انجمن ترقی اردو پاکستان کی تحریک میں خواتین کا کردار
ڈاکٹر عائشہ سعید
Abstract

The contribution of the Anjuman-e-Taraqqi-e-Urdu is recognized by the scholarly and literary circles of Pakistan and rest of the world. The movement with regard to introducing Urdu had been started during the time of Sir Syed Ahmad Khan. The final form of this movement emerged in the shape of Anjuman-e-Taraqqi-e-Urdu. One hundred and seven years passed since the inception of this institution. Since its inception in 1903 this institution has contributed hundreds of books and articles with regard to scholarly and literary contribution. This institution is operative in the Indo-Pak Subcontinent and carrying forward its scholarly and philosophical efforts. It was under these circumstances that Maulvi 'Abdul Haq had established himself in Pakistan and the publishing work of the Anjuman-e-Taraqqi-e-Urdu started in a new atmosphere with a new ideology . Enclosed is also an appendix entitled "The Female Section of the Anjuman-e-Taraqqi-e-Urdu, Pakistan". Very little has been said in this regard which could determine its basic objectives and goals .


انجمن ترقی اردو کا قیام ۱۹۰۳ء میں عمل میں لایا گیا۔ ۱۹۱۲ء میں اسے مولوی عبدالحق کی قیادت میسر آئی انہوں نے ۱۹۱۲ ء سے تا دم مرگ اردو ادب کی خدمت کی اور اس ادارے کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ یہ ادارہ تقریباً برصغیر پاک و ہند کی سیاسی، سماجی و لسانی صورتِ حال سے نبرد آزما رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ایک نئے مرکز کے قیام کی کوشش کی گئی اور کراچی میں صدر دفتر بنائے جانے پر اتفاق ہوا۔ پیر الٰہی بخش، پیر حسام الدین راشدی اور سید ہاشم رضا جیسی مقتدر شخصیات کی کوششوں سے انجمن کو شاردا ودیا مندر کی عمارت مل گئی اور انجمن ترقی اردو نے پاکستان میں نئے سفر کا آغاز کر دیا۔
۱۹۴۹ء کی سالانہ رپورٹ میں مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو کی پاکستان میں آمد اور اس کی مجموعی صورتِ حال کو احسن طریقے سے اجاگر کیا یاد رہے کہ مولوی عبدالحق ابتدا ہی سے اس ادارے کی سالانہ رپورٹس پیش کر رہے تھے اور یہ روایت قیامِ پاکستان کے بعد بھی قائم رہی اور اس طرح کراچی میں صدر دفتر قائم ہوئے، مجلسِ نظما کے قیام اور سالانہ رپورٹ پیش کرنے کا سلسلہ یہاں بھی جاری ہو گیا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ:
’’میں نے اﷲ کا نام لے کر کل پاکستان انجمن ترقی اردو قائم کر دی ایک مجلسِ نظما بنائی جس کے لیے میں نے چند اصحاب کو نامزد کیا اس کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ میں اب یہاں آ گیا ہوں اور انجمن قائم کر دی ہے، انجمن کے لیے مناسب مکان بھی مل گیا ہے، میری خواہش ہے کہ اس کا افتتاح آپ اپنے دستِ مبارک سے فرمائیں۔ قائداعظم نے ۱۷؍مارچ کو میرے خط کے جواب میں لکھا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی آپ یہاں آگئے اور انجمن قائم کر دی۔ اس وقت بہت مصروف ہوں، سرحد کے دورے سے واپسی پر وسط اپریل کے بعد کسی تاریخ کو انجمن ترقی اردو پاکستان کا بڑی خوشی سے افتتاح کروں گا ۲۶؍مارچ پنجاب یونیورسٹی اردو کانفرنس کی صدارت کے لیے لاہور گیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ پہلی اردو کانفرنس تھی۔ افتتاح سر شیخ عبدالقادر نے کیا اور پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر نے تعارفی تقریر کی اور ڈاکٹر عمر حیات ملک نے خطبۂ استقبالیہ پڑھا۔ یہ بڑی اہم اور باوقار کانفرنس تھی۔‘‘(۱)
انجمن ترقی اردو پاکستان کی مجلسِ نظما کا پہلا جلسہ ۱۳؍فروری ۱۹۴۹ء کو غلام محمد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس میں شعیب قریشی، چودھری خلیق الزماں، پیر الٰہی بخش، صدیق علی خان اور مولوی سید ہاشمی شریک تھے۔ اس مجلسِ نظما سے پندرہ روز قبل مولوی عبدالحق بھوپال اور بمبئی کے سفر کے بعد یعنی ۲۸؍جنوری کو کراچی پہنچے اور اپنے ساتھ انجمن ترقی اردو کے کتب خانے کو بھی لے آئے یہ کتب خانہ نادر مطبوعات اور مخطوطات پر مشتمل تھا۔ اس کے اگلے سال سید علی شبر حاتمی اور محمد عمر یافعی حیدرآبادی نے بھی اپنے بیش قیمت کتب خانے انجمن ترقی اردو کو تحفتاً پیش کیے۔ مولوی عبدالحق نے ان کتب خانوں کو عوام و خواص کے لیے علیحدہ علیحدہ مخصوص کردیا جس سے ہزاروں شائقین علم و ادب مستفید ہوتے تھے۔
۱۷؍نومبر ۱۹۵۲ء کو مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو کی خواتین کی شاخ قائم کرنے کا ارادہ کیا اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا جس میں بیگم محمد شریف کو اس شاخ کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس شاخ کے قیام سے مولوی عبدالحق کا مقصد یہ تھا کہ اردو زبان و ادب میں دلچسپی رکھنے والی خواتین اردو کی ترقی وترویج کے لیے کام کریں۔ اس زمانے میں عورتوں کی تعلیم کی طرف کم توجہ دی جاتی تھی عورت صرف چادر اور چہار دیواری تک محدود تھی۔ چند ایسی خواتین جو باہمت اور پر خلوص نقطہ نظر کی حاصل تھیں انھوں نے تحریک قیام پاکستان میں حصہ لیا اور وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ چلیں۔ ان میں بیگم رعنا لیاقت علی، فاطمہ جناح ودیگر کے نام سامنے آتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کا خیال تھا کہ عورت میں بلا کا نظم و ضبط ہوتا ہے وہ ایک اچھی ماں اور بیٹی کے ادب میں ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہے جس وقت اس شاخ کا آغاز کیا گیا انجمن ترقی اردو کے قیام کو پچاس سال ہو چکے تھے اس دوران مولوی عبدالحق نے ہندو پاک میں کئی شاخیں قائم کیں اور بذات خود ان کا افتتاح کیا اور اس نصب العین کا اعادہ کیا کہ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج اور نفاذِ اردو کی تحریک کو روزافزوں ترقی دینے کے لیے ذریعہ تعلیم میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے وہ ذریعہ تعلیم ’’ اردو‘‘ کے حق میں تھے اور ان کی تمام تگ ودو اسی مقصد کے لیے تھی۔
مولوی عبدالحق نے شعبہ خواتین کی شاخ قائم تو کر دی تھی لیکن ان کی اردو دوستی انھیں اس امر کی طرف ہمیشہ راغب رکھتی تھی کہ وہ منعقدہ اجلاسوں میں شرکت کریں اور اردو زبان کے فروغ میں خواتین کے کر دار کو سرا ہیں تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے اور وہ زیادہ تعداد میں ان اجلاسوں میں شرکت کریں اور اپنے نقطہ نظر و تجاویز پیش کریں۔ اس شعبہ کی خوش نصیبی تھی کہ جب بھی کوئی اجلاس منعقد ہوتا مولوی عبدالحق اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس میں شرکت کرتے اور کبھی کبھی اجلاسوں کی صدارت بھی ان کے سپرد کی جاتی اور وہ خواتین سے خطاب بھی کرتے تھے۔ نیز اس وقت کی اہم شخصیات کی بیگمات بھی ان اجلاسوں میں شرکت نہیں تھی اور حسبِ توفیق مالی تعاون بھی کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ حکومت وقت کو بھی تجاویز و مشورے بھیجے جاتے جن کا بنیادی مقصد اردو زبان کا فروغ، خواتین کے لیے دفتر، لائبریری اور دارالترجمہ کا قیام وغیرہ جیسے اہم امورو مسائل کی طرف حکومت کی توجہ دلانا تھی۔ ۱۹۵۳ء کی سالانہ رپورٹ میں خواتین کی اس شاخ کا پہلا دستور مرتب کرنے کے لیے جو اجلاس بلایا گیا تھا اس کی کارروائی درج ہے۔ ایک اہم اجلاس میں چھ خواتین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور ایک سالہ منصوبہ بھی تیار کیا گیا جس کے مقاصد کی نشاندہی کی گئی۔ یہ رپورٹ ۱۹۵۲ء کے سال کی اہم منصوبہ بندی سے متعلق ہے جس میں درج ذیل اغراض و مقاصد پیش کیے گئے:
۱۔ ہر محلے میں ایک اردو کا مرکز قائم کرنا تاکہ اردو کو صحیح تلفظ کے ساتھ بولنا پڑھنا سکھایا جائے۔
۲۔ مراکز میں دارا لمطالعے قائم کرنا جہاں اردو کی ہر قسم کی کتب فراہم کی جائیں گی تاکہ خواتین میں اردو کے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو۔
۳۔ ایک بڑا دارالترجمہ قائم کرنا جس میں مختلف علوم وفنون کی کتب کا تراجم کر ایا جائے اور انجمن اس کو اپنے اخراجات سے طبع کرائے۔
۴۔ ایک ماہنامہ اردو زبان میں نکالنے کی ضرورت جس میں ادیب خواتین کو مواقع دیے جائیں۔
۵۔ ادبی کلب قائم کرنا جس میں ہر ہفتے ادبی اجتماع ہو اور خواتین میں ادبی ذوق پیدا کیا جائے۔
۶۔ انجمن نے مرکز کے تحت ہر صوبہ میں انجمن کی شاخیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ہر جگہ کی خواتین کو اردو میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی ہو یہ شاخیں مقامی طور پر کلب و مراکز قائم کر کے اردو کی ترویج اشاعت میں حصہ لیں گی۔ (۲)
انجمن کی مجلس عاملہ میں ہر صوبے سے خواتین کو منتخب کیاگیا تاکہ ہر صوبہ کی نمایندگی بھی ہو سکے اور اردو کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کی جاسکے انجمن کے اجلاس منعقدہ ۲؍اکتوبر ۱۹۵۳ء میں انجمن کی ایک سالہ روداد، کارگزاری، اور آئندہ سال کے منصوبہ کا خاکہ پیش کیا گیا یہاں امربھی قابل توجہ ہے کہ مولوی عبدالحق نے ۱۹۱۲ء میں انجمن ترقی اردو کا انتظام سنبھالنے کے بعد باقاعدہ ہر سال کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹس شائع کروائیں جس میں انجمن کے قواعد و ضوابطہ ارکان مجلس، سالانہ کاموں کی تفصیل، شاخوں اور تعلیمی اداروں کی کارگزاریوں وغیرہ کی تفصیل شائع کی جاتی تھی۔ ( ملاحظہ ہو ۱۹۱۳ء سے قیام پاکستان تک کی سالانہ رپورٹس)
انجمن ترقی اردو شعبہ خواتین کے اس اجلاس میں چار قرار دادیں پیش کی گئیں:
قرار داد نمبر ۱: (یہ قرار داد بیگم محمد شریف نے پیش کی)
انجمن ترقی اردو پاکستان کا یہ عظیم الشان اجلاس اس نظریہ کو پیش نظر رکھ کر منعقد کیا گیا کہ برعظیم ہندوستان کے مسلمانوں نے جس تہذیب وثقافت کے تحفظ و ترقی کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا اس کی اساس اور بنیاد ہماری قومی زبان اردو تھی اور اس خیال کے تحت بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے غیرمبہم الفاظ میں اس بات کا اعلان فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی۔ یہ امر مسلّمہ ہے کہ جب تک کسی قوم کی ایک قومی زبان نہ ہو وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا اور اس نظریہ کے تحت بھی کہ ملک کی سا لمیت اور ایک قومی نظرے کے تحت ہمارے ملک کی ایک قومی پہچان ہونی ضروری ہے اس لیے یہ جلسہ حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد اردو کو ملک کی واحد قومی و سرکاری زبان تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کردے۔
قرار داد نمبر ۲: ( یہ قرار داد بیگم ارجمند بانو قزلباش نے پیش کی)
انجمن ترقی اردو خواتین پاکستان کا یہ عظیم الشان اجلاس پاکستان سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت جلد از جلد ایک ایسا دارالترجمہ قائم کرے جو دوسری زبان کے مختلف علوم وفنون اور نادر کتب کا اردو میں ترجمہ کرتا رہے تاکہ اردو ادب جدید علوم و فنون سے مالا مال ہوتا رہے اور ہماری قومی زبان اردو دنیا کی دوسری مہذب اور علمی زبانوں کی صف میں شامل ہو سکے۔
قرار داد نمبر۳: ( یہ قرار داد مس نجمہ واسطی نے پیش کی)
انجمن ترقی اردو خواتین پاکستان سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ترقی اردو کے سلسلے میں ایک اردو کلب قائم کرے جس میں خواتین مردوں کے علیحدہ علیحدہ دن مقرر ہوں اور اس کلب میں ایک اردو کتب خانہ قائم ہو جس میں اردو ادب کی ممکن الحصول کتابیں جمع کی جائیں نیزحکومت کی طرف سے اردو کے انعامی تقریری اور تحریری مقابلے ہوا کریں۔
قرار داد نمبر ۴: ( یہ قرار داد بیگم انیس زیدی نے پیش کی)
انجمن ترقی اور خواتین پاکستان کا یہ اجلاس حکومت پاکستان سے التماس کرتا ہے کہ انجمن ترقی اردو خواتین کی جو انجمن ترقی اردو پاکستان کا شعبہ نسواں ہے سالانہ امداد منظور کرے اور خواتین کی انجمن ترقی اردو کو ایک ایسی عمارت الاٹ کی جائے جس میں وہ اپنا دارالترجمہ اور دارالمطالعہ بھی قائم کر سکے۔(۳)
شعبہ نسواں کی یہ شاخ اس طرح کی سالانہ کارکردگی کے حوالے سے بہت فعال شاخ تھی دوسری جانب مولوی عبدالحق کی سرپرستی بھی اسے حاصل تھی جس کی وجہ سے یہ ادارہ ترقی کر رہا تھا باقاعدہ اجلاسوں کی روئیداد اس زمانے کے مجلّہ قومی زبان میں بھی شائع ہوتی تھی۔ جسے مولوی عبدالحق باقاعدہ چھاپتے تھے تاکہ ملک کی خواتین ان کا مطالعہ کریں اور اس شعبہ سے وابستہ ہونے کے لیے جوق در جوق اس میں داخل ہوں۔ اس طرح کی کوششوں کے مناسب نتائج برآمد ہوئے یوں تو پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی ایک ہی شاخ تھی کیونکہ خواتین کی تعلیم و تربیت پر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی پھر بھی اس کے جملہ مقاصد کے نتائج بہتر انداز سے سامنے آتے نتیجہ اس وقت ملک کی اہم شخصیات کی بیگمات بھی اس شاخ کی کارکردگی میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ منعقد ہونے والے اجلاسوں میں صدارت کرتی تھیں آپس میں مل جل کر بیٹھتی تھیں جس سے عام سوچ رکھنے والی خواتین میں خوشی کر لہر دوڑ جاتی اور وہ نہایت جوش وجذبے سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ان اجلاسوں میں شرکت کرتیں۔
ان قرار دادوں کے پیش کرنے سے انجمن شعبہ خواتین کے بہت سے دیرینہ مسائل پیش ہو جاتے تھے جس میں سے کچھ حل بھی ہو جاتے تھے۔ اجلاسوں کی صدارت مجلس نظما کی معتبر خواتین کے علاوہ دیگراہم شخصیات کی بیگمات بھی کرتی تھیں مثلاً ایک اجلاس خاص کا ذکر اس رپورٹ میں کیا گیا کہ بیگم گورنر سندھ گورنر پاکستان اختر حسین کی بیگم جو بعد میں انجمن ترقی اردو کے صدر بنے نے خواتین کی منعقدہ نمائش میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور اس نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے خطاب کیا اور کہا:
’’میں کارکنان نمائش کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس نمائش کے افتتاح کا موقع دیا اور ساتھ ساتھ ممبران انجمن کے اس سپاس نامے کا شکریہ بھی ادا کرتی ہوں۔ اس سے پہلے کہ کچھ اور کہوں میں یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ میری اس صوبے میں پرورش ہوئی جہاں اردو اچھی طرح بولی نہیں جاتی، میں امید کرتی ہوں کہ آپ میری غلطیوں کو معاف کریں گی جو خدمات انجمن ترقی اردو نے سر انجام دیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انجمن کے آئندہ پروگرام اور ادارے قابلِ تعریف ہیں۔ اور ملک کے ہر شخص نے اخلاقی اور مالی امداد کے ہر طرح قابل ہیں۔ ‘‘(۴)
اس نمائش کے موقع پر حسب روایت مہمان خصوصی کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ یہ روایت بابائے اردو نے ڈالی تھی۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں خوبصورت الفاظ کو ترتیب دے کر ایسا سپاس نامہ پیش کرتے تھے کہ جس سے ان کی زبان دانی کی دھاک بھی بیٹھ جائے اور دوسرا شخص اس سے متاثر بھی ہو جائے اس طرح کے سپاس نامے قومی زبان کے اکثر شماروں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ۲۲؍جولائی ۱۹۵۴ء انجمن ترقی اردو کی مجلسِ نظمانے ایک ایسی قرار داد پیش کی جو مولوی عبدالحق کی دیرینہ خواہش بھی تھی اور وقت کی اہم ترین ضرورت بھی اس قرار داد میں خواتین اردو کالج کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرار داد بھی بیگم محمد شریف (صدر شعبہ خواتین ) نے پیش کی۔ محترمہ اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بے حد فعال خاتون تھیں انھوں نے اپنی حیات تک اس ادارے کا ساتھ دیا اور نہایت مستعدی سے اپنے فرائض انجام دیے۔ مولوی عبدالحق نے اس قرار داد کو منظور کرتے ہوئے اگلے سال یعنی ۱۹۵۵ء میں انجمن کے صدر دفتر کے احاطہ میں ’’اردو خواتین کالج ‘‘ قائم کرنے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ملک کی نامور اساتذہ خواتین کو یہاں ملازمت کی پیش کش کی گئی۔ یہ وقت مولوی عبدالحق کے لیے بہت سی آزمائشوں کا وقت تھا وہ اردو کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے، وہاں کے تعلیمی فنڈ کے لیے دن رات کوشاں رہتے تھے جب انھوں نے خواتین کالج کے قیام کا اعلان کیا تو ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر منتظمین کاخیال تھا کہ یہ کالج مناسب فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے قائم نہیں ہو سکتا لیکن مولوی عبدالحق نے خواتین کی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عارضی بنیادوں پر خواتین کی تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا انھوں نے کالج کے مختلف درجات قائم کرنے کے لیے خواتین اساتذہ سے رابطہ کیا اور ان درجات میں سالِ اول آرٹس میں معاشیات، نفسیات، سیاسیات، فارسی عربی، انگریزی، اردو، تاریخ، اسلام اور شہریات کی درس و تدریس شروع کر دی اور خواتین تجربہ کار اساتذہ نے اعزازی طو پر پڑھانے کی حامی بھرلی۔ اس قوم کی خوبی یہی ہے کہ جب مشکل وقت قوم پر پڑتا ہے تو اتحاد و مساوات کی ایسی مثال قائم ہو جاتی ہے جسے تاریخ ہمیشہ سنہرے حرفوں میں تحریر کرتی ہے۔ سر سید کے زمانے میں بھی ایک شخص کی مساعی جمیلہ نے تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کالج کے قیام کی مد میں بھی ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو نفاذِ اردو کی تحریک تھی اور جس میں ملک کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
لیکن یہ امر بھی قابلِ افسوس ہے کہ اسی قوم کے کچھ شرپسند عناصر برسوں تک کی جانے والی کوششوں کو اپنے شیطانی عمل سے دنوں میں ختم کر دیتے ہیں ایسا ہی کچھ اس کالج کے ساتھ ہوا انجمن ترقی اردو کی مجلس نظما کے چند اراکین مولوی عبدالحق کے مخالف ہو گئے تھے جس کا ذکر باب چہارم میں آچکا ہے اور انھوں نے انجمن کی تحریکی سر گرمیوں میں طرح طرح روڑے اٹھانے شروع کیے انجمن، اردو کالج اور خواتین کالج خاص طور پر اس کی زد میں آگئے تھے۔ خواتین کالج کے لیے انھوں نے انجمن کے فنڈ سے گرانٹ منظور نہیں کی اور اس کالج کا منصوبہ زیادہ عرصے نہ چل سکا۔(۵)
اردو یونیورسٹی کا قیام مولوی عبدالحق کی اولین ترجیح تھا جب اردو یونیورسٹی کے قیام کے عملی اقدامات کا آغاز ہوا تو انجمن ترقی اردو خواتین نے بھی اس ضمن میں مولوی عبدالحق کے شانہ بشانہ کام کرنے کا آغاز کیا۔ چنانچہ اس ضمن میں ۶؍جنوری ۱۹۶۱ء کو ایک اہم اجلاس میں پانچ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس بیگم شریف ( صدر انجمن) بیگم عرفان اللہ ، کنیز فاطمہ، رابعہ اسمعٰیل اور بیگم ارشاد حسین شامل تھیں۔ ان تمام خواتین نے اردو یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں فنڈ جمع کرنے کے سلسلے میں کوششیں کیں۔ ملک کے ہر شہر میں جلسے کیے۔ گھر گھر جا کر اس ادارے کے لیے فنڈ جمع کیے۔ اس کے علاوہ ایک اجلاس میں یہ بھی تقاضا کیا گیا کہ دستور پاکستان میں پندرہ سال کا جو عرصہ انگریزی زبان کے لیے رکھا گیا ہے اسے نظر ثانی کے دائرے میں لا کر ختم کیا جائے۔ اس جلسہ میں صدر پاکستان ایوب خان کا اس امر کے لیے شکریہ بھی ادا کیا گیا کہ انھوں نے قومی زبان اردو کو سیکنڈری تک ذریعہ تعلیم بنانے کی منظوری دی اور اسے تسلیم کیا۔
اسی سال ۱۴؍اگست کو مولوی عبدالحق کی وفات ہوئی جبکہ مولوی عبدالحق جنوری کے مہینے میں اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے یعنی وہ عمر کے اس حصّے میں تھے کہ انھیں آرام کی ضرورت تھی لیکن انھوں نے اپنی عمر کے آخری حصے تک اردو کے نفاذ کی تحریک کے لیے کوششیں کیں اس بات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بیگم شریف مولوی عبدالحق کے انتقال کے بعد اپنے مضمون ’’مسیحائے اردو‘‘ کہتی ہیں:
’’کراچی آکر مجھے بھی مرحوم سے نیاز حاصل ہوا، موصوف نے انجمن ترقی اردو کل پاکستان کی مجلس نظما میں میرا نام خود ہی رکھ لیا۔ نیز محترم نے ۱۹۵۲ء میں مجھے انجمن ترقی اردو خواتین پاکستان کا تاحیات صدر نامزد فرما کر ایک بڑا بار مجھ پر یہ کہہ کر رکھ دیا کہ خواتین میں اردو کی ترقی کا کام تم ہی بہتر طور پر کرسکتی ہو۔ پھر اس وقت سے برابر انجمن کے سالانہ جلسوں کا افتتاح کرتے ہوئے انجمن کے کاموں کی تعریف فرما کے شفقت پدری کے ساتھ ہماری حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ ‘‘(۶)
بیگم شریف نے مزید کہا کہ مولوی عبدالحق اردو یونیورسٹی کی طرز پر خواتین یونیورسٹی بھی قائم کرنا چاہتے تھے جس کی داغ بیل انھوں نے خواتین کالج قائم کر کے ڈال بھی دی تھی لیکن لسانی تعصب کے کرم فرماؤں نے اس کالج کے شجر کو برگ وبار لانے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
انجمن ترقی اردو خواتین پاکستان کا یہ مختصر تعارف ضمیمے کے طور پر اس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ خواتین کے نفاذ اردو کی تحریک میں کر دار پر روشنی ڈالی جا سکے۔ یہ شاخ مولوی عبدالحق کے بعد بھی کئی سال تک قائم رہی۔ اس کا صدر دفتر جہانگیر روڑ پر تھا۔ اس شاخ کے کارکن کی حیثیت سے بیگم ارجمند نے تاحیات خدمات انجام دیں اور قومی زبان میں مضامین بھی شائع کروائے۔ بیگم عبدالحفیظ بھی اس ادارے سے تاحیات وابستہ رہیں یہ خاتون قیام پاکستان سے پہلے سے حیدر آباد دکن میں مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی رہی تھیں انھوں نے ’’ انجمن اتحاد المسلمین‘‘ کا شعبہ خواتین بنایا جس کا نام ’’ انجمن اتحاد المسلمات‘‘ تھا۔ موصوفہ اس کی سیکرٹری جبکہ محترمہ فاطمہ جناح اس کی سرپرست تھیں۔ بیگم عبدالحفیظ کے فرزند محمود العزیز سے ملاقات کے بعد ان کے بارے میں کچھ معلومات فراہم ہوئیں جس کے مطابق محترمہ نے کراچی میں شعبہ خواتین کی شاخ کی صدر کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں۔ انجمن ترقی اردو کی یہ شاخ کب ختم ہوئی اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ انجمن کی بعض دیگر شاخوں کی طرح یہ شاخ بھی تاحیات خدمات انجام دینے والوں کی وفات کے بعد اپنی افادیت کھو بیٹھی۔

حواشی:
(۱) انجمن ترقی اردو کا المیہ از مولوی عبدالحق، ص۲۳
(۲)سالانہ رپورٹ: ۱۹۵۳ء، ص۱۴
(۳) بحوالہ سالانہ رپورٹ ۱۹۵۳ انجمن ترقی اردو خواتین پاکستان،ص ۳۵تا ۳۹
(۴) رپورٹ ۱۹۵۳ء، انجمن ترقی اور خواتین پاکستان، ص ۴۰
(۵) تاریخ انجمن مولوی عبدالحق کے بعد، ص ۷۸ تا ۷۹
(۶) بیگم شریف، ’’مسیحائے اردو‘‘، قومی زبان ۱۹۶۳ء بابائے اردو نمبر، ص ۱۰۴

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com