بائبل کے اردو تراجم کہانی سے حقیقت تک
پنکی جسٹن

This research paper is written under the title of "Urdu Translations of the Bible, Fiction to Fact." This should be seen as attempt to remove the misunderstandings have been developed in literary circles of Urdu. For example, very often different editions of the Bible translations have been taken as different translations. The reason behind it is the tradition of not mentioning the names of Translators with an assumption that this translations are done for the sake of God not for getting fame .
These kinds of mistakes have been carried off in authentic books throughout the generation to generation just like making cyclostyles. Fortunately I got some books to help me to sort out these problems. Moreover the stylistic changes have been discussed in the light of history and the purpose of doing it is to provide the samples of the language used in these translations because these translations have been playing their role in the devolvement of Urdu language and literature from time to time .

طبع زاد اور ترجمہ کی اصطلاحات ادبیات کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ طالب عالم کے لیے بھی غیرمانوس نہیں کسی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل دراصل ترجمہ ہے۔ مظفرعلی سید صاحب کی تحقیق کے مطابق Translation کا لفظ مغرب کی جدید زبانوں میں لاطینی سے آیا ہے اور اس کے لغوی معنی ’’پار لے جانا‘‘ ہے اس سے قطع نظر کہ کوئی مترجم کسی کو پار اتارتا بھی ہے یا نہیں یہ مفہوم نقل مکانی سے لے کر نقل معانی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح اردو اور فارسی میں ترجمے کا لفظ جس کا اشتقاقی رابطہ ترجمان اور مترجم دونوں سے ہے عربی زبان سے آیا ہے۔ اہلِ لغت اس کے کم از کم چار معنی درج کرتے ہیں۔ ایک سے دوسری زبان میں نقلِ کلام، تفسیر و تعبیر، دیباچہ اور کسی شخص کا بیان احوال یا تذکرہ شخصی ہے۔ (۱)
اس صورت حال کے تناظر میں کسی مترجم کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ماخذ یا ماخوذ زبان کی لسانی خصوصیات یا معاشرتی، سیاسی، تہذیبی اور تاریخی پس منظر سے ناواقفیت وغیرہ ہو سکتی ہیں یوں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے بقول مترجم بیک وقت دو آہنگوں کو سامنے لاتا ہے جن میں سے ایک پہلے ہی ادبی ہیئت میں آچکا ہے۔(۲) شاید اسی لیے دنیا بھر میں ترجمہ، طبع زاد کے مقابلے میں کم تر درجے کی تصنیف گردانا جاتاہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ترجمہ اقوام عالم میں اختلاط کا نہایت عمدہ وسیلہ ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر تہذیب و تمدن میں تبادلے کا پیش خیمہ بلکہ اس کی واحد عملی صورت ہے یہ باہمی لین دین کا ایک اٹوٹ سلسلہ ہے جو ہمیشہ بنی نوع انسان کے لیے سودمند ثابت ہوا ہے مثال کے طور پر اگر مذہبیات میں ہم اناجیل، قرآن اور وید، ادبیات میں الف لیلیٰ، رباعیاتِ عمرخیام، حکایاتِ سعدی، شیکسپیئر اور ابسن کے ڈراموں اور فلسفے کی سطح پر افلاطون اور ارسطو کی فلاسفی سے روشناس نہ ہوتے تو ہم کتنے ہی طبقات کی فکری اور تمدنی حیثیتوں سے قطعاً ناواقف رہتے۔(۳)
سرزمینِ ہندوستان ایک منفرد جغرافیائی محل وقوع اور ماضی کی شاندار تہذیبوں کی آماجگاہ ہونے کے باعث ہمیشہ سے ہی بیرونی حملہ آوروں کے لیے کشش کا باعث رہی۔ محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور ظہیر الدین بابر کے عہد تک لگ بھگ پانچ سو سال میں ہندوستانی تہذیب نے بہت کچھ اثر فاتحین سے لیا یہ اثر صرف طرز رہائش و بود و باش تک محدود نہ رہا بلکہ یہاں کے مقامی زبانوں نے بھی اس کا اچھا خاصا اثر قبول کیا۔ جہاں تک ہندوستان میں تراجم کی روایت کے آغاز کا سوال ہے تو اس سلسلے کو شروع کرنے والے صوفیا کرام تھے جن میں سے بیشتر تبلیغ کی نیت سے ہندوستان پہنچے۔ ترجمے کے باب میں ’’شرح تمہیدات‘‘ جو ایک قدیم فارسی تصنیف ’’تمہیدات عین القضات‘‘ مصنفہ عبداﷲ بن محمد ہمدانی کی شرح اور ترجمہ ہے۔ ’’شرہ مغلوب القلوب‘‘ ، ’’سب رس‘‘ اور ’’نشاط العاشقین‘‘ وغیرہ اسی دور کے تراجم ہیں۔ اسی طرح جب انگریزی سلطنت نے توسیع و استحکام حاصل کیا تو چاروں طرف مناظر بدل گئے۔پسپائیت کا گہرا اثر مسلمانوں کے دل و دماغ پر اور انگریزوں کی فتح و کامیابی کا اثر برصغیر کی ہر قوم پر واضح تھا۔
مسلمانوں کے نزدیک انگریز ان کا سب سے بڑا دشمن تھا کیونکہ انھوں نے ان کو ان کی عظمت جاہ و جلال سے نہ صرف محروم کر رکھا تھا بلکہ ان کی مذہبی زندگی کو بھی متاثر کر رہے تھے نتیجتاً یہ انگریزوں کے ہر فعل کو شک کی نگاہ سے دیکھتے بقول ڈاکٹر جمیل جالبی نئے سماجی، سیاسی، مذہبی، معاشی تصورات ابھرنے لگے اور اندازہ ہونے لگا کہ اب نیا نظام پرانے نظام کی جگہ لے رہا ہے۔(۴)
ان انگریزوں نے اپنے فاتحین ہونے کا پورا ثبوت دیااور صدہا الفاظ اپنے پیچھے یادگار چھوڑے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اردو زبان کی جو بالواسطہ خدمات کیں انھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اوّل تبلیغی مقاصد، دوم ادبی مقاصد، سوم ادبی و تبلیغی مقاصد، تبلیغی مقاصد کے نتیجے میں جو تخلیقات منظر عام پر آئیں ان میں سے اگرچہ بیشتر مذہب ہندو و اسلام اور ان کے عقائدپر طنز و تشنیع کے تیر برساتی اور اپنے مذہب کی خوبیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں لیکن اس کیچڑ میں بعض کنول کے پھول بھی کھلے نظر آتے ہیں جو بلاواسطہ ادب کے دامن کو گہر آبدار سے بھر دیتی ہے اور اس کے بغیر اردو ادب کی تاریخ متعین کرنا ممکن نہیں۔ بائبل کے تراجم اردو ادب کی نثری تاریخ کو اسی قسم کا سہارا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بائبل کے تراجم کے ضمن میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ صاحب کی تحقیق کے مطابق بنجمن شلز کا کتاب دانیال اور کتاب پیدائش کا ترجمہ دراصل ۱۷۴۸ء میں شائع ہوا اور مرزا صاحب کے مطابق دوسرا قدیم ترین ترجمہ کالنبرگ کا تھا جو ۱۷۸۰ء میں کلکتہ سے شائع ہوا لیکن وہ اس ضمن میں کوئی حوالہ پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں تاہم ان کی اس بات سے ہم صد فی صد اتفاق کرتے ہیں کہ بائبل کے تراجم کے ضمن میں اوّلیت کا سہرا ولندیزیوں اور پرتگالیوں کے سر رہا کیونکہ انگریز مشنریوں کی آمد سے قبل جان جو شوا کیٹلر اپنی کتاب ’’صرف و نحو‘‘ ہندوستانی مطبوعہ ۱۷۱۵ء میں مشہور عالم Lord's Prays دعائے ربانی، دس احکاماتِ الٰہی اور عقائد دین کا ترجمہ کرکے ترجمے کی روایت ڈال چکا تھا۔
گریر سن کی تحقیق کو بنیاد بناتے ہوئے ڈاکٹر عزیر صاحب نے اپنی کتاب ’’اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں دیگر مذاہب کا حصہ‘‘ میں جس ترجمے کو نمبر ۷ پر رکھا ہے اس کا ترجمہ پادری ہنری مارٹن نے کیا۔ ہنری مارٹن ۱۸۰۶ء میں ہندوستان آیا۔ ۱۸۵۷ء میں اس نے سیرام پور مشن کے تحت عہد نامۂ جدید کا ترجمہ مرزا فطرت کی مدد سے شروع کیا۔(۵) یہ کب ختم ہوا اس سلسلے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یونانی زبان سے براہِ راست اردو میں ترجمہ ہونے والا یہ متن دیوناگری رسم الخط میں چھاپا گیا۔ پادری برکت اﷲ نے اس کا سنہ طباعت ۱۸۱۷ء بتایا ہے۔ برکت اﷲ صاحب کے مطابق ان کے پاس ۱۸۲۹ء کی طبع شدہ جلد تھی لیکن اس سلسلے میں رام بابو سکسینہ کا بیان زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ تاریخ ادب اردو میں سکسینہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ترجمہ ۱۸۱۴ء میں مکمل ہوا اور ۱۸۱۹ء میں شائع ہوا جبکہ گریرسن کے مطابق یہ ۱۸۱۴ء میں پہلی دفعہ چھپا بعدازاں ۱۸۱۹ء میں لندن سے چھپا۔
ڈاکٹر عزیر صاحب کی کتاب ’’اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں دیگر مذاہب کا حصہ‘‘ میں عیسائی مذہب کے موضوع کے تحت زیر بحث آنے والا ترجمہ ’’کتاب مقدس‘‘ جوکہ عہد نامۂ قدیم اور جدید پر مشتمل تھا۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی کی طرف سے مرزاپور کے آرفن اسکول پریس میں ڈاکٹر میتھر صاحب نے ۱۸۶۷ء میں چھاپا۔ تصحیح کے بعد اس کا چوتھا ایڈیشن اسی پریس سے ڈاکٹر میتھر نے ۱۸۷۰ء میں چھپوایا جس کا ذکر ڈاکٹر عزیر صاحب کی کتاب میں بارہویں نمبر پر ایک الگ ترجمے کی حیثیت سے آتا ہے۔ جبکہ مس رضیہ نور محمد اپنے مقالے ’’اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ میں بحوالہ آغا افتخار حسین ’’یورپ میں اردو‘‘ میں اس ترجمے کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر ماتھر نے یہ ترجمہ رومن اور عربی رسم الخط میں شائع کیا اور بہت مقبول ہوا... انجیل مقدس کے ترجمے پر ۱۸۹۳ء اور ۱۸۹۹ء کے درمیان دوبارہ نظر ثانی کی گئی۔ یہ کام پرکنز (H.E. Perkins ) کی نگرانی میں شروع ہوا جو اس وقت آگژلیری بائبل سوسائٹی (Punjab Auxiliary Bible Society ) کے صدر تھے۔ پرکنز ۱۸۹۴ء میں ہندوستان سے واپس چلا گیا اور اس کے بعد یہ کام وائٹ بریچٹ (H.V WeitBrechet ) اور دیگر مشنریوں کی نگرانی میں ہوا۔ یہ ترجمہ ۱۸۹۹ء میں مکمل ہوا۔‘‘(۶)
مس رضیہ نور محمد کا نقل کیا ہوا یہ بیان اس ترجمے کے متعلق مزید الجھاؤ پیدا کر رہا ہے کیونکہ اس کے مطابق یہ ترجمہ ۱۸۹۹ء میں نظر ثانی کے بعد مکمل ہوا۔ جبکہ جس کمیٹی کا ذکر کیا جارہا ہے وہ تمام کتب عہد جدید کی نظر ثانی کرتی رہی ہے۔ جو ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۹ء تک قائم رہی۔ پادری برکت اﷲ اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں:
’’بائبل سوسائٹی نے اس غرض کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی جو ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۹ء تک کتب عہد جدید کی نظرثانی کرتی رہی یہ کمیٹی پادری ایچ ای پرکنز، پادری ایچ یو وائٹ بریچٹ، سٹینٹن، پادری ٹی جے سکاٹ، پادری تارا چند، پادری جے جی ڈین، ڈاکٹر جے سی آرجنویر، پادری ڈبلیو مانیل اور پادری ڈاکٹر ایف جے نیوٹن پر مشتمل تھی یہ نظرثانی شدہ ترجمہ K.J.V (King James Version ) کے نئے ورژن R.S.V (Revised Standard Version ) پر مبنی تھا۔‘‘(۷)
غالباً یہ اسی ترجمے کا ذکر ہے اس تمام بحث کے مطابق ایک ہی ترجمے کے مختلف ایڈیشنز ایک الگ ترجمے کے طور پر بیان کرکے کئی قسم کی غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں۔ اس سلسلے میں مرزا حامد بیگ کا بیان زیادہ مستند ہے۔
مرزا پور کے ڈاکٹر میتھر نے عہدِ جدید کے ۱۸۴۱ء کے ترجمے کو نظر ثانی کرکے دونوں عہد ناموں کو شائع کرایا یہ ترجمہ بہت زیادہ مقبول رہا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اس ترجمے پر ایک بار پھر نظر ثانی کی گئی تاکہ ترجمہ کرکے زبان کی اسلوبی کروٹوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ تیسری نظر ثانی ۱۹۳۰ء میں کی گئی اور چوتھی ۱۹۸۰ء میں مکمل ہوئی۔ (ڈاکٹر عریز صاحب نے پچھلے ترجمے کے اس چوتھے ایڈیشن کو ایک الگ ترجمے کے طور پر بیان کیا ہے۔)
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ صاحب ہی کے مطابق ڈاکٹر میتھر نے جس ترجمے پر نظر ثانی کی وہ ۱۸۴۱ء میں بنارس شہر کی مسیحی کمیٹی نے کیا تھا اور یہ ترجمہ پادری ہنری مارٹن کے ترجمہ پر مبنی تھا۔ اس کمیٹی کے صدر ڈاکٹر میتھر تھے کمیٹی میں دو ہندوستانی مسیحی (مرزا پور سے متعلق) ہری بابو اور جان مسیح بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر فینڈر بھی گاہے بگاہے اس کمیٹی کی مدد فرماتے تھے۔(۸)
یہاں مرزا حامد بیگ صاحب کی اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ ہری بابو اور جان مسیح دو الگ شخصیات نہیں ہیں۔ راقمہ کی تحقیق کے مطابق ہری بابو اور جان مسیح ایک ہی شخص ہے۔ کتاب بعنوان ’’تعظیم التورات‘‘ اس وقت میرے سامنے موجود ہے جس کے مصنف کا نام ’’بابو جان ہری صاحب‘‘ ہے اس کے مقدمے میں م،ع حسرتی تذکرہ کرتے ہیں کہ مصنف کا اصل نام شیو درشن سنگھ تھا۔ کمسنی میں ہی والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہونے کے بعد کرنل انسلی جان ہری کے زیر سایہ پرورش پانے لگے۔ کرنل نے انھیں اپنا نام بطور نشانی دے دیا۔ اس وقت سے ان کا نام بابو جان ہری ہو گیا۔ ان کا زمانہ بھی ۱۸۱۱ء تا ۱۸۸۳ء ہے۔
اردو زبان کی اسلوبی کروٹیں (تراجم بائبل کی روشنی میں)
ادبی مشنریوں کی تربیت لاطینی زبان کے گہوارے میں ہوئی تھی۔ ان کا علمی پس منظر اہل روما کی لسانی اور علمی کارگزاریوں کا مرہونِ منت تھا۔ یہی پس منظر تراجم بائبل میں بھی کسی حد تک کارفرما نظر آتا ہے اور اس پر لاطینی کی چھاپ گہری نظر آتی ہے۔ انجیل کے تراجم کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اردو زبان کے وہ نمونے بآسانی دیکھ سکتے ہیں جو عیسائیوں نے اردو زبان کو باثروت بنانے میں تحریر کیے اور جن کی جھلک اس دور میں خال خال نظر آتی ہے۔ یہ نمونے اس اعتبار سے بھی قابلِ قدر ہیں کہ ان میں اردو کی عام بول چال کی زبان سامنے آئی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ان نمونوں کو عہد بہ عہد پیش کیا جارہا ہے۔
۱۷۱۵ء کی زبان:
جان جوشو آکیٹلر کی دعائے ربانی کا ترجمہ:
’’ہمارے باپ کہ وہ آسمان میں ہے، پاک ہوئے تیرے نام آوے ہم کو ملک تیرا، ہوئے راج تیرا، جوں اسمان جو جمین میں، روٹی ہمارے نہ تھی، ہم کو آس دے، اور معاف کر تقصیر اپنی ہم کو، جوں معاف کرتے اُپرے (اپنے) قرض داروں کوں، نہ ڈال ہم کو اس وسوسے میں، بلکہ ہم کو گھس کر اس بورائی سے، تیری ہی پادشاہی، زور آوری عالمگیری حمایت میں آمین۔‘‘
۱۷۴۵ء تا ۱۷۵۸ء کی زبان:
بنجمن شلز کی کتاب ’’ہندوستانی گرائمر‘‘ سے ماخوذ ہے:
’’باپ مے سو ایک اﷲ کے اوپر کرتا ہوں، اور اپنی قدرت سوں آسمان کوں بھی، زمین کوں بھی پیدا کیے ہیں، اون کا ایک فرزند ہیں، سو ہمانرا خاوند ایشوعا مسیحا کے اوپر اعتقاد لاتا ہوں اور روح قدس حمل کرنا ہوکو، ابنائی مریم کے پیٹ مے تولد ہوکو، پنیاوس پیلاط وسکے نیچے عذاب پاکو، دو پائے کوں اوپر مانرا ہو کو مر جا کو قبرمے رکھنا ہوکو، نیچے کوں اوترا کو جا کو تیسرے روز مے مر گئے سو رونومے سوں اوٹ کو اسمان پوچھڑ کو قدرت سوں ہے، سو باپ خدا کے سے ہر طرف مے ہے، وہاں سوں جیون ہاریاں کوں بھی مرگیؤ، انوکوں بھی کتوال ہو کر آوے گا روح قدس کے اوپر اعتبار کرتا ہوں، پاک منداں کی جماعت بھی، محبت بھی، گناہاں کا معافی، انگ اُٹھنا بھی ہمیشہ رہے گا، جیو بھی ہے کہہ کو اعتبار کرتا ہوں۔‘‘
یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور اس کا اقرار ہی ان کے ایمان کی بنیاد ہے۔
ان دونوں تراجم کے اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے جمیل جالبی یوں رقم طراز ہیں:
’’ان نثری ترجموں پر قدیم اردو (دکنی) کا گہرا اثر ہے۔ اس میں ’چ‘ تاکیدی (’ہی‘ کے معنی میں) بار بار استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح جمع بھی دکنی طریقے سے بنائی گئی ہے۔ فارسی اصول و قواعد کے مطابق محترم ہستی کے لیے ضمیر واحد کے ساتھ فعل جمع لاتے ہیں۔ یہی صورت اس ترجمے میں ملتی ہے مثلاً او... پیدا کیے ہیں، یا ’’اون کا ایک فرزند ہیں، شلز چونکہ مبلغ پادری تھا اس لیے اس نے متن سے قریب تر رہنے کی کوشش کی ہے۔ اس عمل میں وہی جذبۂ عقیدت کارفرما رہا جو قران پاک کے ترجموں و مفسروں کے ہاں نظر آتا ہے۔‘‘(۹)
۱۸۳۹ء کی زبان:
بپٹسٹ مشن پریس سے ۱۸۳۹ء میں عہد نامۂ جدید کے ایک ترجمے سے اقتباس ملاحظہ ہو۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر عزیز صاحب کی فہرست میں نمبر ۱ پر ہے اور یہ اقتباس ’’رسولوں کے اعمال‘‘ سے ہے۔
’’اے تھیوفلے، میں کتاب میں بیان کر چکا ہوں ان سب کاموں اور نصیحتوں کو جو یسوع کرتا رہا اس وقت تک کہ وہ روح قدس سے اپنے برگزیدہ رسولوں کو حکم دے کے اوپر اٹھایا گیا، جن کے نزدیک اس نے بعد اپنے مرنے کے اپنے تئیں بہت سی دلیلوں سے زندہ ثابت کیا کہ وہ چالیس دن تک انھیں دکھائی دے کر خدا کی بادشاہت کی باتیں کہتا رہا اور انھیں اکٹھا کرکے یہ حکم کیا...‘
۱۸۴۲ء کی زبان:
بائبل پریس کلکتہ سے ۱۸۴۲ء میں چھپنے والا یہ ترجمہ کتابِ پیدائش کے پہلے باب کی پہلی چند آیات کا ترجمہ یوں بیان کرتا ہے:
’’ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ اجالا ہو اور اجالا ہو گیا...‘‘
ڈاکٹر عزیر صاحب کی فہرست میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔
۱۸۵۹ء کی زبان:
مرزاپور کے آرفن پریس سے ۱۸۵۹ء میں ریورنڈٹی ہورنلے کی کتاب پیدائش کے ترجمے کے سلسلے میں کی گئی کوشش کا نتیجہ ملاحظہ ہو:
’’خدا اپنے کلام سے آسمان زمین کو پیدا کیا۔ اس کے پیدا کرنے سے پہلے خدا کے سوا کچھ نہ تھا۔ خدا ہی قدیم و قادر ہے جو چاہے سو کرسکتا ہے۔ اس نے نہ چاہا کہ آسمان و زمین اور ان کی سب حشمتیں ایک ہی بار دکھلائی دیں بلکہ رفتہ رفتہ ظاہر و تیار ہوویں۔ کیونکہ اس نے پہلے ہی سب کا بندوبست شمار اور پیمانے اور تول سے کرلیا۔ سو خدا نے آسمان و زمین کو چھ دن میں بنایا...
ڈاکٹر عزیر صاحب کی فہرست میں اس کا نمبر۷ ہے۔

۱۸۶۵ء کی زبان:
۱۸۶۵ء میں عربی سے اردو ترجمہ ہونے والی کتاب ’’زبور‘‘ کی زبان کچھ یوں ہے:
’’اے خداوند، وے جو مجھے دکھ دیتے ہیں کیا ہی بڑھ گئے ہیں۔ وہ بہت ہی بڑھ گئے ہیں کہ جو میری حفاظت پر اٹھتے ہیں۔ بہتیرے میری جان کی بابت کہتے ہیں کہ خدا سے اب اس کی نجات نہیں صلا پر تو دے خداوند میرے لیے سپر ہے...‘‘
۱۸۶۷ء کی زبان:
نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی کی طرف سے مرزا پور کے آرفن اسکول پریس میں ڈاکٹر ماتھر کے اہتمام سے ۱۸۶۷ء میں شائع ہونے والے ترجمے کاایک مختصر سا اقتباس بطور نمونہ درج کیا جاتا ہے:
’’پھر اس نے دوسرا خواب دیکھا اور اسے اپنے بھائیوں سے بیان کیا اور کہا کہ دیکھو میں نے ایک خواب دیکھا کہ سورج اور چاند اور گیارہ ستاروں نے سجدہ کیا ہے اور اس نے اپنے باپ اور بھائیوں سے بیان کیا اور تب اس کے باپ نے اسے ڈانٹا اور اسے کہا کہ یہ کیا خواب ہے جو تو نے دیکھا ہے؟ کیا میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مچ تیرے آگے زمین پر جھک کر تجھے سجدہ کریں گے اور اس سے بھائیوں کو رشک آیا لیکن اس کے باپ نے اس بات کو یاد رکھا۔‘‘

۱۸۷۳ء کی زبان:
مرقس، باب دہم کا ایک اقتباس حسبِ ذیل ہے:
’’پھر وہاں سے اُٹھ کر یرون کے پار یہودیہ کی سرحدوں میں آیا اور لوگ آس پاس پھر جمع ہوئے اور وہ اپنے دستور کے موافق پھر انھیں تعلیم کرنے لگا اور فریسیوں نے آس پاس آ کے امتحان کی راہ سے اس سے پوچھا کیا روا ہے کہ مرد جورو کو طلاق دے...‘‘
۱۸۸۶ء کی زبان:
انیسویں صدی کے تقریباً آخر میں چھپنے والا یہ ترجمہ ریورنڈ جے ایف المان کے رخشِ قلم کا نمونہ ہے:
’’پھر اس نے جاتے ہووے ایک شخص کو جو جہنم کا اندھا تھا دیکھا اور اس کے شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ اے ربّی گناہ کس نے کیا، اس شحص نے یا اس کے ماں باپ نے کہ یہ اندھا پیدا ہوا۔ عیسیٰ نے جواب دیا نہ تو اس شخص نے گناہ کیا اور نہ اس کے ماں باپ نے لیکن یوں ہوا تاکہ خدا کے کام اس میں ظاہر ہوں...‘‘

اردو تراجم بائبل کے بنظر غائر مطالعہ کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تراجم میں بارہا تصحیح شدہ ایڈیشنوں نے غلط فہمیوں کو اس قدر طول دیا کہ تحقیقی مقالے بھی اس کا ازالہ نہ کر سکے دوسری طرف تراجم کی زبان سے بعض بڑی بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جو معذرت کے ساتھ آج بھی اردو بائبل کا حصہ ہیں اور معانی کو ایک نیا رنگ پہنائے ہوئے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عبرانی میں بعض اوقات ایک ہی لفظ کئی معانی میں استعمال ہے مثلاً بائبل کی پہلی کتاب پیدائش کے باب اوّل کی پہلی آیت یوں درج ہے ’’خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔‘‘ بائبل کے تمام اردو تراجم میں ’’پیدا کیا‘‘ یہ فعل عبرانی متن میں دو مختلف عبرانی فعل کے ساتھ استعمال ہوا ہے ’’بارا‘‘ اور ’’عاسا‘‘ پہلا فعل آیات ۲،۳،۴ اور دوسرا آیات ۷، ۱۱،۱۲، ۲۵، ۲۶،۳۱ اور باب ۲ کی ۲، ۳، ۴ آیات میں۔ بارا کسی بھی مقام پر خدا کے سوا کسی اور کے لیے استعمال نہیں ہوا جبکہ ’’عاسا‘‘میں یہ تخصیص نہیں۔ یہاں تک کہ ۲ سموئیل ۲۴:۱۹ (عبرانی میں آیت ۲۵) میں یہی فعل شیو بنانے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’بارا‘‘ نیست سے ہست اور
’’عاسا‘‘ موجود چیز کو کوئی اور شکل دینے پر دلالت کرتا ہے۔ پہلے لفظ ’’بارا‘‘ سے عربی میں ’’باری‘‘ آیا ہے جو صرف پروردگار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح عبرانی کا ’’و‘‘ حرف عطف ۳۳ مختلف کام سر انجام دیتا ہے لیکن اسے اندھا دھند ’’اور‘‘ یا پھر ’’سو‘‘ترجمہ کر دیا گیا ہے۔
Exegesis کمزور ہونے کے باعث محض قیاس کی بنا پر قریب ترین معنی لینے کی کوشش کی گئی۔ دوسری طرف مترجمین خود اہل زبان (اردو) نہ تھے اس لیے عوامی اور فطری زبان سے قریب تر رہنے کی شعوری کوشش میں ان کا اکتساب لسانی کمزور رہا اور اردو کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا۔ بہرحال ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بڑی محنت اور تحقیق کی ضرورت ہے۔



حوالہ جات:
(۱)’’مضمون، ترجمہ، تالیف، تلخیص اور اخذ کرنے کا فن‘‘ ماہنامہ ’’کتاب‘‘، لاہور جون ۱۹۸۲ء
(۲) ’’مغرب سے نثری تراجم‘‘ از ڈاکٹر مرزا حامد بیگ بحوالہ مقدمہ
(۳) ایضاً
(۴) ’’تاریخ ادب اردو‘‘ جلد سوم از ڈاکٹر جمیل جالبی، ص۲۳
(۵) ’’اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں دیگر مذاہب کا حصہ‘‘ از ڈاکٹر محمد عزیر، ص
(۶) اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ از ۱۴۹۸ تا ۱۹۴۷ء از ڈاکٹر مس رضیہ نور محمد، ص۲۱۸
(۷) صحت کتب مقدسہ از پادری برکت اﷲ، ص۱۵۸
(۸) ’’مغرب سے نثری تراجم‘‘ از ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، ص۱۱۴
(۹) ایضاً
(۱۰) ’’تاریخ ادب اردو‘‘، جلد دوم از ڈاکٹر جمیل جالبی، ص۱۰۲۴

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com