اردو اور فارسی میں محاورات کا اشتراک

ڈاکٹر غلام مروت

Abstract

Proverbs in any language contains the richness of cultural religious and social wisdom of the past. Writers specially the poets beautify their stile of prose and poetry by using them. This article deals with the effect of Persian proverbs on Urdu. There are thousand of Persian proverbs, being used in Urdu since its beginning. Author in this valuable article traces the qualitative use of these Persian proverbs in Urdu language.

            اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ "فارسی اردو کی ماں ہے" برصغیر اور فارسی کا رشتہ گزشتہ آٹھ سو برسوں پر محیط ہے۔ خاندان غلامان کی مسلم حکومت کے ساتھ ہی فارسی بھی برصغیر میں آئی۔(1) ایران اور دیگر فارسی بولنے والے خطوں سے اہل شعر و حکمت وادب ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور یہاں کی سرزمین نے بھی ان کے لیے اپنی باہیں کھولیں۔ اس ارتباط سے ایک نیا تہذیبی اور لسانی منظرنامہ مرتب ہونے لگا۔ یہاں فارسی کا اثر فوری ہوا اور جامع بھی اس لیے کہ فارسی زبان میں علمی اور مذہبی کتب کی فراوانی تھی اور ہندوستان میں مذہبی تعلیم کا ذوق و شوق بھی والہانہ تھا۔ فارسی ہندوستان کی واحد علمی زبان بن کر ابھری اس لیے کہ سنسکرت کوہندوستانی پنڈتوں نے صرف مقدس علمی اور عام لوگوں کے لیے متروک زبان بنا کر چھوڑ دیا تھا۔ فارسی زبان نے جہاں اس خطے میں علمی اور ادبی ترقی کی راہ ہموار کی وہاں اس خطے کی زبانوں پر بے شمار انمنٹ نقوش اور اثرات بھی چھوڑے۔
محاورے کسی بھی زبان کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو صدیوں کی پیداوارہوتے ہیں اور جس سے زبان کی وسیع دامنی اور اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ اردو زبان دنیا کی ان چند خوش قسمت زبانوں میں سے ایک ہے جس میں محاوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اردو محاروں کی ساخت اور پرداخت میں سب سے زیادہ حصہ فارسی زبان کا ہے(2) اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اردو زبان الفاظ، تراکیب، صرفی نخوی ڈھانچے میں بھی فارسی سے استفادہ کرتی رہی ہے لیکن جہاں تک محاوروں کی اشتراک کا سلسلہ ہے اس میں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اردو زبان نے زیادہ تر فارسی محاروں کو یا تو کاملاً اپنایا ہے یا پھر ان محاوروں کو اپنے رنگ ڈھنگ میں اپنے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کے محرکات کا اگر اندازہ لگایا جائے تو ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنا پڑیں گے۔ اردو اور فارسی کا ابتدائی ملاپ یا تو صوفیاء کے ہاں ہوا یا پھر دربار اور حراموں میں صوفیاء کو عام لوگوں سے مخاطب ہونا تھا اور انہیں فارسی زبان پر عبول حاصل ہوتا تھا وہ اپنی بات سمجھانے کےلیے فارسی محاروں کا استعمال کرتے تھے اور دربار اور حراموں میں اپنی گفتگو کو پر اثر بنانے کے لیے فارسی محاوروں کا استعمال عام تھا یوں پورے ہندوستان میں فارسی محاورے زبان زد عام ہونے لگے۔ اردو چونکہ صوفیاء اور درباردونوں کی زیر استعمال رہی اس لیے فارسی کے ان محاوروں کا بعینہ ویسا استعمال اردو میں بھی ہونے لگا یوں اس ریت اور روایت کو اردو زبان کے ادیبوں اور شعراء نے بھی قبول کیا اور پورے اردو ادب کے ذخیرے میں فارسی محاورے محفوظ ہوگئے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یہ تفریق بھی نہیں کرپاتے کہ یہ محاورے فارسی کے ہیں بلکہ ہم نے ان محاوروں کو اتنا لوکلائز کرلیا ہے کہ ہم ان پر اپنا حق جتانے لگے ہیں۔ ذیل میں مختلف کتابوں، لغات اور تحریروں سے کچھ محاورے جمع کیے گئے ہیں، جن کےمطالعے سے اندازہ ہوگا کہ اردو اور فارسی زبان میں محاوروں کا اشتراک کتنا ہے اور کس نوعیت کا ہے۔

اردو

فارسی

آپ زندہ، جہاں زندہ، آپ مردہ، جہاں مردہ

خودزندہ، جہان زندہ، خود مردہ، جہان مردہ

آپ کو فصیحت اور کو نصیحت

خودرافصیحت، دیگران رانصیحت

آپ کا نوکر ہوں، بینگنوں کا نوکر نہیں

من نوکر حاکم نہ نوکر بادنجان

آپ ہی بی بی، آپ ہی باندی

آقای خودم ھستم ونوکرخودم

آپ ہی مارے، آپ ہی چلائے

خودمی زندو خودفریادمی کند

آج کا کام کل پر مت ٹالو

کارامروزبہ فردامگذار

آدمی اشرف المخلوقات ہے

انسان اشرف المخلوقات است

آدمی کو آدمیت لازمی ہے

آدمی را آدمیت لازم است

آدمی کی قدر مرنے پر ہوتی ہے

قدر مُردم بعد مُردن

آرزو عیب نہیں

آرزو عیب نیست

آزادی خدا کی نعمت ہے

آزادی نعمت خدا است

آسمان دور ہے زمین سخت ہے

زمین سخت است، آسمان دور

آگ اور بیری کو کم نہ سمجھے

آتش و دشمن راحقیر مشمار

آگ اور پانی کا سنجوگ

آب و آتش راچہ آشنایی

آگ بن دھواں کہاں

ھیچ دودی بی آتش نیست

آگ و پانی کا بیر ہے

آب و آتش خلاف یکدیگراند

آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا

ازگفتن آتش، زبان نسوزد

آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا

مژہ بہ چشم زیادتی نمی کند

آنکھوں سُکھ، کلیجے ٹھنڈک

چشم ماروشن، دل ماشاد

اب بھی میرا مردہ تیرے زندے پر بھاری ہے

ھنوزمردہ من زندہ تراباست

ابھی تو دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے

ھنوز دھنش بوی شیرمی دھد

ابھی دہلی دور ہے

ھنوز دہلی دور است

اپنی چھاچھ کو کون کھٹا کہتا ہے

کس نگوید کہ دوغ من ترش است

اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے

سگ درخانہ خود شیری است

اپنے بچے کو ایسا ماروں کہ پڑوسن کی چھاتی پھٹے

بچہ خودرامی زندتاچشم ھمسایہ بترسد

اپنے کیے کا علاج نہیں

خودکردہ راتدبیر نیست

اچھے کو اچھا، برے کو برا کہتے ہیں

بدراباید بدگفت، خوب راباید خوب

اچھے برے میں چار انگل کا فرق ہے

بین خیروشر چھار انگشت فاصلہ است

احمد کی پگڑی محمود کے سر

کلاہِ احمد سرمحمود

ادھار محبت کی قینچی ہے

قرض مقراض محبت است

اشراف گھوڑے کو چابک کی حاجت نہیں

اسب نجیب را یک تازیانہ بس است

اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں

چوب خدا صدا ندارد

امانت میں خیانت توزمین بھی نہیں کرتی

خاک ھم بہ امانت خیانت نمی کند

اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں

کورازخداچہ می خواھد؟ دوچشم بینا

اندھوں میں کاناراجا

درشھر کوران یک چشم سلطان است

اندھے کودن رات برابر

برای کورشب وروزیکی است

اونٹ چڑھے کتا کاٹے

بختِ بدبا کسی کہ یاربودرسگ گزدش گرشترسوار بود

ایک میان میں دو تلوار نہیں رہ سکتی

دوشمشیر درنیامی نگنجند

ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی

یک دست صدا ندارد

باپ کا مارے کابیر

پدر کشتگی داشتن

بات سے بات نکلتی ہے

سخن از سخن خیزد

بنیے کا سلام بے عرض نہیں ہوتا

سلام روستایی بی غرض نیست

بن روئے ماں بھی دودھ نہیں دیتی

کودک شیرخوارہ تانگریست/مادراورابہ مھرشیرندارد

بندے کا چاہاکچھ نہیں ہوتا، اللہ کا چاہا سب کچھ ہوتا ہے

ھرچہ دالم خواست نہ آن می شود/ھرچہ خداخواست ھمان می شود

بولنا چاندی ہے مگر خاموش رہنا سونا ہے

سخن اگرزراست، سکوت وخموشی گوھراست

بہشت ماں کے قدموں تکے ہے

بہشت زیرپای مادران است

بھینس کو اپنے سینگ بھاری نہیں ہوتے

شاخ گاومیش برگاومیش بارنیست

بےکاری سے بیگاری بھلی

بیگاری بہ ازبیکاری ست

پوچھتے پوچھتے خداکا گھرمل جاتا ہے

پرسان پرسان بہ کعبی می توان رفت

پیسہ ہاتھ کا میل ہے

مال دنیا چرک دست است

ٹوپی سے بھی مشورہ کرنا چاہیے

کلاھت راقاضی کن

جان سب کو پیاری ہے

جان براھی ھمہ عزیز است

جب تک دم ہے، تب تک غم ہے

تادم است، غم است

جب تیر چھوٹ گیا تو پھر کمان میں نہیں آسکتا

تیری کہ ازکمان جست بازنمی گردد

جب خدادینےپرآتاہےتوپھریہ نہیں کہتاکہ توکون ہے

خداوقتی می دھد نمی پرسد کیستی

جب دو دل راضی تو کیا کرےگا قاضی

زن راضی، شوھر راضی، گورپدر قاضی

جتنا زمین کے اوپر، اتناہی نیچے

آن قدر کہ روی زمین است، دوآن قدردرزیرزمین است  

جس کا کوئی نہیں اس کا خدا

خدایار بیکسان است

جلدی کا کام شیطان کا

عجلہ کارشیطان است

جوبات دل سے نکلتی ہے وہ دل میں گھر کرتی ہے

سخن کزدل برآید لا جرم بردل نشیند

جہاں گل ہوگا، وہاں خار بھی ضرور ہوگا

ھرجاگلی است خاری درپھلوی اوست

جہاں گنج، وہاں رنج

گنج بی رنج ندیدہ است کسی

ضرورت ایجاد کی ماں ہے

احتیاج مادر اختراع است

عقلمند کو ایک اشارہ کافی ہے

آن کس کہ اھل بشارت بس است، اشارت داند

عمل کے بغیر علم، بے پھل درخت کی مانند ہے

عالم بی عمل مانند درخت بھی ثمراست

غصے میں عقل جاتی رہتی ہے

غضب ازشعلہ ھای شیطانی است

قدرکھودیتا ہے ہربار آناجانا

ماہ گہ گہ کہ کندطالع عزیزش دارند

کل کس نے دیکھی ہے؟

فرداراکسی ندیدہ

کم کھا، غم نہ کھا

کم بخور، کم نخور

کھانے کو بسم اللہ، کمانے کو استغفراللہ

ھمہ جاش سست ومست است فقط نون دونیش درست است

من میں بسے، دسپنے دسے

گرسنہ درخواب نان سنگک می بیند

منہ پر اور، پیٹھ پیچھے اور

روبروجانم جانت، پشت سرکاردم اسختوانت

نادان کی دوستی جی کازیان

دوستی خالہ خرسہ

نام بلند بہ ازبام بلند

نام بلند بہ ازبام بلند است

نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان

نیم طیب خطرجان، نیم فقیہ خطر ایمان

وقت نہیں رہتا بات رہ جاتی ہے

زمستان می گذردوروسیاھی بہ زغال می ماند

وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا

دردنیا ھمیشہ بیک پاشنہ نمی گردو

ہرشخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے

ہرکس سلیقہ ای دارد

ہماری بلی اور ہمیں سے میاؤں

ازخودم مُلا شدی برجان من بلاشدی

ہیرا کیچڑ میں بھی ہیرا رہتا ہے

دُر دَرخلاب نیز دُراست

یاروہی جو بھیڑ میں کام آئے

دوست آن باشدکہ گیردست دوست

یار کا غصہ بھٹار کے اوپر

زورش بہ خرنمی رسد پالانش رامی زند

            مندرجہ بالا مثالیں مشتے نمونے ازخروارے ہیں، اردو اور فارسی زبان میں اشتراکات کا سلسلہ بہ ہر پہلو مضبوط ہے۔ اس کے پیچھے دراصل صدیوں کا باہمی اختلاط ہے، دونوں زبانوں نے ایک ساتھ ایک ہی ماحول میں پرورش پائی اور لسانی قربت کی وجہ سے اشتراکات کا ہونا لازم ہے، اردو محاورہ پر فارسی محاورات کا اثر بہت زیادہ ہے بیشتر محاورے تو ہو بہو وہی ہیں جو فارسی میں ہیں اور جو باقی ماندہ ہے وہ فارسی سے اختراع کردہ ہیں۔ (3) تہذیب وتمدن اور معاشرت پر بھی اس اختلاط کا اثر پڑا ہے اور فارسی بولنے والوں کا اثر جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں نظر آتی ہے۔

حوالہ جات

۱۔         تاثیر زبان فارسی براردو ڈاکٹر محمد صدیق شبلی مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد ۱۹۹۷ء ص ۳۴
۲۔         تاریخ ادبیات ہندوستانی گارساں داتاسی مرکز علم وزبان، نئی دلی، انڈیا ۱۹۶۱ء ص ۱۳۲
۳۔         لسانی مقالات سید قدرت نقوی مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۸ء ص ۵۴

 

منابع و مآخذ

۱۔         فیروزالغات الحاج فیروزالدین فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹیڈ، لاہور ۱۹۸۴ء
۲۔         دہخدا علی اکبر تہران، بہار ۱۳۷۳ء
۳۔         غیاث الغات (فارسی) مطیع نولکشؤر انڈیا ۱۹۴۴ء

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com