اسلامی ادب کی اُردوترجمہ نگاری میں بلوچ اہل علم کی خدمات
ڈاکٹرغلام قاسم مجاہدبلوچ
Abstract:
(Baloch writer's contribution in Religious literature's Urdu Translation.)
This article introduces the Baloch writers who translated Islamic Literature in Urdu from different languages like: Arabic, Persian and English. Mostly the Arabic and Persian books were translated. The mentionable work is the translation of Holy Quran and its exegesis: "Noor ul Saqlain" in 8 Urdu volumes. Hadith, Islamic Jurisprudence, Biography of Holy prophet and His Companions, Saints, Mysticism, Religious moots, Creeds, issues, Morality, and Isma ul Hasana books were translated in Urdu. Eight books from Arabic, fourteen from Persian, one from English and the extracts of eleven Arabic books at large scale were translated. Various Baloch scholars did the translation work but the notable work is of Allama Muhammad Hassan Jafri Khosagh Baloch. The other prominent Baloch translators are: Alama Altaf Hussain Kolachi, Ghulam Qamber Umrani, Prof. Muhammad Iqbal Jaskani, Abdul Rahman Ghaur, Dr Abdul Rahman Brahoi, Muhammad Shafi Balochand Allah Bakhsh Baloch. The translated books of Shia sect seems in greater number. The article also introduces the Baloch authors briefly. More than fifty books seems completely or partially translated where as 14 Baloch translators took part in these translations.
بلو چ اہل علم نے نہ صرف اسلامی ادبیات کا بلوچی میں ترجمہ کیا جیسے: مولانامحمدفاضلؔ دُرخانی ، مولوی خیرمحمدؔندوی رند،مولانانذیرالحقؔ دشتی رند ودیگرنے قرآن حکیم کے الگ الگ انفرادی تراجم کیے نیز نہج البلاغہ،گلستان سعدیؒ،اورشاہ بلیغ الدین کی ’’روشنی‘‘ جیسی دینی واخلاقیاتی کتب کا بلوچی ترجمہ کیا بلکہ بلوچ اہل علم نے اسلامی ادبیات کے بھی وقیع اردوتراجم کیے جن میں قرآن حکیم کاترجمہ وتفسیر،حدیث،فقہ ،سیرت صحابہ،سیرت المشائخ،تصوف،دینی مباحث ومسائل وعقائد،اخلاقیات،اسمی الحسنیٰ ودیگرموضوعات شامل ہیں۔ان مترجمہ کتب میں عربی زبان کی نو،فارسی کی۱۴ ،انگریزی کی ایک اورعربی اقتباسات کی حامل گیارہ کتب مترجمہ ملتی ہیں ۔اگر اجلاد میں شامل کتب کوالگ الگ شمارکیاجائے تو ان کی تعدادپچاس سے تجاوزکرجاتی ہے۔ مسلکی اعتبارسے سب سے زیادہ اہل تشیع طرز فکرکی حامل کتب ترجمہ ہوئیں جب کہ بلوچ ترجمہ نگاروں میں علامہ محمدحسن جعفری کھوہ سغ بلوچ سب سے سبقت یافتہ نظرآتے ہیں۔دیگرترجمہ نگاروں میں: علامہ الطاف حسین کلاچی،غلام قنبرعمرانی،پروفیسرمحمداقبال جسکانی،عبدالرحمٰن غور،ڈاکٹرعبدالرحمٰن براہوئی،اﷲ بخش خان بلوچ،محمد شفیع بلوچ شامل ہیں۔ درج ذیل میں ان مترجمہ تصانیف کااجمالی جائزہ پیش کیاجاتاہے:۔
( ۱ )خصائصِ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب :
’خصائصِ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب‘‘ فضیلۃ الشیخ ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب امام نسائی ؒ (۲۱۴ھ۔۱۳صفر ۳۰۳ھ) کا عربی رسالہ ہے جسے علامہ محمدہادی الامینی عراقی نے ۷۸ کتب کی مددسے مدون کرکے ۱۳۸۸ھ؍۱۹۶۹ء میں مطبعہ ومکتبہ حیدریہ نجف اشرف عراق سے شائع کیا تھا۔ علامہ الطاف حسین کلاچی بلوچ پرنسپل مدرسہ باب قم،تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان نے اس کا اردوترجمہ کرکے ۲۰۰۶ء میں ،خصائص امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ، کی صورت ،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ ملتان روڈلاہورسے ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرایاجو۲۹۶ صفحات پرمحیط ہے۔ امام الحدیث نسائی سنی العقیدہ اورشافعی المسلک تھے۔ ایران میں خراسانی شہر’’ النسا ‘‘کے رہنے والے تھے۔انہوں نے مختلف ولایت کے اسفارکیے۔ جب دمشق پہنچے تودیکھا کہ اہل دمشق حضرت علی ؓ کرم اﷲ وجہٗ کی ناصبیت کرتے ہیں۔چناں چہ انہوں نے حضرت علی ؓکے فضائل ومناقب پر احادیث جمع کر کے رسالہ: ’’ خصائص علویہ؍نسائی ‘‘ مرتب کیا۔ پھر چاہا کہ اسے جامع مسجد دمشق میں لوگو ں کے سامنے پڑھا جائے۔چناں چہ وہاں جاکرانہوں نے ابھی تھوڑاساحصہ ہی پڑھا تھاکہ ایک شخص بولا: کیا آپ نے امیر المومنین حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں بھی کچھ لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا:مجھے اس ضمن میں’’لا اشبعَ اﷲ بطنہ ‘‘سے زیادہ کچھ یاد نہیں۔چناں چہ لوگ یہ سن کرمشتعل ہوئے۔انہیں منبرسے اتارکر تشدد سے زخمی کیا ۔ان کے خادم انہیں وہاں سے نکال کرگھرلائے۔ فرمایا:مجھے مکہ لے چلو۔ راستے میں رنج کی تاب نہ کر رملہ فلسطین میں انتقال ہوااور وہیں دفن کیے گئے۔بعض کے مطابق انہیں مکہ لایاگیا اوربینِ صفا ومرویٰ دفن کیاگیا۔یہ رسالہ ان کی موت کا موجب بنا۔
مترجمہ تصنیف، کثیرالدیباچہ ہے جس کے آغاز میں’’عرض ناشر‘‘ بہ قدردوصفحات نوشتہ از ریاض حسین جعفری فاضل قم؛’’ابتدائیہ‘‘بہ قدردوصفحات ازمترجم؛’’پیش لفظ‘‘بہ قدرتین صفحات نوشتہ ازعلامہ محمدحسن جعفری نیز ’’مقدمہ‘‘ از علامہ محمدہادی الامینی پیش کردہ ہیں۔تصنیف میں امام نسائی ؒکے تذکرہ حیات وتصانیف کے علاوہ۵۹ عنوانات کے تحت حضرت علیؓ اوردیگرکی مروی احادیث نوشتہ ہیں۔اس کا انداز ِپیش کش اس طرح ہے کہ پہلے عنوان قائم کرکے حدیثِ پاک کا عربی متن دیا۔ پھرمتن میں محولہ رجال کا بہ ذریعہ تخریج: تعار ف، روایت کنندہ کتاب کانام ،صفحہ نمبر نیز ماخذ کوحواشی میں درج کیاگیا۔ اگر حدیث کے مختلف راوی ہیں اوران کے الفاظ میں اختلاف ہے تووہ اختلافی المتن احادیث بھی یک جاکردیے گئے ۔پھر ان جملہ احادیث کا اردو ترجمہ پیش کیاگیا۔تصنیف میں شامل کچھ چیدہ موضوعات احادیث ودیگر درج ذیل ہیں:۔
’’علامہ نسائی معاجم کے آئینے میں۔شیوخ(اساتذہ) النسائی۔تصنیفاتِ نسائی۔حیاتِ امام نسائی۔کیاامام نسائی شیعہ تھے؟ احادیث :حضرت علی ؓ کی نماز۔ عبادت۔نگاہ ِپروردگار میں منزلتِ حضرت علیؓ۔حضرت امام حسنؓ کی روایت کہ جنگ میں حضرت جبرئیل ؑ حضرت علی ؓکے دائیں اور میکائیل ؑ بائیں طرف ہوتے تھے۔علیؓ کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔حضرت علی ؓکے لیے فرمانِ مغفرت ۔ اﷲ تعالیٰ نے علیؓ کے دل کا امتحان لے لیا۔اے علیؓ! خداتیرے دل کی رہ نمائی فرمائے گا۔علی ؓکے دروازے کے سوا سب دروازے بند۔اﷲ نے اسے داخل کیا اورتمہیں خارج کیا ۔ دربارِ رسالتؐ میں حضرت علیؓ کامقام۔ علیؓ ؓمجھ سے ہیں اورمیں علیؓ سے ہوں۔علیؓ میری جان ہیں۔ اے علی ؓ!تومیرا صفی اورامین ہے۔علیؓ میری امانتیں اداکرنے والا ہے۔علیؓ اورسورۃ برأت۔جس کا میں مولیٰ ہوں ، علیؓ اس کا مولیٰ ہے۔علیؓ میرے بعد ہرمومن کے ولی ہیں ۔ حُبِ علیؓ معیارِایمان۔نبیؐ کی قربت میں منزلتِ علیؓ ۔کعبہ میں حضرت علی ؓکی مجسمہ شکنی۔حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ ۔ حضرت فاطمہؓ، سوائے مریم بنتِ عمران کے ،النساء جنت کی سردارہیں۔حضرت فاطمہؓ اس امت کی النساء کی سردار ہیں ۔ حضرت فاطمہؓ رسولؐ کے بدن کا حصہ (بضعۃ) ہیں۔حسنؓ وحسینؓ میرے بیٹے ہیں۔حسنؓا ور حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔حسنؓا ورحسینؓ اس امت میں میرے خوش بو(ریحان)ہیں۔ حضرت علی ؓ اورحضرت فاطمہؓ دونوں بڑھ کر عزیز ہیں۔نمازمیں اپنے لیے جو طلب کی وہ علیؓ کے لیے طلب کی۔ حضرت ابوطالب کی تدفین کے بعدرسول اﷲ ﷺکا حضرت علیؓ کے ساتھ دعا۔یومِ خیبر آپ ؐ کی ،علیؓ کے لیے دعااوران کے لیے سردی گرمی کا اثرزائل ہوجانا۔نبی ؐ کا علی ؓکو صدقہ کا ارشاد۔ آپ ؐ کاغزوۃ العشیرۃ دروطن ینبع میں بنی مدلج سے مصالحت کے موقع پر علی ؓ کوابوتراب کہنا اوردوشقی انسانوں کا ذکرفرمانا۔وصال نبیﷺ کے وقت آخری ملاقاتی حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ تھے ۔ حضرت علیؓ تاویلِ قرآن کے لیے جنگ کریں گے۔آپ ؐ کی یوم غدیر کے موقع پر علیؓ کے لیے دعا۔ یوم خندق پرآپ نے فرمایا کہ حضرت عمارؓ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔آپؐ نے فرمایا میری امت کے دوفرقوں سے ایک گروہ نکلے گا جسے ان دونوں فرقوں سے وہ فرقہ قتل کرے گا جو حق کے قریب ہوگا ۔ آپؐ سے ذوالخویصرہ تمیمی کا کہنا کہ’’یارسول اﷲ،انصاف کیجیے،آپ ؐکا فرمانا کہ یہ ایساگروہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اوریہ ایمان سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر، (خوارج )سے حضرت علیؓ کی جنگ۔حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کا خوارج سے مناظرہ۔ مشرکین مکہ کا ،صلح حدیبیہ کے موقع پرؓ کاتبِ صلح نامہ حضرت علی سے الفاظ: رسول اﷲﷺ مٹادینے کا کہنا اوران کا انکار ، پھرآپ ؐ کاخودیہ الفاظ حذف کر دینا ۔ ‘‘
علامہ محمدہادی الامینی نے’’ خصائص نسائی ‘‘کو عربی میں مدون کیا۔بعد ازتحقیق بسیار اس کی احادیث کے مآخذ کو تلاش کیا۔ ان کی اغلاط درست کیں۔ان احادیث کے الفاظ میں جو اختلافات تھے ان کو زیر بحث لائے۔ استخراج سے ضروری معلومات لے کر حواشی کااضافہ کیا۔مثلاً:رسالہ کے عربی متن میں کوئی نام آیا جس کی تفصیل موجود نہیں تو حاشیہ میں اس کی تفاصیل دیں۔ان میں راویان کا تعارف اوریہ تعارف جس کتاب سے لیا، اس کا حوالہ وغیرہ دیا ، جیسے : ’’ابوعبدالرحمٰن عبداﷲ بن لھیعہ الحضرمی المعری المتوفی۱۷۴[ھ]۔تذکرۃ الحفاظ جلد۱،ص۲۳۷‘‘ (۱ )
یہ ایک صبرآزماتحقیقی کام ہے۔ مترجم نے حضرت علیؓ اوردیگرسے متعلق احادیث پر مبنی اس عربی تصنیف کو اردو میں منتقل کیا ۔ترجمہ لفظی کی بہ جائے تفہیمی ہے۔اس کے معیارِترجمہ کے بابت علامہ محمدحسن جعفری ’’پیش لفظ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’میری دلی خواہش تھی کہ اس تحقیق شدہ نسخہ کااردو زبان میں ترجمہ ہو...چناں چہ میں نے برادر محترم سرکار علامہ الطاف حسین خان کلاچی سے درخواست کی کہ وہ...اس نسخہ کاترجمہ کریں۔چناں چہ موصوف نے میری درخواست کو پذیرائی بخشی...میں نے ترجمہ پر سرسری نظر کی ہے۔ترجمہ ہرلحاظ سے جامع ہے۔‘‘ (۲ )
’’عرض ناشر‘‘ میں سربراہ ادارہ منھاج الصالحین،علامہ ریاض حسین جعفری لکھتے ہیں کہ :
’’اس کتاب کا ترجمہ علامہ الطاف حسین کلاچی نے سلیس اور رواں دواں کیا ہے۔ہم ان کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے...یہ عظیم کا م سر انجام دیا۔‘‘(۳ )
اسلوب ترجمہ کے حوالے سے ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
’’ہم نے محمدبن مثنیٰ سے،اس نے عبدالرحمٰن سے،اس نے شعبہ سے، اس نے عمرہ بن مرہ سے،اس نے ابو مرہ سے ، اس نے زید بن ارقم سے ،اس نے کہا کہ حضرت علیؓ پہلے شخص ہیں جس نے رسولﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘ ‘ (۴ )
( ۲ )فضائل علیؓ،حصہ اول :
علامہ عزالدین ابوحامد(یکم ذی الحج۵۷۴ھ ۔ ۶۵۵ھ) بن ہبۃ اﷲ بن محمدبن محمدبن حسین بن ابی الحدیدمدائنی بغدادی اہل تسنن کے معتزلی عالم تھے ۔انہیں عباسی خلفاء کے دربارتک رسائی تھی اور انہوں نے کتب خانہ ٔبغدادسے استفادہ کیا۔متعددعربی تصانیف رقم کیں۔ان میں: ’’الفلک الدائر علی المثل السائر‘‘ ،’’علویات سبع‘‘ اور’’شرح نہجہ البلاغہ‘‘قابل ذکرہیں۔تحقیق ، نقد اور رموزِشاعری میں انہیں معتبر مقام حاصل تھا۔ایرانی عالم سیدابوالفضل میرلُوحی نے ان کی تصنیف’’ شرح نہجہ البلاغہ‘‘ کی ۱۴جلدوں سے خوشہ چینی کرکے حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ کی فضیلت وافضلیت کے بارے میں عربی اقتباسات منتخب کیے اور ان مناقبات کی دوجلدیں بعنوان’’فضائل علیؓ‘‘ مرتب کیں۔ ان کاارادہ تھا کہ وہ ان کا فارسی ترجمہ کریں گے مگر بسبب ضعیف العمری نہ کرسکے۔بعد ہٗ حسین شفیعی اصفہانی نے فارسی ترجمہ کاکام اپنے ذمہ لیا۔
حجۃ الاسلام علامہ الطاف حسین کلاچی بلوچ نے،نسخۂ علامہ سید ابوالفضل میرلُوحی کی ایک جلدکا اردوترجمہ کرکے اسے ’’فضائل علیؓ‘‘کی صورت جولائی۲۰۰۷ء میں،ادارہ منھاج الصالحین، جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ لاہورسے شائع کرایا جو۳۹۵صفحات کی حامل ہے۔مترجمہ تصنیف میں ۱۸۶کے لگ بھگ عناوین قائم کردہ ہیں جس کے آغازمیں دوصفحاتی’’عرض ناشر‘‘ازمولاناریاض حسین جعفری فاضل قم،سات صفحاتی ’’حرف اول‘‘ازمترجم اردو،ایک صفحاتی تقریظ ازعلامہ محمدحسن جعفری اوردوصفحاتی’’مقدمہ‘‘از حسین شفیعی اصفہانی ایرانی پیش کردہ ہیں۔ تصنیف کے کچھ منتخبہ عناوین درج ذیل ہیں:۔
’’اِبن ابی الحدید۔پیدائش۔وفات۔تمام حمدوستائش اﷲ کے لیے ہے۔نسب نامہ جناب امام علیؓ۔ ابوتراب۔امامؓ وصی رسول اﷲ۔جائے ولادت۔اعلان نبوتؐ اورامام علیؓ کاسن مبارک ۔ شہادت ۔ مدفن۔فضائل امیرالمومنینؓ۔مکتب معتزلہ۔مکتب اشاعرہ۔فرقہ امامیہ۔عامہ وخاصہ۔مسئلہ منبر۔علم تفسیرقرآن اورامامؓ۔قوت دست بازوئے امامؓ۔امام اورجودوسخاوت۔تحمل وبردباری۔ل شکرمعاویہ کادریاپرقبضہ۔ جہاداورامامؓ۔ فصاحت۔ زہداورامامؓ۔ بندگی پروردگاراورامامؓ۔قرآن مجیداورامام ؓ۔ امام علیؓ سابق الاسلام ہیں۔خطبات امیرالمومنین امام علیؓ۔عمروؓبن عاص کاتذکرہ۔ولیدبن عقبہ کی تقریر۔عتبہ بن ابی سفیان کی تقریر۔مغیرہ کی تقریر۔امام حسن علیہ السلام کاجواب۔ومن خطبہ،علیہ السلام۔عارف ربانی امام کی زبانی۔عدالت اور اس کی اقسام۔عارف عادل امام کی نظرمیں۔ابن ابی الحدیدکہتے ہیں۔امام علیؓ کی اعجازآمیزگفتگو۔یادرکھنے والاکان۔محدثین کی نظر میں امام علیؓ۔جنگ احداورامام علیؓ۔مناظرہ ابوجعفراسکانی اوروجاحظ۔
عربی سے اردوترجمہ کے بابت ناشرلکھتے ہیں کہ :
’’اس بے مثل وبے نظیر کتاب مستطاب کاعربی سے اردوترجمہ عرصہ دراز سے منتظروجودتھا۔اس کو معرض وجودمیں لانے کاشرف ہمارے رفیق محترم اورعالم وفاضل شخصیت مولاناالطاف حسین صاحب کو حاصل ہواہے اور ہم اس کی اشاعت پرنازاں وفرحان ہیں۔‘‘(۵ )
اردوترجمہ اگرچہ مسلکِ اہلِ تشیع کے دائرہ فکرمیں رہ کرکیاگیاہے مگر سادہ اورمؤثر ہے ۔ ایک مترجمہ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’وہ احادیث جوحضرت امام علیؓ کے سابق الاسلام ہونے پرمشتمل ہیں جوکتب صحاح میں موجودہیں۔ان سب کی اسنادقوی اورثقہ ہیں۔انہی احادیث میں سے ایک حدیث جس کے راوی شریک بن عبداﷲ ہیں۔اس نے سلیمان بن مغیرہ سے سنا۔اس نے زیدبن وھب سے،اس نے عبداﷲ بن مسعودؓ سے سنا۔اس نے کہا کہ مجھے رسولﷺ سے پہلی آشنائی وآگاہی جوہوئی وہ یہ تھی کہ ایک دفعہ میں اپنے چچاؤں اورقبیلے کے لوگوں کے ساتھ مکہ آیا۔ہمارے کچھ ساتھیوں نے عطر خریدناتھا،ہمیں عباس بن عبدالمطلب کے پاس جاناپڑا۔جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ چاہ زم زم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ابھی ہم ان کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک مردصفاکی طرف سے وارد ہوا۔وہ دوسفیدچادریں زیب تن کیے ہوئے تھا۔اس کے گھنگھریالے بال تھے جوکانوں کوچھورہے تھے۔لمبی خوب صورت ناک،سیاہ رنگ کی بڑی بڑی جاذب آنکھیں،خوب صورت گھنی ریش،سفیدچمکتے دانت،جب تبسم فرماتے توایک بجلی کی سفیدی سی کوند جاتی۔چہرہ مبارک کی سفیدی و نورانیت پرایک لطیف ونازک سرخی احاطہ کیے ہوئے تھی۔ایسامعلوم ہوتاتھاجیسے چودہویں کے چاندنے آسمان پرطلوع کیاہواہو۔ان کے دائیں طرف ایک خوش منظر،خوب صورت بلوغ کی دہلیز پرقدم رکھنے والاجوان نظرآیا۔ان دونوں کے پیچھے ایک مستور ومحجوب خاتون تھی۔یہ تینوں حجرالاسودکے نزدیک آئے ،حجراسودکے بوسے لیے،پھرکعبہ کے سات چکرلگائے۔وہ نوجوان اورخاتونِ باوقاران کے ہمراہ استلام وطواف میں مصروف رہے۔پھرحجراسماعیل کے پاس آئے اورکھڑے ہوگئے۔دونوں ہاتھوں کوبلندکیا،تکبیرکہی۔وہ نوجوان دائیں طرف کھڑاہوگیااوروہ خاتون ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔اس نوجوان نے ہاتھوں کونیچے کیااورذکرشروع کردیا۔ ۔۔۔وہ رکوع میں گیا۔تو اس کے ساتھی بھی رکوع میں گئے۔پھروہ سیدھاہوااورٹھہرا۔اس کے دونوں ساتھی بھی اس کی متابعت کررہے تھے۔جب میں نے اس روحانی وروح پرورمنظرکودیکھاتو۔۔۔۔میں نے حضرت عباس کی طرف دیکھا اورپوچھا،اے ابوالفضل میں نے یہ روش اوریہ دین تمہارے ہاں کبھی نہیں دیکھا۔انہوں نے کہا:جی ایسی ہی بات ہے۔میں نے کہاتمہیں خداکی قسم یہ بتاؤ کہ یہ شخص کون ہے؟توانہوں نے کہا کہ یہ میرے بھائی کے بیٹے محمدﷺبن عبداﷲ ہیں۔یہ دوسراجوان میرے بھائی کابیٹاعلیؓ ابن ابی طالب ہے اوروہ خاتون خویلد کی بیٹی ، محمد ﷺکی زوجہ محترمہ ہیں۔قسم بخدا!اﷲ کی سرزمین پراوراس دین پرصرف یہ تین نفرہیں ،ان کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے۔‘‘(۶ )
( ۳ )توشۂ آخرت :
اﷲ بخش خان نوذحقانی بلوچ،ساکن سوکڑؔ تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان ثم مصنف’’ شاہنامہ بلوچ‘‘ نے ستمبر۱۹۲۹ء میں، شیخ رکن الدین قریشی ساکن غوث پورقریشیاں،کبیروالا،ملتان کی فارسی تصنیف ’’گلزارمعرفت‘‘کو’’توشہ آخرت‘‘ کی صورت میں اردوترجمہ کرکے محمدخیردین صابر ملتانی ،کتب خانہ صابریہ،ملتان سے شائع کرایا اور ا ردوئی مترجمہ مذہبی اثاثہ میں بقدرایک تصنیف اضافہ کیا۔تصنیف کے دیباچہ میں صابرملتانی، مترجم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’مولوی اﷲ بخش خان بلوچ ہیڈماسٹرمڈل سکول کروڑ ضلع مظفرگڑھ کی اکثرمؤلفہ کتب اس عاجزکے کتب خانہ صابریہ سے شائع ہوچکی ہیں ۔ ان کے قیمتی مضامین اکثرادبی رسالوں میں دیکھے جاتے ہیں۔مولانابلوچ اگرچہ بہت مصروف زندگی بسرکرتے ہیں اورانہیں اپنی علمی تالیفات اورسرکاری کاروبارسے فرصت نہ تھی مگروہ میرے پرانے دوست اورمحسن ہیں۔اس واسطے انہوں نے میرے اصرارپروقت نکالا اورترجمہ کی اہم خدمت بجالائے۔‘‘(۷ )
خاتم سلیمانیؒ :
اﷲ بخش خان نوذحقانی بلوچ نے ۶جون۱۹۰۷ء کوحضرت خواجہ محمدسلیمان تونسویؒ اور خواجہ اﷲ بخش تونسویؒ کے حالاتِ حیات ا ورملفوظات پرمبنی تصنیف ’’خاتم سلیمانی‘‘کوفارسی سے اردو ترجمہ کرکے خادم التعلیم سٹیم پریس لاہورسے شائع کرایا۔ انہوں نے اس ترجمہ سے نہ صرف اسلامی دنیاکے ایک معروف دینی بزرگ کے حالاتِ حیات ا ورملفوظات، فارسی سے اردو میں ترجمہ کرکے اردو کے اثاثۂ تذکرۂ حیات میں اضافہ کیابل کہ ڈیرہ غازی خان اوربلوچستان سے ملحقہ علاقوں میں فضائے اردوہموارکرنے میں بھی بنیادی کرداراداکیا۔کسی بلوچ مترجم کی طرف سے اردومیں ترجمہ کردہ یہ اولیں نثری تصنیف ہے۔بلوچ مترجم نے دیباچہ میں اپنی شخصیت پرانگریزی تعلیم کے اثرات اور معیارِتصنیف کاتذکرہ اس اندازمیں کیا کہ :
’’انگریزی تعلیم نے دل میں کسی قدرتحقیق اورتنقیدکامادہ ڈال رکھاتھااوردل یہ چاہتاتھاکہ اگرکتاب لکھوں تووہ کتاب کہلانے کی مستحق ہو۔ بایوگریفی کاصحیح اطلاق اس کتاب پرہوناچاہیے۔‘‘(۸ )
( ۴ )سیرت المحمودؒ :
اﷲ بخش خان نوذحقانی بلوچ نے ۱۹۳۱ء ’’خاتم سلیمانی‘‘کی دوسری جلد’’سیرت المحمودؒ‘‘ کے عنوان سے فارسی سے اردو ترجمہ کرکے،اقبال برقی پریس ملتان سے شائع کرائی جوسلسلہ چشتیہ کے معروف بزرگ حضرت خواجہ محمودچراغ تونسویؒ کے حالاتِ حیات ا ورلفوظات پرمبنی ہے ۔مترجم نے نہ صرف ایک معروف دینی بزرگ کے احوالِ حیات کو اردوروپ دیا بلکہ اردو کے اثاثۂ تذکرۂ حیات میں بقدرایک تصنیف اضافہ بھی کیا۔تصنیف کے دیباچے میں مترجم لکھتے ہیں کہ :
’’یہ نایاب نسخہ مجھے حضرت چراغ تونسوی،وخواجہ محمود صاحب نوراﷲ مرقدہٗ کے توشہ خانہ سے ملا۔اصل نسخہ فارسی میں ہے۔میں اسے اردو زبان کالباس پہناکرپیربرادران کی خدمت میں بہ طورتحفہ پیش کرتاہوں۔‘‘(۹ )
( ۵ )شجرہ سلسلہ عالیہ چشتیہ سلیمانیہ :
اﷲ بخش خان نوذحقانی بلوچ نے ستمبر۱۹۲۹ء میں، غلام فرید خان کی فارسی تصنیف:’’ شجرہ سلسلہ عالیہ چشتیہ سلیمانیہ‘‘کااسی نام سے اردوترجمہ کرکے کرشناسٹیم پریس ،ملک رام کرشن وصابر ملتانی،ملتان سے شائع کرایا۔(۱۰ )
( ۶ )اسماء الحسنیٰ :
ڈاکٹرعبدالرحمٰن براہوئی ڈبل پی ایچ ڈی نے اکتوبر۲۰۰۱ء میں۳۱۲صفحاتی تصنیف: اسماء الحسنیٰ،روبی پبلشرز،رستم جی لین جناح روڈ کوئٹہ سے پانچ سوکی تعدادمیں شائع کرائی جس کے آغاز میں مصنف کادوصفحاتی دیباچہ پیش کردہ ہے۔انہوں نے اسمائے اﷲ تعالیٰ کو قرآن مجید اور کتبِ احادیث سے تلاش کیااوریہ اسمائے الٰہی ننانوے کی بجائے چارسو کے قریب بتائے ہیں ۔ ساتھ ہی حضرت محمدﷺ کے اسماء بھی قرآن مجید سے تلاش کرکے لکھے ہیں ۔یہ قرآن مجید سے اسماء الحسنیٰ کو تلاش کرکے پیش کرنے کی اولیں کاوش نظرآتی ہے جسے مصنف نے عرصہ تین سال میں مکمل کیا۔ تالیف میں انہوں نے ایسی چودہ سورتوں کی نشان دہی کی جن میں ایک ایک اسم الٰہی آیا۔آٹھ سورتوں میں کوئی بھی اسم الٰہی عدم موجود ہے ۔تیس سورتوں میں اسم ’’اﷲ ‘‘عدم مذکورہے ۔ کچھ سورتوں میں اسم’’ رب‘‘ عدم مذکورہے۔انہوں نے اسماء الحسنیٰ کے ساتھ ان کے معانی، اعداد ، تعدادکہ اسم کتنی بارآیا،ان کے فیوض وبرکات ،طریقۂ اوراد مع اضافی معلومات بیان کیے۔مصنفہ ،چنداسماء الحسنیٰ درج ذیل ہیں:۔’’الاحد۔احسن الخالقین۔احکم الحاکمین۔اعلم۔الاعلیٰ۔اﷲ۔الٰہ ۔الاول ۔ الباری ۔ الباطن ۔بصیر۔السمیع ۔الحافظ ۔الحفیظ۔حکیم ۔ا لعلیم ۔ غفور۔غنی۔خیرالراحمین ۔ خیر الرازقین ۔رب العزۃ۔رب العظیم۔الرحمٰن۔الرحیم۔ ‘‘
اسماء الحسنیٰ کے بارے فراہم کردہ اضافی معلومات کا نمونہ ملاحظہ ہو :
’’رفیع الدرجات(ذوالعرش):الرفیع کے معنی بلندوبرتراونچے درجے والے کے ہیں۔مالک درجات عالی ۔ بلند درجہ دینے والا۔اس اسم کے اعداد ۳۶۰ ہیں ۔اس کے ذاکرکے مرتبہ میں ترقی ہوتی ہے۔جو اس اسم مبارک کونصف شب یادوپہرکوسومرتبہ پڑھے،اﷲ تبارک تعالیٰ اس کوخلائق سے برگزیدہ کرے، تونگر و بے نیاز ہو۔ص:۴۰(المومن غافر)آیت:۱۵‘‘(۱۱ )عربی اسمائے الحسنٰی اورالفاظ کے اس مترجمہ تصنیف کو جزوی یااقتباساتی ترجمہ کہا جا سکتاہے۔
( ۷ )حکمت کے موتی :
عبدالرحمٰن غوربلوچ نے ۱۹۵۵ء میں ۱۶ صفحات پرمشتمل کتابچہ،حکمت کے موتی،ادارہ ادب سبی بلوچستان،اسلامیہ پریس کوئٹہ سے شائع کرایاجس میں قرآن مجید کی سوآیات بابرکت جو معاشرتی اور عملی زندگی میں رہ نمائی بہم پہنچاتی ہیں ،کو مع نثری اردو ترجمہ پیش کیا ۔’’دشمن کی پہچان ۔ امیداورعمل۔ شریف کی پہچان۔عالم بے عمل۔احسان کا بدلہ۔عاقل کا رویہ ‘‘جیسے موضوعات سے متعلق نکات پیش کیے۔’’دشمن کے پہچان ‘‘ اور’’عاقل کے رویہ‘‘ سے متعلق چند پُر حکمت نکات ملاحظہ ہوں:۔
’’تمہاری راحت کے وقت [جس پر]آثارکدور ت ظاہرہوں اورمصیبت کے وقت آثارمسرت۔اس کو دشمن جانو !‘‘
’’عاقل ہرطرح کی بات سنتا ہے مگراختیار اسی کو کرتا ہے جوان میں اچھی ہوتی ہے۔‘‘(۱۲ )
عبدالرحمٰن غور نے قرآن مجید کی آیات کا اردو ترجمہ کرکے اور حوالے دے کر نہ صرف بچوں اوربڑوں کی اخلاقی تربیت کی سعی کی ہے بلکہ اردوادب میں بھی اخلاقی پہلو کو ترقی دینے کی کوشش کی ہے۔تصنیف اس وقت کی کاوش ہے جب مملکت خداداد ،صرف آٹھ سال قبل اسلام کے نام پر حاصل کیاگیاتھا۔
( ۸ )موعود امم عالمی امن کا ضامن :
غلام قنبرعمرانی بلوچ نے ایرانی عالم : شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی کی فارسی تصنیف کا ’’موعود امم عالمی امن کا ضامن‘‘ کی صورت اردوترجمہ کرکے،۲۲ نومبر۲۰۰۵ء کو میاں والی،شریکۃ الحسین پبلی کیشنز،جامعہ السیدہ خدیجۃ الکبریٰ، پکی شاہ ،مردان سے ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی جو ۲۴۰ صفحات پرمحیط ہے۔مسلمان غیب ہستیوں اورغیبی مجردات: اﷲ تعالیٰ ،آمدامام مہدی ؑ ، آمدحضرت عیسیٰ ؑ ،قیامت ،جنت اورکوثرودیگر پر ایمان رکھتے ہیں۔تصنیف ظہورامام مہدیؑ کے حوالے سے نوشتہ ہے جودس فصول،۲۴ ابواب اور۲۹۳ذیلی عنوانات کی حامل ہے۔اس کے عنواناتِ فصول اورکچھ منتخب ذیلی عنوانات درج ذیل ہیں:۔نجات دہندہ بشریت: سایۂ خدا، دیدارِ امام مہدیؑ،حضرت امام مہدیؑ ودیگراقوام وادیان۔حضرت داؤدؑ کابیان،انجیل میں حضرت امام مہدیؑ کا تذکرہ،خلیفۃ اﷲ، زمین کا حجت خدا سے خالی نہ ہونا،حضرت امامِ زمانہ کی معرفت کے بارے مشہورحدیث۔مہدی اور مہدویت کے دعویٰ دار:ولادت امام مہدیؑ،جھوٹے مدعیان مہدی ؑ۔ غیبت: غیبت صغریٰ،امام زماں کی غیبت ،نواب اربعہ کی ذمہ داریاں، غیبت کبریٰ۔جزیرۃ الخضر (سبز جزیرہ):اقامت گاہ حضرت امام مہدیؑ ،جزیرہ خضراء کہاں ہے؟ وادی امن کی طرف سفر ۔ میل جول اور ملاقاتیں رابطے اور شرف:امام زماں کے ساتھ روابط لازم ہیں۔انفرادی ملاقاتیں،مکہ میں زیارتِ امام زماں،اجتماعی شرفِ زیارت۔امام زماں اور صالحین:حضرت امام مہدیؑ کی انبیاء ؑ سے مشابہت،قمیصِ جناب رسالت مآبﷺ،عمامہ جناب رسول اکرمؐ۔کامیاب جماعت ، اﷲ کے سپاہی امام کی خدمت میں،لشکرملائک ،لشکر جنات،زمین اور اس کے وارث۔آستان ظہور:اعلیٰ وارفع اعمال،زمانۂ ظہور،علامات ِظہورِامام،قرآن اور دنیا کی دیگر پیش گویاں،حضرت امام مہدیؑ کے ظہورکی تین اہم نشانیاں،دنیاکاظلم سے پر ہوجانا،مہذب اور تربیت یافتہ افراد کا پید اہونا،مصلح عالم کی آرزو ، آسمانی آوازیں،خروج حسنی،دجال اعظم کی خصوصیات،نفس ذکیہ کا قتل۔قیام سے نظام تک: آپ کی اطاعت کا عہد وپیمان ،بوقت قیام آپ کا خطبہ،اصحاب کا جمع ہونا ،بیعتِ حضرت امام مہدیؑ،برقراری عدالت، امام زماں مکہ میں،مقام ابراہیم کی منتقلی،مکہ کے لیے حاکم کا تقرر، حضرت امام مہدیؑ مدینہ میں،مدینہ سے کوفہ روانگی ،اہل کتاب سے معرکہ،معرکہ شہررملہ،اﷲ کی مدد، حضرت عیسیٰ کی آسمان سے آمد،حضرت امام زماں اور اصلاحات۔ آخری حکومت:امام زماں کی عالمی تحریک اور قیام ،امام زماں کی حکومت کے نام،حکومت کریمہ،حکومت الٰہی کا قیام ،عدل و انصاف سے زمین کا زندہ ہونا،ظلم وستم،شرک وکفر کاخاتمہ،امام زماں کی مدت حکومت،امام زماں کی طبعی موت۔ حکومت آل محمدؐ:آپ کی حکومت اورآپ کی اولاد کے خواص ، آپ کے بعد ائمہ ، رجعت،دنیا کاآخری انجام،صدائے موت ،صدائے زندگی۔
تصنیف بنیادی طورپرظہور امام مہدی ؑ ،ان کے عہد میں رونما ہونے والے واقعات تا قیامت، بہ روایات و استدلال پیش کردہ ہیں۔ یہ مستقبل کی نقشہ کشی اور استقبالیات کے امکانی احوال کا احاطہ کرتی ہے۔آغازتصنیف میں دو صفحاتی’’اظہاریہ‘‘نوشتہ از سیدافتخارحسین النقوی النجفی، پیش کردہ ہے جن کی ملاقات ۲۰۰۵ء میں قم میں صاحبِ کتاب کرمانیؔ سے ہوئی تھی۔کرمانیؔ کی خواہش تھی کہ ان کی تصنیف کا اردو ترجمہ ہو۔چناں چہ انہوں نے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ سید افتخارحسین النقوی کو ہدیہ کیاجسے غلام قنبر عمر انی نے اردو نثری ترجمہ کی صورت پیش کیا۔ تصنیف ایک امکانی، مذہبی پہلو پر، کسی حدتک اہل تشیع کے نقطہ نظرسے سیرحاصل معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس میں کئی عمومی واقعات،فارسی نظمیں اورا صطلاحات بھی پیش کردہ ہیں۔عربی عبارات کا ترجمہ دیاگیاہے ۔ اسلوب ترجمہ سادہ اورعام فہم ہے۔ ایک مترجمہ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’[ ۱ ] ۔اوتاد: اوتاد کامعنیٰ ہے کیل(میخیں)جس طر ح ہر خیمہ کی ایک عمود اور چار کیل ہوتے ہیں اورخیمہ کی رسیوں کو ان کیلوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔اسی طرح امام زماں ؑ مثل عمود خیمہ کے ہیں اورچارآدمی خدمت گار بہ طور کیل آپ کے حضور حاضر رہتے ہیں۔جنہیں اوتاد کہا جاتا ہے۔[۲]۔ابدال:یعنی متبادل سات آدمی ہیں جو کہ پوری دنیا میں امام زمان کی طرف سے مامور ہیں جو لوگوں کی مشکلیں حل کرتے ہیں۔‘‘(۱۳ )
( ۹ )ذکرشناسی،ذکرحق تعالیٰ :
پروفیسرمحمداقبال جسکانی نے حجۃ الاسلام علاؤالدین حجازی کی فارسی تصنیف کا’’ذکرشناسی ،ذکرحق تعالیٰ‘‘کی صورت اردوترجمہ کرکے۱۴۲۴ھ میں حسین ابن رَوح پبلی کیشنز،کراچی سے ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی جو۶۱صفحات پرمحیط ہے۔تصنیف باراول۱۴۱۹ھ میں انصاریان پبلی کیشنز قم المقدسہ ایران سے شائع ہوئی۔دس صفحاتی دیباچہ بعنوان:’’سرآغاز‘‘مترجمہ ہے ۔ ذکراﷲ اورخداشناسی کے ضمن میں معلومات متعدد عناوین کے تحت مترجمہ ہیں، جن میں:’’مراتبِ ذکر۔ ذکرِزبانی۔ذکرِقلبی۔ ذکرِعملی۔ ذکرکی پہچان۔ذکرکی حقیقت۔ذکرکے اوقات ۔ذکرِحق کی مداومت کے بارے میں اہل بیت کی وصیت۔نتیجہ وآثارذکر۔قرآن میں ذاکرین کاحُلیہ ۔ذکرکی آفت۔ ذکرکی فضیلت۔ذکرِحق سے روگردانی کاخطرہ‘‘ شامل ہیں۔تصنیف ،ذکرالٰہی کے طریقوں اورقرب الٰہی کے حصول کے طریقوں کو واضح کرتی ہے۔ترجمہ،سہل الفہم اور معیاری ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’اﷲ تعالیٰ کاذکراورپروردگارکی یاد،مومن انسان کی زندگی میں ایک حیاتی امرہے۔اورخداوندکریم وحکیم نے مومنین حق پرست کوہمیشہ اپنے ذکراوراپنی یادکاحکم دیاہے۔اﷲ تعالیٰ کافرمان ہے:فاذکرونی اذکرکم واشکر و لی ولاتکفرون۔سورہ بقرہ،آیت۱۵۲۔پس تم مجھے یادکرو تاکہ میں تمہیں یادکروں ۔ میری نعمتوں کاشکراداکرو اورکفران نعمت نہ کرو۔‘‘(۱۴ )
اردوکے اسلامیاتی اثاثہ میں:تصوف ا ورمعرفت الٰہی کے حوالے سے نوشتہ، ایک مفید تصنیف کااضافہ کیاگیا۔
( ۱۰ )احیائے دین میں آئمہ اہل بیت کا کردار،جلددوم :
عراقی عالم دین سیدمرتضیٰ عسکری کی تحقیق پرمبنی عربی تصنیف:’’اثرالائمہ فی احیائے دین‘‘کے فارسی ترجمہ ’’نقش آئمہ درا حیا ئے دین‘‘کوعلامہ محمدحسن جعفری نے ۲۰۰۴ء میں اردوترجمہ کرکے:ــــ’’احیائے دین میں آئمہ اہل بیت کا کردار،جلددوم‘‘کی صورت مجمع علمی اسلامی،کراچی سے شائع کرایا جو ۵۴۲ صفحات پرمبنی ہے۔تصنیف میں مقدمہ کے علاوہ ۳۰ ابواب اور۳۰۶ عنوانات کے تحت علمی اثاثہ پیش کردہ ہے۔تفصیل ابواب درج ذیل ہے :
’’عربوں کی اصل نسل۔قبل از اسلام مکہ اورمدینہ کے حالات۔سیرت نبویؐ کا ۳ھ تک اجمالی جائزہ۔خلافت راشدہ میں سنت رسولؐ۔مکتب خلفاء میں تدوین حدیث۔مکتب خلفاء میں اختلاف اورفرقہ بندی۔مکتب اہل بیت میں فکری اتحاد۔کتاب خدامیں مقام اہل بیت۔مکتب اہل بیت میں سر گزشت حدیث۔خلیفہ کے لغوی معنی۔مکتب خلفا ء میں امامت کا تصور۔ اثبات عموم اہل بیت کی روایات۔اثبات خلافت علیؓ کی روایت۔مسلمانوں پر اہل کتاب کے نظریات کے اثرات ۔مفہوم کی ادائیگی میں الفاظ کا کردار۔دونوں مکاتب فکر میں خداکی: ہئیت؛وجہ اﷲ؛عین اﷲ؛یداﷲ،خداکے ہاتھ پاؤں ساق؛عرش، کرسی؛مکان خدا ؛حجاب خدا؛دیدارخدا؛خداکی ہم نشینی کا مفہوم۔عقیدہ توحید کی حیات نو۔قرآن قدیم ہے یا مخلوق؟۔انسان مجبورہے یامختار؟۔انسان کی سعادت اورشقاوت ۔ الفاظ ومعانی سے آشنائی۔چند ضروری اصطلاحات۔امام علی ؓخلافت ثلاثہ ہیں۔امام علیؓ اپنی خلافت میں۔امام علی ؓکی اپنی حکومت میں اسلامی خدمات۔ ‘‘
ایک خاص زاویہ نظر سے نوشتہ تصنیف میں اہل تشیع اور دیگر مسالکی اختلافی امور کی تفصیل وتقابل وموازنہ ؛ عرب کی اسلامی تاریخ،ثقافت، معاشرت، معیشت ،رسول خداؐ ،خلفائے راشدین ،ان کی خلافت ، کشمکش اوراہل بیت کے بابت علم و دانش کا ایک غیرمعمولی ذخیرہ ٔمعلومات مباحث کی صورت فراہم کردہ ہے۔فروعی اختلاف میں:مصنف کے نزدیک حضرت علیؓ کو خلیفہ اول نہ بنانے سے ان کی حق تلفی ہوئی ۔ فقہی مباحث بالحوالہ ہیں۔تحقیقی اسلوب میں نوشتہ تصنیف میں اسناد کے حوالہ جات پائین صفحہ پیش کردہ ہیں۔تصنیف کے آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولادتا امام حسین ؓ، اموی و عباسی فرماں رواؤں کا شجرہ نسب پیش کردہ ہے۔قرآنی آیات ،احادیث و عربی عبارات کا اردو ترجمہ کیاگیا۔فکری حوالے سے بین الاقوامی معیارکی حامل اس تصنیف کے ترجمہ کا اسلوب نگارش سہل، عام فہم اورطبع زادمعلوم ہوتاہے۔مندرجات تصنیف سے دواقتباسات ملاحظہ ہوں :
( ۱ )’’عرب معاشرے میں معاہدہ کسی سٹامپ پرلکھناضروری نہ تھے۔وہ لوگ زبان کے بڑے پکے تھے اورزبانی قول وقرار کو نہایت اہمیت دیتے تھے۔ اگرقبیلے کا کوئی شخص وعدہ کرتا تو پوراقبیلہ اس وعدے کی پابندی کرتا۔‘‘(۱۵ )
( ۲ )’’حضرت ابوبکرؓ وفات رسولؐ کے بعد ربیع الاول۱۱ھ میں خلیفہ بنے۔اورجمادی الثانی ۱۳ھ کو ان کی وفات ہوئی ۔...حضرت ابوبکرؓ قریش کی حمایت سے برسر اقتدارآئے مگربنی ہاشم نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔...قبائل انصار کے کچھ افراد اوربیرون مدینہ کچھ عرب قبائل بھی آپ کے مخالفین میں شامل تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے والے قریشی مہاجرتھے۔وہ یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ کا تعلق بنی ہاشم کے علاوہ قریش کی کسی شاخ سے ہو۔...مہاجرین نے انصار سے کہاتھا :رسول اکرمؐ کاتعلق قریش سے تھا اورعرب اس بات پرراضی نہیں ہوں گے کہ ان کا خلیفہ قریش کے علاوہ کسی اورقبیلے سے ہو۔سقیفہ میں ابوبکرؓ،عمرؓ اورابوعبیدہؓ خلافت کے لیے قریش کے امیدوارتھے۔سقیفہ کے اجلاس میں امام علیؓ اورعباسؓ کانام نہیں لیاگیا۔ابوبکرؓ کو قریشی ہونے کی بناپر منتخب کیاگیا ۔‘‘ (۱۶ )
( ۱۱ )پندِتاریخ، ۱ :
مولانامحمدحسن جعفری نے۲۰۰۰ء ؟میں،ایرانی عالم موسیٰ خسروی کی اخلاقی کہانیوں کی حامل فارسی تصنیف کو پندِتاریخ، ۱،کی صورت اردوترجمہ کرکے ،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ کھارادرکراچی سے شائع کرایا جو۲۴۸ صفحات پرمحیط ہے۔اس کی دیگرچارجلدیں بھی اسی ادارے کی شائع کردہ ہیں۔ تصنیف دس ابواب :خداپرستی اورایمان۔ریاکفروشرک کی مخفی صورت۔اطاعت انبیاء کا نتیجہ ۔ اطاعت والدین۔صلہ رحمی۔احترام سادات۔کم زوروں اور یتیموں پرشفقت۔حقوق العباد۔امانت کی حفاظت۔جھوٹ کے نقصانات،کی حامل ہے۔انہی ابواب کے تحت۱۴۳سبق آموزواقعات ا ورکہانیاں بیان کی گئی ہیں ۔ آغاز تصنیف میں دوصفحاتی پیش گفتارمترجم کا نوشتہ ہے ۔ جہاں وہ اس تصنیف کی اہمیت کے بابت لکھتے ہیں کہ :
’’کردار سازی کے لیے اردو میں ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں تاریخی واقعات بہ کثرت موجود ہوں۔ اور اخلاقیات کے مسائل کو تاریخی واقعات کے ذریعہ سے بیان کیا جائے۔...اس سلسلہ میں ...علامہ موسیٰ خسروی کی کتاب پندتاریخ اپنی مثال آپ ہے۔یہ کتاب پانچ جلدوں پرمشتمل ہے اورہرجلدمیں دس باب ہیں۔ ہرباب میں ضرورت کے تحت اچھے خاصے واقعات ہیں۔اورباب کا خاتمہ متعلقہ موضوع کی حدیث سے کیا گیا ہے۔...اس کتاب نے برادر ملک ایران میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑدیے۔اورچندسالوں میں اس کے چودہ ایڈیشن شائع ہوئے اور ہر ایڈیشن پانچ ہزارسے کم نہیں تھا۔اردو خوان طبقہ کے لیے میں نے اس کتاب کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔‘‘(۱۷ )
تصنیف میں شامل چندمنتخب واقعات و کہانیوں کے عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’انسانی اضطراربھی دلیل خداہے۔خداشناس بچہ۔خداشناس بڑھیا۔بہلولؒ اورامام ابوحنیفہؒ۔بت پرست کا انجام۔ شداد اوراس کی جنت۔بینااورنابینا۔ جنت میں مومن کے گھرکاحدوداربعہ۔ اگر لوگ اﷲ کی اطاعت کرتے تودرندے ان کے مطیع ہوتے۔جب شیربھیڑوں کا رکھوالابنا۔ والدین کا خدمت گذارہم نشین انبیاء۔والدین کا ناراضگی موت کو دشواربنادیتی ہے۔اطاعت والدین اور وسعت رزق۔اویس قرنیؓ اوروالدہ کی اطاعت۔پیغمبر اسلام اورصلہ رحمی۔رشتہ داروں سے مت جھگڑو۔سادات کے ساتھ بھلائی۔اسلام غریب کو بڑی اہمیت دیتاہے۔ضرورت مند کی مدد درخواست سے پہلے کرنی چاہیے۔یتیم پروری کاثمر۔ہارون الرشیداوربہلول۔بہلول کی جرأت و بے باکی۔شیخ ابی عثمان کی امانت داری۔ابراہیم ادہم کی باغبانی۔جھوٹا خوشامدی ۔ خوشامدکمینگی کی علامت ہے۔ ‘‘
اسلامی تاریخی واقعات وکہانیوں اورحکایات اخلاقیہ کواردو میں ترجمہ کرکے انسانی طرزِ حیات بدلنے کافکری اثاثہ فراہم کیا گیاہے۔جن کتب سے کہانیاں لے کرتصنیف میں شامل کی ہیں ان کا حوالہ پائین صفحہ بطورحاشیہ پیش کردہ ہے۔ حکایات کے ترجمہ پراصل کا گمان ہوتا ہے۔ ایک حکایت ’’شداداوراس کی جنت‘‘ ملاحظہ ہو :
’’شدادکے دورحکومت میں حضرت ہود علیہ السلام نبی تھے۔اورآپ ہمیشہ شداد کوایمان کی دعوت دیتے تھے۔ایک دن شدادنے پوچھا،اگر میں تمہارے کہنے پر خداپرایمان لے آؤں توتمہاراخدامجھے اس کاکیا بدلہ دے گا؟ہود علیہ السلام نے فرمایا،اﷲ تعالیٰ تجھے جنت دے گاجس میں توہمیشہ کی زندگی بسر کرے گا۔ شداد نے ہود علیہ السلام سے جنت کے اوصاف دریافت کیے تو انہوں نے جنت کی خصوصیات بیان فرمائیں۔یہ سن کرشداد نے کہا۔مجھے اﷲ کے جنت کی کوئی ضرورت نہیں ہے،ایسی جنت میں خود ہی تعمیر کراؤں گا۔‘‘(۱۸ )
( ۱۲ )پندِتاریخ، ۲ :
مولانامحمدحسن جعفری نے ۲۰۰۲ء؟ میں ۲۵۵ صفحات پرمشتمل، پندِتاریخ،۲، اردوترجمہ کی صورت شائع کرائی جو دس ابواب :تواضع۔تکبروخودپسندی کی مذمت۔حلم وبردباری۔سعی وعمل ۔ عزتِ نفس۔لمبی آرزوئیں۔ظلم وستم۔عدل وانصاف۔مذمت انصاف اورسخت گزرانی۔ مذمت حُب دنیا،کی حامل ہے۔تصنیف میں ایسے مختلف الزاویہ موضوعات قائم کیے گئے جن پرعمل کرکے یاانہیں ترک کرکے سفرِحیات کو مثبت بنایاجاسکتاہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار مستحکم کیے جاسکتے ہیں۔تاہم پیش کردہ متعدد کہانیاں سطحی نوعیت کی بھی نظرآتی ہیں جن سے معیارتصنیف متاثر نظرآتاہے۔اس کے آغازمیں مترجم کا چار صفحاتی’’مقدمہ‘‘پیش کردہ ہے۔تصنیف میں ۱۱۲ مترجمہ واقعاتی کہانیاں پیش کرکے اردو دفترِ حکایت کو ثروت مند بنایا گیا۔چندمنتخبہ کہانیوں کے عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’صفوان بن یحیٰ کی وعدہ وفائی۔وعدہ وفائی دلیل جواں مردی۔سمرہ بن جندب کا ہمسائے سے سلوک۔صحرانشین کی مہمان نوازی۔مہمان کا احترام ہر شخص پر واجب ہے۔فتح مکہ پر آپ ﷺ کا درگذر۔حرص سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا ۔حضرت عیسیٰ ؑاورمرد حریص۔حاسدکاانجام۔دنیامیں پہلا قتل حسد کی وجہ سے ہوا۔صبروتحمل کامیابی کی کلید ہے۔صحرائی خاتون کاصبر۔ بدخلقی فشارقبر کا سبب ہے۔نفس امارہ کی شکست۔ ‘‘
کہانی: ’’صحرانشین کی مہمان نوازی ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
‘‘قیس بن سعدبن عبادہ عرب کامشہورمہمان نواز تھا۔کسی نے اس سے پوچھاکہ تم نے اپنے سے بڑاکوئی مہمان نواز دیکھاہے؟اس نے کہاجی ہاں!ہم ایک صحرا نشین کے مہمان ہوئے...ہمیں بارش کی وجہ سے چندروز وہاں ٹھہرنا پڑا تووہ شخص روزانہ ہمارے لیے ایک اونٹ نحرکرتا رہا۔ہم روانہ ہوئے تو اتفاق سے ہمارا میزبان موجودنہیں تھا ۔ہم نے اس کی بیوی کو سودیناردیے اورکہا کہ ہماری طرف سے یہ معمولی ساہدیہ ہے۔ہم رقم دے کرروانہ ہوئے تو اس وقت صبح صادق کا وقت تھا۔جیسے ہی سورج طلوع ہواتوہم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر ہمارے تعاقب میں آرہاہے۔ اور اس کے ہاتھ میں نیزہ ہے۔اوروہ مسلسل ہمیں آوازیں دے رہاہے۔...وہ قریب آیاتوہمارامیزبان تھا ۔ اس نے کہا کہ...آپ اپنی رقم واپس لے لیں۔ہم روٹی بیچانہیں کرتے۔اوراگرتم نے پس وپیش کی تو میں اس نیزہ کے ساتھ تم سے جنگ کروں گا۔چناں چہ ہم نے مجبوراًرقم واپس لے لی۔(مستظرف)‘‘(۱۹ )
( ۱۳ )پندِتاریخ، ۳ :
مولانامحمدحسن جعفری نے ۲۰۰۰ء؟ میں ۲۶۴ صفحات پرمشتمل، پندِتاریخ،۳، اردوترجمہ کی صورت شائع کرائی ۔یہ انہُی دس موضوعات کی حامل ہے جو پند تاریخ دوم میں قائم کیے گئے ہیں ۔ اس میں۱۲۴سبق آموزواقعاتی کہانیاں بیان کی گئیں جن میں سے چندمنتخبہ کہانیوں کے عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ نے اپنے لیے کیسالباس پسندکیا؟ ۔ایازاپنی حیثیت کو پہچان۔ خسروپرویزتکبرکی وجہ سے ہلاک ہوا ۔ رحمت اللعالمینﷺ کی بردباری۔زیادہ اجرت زیادہ کام کے بغیر نہیں ملتی۔جنت فضل سے ملتی ہے یا عدل سے؟ شاہی کی قیمت۔دیانت داری کی داستان۔ شاعرِ آل محمدکمیت کی بلندہمتی۔محدودعمراورلامحدود آرزوئیں۔حضرت عیسیٰ ؑ کا خزانہ۔ زندگی کی بہاریں آرزوسے قائم ہیں۔جیسے عمل ویسے حاکم۔مکافات عمل سے غافل نہ رہو ۔ مظلومین کی داد رسی۔مظلوم کی صداسے سلطان بے چین ہوگیا۔سلطان جلال الدولہ اورمظلوم کسان۔پانی کا ضیاع بھی اسراف ہے۔ خوراک میں اسراف مرض کا سبب ہے۔خداکومیانہ روی پسندہے۔چیونٹی نے حضرت سلیمانؑ سے کیا کہا؟حُب دنیا کا انجام۔ ‘‘
اردو ترجمہ معیاری ہے ۔ایک مختصر حکایتی کہانی ’’بہلولؒ نے قصر سلطانی کی دیوارپر کیا لکھا؟‘‘ملاحظہ ہو :
’’ایک مرتبہ ہارون الرشید اپنے زیرتعمیرمحل کامعائنہ کرنے گیا۔راستے میں بہلول ؒسے ملاقات ہوگئی۔ہارون نے انہیں اپنا محل دکھایا اور پھر ان سے فرمائش کی کہ کوئی خوب صورت جملہ محل کی بیرونی دیوار پر تحریر کرے۔بہلول نے کوئلہ اٹھاکرقصرسلطانی کی بیرونی دیوارپریہ عبارت تحریر کی:رفع الطین علی الطین و وضع الدین۔مٹی پر مٹی کو بلند کیا گیا اوردین کو خواروپست کردیا گیا۔پھربہلولؒ نے ہارون سے کہا،تونے یہ محل اگراپنی حلال دولت سے تعمیر کرایا تو یہ اسراف ہے اوراﷲ کا فرمان ہے،واﷲ لا یُحب المسرفین...اوراگریہ محل لوگوں کی مال سے تعمیر کرایاتو یہ خیانت ہے ۔‘‘(۲۰ )
( ۱۴ )پندِتاریخ،۴ :
مولانامحمدحسن جعفری نے ۲۰۰۰ء میں ۲۳۰ صفحات پرمشتمل، پندِتاریخ،۴، اردوترجمہ کی صورت شائع کرائی جو نوابواب :سخاوت وفیاضی۔مذمت بخل۔ظالموں کی معاونت۔صدقہ وانفاق ۔دعاو توسل ۔ غازیان دین کی جھلک ۔امیدوخوف۔توبہ استغفار،کی حامل ہے۔ان ابواب کے تحت۱۲۶ واقعاتی کہانیاں پیش کردہ ہیں جن میں سے چندکے عنوانات درج ذیل ہیں : ۔
’’دعبل کی صورت سیاہ کیوں ہوئی؟صفوی حکومت کاآفتاب کیوں غروب ہوا؟ایرج مرزاکی نظم۔ باہمی تعاون وایثار ۔ مدینہ کے مشہوراستخسیا ۔حضرت موسیٰ ؑ نے سامری کوقتل کیوں نہ کیا؟بخیل سے ہر شخص ناخوش رہتا ہے۔بخیل سے سخاوت ناممکن ہے۔بخل قارون کی تباہی کا موجب۔ ظالموں کی دوستی سے بیماری ہی بھلی۔صدقہ سے مال کی حفاظت کریں۔ صدقہ سے رزق میں اضافہ کریں۔ سوال نہ کرنا شرط ِجنت ہے۔دعاکے لیے صفائے دل کی ضرورت ہے۔خدانے فرعون کی دعابھی قبول فرمائی۔آخری وقت تک نصرت حق کرنے والے۔زبدہ کا ریگستان اور حضرت ابوذر غفاریؓ کا وقتِ آخر۔خوفِ خدا گناہوں سے بچاتاہے۔رحمتِ خداوندی کی وسعت۔توبہ سے خداخوش ہوتا ہے۔توبہ کے لیے تاخیر نہ کریں۔ ‘‘
تصنیف میں کچھ واقعات ایک خاص زاویہ نظر سے پیش کردہ ہیں جن سے اس کی ہمہ جہت مقبولیت متاثر ہوتی ہے۔ترجمہ سادہ اندازمیں پیش کردہ ہے۔ایک اقتبا س ملاحظہ ہو:۔
’’یمن سے چندافرادجناب رسولِ خداﷺ کے پاس آئے۔ان میں ایک شخص...حضورکریمؐ سے لایعنی بحث کرنے لگا۔...ناراضگی کے آثار آپؐ کی پیشانی سے ظاہر ہونے لگے۔...آپؐ نے سر جھکاکر زمین کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ اسی اثنا میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور عرض کی:یارسول اﷲؐ! آپ کا پروردگارآپ کو سلام کہتاہے اور فرماتا ہے’’ھٰذا رجل سخی یطعم الطعام‘‘یہ سخی شخص ہے،یہ لوگوں کو کھانا کھلاتاہے۔‘‘یہ پیغام سنتے ہی پیغمبر اکرم ؐ کاغصہ ختم ہو گیا۔‘‘(۲۱ )
( ۱۵ )پندِتاریخ،۵ :
مولانامحمدحسن جعفری نے ۲۰۰۰ء میں ۲۳۵ صفحات پرمشتمل، پندِتاریخ،۵، اردوترجمہ کی صورت شائع کرائی جو نو ابواب :امربالمعروف،نہی عن المنکر۔فضائل علم وعالم با عمل۔محبتِ اہلِ بیت واعدائے اہلِ بیت۔دین میں استقامت۔چغل خوری اورغیبت۔توکل و تسلیم۔اخلاصِ عمل۔ دینی فرائض کی اہمیت۔زہدو پارسائی کی حامل ہے جن کے تحت۱۲۷ واقعاتی کہانیاں پیش کردہ ہیں ۔ کہانیوں کے کچھ چیدہ عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’قرآنی داستانِ یوم سبت۔تبلیغ کے لیے معروف ومنکر کا علم ہوناچاہیے۔نظم ِپروین اعتصامی ۔ اولوالعزم نبی ؑخدمتِ استاد میں۔دینی طلباء کو با کردارہونا چاہیے۔ دشمنوں سے حسنِ سلوک۔ استقامتِ بلالؓ۔شعبِ ابی طالب۔جنگ ِاحد میں استقامت دکھانے والے۔چغل خورکا انجام ۔ یقینِ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ۔ توکل کرنے والاکبھی نہیں بھٹکتا۔اجر بقدرِ خلوص۔حضرت بہلول اورزبیدہ خاتون۔حضورِقلب سے دورکعت نماز ۔بے نمازی کس کے پیروہیں؟ عبادت کے لیے وقت کو غنیمت جانیں۔رہبانیت اور تصوف۔رابعہ بصری کی کرامت۔ ‘‘
مترجمہ تصنیف میں اخلاقی تربیت کے حوالے سے سبق آموزبے نظیر حکایات پیش کرنے کے ساتھ چند ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن کی اعتباریت محل نظر ہے نیزفکری طورپر کئی کہانیوں کا میلان مائل بہ نظریات اہل تشیع نظرآتاہے۔تصنیف کی تدوین میں۱۲۰کتب سے مددلی گئی۔ اردو ترجمہ سہل اوربلاتکلف ہے ۔کہانی ’’اخلاص کی تاثیر ہمیشہ قائم رہتی ہے‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:۔
’’جب آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو زمین پررہنے والے مختلف حیوانات ان کی زیارت اورسلام کے لیے حاضر ہوئے۔آپ نے آنے والے جانوروں کو ان کی حیثیت کے مطابق دعا عطافرمائی۔ہرنوں کا ایک دستہ آدمؑ کے سلام کے لیے ان کے پاس آیا،حضرت آدمؑ نے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اوران کے حق میں دعافرمائی،جس کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ نے انہیں نافہ مشک عطافرمایا۔جب یہ ہرن...اپنی قوم میں گئے تودوسرے ہرنوں نے کہا...یہ خوش بو کہاں سے لائے ہو؟ہرنوں نے کہا:’’ہم آدم صفی اﷲ کی زیارت اورسلام کے لیے گئے تھے انہوں نے...ہمارے حق میں دعافرمائی، اﷲ تعالیٰ نے ہمیں نافہ مشک کا حامل بنادیا۔‘‘(۲۲ )
( ۱۶ )تصوف اورتشیع کافرق :
علامہ محمدحسن جعفری بلوچ نے علامہ سید ہاشم معروف الحسنی لبنانی کی عربی تصنیف موسومہ :’’بین التصوف والتشیع‘‘ کا’’ تصوف اورتشیع کافرق ‘‘کی صورت،، اردو ترجمہ کرکے ۲۰۰۸ء میں،مجمع علمی اسلامی کراچی سے شائع کرائی جو ۵۲۸ صفحات پرمحیط ہے۔اس کے آغاز میں تین صفحاتی ’’ابتدائیہ‘‘نوشتہ ازرضا حسین رضوانی اور تین صفحاتی ’’ پیش لفظ‘‘نوشتہ ازمصنف ،پیش کردہ ہیں۔تصنیف ۷۴ عنوانات کی حامل ہے جس میں:مسلک تشیع کی تاریخ و اصول ،تاریخِ تصوف ،تصوف وتشیع میں فرق،اصطلاحات ِتصوف ،مشہورصوفیہ کاتذکرہ، افکار وعقائد، کرامات ،شِطحیات بیان کردہ ہیں۔ بنیادی طور پریہ بغدادیونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹرکامل مصطفیٰ شیبی کی تصنیف: ’’الصلۃ بین التصوف والتشیع‘‘کے رد میں بہ طوردفاع لکھی گئی جہاں ڈاکٹر شیبی نے تصوف کو اہل تشیع کی فکر کا پروردہ قرار دیا ۔ اس کے کچھ چیدہ عنوانات درج ذیل ہیں :۔
’’ سبب تالیف۔کیاتشیع :سبائی فتنہ ہے؟ خوارج کے ظہور کا ردعمل ہے؟ شہادت حسینؓ کا ردعمل ہے؟ ۔تصوف اورتشیع میں فرق۔تجسیم۔ حلول۔ اتحاد۔ وحدت الوجود۔نبوت۔امامت شیعوں کی نظرمیں ۔شیعہ اورصوفیہ کی نظرمیں عصمت کا مقام۔شفاعت:اسلام اورصوفیہ کی نظر میں۔تقیہ اورفرقہ ملامتیہ ۔کرامات اہل بیت اورکرامات اولیائے صوفیہ ۔ غلات ۔حقیقت تصوف اوراس کی تعریفات۔ تصوف پر:یونانی،ہندومت،بدھ مت،چینی فلسفہ کے اثرات۔حقیقت محمدیہ۔ صوفیہ کے ہاں نبوت اورولایت کا نظریہ۔ نظام کائنات صوفیہ کی نظرمیں۔غالی صوفیہ کی نظر میں جنت ودوزخ کا تصور ۔ کرامت۔علم وعمل،جہاد صوفیہ کی نظرمیں ۔ اصطلاحات صوفیہ:جمع تفریق،فنا وبقا،قبض وکشاد، خلوت،غیاب وحضور، تلوین وتمکین،تجریدوتفرید،جواں مردی،مرید وشیخ۔اولیں صوفی اقطاب: عبدالواحد بن زید،ابراہیم بن ابوادہم ، ذوالنون مصری،شفیق بلخی، بشر حافی،عسکربن حسین،معروف کرخی،حاتم الاصم،ابوحمزہ خراسانی،ابوبکرشبلی،سری سقطی، جنیدبغدادی، سمنون بن عمر، بایزید بسطامی ، سہل بن عبداﷲ تستری ،محمدبن خفیف شیرازی،منصورحلاج،ابن عربی، عبدالکریم جِیلی۔صوفی طریقے اورسلسلے۔تصوف کے متعلق ائمہ اہل بیت اورعلمائے شیعہ کے نظریات۔ ‘‘
تصنیف کے مندرجات کا خلاصہ یہ ہے کہ:بہ قول :ڈاکٹر شیبی، مسلک تشیع، تین مراحل سے گذرا ۔اس کا پہلا مرحلہ ظہوراسلام سے متصل ہے۔ حضرت علیؓ ’’جوہراِسلام‘‘ کی نمائدگی کرتے تھے۔اورسابقون الاولون کی ایک جماعت ان کی پیروی کرتی تھی۔ان میں سلمان فارسیؓ ، ابوذر غفاریؓ اورعماربن یاسرؓ سر فہرست تھے۔یہ لوگ حضرت علیؓ سے محبت کرتے تھے۔ان لوگوں کا تشیع صرف اسی حدتک تھا۔تشیع کا دوسرامرحلہ ایک سیاسی تحریک کی صورت میں اس وقت شروع ہوا جب حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ بنے اورجمل وصفین کی خون ریزجنگیں ہوئیں۔تیسرامرحلہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد شروع ہوا اوراسی مرحلے میں شیعیت کے عقائدمکمل ہوئے۔حضرت علیؓ کے دور میں ان کے حمایتی اگرچہ شیعہ تھے مگران کا تشیع وہ نہیں تھا جو بعد کے شیعہ فقہا اورمتکلمین کے ہاں پایا جاتا ہے۔عصمت،رجعت ، بداء ،تقیہ ،مسلک شیعہ کے اصول ہیں۔ابتدائی لوگ ان اصطلاحات سے نامانوس تھے۔تصوف کوتشیع کی وجہ سے فروغ ملا۔
اس کے برعکس ،علامہ سیدہاشم معروف حسنی کے نزدیک: تشیع روزاول سے اسلام کا جزو رہی ہے۔اس کی ابتدا آیتِ اندازکے وقت سے ہوئی جب آنحضرت ؐ نے بنی عبدالمطلب کو کھانے پربلایااورفرمایا :تم میں سے کون ہے جو اس دعوت میں میری مدد کرے؟...اس اعلان پر حضرت علیؓ کے سواکسی نے لبیک نہ کہی۔آپ نے فرمایا:انت ا خی و وصی وخلیفتی فیکم فا سمعوا لہ واطیعو۔یہ میرا بھائی،میراوارث،میراوصی اورتمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے۔تم لوگ اس کی بات سنو اوراس کی اطاعت کرو۔اس کے باوصف مسلمان اپنی تاریخ کے آغاز میں مسئلہ امامت پر اختلاف کا شکار ہوئے۔اہل تسنن اوراہل تشیع کے عقائد :توحید،تنزیہ خداوندی ، عدل،نبوت،معاد، ثواب و عقاب میں کوئی فرق نہیں ۔نماز ،روزہ،زکوٰۃ،حج اورجہاد کے بارے میں ان کے نظریات میں کوئی تصادم نہیں۔حقائق قران وسنت کے بارے میں بھی اختلاف نہیں۔تاہم اسلام کے بنیادی موضوعات کی تشریح کے ضمن میں اختلاف ہے ۔لیکن ان اختلافات سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ۔خارج از اسلام کوئی اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان عقائد کا انکار کرے۔اہل تشیع کے نزدیک ازروئے شرع امام کا تقررخداپر واجب ہے جب کہ اشاعرہ کے نزدیک امام کا نصب واجب نہیں ۔عبداﷲ بن سبا جسے مسلک شیعہ کا بانی کہا جاتاہے ،اس نے حضرت علیؓ کی ولایت ،وصایت اورپیغمبرؐ کی رجعت کا عقیدہ پیش کیا،تاریخ میں ایک فرضی کردار ہے۔یہ کہانی سیف بن عمر تمیمی نے دوسری صدی ہجری میں گھڑی ۔حضرت عمار یاسرؓ جوحضرت علیؓ کے طرف دارتھے، کے نام کوچھپانے کے لیے انہیں، عہدِخلافتِ حضرت عثمان ؓ نیز دور ِبنی امیہ میں بہ طوراستعارہ ،عبداﷲ بن سبا(اﷲ کا بندہ ۔سبا کا بیٹا، اشارتاً یمن کی ملکہ سبا کے وطن کا رہنے والا؛ اپنے جد سبا کا خلف) یاابن سودا(سیاہ فام کا فرزند) کہاجاتارہا۔شیعیت میں تجسیم وتشبیہ ِخداکی نفی ہے ۔تصوف،ظہور تشیع سے قبل کی سوچ ہے جس کاوجود دوہزارسات سوسال قبل چینی فلسفہ میں ملتا ہے جہاں کنفیوشس کے ہم عصرچینی صوفی ’’لی آرہ‘‘یا لاؤ ٹسے (Lao Tzu/ lao Tse)نے صوفیانہ نظریات پیش کیے۔ اس نے دنیا سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دریائے زردکو عبورکرکے لاتعلق ہونے کی کوشش کی ۔ آخری سرحد پر اسے روک کرایک کتاب لکھنے کاکہاگیا ۔ اس نے دو الفاظ ’’ٹاؤ (Tao/Dao)‘‘ اور’’ٹی (Te/De)‘‘پر کتاب نیز پانچ ہزارالفاظ پر ان کی شرح لکھی۔’’ٹاؤ ‘‘سے مراد راستہ اور اور’’ٹی‘‘ سے مراددروازہ ہے۔اس کے نزدیک :ٹاؤکے حصول کے لیے بشری خواہشات ،جسمانی ضروریات اوراپنی ذات کی شعور سے آزاد ہونا چاہیے۔باطن کی صفائی،روشن ضمیری اورنیکی کرنا انسان کی فطرت ثانیہ بن جائے ۔اس سے نفس کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اورروح ٹاؤ کا مفہوم جاننے کے قابل ہو جاتاہے۔تب جاکرٹاؤ سے اتصال ہوتا ہے اورذات حق کی تجلی ہوتی ہے۔ یہی لفظ تصوف کی بنیاد بن گیا۔ اسلامی تصوف اور چینی ٹاؤزم میں مشابہت ہے۔ خراسان،سبزوار،شیراز،بلخ،نیشاپور ،ماورالنہر کے لوگوں کا چین سے رابطہ رہا۔ جب یہ مسلمان ہوئے توان میں سابقہ مذاہب کے اکابر عالم موجود تھے۔برامکہ کا تعلق ماورالنہر سے تھا جو قبل از اسلام مجوسی تھے۔ان نومسلم شیوخ نے اپنے سابقہ مذہبی افکار ِتصوف مسلمانوں سے متعارف کرائے ۔ہندوستان میں برہمن تصوف اوربدھ تصوف حضرت عیسیٰ ؑ سے قبل موجود تھے۔ایران میں مانویت اورزرتشتی تصورات ِتصوف موجودتھے۔ مسلمانوں پرتصوف کے اثرات اس وقت مرتب ہوئے جب عہدبنو عباس میں نئے مباحث کا آغاز ہوا۔ خلیفہ منصور نے ۱۴۸ھ میں جندی شاہ پور مدرسے میں نصرانی عالم جریس بن بختیشوعکو سربراہ مقررکیا جس نے یونانی کتب کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا۔ شام اور فارس کے نسطوری عیسائیوں نے ارسطو کی تعلیمات عام کیں ۔حران کے عیسائیوں نے یونانی فلسفہ کی کتب کا عربی ترجمہ کیا۔یوں عربوں میں نو فلاطونیت تصوف کی تعلیم متعارف ہوئی۔ افلاطون کے مطابق:عقل کے ذریعے معرفتِ خدا محال ہے۔اس کے لیے بے خودی،غورفکر،اوراد،مجاہدات اور فنا ضروری ہیں۔ نو فلاطونیت سے ابن عربی اورالجیلی جیسے صوفیہ متاثر ہوئے۔ یہ اثرات حلاج اوربسطامی پر پڑے۔انہی بیرونی درآمدکردہ معجون نما نظریا ت : حلول ، اتحاد ، تناسخ، سے اسلامی تصوف کی بنیادپڑی۔ ماسینیون (Massignon) کے مطابق، لفظ ’’صوفی‘‘ دوسری صدی ہجری کے وسط میں سامنے آیا۔اولیں بار جابربن حیان اورابوہاشم کوفی کو اسی لفظ سے موسوم کیا گیا۔ صوفیہ شعبدہ باز تھے۔ یہ غلات میں انبیاء جیسے کرامات بیان کرتے ۔کئی صوفیوں نے اپنی کرامات میں انبیاء سے برتری کا دعویٰ کیا ۔انہوں نے بے فائدہ مشکل اصطلاحاتِ تصوف تراشیں،جیسے: صوفی،حال،وجد،صحو،سکر، رضا،رجا،زہد،خوف،توکل ،کرامات ، استدراج،باطنیہ ،تقمص، نسخ،فسخ ،رسخ، تناسخ (آواگون)، لطف، حلول،مکاشفہ، لوائح،طوالع،لوامع، تجلی، شریعت، حقیقت وغیرہ ۔صوفیہ اکتسابی علم کے خلاف تھے اور اسے حجاب بتاتے جب کہ غیبی علم کے قائل تھے۔ ان کے اراکین تصوف :گرسنگی،بیداری،کم گوئی،مردم دوری تھے ۔ جنید کے استادابوجعفرحداد، ابوسعیدخزاز اور ابراہیم بن ادہم جیسے صوفی ، امراء کے دروازوں پربھیک مانگتے اوراسے ریاضت روح بتاتے ۔ تصوف مسلک تشیع کی پروردہ نہیں بل کہ بیش تر صوفیہ کا تعلق اہل تسنن سے ہے ۔
تصوف کے بارے میں جنیدبغدادیؒ کا ارشادگرامی ہے کہ:التصوفُ ان تکونَ مع اﷲِ تعالیٰ بلا علاقِۃٍ۔ تصوف یہ ہے کہ تو کسی تعلق کے بغیر خداکے ساتھ ہوجائے۔صوفیہ کے بارے میں مصنف کے افکاران کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔چند مقامات پرعامیانہ عبارات بھی اس کی علمی وقارکے آب وتاب کو ماند کرتے ہیں ۔ قطع نظر ان کے، تصنیف: تحقیقی، استدلالی،معلوماتی ،فکری حوالہ سے بلندپایہ ،پائیداراورعالمی وسعت نظرکی حامل ہے۔ یہ۴۸ کتب کی مدد سے مرتب کی گئی ۔ حواشی، رضا حسین رضوانی کے نوشتہ ہیں ۔مذہبی تحقیق وتنقید کی حامل اس غیر معمولی تصنیف کاترجمہ عالمانہ ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’شبلیؒ اٹھتے بیٹھتے اﷲ اﷲ کرتے رہتے تھے۔ایک نوجوان نے ان سے کہا:یا شیخ!آپ ہر وقت اﷲ کرتے رہتے ہیں ۔ اس کی بہ جائے لا الہ الا اﷲ کا ورد کیوں نہیں کرتے؟شبلی ؒنے کہا:مجھے نفی ذات کے بعد اثبات بیان کرتے ہوئے حیا آتی ہے۔جوان نے کہا: کچھ مزید وضاحت فرمائیں۔شبلی ؒنے کہاکہ لا الہ الا اﷲ میں لاالہ کلمہ نفی ہے اورالااﷲ اثبات ہے اورمجھے یہ ڈر ہے کہ میں کلمہ نفی کہتے ہوئے نہ مرجاؤں اوراثبات تک ہی نہ پہنچ سکوں۔ ‘‘(۲۳ )
( ۱۷ )تفسیر سورۂ حجرات :
مولانا محمدحسین جعفری نے ۵۴۴ صفحات پرمشتمل ،تفسیر سورۂ حجرات(۲۰۰۴ء)میں جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان،پوسٹ بکس۵۴۲۵،کراچی سے شائع کرائی۔ ’’سورۃ الحجرات‘‘کی تنزیل مدینہ منورہ میں ہوئی۔یہ دو رکوعات ،۱۸آیات کریمہ کی حامل ،انچاسویں سورۃ کی حیثیت سے قرآن مجید کے چھبیسویں پارہ کی زینت ہے۔اس میں آیت شریفہ ہے کہ:اِنَّ الَّذِینَ یُنَا دُ ونَکَ مِن وَّرَآءِ الحُجُرٰ تِ اَکثَرُ ھَم لَا یَعقِلُونَ 0تحقیق جولوگ کہ پکارتے ہیں تجھ ؐ کو پرے چاردیواریوں گھروں کے سے ،بہت ان کے نہیں سمجھتے۔سورۃ الحجرات میں نبی پاک ﷺ کے آداب مع مستقل آدابِ حیات سکھائے گئے ہیں۔۱۳۹۶ء کے ماہ رمضان المبارک میں ایرانی عالم آیت اﷲ عبدالحسین دست غیب نے سورۃ الحجرات کی آیات کی روشنی میں خطبات ارشاد فرمائے تھے جنہیں کیسٹوں میں صدابند کرکے بعدہٗ کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ انہی خطبات کو علامہ محمد حسن جعفری کھوہ سغ بلوچ نے اردو ترجمہ کرکے پیش کیا ۔تصنیف کے ٹا ئیٹل صفحہ پر سورۃ الحجرات مطبوعہ ہے۔ بعد ازیں حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ کا اسلام کے بارے یک صفحاتی وضاحت نامہ ہے۔ بعدہٗ ناشر ِکتاب شیخ یوسف علی نفسی وکیل حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سیستانی کاایک صفحاتی پیش لفظ ’’کچھ اپنے [اشاعتی ادارہ کے] بارے میں‘‘ نیزچھ صفحاتی’’ مقدمہ‘‘ نوشتہ ازسیدمحمدہاشم دست غیب شیرازی، پیش کردہ ہیں۔تصنیف ۲۸ خطبات اور متعددذیلی عنوانات کی حامل ہے ۔ خطباتی عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’نعمتِ حیات اور آمدِرمضان پرحمدباری تعالیٰ۔توفیق روزہ اورتلاوت قرآن۔محفل ِپیغمبرؐ کی برکات سے محرومی۔ادبِ رسولؐ کا تقاضا۔پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ دوستی سے خدادوستی کا سفر۔تحقیق کے بغیر کوئی اقدام نہ کریں۔جمعہ کی تعطیل کا مقصد ۔خالدؓ کاصورت حال کی تحقیق کے لیے جانا۔ دین مومن کو اپنی جان سے پیاراہے۔صیغہ جمع کی حکمت۔عذر قبول کرنا واجب ہے۔حقوقِ اخوت۔معاشرہ انسانی ضرورت ہے۔روزجمعہ اوردرود۔آیت کا شانِ نزول ۔ کسی کی قدوقامت کا مذاق نہ اڑائیں۔بدگمانی سے ممانعت۔خداسے بدگمانی کفروشرک ہے۔حقیقی خوشی ناقابل واپسی ہوتی ہے۔ذاتِ علیؓ۔آیاتِ انفس وآفاق۔بدگمانی سے پرہیز کریں۔حرمتِ غیبت کے مزیددلائل۔غیبت مردار خوری کے مترادف ہے۔ قرآن دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔سب ایک ہی والدین کی اولاد ہیں۔دریا کنارے بیٹھ کر عمررواں کو دیکھیں۔ مبداو معاد پرایمان اساس دین ہے۔ ‘‘
تصنیف میں خطبات کی پیش کش اس طرح ہے کہ عموماً عنوان کے بعدسورۃ الحجرات کی ایک آیت یا اس کا کوئی جز لکھا اور پھراس کی توضیح و تفصیلات بیان کیں۔چوں کہ یہ خطبات ہیں اس لیے توضیحی ہیں جو افکارتازہ اور جدید سائنسی دورکے سماجی تناظر میں پیش کردہ ہیں ۔ان میں ایرانی معاصر معاشرہ کی عکس کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔علامہ محمد حسن جعفری نے ان خطبات ِ فارسی کا معیاری اردو ئی ترجمہ کرکے ذخیرۂ اردو میں تفسیری خطبات کا اضافہ کیا۔اسلوب ترجمہ عالمانہ ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’اﷲ تعالیٰ نے ہمیں نعمت ِحیات جس ارزانی سے عطافرمائی ہے ۔اس پرہم اس کاشکر بجالاتے ہیں۔انسان کو نعمت شناسی کا ثبوت دینا چاہیے۔ایک انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت اس کی عمر ہے۔جب عمرتمام ہوجائے تو پھر انسان کسی بھی نعمت سے مستفید نہیں ہوسکتا۔‘‘ (۲۴ )
( ۱۸ )تفسیرنورالثقلین جلداول :
حجۃ الاسلام، علامہ محمدحسن جعفری نے ۶۰۰ صفحات کی حامل تفسیرنورالثقلین جلد اول، ستمبر ۲۰۰۵ ء میں ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ،غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،لاہور سے ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی۔ تفسیرکی دیگرسات جلدیں بھی اسی ادارے سے شائع کرائی گئیں۔
محمد حسن جعفری ۱۵۔اپریل۱۹۵۳ء کوتگیہؔ خان کھوہ سغ بلوچ کے ہاں قصبہ بندوانیؔ،معموری ؔنزد چوٹیؔ زیریں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول بندوانی سے حاصل کی۔ پھرتین سال تک جامعہ حیدریہ قائمؔ والا ،دو سال تک مدرسہ باب العلوم ابدالی روڈ ملتان ،چار سال تک مدرسہ درسِ آل محمدﷺفیصل آبادسے تفسیر، حدیث،لغت ،عربی ودینی تعلیم حاصل کی۔۱۹۷۱ء میں ملتان بورڈ سے عربی فاضل کی۔۱۹۷۸ء تا۱۹۸۳ء چھ سال تک حوزۃ العلمیہ زینبیہ دمشق شام میں تفسیر و حدیث خوانی کی۔ ۸۳ ۱۹ء میں تخصص کی سند لی جوتقریباً پی ایچ ڈی کے مساوی ہے۔اوراسی سال وطن واپسی ہوئی ۔ ۱۹۸۴ء میں وفاقی ادارے جامعہ المنتظَر سے سلطان الافاضل کی ڈگری لی۔اسی سال گورنمنٹ ہائی سکول شادن لُنڈؔ میں عربی ٹیچرتعینات ہوئے۔گورنمنٹ مڈل سکول ملا ؔوالا مرکزکوٹ چُھٹہ ؔمیں مدرس رہے ۔۱۹۹۰ء میں ملتان یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ ۱۹۹۴ء تاحال گورنمٹ ہائی سکول بندوانی میں جماعت ہائے ثانوی کے عربی واردو مدرس ہیں۔ تاہم کچھ عرصہ گورنمنٹ ہائی سکول فورٹ منروؔ میں بھی معلم رہے۔عربی اورفارسی بول چال میں مہارت تامہ حاصل ہے۔متعدد بار سعودی عرب میں حج وعمرہ نیز ایران،عراق، شام، ترکی و لبنان میں تبلیغی اسفارکیے ۔عرصہ سولہ سال سے علمی مراکز سے دور بندوانی جیسے پس ماندہ قصبہ جہاں کتب خانہ کی سہولت بھی نہیں، میں گوشہ نشیں رہ کرترجمہ نگاری سے، مذہبی کتب کی تراجم کے انبار لگادیے۔بر صغیرپاک وہند تودرکنار عالمی سطح پرشاید ہی کسی اردو ترجمہ نگار نے عربی و فارسی کتب کا اس قدر ضخیم اثاثہ ترجمہ کیا ہو۔سیدابوالاعلیٰ مودودی کی اردوئی تصنیفات کی ضخامت سے یہ اردومترجمہ اثاثہ زیادہ نظر آتا ہے۔ ان کے ترجمہ کی کاوشیں بغداد میں عباسی دور کے دار الترجمہ میں سرگرمیوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج سے انگریزوں نے سرکاری سطح پر عربی وفارسی کتب کے اردو تراجم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا،محمد حسن جعفری نے نجی طورپر اس روایت کا احیاکرتے ہوئے درجنوں عربی وفارسی کتب کو اردو قالب میں ڈھالا۔ ترجمہ نہ صرف کسی تصنیف بل کہ کسی زبان و قوم کی سوچ و فکری فضا کے عکس کو بھی دوسری زبان میں منتقل کرناہے ۔ انہوں نے عربی وفارسی کتب کے علمی، تہذیبی ،اسلامی واخلاقی ادب خزانے اور فکری فضا کو اردو میں منتقل کرکے اسے ثروت مندبنایا۔ علامہ محمد حسن جعفری بلوچ ،مسلک اہل تشیع کی فارسی اور عربی کتب کی ترجمہ نگاری کے بادشاہ ہیں لیکن’’ نوواسٹار‘‘کی مانند دنیا کی نظروں سے مستور ہیں۔عرب و عجم اور اسلام شناسی کے حوالے سے جاودانی اردوئی کام کیا۔ ان کی مترجمہ تصانیف درج ذیل ہیں:۔پند تاریخ جلد اول تاپنجم۔جواب حاضر ہے۔ عیون اخبارالرضا جلد اول ودوم۔قلب سلیم ۔تفسیر سورۃ حجرات۔معجزات آل محمد حصہ اول ودوم۔ احیائے دین میں آئمہ اہل بیت کا کردارجلد دوم۔کربلا کا تاریخی پس منظرجلد اول ۔مکتب امامت وخلافت جلد اول ودوم۔عقائد اسلام قرآن کی نظرمیں جلد اول ودوم۔نماز معراج مومن ۔کشکول دست غیب ۔مہدیٔ برحق ۔ہدیۃ الشیعہ۔مجالس المومنین ۔ مصائب زہرہ۔الشیعۃالامامیہ۔اسرار الصلواۃ۔فاطمہ زہرا از مہد تا لہد۔قیام امام حسینؓ۔تصوف اور تشیع کا فرق۔ حقیقت گم شدہ۔فریب ۔نماز رسول ؐ۔ سوال عوام کے جواب امام کے۔سوال عوام کے جواب دختر سید الانعامؐ کے،وغیرہ۔
’’تفسیرنورالثقلین ‘‘جلداول تاہشتم بھی ان کی مترجمہ تصنیف ہے جومفسرو محدثِ جلیل العلامۃ الخبیر الشیخ عبدعلی بن جمعۃ العروسی الحویزی قدس سرہٗ کی ۱۱۳۰ھ میں محررہ، اسی نام کی پانچ اجلاد پرمشتمل عربی تفسیر کا اردوترجمہ ہے ۔مترجمہ تفسیر کی جلد اول:سورۃ الفاتحہ تاسورۃ البقرہ محیط ہے ۔اس کی تدوین ونظرثانی میں حجۃ الاسلام علامہ ریاض حسین جعفری (ناشروسربراہ ادارہ منہاج الصالحین لاہور)نے معاونت کی۔آغاز میں’’ عرض ناشر‘‘ بقدرتین صفحات ،ازاں بعدخلیفتہ الرسول ﷺحضرت علی کرم اﷲ وجہٗ کے دو عربی شذرات کااردو ترجمہ :’’عظمت قرآن بزبان امیر المومنین علیہ السلام‘‘ اور ’’امیرالمومنین علیہ السلام کی زبانی قرآنی علوم کا خاکہ‘‘ پیش کیے ۔پھر مترجم کا خود رقم کردہ دیباچہ ’’حرف نخستین‘‘ بقدر تین صفحات بعدہٗ صفحہ ۲۳ تا۲۴ علامہ عبد علی کے عربی دیباچہ کا اردو ترجمہ ہے ۔ صفحہ۲۶تا۵۶ سورۃ الفاتحہ نیز صفحہ ۵۷تا۵۹۷ سورۃ البقرہ کی آیات وعربی تفسیر کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ترجمہ کے اس غیرمعمولی کارنامہ کے بارے میں حجۃ الاسلام علامہ ریاض حسین جعفری فاضل قم’’ عرض ناشر‘‘میں رقم طراز ہیں کہ :
’’ ہماری کئی سالوں سے کوشش تھی کہ قرآن کی تفسیر کی جائے۔[اور]ایسی تفسیرپیش کی جائے کہ جوآل محمد کے فضائل کاپرتوہو۔...اکثریت کا مشورہ تھاکہ تفسیر نور الثقلین کاترجمہ کرکے چھاپ دیا جائے۔...کتاب کاانتخاب تو ہوگیا لیکن مشکل سوال یہ [تھا]کہ اس مشکل ترین کام کی ذمہ داری کس کے سرڈالی جائے۔عربی زبان سے اردو میں ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اورپھرروایات کا ترجمہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔...اس قحط الرجال کے زمانہ میں کسی علمی ادبی شخصیت کا ملنا نہایت مشکل کام ہے۔...بہرحال اس اہم کام کے لیے ہماری نگاہ اپنے باصلاحیت رفیق اورجذبہ مودت سے سرشار دوست حجۃ الاسلام علامہ محمد حسن جعفری صاحب قبلہ پر پڑی۔آپ نے...اس اہم کام کی ذمہ داری اپنے سر لی۔اس طرح پہلی جلد کاترجمہ قارئین کے سامنے ہے۔‘‘ (۲۵ )
خودعلامہ محمد حسن جعفری ’’حرف نخستین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’اہل علم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تفسیر نور الثقلین اچھی خاصی ضخیم تفسیر ہے اور اتنی بڑی کتاب کو اس دور میں لکھنااورشائع کرانا آسان کام نہیں ہے۔‘‘ (۲۶ )
عموماًقرآنی تفاسیر دواقسام کی یعنی تفاسیربالروائی ؍تفاسیربالحدیث اورتفاسیربالرائے ہوتی ہیں۔تفاسیر بالروائی میں مفسرین: قرآنی آیت کے ترجمہ کے ساتھ اس سے متعلقہ دست یاب احادیث ا ور۱۲آئمہ کی توضیحات نقل کردیتے ہیں۔اس میں بیرونی دیگر تفاصیل نہیں دی جاتیں ۔ نیز تفسیرروائی میں لازم نہیں کہ ہر آیت کی ترجمہ کے علاوہ تفسیربھی موجود ہو۔جیسے امام جلال الدین سیوطی ؒنے حدیث کی رو سے’’ تفسیر دُر منثور‘‘لکھی۔ اہل تشیع کی تفاسیر میں: تفسیر قمی،تفسیر عیاشی ، تفسیربرہان اور سب سے بڑی تفسیرنورالثقلین ہے۔یہ خالص روائی تفاسیر ہیں۔جب کہ تفسیر بالرائے میں مفسر اپنی رائے بھی نقل کردیتا ہے جس طرح رازی ؔکی ’’تفسیر کبیر ‘‘اورعلامہ زمحشریؔ کی’’ تفسیر کشاف‘‘ ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال علیہ رحمۃ نے فرمایا کہ :
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی ؔ،نہ صاحبِ کشافؔ
تفسیرنورالثقلین میں علامہ محمد حسن جعفری کا اسلوب تفسیر ایسے نظرآتاہے کہ پہلے قرآن کا عربی متن مع بامحاورہ اردو ترجمہ پیش کیا۔پھرجو اہم بات یا واقعہ قرآن میں مذکور ہوا ،اس کا عنوان قائم کرکے سادہ الفاظ میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔تفہیم و ترجمہ ا ور توضیح میں احتمال لغزش سے احتراز کی خاطرانہوں نے مختلف تفاسیرکومدنظررکھاجن میں: اہل تشیع کے مولانافرمان علی لکھنوی کا مترجمہ قرآن،علامہ ذی شان حیدر جوادی (انڈیا) کاترجمہ قرآن؛ سنی علماء میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن،شاہ عبدالقادردہلوی نیزعبدالماجد دریاآبادی ودیگرکے مترجمہ قرآن وتفاسیرشامل ہیں ۔ تاہم اولیں ایڈیشن میں باوجودنظرثانی کے ترجمہ میں کہیں کہیں تسامحات نظر آ جاتے ہیں۔ تفسیرمیں پیش کردہ ایسے۱۷۸ عناوین میں سے چندمنتخب عنوانات ملاحظہ ہوں:۔
’’سورۃ حمد کی تفسیر وفضائل ۔فضائل سورۃ البقرہ ۔بنی اسرائیل اور موسیٰ علیہ السلام۔بادلوں کا سایہ اور من وسلویٰ کا نزول ۔بنی اسرائیل کی گائے کا واقعہ۔روح القدس۔کسی کے فعل پر راضی ہونے والا بھی اس میں شریک ہے۔ہاروت و ماروت کاواقعہ۔حضرت سلیمان کے بعد جادو کا راج۔ جنت اعمال کابدلہ ہے۔مساجد سے منع کرنے والابہت بڑاظالم ہے۔ خداہرطرف موجود ہے۔امامت ابراہیم علیہ السلام۔ خدابھلائی کرنے والوں سے محبت رکھتاہے۔حدودالٰہی سے تجاوز کرنا حرام ہے ۔ سود کوچھوڑنا شرط ایمان ہے۔گواہی سے انکار کرنا جرم ہے۔امم سابقہ کے وہ بوجھ جوامت مصطفیؐ سے ہٹائے گئے۔ ‘‘
ترجمہ عالمانہ ہے۔سورۃ الفاتحہ کہ سات آیات کا چھ جملوں میں اردو ترجمہ پیش کیا۔اسلوب ترجمہ ملاحظہ ہو :
’’تمام تعریفیں اﷲ کے لیے مخصوص ہیں،جوتمام جہانوں کا پروردگار ہے۔وہ مہربان اورنہایت رحم کرنے والا ہے۔وہ بدلے کے دن کا مالک ہے۔پروردگار!ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مددچاہتے ہیں۔ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرماتارہ،جوان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے انعام کیا ہے۔ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہواہے اورنہ ہی بھٹکے ہو[ؤں کا]۔‘‘(۲۷ )
( ۱۹ )تفسیرنورالثقلین جلددوئم :
۶۳۹صفحاتی تفسیرنورالثقلین جلددوئم فروری۲۰۰۶ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔ متذکرۃ الصدرجلد، سورۃ آل عمران سے سورۃ المائدہ آیت۳۴، پارہ چھ تک ہے ۔یہ جلداول سے قدرے ضخیم ہے۔ ترجمہ وتفسیر کااسلوب حسب سابق ہے کہ جہاں ۲۲۷ نکات قرآنی کے عنوانات قائم کرکے تفسیر پیش کی گئی ۔ چند منتخب عناوین درج ذیل ہیں:۔
’’کفارکے مغلوب ہونے کی پیش گوئی۔استغفار سحر گاہی۔انبیاء کا ناحق قتل۔اﷲ مالک الملک ہے ۔ اتباع رسول ﷺ ، محبت خداکاعملی ثبوت ہے۔حضرت مریم علیہاالسلام۔ حضرت عیسیٰؑ پیدائشی نبی تھے ۔حضرت مسیحؑ کاآسمان پر اٹھایا جانا ۔ حضرت ابراہیمؑ یہودی اور نصرانی نہ تھے۔یہودی اور تحریف کتاب۔قتل کاموجب بننے والابھی قاتل ہے۔جنگ بدر۔ وسعت بہشت۔ کافروں کی پیروی مت کرو۔مشاورت کا حکم۔صبرکرواور پامردی کا مظاہرہ کرو۔ناجائزطریقوں سے مال کھانے کی ممانعت۔دوزخیوں کی کھال بدل دی جائے گی۔ادائے امانت کا حکم۔اہل ایمان کو ہمیشہ مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔جہاد کے لیے رسولؐ خداکو خصوصی حکم۔ سلام کا جواب ضروری ہے۔زبان سے اقرارِ اسلام کرنے والے کا قتل حرام ہے۔کفار کے تعاقب میں سستی نہ کرو۔ مظلوم کوظالم کے خلاف بلندآواز سے واویلاکرنے کا حق ہے۔بنی اسرائیل کی بزدلی۔دنیامیں پہلا شعر کس نے کہا؟ قتل ہابیل کے اثرات۔انسانی جان بچانے کا مقام۔ ‘‘
آغاز تفسیرمیں یک صفحاتی ’’عرض ناشر‘‘ ہے۔پھرعلامہ حسن رضاغدیری کی دو صفحاتی تقریظ پیش کی گئی۔’’عرض ناشر‘‘ میں نوشتہ ہے کہ :
’’تفسیرنورالثقلین کی جلد اول کو علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔اورہمیں اس اقدام پر دادتحسین دی گئی۔‘‘ (۲۸ )
( ۲۰ )تفسیرنورالثقلین جلدسوئم :
۶۲۱صفحاتی تفسیرنورالثقلین جلد سوئم،مئی۲۰۰۶ئم ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔ جلد سوم کا ترجمہ وتفسیر، سورۃ المائدہ آیت۳۵سے سورۃ الانفال، پارہ دس تک ہے جس میں۲۹۳ قرآنی نکات کے عنوانات قائم کرکے تفسیر پیش کی گئی۔ چند منتخب عناوین تفسیر درج ذیل ہیں:۔
’’حکم خداکے مطابق فیصلہ نہ کرنے والاکافر ہے۔قصاص ۔اگرلوگ دین سے منحرف ہوجائیں تواﷲ ان کے بدلے دوسری قوم بھیج دے گا۔یہودومشرکین اہل ایمان کے بد ترین دشمن ہیں۔ دوسروں کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ مشکلات وشدائد میں خداکی طرف رجوع کریں۔انسانوں پر خداکی طرف سے محافظ فرشتے مقرر ہیں۔نفخ صور۔ قیامت کے روز ہر شخص تن تنہا پیش ہو گا۔اﷲ ’’لطیف‘‘ ہے۔جب پھل پک جائیں تو اس میں سے مساکین کو بھی کچھ کھلاؤ۔ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔تخلیق انسان اور قصہ آدمؑ۔ عبادت کے وقت اچھالباس پہن کر آؤ ۔قوم ثمود اورصالحؑ۔ایمان وتقویٰ سے برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اﷲ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔اصحاب السبت کا واقعہ۔قرآن کو خاموشی اور توجہ سے سنو۔جہاد سے فرارگناہ کبیرہ ہے۔خدا،رسولؐ اور مسلمانوں سے خیانت نہ کرو۔ معاہدہ شکن کے ساتھ معاہدہ نہ کرو۔جہاد کے لیے قوت فراہم کرو۔ ‘‘
آغازتفسیر میں یک صفحاتی’’عرض ناشر‘‘ پیش ہے ،جہاں نوشتہ ہے کہ :
’’پورے ملک سے اہل ذوق نے ہمیں تعریفی خطوط لکھے۔...کیوں کہ یہ فقط تفسیر ہی نہیں بل کہ آل محمدؐ کے فضائل و مناقب کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔...اس کتاب کے مترجم...ضعیف روایات پر تحقیقی وتشریحی اورتوضیحی نوٹ لکھ رہے ہیں ۔‘‘ (۲۹ )
( ۲۱ )تفسیرنورالثقلین جلدچہارم :
۶۶۳صفحاتی تفسیرنورالثقلین جلدچہارم ،اکتوبر ۲۰۰۶ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی۔ جلد چہارم کا ترجمہ وتفسیر: سورۃ توبہ پارہ دس سے سورۃ الحجر، پارہ چودہ تک ہے۔یہ سابقہ تینوں جلدوں سے قدرے ضخیم ہے۔ اس میں۲۷۹ قرآنی نکات کے عنوانات قائم کرکے تفسیر پیش کی گئی۔چند منتخب عنوانات درج ذیل ہیں :۔
’’اگر کوئی مشرک پناہ مانگے توا سے پناہ دو۔ایمان کے لیے زبانی دعویٰ کافی نہیں،جہاد اور خدااور رسولؐ کی دوستی ضروری ہے۔مومن ہی مساجدکو آباد کرسکتے ہیں مشرک آباد نہیں کرسکتے۔سونا چاندی ذخیرہ کرنے والوں کے لیے وعید۔منافقین کے اعمال قبول نہیں ہیں۔آل رسول ؐ پر صدقہ حرام ہے۔ مومنین کی باتوں پر اعتماد کرناچاہیے۔مومنین ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔منافقین کے لیے استغفار کی ممانعت۔مسجد ضرار۔دین میں سوجھ بوجھ پیداکرنے کے لیے سفر کرو۔فضائل سورۃ یونسؑ۔زمین وآسمان چھ دنوں (اَدوار)میں پیدا ہوئے۔خدادکھ کے لمحات میں یاد آتا ہے۔ رحمت کا منتظر رہنا چاہیے۔خوف خدامیں رونے کااجر۔قرآن شفا ہے۔ اولیا اﷲ کا مقام۔استغفار وتوبہ کے فوائد۔ہر جان دار کا رزق خدا کے ذمہ ہے۔کیا خداعرش پر بیٹھا ہواہے؟ واقعہ نوحؑ۔حضرت صالحؑ اور قوم ثمودؑ۔حضرت ابراہیم ؑکے معزز مہمان ۔ فرعون اور اس کی قوم کاانجام۔خداکسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ظالموں کی طرف جھکنا حرام ہے۔سورۃ یوسفؑ کی فضیلت ۔ قیدیوں کے خواب۔رحمت خداسے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔غیراﷲ سے امیدیں وابستہ کرنا حماقت ہے۔حق قائم رہتا ہے اور باطل جھاگ کی طرح اُڑ جاتا ہے۔رب کی دعوت قبول کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے۔خداکے ذکرسے دلوں کو سکون ملتا ہے۔درخت طوبیٰ۔مصافحہ کا ثواب۔ ثواب تلاوت۔خداپرہی توکل کرنا چاہیے۔زکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ مالی حقوق واجب ہیں۔خداکی نعمت کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں۔اسماعیلؑ وہاجرہؑ کو مکہ میں بسانا ۔ قرآن کا محافظ خدا ہے۔بروج وکواکب۔شیاطین کے لیے آسمانی راستے روک دیے گئے۔ولادت نبویؐ سے دنیامیں کیاتبدیلیاں آئیں؟ جنات کی تخلیق کا ابتدائی مادہ۔اہل جنت کے دلوں سے کدورت نکال لی جائے گی۔نبی اکرمؐ کے مذاق اڑانے والوں کا انجام۔ ‘‘
تفسیر میں سے اردو ترجمہ کا ایک اقتباس بہ طور نمونہ ملاحظہ ہو :
’’روضہ کافی میں حضرت امام جعفر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:جب ناقۂ صالحؑ قتل ہوگئی تو حضرت صالح ؑنے اپنی قوم سے کہا:کل صبح ہوگی تو تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے ۔اوردوسرے دن تمہارے چہرے سرخ ہوجائیں گے ۔اورتیسرے دن تمہارے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ اورچوتھے دن تم پر عذاب آجائے گا۔اورتم ہلاک ہوجاؤگے۔چناں چہ صبح ہوئی تو لوگوں کے چہرے زرد ہوگئے ۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ صالحؑ کی بات سچی ثابت ہوئی۔ مگر سرکش سرداروں نے کہا:ہم کبھی بھی صالحؑ کی بات تسلیم نہیں کریں گے۔دوسرادن ہوا تو سب کے چہرے سرخ ہوگئے۔...‘‘(۳۰ )
( ۲۲ )تفسیرنورالثقلین جلدپنجم :
۶۵۶صفحاتی تفسیرنورالثقلین جلدپنجم،اپریل۲۰۰۷ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔جلد پنجم کا ترجمہ وتفسیر، سورۃ النحل جزچودہ سے سورۃ الحج، جز سترہ تک ہے۔ اس میں۳۰۲ قرآنی نکات کے عنوانات قائم کرکے تفسیر پیش کی گئی۔تفسیر کے آغاز میں ناشرکی دونثری تحریریں ’’گفتار ناشر‘‘ بہ قدرچارصفحات پیش کردہ ہیں۔پروفیسرمظہرعباس چودھری اپنے پانچ صفحاتی پیش لفظ:’’تفسیر نورالثقلین اور خدمات جعفریین‘‘میں لکھتے ہیں کہ :
’’اس تفسیر کا اردو میں ترجمہ نہایت خوش آئند امرہے جو خدمت قرآن کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی بھی خدمت ہے۔...مترجم کا سہ لسانی استعدادقابل داد ہے۔...یہ ترجمہ چوں کہ عربی سے اردو میں کیا گیا ہے لہٰذا مترجم کی عربی دانی نے خوب کمال دکھایا ہے اوراردو گلشنِ تفسیر کو مزیدمہکایا ہے۔... یہ روایاتی اور تاویلی تفسیرِقرآن دنیاوآخرت کی فلاح وبہبود کے لیے کافی وشافی وسیلہ ہے۔‘‘ (۳۱ )
نیز ابوالعلی مظہر عباس چارصفحاتی تقریظ میں لکھتے ہیں کہ :
’’یہ ترجمہ مولانافرمان علی صاحب کے زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے۔...رہی بات تفسیر کے ترجمے کی تو یہ خالص ترجمہ محسوس نہیں ہوتا بل کہ اضافہ من المترجم کے تحت دیگر تفاسیر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جن میں...اہل سنت کی تفسیریں بھی شامل ہیں۔ایسی صورت میں اردو ترجمہ کو روائی...تفسیر کہنا مشکل ہوجاتا ہے۔...اسے نورالثقلین روایاتی تفسیر مع اضافہ جات عن المترجم...کہنا ہی بجا ہے۔...ان اضافہ جات سے ترجمۂ تفسیر اوربھی معلوماتی اور مقتضائے حال ہوگیا ہے۔‘‘ (۳۲ )
تفسیر کے چند منتخب عنوانات درج ذیل ہیں:۔ٍ
’’سورۃ النحل فضائل اور مرکزی موضوعات۔بت مردہ ہیں۔ متکبرین خدا کو نا پسند ہیں۔گم راہ کرنے والااپنے بوجھ کے ساتھ دوسرے کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔مکرکرنے والوں کا انجام۔اہل ذکرسے سوال کرو۔ زمین میں دھنس جانے والے ۔ نعمتوں کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ بیٹیاں مصیبت نہیں رحمت ہیں۔اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھلائی کرو۔مملوک کے پاس اختیارنہیں ہوتا۔ہراُمت کا گواہ ہوگا اورنبی اکرمؐ سب کے گواہ ہوں گے۔اپنے عہداورقسموں کا لحاظ رکھو۔سزاظلم کے برابرہونی چاہیے۔فضائل سورۃ بنی اسرائیل۔خداسمیع وبصیرہے۔ قرآن سیدھاراستہ دکھاتاہے۔روزوشب خداکی نشانیاں ہیں۔بخل اورفضول خرچی دونوں سے پرہیزکرو۔افلاس کے خوف سے اولاد کوقتل نہ کرو۔کسی کو ناحق قتل نہ کرو ۔ یتیم کا مال نہ کھاؤ۔ناپ تول صحیح طریقہ سے کرو۔اکڑاکرمت چلو۔ قرآن شفااوررحمت ہے۔سات سمندربھی سیاہی بن جائیں توبھی اﷲ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں گی ۔ لفظ ان شاء اﷲ کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔غریب اصحاب سے منہ نہ موڑیں۔نامہ اعمال میں سب اعمال درج ہوں گے۔قصہ موسٰی ؑ وخضرؑ۔ذوالقرنین ۔یاجوج وماجوج۔فضائل سورۃ مریم۔دعاسے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔نبی اوررسول میں فرق۔جنت کے وارث متقی ہیں۔سابقہ اقوام کی بربادی سے سبق سیکھو۔سورۃ طہٰ کے فضائل۔عصا اور ید بیضا۔سامری کی کارستانی ۔علم میں اضافہ کی دعا۔خود بھی نماز کی پابندی کرو اورگھروالوں کو بھی اس کا حکم دیں۔سورۃ انبیا کے فضائل۔حق ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ابتدامیں زمین وآسمان پیوستہ تھے ۔ پانی ہی زندگی کی بنیاد ہے۔انسان فطرتاً جلدباز ہے۔داؤد اورسلیمان کا فیصلہ۔سلیمان کو ہواپر اختیار دیا گیا تھا۔واقعہ یونس ؑ۔حضرت زکریاؑ کی دعا۔قیامت کے دن آسمان کو لپیٹ دیا جائے گا۔صالحین زمین کے وارث ہوں گے۔سورۃ حج کے فضائل ۔بانی ٔ کعبہ اور کعبہ۔بت پرستی اور جھوٹ سے پرہیز کرو۔ ‘‘
ان کااسلوب ترجمہ یہ ہے کہ پہلے قرآنی آیات کا ترجمہ اور ازاں بعد موضوع کے حوالے سے عنوانات دے کر تفسیر پیش کی ہے۔سورۃ الحج، آیت۲۳کاترجمہ ملاحظہ کیجیے :
’’یقینا اﷲ تعالیٰ اہلِ ایمان اورنیک عمل بجالانے والوں کو ایسے باغات میں داخل کرے گا ،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اورموتیوں سے آراستہ کیا جائے گا اوروہاں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔‘‘ (۳۳ )
( ۲۳ )تفسیرنورالثقلین جلدششم :
۶۵۶صفحاتی تفسیرنورالثقلین جلدششم،اکتوبر۲۰۰۸ئمیں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔جلد ششم کا ترجمہ وتفسیر سورۃ الحج جز۱۷ تاسورۃ الاحزاب جز ۲۲ محیط ہے۔ اس میں ۲۵۸ قرآنی نکات کے عنوانات قائم کرکے تفسیر پیش کی گئی۔تفسیر براہ راست ہے جہاں کوئی دیباچہ وتقریظ ندارد ہے۔ ضخامت بہ مساوی جلد پنجم ہے۔اس کے چندمنتخب موضوعات درج ذیل ہیں:۔
’’اذن جہاد۔اجڑی ہوئی بستیوں سے عبرت حاصل کرو۔ہجرت کرنے والوں کے لیے اجرعظیم ہے ۔دین میں کوئی سختی نہیں ہے۔صراط مستقیم۔سورۃ نور کے فضائل۔جب کسی کے گھرجاؤتوسلام کرو۔ سورۃ فرقان کے فضائل۔قرآن ٹھہر ٹھہرکر پڑھناچاہیے ۔جہادکبیر۔ خداکے خاص بندے جاہلوں سے مباحثہ نہیں کیا کرتے۔توبہ سے گناہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں۔سورۃ الشعرا کے فضائل۔موسٰیؑ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ۔قلب سلیم۔قابل مذمت شعراء۔قابل تعریف شعراء۔سورۃ النمل کے فضائل۔حرمت مکہ۔سورۃ قصص کے فضائل۔قارون کا واقعہ۔رزق کی کمی بیشی خداکے ہاتھ میں ہے۔وجہ اﷲ کیا ہے ؟ سورۃ عنکبوت کے فضائل۔لقاء اﷲ کا مفہوم۔حضرت لوط علیہ السلام۔نمازبرائی اوربے حیائی سے روکتی ہے۔سورۃ روم کے فضائل۔رنگوں کا اختلاف۔زمین وآسمان کا اپنی محور پر قائم رہنا خداکی نشانی ہے۔ کیا غلام اورآقایکساں ہیں؟سورۃ لقمان کے فضائل۔دنیا کے دھوکے میں مت آؤ۔وہ پانچ باتیں جن کاعلم صرف خداکے پاس ہے۔سورۃ سجدہ کے فضائل۔نماز شب کی فضیلت۔صبر کی اہمیت۔سورۃ احزاب کے فضائل۔خداسے ڈریں اور کفارومنافقین کی اطاعت نہ کریں۔جنگ خندق۔فرماں بردار خواہ مرد ہو یاعورت ،سب کے لیے اجرعظیم ہے۔ایمان اور اسلام۔ ‘‘
اسلوب تفسیر کا ایک نثرپارہ ملاحظہ ہو :
’’ مجمع البیان میں مرقوم ہے کہ کعب بن مالک نے رسول خداﷺ سے عرض کیا:یارسول ؐاﷲ!آپ شعراء کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ:’ مومن اپنی تلوارسے جہاد کرتاہے اوراپنی زبان سے بھی جہاد کرتاہے۔مجھے اس کی قسم جس کے قبضۂ اختیار میں میری جان ہے تم لوگوں کے اشعار کفارکوتیروں کی برسات سے بھی زیادہ گراں محسوس ہوتے ہیں۔‘نبی اکرمﷺ نے حسان بن ثابت سے فرمایاتھا کہ مشرکین کی ہجوکرو،روح القدس تمہارے ساتھ ہے۔ اس حدیث کو بخاری ومسلم نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔‘‘ (۳۴ )
( ۲۴ )تفسیرنورالثقلین جلدہفتم :
۶۷۲صفحاتی تفسیرنورالثقلین جلدہفتم،فروری۲۰۱۰ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔جلد ہفتم کا ترجمہ وتفسیر، سورۃ الاحزاب جزسترہ تا سورۃ محمد، جز ۲۶ محیط ہے۔ اس میں ۲۶۴قرآنی نکات کے عنوانات قائم کرکے تفسیر پیش کی گئی۔اس جلد کاآغازسورۃ الاحزاب کے تسلسل سے ہوتاہے جس میں شامل چند منتخب عنوانات تفسیر درج ذیل ہیں:۔
’’ختم نبوت۔رسولﷺ کے گھربلااجازت نہیں جانا چاہیے۔وہ بارامانت جسے آسمانوں،زمین اور پہاڑوں نے نہیں اٹھایاتھا۔سورۃ سباکے فضائل۔[قوم ]سباء کی خوش حالی اورویرانی۔رسول ؐخدا تمام انسانوں کے رسول ہیں۔راہ خدا میں خرچ ہونے والی دولت کا خدانعم البدل دیتاہے۔ولایت آل محمدؐ کی اہمیت۔مودت آل محمدؐ میں مسلمانوں کا فائدہ مضمر ہے۔سورۃ فاطرکے فضائل۔اﷲ ارض وسما کا فاطر ہے۔ملائکہ خدا کے قاصد ہیں۔ابلیس کو دشمن سمجھو۔بینااورنابینابرابر نہیں۔اہل علم ہی اﷲ سے ڈرتے ہیں۔خداکے رزق میں سے خرچ کرنے کا حکم۔وارثان کتاب۔ لباس جنت۔سورۃ یٰسن کے فضائل۔ قیامت اچانک آئے گی۔بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟۔اختیار تکوینی۔ سورۃصافات کے فضائل۔بت شکنی کاواقعہ۔قربانی کا واقعہ۔حضرت الیاس علیہ السلام۔قرعہ اندازی۔سورۃ ص کے فضائل۔ حضرت سلیمان ؑ اور گھوڑوں کا ملاحظہ۔حضرت ایوب ؑ اور ان کی آزمائش۔سورۃ الزمرکے فضائل۔کیاعالم وجاہل برابر ہوسکتے ہیں ؟ ۔واپسی کی خواہش۔قبرسے اٹھنے کی کیفیت۔سورۃ مومن کے فضائل۔روح القدس۔ آج کس کی بادشاہت ہے؟سود خوروں کا انجام۔دعا کی افادیت۔سورۃ حم السجدہ کے فضائل۔قیامت کے دن انسانی اعضاگواہی دیں گے۔ خداکے متعلق نیک گمان رکھنا چاہیے۔برائی کا بدلہ اچھائی سے دو۔سجدۂ تلاوت کاذکر۔سورۃ شوریٰ کے فضائل۔مکہ کو اُم القریٰ کہنے کی وجہ؟۔شریعت کی ابتدا حضرت نوح علیہ السلام سے ہوئی۔طالب دنیا کو دنیا اور طالب آخرت کوآخرت ملتی ہے ۔ مشورہ کی اہمیت ۔ اولاد عطاکرنا خداکا کام ہے۔سورۃ زخرف کے فضائل۔سورۃ دخان کے فضائل۔شب قدر کی اہمیت ۔ سورۃجاثیہ کے فضائل۔زمین اور آسمان کی تسخیر۔عفوودرگذرکرنے کا حکم۔بنی اسرائیل پراحسانات۔سورۃ احقاف کے فضائل۔قوم جنات کاقبول اسلام۔سورۃ محمدؐکے فضائل۔ ‘‘
اسلوب تفسیر کے لیے ایک نثرپارہ ملاحظہ ہو:۔
’’ہرچیزفناہوجائے گی۔اس وقت خداکہے گا:لِمَنِِ المُلکُ الیَومَ آج کس کی بادشاہت ہے؟...کوئی جواب دینے والانہ ہوگا۔اس وقت اﷲ تعالیٰ اپنے سوال کا جواب خود ہی دے گااورکہے گا لِلَّہِ الوَاحِدِ القَہَّارِ۔آج خدائے واحدوقہار کی بادشاہت ہے۔‘‘ (۳۵ )
ایک اندازے کے مطابق فارسی میں تین سو اور اردو میں تراجم قرآن اور اسی قدر تفاسیر کی تعدادبھی ہوگی۔ قرآن پاک کا ترجمہ کرنا اورپھرتفسیرلکھنافرہادکی طرح جوئے شیرلانے کے مترادف ہے جہاں محنت سے انسان کا پتہ پانی ہوجاتاہے۔ مترجمہ اردو تفسیر، پاکستان میں اہل تشیع کی اولیں تفسیرالقرآن ہے جوعلامہ محمدحسن جعفری کھوہ سغ بلوچ نے پیش کی۔ اس کی آٹھویں اورآخری جلد زیر اشاعت ہے۔
( ۲۵ )تفسیرنورالثقلین جلدہشتم :
تفسیرنورالثقلین جلدہشتم،فروری۲۰۱۲ء میں شائع کرائی گئی۔جلد ہشتم کا ترجمہ وتفسیر، سورۃ فتح جز۲۶تاسورۃ الناس،جز۳۰آخرقرآن حکیم محیط ہے۔اس میں بھی بہ روایت سابق قرآنی نکات کے عنوانات قائم کرکے تفسیروتوضیح پیش کی گئی ہے۔ (۳۶ )
( ۲۶ )جواب حاضر ہے :
مولانامحمدحسن جعفری بلوچ نے آیت اﷲ سید عبدالحسین دست غیب شیرازی کی فارسی تصنیف موسومہ:’’۸۴پُرسش‘‘،’’جواب حاضر ہے‘‘ کی صورت اردوترجمہ کرکے ۲۰۰۱ء میں حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادرکراچی سے شائع کرائی جو۳۳۶ صفحات کی حامل ہے۔سید عبدالحسین دست غیب ۱۹۷۹ء میں انقلاب ایران کے رہ نماؤں میں سے تھے۔’’گناہان کبیرہ‘‘ نیز ’’قلب سلیم‘‘ ان کی معروف تصنیفات ہیں۔’’جواب حاضر ہے‘‘: نو ابواب:بحث توحید۔ بحث عدل ۔ بحث نبوت۔بحث امامت۔بحث معاد(قیامت)۔ تفسیر قرآن۔مسئلہ فقہیہ۔متفرق سوالات ۔ مصری سکالر محمدقطب کے مقالے، نیز۱۵۱ذیلی فقیہی موضوعات کی حامل ہے ۔آغاز تصنیف میں دو صفحاتی ’’عرض مترجم‘‘ نیزچھ صفحاتی’’ مقدمہ‘‘نوشتہ از سیدمحمدہاشم دست غیب (فرزندِمصنف)پیش کردہ ہیں۔تصنیف میں ۸۷ سوالات اوران کے بہ لحاظ نوعیت، مختصروطویل جوابات ترجمہ کردہ ہیں ۔ سوالات کے عنوانات بھی قائم کیے گئے جیسے :
’’حضرت موسیٰ ؑ نے دیدارکا سوال کیوں کیا؟استدراج۔انسان مجبورہے یاآزاد۔جن لوگوں نے اسلام کا نام تک نہ سناہو کیاان کا محاسبہ کیا جائے گا؟ کیا ہدایت وگمراہی خداکی طرف سے ہے ؟توفیق کیا ہے؟کیاابلیس موحد ہونے کی بناپرقابل بخشش ہے؟کیامعذورافرادکی تلافی کی جائے گی؟ شیطان جنت میں کیسے چلاگیا؟تقدیروتدبیرکا دائرہ کار ۔مشاہدات معراج کی حقیقت۔کیاآبائے پیغمبرؐ موحد تھے؟معجزہ شق القمر۔ثاراﷲ کا مفہوم۔ کیاجانوراور پرندے بھی قیامت کو اٹھائے جائیں گے؟قرآن بہ یک وقت نازل ہوا یاتدریجاًنازل ہوا؟نماز شفع[شف]میں قنوت کا کیا مقام ہے؟ قطبین میں نماز کیسے پڑھی جائے گی؟غلاموں کی خرید وفروخت۔تقیہ کیاہے ؟ نذرکیسی ہونی چاہیے؟ کیاامام حسین کربلامیں محصور تھے ؟ سماع اوراستماع میں کیا فرق ہے؟تقویٰ۔کیفیت ظہورامام (عج) ۔فروغ عدل اختیاری اورتدریجی ہے۔قانون عتق۔ ‘‘
علم الکلام اور مسائل شرعیہ کے ایسے ہی سوالات اوران کے جوابات اہل تشیع کے زاویہ نظر سے عالمانہ اردو میں ترجمہ کرکے پیش کیے گئے۔ترجمہ کے بابت مترجم رقم طرازہیں :
’’ہم نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے کہ ترجمہ معیاری ہو۔اور کوئی مطلب اداہونے سے نہ رہ جائے۔...ہماراتعلق کسی طرح سے اہل زبان سے نہیں ہے اس لیے اگرآپ کو کتاب ہٰذامیں اردوئے معلی کی بہ جائے اردوئے محلہ دکھائی دے تواس کی وجہ بھی ہماری ہی مجبوری ہے ۔‘‘ (۳۷ )
تصنیف میں اصل متن سے مستزادکچھ اضافے بھی کیے گئے ۔ آخر میں اہل سنت کے مصری عالم محمد قطب کے پانچ مقالات صفحہ ۲۸۰ تا ۳۳۶ ترجمہ کردہ ہیں ۔اس کا طریق پیش کش ایسے ہے کہ پہلے ایک سوال لکھا پھر اس کا فتویٰ کی صورت میں تفصیلی جواب پیش کیا،جیسے :
’’سوال۳۸:عالم آخرت میں زمانہ کی کیا کیفیت ہوگی؟ جواب:زمانہ اوروقت حرکت افلاک اورزمین کی سورج کے گرد گردش سے عبارت ہے،آخرت میں یہ کیفیت نہ ہوگی۔ آخرت کے نوراورتاریکی کا تعلق فلک وآفتاب کی بہ جائے ایمان وکفرپر ہے۔اہل ایمان جنت میں ہمیشہ اپنے ایمان کی روشنی میں اوراہل کفر دوزخ میں...اپنے کفرکی تاریکی میں ہوں گے۔‘‘(۳۸ )
( ۲۷ )حقیقت گم شدہ :
علامہ محمدحسن جعفری نے ۴۰۸ صفحات پرمشتمل، حقیقت گم شدہ ،اگست۲۰۰۸ء میں،مجمع علمی اسلامی،کراچی،سے شائع کرائی۔سیدمحمدرضامہری ایرانی نے، شیخ معتصم سید احمد سوڈانی کی عربی تصنیف موسومہ: ’’الحقیقۃ الضائعۃ‘‘ کا ’’حقیقت گم شدہ‘‘ کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا۔اس فارسی ترجمہ سے علامہ محمدحسن جعفری نے اردو ترجمہ کیا۔ تصنیف، مسلک اہل تشیع اور دیگر مسالک کے موضوع پراہل تشیع کے زاویہ نظر سے نوشتہ ہے جو، دس ابواب:میری زندگی کی یادیں۔ پردہ اٹھتاہے۔حدیث ثقلین مصادر اہل سنت میں۔اہل بیت کون ہیں؟۔ولایت علیؓ در قرآن۔ شوریٰ اور اسلامی خلافت۔ تحریف حقائق میں مؤرخین کا کردار۔مذاہب اربعہ کا دقیق مطالعہ۔یوحناکا مذاہب اربعہ کے علماء سے مناظرہ۔ عقائد اہل سنت، نیز۸۲ ذیلی عنوانات کی حامل ہے ۔اس کے آغاز میں دو صفحاتی ’’اظہار خیال‘‘نوشتہ ازرضا حسین رضوانی اوردوصفحاتی ’’ پیش لفظ‘‘نوشتہ ازسید محمد رضا مہدی وغیرہ پیش کردہ ہیں۔اجمالی عکس کے لیے تصنیف کے کچھ منتخبہ عنوانات درج ذیل ہیں :۔
’’ تحقیق کی ابتداء۔کالج کی لائبریری میں احادیث کی جستجو۔ایک وہابی شیخ سے مناظرہ۔حدیث علیکم بسنتی اور تاریخی واقعات ۔دمشق کے ایک محدث سے مباحثہ۔خلفائے راشدین سے ائمہ اہل بیت مرادہیں۔اہل بیت کے واسطے سے ہی کتاب و سنت سے تمسک ممکن ہے۔کتب حدیث میں کتاب وعترت کی حدیث۔حدیث ثقلین پر اعتراضات۔ابن عبدالقدوس پر جوزی کی جرح کا جواب۔ حدیث ثقلین پرابن تیمیہ کے اعتراضات۔حدیث ثقلین امامت اہل بیت پر دلالت کرتی ہے ۔ اہل بیت اورآیت تطہیر۔حدیث کساء عظمت اہل بیت کی داستان۔ابن کثیر کا اشکال اور اس کا جواب ۔ اہل بیت درآیت مباہلہ۔ آیت ولایت۔اسلامی مآخذمیں واقعہ غدیر۔آیت شوریٰ کے مفہوم کی تحقیق۔شوریٰ اور سقیفہ۔حضرت علیؓ نے مخالفین سے جنگ کیوں نہیں کی۔پیغمبر اسلام نے کس کی خلافت کا اعلان کیاتھا۔تحریف تاریخ میں حکومتوں کا کردار۔تحریف حدیث میں محدثین کا کردار۔ عہدمعاویہ میں حدیث پر کیا گذری؟۔محدثین اورحقیقت پوشی ۔ تحریف حقائق میں مؤلفین کا کردار۔ شیعوں کی طرف سے جوابی کتابیں۔جدیدمؤلفین کی تحریفات کے چندنمونے ۔ مذاہب اربع کے بانیوں کے بارے میں۔ احادیث تجسیم کے چندنمونے۔شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کا دور۔محمدبن عبدالوہاب کادور۔اشاعرہ کی تضادبیانی۔روئیت خداکا عقیدہ۔نفی روئیت کے متعلق اہل بیت کی احادیث۔امام علی رضاؒ کا خطبہ۔ ‘‘
’’حقیقت گم شدہ‘‘ عصر حاضر کی فکرانگیزمعرکۃ الاراء تصنیف ہے جس میں تقابل مسالک : حنفی ،مالکی،شافعی ،حنبلی اور تشیع کے اعلیٰ فکری مباحث ہیں۔ یہ مباحث جدید اندازتحقیق ،جرح و تعدیل،روایت ودرایت کے اصولوں کے تحت بیان کردہ ہیں۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اہل سنت نے تحریف قرآن کیا (بہ سند،مسنداحمدبن حنبل ج۵،ص۱۳۲۔صحیح بخاری ج ۹،ص۲۰۹۔صحیح مسلم ج ۲،ص ۷۲۶، ح۱۱۹) ۔مقام سقیفہ میں شورائی مجلس کا انعقاداورخلیفہ اول کا تقرر فرمانِ قرآن اور رسولؐ کے برعکس تھااوربعدکے دورِخلافت کاتسلسل اسی زمرے میں آتاہے۔غدیرخم کی حدیث کے تحت حضرت علیؓ خلافت کے حق دارتھے۔ اہل سنت کی یہ احادیث : ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفا ءِ الراشدین من بعدی تمسکوبھا و عضوا و علیہا بالنواجذ‘‘(تم میری سنت کی پیروی کرو اورمیرے بعد خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو۔ ان سے وابستہ رہو اور مضبوطی سے انہیں پکڑے رہو۔مسند احمدبن حنبل،ج۴،ص۱۲۶۔کنزالعمال ج۱،حدیث۸۷۴) نیز’’انی تارک ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا کتب اﷲ وسنتی‘‘(میں ایساترکہ چھوڑے جارہا ہوں کہ اگرتم اس سے وابستہ رہے توہرگزنہ بھٹکو گے ۔ وہ ہے اﷲ کی کتاب اورمیری سنت۔کنزالعمال ج۱، ص۱۷۲ ،۱۸۹)خارج ازصحاح ستہ ہیں۔کتب اﷲ وسنتی کی حدیث بربنا واحدخبر دہندہ( عرباض بن ساریہؓجوپیروکار وعامل معاویہ تھے ) مرفوع ،بلاسند اور ضعیف ہے۔ ان احادیث کے ذریعے آنحضرت کی ایک صحیح السنداور صحیح المتن حدیث ، مشمولہ صحیحین کو غیرمؤثر بنانے کی کوشش کی گئی ۔صحیح حدیث یہ ہے کہ ’’انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوابعدی ابداً کتاب اﷲ وعترتی اھل بیتی(میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑکرجارہا ہوں اگرتم ان سے وابستہ رہوگے تومیرے بعدکبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ وہ ہیں اﷲ کی کتاب اورمیری عترت میرے اہل بیت ۔معجم الاوسط ج ۴،ص۲۶۲، حدیث ۳۴۶۳ ۔ جمع الجوامع ج۱،ص۳۰۷)‘‘مرتبہ خلافت سے عمداً اہل بیت کو دوررکھاگیا۔دورانِ عہد ِخلفائے ثلاثہ ، حقائق چھپائے گئے اورمجموعہ ہائے احادیث نذرآتش کیے گئے۔حدیث نویسی پرڈیڑھ سوسال پابندی عائدرہی۔امویوں نے جواز خلافتِ کے لیے صحیح حدیث کو چھوڑکر مرفوع حدیث سے کام لیا ۔ مسلکِ اہل سنت ،عہدخلافت کی پیداوارہے۔چوں کہ کتب اﷲ وسنتیکی مرفوع وضعیف حدیث پر استوار ہے،اس لیے باطل ہے۔صحیح حدیث کتاب اﷲ وعترتیکی اتباع ہی اصل دین اسلام اورصحیح مسلک ہے۔ قرآن اوراہل بیت کی اتباع ہی راست روی ہے۔تصنیف میں مصنف کی یہ رودادبھی شامل ہے کہ کس طرح انہوں نے وہابیت سے مسلک اہل تشیع اختیار کی ۔
علم فقہ کی ان افکاروآراء کی استنادیت کے بارے میں اسلامی علوم کے ماہرہی بہ تر رائے دے سکتے ہیں تاہم اردوترجمہ عالمانہ ہے۔ترجمہ سے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’نجران سے علمائے نصاریٰ کا ایک وفدآیا۔آنحضرت ﷺنے ان سے بہترین اندازسے مباحثہ کیا۔لیکن انہوں نے آپ کے علمی اورعقلی دلائل کے مقابلے پرکفروسرکشی کامظاہرہ کیا۔اب مباہلہ کے علاوہ کوئی راستہ نہ رہا۔توخدانے آیت مباہلہ نازل فرمائی۔...عیسائی پادریوں نے اس پیش کش کو قبول کرلیا۔پھرانہوں نے اپنے قریبی افرادکو مخصوص دن کے لیے جمع کیا۔...جب آنحضرتؐ مباہلہ کے لیے گئے تواپنے خاندان کے مختصرافرادکوساتھ لے کر گئے۔امام حسنؓ رسول خداؐکے دائیں جانب اورامام حسینؓ آنحضرت ؐ کے بائیں جانب تھے۔اورحضرت علیؓ اورحضرت فاطمہؓ آپ ؐکے پیچھے چل رہے تھے۔ جب نصرانی علماء نے ان نورانی چہروں کو دیکھاتووہ کانپ گئے۔انہوں نے اپنے اُسقف کی طرف رخ کرکے کہا:’ابوحارثہ!اب تم کیامحسوس کرتے ہو؟‘ اُسقف نے کہا:’میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں،اگران کا واسطہ دے کرکوئی شخص خداسے درخواست کرے توپہاڑبھی اپنی جگہ چھوڑدیں گے۔...کیاتم نہیں دیکھتے کہ محمدؐنے اپنے ہاتھ بلندکردیے ہیں۔اب انہیں ہمارے جواب کا انتظارہے۔مجھے حق مسیح کی قسم!اگرانہوں نے بددعاکے لیے ایک بھی لفظ منہ سے نکالاتوہم میں سے کوئی بھی اپنے اہل و عیال کے پاس واپس نہیں جاسکے گا۔‘ اس وقت نصاریٰ نے مباہلہ کا ارادہ ترک کردیا اورجزیہ دینے پر رضامند ہوگئے ۔ ‘‘(۳۹ )
( ۲۸ )سوال عوام کے جواب امام کے،حصہ دوم :
علامہ محمدحسن جعفری کھوہ سغ بلو چ نے ،ایرانی عالم حجۃ الاسلام علامہ احمدقاضی زاہدی گلپایگانی کی فارسی تصنیف موسومہ:’’پرسش ہائے مردم وپاسخ ہائے امام‘‘ کو ،سوال عوام کے جواب امام کے،حصہ دوم ،کی صورت اردو ترجمہ کرکے ادارہ منہاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیاز بیگ ، ملتان روڈلاہور سے شائع کرایاجو ۶۶۳ صفحات پرمحیط ہے۔اصل فارسی تصنیف بارہ جلدوں پرمشتمل ہے مگر اس کی ایک جلد کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔تصنیف، بارہ ابواب:توحید اوریگانہ پرستی ۔نبوت و رسالت۔امامت وولایت۔خلقت و افرینش۔قرآن کریم۔احکام الٰہی۔اعمال واخلاق۔معجزات اورآپ کے عجائب۔آپ کی برتری اورفضائل۔امام مہدی اورقرب قیامت۔قیامت؛نیز۲۱۳ ذیلی فقہی سوالات اوران کے جوابات کا حامل ہے جس کے آغاز میں یک صفحاتی عربی خطبہ اوردوصفحاتی ’’ مقدمۂ مؤلف‘‘وغیرہ پیش کردہ ہیں۔ تصنیف میں سوالات اوران کے بہ لحاظ نوعیت، مختصروطویل جوابات ترجمہ کردہ ہیں۔روایت ہے کہ امامین عظام سے دس ہزار کے لگ بھگ سوالات پوچھے گئے ۔تاہم اس میں صرف حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ سے پوچھے گئے چندسو سوالات اوران کے جوابات مترجمہ ہیں۔کچھ سوالات اس نوعیت کے ہیں:۔
’’کیاآپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟آپ کا رب کب سے ہے؟زمین وآسمان کی پیدائش سے پہلے رب کہاں تھا ؟ اﷲ نے عرش کو اٹھایا ہوا ہے یا عرش نے اﷲ کو اٹھایا ہوا ہے؟اﷲ کہاں رہتا ہے؟ کتنے انبیاء عربی بولتے تھے؟ذی القرنین نبی تھے یا بادشاہ؟تُبع کو تُبع کیوں کہا جاتا ہے؟وحی کا کیا معنیٰ ہے؟ وہ کون سا بیٹا ہے جوعمر میں باپ سے بھی بڑاہے؟کیاحضرت موسیٰؑ سے قبل اﷲ نے کسی سے کلام کیا تھا؟ اصحاب کہف کتنے عرصہ بعد اٹھے تھے؟عترت سے کون لوگ مراد ہیں؟کیاآپ رسول خداؐ کے وصی ہیں؟روزوشب کا بینا کون ہے نابینا کون ہے؟ روئے زمین پر بد ترین وادی کہاں واقع ہے؟چاند میں یہ دھبے کیسے ہیں؟مشرق ومغرب میں کتنا فاصلہ ہے ؟روئے زمین پرپہلا قطرہ خون کس کا گراتھا؟نیند کی حالت میں انسان کی روح کہاں جاتی ہے؟ آسمانوں کے تالے کیاہیں اور ان کی چابیاں کیا ہیں؟روئے زمین پر پہلاپتھر کون سا نصب ہوا؟وہ کون سی گھڑی ہے جونہ رات میں شمارہوتی ہے نہ دن میں؟وہ کون ہے جس کا باپ نہیں،وہ کون ہے جس کا قبیلہ نہیں؟زمین کس چیز پر قرارپذیر ہے؟جنات کے جداعلیٰ کا کیانام تھا؟اعراف پر کون لوگ ہوں گے؟زمین سے کلام کرنے والاانسان کون ہے؟خداکے دروازے کیا ہیں؟ الحمدُ ﷲِ رب العالمین کی تفسیر کیا ہے؟ کیاتمام شہروں پر تباہی آئے گی؟آپ نے بنت رؐسول کو رات کی تاریکی میں کیوں دفن کیا؟ کیاآپ نے نماز عصر پڑھی ہے(رد شمس)؟موت کی تیاری کیسے کی جائے؟حق وباطل کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟علم کیاہے؟ایمان کیاہے؟عدل افضل ہے یا سخاوت؟کیاآپ کو علم غیب عطا ہوا ہے ؟ آپ خچر کی بہ جائے گھوڑے پر سفرکیوں نہیں کرتے؟دجال کب آئے گا؟دابہ کی وضاحت فرمائیں ؟حوض پیغمبر کے متعلق واضح کریں؟کیاکوئی مرنے کے بعد بھی دنیا میں لوٹاہے؟اتنی ڈھیر ساری مخلوق کاخداکیسے حساب لے گا؟ جنت کہاں واقع ہے اوردوزخ کہاں واقع ہے؟ ‘‘
علم الکلام اور مسائل شرعیہ کے ایسے ہی سوالات اوران کے جوابات کا اہل تشیع کے زاویہ نظر سے عالمانہ اردو ترجمہ کرکے اردو پیش کیاگیاہے۔ مصادر ومنابع کی استنادیت کی ضمن میں دینی علوم کا کوئی محقق ہی بہ تر رائے سے سکتا ہے۔عمومی پیش کشِ متن اس طرح ہے کہ پہلے سوال لکھا پھر اس کا بہ حوالہ تفصیلی جواب پیش کیا،جیسے :
’’سوال:شرف کیاہے؟جواں مردی کیا ہے اورعقل کیا ہے ؟ آپؓ نے فرمایا:شرف،وہ عزت افزائی ہے جو سلطان کی طرف سے کسی کو ملے۔جوان مردی ، اصلاح معیشت کا دوسرانام ہے اورجو خداکاتقویٰ اختیار کرے تو وہ عقل والاہے ۔ بحارالانوار،جلد۴۱؍۵۸،حدیث۱۱۔‘‘(۴۰ )
( ۲۹ )عیون اخبارالرضا،جلد اول :
محمدحسن جعفری نے ۵۶۰ صفحات پرمشتمل،عیون اخبارالرضا،جلد اول ،۱۲ربیع الاول ۱۴۲۱ھ کو عربی سے اردوترجمہ کرکے، اکبرحسین جیوانی ٹرسٹ کراچی سے پانچ سوکی تعدادمیں شائع کرائی۔تصنیف کی دوسری جلد بھی اسی ٹرسٹ سے شائع کرائی گئی۔ ’’عیون اخبارالرضا،جلد اول‘‘شیخ صدوق کی تالیف ہے ۔شیخ صدوق کا ،مسلکِ اہل ِتشیع میں شمارہوتا ہے ۔ان کا نام ابوجعفر الصدوق محمدؔبن علی بن حسین بن بابویہ قمی تھا۔ابوجعفران کی کنیت تھی۔ایران کے شہررے (تہران) میں پیدا ہوئے۔ ۳۵۵ھ میں بغدادآئے۔درس حدیث کا حلقہ قائم کیا۔تین سو کے لگ بھگ کتب تالیف کیں۔ابن ندیم نے الفہرست میں ان کی چالیس کتب کاتذکرہ کیا۔۳۸۱ھ میں وفات ہوئی۔ان کی مذکورہ تصنیف: علیؒ( رضا) بن موسیٰ (کاظمؒ) بن جعفر ؒ(صادق)بن محمدؒبن علیؒ بن حسینؓ بن علیؓ بن ابی طالبؒ کی مرویات پرمبنی ہے جواسلامی،مذہبی اورتاریخی معلومات کااہم خزانہ ہے۔علامہ محمدحسن جعفری کے ترجمہ کاانحصار سید مہدی الحسینی لاجوردی کے نسخے پرہے جنہوں نے متعددمخطوطات اور مطبوعہ نسخوں کی تقابل کے بعد اسے مدون کیا تھا۔کتاب کی اہمیت اورترجمہ کے بابت مترجم ’’عرض مترجم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’تعلیمات آل محمدؐ پرمبنی کتابوں میں عیون اخبارالرضا کوخصوصی مقام حاصل ہے۔اوریہ کتاب ہر دور میں ہمارے مآخذ ومدارک میں شمارہوتی رہی ہے۔لیکن ہمارے برصغیر کا اردو دان طبقہ عربی وفارسی نہ جاننے کی وجہ سے اس سے محروم تھا۔اس لیے بندہ نے خداپرتوکل کرتے ہوئے محدث اکبر شیخ صدوق رحمۃ اﷲ علیہ کی اسی کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔‘‘(۴۱ )
تصنیف کے آغاز میں دوصفحاتی ’’عرض مترجم نیزشیخ صدوق کا بہ قدر۲۵صفحاتی تعارف بہ عنوان :’’کچھ مصنف کے بارے میں‘‘پیش کردہ ہے۔ تصنیف۲۹ابواب اور۲۱۴ذیلی عنوانات کا حامل ہے جس کے ابواب درج ذیل ہیں:۔
’’لفظ رضا کی وجہ تسمیہ۔آپؒ کی والدہ ماجدہ کاتذکرہ۔امام علی رضاؒکی ولادت با سعادت۔امام موسیٰ کاظم ؒکی طرف سے آپ کی امامت پر نص۔امام موسیٰ کاظمؒ کا وصیت نامہ۔دوازدہ ائمہ کے ضمن میں آپ کی امامت پرنص۔امام موسیٰ کاظم ؒ۔ ہارون الرشید اورموسیٰ بن مہدی۔ وہ روایات جن میں امام موسیٰ کاظمؒ کی وفات ثابت ہوتی ہے۔امام موسیٰ کاظمؒ کے بعدہارون نے ایک ہی شب میں جن سادات کو قتل کیا۔فرقہ واقفیہ کیوں کر وجود میں آیا؟عقیدہ توحید کے متعلق امام علی رضاؒ کے فرامین ۔ دربارمامون میں مختلف ادیان کے علماء سے آپ[علی رضاؒ]کا مباحثہ۔خراسانی متکلم سلیمان مروزی سے آپؒ کا مباحثہ۔علی جہم سے عصمت انبیاء پرمباحثہ۔مامون الرشید سے عصمت انبیاء پرآپ کا دوسرامباحثہ۔حضرت کی روایت،اصحاب رس کون تھے؟حضرت کی زبانی وَفَدَینَاہُ بِذَبحٍ عَظِیمٍ کی تفسیر۔ حضرت کی زبانی آنحضرتؐ کی حدیث اناابنُ الذبیحینکی تشریح۔علامات امام پر حضرت کا فرمان۔وصف امام اورامام کے رتبہ وفضیلت پرآپ کاخطبہ۔آپ کی روایت کہ ایمان معرفت بالقلب ، اقرارباللسان اورعمل بالا ارکان کا مجموعہ۔حضرت کی زبانی عترت اور امت کا فرق۔آپ کی زبانی، شامی کے سوالات اورامیرالمومنین کے جوابات۔حضرت کا زید شہید کے متعلق فرمان۔ مختلف امورکے متعلق حضرت سے مروی روایات۔حضرت کی زبانی ہاروت وماروت کے قصے کی حقیقت۔ حضرت سے مروی متفرق روایات وجود حجت سے زمین قائم ہے۔حضرت سے منقول آنحضرت ؐ کی صفات۔ ‘‘
ابواب کے تحت پیش کردہ چند ذیلی عنوانات درجہ ذیل ہیں:۔امامت کا حق دارکون ہے؟۔دعائے حضرت امام حسینؓ۔امام موسی کاظمؓ اورہارون کا مکالمہ۔ مسجدکوفہ میں امیرالمومنینؓ کا خطبہ ۔امام علی رضاؓ کی ایک زندیق سے گفتگو ۔ جبرواختیارکا مفہوم۔خالق ومخلوق کے اسماء میں معنوی فرق۔نصرانی عالم سے مباحثہ ۔حروف ابجد کی تخلیق۔مومن اورکافر کی موت۔ علم ،عمل اوراخلاص ۔ فضائل ماہ رمضان۔درود کاثواب ۔فکر آخرت ۔ عظمت فاتحہ۔زاہد کون ہے؟کثافت کیا ہے؟ عربوں کی اولاد کے نام۔آنحضرت ﷺ کا انداز گفتگو۔
تصنیف میں دوعربی قصائدنوشتہ از صاحب اسماعیل بن عبادؒجو امام علی رضاؒ کی شان میں کہے گئے تھے ،ترجمہ کر دہ ہیں ۔ ایک بنیادی نوعیت کی علمی اور مذہبی کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھال کر جہاں مسلک اہل تشیع کی ضرورت پوری کی گئی وہاں دیگرمسالک کے پیروکاربھی اس کے مندرجات سے بہ آسانی استفادہ کرسکتے ہیں۔ ترجمہ کا اندازشستہ اورعالمانہ ہے۔ذیلی موضوع:’’آنحضرت کی محفلیں‘‘سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’آپ بیٹھتے توذکرخداکرتے اور اٹھتے توذکرخداکرتے اورمحفل میں جہاں آپؐ کوجگہ ملتی بیٹھ جاتے تھے۔اور لوگوں کو اسی بات کاحکم دیتے تھے۔اورتمام شرکائے محفل کویکساں مستفید ہونے کاموقع دیتے تھے۔اورآپ کاکوئی ساتھی یہ نہیں سمجھتا تھاکہ حضورؐ نے اس پرکسی دوسرے کوترجیح دی ہے۔اوراگرکوئی شخص حاجت لے کرآتا تواپنی مرادپاکر جاتا ۔کم از کم حضرت سے اچھافرمان سن کرجاتا۔‘‘(۴۲ )
( ۳۰ )عیون اخبارالرضا،جلد دوم :
محمدحسن جعفری نے ۶۲۴ صفحات پرمشتمل،عیون اخبارالرضا،جلد دوم ،۱۲ربیع الاول ۱۴۲۱ھ کو اردوترجمہ کرکے پانچ سوکی تعدادمیں شائع کرائی۔ ’’عیون اخبارالرضا،جلددوم‘‘امام علی رضاؒ کے سرچشمۂ احوال کی جلد اول کا تسلسل ہے جو۴۱ ابواب نیز ۳۹۵ذیلی عنوانات کی حامل ہے۔اس کے عناوین ابواب درج ذیل ہیں:۔
’’امام علی رضاؒ سے مروی اخبارِمنشورہ۔امام علی رضاؒ سے مروی اخبارکامجموعہ۔کتاب العلل۔محمدبن سنان کے جواب میں آپ نے جو علل واسباب تحریر فرمائے ۔بعض احکام شرعی کے علل واسباب ۔ نیشا پورمیں آمد کا بیان۔حدیث سلسلۃ الذہب۔آپ کی ایک نادرحدیث۔آپ کی نیشاپورسے طوس و مرو کی طرف روانگی۔آپ کی ولی عہدی کا بیان۔امام علی رضاؒ اورطلب باران۔امام کی طرف سے مامون اور اس کے حواریوں کی رسوائی کی دعا۔امام علی رضاؒ کی ذوق شاعری ۔ آپ کے اخلاق ۔ امامت وتفضیل کے متعلق مامون کا مناظرہ۔حضرت کی زبانی ائمہ کے دلائل غلاۃ مفوضہ کی تردید۔ امام کے چنددلائل امامت و[کرامات]۔خاندان بکارپربددعااوراس کا اثر۔آپ کی پیش گوئی کہ آپ بغدادنہ جاسکیں گے۔آلِ برمک کے لیے بددعااورپیش گوئی کہ رشید آپ کو کوئی اذیت نہ دے سکے گا۔ہارون کے ساتھ ایک مکان میں دفن ہونے کی پیش گوئی۔اپنی زہرخورانی اورہارون کے پہلو میں دفن ہونے کی پیش گوئی ۔اہل ایمان اوراہل نفاق کی صحیح پہچان۔آپ تمام زبانیں جانتے تھے۔ حسن بن علی وشاء کے سوالوں کے جوابات۔ابوقرہہ صاحب جاثلیق کے سوال کا جواب ۔ مسئلہ امامت کے متعلق دربارمامون میں یحییٰ بن ضحاک سمرقندی کاجواب۔حضرت کااپنے بھائی زید النار سے خطاب۔اسباب شہادت۔امام محمدتقی کی امامت پر نص۔حضرت کی شہادت مامون کی زہرخورانی سے واقع ہوئی۔طریق خاصہ سے شہادت کی اور روایت۔ابوصلت کی زبانی شہادت کی روایت ، انگوروں میں زہردیاگیا۔شہادت کی روایت بہ زبان ہرثمہ۔آپ کی شہادت پر لکھے گئے چند مرثیے۔ امام علی رضاؒ کی زیارت کاثواب۔حضرت معصومہ قم کی زیارت کی فضیلت۔امام علی رضاؒ کی زیارت کا طریقہ مع دعائے زیارت۔امام علی رضا ؒکے روضہ اطہر سے کرامات کا ظہور۔
’’عیون اخبارالرضا،جلددوم‘‘‘کی ضخیم تصنیف، حضرت امام علی رضاؒ کی حیات ،شخصیت ،فرمودات اوردینی مسائل کے بیان پرمنحصر ہے جو مسلک اہل تشیع کی اہم ماخذہے ۔اس میں اسلامی معلومات کے علاوہ عباسی دور کے بارے میں حیران کن معلومات ہیں جن کی استنادیت پر عالم دین ہی بہ تررائے دے سکتے ہیں۔تاہم مذہبی وتاریخی معلومات کاایک مرقع اردو میں منتقل کیا گیا جس میں قرآنی آیات،عربی اشعار اوردعاؤں وغیرہ کے متن دے کران کا بھی اردو ترجمہ پیش کیا گیا ۔ ترجمہ عالمانہ ہے۔امام علی رضاؒ سے متعلق ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’اگرمیراسابقہ کسی ایسے جاہل حاکم سے پڑجائے کہ کسی معاملے میں بھی اس کے لیے صحیح راستے پر چلنامحال ہوتومیں یہی بہ تر سمجھتا ہوں کہ سکوت اختیار کروں۔اورکبھی کبھی یہ سکوت بھی ازخودایک طرح کا جواب ہے۔‘‘(۴۳ )
( ۳۱ )قلب سلیم،جلداول :
علامہ محمدحسن جعفری نے ۴۴۷ صفحات کی حامل، قلب سلیم،جلداول ،۲۰۰۳ء میں حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،کراچی سے شائع کرائی۔اس کی دیگرتین جلدیں بھی اسی ادارے سے شائع کرائی گئیں۔علامہ محمد حسن جعفری بلوچ نے :دیارِسعدیؒ وحافظؒ کے ایرانی عالم سید عبدالحسین دست غیب شیرازی کی تصوف پرمبنی فارسی تصنیف کا اردو ترجمہ پیش کیا ۔لفظ’’قلب سلیم‘‘ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے مذکورہوا ہے۔سلامت دل، معرفتِ الٰہی کا امین ہوتا ہے۔’’قلب سلیم، جلداول‘‘ میں بنیادی طورپر دو موضوعات : عصیانِ قلب یا عارضۂ دل نیز روح کے عوارض بیان کیے گئے۔روح کے چھ عوارض:کفر،نفاق، شرک، شک، سنگ دلی، ریا یا شہرت طلبی بتائے گئے۔انہی موضوعات کو۵۰۵ ذیلی عنوانات کے تحت پیش کیا گیا۔ کچھ منتخبہ ذیلی عنوانات بہ طوراجمالی خاکہ درج ذیل ہیں:۔
’’جنت صاحبان قلب سلیم کے لیے ہے۔جسمانی گناہ عارضہ قلب کاموجب ہے۔قرآن زندگی عطا کرتا ہے ۔ کافر کا دل بھیانک ویرانہ ہوتاہے ۔اقسام کفر۔باطن کی دوآنکھیں یا قلب کا نور۔تقیہ اور نفاق میں فرق۔خداکی مہربانی اور رحمت۔خداقریب ہے مگرجسم نہیں رکھتا۔خداکی رضا۔ کائنات کاعلم۔ معرفتِ خدا۔بندگی اور معرفت۔کائنات کا خالق ومالک۔آئینہ دل کی صفائی۔یاد خداکی اقسام۔خداکوبھلادینااپنے آپ کو بھلا دینے کے مترادف ہے۔ انسان:بدن اورروح کا مرکب ہے ۔ذکرخدا لا محدودہے۔نمازتہجدکی تاکید۔صوفیوں کا عقیدہ اوران کی گمراہی ۔ خدا کی قربت کا ذوق ۔ یقین کی علامات ۔خشیت اﷲ۔ حالت یقین میں عمل کی اہمیت۔راحت بدن راحت قلب میں مضمر ہے۔شرح صدر کی علامات۔توحید ذاتی۔توحید صفاتی ۔نبوت پریقین۔ بزرگان دین کی معیت حاصل کریں۔امام جعفرصادق کی اپنے غلام سے گفتگو۔خداہروقت حاضر وناظر ہے۔نفس امارہ۔ مالک بن دینارکی توبہ۔قساوت کیاہے؟۔ہمیشہ یاد خدا کیسے کی جائے۔خداسے حیا کا انداز ۔ یقین قطعی علاج ہے ۔اخلاص کے مراتب۔قرب خداوندی کے جذبہ سے عبادت ۔عشق عبادت دل کا سکون ہے۔توجہ الی اﷲ کا مفہوم۔تمام دنیاوی امورمیں اگر نیت درست ہو توعبادت ہے۔ ‘‘
تصوف میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق اوراس کی مشیت کوپہچانے۔اس کی آرزوکے مطابق روش اختیارکرکے اس کی خوش نودی سے کامیابی حاصل کرے۔یہی غایتِ حیات ہے۔تصنیف میں موضوعِ بحث اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے جہاں فکری عمق کی ایمان افروز مثالیں بیان کر کے معرفت الٰہیہ کی طرف متوجہ کرنے کی سعی کی گئی ۔ فارسی کے انہی گنج ہائے گراں مایہ کو ترجمہ کر کے اردو کا علمی اثاثہ بنایاگیا۔جہاں کہیں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ ،عربی عبارات اورفارسی اشعار آئے، ان کا بھی رواں اردو ترجمہ کیاگیا۔ایک مثال بہ حوالہ معرفت بہ طوراقتباس ملاحظہ ہو :
’’ایک روشن ضمیربزرگ نے کہا...میں ایک دن بردہ فروشوں کے بازارمیں غلام خریدنے کے لیے گیا۔تووہاں مجھے ایک غلام پسندآیا۔میں نے غلام سے پوچھا:تیرانام کیا ہے؟اس نے کہا:جس نام سے تم پکاروگے وہی میرانام ہوگا ۔ میں نے پوچھا:کیامیں تجھے خریدلوں؟اس نے کہااگرچاہوتوخریدلو۔میں نے کہا:تیری خوراک کیا ہوگی؟اس نے کہا:جوتم کھلاؤگے۔میں نے کہا:تم کیسالباس پسند کرتے ہو؟اس نے کہا:جوتم پہننے کے لیے دوگے۔میں نے کہا:تم کس طرح کے مکان میں رہناپسندکروگے؟اس نے کہا:جہاں تم ٹھہراؤگے۔میں نے... کہا:غلام توکیسے جواب دے رہاہے،تونے اپنی ایک بھی خواہش بیان نہیں کی۔غلام نے کہا:جناب غلام اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوتااسے اپنے آقا کی مرضی کا پابندرہنا پڑتا ہے۔جیسے ہی میں نے غلام کا یہ جواب سناتومیری آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹ گیا۔ ...کاش میں بھی اپنے آقاکا ایک دن کے لیے ایسا ہی غلام ہوتا!‘‘(۴۴ )
( ۳۲ )قلب سلیم،جلددوم :
’’قلب سلیم‘‘ جلدا ول کا تسلسل: ۴۹۶ صفحاتی ، قلب سلیم،جلددوم ،۲۰۰۳ء میں شائع کرائی گئی جس میں دیباچہ کے علاوہ سات جلی عنوانات: خودپسندی ۔ تکبر ۔ سوئے ظن۔کینہ وبغض ۔حسد ۔ حُب دنیا۔گناہ پرآمادگی اوررضا مندی نیز۶۲۲ کے لگ بھگ ذیلی عنوانات کے تحت تصوف کے بارے متنوع مضامین پیش کیے گئے۔ان عناصر کوبھی زیربحث لایاگیا جومعرفت الٰہیہ میں حائل ہوتے ہیں۔تصنیف سے کچھ منتخبہ عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’راہ ِتوحیدقلب سلیم کی راہ ہے۔خودپسندی ایک بیماری ہے۔کہاں نازکہاں نیاز؟اپنے جسم ،زور ، عقل،نسب اوردولت پرنازکرنا۔خودپسندی کا علاج:خدا شناسی۔ایازقدرِخودرابہ شناس۔ گفتارو کردارمیں تکبر۔کبرجنت کی رکاوٹ۔کبرپست نفسی کا نتیجہ ہے۔متکبرحقیقت میں پاگل ہوتا ہے۔علم ودانش بہ منزلہ غذاہے۔تواضع کو ملکہ بنالیں۔ہرتازہ نعمت پر سجدہ۔ سلام میں پہل۔خداکے متعلق حسن ظن رکھنا۔بدگمانی بے انصافی ہے۔بدگمان ہمیشہ تکلیف میں رہتاہے ۔بدگمانی کا علاج۔اپنے آپ کو دوسروں سے بلندتر نہ سمجھیں۔صابرین کو بے حساب اجردیا جائے گا۔غصہ ضبط کرنے کی روایات ۔ حسدجنت سے نکال دیتاہے۔بخل :ایمان وبہشت سے مطابقت نہیں رکھتا۔برتن سے وہی ٹپکتاہے جو اس میں ہوتا ہے ۔ کیاحُب دنیا ایک فطری عمل ہے؟حُب دنیا عقل کو اپاہج کردیتی ہے۔دل خانہ خدا ہے مگرویران؟ یاد خدا سے غافل نہ رہنے والے مردانِ خدا۔نماز ِشب کے ثواب کا نامۂ اعمال میں اندراج۔شہدائے کربلا کے ساتھی۔ ‘‘
تصنیف جلداول کی طرح اخلاقی تربیت کا گنجینہ ہے۔ فارسی مذہبی ادب کو اردو ادب میں منتقل کیا گیاہے ۔ جہاں افعال واعمال طالح سے اجتناب اورعمال صالح کی طرف رجوع کرنے کی مثالیں دی گئی ہیں۔ قرب الٰہی کی حصول کے لیے حکیمانہ انداز میں رغبت دلانے کی چارہ جوئی ہے۔ تصنیف میں عربی اورفارسی متون ترجمہ کردہ ہیں۔ ترجمہ عالمانہ ہے۔ ایک مترجمہ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’کیاانسان ایک مادی حیثیت رکھنے والاجان دارہے اورموت سے فنا ہوجاتاہے یاانسان کے لیے جاودانی زندگی بھی ہے؟...انسان اگرچہ خاکی ہے... اورموت کی وجہ سے اس کا خاکی جسم تباہ ...ہوجاتاہے مگراس کی روح اوراس کی حقیقت، ابدی اورجاودانی ہے۔اورروح فناپذیرنہیں ہے۔انسانی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس کی روح مقام تکامل اور قرب پروردگار کی منزل کوحاصل کرے اور قرب الٰہی کی برکات سے بہرہ مندہو۔‘‘(۴۵ )
( ۳۳ )کربلاکاتاریخی پس منظر،جلداول :
مولانامحمدحسن جعفری نے دسمبر۲۰۰۴ء میں ایرانی عالم موسیٰ خسروی کی فارسی تصنیف: ’’پندِتاریخ، حصہ ششم‘‘کا اردوترجمہ کرکے کربلاکاتاریخی پس منظر،جلداول ،کی صورت :ادارہ تبلیغات علوم آل محمدؐکراچی سے شائع کرائی جو۳۶۴ صفحات پرمحیط ہے ۔ تصنیف پانچ ابواب:دین تمام مادی ضروریات پرمقدم ہے۔ اعرابِ جاہلیت اور اسلام کی ترتیب ۔رسولِ اکرمؐ نے تبلیغ کے لیے کتنی زحمات اٹھائیں۔وصالِ رسول اکرمؐ اور دین میں تبدیلی۔خلافتِ عثمانؓ بن عفان؛ نیز ۹۳ ذیلی عناوین کی حامل ہے۔اس کے آغاز میں: شیخ موسیٰ خسروی کے نوشتہ ’’ابتدائیہ ‘‘کاترجمہ پیش کردہ ہے۔تصنیف میں موضوع سے متعلق پیش کردہ کچھ چیدہ عنوانات درج ذیل ہیں :۔
’’مومن ِآل فرعون ۔آسیہ زنِ فرعون کی کہانی۔باپ پیاراہے یادین؟اپنے فرزند کی شہادت کو فراموش کرنے والی خاتون(والدہ سعد بن معاذؓ)۔تاریخ اسلام کا پہلا شہید کون تھا(یاسرؓ اور سمیعہؓ) ؟عربوں کی بت پرستی۔عرب اور جنگ وغارت۔اوس اور خزرج کی جنگ۔انصار کا مشرف بہ اسلام ہونا۔ جاہلانہ رسوم کو اسلام نے کس طرح ختم کیا؟ قصاص در اسلام۔اسلام نے لٹیروں کی تربیت کیسے کی؟اذیتِ پیغمبراکرمؐ۔قریش کی اذیتیں۔سفرِ طائف۔ حضرت ابوبکرؓسے یہودی کے سوالات ۔نصرانی مسافرین اوران کے سوالات۔خلافت ِحضرت عمرؓ بن خطاب۔کیاایک مجرم کو دوسزائیں دینا جائز ہے؟خلیفہ اور ایک عجیب الخلقت انسان۔شب قدر کے متعلق رائے طلب کرنا۔خلافتِ حضرت عثمان بن عفانؓ۔ ‘‘
تصنیف،اہل تشیع کے زاویہ نظر سے نوشتہ ہے جس میں خلفا ئے راشدین: حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت عمرفاروقؓ اورحضرت عثمان غنیؓ کی شخصیت وخلافت کے حوالے سے ایک خاص سوچ کا اظہار ملتا ہے۔عجم وعرب کے اختلافات بعثت نبویؐ اورخسروپرویزکے وقت سے تاریخ کا حصہ ہیں چناں چہ اہل عجم کو اہل عرب کے اختلافات پرخیال آرائی سے سیاسی تقویت ملتی ہے۔شیخ موسیٰ خسروی کی اس تصنیف میں اسی سوچ کا ادراک ہوتاہے ۔ تصنیف میں واقعہ کربلا سے قبل کے احوال وواقعات پیش کردہ ہیں ۔یہ ذکرِواقعاتِ کربلا سے تقریباًخالی ہے ۔عرب تاریخ ،ثقافت ، نظامت ،معاشرت ، مذہب ،سوچ اوررویوں پر معلومات ملتی ہیں۔سہل الترجمہ ہے ۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’جب اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو اعلانیہ تبلیغِ رسالت کا حکم دیا توآپؐ نے مسجد الحرام میں حجرِاسماعیل ؑکے پاس ایک گروہ سے فرمایا:’اے گروہِ قریش ! میں تمہیں لا الہ الا اﷲ کہنے اور اپنی نبوت کے اقرار کی دعوت دیتاہوں۔اگرتم نے میرے بات مان لی اوریہ گواہی دی تو تم عرب وعجم پر حکومت کروگے اور تمہارا مقام جنت ہوگا۔‘حاضرین نے رسول اکرؐم کی زبان مبارک سے جیسے ہی پیغام سناتو...کہنے لگے محمدؐ دیوانہ ہو گیاہے۔نعوذباﷲ۔‘‘(۴۶ )
( ۳۴ )مجالس المومنین :
محمدحسن جعفری نے ۱۰۲۲صفحات پرمشتمل،مجالس المومنین ،۱۴۲۱ھ میں فارسی سے اردوترجمہ کے اکبرحسین جیوانی ٹرسٹ کراچی سے پانچ سوکی تعدادمیں شائع کرائی۔’’مجالس المومنین ‘‘علامہ قاضی نوراﷲ شوستری (۹۵۶ھ۔۱۰۱۹ھ)کی نوشتہ ہے جوشہرِشوستر واقع نواحِ خوزستان ایران میں پیدا ہوئے۔اکبر بادشاہ کے عہد۹۹۳ھ میں عازم ہندوستان ہوئے۔قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز کیے گئے۔ اہل تشیع مسلک سے تعلق تھا۔اسی مسلک کی کتاب’’تحقیق الحق‘‘خفیہ طورپر لکھنے کی پاداش میں عہدجہاں گیرمیں مقتول ہوئے۔اکبرآبادآگرہ میں مزارہے ۔ آغازتصنیف میں مصنف کابہ عنوان ’’شہید ِثالث ایک نظر میں‘‘ دوصفحاتی تعارف ہے۔بعد ازیں تین صفحاتی’’ عرضِ مترجم‘‘ اورپھرمصنف کاچار صفحاتی’’مقدمۂ کتاب‘‘ پیش کرد ہ ہے۔ تصنیف میں مسالکی تعارف نیزتین متفرق موضوعات: اماکن،قبائل اور اشخاص مذکورہوئے۔جہاں ۴۹ اماکن،۳۱اقوام وقبائل عرب وعجم، ۲۸ صحابہ کرام ومشاہیربنی ہاشم،۷۱ صحابہ کرام غیر بنی ہاشم،۹۲ اکابردین اززمرہ تابعین اور۲۵۳ علماء ورجال مذکورہوئے ۔ تصنیف کے بارے مترجم ’’عرض مترجم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’دراصل یہ تاریخ تشیع ہے۔اس میں شیعی مراکزاورشیعی شخصیات اوران کی خدمات کا تفصیل سے ذکرکیا گیا ہے۔اور کتاب چوں کہ فارسی میں تھی...اس لیے اردو قارئین اس کتاب سے اکتساب نورکرنے سے قاصرتھے۔چناں چہ اسی تشنگی کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔تاکہ برصغیرکے کروڑوں افراد اس سے مستفید ہوسکیں۔‘‘(۴۷ )
مندرجاتِ تصنیف کی بابت مصنف خودمقدمۂ کتاب ‘‘میں لکھتے ہیں کہ :
’’میں نے مناسب جانا کہ طریقہ مرتضویہ کے پیروکارصحابہ کرام اورمجتہدین عظام اورمحدثین وحکماء وعلما اورصوفیا کرامت مقام اور سلاطین وقت اور وزرائے مملکت اور فصیح الکلام شعرا ء کے حالات جمع کیے جائیں اور استمداد علویہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور یوں یہ مجموعہ تیار ہوا۔ ‘‘(۴۸ )
تصنیف میں جن سینکڑوں اماکن،قبائل،صحابہ کرام ،تابعین ا وراکابرین کے بارے معلومات ترجمہ کردہ ہیں ، ان میں سے کچھ منتخبات بہ طور اجمالی خاکہ درج ذیل ہیں:۔
اماکن:عرش مجید۔دارالسلام(جنت)۔اعراف۔کعبہ۔مدینہ طیبہ۔غدیرخم۔فدک۔کوفہ۔نجف اشرف۔کربلامعلی۔ دمشق۔ قاہرہ۔ حلب۔ موصل ۔باب الکرخ۔جزائرخوزستان ۔شوستر۔بحرین۔ یمن۔ہمدان۔تبریز۔شہرقم۔ کاشان ۔ شیراز۔رے ۔طالقان ۔جیلان ۔دیلمان۔ طبرستان ۔ آمل ۔ جرجان۔ تون ۔سبزوار۔نیشا پور۔مشہد۔سیستان۔ کشمیر۔ تبت۔قبائل و فرقہ جات:اوس وخزرج۔ بنوحنیف ۔[مغیری] ۔ ہمدان۔شبام۔مذحج۔ربیعہ۔مضر۔ازد ۔وائل۔ خزاعہ ۔ ضمیریہ۔ طے۔ نادریہ۔عقیراویہ۔بنی شکر۔مزرعیہ۔ معتزلہ ۔بنی کمونہ۔بنی مختار۔ موسویہ۔رضویہ۔بخاری سادات ۔ انجویہ۔مرعشیہ۔ عقیلی۔دیلمیہ ۔ کرجیہ۔ بوہرہ۔صدیقیہ۔ ہزارہ۔ بلوچ۔صحابہ کرام و تابعین و مشاہیربنی ہاشم و اکابرین حضرات: ابوطالب۔امیر حمزہؓ۔ جعفرطیارؓ۔ عباس بن عبدالمطلبؓ ۔ عبداﷲ بن عباسؓ۔عون بن جعفرطیارؓ۔عقیل بن ابی طالبؓ ۔ عباس بن عتبہؓ۔نوفل بن حارثؓ۔مغیرہ بن حارثؓ ۔ عبداﷲ بن زبیرؓ۔مسلم بن عقیلؓ۔سعیدبن حارثؓ۔ مقدادبن اسودؓ۔سلمان فارسیؓ ۔ عماربن یاسرؓ۔ابوذرغفاری۔ؓابوایوب بن زیدانصاریؓ،سعدبن عبادہؓ۔حجربن عدیؓ۔ اسامہ بن زیدؓ۔براہ بن مالک ؓ۔ حارثہ بن سراقۃ انصاریؓ ۔ عبداﷲ بن بذیل بن ورقاء خزاعیؓ۔عمروبن الحمق الخزاعیؓ ۔ ثابت بن زیدؓ۔ثابت بن ضحاک خزرجیؓ ۔ عبدالغفاربن قاسم بن قیس بن فہدانصاریؓ ۔ محمدبن عمرو بن حزم انصاریؓ ۔ ابوساسانؓ۔مالک بن نویرہ حنیفی الیربوعیؓ ۔ بلالؓ بن ریاح مؤذن رسول ﷺ ۔ ابو سعید خدریؓ۔سیدالتابعین ابوالقاسم محمدبن امیرالمومنین حضرت علیؓ (محمدحنیفہؓ)۔امام زین العابدینؓ ۔ محمد بن ابی بکرؓ۔اویس قرنی یمنیؓ۔مالک بن حارث اشترؓ۔ابوموسی اشعریؓ۔ زیدبن صوحانؓ۔جعدبن ہبیرہ ؓ۔حبیب بن مظاہر اسدیؓ ۔ ضراربن ضمرہؓ۔قنبرؓغلام امیر المومنینؓ ۔خوات بن جبیرؓ۔زیادبن کعب بن مرحبؓ۔ سفیان بن یزیدؓ۔ شرحبیلؓ۔عمروبن دینارکوفیؓ۔مسوربن محزمہ زہری۔ ابوعمر و فارسی ۔ سعیدالبکری الجریری۔ ابو خالد کابلی۔ابوحمزہ ثمالی۔ زرارہ بن اعین شیبانی کوفی۔حارث بن مغیرہ بصری۔عبداﷲ بن علی بن شعبہ حلبی۔اسحاق بن اسماعیل نیشاپوری۔حسن بن موسیٰ بن نوبختی۔علی بن حسین بن علی المسعودی الہمدانی۔ رئیس المحدثین محمدبن یعقوب بن اسحاق کلینی الرازی۔حسن بن علی طوسی۔سیدکریم ابومکارم حمزہ بن زہرہ حسینی الحلبی۔ احمد بن نذراﷲ دیبلی ٹھٹھوی سندھیؒ۔
تصنیف میں مسالک کی موضوعاتی معلومات :لفظ شیعہ،شیعہ امامیہ،اثنا عشریہ کی تعریف ، ضرورت امام،بارہ خلفاء وغیرہ فراہم کردہ ہیں۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی تاریخ ،طرزمعاشرت، اسلاف کی سرگذشتِ حیات،افعال وعمال، عقائد ،باہمی کش مکش،جغرافیہ کا ایک وسیع منظرنامہ پیش کردہ ہے ۔علامہ محمدحسن جعفری کھوہ سغ بلوچ نے معلومات کے اس ضخیم ذخیرہ کو تن تنہا اردو میں ترجمہ کیا جو ہر کہہ ومہ کے بس سے باہرہے۔تصنیف میں مصنف نے اگرچہ سابقہ کتب کی مدد سے وافر معلومات مرتب کیں مگرمندرجات سے ایک خاص زاویہ نظرکا ادراک ہوتا ہے جہاں کہیں کہیں متن میں ان کے لیے اہلِ سنت کے حوالے سے اپنا علمی وقار برقرار رکھنا مشکل ہوگیاہے۔مترجم نے متن کامن عن ترجمہ کیا ۔ اسلوبِ ترجمہ عالمانہ ہے۔ ایک اقتباس بہ طور نمونہ، دربارہ قبیلہ بنوحنیف ملاحظہ ہو :
’’یہ قبیلہ دیہات نشین عربوں پر مشتمل ہے۔حضرت رسالت مآب ﷺ کی حیات طیبہ میں انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اس قوم کا سردار مالک بن نویرہؓتھا جوکہ ایک بہادراورفصیح وبلیغ شخص تھا۔اورحضرت رسول خداؐنے اسے اس کی قوم کے صدقات وصول کرنے پرمامورکیا تھا اوروہ احسن انداز سے اپنی ذمہ داری کوپوری کرتے رہے۔‘‘ (۴۹ )
( ۳۵ )معجزات آل محمدؐ،حصہ اول :
حجۃ الاسلام، مولانا محمدحسن جعفری نے ۴۷۱ صفحات کی حامل ،معجزات آل محمدؐ،حصہ اول ، طبع دوم،۲۰۰۵ء میں ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ،لاہورسے پانچ سوکی تعدادمیں شائع کرائی ۔علامہ محمدحسن جعفری نے، علامہ سید ہاشم بن سلیمان بن اسماعیل بن عبدالجوادبن علی بن سلیمان بن سیدناصر الحسینی البحرانی التوبلی الکتکتانی کی عربی تصنیف’’مدینۃ المعاجز الائمہ الاثنی عشرہ ودلائل الحجج علی البشر‘‘کا ’’معجزات آل محمدؐ‘‘ کی صورت اردوترجمہ کیا۔ حضرت علیؓ اورآل محمدؐ کی کرامات پر مبنی عربی تصنیف آٹھ جلدوں کی حامل ہے تاہم ترجمہ چارجلدوں میں تلخیص کی صورت میں پیش کیاگیا۔اوردیگرجلدیں بھی متذکرۃ الصدر ادارے سے شائع کرائی گئیں ۔مسلک اہل تشیع سے وابستہ علامہ بحرانی امام موسیٰ کاظم کے اخلاف سے تھے۔ نجف سے دینی تعلیم حاصل کی۔۷۵ کتب کے مصنف تھے۔ ۱۱۰۷ھ یا ۱۱۰۹ھ کو انتقال ہوا ۔ مزارایران وعراق کے سرحدی شہر توبلی میں ہے۔
مترجمہ تصنیف کے آغاز میں دوصفحاتی پیش لفظ بہ عنوان :’’معجزوں کا شہر‘‘ناشراور سربراہ ادارہ منہاج الصالحین ریاض حسین جعفری فاضل قم کا ،جب کہ بارہ صفحاتی’’مقدمہ‘‘ بہ عنوان:’’کچھ اپنی زبان میں‘‘ مترجم کا پیش کردہ ہے جہاں مصنف اوران کی اکاون کتب کا تعارف پیش کیا گیا ۔ تصنیف کے حصہ اول،باب اول میں ۲۰۲ذیلی عنوانات کے تحت حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ کی کرامات ترجمہ کردہ ہیں۔ان میں سے کچھ چیدہ عناوین درج ذیل ہیں:۔
’’درخیبر اکھاڑنا۔علیؓ کی تلوار کا وزن۔جنگ صفین۔شب ہجرت علیؓ کاایثار۔شب معراج کا واقعہ۔ آپ کی دعاکااثر ۔ حضرت علیؓ کا تبحر علمی۔محمدحنیفہ اوروالدہ خولہ کا واقعہ۔حضرت شہربانوکا واقعہ اور زین العابدین کی ولادت۔ایک نصرانی عالم کا دل چسپ واقعہ۔دعائے خضر علیہ السلام۔حضرت علیؓ کی حقیقی معرفت ۔آپ چوتھے خلیفہ ہیں۔مومن جنات کا جزیرہ۔ نہر کوفہ کی پیش گوئی۔حبیب ابن مظاہر اورمیثم تمار کی گفتگو۔عباسی خلیفہ راضی باﷲ کا خواب۔ ‘‘
تصنیف میں کراماتی واقعات کو معجزہ لکھا گیاہے۔اوریہ بہ حوالہ وبہ سند پیش کردہ ہیں ۔ تاہم محولہ مآخذ کی استنادیت کے بارے میں کوئی صاحب نظر عالم ہی بہ تر رائے دے سکتا ہے نیزیہ جملہ احوال وواقعات دیگر مسالک کے لیے کس قدرقابل اعتبار ہیں، بھی ایک الگ بحث ہے۔فی الواقعہ وافر اسلامی معلومات، عربی احوال ومحیرالعقول قصص کو بہ توسط سہل ترجمہ اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔عنوان:’’درخیبراکھاڑنا‘‘سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’آپؓ نے فرمایا:جب میں نے خیبر کا دروازہ اکھاڑاتومیں نے اسے اپنی ڈھال بنالیا۔اور میں نے اسے ڈھال بنا کر یہودیوں سے جنگ کی۔اور جب اﷲ نے انہیں رسواکردیا تومیں نے اس دروازے کو خندق پر ڈال دیا۔ایک شخص نے آپ سے کہا،یاعلیؓ!آپ کواس کا بوجھ تو محسوس ہواہوگا؟آپ نے جواب دیا،مجھے در خیبر کا بوجھ اس ڈھال جتنا ہی محسوس ہواہے جسے میں پہلے اٹھایا کرتا تھا۔‘‘(۵۰ )
( ۳۶ )معجزات آل محمدؐ،حصہ دوم :
۵۲۰صفحاتیمعجزات آل محمدؐ،حصہ دوم ،جون۲۰۰۴ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔مترجم نے’’مدینۃ المعاجز‘‘ کے مزید مندرجات کی تلخیص ’’معجزات آل محمدؐ،حصہ دوم‘‘کی صورت اردو ترجمہ کرکے پیش کی گئی جوچارابواب اور ۲۸۲ ذیلی عنوانات کی حامل ہے۔ آغاز تصنیف میں دوصفحاتی پیش لفظ بہ عنوان :’’معجزوں کا شہر ‘‘ علامہ ریاض حسین جعفری کا نوشتہ ہے جہاں وہ مترجم کے اسلوب ترجمہ کے بابت لکھتے ہیں کہ :
’’برادر بزرگوارحجۃ الاسلام مولانا محمدحسن جعفری صاحب نے سلیس اوررواں دواں ترجمہ وتلخیص کی ہے۔آپ صاحبِ اسلوب مترجم ہیں جوبڑی جاں فشانی اور تن دہی سے اپنافرض منصبی سمجھتے ہوئے سرعت کے ساتھ ترجمہ کرتے ہیں۔بڑے بڑے مشکل سے مشکل مفہوم کو آسان پیرائے میں ڈھالنے کا ڈھب آپ کوآتاہے۔‘‘(۵۱ )
تصنیف میں پیش کردہ ابواب اوران کے تحت قائم کردہ کچھ چیدہ ذیلی عنوانات درج ذیل ہیں:۔
باب دوم ،حضرت امام حسنؓ :آپ کی ولادت باسعادت۔ایک چٹان سے شہدبرآمد کرنا۔سمندروں اورکشتیوں کا دکھانا۔ پتھرپر انگشتری کا نشان ثبت کرنا۔ آسمانی انار۔خضرعلیہ السلام کے سوالوں کا جواب دینا۔باب سوم،حضرت امام حسینؓ: آپ کی دعا سے بارش کا برسنا۔آپ کے اصحاب کو تلواروں اور نیزوں کا درد محسوس نہیں ہوتاتھا۔ہرنی کا اپنے بچے کو لانا۔جنت کے جوانوں کا سردار۔ امام حسینؓ کے سامان لوٹنے والوں کا انجام۔انتقام پروردگارمختارثقفی کا کارنامہ۔ لوگوں کو قتل حسین کا علم کیسے ہوا؟باب چہارم،حضرت امام زین العابدینؒ:زندان کے محافظوں سے فارسی زبان میں گفتگو کرنا ۔ حجراسود کی گواہی ۔جنات کی امام سے عقیدت۔یزید سے گفتگو۔حضرت خضرؑ کی آپ سے گفتگو۔دشمن سے محفوظ رہنے کی دعا۔ حضرت کا لوگوں کو دکھائی نہ دینا۔قصیدہ فرزوق ۔ذبح شدہ ہرنی کا زندہ ہونا۔چڑیوں کی بولی سے آشنائی۔ باب پنجم، حضرت امام محمد باقرؒ:اینٹ ہٹاکردسترخوان برآمدکرنا۔لکڑی کا پیالہ جسے آگ نہ جلاتی تھی۔ہرشخص اسم اعظم کا متحمل نہیں ہے۔اپنی موت کے وقت سے آگاہ ہونا۔ایک کھجورکاچل پڑنا۔بنی امیہ کے زوال اور بنی عباس کی حکومت کی پیش گوئی۔ ‘‘
تصنیف میں فرزندان حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ اوران کی اولاد محترم کے کراماتی واقعات ،تاریخی حالات اور دینی معلومات کو اردو ترجمہ کرکے پیش کیاگیا ۔اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’’میں[عمربن حنظلہ]نے عرض کیا،مجھے اسم اعظم کی تعلیم فرمائیں۔آپ[امام محمدباقرؒ]نے فرمایا :کیا تم میں اس کی برداشت کی قوت موجود ہے؟میں نے کہا جی ہاں!...فرمایا،اچھا اس مکان کے اندرآؤ۔...آپ نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھاتومکان میں اندھیراچھاگیا۔یہ دیکھ کر... مجھ پرکپکپی طاری ہوگئی۔... فرمایا،کیا اس حالت میں، میں تمہیں اسم اعظم کی تعلیم دوں؟میں نے عرض کیا نہیں۔پھرآپ نے اپنا ہاتھ زمین سے اٹھالیاتوگھرمیں روشنی ہوگئی۔‘‘ (۵۲ )
( ۳۷ )معجزات آل محمدؐ،حصہ سوم :
۵۱۲صفحاتی معجزات آل محمدؐ،حصہ سوم ،اکتوبر۲۰۰۶ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔ ’’مدینۃ المعاجز‘‘ کے مزید مندرجات کی تلخیص ’’معجزات آل محمدؐ،حصہ سوم‘‘ کی صورت میں اردو ترجمہ کرکے پیش کی گئی جوتین ابواب اور ۳۲۱ذیلی عنوانات کی حامل ہے۔ آغاز تصنیف میں تین صفحاتی پیش لفظ بہ عنوان :’’معجزوں کا شہر‘‘ علامہ ریاض حسین جعفری کا نوشتہ ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ہم نے...تیسری جلدکا ترجمہ پیش کیاہے۔تاکہ اردو خوان حضرات اس سے استفادہ کرسکیں۔...ترجمہ کے فرائض حجتہ الا سلام مولانا محمد حسن جعفری صاحب قبلہ نے انجام دیے ہیں۔‘‘(۵۳ )
تصنیف میں پیش کردہ ابواب اوران کے تحت قائم کردہ کچھ چیدہ ذیلی عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’باب ششم ،حضرت امام جعفر صادقؒ :آگ سے بہ خیریت گزرنا۔جنات کی پہچان۔گٹھلی کا درخت بن جانا۔کوثر کی سیر۔ بھیڑیے سے گفتگواورپہاڑ کا چلنا ۔شیرکی سواری۔ابومسلم خراسانی کے مستقبل کی پیش گوئی۔پانی کا چشمہ برآمدکرنا۔ماہر انساب کلبی سے گفتگو۔آپ کی دعا سے زخم کا مندمل ہوجانا ۔ ایک سندھی کو خواب میں قرآن کی تعلیم دینا۔آپ تمام زبانوں کے عالم تھے۔امام ابوحنیفہ سے گفتگو ۔ سمندر کے نیچے کیاہے؟۔حضرت کی ناقہ کا پرواز کرنا۔باب ہفتم،حضرت امام موسیٰ کاظمؒ:ہارون الرشید کا خوف زدہ ہونا۔برق زدہ شخص کو جلددفن نہیں کرنا چاہیے۔منطق الطیرسے آشنائی۔زمین سے سونا برآمد ہونا۔زندان سے نکلنا اورمستقبل سے آگاہ ہونا۔دریا پر حکمرانی۔باب ہشتم،حضرت امام علی رضاؒ:پتھر سے پانی برآمد کرنا۔صحرا میں پھل کھلانا۔جنات سے گفتگو۔زمین سے رقم برآمدکرنا ۔ لقب رضا کی وجہ۔ایک خواب کی تعبیر۔ ‘‘
تصنیف میں حضرت امام جعفرصادق ؒ اوران کے اخلاف کے کراماتی واقعات ،تاریخی حالات اور دینی معلومات کو اردو ترجمہ کرکے پیش کیاگیا ۔اس ضمن میں’’آگ سے بہ خیریت گذرنا ‘‘ کاایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ابوجعفرمنصورنے والی حرمین حسن بن زید کو حکم دیا کہ جعفربن محمد کا گھرجلادو۔چناں چہ اس نے منصور کے حکم پرعمل کیا۔...لوگوں نے دیکھا امام جعفر صادقؒ ان شعلوں کے درمیان سے بڑے اطمینان وسکون سے گذرے اورآپ نے فرمایا۔ میں ابراہیم خلیل کا فرزند ہوں۔‘‘ (۵۴ )
( ۳۸ )معجزات آل محمدؐ،حصہ چہارم :
۴۶۳صفحاتی،معجزات آل محمدؐ،حصہ چہارم ،دسمبر۲۰۰۴ء میں ایک ہزارکی تعدادمیں شائع کرائی گئی۔علامہ محمدحسن جعفری نے ،علامہ سید ہاشم البحرانی کی عربی تصنیف’’مدینۃ المعاجز‘‘ کے مزید مندرجات ’’معجزات آل محمدؐ،حصہ چہارم‘‘ کی صورت میں اردو ترجمہ وتلخیص کرکے پیش کیے جوچھ ابواب اور۲۴۸ذیلی عنوانات کی حامل ہیں۔ آغاز تصنیف میں تین صفحاتی پیش لفظ بہ عنوان :’’معجزوں کا شہر‘‘ علامہ ریاض حسین جعفری کا نوشتہ ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ :
’’کتاب ایک سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔...برادربزرگوارحجتہ الا سلام مولانا محمد حسن جعفری صاحب قبلہ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے شبانہ روز محنت شاقہ کرکے کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔‘‘(۵۵ )
تصنیف میں پیش کردہ ابواب اوران کے تحت قائم کردہ کچھ چیدہ ذیلی عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’باب نہم: اہل ادیان سے حضرت امام علی رضاؒ کابے مثال اوربے نظیرمناظرہ:یہ باب مدینۃ المعاجز میں شامل نہیں تاہم مترجم نے اسے عیون اخبارالرضا سے نقل کرکے بہ طورالحاقی باب شامل کیا جس کے تحت امام علی رضا ؒ کے نصرانی،یہودی،زرتشتی علماء سے مباحثہ ومناظرے پیش کیے گئے۔باب دہم ،حضرت امام تقیؒ : واقفیوں سے گفتگو۔بازوپرمہرکا نشان۔زمین کے فاصلوں کاسمٹ جانا۔پتوں کا درہموں میں تبدیل ہوجانا۔زمین سے سونابرآمدکرنا۔باب یاز دہم،حضرت امام علی نقیؒ: ایک شخص کو چشم زدن میں سامرہ سے بغدادپہنچانا۔ایک ترک سے ترکی زبان میں گفتگوکرنا۔صحرامیں درخت اور چشمے ۔ سامرہ کی ویرانی کی پیش گوئی۔باب دوازدہم،حضرت امام حسن عسکریؒ:زمین سے دینار برآمدکرنا۔باری کے بخارکی تعویذ۔ شہد اور دودھ کا چشمہ ۔کاتب کے بغیرقلم کا لکھنا۔باب سیزدہم ، حضرت امام مہدی علیہ السلام:پانی پرمصلیٰ بچھاکرنمازپڑھنا۔ شفائے مریض۔ایک گونگے کو گویائی ملنا۔باب چہاردہم،حضرت امام مہدی فی القرآن، مہدی فی الحدیث:حدیث معراج میں مہدیؑ کا تذکرہ۔حضرت خضراورعیسیٰ علیہما السلام۔ ‘‘
علامہ بحرانی عمربھر ایسی روایات کے متلاشی رہے جوآل محمدؐ کی فضائل سے متعلق ہوں جنہیں وہ بہ حوالہ ،سپرد قرطاس کرتے رہے۔مندرجات تصنیف سے عرب رویوں،رسوم و رواجات ، طرزمعاشرت، باہمی فکری اختلافات کا پتا چلتا ہے۔جلد چہارم میں اخلافِ حضرت امام علی رضاؒکے کراماتی واقعات ،تاریخی احوال اور دینی معلومات کو پیش کیاگیا ۔اس ضمن میں’’زمین سے سونابرآمد کرنا‘‘کاایک کراماتی اقتباس ملاحظہ ہو :
’’اسماعیل بن عباس ہاشمی بیان کرتے ہیں کہ میں عید کے روز امام محمدتقی ؒ کے پاس گیا اورمیں نے اس سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی۔ اس وقت آپ مصلےٰ پر بیٹھے ہوئے تھے۔آپ نے مصلے کا کونا اٹھایا اور اس کے نیچے زمین میں سے سونے کی ایک ڈلی نکال کر میرے حوالے کی۔میں اسے بازار لے گیا اور اس کا وزن کرایا تو سولہ مثقال تھا۔میں نے اسے فروخت کردیا اور عید کی خریداری کی۔‘‘(۵۶ )
( ۳۹ )مکتب ِامامت وخلافت،حصہ اول :
حجۃ الاسلام مولانا محمدحسن جعفری نے ۷۷۳ صفحات کی حامل،مکتب امامت و خلافت ، حصہ اول،جنوری۲۰۰۴ء میں،ادارہ منھاج الصالحین ٹھوکرنیاز بیگ،ملتان روڈ،لاہور سے شائع کرائی۔تصنیف کا حصہ دوم بھی اسی ادارے سے شائع کرایاگیا۔’’مکتب ِامامت وخلافت ،حصہ اول‘‘ چوٹی کے عراقی عالم سیدمرتضیٰ عسکری کی عربی تصنیف: ’’معالم المدرستین ‘‘ کا اردوئی ترجمہ ہے جسے محمدحسن جعفری کھوہ سغ بلوچ نے پیش کیا۔تصنیف میں مصنف نے مسئلہ امامت و خلافت کو اہل تشیع اوراہل تسنن کے نقطہ نظرسے بہ حوالہ کتب موضوع بحث بنایا ۔ انہوں نے اپنے نقطہ نظرسے امامت کی تائید اوررد ِخلافت میں دلائل وشواہدپیش کیے نیز مکتب ِ امامت اورمکتب ِ خلافت کے ضمن میں مسالکی اختلافات ،علل ا وراسباب کا جائزہ لیا۔آغازِ تصنیف میں مولاناریاض حسین جعفری کا دوصفحاتی ’’عرضِ ناشر‘‘بعدازیں سید مرتضیٰ عسکری کا ایک صفحاتی ’’اہداء‘‘ نیزتین صفحاتی ’’مقدمۂ طبع پنجم‘‘ پیش کردہ ہیں۔تصنیف میں چارفصول کے تحت ۳۷۶موضوعات پیش کردہ ہیں جن سے کچھ منتخبہ عنواناتِ مباحث بہ طورخاکہ درج ذیل ہیں :
’’حفاظتِ قرآن۔جنت میں دیدارِالٰہی۔صفات الٰہی کے متعلق مکتب ِامامت کا نظریہ۔حضرت علیؓ ؓکافرمان۔رسول خداؐ کے تیرکی برکت۔رسول خداؐ سے توسل۔انبیاء واولیاء کی محفل ِمیلاد۔صفا و مروہ ۔برکت آدمؑ اوراس کی یادگار۔روزجمعہ کی برکت۔ماہ رمضان کی برکت۔غیراﷲ کوپکارنا ۔ اتحادِ امت کی تجاویز۔لغتِ عرب۔مکتب ِخلافت میں صحابی کی تعریف۔ عدالت ِصحابہ کا نظریہ۔مومن و منافق کی کسوٹی۔وصیت لکھنے کا حکم۔عمومی بیعت۔مکتب ِخلافت کا نظریہ اور استدلال۔ شوریٰ ۔ خلیفہ اورخلافت۔خلیفۃ اﷲ فی الارض۔امر اوراولامر۔ غزو ات بدر،احد،خندق اور مشاورت ۔ خلافت وامامت درمکتب ِاہل بیت۔ غزوات میں رسولِ خداؐکے جانشین۔حضرت علیؓ کی زبانی اپنی وصایت کا ذکر۔جنگ جمل میں کہے جانے والے اشعار۔ عیدین’’خطبہ نماز سے پہلے کیوں پڑھا گیا؟‘‘محمدبن حنیفہ کا خطاب۔حجاج کا کردار ۔آل محمدؐاورعہدِمنصور۔وصیت کی احادیث لکھنے والے علماء۔ بغداد کے اسلامی کتب خانہ کی تباہی۔ابوذرؓمسجد رسولﷺ میں۔نبیؐ کاوزیر۔خلیفہ نبیؐ۔ حضرت علیؓ کی تاج پوشی۔ظہورِمہدیؑ کی بشارت،مکتب ِخلافت میں بارہ آئمہ کے نام۔مکتب اہل بیت میں امامت کا تصور۔ ‘‘
’’مکتب امامت وخلافت‘‘ تقابل ِمسالک اورختلافی مباحث کامجموعہ ہے۔مصنف کے نزدیک مسالکی اختلافات کے متعدد اسباب وعلل ہیں جن میں کم زور راویانِ حدیث وتاریخ ، مستشرقین ،مخالفین اوردیگرعوامل شامل ہیں ۔انہوں نے بیان کیاکہ مختلف مسالک کے ممالک اپنے اپنے فرقوں کے مسالک کے لیے کروڑوں کے مصارف کرتے ہیں جب کہ دوسرے مسلکی گروہ کو بدعتی قراردیاجاتاہے۔ ایسی حالت میں اتحاداُمت المسلمین ہوتو کیسے ہو؟اس مرکزی نکتے پر مسلمانوں کے لیے دعوتِ فکر ہے۔انہوں نے اتحادِ بین المسالک کاراز اس عمل میں قرار دیاکہ فریقین وسیع پیمانے پرایک دوسرے کے نقطہ نظر سے آگاہ ہوں۔اوران اختلافات کی نشان دہی کے لیے انہوں نے یہ تحقیقی تصنیف پیش کی۔ اس کاپہلاایڈیشن۱۴۰۵ھ میں شائع ہوا اوریہ اس کا۱۴۱۶ھ کا پانچواں ایڈیشن ہے جس کا اردو ترجمہ کیاگیا۔مترجم اور ترجمہ کے حوالے سے مولاناریاض حسین جعفری ’’ عرض ناشر ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ :
’’اس کتاب کے مترجم مولانامحمدحسن جعفری صاحب ہماری مبارک باد کے مستحق ہیں کہ عربی سے رواں دواں اردو میں ترجمہ کرکے اسے کروڑوں مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘(۵۷ )
مترجم نے عربی عبارت کے ساتھ احادیث مبارکہ وروایات کا بھی اردو ترجمہ پیش کیا۔ ترجمہ کااسلوب عام فہم ،عالمانہ بل کہ تحریرطبع زادمعلوم ہوتی ہے۔ایک مترجمہ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’مشاورت رسولؐ سے استدلال:رسولِ خداؐ پنے صحابہ سے صرف غزوات کے متعلق مشورہ کرتے تھے۔جیسا کہ ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں۔ ...میں نے رسولِ خداؐ سے زیادہ کسی د وسرے کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والانہیں دیکھااورآپؐ اپنے اصحاب سے صرف جنگ کے متعلق ہی مشورہ کیا کرتے تھے۔‘‘(۵۸ )
تصنیف معلومات کے اعتبار سے مسلمانوں بالخصوص دوراولیٰ کے عربوں کی معاشرت ، دینی صورت حال ، باہمی کش مکش کا وسیع منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔تاہم ایک خاص زاویہ نظرکی حامل ہے۔ مسلک اہل تشیع سے منسلک ہونے کے سبب مصنف نے، اہل تسنن کے بعض عقائدوافعال سے اختلاف کیا ۔متن میں کہیں کہیں سہو کتابت موجود ہیں۔
( ۴۰ )مکتب ِامامت وخلافت،حصہ دوم :
مولانا محمدحسن جعفری نے ۶۸۷ صفحات کی حامل،مکتب امامت وخلافت،حصہ دوم، اکتوبر۲۰۰۹ء میں شائع کرائی۔آغاز تصنیف میں یک صفحاتی ’’مقدمہ طبع پنجم‘‘پیش کردہ ہے۔اس حصہ میں بھی بہ طرزِ حصہ اوّل، اہل تشیع اوراہل تسنن مکاتب فکر کے فکری وعملی اختلافات کا پانچ فصول اور ۱۹۴عنوانات کے تحت بہ حوالہ اسناد واستدلال جائزہ پیش کیا گیا۔تصنیف کے کچھ منتخبہ عنوانات درج ذیل ہیں:۔
’’قرآن مجید کی جمع وتدوین کا اہتمام۔مصحف فاطمہ کے متعلق ناجائز واویلا۔رسول ؐخدا ؐسے روایت کرنے والوں کے بارے میں۔پہلی صدی حدیث نشرکرنے سے متعلق۔پہلی صدی ہجری کے آخرتک سنت رسولؐ۔ عہدعمرؓ ، ابو بکرؓ، عثمانؓ، معاویہؓ۔اسرائیلی روایات کی حوصلہ افزائی ۔ کعب الاخبار (ابواسحاق)۔فن حدیث سازی۔کتابت حدیث کے متعلق دو روایات۔فقہ واجتہاد کے متعلق۔مکتب خلفاء میں اجتہاد کامفہوم۔قرن اول میں مکتب خلفاء مجتہد۔مجتہدام المومنین عائشہؓ ۔ مجتہداعظم معاویہؓ بن ابی سفیان۔عمروبن العاص۔صحابہ کی پوری جماعت ہی مجتہد تھی۔حضرت علی کا قاتل (عبدالرحمٰن بن ملجم) مجتہدتھا۔خلیفہ امام یزیدبن معاویہ۔خمس کے متعلق شیخین کااجتہاد۔سنت نبویؐ اورخمس۔مستحقین خمس ازروئے کتاب وسنت۔مکتب اہل بیت میں خمس کے حق دار۔حقیقی جاگیر فدک کانصف حصہ۔خلفاء کا خمس،فدک اور رسولؐ خدا۔لوگ حضرت عثمانؓ پرناراض کیوں ہوئے؟ ۔خمس اورترکہ رسولؐ کے متعلق علیؓ کاطرزعمل۔خمس اورترکہ رسولؐ درعہدخلفائے بنی امیہ۔عمربن عبدالعزیزؒ کے عہد میں ،فدک کی واپسی۔زکوٰۃ بعد ازوفات پیغمبرؐ۔کتاب اﷲ میں متعۃ الحج۔ سنت رسولؐ میں متعۃ الحج۔صحابہ نے متعۃ الحج پر کیسے عمل کیا؟ ۔حج تمتع درعہد معاویہ۔خلفاء کے مؤقف کے لیے حدیث سازی۔اختلاف کا سرچشمہ کیا ہے اوراس کے ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟۔ابوموسیٰ اشعری کے نام حضرت عمرؓ کا خط۔عمل بالرائے اورابوحنیفہ۔ائمہ کا علم ایک دوسرے کو بہ طورمیراث منتقل ہوا۔نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیاتھا کہ وہ اپنے شریک ائمہ کے لیے احکام سن کرمدون کریں ۔احکام پرمبنی کتاب علیؓ کا نام(الجامعہ)۔کتاب جفراور مصحف فاطمہؓ ۔ رسول اکرم ؐکے ہتھیاراور ان کی کتابیں۔دوظرف جن میں میراث امامت کو رکھا گیاتھا۔ائمہ نے علمی کتابیں کس طرح وصول پائیں۔امام زین العابدین ؒنے میراث امام کیسے حاصل کیا۔ائمہ اہل بیت کا مذکورہ کتب کی طرف رجوع کرنا۔بنی ہاشم کااجتماع اورامام صادقؒ کی پیش گوئی۔جفرکے متعلق خلفاء کی گواہی۔ائمہ اہل بیت کا حضرت علیؓ کی کتاب الجامعہ سے استفادہ کرنا۔شریعت اسلامیہ کے مصادرکے متعلق دونوں مکاتب فکر کی آرا ء کا خلاصہ ۔ کتاب وسنت کے مقابلہ میں خلفاء کا اجتہاد۔عالم اسلام کے اتحادکا راستہ۔ ‘‘
اعلیٰ فکری وتحقیقی مباحث کی اس تصنیف میں مصنف نے اپنے مکتبہ فکرکے حق میں دلائل پیش کیے اوردیگر مسالک کے پیروکاروں کامُحاکمہ کیا۔ تصنیف میں معیارترجمہ عالمانہ اورطبع زاد نوعیت کاحامل ہے۔ ایک مترجمہ اقتباس ملاحظہ ہو:۔
’’عالم اسلام کا حقیقی اتحاداس وقت قائم ہوسکتاہے جب کتاب اﷲ اورسنت رسولﷺ کوہی احکام اسلامی کا واحد سر چشمہ تسلیم کیا جائے گا ۔ اوراس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے افرادکوصحابہ وتابعین کے اجتہادکامکلف نہ قرار دیا جائے ۔جس طرح سے ابتدائی خلفاء نے اجتہاد کرتے ہوئے کتابت حدیث پر پابندی عائدکی تھی مگرنوے برس بعدعمربن عبدالعزیز ؒنے اس پابندی کوختم کیاتھاتوپوری امت اسلامیہ نے پابندی ختم کرنے کا خیرمقدم کیاتھا اورابتدائی خلفاء کے اجتہادکومستردکردیاتھا ۔‘‘ (۵۹ )
( ۴۱ )ہدیۃ الشیعہ :
محمدحسن جعفری نے ۴۹۴صفحاتی تصنیف:،ہدیۃ الشیعہ ،۱۹۹۴ء میں عربی سے اردوترجمہ کرکے ادارہ نشر معارف اسلامی لاہورسے شائع کرائی۔تقریباًچارسوسال قبل ابوالحسن لبنانی نے عربی تصنیف:’’الاثناالعشریہ فی المواعظ عددیہ‘‘لکھی تھی۔ ایرانی عالم آیت اﷲ علی مشکینی الاردبیلی قمی نے موسومہ نام سے اس کی تلخیص کی۔علامہ محمد حسن جعفری نے اس کا اردو ترجمہ کرکے نام:’’ہدیۃ الشیعہ ‘‘ رکھا۔ابوالحسن لبنانی کی تصنیف کا ایران میں ’’نصائح‘‘کے عنوان سے بھی فارسی ترجمہ ہو چکا ہے۔تصنیف ۳۱ابواب اور ۱۲۲ فصول کی حامل ہے جو عدیم الدیباچہ ہے۔ اکثرابواب بلاعنوان ہیں ۔اس میں متفرق موضوعات پر احادیث نبویؐ،کلام حضرت علی کرم اﷲ وجہٗ ، اقوال حضرت امام جعفر صادقؒ،آئمہ اطہار،زہاد،علماء اورحکماء کے اقوال زریں وحکیمانہ باتیں،جنہیں علمائے خاصہ اورعامہ نے نقل کیا ، مختلف ابواب کے تحت نکات کی صورت میں پیش کردہ ہیں۔تصنیف کی سولہ ابواب تک ترتیب مسلسل ہے۔ آگے صرف منتخب ابواب کا چارسوابواب تک ترجمہ ہے۔ تصنیف تعمیرکردارکے حوالے سے اسلامی معلومات اوراخلاقی نکات کاگنجینہ ہے۔اسلوب ترجمہ سادہ وعام فہم ہے ۔ چنداحادیث مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
’’حضورﷺ نے فرمایا:دنیاچارقسم کی لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔اپنے علم کو استعمال کرنے والے عالم کی وجہ سے،اس جاہل کی وجہ سے جوعلم حاصل کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا،اس سخی کی وجہ سے جو احسان نہیں جتلاتا،اس غریب کی وجہ سے جواپنی آخرت کو دنیا کے بدلے نہیں بیچتا ۔‘‘(۶۰ )
’’تمہارابہ ترین بھائی وہ ہے جو تمہیں تمہارے عیب سے آگاہ کرے۔‘‘(۶۱ )
’’مکمل طریقہ سے وضوکرو،اﷲ تمہاری عمر میں اضافہ کرے گا۔‘‘(۶۲ )
’’سائل کو کھجورکے دانے کا حصہ دینا خالی لوٹانے سے بہ تر ہے۔‘‘(۶۳ )
( ۴۲ )مشرق کافراموش کردہ نابغہ :
محمدشفیع بلوچ نے ۱۶جون۱۹۹۷ء کوگورنمنٹ کالج مٹھیؔ، سندھ کے پروفیسرڈاکٹر محمد مسعود احمدپی ایچ ڈی کی انگریزی تصنیف : ’’The Neglected Genius of the East ‘‘کامعیاری اردوترجمہ کرکیمشرق کافراموش کردہ نابغہ،کی صورت ،بزم عاشقان مصطفی لاہور سے گیارہ سوکی تعدادمیں شائع کرائی جومولانا احمدرضا خان بریلوی (۱۲۷۲ھ؍۱۸۵۶ء۔ ۲۵صفر ۱۳۴۰ھ؍۱۹۲۱ء)کی مختصر حالاتِ حیات کاتعارف نامہ ہے۔مولاناعلیہ رحمۃ کے بارے میں نوشتہ یہ اولیں انگریزی تصنیف، دنیائے مغرب میں ان کی تعارف کے لیے جولائی۱۹۷۶ء میں لکھی گئی تھی۔ تصنیف کے آغازمیں دو صفحاتی’’ تقدیم‘‘ نوشتہ ازمصنف اوردوصفحاتی ’’عرض مترجم‘‘پیش کردہ ہیں ۔ مولاناعلیہ رحمۃ کا مختصر تعارف :’’خاندان۔تعلیم۔تبحرعلمی ۔تصوف ۔ حج۔ عظیم فقیہ ۔ مذہبی خدمات ۔سیاسی خدمات۔ادبی خدمات۔وفات۔ اولاد۔خلفاء (اسلامی دنیا میں اورپاکستان و بھارت میں )۔کارہائے نمایاں۔تصنیفات۔حرف آخر‘‘جیسے عناوین کے تحت پیش کیاگیاہے ۔ تصنیف میں حواشی اور کتابیات کا اہتمام ہے۔ مترجم نے عالم اسلام کے ایک بلندپایہ دینی وعلمی شخصیت کاتذکرہ ٔحیات اردو ترجمہ کی صورت پیش کیاہے۔(۶۴ )
( ۴۳ )پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے مطالعہ سیرت النبیؐ کاتحقیقی وتجزیاتی مطالعہ :
بلوچ اہل علم کی طرف سے اردومیں جزوی مترجمہ کتب کی بھی قابل ذکرتعدادملتی ہے جن میں تفہیمات اورعربی اقتباسات توفیرکے ساتھ مترجمہ ہیں۔ان میں:پروفیسرخادم حسین لغاری کی ’’مختصراسلامی عقائد‘‘و’’امامت وولایت اہل بیت‘‘،سیماگُل مگسی کی’’سیرت النبیؐ‘‘، ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوئی کی’’بلوچستان میں دینی ادب‘‘،مولاناعبدالقادر لُنڈبلوچ ڈیروی کی ’’حقیقی راہِ نجات‘‘،ڈاکٹرمحمداسماعیل دشتی البوشہری ؍محمد صادق بلوچ[مترجم]، کی’’بلوچ تاریخ اورعرب تہذیب ‘‘، پروفیسرڈاکٹرمحمداشرف شاہین قیصرانی کی’’بلوچستان میں مسلمانوں کے رسوم ،قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘،محمدشفیع بلوچ کی’’حُسن کلام محمدﷺ‘‘قابل حوالہ ہیں۔ایسے ہی تفہیمی اور اقتباساتی جزوی مترجمہ مقالات بھی ملتے ہیں جن میں ڈاکٹر عابد حسین قیصرانی کا مقالہ پی ایچ ڈی قابل ذکرہے۔ ڈاکٹرعابد حسین قیصرانی نے۲۰۰۸ء میں ۷۸۴صفحاتی مقالہ برائے پی ایچ ڈی اسلامیات : پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے مطالعۂ سیرت النبیؐ کاتحقیقی وتجزیاتی مطالعہ ،شعبہ علوم اسلامیہ ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورمیں پیش کیاجس کے دس نسخے تیارکیے۔عابد حسین قیصرانی ۱۵ مارچ ۱۹۶۱ء کو نذرحسین حملانی کے ہاں کوٹ قیصرانی،تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے قصبے سے حاصل کی۔ ۱۹۷۷ء میں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ قیصرانی سے کیا ۔ ۱۹۷۹ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج تونسہ شریف سے ایف اے ،نیز ایگریکلچرل یونیورسٹی فیصل آباد سے ایگریکلچر میں دوسالہ ڈپلومہ کیا۔ ۱۹۸۳ء،۱۹۸۵ء ، ۱۹۸۶ء اور۱۹۸۷ء میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے بی اے،بی ایڈ ، ایم اے اسلامیات اورایم ایڈکیے۔ ۷اکتوبر ۱۹۸۷ء کو بہ طور سینئرورنیکل ٹیچرتدریسی خدمات پرمامورہوئے۔۲۷ستمبر۱۹۹۱ء کو بہ حیثیت ماہر مضمون، تدریس اسلامیات کی خدمات پر مامور ہوئے۔ ۲۰۰۳ء میں علامہ اقبا ل اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے۲۹۱صفحاتی مقالہ : ’’انسدادمنشیات کے پاکستانی قوانین کا تجزیاتی مطالعہ قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘ لکھ کر، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر ڈائریکٹر سیرت چیئر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی نگرانی میں ایم فل اسلامیات کیا۔۲۰۱۰ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے،موضوع : ’’پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے مطالعہ سیرت النبیؐ کاتحقیقی وتجزیاتی مطالعہ‘‘ پراپنے سابقہ نگران ایم فل، کی رہنمائی میں پی ایچ ڈی کی۔فی الوقت بہ طورپرنسپل گورنمنٹ ہائرسیکنڈری سکول کوٹ چُھٹہ ڈیرہ غازی خان میں، تدریسی وانتظامی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کامقالہ ابتدائی صفحات اور’’پیش لفظ‘‘کے بعد سات ابواب :’’مستشرقین اورسیرت النبیﷺ۔ پروفیسر ولیم منٹگمری واٹ [William Montgomery Watt] اوران کی اسلامی تحقیقات کا اجمالی تعارف۔صاحب سیرت محمدؐ کی زندگی کے دواہم ادوار(مکی ومدنی)کے بارے میں پروفیسر ولیم منٹگمری واٹ کے شاذ خیالات وتصورات۔غزوات نبیؐپروفیسرولیم منٹگمری واٹ کی نظر میں۔رسول اﷲ ؐکی عائلی زندگی پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کی نظر میں۔پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے مطالعہ سیرت محمدؐکے ذرائع (Sources)کاتحقیقی وتجزیاتی مطالعہ ۔نتائج،سفارشات ، فہارس آیاتِ قرآنی،احادیث رسولؐ، مصطلحات، الاعلام، المصادر،اشاریہ؛کاحامل ہے۔
ابواب مقالہ میں فصول قائم کرکے ذیلی عنوانات دے کر مباحث پیش کردہ ہیں ۔کچھ چیدہ ذیلی عنوانات بہ طور اجمالی خاکہ درج ذیل ہیں: ۔ ’’استشراق کا تعارف۔شرق اورغرب کی وضاحت۔استشراقی سرگرمیوں کی ابتدا اور قرآن پاک کا مؤقف۔ استشراق کی ابتدائی لاتعلقی کا دور۔نویں صدی عیسوی میں عیسائی مصنفین کی صاحب سیرتؐ کے بارے میں کذب وافتراپر مبنی تحریریں ۔ حروب صلیبیہ اور نبردآزمائی کا دور ۔ حروب صلیبیہ میں ناکامی اورتحریک استشراق کا منظم ہونا۔علمی میدان میں شاذخیالات پھیلانا۔پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کاتعارف۔پروفیسرولیم واٹ اور ان کی اسلامی تحقیقات۔کتب سیرت کا اجمالی تعارف ۔ کتب علم الکلام کا تعارف۔ان کا تجزیاتی مطالعہ۔صاحب سیرت محمدؐ کی عہدمکی کے بارے میں پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے شاذخیالات و تصورات۔نزول وحی کی ابتدا اور مؤلف کے شاذخیالات پرنقدحاصل مطالعہ۔قرآن مجیدکے کلام الٰہی ہونے پرمؤلف کی [تشکیک] اوراس کا رد۔اولیں مسلمان پر اختلاف،مؤلف کامؤقف ۔ کفار مکہ کامسلمانوں پرظلم وستم پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کی نظر میں۔اسلامی فلسفہ جہاد اور لشکر کشی پرنقطہ چینی اور مؤلف کے شاذخیالات۔عربوں کی خاندانی شرف کے بارے میں مستشرق مذکور کا نقطہ نظر اوراس کا تجزیاتی مطالعہ۔اسلامی اصول روایت تنقیح شہادت سے استفادہ نہ کرنا۔محمدبن عمرالواقدی کی روایات پرانحصارِ تحقیق۔ ‘‘
مقالہ، پروفیسرولیم منٹگمری واٹ(۱۹۰۹ء۔۲۰۰۸ء)،کے سیرت النبی ؐ کے حوالے سے پھیلائے گئے تشکیک آمیز خیالات کے مطالعہ اوراصل حقائق کوبہ سند پیش کرنے کی اردوئی کاوش ہے۔ پروفیسرولیم منٹگمری واٹ سکاٹ لینڈ کے مستشرق تھے۔وہ ۱۹۳۴ء تا۱۹۶۵ء یروشلم میں عربی ریڈررہے ۔۱۹۶۴ء ۔۱۹۶۵ء ’’استشرا ق تحریک برطانیہ‘‘ کے سربراہ رہے۔۱۹۶۵ء۔۱۹۹۴ء انہوں نے اپنی زندگی سیرت النبیؐ اورتاریخ اسلام کے مطالعہ کے لیے وقف کردی۔ سیرت النبیؐ اوراسلام پردرجنوں کتب لکھیں،جیسے :"Muhammad at Mecca. Muhammad at Madina.Muhammad Prophet and States man.Islamic Creeds. What is Islam?"
۱۹۹۴ء کے بعد لکھنا ترک کردیا۔یہ اولیں مستشرق ہے جس نے سیرت النبیﷺ کاسنجیدگی سے مطالعہ کیا۔ وسیع المطالعہ شخصیت ہونے کے باوجودسرچشمہ ہدایت کی سیرابی سے بے فیض رہا۔اس نے بارباراسلامی موضوعات کے بحرذخارمیں غوطہ زنی کی مگر ہربار تہی دست لوٹا۔اسلامی عقائد: قرآن پاک،اسلامی فلسفہ جہاد،تعددازدواج پراپنے شاذخیالات پیش کیے۔لیکن وہ اپنی تحریر میں کوئی علمی دلیل قائم کرنے سے قاصر رہا۔ اس لیے اسلامی دنیامیں سیرت پر اس کاکام ممتاز مقام و پذیرائی سے محروم رہا۔انصاف سے اگرچشم پوشی نہ کی جائے تویہ امر قرین قیاس ہے کہ وہ اپنی کتب میں بے پناہ شاذروایات پھیلانے کابہ طورنمائندہ مستشرق تحریک مرتکب ہوا۔اس نے حقائق سے اغمازبرتا ۔متعددمستندروایات چھوڑکر،تاریخ اورسیرت کی کمزورروایات کا سہارالیا۔حال آنکہ آغاز میں وہ مدعی تھاکہ غیرجانبداررہ کراپنی تحقیقات پیش کرے گامگر غیرجانبداری کا دامن زیادہ دیرتک تھامنے سے بے بس رہا۔ پھربھی اس نے ابتدا کی مطابع اور ترتیب مضامین میں کسی حدتک معروضیت وحقیقت پسندی کاثبوت دیا مثلاً یہ تسلیم کیا کہ رسول کریم ؐ عارضہ مرگی سے مبراتھے نیزمستشرقین کاان کی ذات گرامی پریہ الزام غیرصحیح ہے۔وہ بنوقریظہ کو دی جانے والی سزاسے بھی اتفاق کرتاہے ۔ دوسرے مستشرقین کے برعکس حضرت زینب بنت جحش کی رسولؐ سے عقدکو درست قراردیتا ہے ۔ وہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ مغرب میں حضرت محمدؐ جیسی عظیم ہستی کی انتہائی کم توصیف کی گئی۔ مقالہ نگار، واٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
’’مستشرق مذکورنے اپنی تالیف’’محمدایٹ مکہ‘‘کے مقدمہ میں اس حقیقت کا اعتراف کیاکہ مغرب کے اہل علم اپنے علمی اصولوں کے حق میں ہمیشہ مخلص نہیں رہے ۔دقیقہ رسی میں تاریخی زاویہ سے ان کے خیالات پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔More over non of the great figure of history is so poorly appriciated in the West as Muhammad. ‘‘ ( ۶۵ )
ان جزوی حقائق نویسی کے پس پردہ،مقالہ نگار نے واٹ کی ان خفیف فکری حربوں کوطشت ازبام کیا جن کے ذریعے عموماً ’’مستشرق تحریک‘‘ کے مشنری اشتباہات پیداکرکے فکری صورت میں اسلام پر حملہ آور ہونے کی سعی کرتے ہیں۔اہل مغرب نے جب صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے شکست کھائی تو انہوں نے مستشرقین کے ذریعے فکری طورپراسلامی صداقتوں میں انتشار کی حکمت عملی اپنائی۔ واٹ کی یہ کاوشیں اسی حکمت عملی کا تسلسل ہیں۔مثلاً وہ، آنحضرت ﷺ کی یتیمی کے بارے میں تجاہل عارفانہ سے اس انداز میں تشکیک پھیلاتا ہے کہ’’ غالباً‘‘محمدؐ کی پیدائش ان کی والدکی وفات کے بعدہوئی۔وہ لفظ Probablyاستعمال کرتا ہے :"He was probably posthumuos child." صفحہ:۳۳۔مقالہ نگار، جرح و استدلال اور سندقوی سے بات کرتے ہیں کہ اگرواٹ قرآن کی رو سے یہ لکھ رہا ہے تو قرآن مجید میں تو :الم یجدک یتیماً فاٰ وی(۹۳:۶)ٰ واضح ہے ۔ اگر وہ تاریخ سیرت کے پیش نظر لکھ رہا ہے توحافط ابن کثیرکی تصنیف’’ السیرۃ النبوؐیہ‘‘ میں درج ہے کہ:وھذا ابلغ الیتیم علیٰ مراتبہ،کہ محمدؐ کائنات میں یتیمی کے اعلیٰ مرتبہ پرفائزہیں۔پھرلفظ ’’غالباً ‘‘چہ معنی دارد؟ کہ لفظ ’’Probably‘‘ تو جدید مغربی اصول تحقیق پربھی پورااترنے سے محروم ہے۔حال آنکہ قرآن ا ورتاریخ اسلامی، دونوں مآخذ میں آپؐ کی یتیمی آشکار ہے۔مگرواٹ خبر معروف کی طرف آنے سے گریزاں ہے۔
یہ معرکہ آرا مقالہ، اسلامی ادب میں قابل قدر علمی اضافہ اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگراسے انگریزی اورعربی میں ترجمہ کرکے شائع کیا جائے تو عالمی طورپراسے مستشرقین تحریک کی دفاعی دستاویز کی حیثیت حاصل ہوگی۔مقالہ کی تیاری میں ۲۳۴ارود،عربی اورانگریزی کتب سے مددلی گئی۔ اس میں انگریزمستشرق کے انگریزی اقتباسات کے تراجم اورتفہیمات پیش کردہ ہیں ۔
حوالے :
۱الطاف حسین کلاچی،علامہ[مترجم] (۲۰۰۶ء)خصائص امیرالمومنین علی ابن ابی طالب،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین جناح ٹاؤن،ٹھوکرنیاز بیگ،ص:۲۱۔
۲ایضاً،ص:۱۵۔
۳ایضاً،ص:۱۰۔
۴ایضاً،ص:۵۰۔
۵الطاف حسین کلاچی،علامہ حجۃ الاسلام[مترجم] (جولائی۲۰۰۷ء)فضائلِ علیؓ،حصہ اول،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین جناح ٹاؤن،ٹھوکرنیاز بیگ،ص:۱۲۔
۶ایضاً،ص:۲۷۳۔
۷بحوالہ:[ڈاکٹر]عذراشوذب(۱۴مارچ۲۰۰۸ء)’’سرائیکی خطے میں سرسیدتحریک کاداعی،اﷲ بخش خان بلوچ‘‘،ملتان ، روزنامہ جنگ۔
۸ایضاً۔
۹ایضاً۔
۱۰ایضاً۔
۱۱عبدالرحمٰن براہوئی،ڈاکٹر(اکتوبر۲۰۰۱ء)اسماء الحسنیٰ،کوئٹہ،روبی پبلشرز،رستم جی لین، جناح روڈ،ص:۴۰۔
۱۲بحوالہ: انعام الحق کوثر،پروفیسرڈاکٹر(جون۱۹۹۴ء)بلوچستان میں اردو،طبع دوم ،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان ،ص:۵۵۴۔۵۵۵۔
۱۳غلام قنبرعمرانی [مترجم](۲۲ نومبر۲۰۰۵ء)موعود امم عالمی امن کا ضامن،میاں والی،شریکۃ الحسین پبلی کیشنز،جامعہ السیدہ خدیجۃ الکبریٰ، پکی شاہ مردان،ص:۲۲۶۔۲۲۷۔
۱۴محمداقبال جسکانی،پروفیسر(۱۴۲۴ء)ذکرشناسی،ذکرحق تعالیٰ،کراچی،حسین ابن رَوح پبلی کیشنز،ص:۱۰۔
۱۵محمد حسن جعفری،علامہ (۲۰۰۴ء؟)احیائے دین میں آئمہ اہل بیت کا کردار،جلددوم ،کراچی،مجمع علمی اسلامی،ص:۲۵
۱۶ایضاً،ص:۷۷۔
۱۷محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء؟)پندِتاریخ،۱،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۱۰۔
۱۸ایضاً،ص:۳۶۔۳۷۔
۱۹محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۲ء)پندِتاریخ، ۲،طبع سوم؛کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۷۱۔۷۲۔
۲۰محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء)پندِتاریخ، ۳،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۱۲۵۔
۲۱محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء)پندِتاریخ، ۴،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۵۹۔۶۰۔
۲۲محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء)پندِتاریخ، ۵،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۲۴۴۔
۲۳محمد حسن جعفری، علامہ[مترجم] (دسمبر۲۰۰۸ء) تصوف اورتشیع کافرق،کراچی،مجمع علمی،اسلامی،ص:۴۶۸۔
۲۴محمد حسن جعفری،مولانا[مترجم](۲۰۰۴ء)تفسیرسورۂ حجرات،کراچی،جامعہ تعلیمات اسلامی،پاکستان،پوسٹ بکس ۵۴۲۵،ص:۱۳۔
۲۵محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(ستمبر۲۰۰۵ء) تفسیرنورالثقلین جلد اول ،لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ،غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص:۱۴۔۱۵۔
۲۶ایضاً،ص: ۲۱۔
۲۷محولہ بالا،ص:۲۶۔
۲۸محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(فروری۲۰۰۶ء)تفسیرنورالثقلین جلد دوئم ،لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص:۱۳۔
۲۹محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(مئی۲۰۰۶ء) تفسیرنورالثقلین جلد سوئم ، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ،غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص:۱۷۔
۳۰محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(اکتوبر۲۰۰۶ء) تفسیرنورالثقلین جلد چہارم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص:۳۴۵۔
۳۱محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(اپریل۲۰۰۷ء) تفسیرنورالثقلین جلد پنجم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص:۲۲۔۲۴۔
۳۲ایضاً،ص: ۲۶۔
۳۳ محولہ بالا،ص:۶۱۵۔
۳۴محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(اکتوبر۲۰۰۸ء) تفسیرنورالثقلین جلد ششم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص:۳۲۶۔
۳۵محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(فروری۲۰۱۰ء) تفسیرنورالثقلین جلد ہفتم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار،ص: ۳۹۸ ۔
۳۶محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(فروری۲۰۱۲ء) تفسیرنورالثقلین جلد ہشتم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
۳۷محمد حسن جعفری،مولانا[مترجم] (۲۰۰۱ء) جواب حاضر ہے،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۱۰۔۱۱۔
۳۸ایضاً،ص:۱۴۴۔۱۴۵۔
۳۹محمد حسن جعفری، علامہ[مترجم] (اگست۲۰۰۸ء) حقیقت گم شدہ،کراچی،مجمع علمی،اسلامی،ص:۸۵۔۸۶۔
۴۰محمد حسن جعفری،حضرت علامہ[مترجم] (نومبر۲۰۰۹ء) سوال عوام کے جواب امام کے،حصہ دوم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ،ص:۲۴۱۔
۴۱محمد حسن جعفری[مترجم] (۱۲ربیع الاول۱۴۲۱ھ) عیون اخبارالرضا،جلد اول،کراچی،اکبرحسین جیوانی ٹرسٹ،ص:۴۰۔
۴۲ایضاً،ص:۵۵۵۔
۴۳محمدحسن جعفری[مترجم](۱۲ ربیع الاول۱۴۲۱ھ)عیون اخبارالرضا،جلد دوم،کراچی،اکبر حسین،جیوانی ٹرسٹ ،ص:۳۶۸۔
۴۴محمد حسن جعفری[مترجم] (۲۰۰۳ء)قلب سلیم،جلداول ،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۲۳۸۔۲۳۹۔
۴۵محمد حسن جعفری[مترجم] (۲۰۰۳ء)قلب سلیم،جلددوم ،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر،ص:۱۔
۴۶محمد حسن جعفری،مولانا[مترجم] (دسمبر۲۰۰۴ء)کربلاکاتاریخی پس منظر،جلداول ،کراچی ،ادارہ تبلیغات علوم آل محمدؐ،ص:۱۷۷۔
۴۷محمد حسن جعفری[مترجم] (۱۴۲۱ھ)مجالس المومنین،کراچی،اکبرحسین جیوانی ٹرسٹ،ص:۲۹۔
۴۸ایضاً،ص:۳۳۔۳۴۔
۴۹محولہ بالا،ص:۲۱۳۔۲۱۴۔
۵۰محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (۲۰۰۵ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ اول،طبع دوم؛لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ۔ص:۱۰۵۔
۵۱محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (جون۲۰۰۴ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ دوم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ،ص:۱۵۔
۵۲ ایضاً،ص:۴۶۷۔
۵۳محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (اکتوبر۲۰۰۶ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ سوم،طبع دوم؛لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ،ص۱۶۔۱۷۔
۵۴ایضاً،ص: ۵۷ ۔
۵۵محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (دسمبر۲۰۰۴ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ چہارم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ،ص۱۶۔۱۷۔
۵۶ایضاً،ص:۱۰۳۔
۵۷محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام،مولانا[مترجم] (جنوری۲۰۰۴ء)مکتب امامت وخلافت،حصہ اول،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین ٹھوکرنیاز بیگ،ملتان روڈ،ص:۴۔
۵۸ایضاً،ص:۲۹۲۔
۵۹محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام،مولانا[مترجم] (اکتوبر۲۰۰۹ء؟)مکتب امامت وخلافت،حصہ دوم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن، ٹھوکرنیازبیگ۔ص:۶۸۶۔
۶۰محمد حسن جعفری[مترجم](۱۹۹۴ء)ہدیۃ الشیعہ ،لاہور،ادارہ نشرمعارف اسلامی،ص:۱۸۹۔
۶۱ایضاً،ص:۲۲۔
۶۲محولہ بالاص:۲۳۔
۶۳ایضاً،ص:۲۷۔
۶۴محمدشفیع بلوچ(۱۶جون۱۹۹۷ء)مشرق کافراموش کردہ نابغہ، لاہور،بزم عاشقان مصطفی ۔
۶۵عابد حسین قیصرانی،سینئرماہرمضمون ڈاکٹر(۲۰۰۸ء) : پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے مطالعہ سیرت النبیؐ کاتحقیقی وتجزیاتی مطالعہ ،مقالہ برائے پی ایچ ڈی اسلامیات،شعبہ علوم اسلامیہ،اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور۔ص:۶۶۵۔
کتابیات :
الطاف حسین کلاچی،علامہ[مترجم] (۲۰۰۶ء)خصائص امیرالمومنین علی ابن ابی طالب،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین جناح ٹاؤن،ٹھوکرنیاز بیگ۔
الطاف حسین کلاچی،علامہ حجۃ الاسلام[مترجم] (جولائی۲۰۰۷ء)فضائلِ علیؓ،حصہ اول،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین جناح ٹاؤن،ٹھوکرنیاز بیگ۔
اﷲ بخش خان بلوچ(ستمبر۱۹۲۹ء)توشۂ آخرت،ملتان،محمدخیردین صابرملتانی ،کتب خانہ صابریہ۔
ﷲ بخش خان بلوچ(۶جون۱۹۰۷ء)خاتم سلیمانی ،لاہور،خادم التعلیم سٹیم پریس۔
اﷲ بخش خان بلوچ(۱۹۳۱ء)سیرت المحمود، ملتان،اقبال برقی پریس۔
اﷲ بخش خان بلوچ(ستمبر۱۹۲۲ء)شجرہ سلسلہ عالیہ چشتیہ سلیمانیہ، ملتان،کرشناسٹیم پریس ،ملک رام کرشن وصابرملتانی۔
انعام الحق کوثر،پروفیسرڈاکٹر(جون۱۹۹۴ء)بلوچستان میں اردو،طبع دوم ،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان ۔
عبدالرحمٰن براہوئی،ڈاکٹر(اکتوبر۲۰۰۱ء)اسماء الحسنیٰ،کوئٹہ،روبی پبلشرز،رستم جی لین، جناح روڈ۔
عبدالرحمٰن غور(۱۹۵۵ء)حکمت کے موتی،سبی،ادارہ ادب بلوچستان،اسلامیہ پریس کوئٹہ۔
غلام قنبرعمرانی [مترجم](۲۲ نومبر۲۰۰۵ء)موعود امم عالمی امن کا ضامن،میاں والی،شریکۃ الحسین پبلی کیشنز،جامعہ السیدہ خدیجۃ الکبریٰ، پکی شاہ مردان۔
محمداقبال جسکانی،پروفیسر(۱۴۲۴ء)ذکرشناسی،ذکرحق تعالیٰ،کراچی،حسین ابن رَوح پبلی کیشنز۔
محمد حسن جعفری،علامہ (۲۰۰۴ء؟)احیائے دین میں آئمہ اہل بیت کا کردار،جلددوم ،کراچی،مجمع علمی اسلامی۔
محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء؟)پندِتاریخ،۱،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۲ء)پندِتاریخ، ۲،طبع سوم؛کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء)پندِتاریخ، ۳،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء)پندِتاریخ، ۴،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمدحسن جعفری[مترجم](۲۰۰۰ء)پندِتاریخ، ۵،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمد حسن جعفری، علامہ[مترجم] (دسمبر۲۰۰۸ء) تصوف اورتشیع کافرق،کراچی،مجمع علمی،اسلامی۔
محمد حسن جعفری،مولانا[مترجم](۲۰۰۴ء)تفسیرسورۂ حجرات،کراچی،جامعہ تعلیمات اسلامی،پاکستان،پوسٹ بکس ۵۴۲۵۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(ستمبر۲۰۰۵ء) تفسیرنورالثقلین جلد اول ،لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ،غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(فروری۲۰۰۶ء)تفسیرنورالثقلین جلد دوئم ،لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(مئی۲۰۰۶ء) تفسیرنورالثقلین جلد سوئم ، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ،غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(اکتوبر۲۰۰۶ء) تفسیرنورالثقلین جلد چہارم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(اپریل۲۰۰۷ء) تفسیرنورالثقلین جلد پنجم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(اکتوبر۲۰۰۸ء) تفسیرنورالثقلین جلد ششم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(فروری۲۰۱۰ء) تفسیرنورالثقلین جلد ہفتم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام، علامہ(فروری۲۰۱۲ء) تفسیرنورالثقلین جلد ہشتم، لاہور،ادارہ منہاج الصالحین، دکان نمبر۲۰،الحمد مارکیٹ ، غزنی ا سٹریٹ، اردو بازار۔
محمد حسن جعفری،مولانا[مترجم] (۲۰۰۱ء) جواب حاضر ہے،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمد حسن جعفری، علامہ[مترجم] (اگست۲۰۰۸ء) حقیقت گم شدہ،کراچی،مجمع علمی،اسلامی۔
محمد حسن جعفری،حضرت علامہ[مترجم] (نومبر۲۰۰۹ء) سوال عوام کے جواب امام کے،حصہ دوم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ۔
محمد حسن جعفری[مترجم] (۱۲ربیع الاول۱۴۲۱ھ) عیون اخبارالرضا،جلد اول،کراچی،اکبرحسین جیوانی ٹرسٹ۔
محمدحسن جعفری[مترجم](۱۲ ربیع الاول۱۴۲۱ھ)عیون اخبارالرضا،جلد دوم،کراچی،اکبر حسین،جیوانی ٹرسٹ ۔
محمد حسن جعفری[مترجم] (۲۰۰۳ء)قلب سلیم،جلداول ،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمد حسن جعفری[مترجم] (۲۰۰۳ء)قلب سلیم،جلددوم ،کراچی،حسن علی بک ڈپو بالمقابل بڑاامام باڑہ،کھارادر۔
محمد حسن جعفری،مولانا[مترجم] (دسمبر۲۰۰۴ء)کربلاکاتاریخی پس منظر،جلداول ،کراچی ،ادارہ تبلیغات علوم آل محمدؐ۔
محمد حسن جعفری[مترجم] (۱۴۲۱ھ)مجالس المومنین،کراچی،اکبرحسین جیوانی ٹرسٹ۔
محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (۲۰۰۵ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ اول،طبع دوم؛لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ۔
محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (جون۲۰۰۴ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ دوم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ۔
محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (اکتوبر۲۰۰۶ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ سوم،طبع دوم؛لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ۔
محمد حسن جعفری،مولانا،حجتہ الا سلام[مترجم] (دسمبر۲۰۰۴ء)معجزات آل محمدؐ،حصہ چہارم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ،ملتان روڈ۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام،مولانا[مترجم] (جنوری۲۰۰۴ء)مکتب امامت وخلافت،حصہ اول،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین ٹھوکرنیاز بیگ،ملتان روڈ۔
محمد حسن جعفری،حجۃ الاسلام،مولانا[مترجم] (اکتوبر۲۰۰۹ء؟)مکتب امامت وخلافت،حصہ دوم،لاہور،ادارہ منھاج الصالحین،جناح ٹاؤن، ٹھوکرنیازبیگ۔
محمد حسن جعفری[مترجم](۱۹۹۴ء)ہدیۃ الشیعہ ،لاہور،ادارہ نشرمعارف اسلامی۔
محمدشفیع بلوچ(۱۶جون۱۹۹۷ء)مشرق کافراموش کردہ نابغہ، لاہور،بزم عاشقان مصطفی ۔
عابد حسین قیصرانی،سینئرماہرمضمون ڈاکٹر(۲۰۰۸ء) : پروفیسرولیم منٹگمری واٹ کے مطالعہ سیرت النبیؐ کاتحقیقی وتجزیاتی مطالعہ ،مقالہ برائے پی ایچ ڈی اسلامیات،شعبہ علوم اسلامیہ،اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور۔
عذراشوذب،[ڈاکٹر](۱۴مارچ۲۰۰۸ء)’’سرائیکی خطے میں سرسیدتحریک کاداعی،اﷲ بخش خان بلوچ‘‘(مضمون)،ملتان ، روزنامہ جنگ۔