ تفسیر یسیر:
مولف: مولانا مراد علی ولد مولانا عبدالرحمٰن، ساکن جامہ، جلالا آباد، افغانستان
ناشران: اسلامیہ کتب خانہ، قصہ خوانی بازار، پشاور، رحمان گل پبلشرز، ڈھکی نعل بندی، پشاور
تاریخ طباعت: 1891 (دوسری بار)
تفسیر یسیر پشتو زبان کی پہلی مکمل مطبوعہ تفسیر ہے۔ مولانا مراد علی صاحبزادہ نے اس کا آغاز 1282ھ میں کیا۔ اور دو سال کے عرصے میں اس کی تکمیل کی۔
مولانا موصوف عربی، فارسی اور پشتو تینوں زبانوں کے ماہر اور ان میں ادیبانہ نظم و نثر لکھنے پر قدرت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی آپ ایک وسیع حلقہ معتقدین و مریدین بھی رکھے تھے۔ اس لئے آپ کی تفسیر بہت جلد مقبول ہوئی۔ زبان بہت عالمانہ اور کبھی کبھار مغلق کے حد تک مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے علماء کو اس کے مشکل عربی اور فارسی اصطلاحات کی شروحات لکھنی پڑیں۔ کچھ حضرات نے تشریحی حواشی کا اضافہ بھی کیا، بعد میں ظاہر ہونے والا یہ کام تیسیر الیسیر اور فوق الیسیر کے عنوانات سے منظر عام پر آیا۔
تفسیر یسیر کی مزید خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مفسرآیات کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ترجمہ و تفسیر کرتے جاتے ہیں۔
۲۔ شانِ نزول آیات سے پہلے لکھتے ہیں۔
۳۔ ترجمہ نیم لفظی محاورہ قسم کا ہے۔ لہٰذا پڑھنے والا ترجمہ و تفسیر میں فرق نہیں کرسکتا۔ البتہ وہ قرآن حکیم کے حکیمانہ مفہوم کو ضرور اخذ کر لیتا ہے۔
۴۔ زبان مشکل ہے اکثر مقامات پر مضافہ الیہ مضاف سے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ متروک الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔
تفسیر یسیر پر حافظ محمد ادریس تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ "تفسیر یسیر میں عربی اور فارسی زبان کی بہتات ہے۔ جس کا سمجھنا عوام کیلئے مشکل ہے اس لئے جس طبقہ میں یہ کتاب عام ہے وہ بھی اس کتاب سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ترجمہ کے علاوہ مفسر کے قلم پر ترجمہ کا طرز کچھ اس طرح چھا گیا ہے کہ وہاں اپنی آزاد عبارت بھی عربی نما ترجمے کی طرح لکھتے رہے۔ اور یہی اس دور میں علماء کی مخصوص زبان تھی اور فضیلت کی نشانی سمجھی جاتی تھی" (9)۔
مفسر نے اسرائیلیات کی روایت میں بھی فراخدلی دکھائی ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں: "روایت کی جاتی ہے تمام روئے زمین کا ایک بادشاہ نمرود بن کنعان نام کا تھا۔ جس کا پایہ تخت بابل شہر تھا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ بابل کی جانب سے ایک روشن ستارہ طلوع ہوا۔ اتنا روشن کہ اس کے آگے سورج اور چاند دونوں کی روشنی ماند پڑگئی۔ بادشاہ انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں نیند سے بیدار ہوا اور فوراً اپنی مملکت کے کاہنوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ انہوں نہ بتایا کہ اسی سال بابل میں ایک لڑکا پیداہو گا جو آپ کی بادشاہی کو برباد کرکے رکھ دے گا"۔
اس تفسیر میں مروی احادیث کو مصادر اصلیہ سے لینے کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ضعیف اور موضوع اقوال بھی پائے جاتے ہیں۔ مصنف نے اس تفسیر کی تالیف میں بیضاوی، مدارک التنزیل، الوجیز، جلالین، تفسیر خازن اور دیگر کئی تفاسیر سے استفادہ کیا ہے۔
2۔ قرآن مجید (پشتو منظوم ترجمے کے ساتھ)
مترجم: الحاج سید جعفر حسین شاہ ریحثونے
ناشر: حمیدیہ پریس، پشاور۔ 1968
قرآن مجید کا یہ مکمل منظوم ترجمہ اہل تشیع کے عالم الحاج سید جعفر حسین شاہ کا ہے۔ جس کا آغاز 1961 میں کیا گیا۔ اور 22 نومبر 1963 کو اس کی تکمیل ہوئی۔
مولف کے اپنے الفاظ کے مطابق: "پاکستان بنے سے پہلے یعنی انگریزی عہد حکومت میں سکولوں میں حاضری سے پہلے ایک نظم پڑھی جاتی تھی۔ جیسا کہ آجکل ہر سکول میں پاکستانی ترانہ گایا جاتا ہے۔ اس وقت کوئی باقاعدہ نظم مقرر نہیں تھی بلکہ ہر کوئی اپنی صوابدید کے مطابق چناو کرتا۔ اسی حوالے سے میں نے 1936 میں سورۃ فاتحہ کا منظوم ترجمہ کیا جو ہمارے گاوں کے سکول میں صبح کے وقت اسمبلی میں پڑھا جاتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد یعنی 22 اتست 1955 کو صبح کے وقت جب میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا تو سورۃ لقمان کی نصائح اور اخلاقی باتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس کیفیت کو دل میں سموئے ہوئے میں نے اپنی مادری زبان پشتو میں اسی سورۃ کریم کا ترجمہ کیا۔ کافی عرصے تک ترجمے کا خیال پھر سے میرے ذہن میں نہیں آیا۔ 1961 میں میری توجہ دوبارہ قرآن مجید کی چند چھوٹی سورتوں کا پشتو ترجمہ کرنے کی طرف مبذول ہوئی اور میں نے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ترجمہ کیا میرا ہرگز یہ اردہ اور خیال نہیں تھا کہ میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ کرلوں گا یا کرسکوں گا۔ اسی لئے میں نے ترجمے کا آغاز سورۃ بقرہ سے نہیں بلکہ 30 ویں پارے سے کیا۔ پھر جب جب مجھے موقع ملتا تو میں ترجمہ کر لیتا۔ اسی اثناء میں اردو کی دو اور پشتو کی چند کتابیں بھی میرے زیر قلم تھیں۔ آخر کار جب اردو کی آخری کتاب "مومن" کو اللہ کے فضل و کرم سے میں نے 5 جون 1963 کو مکمل کر لیا تو اس وقت تک میں کلامِ پاک کے پندرہ پاروں کا ترجمہ بھی مکمل کرچکا تھا۔ اس کے بعد میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جب تک میں قرآن مجید کو مکمل طور پر پشتو نظم میں نہ ڈالوں، میں کوئی اور کام نہیں کروں گا۔ چنانچہ اسی ترتیب سے میں پیچھے کی طرف آتا گیا تاکہ 5 رجب المر جب 1383ھ بمطابق 22 نومبر 1963 بروز جمعہ کو آخری سورۃ، سورۃ بقرہ کا ترجمہ مکمل ہوا، والحمداللہ" (۱۰)۔
اس منظوم ترجمہ قرآن کی چند خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ قرآن مجید کا پشتو زبان میں مکمل منظوم ترجمے کی پہلی اور آخری کوشش ہے۔
2۔ چونکہ یہ ترجمہ منظوم ہے۔ اس لئے مغلق اور عربی و فارسی الفاظ سے بھر پور ہے۔ مثال کے طور پر:
والقٰنتین والقٰنتٰن والصٰدقین والصٰدقات۔ کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے:
اوھم داسے قانتین او قانتات او ھر واڑہ صادقین او صادقات
پشتو زبان کی تنگی اور نظم کی ضروریات کو مدنظر رکتھے ہوئے مترجم نے "قانتین اور صادقین" کا پشتو ترجمہ نہیں دیا ہے بلکہ ہو بہو عربی الفاظ کو نقل کیا ہے۔
3۔ چونکہ نظم میں ردیف، قافیہ وغیرہ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عربی قرآن کا دوسری زبانوں میں نثر میں منتقل کرنا بھی تقریباً نامکمل کام ہے تو پھر یہ کیونکر ہوسکے گا کہ کوئی اسے اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ نظم میں ڈال دے۔ اس لئے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قرآن مجید کا زیر نظر پشتو منظوم ترجمہ الفاظ کے صحیح مفاہیم، عربی فصاحت و بلاغت کے امتیازات اور روانی وشستگی سے عاری ہے۔
4۔ قرآن مجید میں وارد تاکید اور حصر کا ترجمے میں خاص خیال نہیں رکھا گیا ہے۔
5۔ اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ جتنی آیات کی کتابت صفحے پر کی گئی ہے اسی صفحے پر نمبروں کے ساتھ ان آیات کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ جس سے قاری کو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
6۔ یہ محض تحت اللفظ اور حرفی ترجمہ ہے۔ قرآن سے متعلق دوسرے علوم (جیسے شان نزول، ناسخ و منسوخ وغیرہ) یا تفسیری و تشریحی حواشی نہیں دیے گئے ہیں۔
7۔ اس ترجمے میں پشتو املاء کی غلطیاں بھی نظر سے گزرتی ہیں، اور مبہم ترجمہ بھی سامنے آتا ہے، مثال کے طور پر:
والفجر و لیالِ عشرِ
پہ صبی او فجر مہ دے قسم اوپہ لسو شپو عشر مہ دے قسم
مندرجہ بالا ترجمے میں املائی غلطی واضح طور پر نظر آتی ہیں: "صبی" بشتو زبان کی "سبا" (صبح کا وقت) ہے جو ترجمے میں غلط لکھا گیا ہے۔ اصل میں یہ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی بچے کے ہیں۔ اور مترجم نے اسے "سبا" یعنی صبح صادق کے لئے استعمال کیا ہے۔
8۔ مسلکی طور پر امامیہ شعیہ ہونے کے باوجود بھی مترجم نے تعصب سے کام نہیں لیا اور ترجمے میں حقیقت پسندی کو ترجیح دی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کا ترجمہ نثر میں کرنا بھی ایک انتہائی کھٹن اور مشکل کام ہے مگر مترجم نے اسے پشتو نظم میں پیش کرکے یقیناً ایک بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
3۔ قرآن کریم کے معانی اور تفسیر کا پشتو ترجمہ (کابلی تفسیر):
مترجمیں: مجموعہ علمائے افغانستان و ہندوستان
ناشر: مجمع الملک فہد، مدینہ منورہ
تاریخ طباعت: 1414 ھ بمطابق 1994
افغانستان اور صوبہ سرحد میں بڑی بڑی قدآور علمی شخصیتیں ہو گزری ہیں۔ جنہوں نے انتہائی بے سروسامانی کی کیفیات اور معاشی تنگ دستی کے باوجود تعلیم و تعلم اور تصنیف کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔ اور دن رات ایک کرکے ارشادات الٰہی اور احادیث رسول کو پھیلانے کا مبارک سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس طرح چراغوں سے چراغ جلتے رہے ہیں۔ اور روشنیوں کی تقسیم ہوتی رہی ہے۔
اس تسلسل میں ایک عظیم اور قابل ستائش جدوجہد ان علمائے افغان کی ہے۔ جنہوں نے ہندوستان کے دو مشہور علمائے کرام شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی اردو تفسیر کو (1944 تا 1948) ٹھیٹ قندھاری پشتو لہجے میں منتقل کیا۔ اس تفسیر کی اب تک کئی طباعتیں منظر عام پر آئی جہاں تک اس کی پہلی طباعت کا تعلق ہے تو وہ عمدہ کاغذ پر آہنی حروف کے ذریعے عمل میں لائی گئی ہے۔ جو چار ہزار صفحات پرمحیط ہے۔ یہ پشتو ترجمہ براہ راست عربی سے نہیں بلکہ اردو ترجمے سے کیا گیا ہے۔ لہٰذا کئی پیچیدگیوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ فارسی اور عربی کے ثقیل الفاظ سے لبریز ہے۔ اکثر مقامات پر مضاف الیہ مضاف سے پہلے لایا گیا ہے۔ جس سے کبھی کبھار قاری کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
اتحاد اسلامی افغانستان نے اس ترجمے کو 1981 میں جیبی ضخامت میں نئے عنوان (تفسیر کابلی۔ شیخ الہند) کے نام کیا ہے۔
1414ھ بمطابق 1994 کو ملک فہد، خادم الحرمین الشرفین کی ہدایت کی روشنی میں وزارت برائے اسلامی امور، سعودی عرب نے اس ترجمے کا انتخاب کرکے اسے پشتودان قارئین کے استفادہ کے لئے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس ترجمے اور تفسیر کی طباعت کی سعادت مدینہ منورہ میں قائم مجمع الملک فہد لطباعتہ المصحف الشریف کو حاصل ہوئی ہے۔
اس ایڈیشن میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ کہ پرانے ترجمے میں موجود مشکل، ثقیل اور متروک الفاظ کو قوسین میں مترادفات کے ذریعے واضح کیا جائے۔ یہ دقیق علمی خدمت پشتو زبان کے ماہر سید عبداللہ شاہ کو رابط عالم اسلامی، مکتہ المکرمہ کی طرف سے سونپی گئی تھی۔ جس نے اسے بطریق احسن انجام دیا۔ تاہم اس کوشش کے باوجود بھی عام قاری کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لئے کے افغانی پشتو لہجے اور صوبہ سرحد میں عمومی طور پر بولے جانے والے یوسفزئی لہجے میں واضح فرق پایا جاتا ہے:افغانی پشتو پرعربی اور دری کے گہرے نقوش پائے جاتے ہیں جبکہ صوبہ سرحد کے پشتو لہجے انگریزی اور اردو کلمات کی کثرت کی وجہ سے اصلیت سے دور ہو رہے ہیں۔ اس فرق کو سجمھنے کے لئے تفسیر کابلی میں وارد چند کلمات کا یوسفزئی پشتو لہجے کے ساتھ تقابلی مطالعہ ملاحظہ فرمایئے:
افغانی پشتو لہجہ/لفظ یوسفزئی پشتو لہجہ/لفظ اردو مفہوم
تاسی تاسو آپ/تم
ھغو ھغہ ان
پند نصیحت نصیحت
پسہ گڈ دنبہ
کخت زمیداری کاشتکاری
ویالی ولے نہریں
لیارہ لارہ راستہ
لومڑے اول پہلا
جلا جدا جدا/الگ
راباسی راوباسی نکالتا ہے
ددی لا املہ پہ دے وجہ اسی وجہ سے
ژر زر بہت جلد
گرد ٹول سارے کے سارے
سنڈہ غاڑہ کنارہ
گوخی کیدل تیریدل گزرنا
ثابتان پہ سختیوکِ پہ سختے کِ صبر کونکی سختی میں صبر کرنے والے
اسی بناء پر تفسیر کابلی افغانی لہجہ بولنے والے پٹھانوں کے لئے بڑی کارآمد ہے لیکن صوبہ سرحد کے شمالی اضلاع میں رہنے والے پختونوں کے لئے اس سے استفادہ اب بھی بہت مشکل ہے تاہم صحیح فکر اور اعلٰی علمی نکات کی بنا پر اس تفسیر کی افادیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے۔
4۔ تفسیر کشاف القرآن:
مولف: پروفیسر حافظ محمد ادریس ایم اے فاضل ڈابھیل، مولوی فاضل، منشی فاضل، ادیب فاضل پبلشر: یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور
پروفیسر حافظ محمد ادریس پشاور یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے چیئرمین تھے۔ مرحوم اکتوبر 1965ء میں اس جہاز کے حادثہ میں شہید ہوئے تھے جس میں ملک کے 127 نامور علمائے کرام اور سکالرز قاہرہ جارہے تھے۔ جہاز کے اترنے میں چند ہی منٹ باقی تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا۔ حافظ صاحب کی زندگی میں کشاف القران کی پہلی جلد شائع ہوچکی تھی۔ جلد دوم کا مسودہ بریف کیس میں رکھ کراپنے ساتھ قاہرہ لے کے جا رہے تھے تاکہ فارغ اوقات میں مسودے میں تصحیح اور نظر ثانی کرسکیں۔ جب حادثے میں سارے مسافر شہید ہوئے اور جہاز راکھ کا ڈھیر بن گیا تو یہ قرآن پاک کا معجزہ تھا کہ یہ مسودہ بالکل محفوظ رہا۔ حافظ صاحب کی شہادت کے بعد یونیورسٹی بک ایجنسی، خبیر بازار، پشاور نے اس کو شائع کیا۔
پشتو زبان میں سب سے آسان و بامحاورہ ترجمہ و تفسیر حافظ محمد ادریس کا ہے۔ جو دو جلدوں میں کشاف القرآن کے نام سے شائع ہو چکا ہے حافظ صاحب ضلع مردان کے ایک گاوں طورو کے رہنے والے تھے۔ اور یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ یوسفزئی قبیلہ کو پشتو زبان کی فصاحت و بلاغت میں اعلٰی مقام حاصل ہے۔ حافظ محمد ادریس نے انتہائی آسان، سادہ، شستہ اور بامحاورہ زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر کرکے اپنی قوم پر بڑا احسان کیا ہے۔ ان کے قول کے مطابق ان کا ترجمہ "آسان اور عام فہم ہے تاکہ عوام الناس اس سے مستفید ہوسکیں۔ یہ ترجمہ مکمل لفظی نہیں ہے۔ اس لئے کہ پشتو اور عربی زبانوں کی ساخت میں اتنا بڑا فرق ہے کہ اگر صرف عربی الفاظ کا ترجمہ کیا جائے تو پشتو بولنے والے تمام افراد اس سے استفادہ نہیں کرسکیں گے۔ نہ ہی ہمارا ترجمہ بالکل بامحاورہ ہے۔ اس لئے کہ ایسا کرنے سے مترجم اصل الفاظ کے مدلولات سے بہت دور چلا جاتاہے۔ اور قرآن مجید کے حوالے سے مجھے یہ بات مناسب نہیں لگتی۔ اس ترجمے میں میں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشراف علی تھانوی رحم اللہ کا اقتداء کیا ہے۔ جتنی تقدیم اور تاخیر انہوں نے مناسب سمجھی ہے۔ تقریباً اتنی ہی میں نے بھی کی ہے"۔
مزید خصوصیات:
۱۔ تفسیری حصے میں صرف ان مباحث کے گرہ کھولنے کی کوشش کی گئی ہے جو براہ راست قرآن مجید سے متعلق ہیں۔
۲۔ صرف ضروری شان نزول دیئے گئے ہیں۔
۳۔ کہیں کہیں ربط آیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۴۔ اسرائیلیات سے احتراز کیاگیا ہے اور جگہ جگہ ان کی تردید کی گئی ہے۔
۵۔ بعض مشکل الفاظ کے معنی اور بعض ترکیبوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔
5۔ تفسیر احسن الکلام:
مولف: شیخ القرآن والحدیث مولانا عبدالسلام رستمی
طباعت: پشاور 1994
متاخرین یا معاصر علماء میں مکمل مستند پشتو ترجمہ اور تفسیر شیخ عبدالسلام صاحب کا ہے۔ آپ شیوخ التفاسیر مولانا حسین علی، مولانا غلام اللہ خان اور مولانا محمد طاہر رحم ھماللہ کے شاگرد ہیں۔ آپ کی تفسیر میں متقد مین اور متاخرین کی خوبیوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ گویا پھولوں کا ایک گلدستہ ہے۔ جو علمائے کرام اور عوام الناس دونوں کے لئے یکساں مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تفسیر بہت مقبول ہے اور ہر صاحب علم اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ تفسیر میں صحیح اور مستند روایات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اسرائیلی روایات اور بے بنیاد واقعات سے مکمل طور پر اجتناب کیاگیا ہے۔ اور یہی قرآن پاک کا اسلوب ہے کہ ہر جگہ پر تصور توحید حکمرانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تفسیر احسن الکلام کو پشتو تفاسیر کا دائرہ المعارف کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اس تفسیر میں جو خوبیاں اورمحاسن ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں کیونکہ مولف خداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ بعد میں پشتو زبان میں تراجم و تفاسیر لکھنے والے یقیناً احسن الکلام سے استفادہ کریں گے۔
شیخ القرآن مولانا عبدالسلام سے پہلے انہی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک اور بزرگ مولانا حبیب الرحٰمن نے بھی تفسیر جیبی کے نام سے پشتو میں ایک ضخیم تفسیر لکھی ہے۔ جس میں انہوں نے مصر کے مشہور مفسر قرآن شیخ رشید رضا کی تفسیر المنار سے کافی استفادہ کیا ہے۔ لیکن اس کی زبان اتنی سادہ، آسان اور رواں نہیں، جتنی کہ احسن الکلام کی ہے۔
مزید خصوصیات:
۱۔ یہ تفسیر توحید و سنت کی روشنی میں قرآن کا ترجمان ہے۔
۲۔ یہ غلط عقائد، بدعات، رسوم و رواج کی نشاندہی کرتی ہے اور ان کو واضح کرنے کے لئے عمیق بحث کرتی ہے۔
۳۔ سورتوں کے مختلف ثابت ناموں کی وضاحت کرتی ہے۔
۴۔ تمام سورتوں کے درمیان ربط اور مناسبات کو بیان کرتی ہے اور کئی مقامات پر آیات کے درمیان ربط کو بھی زیر بحث لاتی ہے۔
۵۔ ہر سورت کی ابتداء میں اس کا اجمالی خلاصہ دیاگیا ہے اور پھر اسی سورت کے مختلف ابواب بناکر مضامین کے تفصیلی خلاصے کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں۔
۶۔ مفسرین کے اقوال بیان کرنے کے بعد مفسر اپنا ترجیحی قول پیش کرتا ہے۔
۷۔ صرف اشد ضرورت کی بنا پر اسباب نزول ذکر کیے جاتے ہیں۔ عام رواج کے مطابق ہر آیت کا سبب نزول ذکر کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
۸۔ یہ تفسیر مشکلات القرآن کے حوالے سے مناسب بحث کرتی ہے اور ان کا مختصر حل پیش کرتی ہے۔
۹۔ بعض لغوی نکات اور فوائد کا ذکر بھی ملتا ہے۔
۱۰۔ عقیدے کے لحاظ سے انتہائی ضروری مسائل (مثلاً صفاتِ باری تعالٰی، مسئلہ جبرو قدر، عصمت انبیاء اور حیات برزخ وغیرہ) کی وضاحت کے لئے اور اسی طرح معاشرے میں موجود بدعات و محد ثات کی بیخ کنی کے لئے مسئلہ حیلہ، عبادات پر اجرت لینا، سحر، تقلید، وسیلہ، سماع موتٰی وغیرہ جیسے مسائل کی مناسب اور مفصل تشریح کی گئی ہے۔
6۔ ترجمہ قرآن حکیم:
مترجم: ڈاکٹر ابوسلمان سراج الاسلام حنیف
ناشر: دارالقرآن والسنہ، ہوسئی (شھباز گڑھی) مردان
مولانا ڈاکٹر ابوسلمان سراج الاسلام راقم السطور کے بڑے بھائی ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے علمی دنیا میں ایک ابھرتے ہوئے غیر متعصب محقق اور باعمل عالم کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ ابھی تک آپ کی قلم سے دو درجن کے قریب مولفات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے تیرہ منتخب علمی مکتوبات، قاموس الکتاب، اللباب فی ناویل الفاظ اشکلت فی الکتاب اور معرفت حدیث کی کئی طباعتیں ختم ہوچکی ہیں۔ ان کے قرآن مجید کا زیر تبصرا ترجمہ انہیں نے والد بزرگوار رحمہ اللہ کے ایماء پر 1983 میں شروع کیا تھا۔ آج تک 28 پارے بحمداللہ شائع ہوچکے ہیں۔ بقیہ 2 پارے بھی بہت جلد منظر عام پر آجائیں گے۔ یہ ترجمہ عوام و خواص دونوں میں کافی مقبول ہو رہا ہے۔ اور خصوصاً نو عمر بچے اور بچیاں اس سے کافی استفادہ کر رہی ہیں۔
خصوصیات:
۱۔ یوسفزئی پشتو لہجے میں لکھا گیا یہ ترجمہ تحت اللفظ نہیں ہے بلکہ مفاہیم قرآن کو سلیس اور عام فہم اندازمیں پیش کر نے کی ایک اچھی کاوش ہے۔
۲۔ روانی، سلاست، شستگی اور سادہ انداز میں مشکل الفاظ کی وضاحت اس ترجمے کی خاص خصوصیات ہیں۔
۳۔ مترجم نے حتی الوسع کوشش کی ہے کہ لفظ کی رعایت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور قرآن کریم میں وارد اصطلاحات کی مختلف تعبیرات کو قاری کو اس کے مادری زبان میں ذہن نشین کردیا جائے۔
۴۔ یہ ترجمہ بلامبالغہ بے جا ایجاز و اطناب سے پاک اور قرآنی علوم سے شناسا اور ترجمے و تفسیر کے لئے دیگر ضروری علوم سے واقف ہے۔
۵۔ فی الحال اس ترجمے کی طباعت انتہائی معمولی کاغذ پر علیحدہ پاروں کی صورت میں کی گئی ہے۔ جسے کاتب نے ہاتھ سے لکھا ہے۔ قرآنی آیات کے متن کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کو ترجمے کو اس کے بعد لکھا گیا ہے۔ اس ترجمے کی کمپیوٹر پر لکھائی اور طباعت (Computerized Version) سے اس کی خوبصورتی مزید بڑھ جائے گی۔ اور اس کے ساتھ مختصر حواشی اور وضاحتی نوٹس کا اضافہ تو یقیناً اسے چار چاند لگا دے گا۔
حواشی وحوالہ جات:
۱۔ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں: محمد عبداللہ منہاس، "قرآن مجید کے تراجم مغربی ارو مشرقی زبانوں میں"، سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم (صفحات: 603۔608)، مولانا عبدالماجد جد دریا آبادی، "قرآن مجید کے انگریزی تراجم"، سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم (صفحات: 611۔616)، ڈاکٹر مولوی عبدالحق، "پرانی اردو میں قرآن مجید کے تراجم اور تفاسیر"، سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم، (صفحات: 617۔626)، حافظ محمد ادریس، "پشتو ادب میں تفاسیر کا ذخیرہ"، سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم (صفحات: 627۔633)، محمد سلیم، "سندھی زبان میں قرآن مجید کے تراجم اور تفاسیر"، سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم (صفحات: 635۔638)۔
۲۔ کیا قرآن کا ترجمہ ممکن ہے؟ اس بحث پر مطالعے کے لئے دیکھیے: ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم شرف الدین، قرآن حکیم کے اردو تراجم (تاریخ۔ تعارف۔ تبصرہ۔ تقابلی جائزہ) (صفحات: 69۔75)۔
۳۔ محقق زلمے ہیوادمل کے مطابق پشتو زبان میں قرآن مجید کے جزوی تراجم کا ثبوت گیارہویں صدی عیسوی سے ملتا ہے۔ پشتو ادب کے کئی ماہرین نے مسجع عبارات میں قرآن مجید کے بعض سورتوں اور آیتوں کے ترجمے لکھے۔12 ویں صدی اور بعد کے ادوار میں اس میں مزید اضافہ ہوا۔ دیکھیے:سر محقق زلمے ہیوادمل، د پختو نثراتہ سوہ کالہ "پشتو نثر کے آٹھ سو سال" (صفحات: 442۔460)۔
۴۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: حافظ محمد ادریس: پشتو ادب میں تفاسیر کا ذخیرہ۔ سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم (صفحات: 627۔633)۔
۵۔ دیکھیے ہدایت اللہ نعیم Islamic Literature in Pashto پی ایچ ڈی مقالہ (1986)، ایریا سٹڈی سنٹر (سنٹرل ایشیا) پشاور یونیورسٹی (صفحات: 1-25)۔
۶۔ ایضاً (صفحہ 3)۔
۷۔ ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم کی تحقیق کے مطابق قرآن مجید کا سب سے پہلا اردو ترجمہ 1087ھ بمطابق 1676ء میں عبدالصمد بن عبدالوہاب خان نے لکھا۔ دیکھیے: قرآن حکیم کے اردو تراجم (صفحہ 82۔83)۔
۸۔ اس چارٹ کی تیاری میں مندرجہ ذیل مقالات سے استفادہ کیا گیا ہے:
i۔ پروفیسر عارف نسیم "پشتو میں دینی ادب" (صفحات: 217۔228) در: صوبہ سرحد پر پہلی لسانی اور ثقافتی کانفرنس کے مقالات کا مجموعہ منعقدہ 29، اپریل 1986 (ترتیب و تدوین) پروفیسر محمد نواز طائر، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، 1986ء۔
ii۔ زلمے ہیوادمل: د پختو نثراتہ سوہ کالہ (صفحات: 442۔459)۔
iii۔ ڈاکٹر ہدایت اللہ نعیم: Islamic Literature in Pashto پی ایچ ڈی مقالہ 1986 ایریا سٹڈی سنٹر، پشاور (صفحات 1۔25)۔
iv۔ ڈاکٹر شاہجہان: پہ پختو نثر کیی د مطبوعہ ترجمو یوہ تنقیدی مطالعہ (پشتو نثر میں مطبوعہ تراجم کا تنقیدی مطالعہ پی ایچ ڈی مقالہ 2000، شعبہ پشتو۔ پشاور یونیورسٹی (صفحات: 23۔33)۔
v۔ حافظ محمد ادریس: پشتو ادب میں تفاسیر کا ذخیرہ، سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم (صفحات 627۔633)۔
vi۔ ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمٰن: علمائے سرحد کی تصنیفی خدمات۔
۹۔ حافظ محمد ادریس: پشتو ادب میں تفاسیر کا ذخیرہ (صفحہ629)۔
۱۰۔ الحاج سید جعفر حسین شاہ، قرآن مجید مع منظوم پشتو ترجمہ (صفحہ ب)۔
مصادر و مراجع
سیارہ ڈائجسٹ (قرآن نمبر) جلد دوم، پیراڈئز سبسکرپن ایجنسی، فاطمہ جناح روڈ کراچی، سن اشاعت نامعلوم ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم شرف الدین، قرآن حکیم کے اردو تراجم (تاریخ۔ تعارف۔ تبصرہ۔ تقابلی جائزہ)، قدیمی کتب خانہ، مقابل آرام باغ کراچی نمبر۱، سن اشاعت نامعلوم۔
زلمے ہیوادمل: د پختو نثراتہ سوہ کالہ، ملت پرنٹرز لاہور، 1996۔
پروفیسر محمد نواز طائر، (ترتیب و تدوین): صوبہ سرحد پر پہلی لسانی اور ثقافتی کانفرنس کے مقالات کا مجموعہ منعقدہ 29 اپریل 1986، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، 1986ء۔
ڈاکٹر شہجہان: پہ پختو نثر کس د مطبوعہ ترجمویوہ تنقیدی مطالعہ )پشتو نثر میں مطبوعہ تراجم کا تنقیدی مطالعہ) پی ایچ ڈی مقالہ (2000)، شعبہ پشتو، پشاور یونیورسٹی۔
ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمٰن: علمائے سرحد کی تصنیفی خدمات، فرنٹیر پبلشنگ کمیٹی، اردو بازار، لاہور۔