صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب
گوہر رحمان نوید
Abstract
The article highlights the Child Literature of Sarhad province. The author expresses the different periods and literary persons who took part in creation of children literature. He also narrates the importance of this part of literature which is usually neglected by the writers and the circles.
بچے ہمارے زندگی کا اہم جزو اور ہمارے معاشرے کا ایک اہم طبقہ ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعلیم و تربیت سے شروع دن سے مسلسل بے اعتنائی برتی جا رہی ہے۔ حالانکہ انہی بچوں نے کل کے باپ کی صورت اختیار کرنی ہے۔ اس لیے ان کی صحت، تعلیم اور اخلاقی و جسمانی تربیت و نشوونما وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ جس طرح ادب کی آج تک کسی نے جامع تعریف نہیں کی ہے۔ اس طرح بچوں کے ادب کی تعریف تو اور بھی مشکل بن جاتی ہے۔ تعریف سے پہلے یہاں ایک معروف نقاد ہنری اسٹیل کومیگر کی ایک عبارت درج کی جاتی ہے جس میں انہوں نے بچوں کے ادب کی تشریح کی ہے۔
"ہم بچوں کے ادب سے کیا سمجھتے ہیں؟ کیا یہ وہی ادب ہے جو خاص بچوں کے لئے لکھا گیا ہو۔ جیسے پریوں کی عجیب و غریب کہانیاں، ننھی منی میں، پندو نصائح اور آداب و اخلاق کی خشک کتابیں یا سکول اور کھیل کے میدان سے متعلق قصے اور دور دراز ملکوں کی داستانیں۔ یہ سب یقیناً یہی ہیں۔ لیکن یہ ادب اس سے بھی وسیع ہے۔ بچوں کا یہ ادب بڑوں کا وہ سارا سرمایہ ہے جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے اور بلا شرکت غیرے اس پر قابض ہوگئے ہیں اور فی الحقیقت یہی ان کا اپنا ادب ہے کیونکہ نہ والدین، نہ معلم، نہ مبلغ نہ مصنف بلکہ خود بچے یہ تعین کرتے ہیں کہ ادب کیا ہے؟
بچوں کے ادب کے حدود و قیود متعین کرتے ہوئے ہم اس کی تعریف یوں کریں گے کہ وہ ادب جو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہو، ان کی دلچسپی کا باعث ہو، ان کی ذہنی و اخلاقی نشوونما کرے، ان میں شوق، تجسس اور حرکت و عمل پیدا کرے اور ان کے تجربات کو وسعت دے، بچوں کا ادب کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
"بچوں کا ادب ایسی تحریروں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں دوڑ پیچھے کی طرف کے مصداق ادیب بچہ بن کر بچوں کے لیے لکھتا ہے"۔(۱)
بچوں کے ادب میں دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے۔ اول اسلوب اور دوم پیشکش۔ اسلوب کے لحاظ سے کتابت، تزئین و آرائش، کاغذ، طباعت اور جلد بندی وغیرہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بچوں کے ادب کے موضوعات، بچوں کی دلچسپی اور عمر کے لحاظ سے متعین کیے جاتے ہیں۔ اگر بچوں کی دلچسپی ان کی عمر کے مطابق جانوروں اور پرندوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مہم جوئی اور معرکہ آرائی کی پرتجسس کہانیاں بھی بچے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں۔ اس طرح کے تخیل آمیز قصوں میں حیرت، مافوق الفطرت عناصر اور جستجو سے بھر پور مقامات کی کہانیوں میں بچہ حکایت کے مرکزی کردار کو اپنا ہیرو سمجھنے لگتا ہے اور اس جیسی خصوصیات اپناتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بچوں کا ادب لکھتے وقت الفاظ آساں ہوتا کہ انداز بیان میں کوئی وقت نہ ہو اور مفہوم واضح ہوکر سامنے آسکے۔ جس سے نئے فکری راستے کھولنے میں سہولت ہو۔ لیکن اس میں بھی رنگینی اور حسن کاری کا ہونا لازمی ہے۔ حسن و رعنائی کی وجہ سے اگر بچے کی راہ میں کوئی مشکل لفظ بھی آئے تو بچہ اسے با آسانی قبول کر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر انداز بیان بھی شگفتہ ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات بن جاتی ہے۔
اردو ادب میں بچوں کے ادب کی ابتدا میں جس کتاب کو اہمیت حاصل ہے وہ "خالق باری" ہے۔ گیارھویں صدی ہجری میں دہلی کے دوآبے میں لکھی گئی یہ منظوم کتاب نو عمر بچوں کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد نظیر اکبر آبادی، مولوی نذیر احمد، مولانا آزاد، مولانا حالی نے نثر میں مولانا اسماعیل میرٹھی، علامہ اقبال، خوشی محمد ناظر، احسن مارہروی اور صوفی تبسم وغیرہ نے نظم میں بچوں کے لئے بہت کچھ تخلیق کیا۔ تعلیمی لحاظ سے بچوں کے لئے بہترین کتابیں پنجاب میں لکھی گئیں اور حافظ محمود شیرانی کے مطابق پنجاب میں بچوں اور غیر تعلیم یافتہ گروہ کی تعلیم کا انتظام اور مقامات سے بہتر تھا۔ تقسیم کے بعد مرزا ادیب، اے حمید، الطاف فاطمہ اور ثاقبہ رحیم الدین وغیرہ نے بچوں کے لئے اتنا لکھا جو شاید انہوں نے بڑوں کے لئے بھی نہ لکھا ہو۔ لاتعداد کتابیں تحریرکی گئیں باقاعدہ رسالے منظر عام پر آئے اور اخبارات و جرائد نے بچوں کے لئے صفحات شائع کرانے کی روایت ڈالی۔ ان میں غلام عباس کی چاند تارا، صوفی تبسم کی جھولنے اور ٹوٹ بٹوٹ، ابن انشاء کی بلو کا بستہ اور قصہ دم کٹے چوہے کا اور محشر بدایونی کی سائنس نامہ نے کافی مقبولیت و شہرت حاصل کی۔ ماہنامہ جرائد میں پھول، ٹوٹ بٹوٹ، آنکھ مچولی، بچوں کی باجی، بچوں کا رسالہ، انوکھی کہانیاں، نونہال، شاہین ڈائجسٹ اور تعلیم و تربیت کے علاوہ ہفت روزہ اخبار جہاں، روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ مشرق کے بچوں کے صفحات نے بچوں کی ذہنی و فکری نشوونما کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ سرحد میں بھی بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی روایت موجود ہے۔ لیکن یہ قدرے کمزور اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں پہلے پہل بچوں کی تربیت وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ بچوں کو اخلاق سکھانے اور ان میں علمی بیداری پیدا کرنے کیلئے انہیں مسجد بھیج کر مولوی صاحب کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ بعض اوقات مولوی صاحب تعلیم کے تیزاب میں اس کی خودی ڈالے بغیر اور اسے ملائم کیے بغیر جدھر چاہتا اسے گھما دیتا تھا۔ جس سے بعض اوقات بچے سدھرنے کی بجائے بگڑ بھی جاتے تھے۔ لیکن زیادہ تر بچے اسی تادیب و ترغیب سے صحیح رستے پر اپنی منزل کی طرف رواں ہو جاتے اور اعلٰی اخلاقی و کرداری اوصاف کے مالک بن کر مفید شہری بن جاتے۔ رئیس احمد مغل کے مطابق جہاں سے ہمیں یقینی طور پر وہ مواد ملتا ہے جو بچوں کے ادب میں آتا ہے اور اس کی تخلیق اس سرزمین پر ہوئی وہ لوک ادب میں شامل لوریاں اور گیت ہیں۔ یہ لوریاں جو پشتو زبان میں ہیں ان میں بچوں کو بہادری، جرات، ایمان اور اسلام کے بارے میں باتیں سکھائی گئیں ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب لوریاں تاریخ کے اس روشن دور میں تخلیق ہوگئ ہوں گی جب یہ خطہ اسلامی دنیا کا حصہ بن گیا تھا۔ ان گیتوں اور لوریوں کا ذکر پشتو زبان کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نواز طائر نے کیا ہے۔
سرحد میں ابتدا میں بچوں کے تخلیقی ادب بلکہ تحریری ادب بہت بعد میں شروع ہوا اس کی دو وجوہات بہت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ یہاں تعلیم کی کمی ہے۔ بچوں کے لئے ادب وہاں تحریر ہوتا ہے جہاں اس کے پڑھنے والے موجود ہوں جہاں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ نہ ہو وہاں کس کے لئے ادب لکھا جائے۔ دوسری اہم وجہ وسائل کی کمی ہے۔ یہاں کے غریب والدین چاہتے ہوئے بھی بچوں کے لئے کتابیں خریدنے سے قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے پروگرام، رسائل، اخبارات اور ادبی تنظیموں کے فقدان کی وجہ سے اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ لیکن ان نامساعد حالات کے باوجود بھی یہاں کسی نہ کسی شکل میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کا ادب بھی تخلیق ہوتا رہا۔
۱۹۳۵ء میں پشاور میں ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں بچوں کے لئے پروگرام لکھنے والوں میں پروفیسر آل احمد کا نام اولیت رکھتا ہے۔ بعد میں اس ادارے نے بچوں کے ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صوبہ سرحد میں بچوں کے ادب کو ابتدا میں کسی نے باقاعدہ توجہ نہیں دی۔ بچوں کے لئے لکھنا ویسے بھی اگر زیادہ مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں یعنی: دشعوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں" کے مصداق اس طرف ادبیوں نے زیادہ رغبت نہیں دکھائی۔
صوبہ سرحد میں بچوں کے لئے جن حضرات نے قلم اٹھایا اور ان کے نفسیات و خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان کے لیے لکھا۔ ان میں رضا ہمدانی، خاطر غزنوی اور محسن احسان وغیرہ کے اسمائے گرامی بہت اہم ہیں۔ رضا ہمدانی نے بڑوں کے لئے بھی لکھا اور بچوں کے لئے بھی، خواتین کے لئے بھی لکھا اور خوانین کے لئے بھی۔ ان کی تحریریں ہر طبقہ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نے پچاس کی دہائی میں بچوں کی دلچسپی کے لئے کہانیوں کے علاوہ نظمیں بھی لکھیں۔ انہوں نے بچوں کی زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ گلی کے بچوں میں گھل مل جاتے اور مختلف مدارج طے کرنے والے طفلان کا جائزہ لیتے۔ رضا کی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیاں کتابچوں کی صورت میں "کہانیاں ہی کہانیاں" میں منظر عام پر آئیں۔ پھر یہی کہانیاں ترمیم واضافوں کے ساتھ "بچوں کی کہانیاں" لوک ورثے کے قومی ادارے سے دسمبر ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئیں۔ یہ ساری کہانیاں بچوں کے ذہنی استعداد کے مطابق ہیں۔ اس میں تفریح بھی ہے اور اصلاح کا پہلو بھی جس سے بچوں کو اپنی تہذیب، ثقافت، رسومات اور مذہب سے واقف کرانے میں مدد ملتی ہے۔
رضا ہمدانی کے بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں "جگنو میاں کی کہانی" ایک سبق آموز کہانی ہے اور باتوں باتوں میں انہوں نے کہانی کار نے اپنا نقطہ نظر بہت اچھی طرح سے واضح کیا ہے۔ اسی طرح طوطا مینا کی کہانی اور فاختہ کی کہانی میں بھی بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا خیال رکھا ہے اور ان کی لامتناہی دلچسپیوں کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ انہوں نے مافوق الفطرت واقعات کا سہارا بھی لیا ہے۔ مثلاً ایک کہانی میں لکھتے ہیں:
"کہتے ہیں ایک گاوں میں دو جوئیں رہتی تھیں۔ ایک جوں موٹی تھی اور دوسری پتلی۔ دونوں کے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے۔ ان کا آپس میں بڑا گہرا بہناپا بھی تھا۔ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا وغیرہ۔ جب وہ اپنے گھر کے کام سے فارغ ہوتیں تو آپس میں ادھر ادھر کی گپیں ہانکتیں، ہنستی کھیلتیں"۔ (۲)
نثری کہانیوں کے علاوہ رضا ہمدانی نے بچوں کے لئے ہلکے پھلکے اندز میں نظمیں بھی لکھیں۔ ان نظموں میں تاروں بھری رات، پاکستانی نونہال اور کئی دوسری قابل ذکر نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں میں انہوں نے بچوں میں قومی درد و حب الوطنی کے ساتھ ایک دوسرے سے ہمدردی و محبت کا احساس جگانے کی کوشش کی ہے۔
خاطر غزنوی نے بچوں کے لئے منظوم کتابیں لکھیں۔ جن میں منظوم کہانیاں، تدریسی نظمیں اور پہیلیاں شامل ہیں۔ اسی طرح محسن احسان کی کتاب بھی بچوں کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔ جس میں انہوں نے شاعرانہ انداز میں باتوں باتوں میں بچوں کو کئی اخلاقی اور کارآمد باتیں سکھائی ہیں۔
ان شاعروں کے علاوہ احسان طالب نے نثر کی طرف توجہ دی اور اطفال کے لئے ایک ناولٹ تحریر کیا۔ جس کا نام انہوں نے "شیر بچہ" رکھا جو اپنی پیش کش کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح ایم یاسین آرزو کی بچوں کے لئے لکھی ہوئی نظمیں ملک بھر کے جرائد میں شائع ہوتی ہیں، جنہیں بچے بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ کلیم خارجی نے بھی ایک زمانے میں بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا۔ انہوں نے حکمت و فلسفہ سے بھری ہوئی کہانیاں لکھ کر بچوں میں سوچنے کا مادہ اُبھارا۔ ان کی کہانیوں میں خالی کشتی، فاختہ لوٹ آئے گی، آزادی کی قمیت اور ایک اور موت کو اہمیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر اعجاز راہی نے بچوں کے مسائل پر قلم اٹھایا۔ ستر کی دھائی میں ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کراچی کے روزنامہ جنگ کے بچوں کے صفحات میں شائع ہوتی رہیں۔ ان تحاریر سے بچوں کے جذبات و احساسات کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے۔ منور روف نے بڑوں کے لیے افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے لیے لکھا۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی تحریرں "اخلاقی کہانیاں" کے نام سے شائع ہوتی رہی۔ یہ کہانیاں بچوں کے اعلٰی ذوق کی ترجمانی کرتی ہیں۔
سرحد میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں میں نوجوان کی جو نئی کھیپ آئی ہے۔ ان میں رئیس احمد مغل، اسحاق وردگ، فیاض اختر فیضی، اسغر علی خان، شاہد انور شیرازی،اختر منیر، احسان الحق حقانی، عمران یوسف زئی، ارشد سلیم، نجیب اللہ ہمدرد عبداللہ ادیب نام اور کام دونوں لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان نوجوانوں نے ملک بھر کے بچوں کے جرائد میں بہت لکھا اور خوب داد و تحسین پائی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ صوبہ سرحد میں بچوں کے ادب کی طرف پہلی سنجیدہ توجہ انہی حضرات کی مرہون منت ہے۔
ذیل میں ان ادیبوں کی تخلیقات کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
رئیس احمد مغل یکم اکتوبر ۱۹۷۴ء کو پشاور کے علاقے بھانہ ماڑی میں پیدا ہوئے۔ اردو ادب میں جامعہ پشاور سے ڈگری لینے کے بعد عالمی تعلقات عامہ (International Relations ) کی سند بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی۔ لیکن اتنی ڈگریوں کے حصول سے بہت پہلے ہی ان کے قلم سے بچوں کے لئے بہت سا ادب تخلیق ہوچکا تھا۔ اگرچہ انہوں نے عالمی سیاسیات اور خاص طور پر ریاست اسرائیل کے بارے میں نہایت اہم مضامین لکھے لیکن ان کی شہرت بچوں کے ایک نامور ادیب کے طور پر ہے۔
رئیس احمد کی شہرت بچوں کے لئے لکھی گئی اولین تحریر اشتیاق احمد کے جریدے "چاند ستارے" میں انسانی خون کی ساخت کے بارے میں چھپی۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا جو ہنوز جاری و ساری ہے۔ اس کے بعد بچوں کا مشرق ان کی کہانیوں سے مزین رہا اور پھر ٹوٹ بٹوٹ اور لوٹ پوٹ جیسے اعلٰی معیار کے بچوں کے رسالوں میں ان کی تحاریر شائع ہوئیں۔ دعوۃ اکیڈمی سے منسلک ہونے کے زمانے میں ان کی کہانیاں، گلدستہ، پھول اور تتلیاں، میں شائع ہوئیں۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیوں "بڑا بچپن" بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں انہوں نے ابوالکلام آزاد کے بچپن کا احوال لکھا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ عظیم لوگوں نے اپنا بچپن کس طرح گزارا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی عظمت میں ان کے بچپن کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ابوالکلام آزاد کی زبان سے رئیس احمد مغل لکھتے ہیں:
"لوگ بچپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں مگر بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشے میں بیٹھ جاتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں۔ کلکتہ میں ایک جگہ درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھتے تو درخت ہی درخت ہیں اندر جایئے تو اچھی خاصی جگہ ہے اور ایک بنچ بھی بچھی ہوئی ہے۔ معلوم نیں اب بھی یہ جھنڈ ہے کہ نہیں۔ مین جب سیر کے لئے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ میں بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہوجاتا۔ والد مرحوم کے خادم خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے اگر تجھے کتاب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے نکلا کیوں؟ یہ سطریں لکھ رہا ہوں ان کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے"۔ (۳)
کہانی "برساتی انکل" جو مئی ۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی میں ایک ایسے شیخی بگھارنے والے شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنی بہادری کے ناقابل یقین قصے سناتا ہے۔ ایک رات برساتی انکل کی سچ مچ "چور" سے مدبھیڑہوگئی۔ مگر ہوا یہ کہ ان کے سر پر ڈنڈا پڑ گیا اور اس کے بعد تو وہ بہادری کے قصے سنانا ہی بھول گیا۔ "فیصلہ" خطوط کی شکل میں لکھی ہوئی ایک کہانی ہے جس کا مرکزی کردار اریب فائق اپنے والد صاحب کو امریکہ کے حالات سے آگاہ کرتا ہے وہ امریکہ کی چکا چوند سے متاثر ہے لیکن آخر میں وہ اپنے وطن پاکستان آنے کا فیصہ کر لیتا ہے۔
"ابا جان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے فیصہ کر لیا ہے کہ ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی پاکستان آنے والی پہلی پرواز میں بیٹھنا ہے۔ میری دوسری ٹانگ جو مجھے امریکہ لائی تھی میں امریکہ میں ہی چھوڑے جا رہا ہوں۔ غالباً میرے اس ٹانگ کا خمیر امریکہ سے اُٹھا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان مجھے دونوں بیسا کھیوں کے ساتھ قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں کرے گا۔ میں اس وقت ذہن پر انتہائی بوجھ ڈالنے کے باوجود بھی مائیکل جیکسن کا حلیہ یاد نہیں کر پا رہا ہوں۔ البتہ میرے تصور میں ایک اسمارٹ سا نوجوان، پہنٹ شرٹ پہنے ابھر رہا ہے۔ ہاں اس کا نام غالباً جنید ہے اور یہ دل کی گہرائیوں سے گا رہا ہے "دل دل پاکستان ! جان جان پاکستان!"۔ (۴)
رئیس کی دیگر تحریروں میں چری کے نیچے اور ہوا کی جیت شامل ہیں۔ آخر الذکر مشہور انگریز ادیبہ اے نڈبلائی ٹن کی ایک کہانی سے ماخوذ ہے۔ لیکن مصنف کے اسلوب فکر نے اس میں فطری رعنائی بھردی ہے اور اس پر طبع زاد کا گمان ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر رئیس کی کہانیاں بچوں کے اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ان میں علم و ادب کی پیاس بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معان ہیں۔
محمد اسحاق وردگ بھی صوبہ سرحد میں اطفال ادب کے حوالے سے ایک مستند و معتبر نام ہیں۔ انہوں نہ بہت کم عمری میں اپنے قلم کے ذریعے پاکستان بھر کے نوجوان ادیبوں میں اپنی ایک الگ پہچان کرائی اور بہت سے اعزازات حاصل کیے۔ جن میں دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے اردو ادب میں نمایاں ادبی خدمات پر "نشان اعزاز" ایوارڈ شامل ہے۔ اسحاق وردگ نے عمدہ نثری کہانیاں لکھیں۔ جن میں بچوں کی تفریح کے جملہ سامان کے ساتھ درس و تدریس کے مقاصد کی تکمیل کے تمام لوازمات کماحقہ موجود ہیں۔ ان کی زیادہ تر کہانیاں ان مجبور و مقہور بچوں کے گرد گھومتی ہیں جو معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہیں۔ لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی فطری پرامیدی سے مرکزی کردار ایک معذور بچہ ہونے کے باوجود خودی کا پتلا ہے۔ جب دو نوجوانوں کی گاڑی کا شیشہ صاف کرنے کے لئے یہ بچہ لپکتا ہے تو نوجوان انہیں منع کردیتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد وہ دونوں جب اس بچے کی تصویر اتارنے کے بعد اس دس روپے کا نوٹ دیتے ہیں تو بچہ حقارت سے اسے پھینک دیتا ہے۔
"یہ لو، رکھ لو ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا انعام ہے یہ۔ نوجوان نے جیب سے دس کا نیا نوٹ نکالا۔
"بابوجی! میں نے شیشہ صاف نہیں کیا تو پھر یہ پیسے کیوں لے لوں۔ معذور بچہ خودداری سے بولا"
"رکھ لو پیارے اور اپنی حیثیت سے زیادہ خوددار بننے کی کوشش کبھی مت کرنا سمجھے۔
نوجوان نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے نوٹ بچے کی جانب پھینکا۔ معذور بچے نے جلدی سے جھک کر نوٹ اُٹھایا اور مٹھی میں دباکر دھواں اڑاتی ہوئی گاڑی کی جاب تیزی سے پھینکا اور بولا۔
"بابوجی میں معذور ضرور ہوں مگر مجبور نہیں"۔ (۵)
"آزاد وطن" قومی یک جہتی کے فروغ اور لسانی و صوبائی تعصب کا شکار ہونے والے نوجوانوں کے لئے صاف و شفاف آئینہ ہے جس میں سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچی کو بھائی بھائی بناکر ملک و قوم کی ترقی کی امانت سونپی گئی ہے۔ یہ کہانی ماہنامہ "چندا" کراچی میں مارچ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوئی۔ پیغام ڈائجسٹ میں ان کی کہانی "فرض" کے عنوان سے چھپی۔ اس کہانی میں وردگ نے ان نام نہاد ڈاکٹروں کو بے نقاب کیا ہے جو صرف شہرت اور ناموری کی خاطر بچوں کے لئے ٹرسٹ قائم کرتے ہیں اور بچوں کا مسیحا جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ لیکن اسی طرح کے ڈاکٹر سے جب اس کا اسسٹنٹ پردہ ہٹاتا ہے تو اس کا مکروہ اور بھیانک چہرہ سامنے آجاتا ہے اور وہ رسوائی کے بدترین درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ "تم کون بنو" پاکستان کے حال سے مایوس اور مستقبل سے نا امید نوجوانوں کی کہانی ہے۔ جن کے سامنے حصول روزگار کے دروازے مقفل ہیں اور ٹیلنٹ رکھنے کے باوجود وہ بے روزگاری کا عذاب سہنے پر مجبور ہیں ان کی مجبوریوں اور زہر سے بھرے ہوئے مکالمے کو جب پروفیسر باباسن لیتا ہے اور پھر ان کو سمجھاتا ہے۔ تو نوجوانوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کی یاس آس میں بدل جاتی ہے۔
"پروفیسر بابا کہتا ہے۔ بچو شاید تمہیں شعور نہ ہو لیکن پاکستان اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ اسے دنیا کا ایک کرپٹ ملک قرار دیا جائے۔ بابا کہتے گئے بلکہ اس کا ایک مقصد تھا۔ لیکن ملک بننے کے بعد ہم اس مقصد کی تکمیل نہ کرسکے اور انفرادی مقاصد کے لئے ہم پاکستان کے مقصد کو قربان کرتے گئے۔ ہمارے بزرگوں کو احساس تھا کہ آج اگر ہم نے قربانیاں نہ دیں اور ملک نہ بن سکا تو شاید آئیندہ نسلیں ہمیں معاف نہ کرسکیں۔ انہوں نے بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ لیکن ۔ ۔ ۔ آزادی کے بعد ملک کے رکھوالے انجانے بنتے گئے۔ ان پچاس سالوں میں ہر کسی نے اپنے بہتر مستقبل کے لئے سوچا۔ کسی کو پاکستان کے بہتر مستقبل کا احساس تھا اور نہ ہے"۔(۶)
پروفیسر بابا کی اس طرح کی نصیحت آموز اور شہد آمیز باتوں سے وہ تینوں نوجوان مایوسی کے تنگ و تاریک غاروں سے نکل کر شاہراہ حیات پر دوبارہ گامزن ہوکر ملی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی دیگر لاجواب کہانیوں میں "وہ دیوانہ تھا، میں تمہارے ساتھ ہوں، جنت سے جہنم تک، بلاعنوان اور ایک تھے ننھے میاں" شامل ہیں۔
اسحاق وردگ نے نثر کے علاوہ بچوں کے لیے نظم بھی لکھی ہے۔ لیکن ان کے اصل جو ہر نثر کے میدان میں ہی کھلتے ہیں۔
فیاض اختر فیضی (۱۶ اپریل ۱۹۷۴) نے جس تیزی سے بچوں کے لئے لکھنا شروع کیا تھا۔ اتنی ہی تیزی سے چھوڑ بھی دیا۔ صوبہ سرحد کے اطفال ادب میں انہوں نے اہم کاوشیں کی ہیں۔ ان کے نہ لکھنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ وہ غم یار کا مارا ہوا ہے نہ غم روزگار نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔
ان کی پہلی تحریر "دولت کی ہوس" مارچ ۱۹۹۳ء میں بچوں کی دنیا لاہور میں شائع ہوئی۔ پھر وہ متواتر بچوں کے دیگر پرچوں میں چھپتے رہے۔ ان کی زیادہ تر کہانیاں لاہور سے شائع ہونے والے۔ بچوں کے ماہنامے "ذہین" میں شائع ہوئیں لیکن اس کے علاوہ بچوں کی دنیا، دوست، شاہین ڈائجیسٹ اور چھوٹی دنیا کے صفحات بھی ان کی عبرت آموز کہانیوں سے مزین رہے۔ ماہنامہ دوست میں ان کی جو کہانی شائع ہوئی اس کا نام ہے "ضرورت ایجا کی ماں ہے"۔ مصنف نے ایک نئے انداز میں پرانے پیاسا کوا کی کہانی پیش کرکے ایک سال کے لئے ماہنامہ دوست مفت حاصل کرنے کا انعام حاصل کیا۔ "گھناونا کاروبار" میں ہمارے معاشرے کے ان ذلیل لوگوں کو بے نقاب کیا گیا ہے جو معصوم بچوں کو اغوا کرکے ان سے بھیک مانگنے اور اسمگلنگ جیسے مکر وہ دھندے کراتے ہیں۔ "خزانے کا راز" میں جب دو لڑکے اور ان کے والدین خزانے کو پالیتے ہیں تو اس گھر لانے کی بجائے حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔
"واہ کتنی آسانی سے دولت ہاتھ آگئی۔ اب ہم ساری زندگی عیش و عشرت سے گزاریں گے" ندیم نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا۔ اب تو ہماری زندگی بدل جائے گی" نائلہ نے بھی ندیم کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ نہیں بچو! اس پر ہمارا کوئی حق نہیں یہ خزانہ تو ہم حکومت کے حوالے کریں گے جو ملک و قوم کے مفاد پر خرچ ہوگا۔ خالد کے ابا نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ہاں ہم اسے حکومت کے حوالے کریں گے" ندیم کے ابا نے بھی اس کی تائید کی۔ (۷)
"ایک خط" میں ایک رشوت خور افسر کی کہانی بیان کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں کس طرح رشوت کا سرطان پھیل گیا ہے۔ سکول، کالج، ہسپتال، پولیس اور سارے دفتر رشوت کے رنگ میں مکمل طور پر رنگ گئے ہیں۔ لیکن آخر میں ایک ایمان دار آدمی کا خط اس افسر کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ وہ افسر کو لکھتا ہے۔
"حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ جب حضور نے کہا ہے تو میں کس طرح اپنے آپ کو جہنمی بناوں۔ اصل زندگی تو یہ نہیں بلکہ موت کے بعد ہے۔ دیکھیے اگر آپ مجھ سے رشوت لیں گے تو دوسرا تم سے لے گا اور دوسرے سے کوئی تیسرا لے گا۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کیا ہم خود کو آگ میں نہیں ڈال رہے ہیں؟ ہم اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔ دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر رہے ہیں"۔ (۸)
انھوں نے بچوں کے مجموعی مزاج کے مطابق اپنے قلم سے کام لیا ہے اور کوئی پیچیدگی پیدا کیئے بغیر لکھا ہے۔ ان کی کہانیاں چھوٹے ذہن کے چھوٹے بچوں کے لئے مشغل راہ ہیں۔ جن میں نصیحت کے ساتھ ساتھ لطف بھی موجود ہے۔
اصغر علی خان ساگر (اپریل ۱۹۷۴) مردان کے ادبی ورثے کے ایک اچھے امین ہیں۔ ابتدا میں انہوں نے بچوں کے لیے نہایت اعلٰی ادب تخلیق کیا اور دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد سے بچوں کے بہترین لکھاری کا انعام بھی حاصل کیا۔ لیکن عدیم الفرصتی کی وجہ سے ان کی توجہ لکھنے لکھانے کی طرف اب زیادہ نیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کے بائیں بازو سے ذہنی و فکری وابستگی رکھنے والا یہ نوجوان ادیب جس تیزی سے افق ادب پر نمودار ہوتا تھا اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ قصر گمنامی میں گم ہوگیا ہے اور اعلٰی پس منظر رکھنے کے باوجود وہ بچوں کے ادب کے موجودہ پیش منظر میں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔
اصغر علی کی کہانیاں اپنی ٹریٹمنٹ اور اسلوب کی وجہ سے افنرادیت کی حامل ہیں۔ ان کی ابتدائی تحریریں اس زمانے میں "بچوں کا رسالہ" جیسے عمدہ معیار کے پرچے میں شائع ہوئیں جب وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے۔ اس کے بعد آنکھ مچولی، بچوں کا رسالہ، انوکھی کہانیاں اور مجاہد وغیرہ میں ان کی کہانیاں تو اتر کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔ انھوں نے بچوں کو درپیش مسائل اور دورِ حاضر کے چیلنجوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور پھر اُنہیں کبھی سنجیدہ اور کبھی ہلکے پھلکے انداز میں بیان کیا۔ اُنھوں نے اپنی ہر تحریر میں ڈرامائی عناصر کا شعوری طور پر استعمال کیا۔ کہانی کو مختلف مناظر میں تقسیم کرکے وہ آخر میں اس کا تانا اس مہارت سے بنتے ہیں کہ قاری کو ایک خوشگوار تحیر سے سابقہ پڑتا ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے جملے اور ننھے منے مکالمے بھی ان کی قوت اختراع کا پتا دیتے ہیں۔ "پاگل کون؟" ان کی ایک نمایاں کہانی ہے جس میں ایک نوجوان طالب علم کی کہانی بیان کی گئی ہے جو معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے لیکن دوستوں، کالج کے پرنسپل اور معاشرے کے دیگر افراد کے علاوہ جب اپنے والد اور بڑے بھائی کی طرف سے اسے سچ بولنے اور صداقت کا پرچم بلند کرنے پر پاگل کہا جاتا ہے تو وہ بہت مایوس ہو جاتا ہے لیکن عین اسی لمحے کیا ہوتا ہے مصنف کی زبانی سنیئے۔
"عادل انتہائی بے قراری کے عالم میں کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے۔ اچانک اس کی نظر اپنے اسٹڈی ٹیبل کے ساتھ والی دیوار پر نصب قائداعظم کی تصویر پر پڑتی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر قائداعظم کی تصویر کے عین سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور تصویر کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے پوچھ رہا ہو"
قائداعظم میں نے ٹھیک کہا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تب اسے ایسا لگتا ہے جیسے قائداعظم کی تصویر مسکرا رہی ہو۔ ایک فخریہ مسکراہٹ یہ کہتی ہوئی:۔
"جب تم جیسے نوجوان ہوں تو مجھے پاکستان کے مستقبل کی طرف سے کیا تشویش ہوسکتی ہے"۔(۹)
"شامت کا مارا" ایک طنزیہ و مزاحیہ کہانی ہے جو ماہنامہ "بچوں کا رسالہ" میں شائع ہوئی۔ اسی طرح "انسانی خلیے" بھی مصنف کی ایک عمدہ کاوش ہے۔
انہوں نے بھی شاید لکھنے کا شغل ترک کردیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے نونہال عموماً اور نونہالان سرحد خصوصاً کئی اچھی تحریروں سے محروم ہوگئے ہیں۔
شاہد انور شیرازی (۱۹۷۵ء) بھی مردان کے مردم خیز ضلع کے سکونتی ہیں۔ انہوں نے انتہائی کم عمری میں جس رہوار قلم کی بھاگ اپنے ہاتھ میں پکڑی تھی وہ آج بھی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور وہ بچوں کے علاوہ اب بڑوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ لکھ کر کہیں نہ کہیں اپنی موجودگی ضرور دکھاتے ہیں۔
شیرازی ابھی میٹرک کے طالب علم تھے کہ ان کی تحریریں چھپنا شروع ہوئیں۔ ننھے ادب کو حوصلے کے ساتھ پذیرائی ملی، بس پھر کیا تھا دو چار ہی سالوں میں انہوں نے بچوں کے ادیب کے طور پر اچھا خاصا نام کمایا۔ ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے مردان ڈویژن کی تاریخ میں پہلا اور شاید آخری "بچوں کا اخبار" جاری کیا۔ یہ اخبار بوجوہ نہ چل سکا لیکن شیرازی نے اس زرپرست، بے حس اور ادبی انجماد کے شکار معاشرے کے ٹھہرے پانی میں پہلا پتھر پھینک کر ایک ارتعاش ضرور پیدا کیا۔ انہوں نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی طبع آزمائی کی اور بچوں کے لئے کئی ایک اچھی نظمیں بھی تخلیق کیں۔
کہانی "انوکھا سبق" میں نوجوان نسل کو اتفاق و اتحاد کی کامیابی اور نفاق کی تباہی و بربادی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آخر میں جب چودھری فضل کے بیٹے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر ایک ہوجاتے ہیں تو ان کی بہت سی مشکلات کا خاتمہ بالخیر ہوجاتا ہے۔ "انوکھا سبق" (جو ماہنامہ "نٹ کھٹ" کے جون ، جولائی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شامل ہے) میں استاد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہر وہ بچہ اور جوان خوش نصیب ہوتا ہے جس کو کوئی اچھا استاد مل جاتا ہے۔ اچھے استاد کا ملنا گویا بھاگ جاگنے کے مترادف ہے۔
"ہاتھی کے دانت" ظاہر ہے کھانے کے اور ، اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اس تحریر میں ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی دوغلی پالیسی پر طنز کیا گیا ہے جو بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے دینی و اسلامی اور کمپیوٹر کی تعلیم کی لالچ دیکر والدین کو بچے داخل کرانے پر مجبور تو کردیتے ہیں لیکن پھر مطلوبہ قابلیت اور مہارت کے استاد تلاش کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ سکول کے ڈئریکٹر جب سر عاصم کو قرات کی کلاس کی ذمہ داری دیتے ہیں تو وہ یوں احتجاج کرتے ہیں:۔
"سر! ہم قرات نہیں پڑھا سکتے۔ یہ تو سراسر بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اسکول کے پراسپیکٹس میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں دینی و اسلامی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرات اور حفظ قرآن کا اہتمام بھی ہے اور کمپیوٹر بھی قابل اساتذہ کے زیر نگرانی میں سکھایا جاتا ہے مگر یہاں تو اس کے برعکس کام ہو رہا ہے"۔
سر قمر نے ڈائریکٹر صاحب سے کہا
"دیکھیں قمر صاحب، انسان جو کچھ کہتا ہے ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی کیا جائے۔ اب ہماری مجبوری ہے یہ ایک غیر سرکاری اسکول ہے۔ اب جبکہ اسکول کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ یہ کرایہ کی بلڈنگ ہے۔ اس کا کرایہ، اساتذہ اور دوسرے سٹاف کی تنخوا ہیں، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل وغیرہ کے اخراجات ہم کہاں سے پورے کریں"۔
ڈائریکٹر صاحب نے اسکول کے اخراجات بیان کرتے ہوئے کہا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باہر اسکول کی دیوار پر موٹے موٹے لفظوں میں لکھا ہوا تھا۔
"اسکول کا سب سے بڑا مقصد دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا خصوصی اہتمام،
ناظرہ، حفظ قرآن بذریعہ علما اور قاری صاحبان کمپیوٹر کی تعلیم بالکل مفت"۔(۱۰)
"کمزور" میں اونچے محلات میں اور بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے والے ان سفید پوشوں کی ذہنی و فکری پسماندگی دکھائی ہے جو بظاہر بڑی شاہانہ انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے:۔
ہر مکین اندر سے تھا ٹوٹا ہوا
گو مکان باہر سے عالی شان تھا
ڈاکٹر فیروز بھوک سے نڈھال ایک بھکاری کو پانچ روپے کے چنے تک نہیں کھلاتا لیکن جب اس کی گاڑی نالے میں پھنس جاتی ہے اور وہی ڈاکٹر اس بچے اور اس کے باپ کو دھکا لگانے کی درخواست کرتا ہے اور بچہ باپ سے شکایت کرتا ہے تو باپ یوں جواب دیتا ہے:۔
"کوئی بات نہیں بیٹے، اب تو یہ ہمارے دروازے پر سلام کرنے آیا تھا اور میں نے اس کے ایک ہی سوال پر اس کا مسئلہ حل کر ڈالا" اس آدمی نے بچے کو مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
بیٹے یہ مضبوط اور مستحکم کوٹھیوں میں رہنے والے لوگ درحقیقت اندر سے بونے ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹے اور کمزور دل کے مالک ہوتے ہیں بیٹے۔ ان سے گلہ نہیں کرنا چاہیئے"۔(۱۱)
کہانی "قصور کس کا؟" میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمیں بغیر تحقیق کے کسی پر الزام لگانے سے دریغ کرنا چاہیئے کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اس سے فساد پھیلتا ہے۔ "ایک ہی ماں کے بیٹے" میں اہل وطن پائی جانے والی لسانی گروہی اور علاقائی تعصب کے مضر اثرات کی کارفرمائی اور ان کی تباہی کا ذکر موجود ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز کی بنیادیں کمزور ہورہی ہیں۔ ان کی دیگر اہم تحریروں میں "عاصم اور پھول کہانی" بلاعنوان، روز اسی طرح تو ہوتا ہے" شامل ہیں۔ شیرازی کے ننھے ذہن نے ننھے قلم کے ساتھ اپنی کہانیوں میں مقصدیت اور معنویت کے علاوہ پس منظر اور پیش منظر بھی عمدہ انداز میں بتایا اور دکھایا ہے۔ ایک کہانی میں چودہ اگست کے دن کی عکاسی فطری اسلوب میں یوں کی گئی ہے۔
آج چودہ اگست کا دن تھا۔ آج روشنیوں کا دن تھا۔ لوگوں نے آج سارے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شام ہوچکی تھی، گلی کی سارے دیواروں، چند ایک درختوں پر قمقمے جگ مگا رہے تھے۔ ہواوں میں خوشبو تھی۔ فضاوں میں قہقہے تھے۔ گلی میں لڑکے بالے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ رہے تھے۔ ہر طرف خوشی و مسرت کا سا سماں تھا، ہر کوئی خوشی و مسرت کا سا سماں تھا۔ ہر کوئی خوشی سے گنگناتا جا رہا تھا، کئی گھروں سے ملتی نغموں کی آوازیں آرہی تھیں"۔
شیرازی کی ایک اور خوبی جس نے اُنہیں اپنے دوسرے ہم عصروں میں انفرادیت عطا کی ہے وہ ان کی بچوں کے لئے لکھی گئی نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں وقتاً فوقتاً بچوں کے جرائد میں چھپی ہیں۔ جن سے ان کی شاعرانہ مہارت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایک نظم "جی چاہتا ہے" میں شاعر کا وہ طنز دیکھیے جو انہوں نے اپنے آپ پر کیا ہے لیکن درحقیقت سارے بچوں کی معصوم شراتوں کو بیان کیا ہے۔
پٹاخے چلانے کو جی چاہتا ہے
ذرا مار کھانے کو جی چاہتا ہے
شرارت سے بنتے ہیں سب کام میرے
نہ رغبت ہے کوئی کتابوں سے مجھ کو
نہ اسکول جانے کو جی چاہتا ہے
پڑھائی کی بابت کوئی ڈانٹ سن کر
بہانے بنانے کو جی چاہتا ہے (۱۲)
"باپ بیٹا اور ان کا گدھا" میں اس حکایت کو منظوم کیا گیا ہے کہ انسان چاہے کچھ بھی کرلے دنیا والوں کو خوش کرنا کسی بھی طور ممکن ہے۔ "بھیڑ کا بچہ اور بھیڑیا" میں بھی خوئے بدر ابہانہ بسیار" والی کہانی منظوم صورت میں پیش کرکے نونہالوں کی دلچسپی کا سامان کیا گیا ہے۔ لیکن شیرازی نے آقائے دو جہاں حضرت محمد کے حضور جو نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے اس میں اعلٰی نعت خوانی کی تمام اعلٰی شاعرانہ صفات ملتی ہیں۔
دولت ہوئی نصیب نہ عیش وہ طرب ملا
صد شکر مجھ کو عشق رسول عرب ملا
یہ واقعہ خود اپنی جگہ بے مثال ہے
انسانیت کو ہادی امی لقب ملا
ان کے کرم سے ان کی نوازش سے اے شاہد میری نوائے درد کو سفر عرب ملا (۱۳)
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ارشد سلیم اپنے والد سلیم راز کی طرح بچپن سے ہی قلمی دنیا سے وابستہ ہیں۔ گیارہ اکتوبر ۱۹۷۹ء کو پیدا ہوئے۔ گیارہ سال کی عمر میں مشق سخن شروع کی جو بعد میں چکی کی مشقت کی وجہ سے چھوٹ گئی کیونکہ ارشد سلیم سازو آواز (ریڈیو، ٹی وی) کی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ ارشد نے کبھی اپنے نام سے اور کبھی قلمی نام (ابن راز) سے بچوں کے لئے بہت کچھ لکھا۔ بہت کم عمری میں ہی ان کی کہانیاں ملک میں شائع ہونے والے بچوں کے معیاری پرچوں کی زینت بنیں جو نوجوان قلمکار کی ملک گیر شہرت کا باعث بنیں۔ ان کی لاتعداد کہانیوں میں جن کہانیوں کو بچوں کے علاوہ بڑوں کے ہاں بھی زیادہ پذیرائی نصیب ہوئی ان میں "تم بچے نہیں رہے" (آنکھ مچولی اپریل ۱۹۹۳ء) ممتا کی موت (کھیل کھیل میں، نومبر ۱۹۹۹ء) احساس ندامت (انوکھی کہانیاں، ستمبر ۱۹۹۴ء) قائد میں شرمندہ ہوں (انوکھی کہانیاں، مارچ ۱۹۹۵ء) شیطان کی شکست (شاہین ڈائجسٹ، دسمبر ۲۰۰۲ء) شامل ہیں۔
ارشد کے ہاں کہانی ایک پورے پس منظر کے ساتھ پیش منظر میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی وہ ڈرامائی انداز میں کہانی کی ابتدا کرکے پڑھنے والے کو تھوڑی دیر کے لئے متحیر کردیتا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ ایسے جملے تحریر کرکے سامنے لاتے ہیں کہ قاری کی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ مصنف کی عمر کا بیشتر حصہ بچوں کے ادب کے خدوخال سنوارنے میں گزرا ہے۔ کبھی وہ بچوں کے کسی پرچے کی ادارت کرتے ہیں تو کبھی پاکستان ینگ رائٹرز فورم کے پلیٹ فارم سے سرگرم نظر آتے ہیں کبھی ریڈیو پاکستان سے ان کی صدائیں ہوا کے دوش پر گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ ان کے ہاں کہانی سے زیادہ الفاظ کی اہمیت ہے۔ وہ شعوری طور پر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ کہانی خود بخود ان کی گرفت میں آجاتی ہے لیکن بعض کہانیوں میں کرداروں کی یکسانیت کے علاوہ ایک جیسے جملے قاری کی طبیعت کو قدر مکدر کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہانی "ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے" کا ایک کردار داود ہے، جس کے متعلق مصنف رقمطراز ہیں:۔
"فخر نے گہری سانس لی، پھر بولا، انہیں اپنے بیٹے کی آنکھوں کے علاج کے لئے پیسوں کی
ضرورت تھی اور پرنسپل نے ان کی مالی مدد کی نہ اخلاقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنسووں میں بھیگا سر تنویر کا
چہرہ اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
"ہوں" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاصا سنجیدہ مسئلہ ہے۔ دادو اپنی عینک اُتار کر صاف کرنے لگتے ہیں"۔ (۱۴)
اسی طرح "مقدر کا ستارہ" میں لکھتے ہیں:۔
"تمہارے استاد صاحب کی باتیں واقعی لاجواب ہیں۔ بس ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دادو اپنی عینک صاف کرتے ہوئے بولے"۔(۱۵)
لیکن ان فنی خامیوں کے باوجود ارشد سلیم نے بچوں کے ادب میں اپنے اختراعی ذہن اور طبع زاد کہانیوں سے گراں قدر اضافے کیے ہیں "شیطان کی شکست" ان کی ایک لاجواب کہانی ہے۔ جس میں ایک چھوٹا بچہ نعمان شیطان کو شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی طرح "تم اداس مت ہونا" بھی ایک فکر انگیز کہانی ہے۔ جس میں ممتا کی محبت اور انسان کے فنا ہونے کا فلسفہ پیش کرکے کہانی کار نے چھوٹی عمر میں اپنی انفرادیت کی جھلکیاں دکھائیں ہیں۔ اس کے آغاز میں منظر نگاری مصنف کے اختراعی ذہن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی ایک اور اہم تحریر ہمدرد نونہال کراچی کے شمارے نومبر ۲۰۰۱ء میں شائع ہوئی جس کا عنوان ہے "مچھروں کا ہنگامی اجلاس"۔ اس میں اُنہوں نے اس انسان دشمن چیز کی انسان دشمنی دکھاکر بچوں بلکہ بڑوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
مجموعی طور پر ارشد سلیم کی تحریریں ایک کم سن نوجوان کی ذہنی پختگی کی عمدہ نظیریں ہیں۔ جن میں مکارمِ اخلاق کو سنوارنے کے ساتھ اپنے قرب و جوار کو صاف ستھرا رکھنے اور اپنے ماحول بلکہ اپنے دیس سے سچی محبت کا جذبہ بچوں میں اُجاگر کرنے کی تلقین بین السطور میں موجود ہے۔ یہی جذبہ وطن عزیز کی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے اور مستقبل کا آئینہ دار ہے۔
اختر منیر عقاب (۸ اکتوبر ۱۹۷۴) ایک ایسا نوجوان ہے جس میں عقابی روح تو بیدار ہوئی تھی لیکن وہ اپنی منزل آسمانوں میں تلاش نہ کرسکا اور اپنے بریدہ پروں سے صرف چند کوس کا فاصلہ طے کرکے تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے بچوں کے لئے بہت کم لکھا لیکن اچھا لکھا اور آج کل ان کے لکھنے کا مشغلہ بند ہے کیونکہ وہ غم دوراں کے ہاتھوں اپنی روحانی اذیتوں سے مکمل طور پر سنبھلنے نہیں پائے ہیں۔
اختر منیر کی پہلی کہانی "انسان دشمن لوگ" ایک ڈراما کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ چھے مناظر پر مشتمل ہے اس میں ان لوگوں کو انسانیت کا دشمن قرار دیا گیا ہے جو ملک و قوم کے معصوم لوگوں کو ہیروئن کے کاروبار کو دوام دیتا ہے اور آدھی سے زیادہ بستی اس تباہ کن وبا کا شکار ہو جاتی ہے تو دونوں بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اسی دوران میں جب سیٹھ رشید کا اپنا لخت جگر بھی اس زہر قاتل کی وجہ سے قربانی کی بھینٹ چڑھتا ہے تو وہ حواس باختہ ہو جاتا ہے اور مائیکل سے لڑنے پر تل جاتا ہے۔
"سیٹھ رشید؛ مائیکل! تم نے میرے بیٹے کو بھی یہ زہر پلا دیا ہے میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔
مائیکل؛ آہاہاہا۔ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تم نے دوسروں کو تباہ کرنا چاہا مگر خود بھی برباد
ہوگئے، میں یہی چاہتا تھا کہ تم لوگ ایک دوسرے کے خلاف لڑو"۔ (۱۶)
ان کی دیگر اہم کہانیوں میں "دوستی" انوکھی مہمان نوازی، واپسی، مصالحہ دار روٹی، وغیرہ میں بچوں کے ننھے افکار کو مہمیز کرنے کی بھر پور کوشش کے ساتھ اہل وطن سے گہری عقیدت کا اظہار بھی نمایاں ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بچوں میں پاکستانیت کا جذبہ بیدار کرنے میں ان کہانیوں کا بہت اہم کردار ہے۔
سلمٰی ناز کی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں میں زیادہ تر اخبارات میں شائع ہوئیں۔ طبع زاد کہانیوں کے مقابلے میں ان کے ہاں تاریخی واقعات کو کہانی میں پیش کرنے کا رجحان نمایاں ہے۔ روزنامہ اوصاف بچوں کے ایڈیشن میں ان کی تحریروں نے بچوں کے علاوہ بڑوں کو بھی متاثر کیا۔ ان کی قابل ذکر کہانیوں میں شہزادی کا تاج، وفادار نوکر اور "پرچم سے محبت" شامل ہیں۔ آخرالذکر کہانی ایک ایسے بچے کی ہے جو قومی پرچم کو زمین بوس ہونے سے بچانے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتا ہے۔
"عامر کی جونہی نظر پڑی کہ یہ اڑتا ہوا سبز ہلالی پرچم زمین پر گرنے والا ہے۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اس کی پیچھے لپکا اور اپنے پرچم کو ہوا میں ہی پکڑلیا۔ اگلے ہی لمحے ایک ناقابل فراموش منظر سامنے آیا۔ ہوا سے باتیں کرتے ہوئے ایک لینڈ کروزر نے عامر کو ٹکر ماری اور اسے کچلتا ہوا فرار ہوگیا۔ ٹریفک رک گئی، کرن اور حارث عامر کے پاس گئے۔ پرچم کو ابھی تک اس نے ہاتھوں میں پکٹرا تھا اور دونوں ہاتھ سینے پر تھے"۔ (۱۷)
اطفال ادب سے تعلق رکھنے والے جن حضرات و خواتین کے نام میں نے لکھے ہیں اور ان کی تخلیقات پر تبصرہ کیا ہے ان کی کاوشیں اور جگر کا ویاں اپنی جگہ بہت اہم ہیں لیکن افسوس کہ ان کی قدرو منزلت کسی ادارے نے نہیں کی، نہ کسی سرکاری انجمن نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ کہ آنے والے دور میں تو کیا موجودہ دور میں بھی کوئی ایسا جوہر قابل نظر نہیں آتا جس کو علامہ اقبال شانِ کئی دینے پر کمربستہ ہوگئے تھے۔ کم از کم بچوں کے ادب کے سلسلے میں تو لکھنے کی شرح فی زمانہ مایوس کن حد تک انحطاط پذیر ہے۔
جناب سعید لخت نے اپنے مضمون میں اس کا بہت بے باکانہ انداز میں جائزہ لیا ہے۔
"ہمارے ہاں ابھی یہ نوبت نہیں آئی کہ کوئی ادیب بچوں کے ادب میں متخصص (Specialized ) ہونے کی کوشش کرے۔ ایک تو اسی میدان میں کچھ زیادہ مالی منفعت نہیں، دوسرے محض بچوں کے لئے لکھنے والوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ابھی یہ امید موہوم ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں ہائنزکرسچیئن اینڈرسن اور لانگ فیلو توکجا، اسمٰعیل میرٹھی اور الیاس مجیبی کی ٹکر کا بھی کوئی ادیب یا شاعر پیدا ہوسکے"۔ (۱۸)
سعید لخت نے یہ اندازہ تقریباً نصف صدی پہلے لگایا تھا کہ ہمارے ہاں بچوں کا ادب زوال آمادہ ہے۔ ان کی یہ پیشنگوئی آج حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے بلکہ آج تو صورتحال کچھ اور بھی زیادہ تکلیف دہ اور خوں رلانے والی ہے۔ ہمارے جوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ ٹیلنٹ کی فراوانی ہے۔ ان کی صحیح تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی انتہائی ضرورت ہے۔ ہمارے بزرگ اور نوجوان ادیب اگربچوں کی تربیت کا بارگراں اُٹھانے کی کوشش کریں تو ہماری یہ ہانپتی کانپتی اور بھولی بھٹکی ہوئی نوجوان نسل یقیناً سچے پاکستانی اور اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ غم یار اور غم روزگار کے سنگین اور رنگین تذکروں سے واہ واہ کی داد پانے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس اہم طبقے کی راہنمائی کے کار خیر میں مدد دیں تاکہ نہ صرف ان کے اردگرد امن و شانتی کا دور دورہ ہو بلکہ پورے دیس میں ترقی و کامرانی کی وہ فصل گل کھلے جسے کبھی بھی اندیشہ زوال نہ ہو۔
حوالہ جات
۱۔ (اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۳، ص: ۵۳۳)
۲۔ (رضاہمدانی، بچوں کی کہانیاں، لوک ورثہ اسلام آباد، دسمبر ۱۹۷۹، ص: ۱۴۱)
۳۔ (ماہنامہ شاہین ڈائجسٹ پشاور، مئی جون ۱۹۹۴، ص: ۱۷۔۱۸)
۴۔ (مشمولہ "پھول اور تتلیاں، مرتب محمد افتخار کھوکھر، دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد، ۱۹۹۴، ص: ۱۴۶)
۵۔ (معذور یا مجبور، مشمولہ ماہنامہ شاہین ڈائجسٹ پشاور، مرتب اسرار احمد، مئی، جون ۱۹۹۴، ص: ۳۴)
۶۔ (مشمولہ انوکھی کہانیاں، مرتب محبوب الٰہی مخمور، اگست ۱۹۹۷، کراچی، ص: ۱۴۸۔۱۴۹)
۷۔ (ماہنامہ ذہین لاہور، مرتبہ ابو وقاص، دسمبر ۱۹۹۳، ص: ۲۷)
۸۔ (مشمولہ ماہنامہ شاہین ڈائجسٹ پشاور، مرتب، عباس راحت اعان، مارث ۱۹۹۱، ص: ۴۰)
۹۔ (ماہنامہ آنکھ مچولی، کراچی، ص: ۲۵)
۱۰۔ (ماہنامہ آنکھ مچولی، کراچی، مارچ ۲۰۰۳، ص: ۱۰۱)
۱۱۔ ماہنامہ آنکھ مچولی، کراچی، جون ۲۰۰۳، ص: ۶۱)
۱۲۔ (ماہنامہ مجاہد، پشاور، دسمبر ۱۹۹۱، ص: ۲۰)
۱۳۔ (ماہنامہ چھوٹی دنیا، لاہور، جون ۱۹۹۴، ص: ۳)
۱۴۔ (مشمولہ، کھیل کھیل میں، اپریل ۲۰۰۰ء کراچی، ص: ۵۱)
۱۵۔ (مشمولہ، کھیل کھیل میں، اپریل ۲۰۰۰ء کراچی، ص: ۶۹)
۱۶۔ (انسان دشمن لوگ، مشمولہ ماہنامہ ذہین لاہرو، جولائی ۱۹۹۴، ص: ۵۴)
۱۷۔ (روزنامہ "اوصاف" راولپنڈی، ۱۰ اگست ۲۰۰۲)
۱۸۔ بچوں کا ادب، مشمولہ پاکستان میں اردو ۱۹۴۷ تا ۱۹۶۴، مرتبہ طاہر فاروقی، خاطر غزنوی، یونی ورسٹی بک ایجنسی پشاور، مارچ ۱۹۶۵، ص: ۵۰۱)