سعید احمد اختر کی شاعری کا تجزیہ

ڈاکٹر نذیر تبسم

Abstract

The poetry of Sarhad is exclusive study area of Dr. Nazir Tabasum. He has done his PhDs work on this topic. This article deals with the poetry of Saed Ahmad Akhtar a distinguished poet of Sarhad. Author discusses the out standing qualities of his poetic art. He narrates the stylistic trends of the poet and presents his findings with examples from the poet works.

سعید احمد اختر، صوبہ سرحد کے سینیر شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ پہلے کالج میں پڑھایا۔ پھر سول سروسزمیں آئے اور ریٹائرمنٹ تک مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی رہی۔ یہ مختصر سوانح حالات اس لیے بتانا ضروری ہے کہ سعید اختر کی شاعری کے خدوخال اپنے پس منظر میں جس بے اطمینانی اور ذہنی ہم آہنگی کے فقدان سے تشکیل پاتے ہیں۔ وہ شاعر کے سماجی رویوں کی مختلف اشکال سے ابھرتے ہیں۔ ایسا تو کہنا ذرا مشکل ہے کہ مصطفیٰ زیدی کیطرح وہ اپنے ماحول اور ملازمت میں Misfitرہے۔ پھربھی شاعرہونے کے ناتے ان کے ہاں جس ناآسودگی کے عوامل بڑے بھرپور لہجے میں اپنی موجود کا احساس دلاتے ہیں۔ اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ سعید احمد اختر نے اپنی شاعری کو کلیات میں جمع کیا "پتہ ٹوٹا ڈال سے" اس روایت کا حصہ ہے جس کے تحت شعراء نے اپنے مختلف مجموعوں کو یجکا کرکے کلیات کی شکل دی جیسے فیض احمد فیض، منیر نیازی، احمد فراز، پروین شاکر اور کچھ دیگر شعرا کا کلام انفرادی مجموعوں کی اجتماعی شکل میں مختلف ناموں سے سامنے آیا۔
اہم بات یہ ہے کہ اپنی شاعری میں موضوعات لہجے اور انداز کے حوالے سے ان کا جوحق بنتا ہے۔ انہیں وہ مقام نہیں ملا۔ اور تخلیقی قدوقامت میں ان سے کوتاہ قد لوگ ادبی منظر نامے پر زیادہ چھاگئے۔ پتہ نہیں یہ سعید احمد اختر کی درویشانہ اور حجاب آلودہ طبیعت کا خاصا تھا یا دوسرے لوگوں کی PRکا کرشمہ، تاہم یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سعید احمد اختر کی شاعری کے تفصیلی مطالعے سے ان کے ایک اہم اور بڑا شاعر ہونے پر یقین کرنا پڑتا ہے بس ذرا شعروں کی Qualityنےانہیں نقصان پہنچایا اور انہوں نے بہت سی ایسی شاعری بھی کرڈالی۔ جوان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ اگرچہ طبیعت کی نفاست، انسان دوستی، لہجے کا سبھاؤ اور بیان کی قدرت ان کے اکثر اشعار میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے پھر بھی اگر ایک حد سے زیادہ شاعری کی جانے لگے تو لوگ اسے پڑھنے سے کترانے لگتے ہیں۔
احمد سعید اختر کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے لکھا:
"سعید احمد اختر کی شاعری باقاعدہ ایک تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ یہ صدیوں کے جبرواستحصال کا پس منظر ہے مگر اس پس منظر میں شاعر جو نقش ابھارتا ہے وہ شعور اور روشنی کے نقوش ہیں۔ یوں نقوش زیادہ واضح اور موثر انداز میں پڑھنے والے کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لےلیتے ہیں اور وہ اپنے اندر ایک اعتماد، ایک توانائی محسوس کرتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سعید اختر ایک ترقی پسند شاعر کے منصب سے عہدہ برآہوتے ہوئے بھی فنکارہی رہتا ہے۔ اور یہ خوبصورتی اسے اپنے متعدد معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔" (1)
اس بات سے انکار قطعاً ممکن نہیں کہ ترقی پسند تحریک نے مختلف تخلیقی اذہان کو ایک رخ اور سمت کا اعتبار دیا۔ اور ان کے ذہنی منظر نامے میں مختلف وسعتیں نمودار ہوئیں۔ لیکن اس کے لیے تحریک کے پلیٹ فارم سے کسی سند کی ضرورت نہ تھی۔
احمد سعید اختر بھی ایسے شاعر ہیں۔ جو باقاعدہ ترقی پسند تحریک کے شیدائی یا علمبردار نہیں تھے۔ لیکن اندر کی روشنی انہیں جہاں سے ملی انہوں نے اس سے استفادہ کیا۔ خاص طور پر سعید احمد اختر کے ہاں عصری شعور کے حوالے سے جن سماجی، معاشی اور معاشرتی رویوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ وہ اسی تناظر میں کھلتا ہے۔ اگرچہ ان کے ہاں رومانیت کے عناصر حددرجہ بہتات کے ساتھ ہیں اور ہم انہیں ایک مثبت طرز احساس کا رومانی شاعر قرار دے سکتے ہیں۔ تام انہوں نے اپنی عصری ذمےداریوں سے بھی پہلو تہی نہیں برتی۔ اور مختلف زاویوں سےبات کہنے کی کوشش کی۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے موضوعات تعداد میں کم ہیں۔ لیکن جہاں جہاں ان کا اظہار ہوا ہے۔ معروضی حالات کی دل شکن صورت واقعہ ہمیں متوجہ ضرور کرتی ہے۔ مثلاً یہ اشعار جو غم دوراں کے عکاس ہیں۔

تنگ آکے لوگ گنبد بے در کے جبر سے                   کرلیں گے اختیار بغاوت کا راستہ                 ص۷۲   
گھربچے گا نہ کوئی قبر بچے گا اس سے                   شہر پھیلے گا تو بستی کو نگل جائیگا                        ص۱۰۳
روٹی کی بھاگ دوڑمکاں کی تلاش نے                      بربادکردیا ہے محبت کا بانپکن                     ص۱۲۴
ہواکےکھیت میں باتوں کی فصل بونے سے                 ہماری قوم رہی خودکفیل ہونے سے               ص۱۵۷
ستاروں پہ تم ڈالتے ہو کمندیں                                  مرےگھر میں پینے کا پانی نہیں ہے              ص۱۶۰
دانے کی فصل ہے نہ یہ ریشے کی فصل ہے              میرے بزرگ کھیت میں کیا چیز بوگئے          ص۲۵۲
کوئی اک بات تو اس گھر میں قرینے کی ہو                 ہم سے اب اور یہ نقشہ نہیں دیکھا جاتا (2)     ص ۲۳۷

            ان اشعار میں کچھ المیے واضح اشکال میں ہیں اور کچھ بین السطور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں لیکن فکر، اور دل حساس کے ملاپ سے جو کرب رگوں میں اترتا ہے۔ اسکا بیان اور ابلاغ کا ہنر، ان سارے شعروں کو ہماری سوچوں سے ہم آہنگ کردیتا ہے ۔اور ہم سعید اختر کے عصری واقعات کے تجزیے اور دکھ بھرے لہجے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں آپ اگر تھوڑا ساغورکریں تو ایسے اشعار کا داخلی کرب، معروضی انداز فکر کے باوجود کوئی نعرہ یا منشور نہیں لگتا اور شاید یہی وہ مقام ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک کے اس گروہ سے علیحدہ نظر آنے لگتے ہیں جنہوں نے مقصدیت کو فن پر ترجیح دی۔
ایسے موقعوں پر سعید اختر نے ایک بے حد نارمل آدمی کا رویہ اپنایا ہے۔ اس فرد کا رویہ جوزندگی کو اس کے حقیقی پس منظر میں دیکھنے اور برتنے کا خواہاں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک حوصلہ مند شخص کسی بھی مرحلے پر مایوسی کا شکار نہیں ہوتا وہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ بہتر سماجی تبدیلیوں کے امکانات اور ان کے لیے جدوجہد اس کی سوچ کا حصہ ہوتے ہیں۔
پرتو روہیلہ کی بھی رائے ہے کہ:
"سعید احمد اختر سرحد کے ایک ریگزار سے تعلق رکھتے ہیں شایہد یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز میں ایک پیغمبرانہ درد ہے اور اس درد کا دائرہ سسکتے انسانی رشتوں خون تھوکتی جوانیوں پر ہی نہیں۔ بجھتے چراغوں، کملاتے پھولوں اور ٹوٹتے تاروں پر بھی محیط ہے عرفان ووجدان پر کھڑا حسن و محبت کا یہ پیمبر اپنی درد انگیز آواز میں لوگوں کو درسِ حسن و محبت دے رہا ہے۔" (3)
پرتوروہیلہ کی اس رائے کو ہم ان کی ذاتی رائے قرار دے سکتے ہیں لیکن اس رائے سے مکمل طور پر اختلاف بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شاید غم جاناں اور غم دوراں کے اسی اشتراک عمل نے انہیں باطنی اور خارجی سطح پر بے دلی اور احساس تنہائی کا شکار بنادیا ہو۔ مادی زندگی کی بے سمت دوڑ میں مشینی اذہان کی بے حس کیفیات اور برتاؤ نے رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور سماجی واخلاقی اقدارکےزوال کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اس نے سوچنے والی اذہان اور درد کا رشتہ رکھنے والے اہل دل لوگوں کو اندر سے تنہا کردیا ہے۔ اگر ذہنی وفکری سطح پر تضادات ابھر کر سامنےآنے لگیں اور اپنے بھی ہماری جذباتی ضرورتوں سے پہلو تہی کرنے لگیں۔ اور معروضی حالات بھی دل دکھانے والے ہوں۔ تو انسان اپنے وجود میں سمٹنے اور اپنے آپ کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش نہ کرے تو اور کیا کرے۔
احمد سعید اختر کی شاعری کے محور پر جوموضوعات نسبتاً زیادہ اہم اور توانا محسوس ہوتے ہیں۔ ان میں احساس تنہائی اور بے دلی کا رویہ سب سے اہم ہے۔ اسے ہم طبعی اصطلاحات میں ڈپریشن کہیں یا فرسٹریشن، لیکن ان رویوں نے ہماری معاشرتی زندگی کے نظام کو جس طرح درہم برہم کیا ہے۔ وہ قابل غور ہے اور اس سے نفسیاتی سطح پر جو الجھنیں ہماری شخصی زندگی کو مفلوج کر رہی ہیں۔ وہ سانحہ الگ ہے لیکن سعید احمد اختر ایک سلجھے ہوئے انداز میں دھیمے لہجے اوررگوں میں اترنے والے محسوساتی رویے سے شکوہ یا شکایت کرتے ہیں۔ ان کے ہاں برہمی کی کیفیات جنم نہیں لیتیں نہ ہی وہ انتقام کی سطح پر بغاوت کا پرچم اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے اس طرح کے تمام مقامات پر ایک نہایت شائستہ انسان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے اندر یا برفباری ہو رہی ہو یا الاؤدہک رہے ہوں۔ لیکن ان کا برتاؤ اور تخلیقی سطح پر اظہار ہمیشہ ایک سلیقے اور قرینے کا عکاس رہا ہے۔ اور بلاشبہ اس شخصی رویے سی کسی بھی شاعر کے تخلیقی سوتوں کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ ذرا یہ اشعار ذہن میں رکھئیے۔
نہ وہ میری نہ میں ان کی خوشی تھا
میں اپنے گھر میں جیسے اجنبی تھا                                                   ص ۱۰۲
نہ کوئی غم ہے جہاں میں نہ ہے خوشی مجھ کو
بس ایک بوجھ سی لگتی ہے زندگی مجھ کو                 ص ۱۲۷
پھر تو مرکربھی نہ رشتوں میں بٹوں گا اختر  
کردے اک بار مجھے میرے حوالے کوئی (4)                                     ص۱۶۶
جس میں سوتا ہوں میں کس کا ہے وہ کمرہ جانے
جس میں کنبہ مرابستا ہے مرا گھر تو نہیں                                          ص ۲۲۵
رہ سکوں اس میں نہ دل چھوڑ کے جانا چاہیے
میرے گھر میں ہے کوئی غیر نہ اپنا میرا                    ص ۲۵۰
فصل گل ہو کہ خزاں اب تو بڑی مدت سے
ایک سا ہے مرے دل کا مرے گھر کا موسم                                         ص ۲۵۵
بھری محفلوں میں اختر رہے عمر بھراکیلے
نہ کسی نے بات پوچھی نہ کسی نے بات مانی              ص ۲۶۳
دفتر ہی میں لیٹے رہو
اب کیا رکھا ہے گھر میں                                                                ص ۳۳۹
تم ہو مرے عزیز ہیں دفتر ہے دوست ہیں
رشتوں میں بٹ کے میں تو کہیں کا نہیں رہا                ص ۳۶۶
یوں تو ملنے ہزار آتے ہیں
مجھ سے ملنے کوئی نہیں آتا (5)                                                      ص ۴۰۳

            اگرسوچا جائے تو ہم اپنی زندگی دوسروں کے لیے بسر کرتے رہتے ہیں۔ اخلاقیات کی رو سے یہ بات قابل تحسین ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہماری ذات کا ہم پر کوئی حق نہیں ہم صبح و شام دوسرے رشتوں کو جتنا وقت دیتے ہیں اپنے آپ کو اس کا کتنا حصہ دیتے ہیں اور پھر وہی لوگ جن کے نام ہم نے اپنا سب کچھ کر رکھا ہوتا ہے جن کے لیے ہم اپنے آپ کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں وہ رشتے خونی رشتے بھی اپنے اپنے حصار میں گم۔ ہمیں نظر انداز کرنے پرلگ جائیں تو پھر اندر کا سناٹا ایک چیخ بن کر اس طرح کے اشعار میں ڈھلتا ہے اور سعید احمد اختر کی شاعری کا یہ بڑا ہی مضبوط حوالہ ہے جو انفرادی سطح پر محسوساتی انداز لیے آج کے دور کے حساس اذہان کا ایک احساس محرومی بن جاتا ہے۔
ان میں سے اکثر اشعار میں جو گھر کا حوالہ آیا ہے اسے خارجی پھیلاؤ کے کینوس پر دیکھنے کی بجائے کائی کے طور پر دیکھیے۔ اس کا مکان کے ساتھ تقابلی جائزہ لیجیے۔ اس میں بسنے والے قریب کے رشتوں کے رویوں کو ذہن میں جگہ دیجئے اور پھر اس آشوب کا تجزیہ کیجئےجس نے ہم سے ہمارا سبھی کچھ چھین لیا ہے اور اہم اچانک بہت ذیادہ اکیلے ہوگئے ہیں۔
بیسویں صدی میں گھر کی ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل شروع ہوتا ہے وہ اکثر شعراء کے ہاں مختلف زاویوں سے آتا ہے اس کے لیے آپ چاہے صنعتی ترقی کو الزام دیں یا دیہات سی شہروں کی طرف مراجعت کے طرزفکر کو، سائنس کی تیز رفتار ترقی کو مورد الزام ٹھہرائیں یا کوئی اور جواز تلاش کریں یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں گھروں نے مکانات کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور ہم زندہ کٹھ پتلیوں نے اپنی ذات کو مثال بنا کر اپنے شعور عصر کی آگہی سے اسے ہم سب کی کہانی بنا دیا ہے۔
سعید احمد اختر کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو اس کا رومانوی احساس ہے۔ حسن اور محبت ان کے بنیادی موضوعات میں سے ہیں اور انہوں نے محبت میں ہجرووصال دونوں کے ذائقے چکھ رکھے ہیں وہ مطمئن کبھی نہیں ہوتے۔ وصل کی سرشاری میں بھی آنے والے ہجر کا کرب انہیں دکھی اور بے چین کر دیتا ہے۔ ان کی شاعری کےمطالعے سے لگتا ہے کہ ان کی زندگی میں ایک سے زائد محبتیں آئیں اور ان محبتوں میں دو چار بہت سخت مقام بھی آئے ان میں سے ایک مقام عمروں کے تفاوت کابھی ہے۔
یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ محبت سن وسال کے امتیاز سے ماورا ہوتی ہے اصل حسن شخصیت کا ہوتا ہے اور اگر ذہنوں کی فریکونسی ایک ہی رفتار اور سمت رکھتی ہو تو قربتیں خودبخود جنم لینے لگتی ہیں اس لیے کہ محبت دو افراد کے ایک ہی وقت میں ایک ہی سمت دیکھنے اور ایک سا انداز فکر رکھنے سے جنم لیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے معاشرتی اقدار، اخلاقیات کے تقاضے اور رسوم وروایات، ہماری ذرا سی کوتاہی پر ہمیں سزاوار تماشا کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں نفسیاتی رویوں کی تہہ داری کو سمجھنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اور ویسے بھی عالم لوگ محبت کا ایک ہی مفہوم لیتے ہیں اور ان کے نزدیک قربتوں کا ایسا کوئی سلسلہ ہوتا ہی نہیں جس میں رشتوں کا کوئی نام نہ ہو۔
سعید احمد اختر بھی اسی سانحے سے دو چار رہے ہیں۔ یقیناً ان کی شخصیت کا رکھ رکھاؤ، لب و لہجے کی شائستگی، بہتر معاشرتی مقام اور ایک خوبصورت انداز کے شاعر ہونے کے ناتے ان سے متاثر ہونے کا رویہ بہت سے لوگوں کو ان کے قرب کا تمنائی بنادیتا ہے۔ لیکن معاشرتی قدغنیں اور لوگوں کی سوچوں کا ناروا انداز انسان کو تھوڑا سا دکھی ضرور کردیتا ہے اور اس سے نارسائی کا وہ کرب جنم لینے لگتا ہے جب انسان سمندروں کا مسافر ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پیاسا محسوس کرے۔

یہ اشعار دیکھیں:۔
سوچا تو ہر طرح وہ مری ہم خیال تھی
دیکھا تو میرے بالوں میں چاندی کے تارتھے                                      ص۴۰
اس عمر میں پھر عشق کا آزار نہ ہوجائے                   
اک چھوٹی سی لڑکی سے کہیں پیار نہ ہوجائے           ص۶۱
بچوں کی طرح میراادب کرنے لگی ہے
اتنی بھی تعلق میں وہ ترمیم نہ کرتی (6)                                             ص۴۸۰
سعید احمد اختر کی کامیابی اور خصوصیت اس کی نفیسانی تہہ داریوں سے آشنائی ہے۔ مطالعے تجربے اور مشاہدے نے اس کی شاعری میں بعض جگہ بڑے خوبصورت نفسیاتی Touches دئیے ہیں۔ اور غیر محسوس انداز میں ہمیں یہ رویہ بڑا اچھا لگنے لگتا ہے۔ ویسے بھی غزل تشریح کی بجائے اختصار کی متقاضی ہوتی ہے۔ اور محبتوں کے سلسلے میں بے حجاب آنکھوں سے کہیں زیادہ نیم کش نگاہیں جان لیوا ہوتی ہیں۔
سعید احمد اختر نے محبتوں کے کینوس پر بڑے خوبصورت نفسیاتی رنگوں کی عکاسی کی ہے۔

                        وہ شخص مجھ سے خفا ہے بس ایک اسکے سوا
کوئی خبر میری دیوانگی کے پاس نہیں                                                          ص۱۱۹
خواب ٹوٹا ہے تو کیا چوٹ لگی ہے دل پر
میں کسی اور کےپہلوں میں پڑا روتا ہوں                    ص۳۶۲
وہ آجکل بڑی نرمی سے پیش آتا ہے
کہیں یہ ترک تعلق کی ابتدا تو نہیں                                                                 ص۳۸۴
ورنہ   ہم   قہقہہ   لگا  دیں  گے
دیکھو ہم سے غموں کی بات نہ کر                            ص۴۲۷
ذکر میں کب ترا کرتا ہوں کسی کے آگے
اب تو چپ بھی نہیں رہتا ہوں کسی کے آگے                                                    ص۴۳۱

            محاکات نگاری سعید احمد اختر کا ایک اور جاندار پہلو ہے۔ وہ بعض جذبات واحساسات اورمختلف ذہنی وفکری رویوں کی ایسی خوبصورت تصویر کھینچتے ہیں کہ لفظ خود بولتے نظر آنے لگتے ہیں:۔

                        اس  گھنے  پیڑ کے نیچے بھی جہاں بیٹھا ہوں
ایسی گرمی ہے کہ سائے سے دھواں اٹھتا ہے                                                 ص۱۳۵
ذراوہ عرش سے اتریں تو ہم نظر آئیں
بلندیوں  سے  تو  دریا  لیکر  لگتا ہے                                    ص۳۱۰
دھیرے دھیرے ختم ہوجائیں گے ساری آہٹیں
اورخاموشی  گلی میں گونجتی رہ جائے گی                                                    ص۳۱۷
کل شب مری کھڑکی سے لگی شاخ پہ اختر               
جگنو تھا کہ ایک یاد کی خوشبو کا دیا تھا                               ص ۳۸۵
سرد مہری  سے  ترے  پیار لڑے  گا  کب  تک
یہ پہاڑی بھی کبھی برف سے ڈھک جائے گی (8)                                            ص۳۹۰

            تغزل غزل کی وہ خاصیت ہے جس میں حسن و عشق کا بینا، غنائیت، موسیقیت اور بولتے ہوئے مصرعوں کا رچاؤ شامل ہوتا ہے ہر وہ شاعر جو تغزل کے برتنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ موسیقی اور ترنم اس کی شخصیت کا ایک جزوہوتا ہے۔ لفظوں کی دروبست اور ان کے انتخاب کا شعور جب حدِ کمال کو پہچتا ہے۔ تب شاعری میں تغزل کی کیفیت ابھرتی ہے۔
سعید احمد اختر نے غزل کے کئی ایسے اشعار کہے ہیں جو اپنے ڈکشن اور اسلوب کے حوالے سےزندہ رہ جانے کے قابل ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
کیابات ہے کاکل جاناں کی سنورے تو چمن بکھرے تو جنوں
مہکے  تو  صبا، پھیلے تو گھٹا، لپٹے تو قضا  ہوجاتی  ہے۔                                ص۱۴۹
کبھی گزرو تو میری رہ گزر سے
تمہیں بس چومنا ہے اک نظر سے                 ص۱۷۸
تیر کو  چست  کئے  درکا  نشانہ باندھے
وہ کھڑا تھا کہ مقدر مجھے لے کر پہنچا                                                         ص۲۹۸
دےآیاہوں جاکرانہیں شہشتوت کےپتے                      
ریشم  کا دوپٹہ تومیرے پاس نہیں تھا                         ص۳۳۲ 

            سادگی اور سلاست بھی سعیداحمد اختر کا ایک انداز ہے وہ کسی بھی جذبے یا احساس کو الفاظ کی بازی گری یا اندازبیان کے داؤ پیچ سے ناقابل فہم نہیں بناتا۔ دل سے بات کرتا ہے۔ اور دل ہی میں بات اتارنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا نظریہ فن خود انہی کے اشعار سے ملاحظہ ہو۔
وہ نظم کیا کہ جسے بوجھنا بھی مشکل ہو
وہ شعر کیا جسے آئے نہ دل میں گھرکرنا                                                      ص۱۵۹ 
کلی کو پھول کو تاروں کو چاند کو تجھ  کو
غزل کوسازکوہم ایک ہی گھرانہ کہیں(11)                              ص۲۷۱ 
سعید احمد اختر کے فن کے بارے میں ضمیر جعفری کہتے ہیں:
"اس کے اشعار ایسے عالم فاضل شخص کی مانند ہیں کہ ان کے خیال کے سامنے دماغ اور جمال کے سامنے دل جھک جائے۔ اس کا فن بادلوں میں چمکتی ہوئی دھوپ کی کشش اور کشمکش کا حامل ہے اس کی شاعری الفاظ کی بازیگری نہیں انفاس کی مراد مندی اور مکانات کی صورت گری ہے۔ اس نوع کی کشادہ آغوش اور گریبان چاک شاعری سے زمین و آسمان کی توقعات نہ سہی انسان کی آسودگی اور آزادی کی امیدیں یقیناً وابستہ کی جاسکتی ہیں۔" (12)
اسی طرح فارغ بخاری کی رائے ہے کہ:
"اختر کی شاعری فہم وادراک کی شاعری ہے نئےطرزِاحساس کی شاعری ہےاس نے تخلیق کاری کے حسن اور حرف وصورت کے اعجاز سے مضمون آفرینی کے ایسے پیکر تراشے ہیں جنہیں اردو غزل میں اضافے کا درجہ حاصل ہے اسے مسلسل ریاضت اور وسیع مطالعے نے غزل کا مزاج دان بنادیا ہے۔ اسے غزل کی تمام ترنزاکتوں اور طاقتوں کا شعور بھی حاصل ہے اور انہیں برتنے کا ہنر کا بھی آتا ہے۔ اس نے غزل کی جدید وقدیم روایتوں سے ایک نیا آہنگ دریافت کیا ہے۔ جو اس کے فن کی پہچان بن گیا ہے۔" (13)
اب آئیے فارغ بخاری کی اس رائے کے ثبوت میں یہ اشعار دیکھیں:
تمہاری آنکھوں کے دیوان جس نے لکھے ہیں 
میں  اس  عظیم   سخن ور سے  پیار کرتا ہوں                                                             ص۱۲۷
دوگھڑی کوتجھےفرصت ہوتوآجااےدوست     
جوش کی ایک رباعی تجھے سمجھانی ہے                             ص۱۳۹ 
بلانے اپنے بچوں کو دعا دی
خدا محفوظ رکھےہربشرسے                                                                       ص۱۷۸

اب اس کے بعد میں اپنا پتہ  کسے دیتا
کہ موج تک توترےسامنےگیا ہوں میں                                   ص۲۵۶
رنجشیں دوستوں میں تھیں لیکن
اس طرح کی کدورتیں کب تھیں                                                                     ص۲۶۲
بچارا صدمے سے شل تھا کہاں گیا ہوگا
جہاں پہ چھوڑگئےتھےوہیں تلاش کریں (14)                          ص۴۶۳

"سعید احمد اختر فنی اعتبار سے بھی غزل کی نزاکتوں کا امین رہا ہے۔ بیان و بدیع کے مختلف حوالے اس کی شاعری کو اور زیادہ خوبصورت بناتے ہیں خصوصاً اس کی بعض تشبیہات تو چونکا دینے والی ہیں۔ مثلاً:
غم   ہے  کہ   شب   تار  کا   امڈا  ہوا  دریا
ہےدردکہ بپھری ہوئی ساون کی جھڑی ہے                                                     ص۴۴
ایسی سونی ہوئی دل کی بستی         
سوکھ جائے کوئی دریا جیسے (15)                          ص۴۵

            ان تمام تشبیہات میں مشاہدے کی اٹھان اور تجربے کی بوقلمونی شعریت کےلبادے میں ڈھل کر کتنی اہم ہوگئی ہے۔
سعید احمد اختر کا اسلوبیاتی تجزیہ اگر کیا جائے۔ توان کے ہاں عربی فارسی الفاظ کے ساتھ ساتھ ہندی ڈکشن سے بھی بڑے الفاظ لئے گئے ہیں لیکن یہ ایک اچھی بات ہے کہ انہوں نے فکر، جذبہ اور جمال کی رعایت سے ایسے الفاظ کا استعمال کیا۔ خصوصاً ہندی اساطیر سے منتخب تلمیحاتی الفاظ نے ان کے بعض اشعار کو تاریخی تسلسل وتناظر عطا کردیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سیتا، رام، کاشی، رادھا، کرشن، گوپیاں، میرا اورہندی لغت کے دیگر الفاظ سے اپنی شاعری کی جو فضا تخلیق کی ہے وہ اپنے کومل لہجے کی بناء پر بہت اچھی لگتی ہے۔
سعید احمد اختر نے بہت سے نامانوس الفاظ کو بھی غزل میں سمونے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں زیادہ تر وہ کامیاب نہیں رہے۔ غزل کا اپنا مزاج ہے اس کی جمالیاتی پرتیں ہوتی ہیں اس کے علامتی سلسلے ہوتے ہیں۔ ابہام کی دھند ہوتی ہے۔ نفسیاتی رویوں کہ تہہ داریاں ہوتی ہیں۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اس طرح کے نامانوس الفاظ کی بندش چست نہیں ہے۔ اور وہ بڑے عام سے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے جو الفاظ سماعت پر بوجھل محسوس ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔ جیل، سرجن، جہاز، سیٹھ، کرایہ، تعطیل، اینٹوں، چوک، عینک، میزکا لیمپ وغیرہ۔
اس طرح یہ بات بھی ایک امرواقعی ہے کہ سعید احمد اختر نے بہت سے بھرتی کے اشعار بھی اپنے مجموعہ میں شامل کئے ہیں جو روایتی تسلسل کی ایک کڑی محسوس ہوتے ہیں اور جن میں کہیں کہیں سرسری انداز اور ہلکاپن سعید احمد اختر کے مجموعی مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوپاتا۔ جس طرح کہ پہلے بھی کہاجاچکا ہے۔ ان  کے کلیات میں بہت سے اشعار اگر شامل نہ بھی ہوتے تو کچھ فرق نہ پڑتا۔ بلکہ عین ممکن ہے ان کی وقعت کچھ اور بڑھ جاتی۔ تاہم اگر سعید احمد اختر ذرا محتاط رہتے تو یہ کلیات زیادہ جمالیاتی وفکری جہتوں سے مزین ہوسکتے تھے۔
پھر بھی یہ بات بلاخوف وخطر کہی جاسکتی ہے۔ کہ صوبہ سرحد کے جن شعراء کےمنتخب کلام کو اٹک کے اس پار یا برصغیر کے شاعروں کے مقابلے پر رکھا جاسکتا ہے۔ ان میں سعید احمد اختر کی شاعری بڑے وزن و اعتبار کی حامل ہے۔

            "بقول محسن احسان سعید احمداختر کی غزل میں گردوپیش کی ایک نئی دنیا سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ نئے عہد کے دل کی دھڑکنیں اور فکروخیال کی انقلاب پزیری اس میں بولتی ہے اس کی غزل میں زندگی کی بھرپور سچائیاں اور نئی سوچ کی صداقتوں کی چمک دمک موجودہے کہیں کہیں تجریدی خیالات کا عکس بھی پڑتا ہے لیکن ابہام کا شائبہ نہیں گزرتا ہئیت کے اعتبار سے ان کی غزلوں میں روایت کی گرفت مضبوط ہے مگر اسلوب میں ایک سادہ، جدید اور سہل زبان ہے جو دل کے تاروں کو چھوتی ہے اور دماغ کے دریچوں کو وا کرتی ہے۔" (16)

حوالہ جات
۱۔         پتہ ٹوٹا ڈال سے                           ص ۹
۲۔         ایضاً                                          ص۲۱
۳۔         ایضاً                                          ص۲۲
۴۔         ایضاً                                          ص۶۴
۵۔         ایضاً                                          ص۷۳
۶۔         ایضاً                                          ص۱۱
۷۔         ایضاً                                          ص۹۷
۸۔         ایضاً                                          ص۱۰۶
۹۔         ایضاً                                          ص۱۳۶
۱۰۔       ایضاً                                          ص۹۲
۱۱۔       ایضاً                                          ص۲۲
۱۲۔       ایضاً                                          ص۱۵۶
۱۳۔       ایضاً                                          ص۲۰۵
۱۴۔       ایضاً                                          ص۱۹۹
۱۵۔       ایضاً                                          ص۲۰۳
۱۶۔       ایضاً                                          ص۸

کتابیات
۱۔         پتہ ٹوٹا ڈال سے               سعید احمد اختر                فطرت پبلی کیشنز لاہور ۱۹۸۸ء

                                                پتہ ٹوٹا ڈال سے (کلیات)
سعید احمد اختر

شعری مجموعی:               ۱)         دیارشب ۷۶
۲)         سطح آب ۷۸
۳)         چاندنی کے سائے
۴)         خوابگینے ۸۳
۵)         لے گئی پون اڑا

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com