بطور ثانوی زبان،تدریسِ اردو کا جائزہ
ڈاکٹر محمد سلیمان اطہر


ABSTRACT
Urdu is the National Language and a Lingua Franca in Pakistan. That is why, it is being taught from Nursery to Intermediate classes as a compulsory subject in schools and colleges of public &private sectors in the country. Presently, the efficiency of an Urdu teacher and learning level of students are being measured just by a single written question paper that comprises of a few queries which can easily be solved by cramming certain things of the syllabus. However, we can't evaluate the real and exact output of teaching of Urdu. Such question papers measure only basic writing skills of the students in Urdu language depending upon their cramming level. The other three skills namely Listening Skills, Speaking Skills and Reading Skills are never evaluated by such kind of current examination system. So, true proficiency of a student in Urdu language remains hidden .
In the start of this paper, a slight difference of certain terms e.g; Test, Examination, Educational Measurement and Evaluation is discussed as a introduction to Evaluation process . Then the evaluation of each language skill is discussed in detail. The conclusion of the topic is that Listening, Speaking and Reading skills must also be made a part of evaluation system of Urdu language, assigning fixed marks to each skill. However, the marks for the four language skills may vary for primary, middle, High and inter classes. Weekly, fortnightly, monthly, mid-term and annual tests must be set on the basis of all language skills . In other words, oral tests for evaluation of Listening &Speaking skills and practical tests for the evaluation of handwriting and Reading skills must be designed besides written tests .


اکتسابی آزمائش(Test )،امتحان(Examination )،تعلیمی پیمائش (Educational Measurement )اوراکتسابی جائزہ (Evaluation ) ایسے الفاظ ہیں جو تعلیمی نظام میں الگ الگ معنی ومفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ اصطلاحی لحاظ سے ان اصطلاحات کے مابین بہت لطیف سافرق موجود ہے۔اکتسابی آزمائش سے مراد وہ سوالیہ پرچہ ہے جوکسی مقررہ دن ایک معیّنہ امتحان گاہ میں طالب علموں کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ وہ اسے محدود اوقات(عموماً دو یاتین گھنٹے) میں اس کے ساتھ فراہم کی گئی امتحانی جوابی کاپی پر تحریر ی طور پرحل کر یں، امتحانی تجربہ گاہ میں عملی طورپر کرکے دکھا ئیں اورنتائج لکھیں۔ ڈاکٹر عبدالرشید آزادکے بقول پیمائش میں آزمائش صرف ایک سوالیہ پرچہ ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ایک باقاعدہ منظم طریقہ کار ہے جس میں کسی فرد کی کسی بھی مضمون میں کارکردگی ایک مجوزہ معیار کے ساتھ موازنہ کرکے متعین کی جاتی ہے۔ [۱] اپنی ساخت اور طریقہ کار کے لحاظ سے آزمائش تین طرح کی ہوسکتی ہے یعنی تحریری آزمائش،عملی آزمائش اور زبانی آزمائش۔ تحریری آزمائش مزید دو طرح کی ہوتی ہے:انشائیہ طرز آزمائش اور معروضی طرزآزمائش۔انشائیہ طرز آزمائش تفصیلی جوابات کے حامل چند سوالات پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ معروضی طرز آزمائش میں مختصر جوابات کے حامل سوالات، خالی جگہ کے فقرات، غلط درست فقرات، کثیرالانتخاب فقرات اور دوکالموں پر مشتمل ادھورے فقرات شامل ہوتے ہیں۔دونوں طرز کی آزمائشوں کی خوبیاں اور خامیاں واضح اور متعین ہیں جنھیں ایک دوسرے پر مکمل فوقیت نہیں دی جاسکتی۔اپنے دائرہ کار کے لحاظ سے اردو زبان کی اکتسابی آزمائشیں دوطرح کی ہوسکتی ہیںیعنی اردو معلّم کی تیارکردہ آزمائشیں اور معیاری آزمائشیں۔[۲]پہلی قسم کی آزمائشیں ہر سکول میں اردواستاد خود تیارکرتا ہے اوران کادائرہ عمل اس کی اپنی جماعت یا اُسی درجے کی سکول کی دیگر جماعتوں کے بچوں کی لسانی جانچ تک محدودہوتاہے جبکہ معیاری آزمائشیں مخصوص اداروں کے ماہرین ہی تیار کرتے ہیں اور ان کا دائرہ عمل ایک ضلع، ایک ڈویژن، ایک صوبہ یا پورا ملک ہو سکتاہے۔
لسانی اکتسابی آزمائشوں کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں ان کے کچھ نقصانات بھی ہیں مثلاً معلّم ومتعلّم بالعموم ان نصابی اجزاکوبہت اہم اورضروری خیال کرتے ہیں جو اکثر بیشتر لسانی آزمائشوں میں شامل ہوتے ہیں جبکہ دیگر نصابی مشمولات کو غیرضروری یاکم اہم سمجھ کر بالعموم نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اردو معلّم کی تدریسی حکمتِ عملی (Policy )صرف لسانی آزمائشوں کے تابع ہوکر رہ جاتی ہے ۔دوسری طرف سکول سطح کے طالب علموں میں تجریدیت کی صلاحیت بالعموم پیدانہیں ہوپاتی جوکہ لسانی نشوونما کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔علاوہ ازیں تدریس اردو کی کئی خصوصی مہارتیں لسانی آزمائشوں میں شامل ہونے سے رہ جاتی ہیں ۔لسانی آزمائشوں کے محدود طرز عمل کی بدولت لسانی نقطہ نظر سے بچوں کی ذہنی اور معاشرتی نشو ونما بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔[۳]اس کا مطلب ہے کہ اکتسابی آزمائشیں لسانی پیمائش کے عمل میں صرف ایک جزو کی حیثیت رکھتی ہیں اور تدریس اردو کے جامع جائزے کے لیے ان پر صرف جزوی طورپرہی انحصار کیا جا سکتا ہے کلی طورپر نہیں۔
امتحان ایک ایسانظام ہے جس میں نصابی اجزا کی روشنی میں سوالیہ پرچہ جات(آزمائشوں) کی تیاری، آزمائش گاہ کا تعیّن، نگران عملے کا تقرر، آزمائش گاہ میں طالب علموں کوسوالیہ پرچے سمیت جوابی کاپیوں کی فراہمی اورمقررہ وقفے میں ان سے جوابی کاپیوں پر سوالیہ پرچہ حل کراناوغیرہ شامل ہے ۔امتحان کا تعلق کسی درجے میں پڑھائے جانے والے تمام درسی مضامین سے ہوتا ہے۔کسی فرد کی تعلیمی کارکردگی کو ایک معیاری اکائی یا پیمانے کے مطابق اعداد کی صورت میں ظاہر کرنے کا عمل تعلیمی پیمائش کہلاتاہے۔[۴]اسی طرح کسی فرد کی کسی خاص زبان کی لسانی مہارتوں میں کارکردگی کو کسی معیاری پیمانے کے مطابق عددی لحاظ سے ظاہرکرنے کو لسانی پیمائش کہا جاسکتا ہے۔ پیمائش ایک سائنسی اصطلاح ہے جس کا لفظی مطلب ’’ماپنا‘‘ یا ’’ناپنا‘‘ ہوتاہے ۔ تعلیمی پیمائش میں ہر قسم کی زبانی ، عملی اور تحریری آزمائشیں( امتحانی پرچہ جات) پیمائشی آلات کے طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ [۵]تدریس اردو کے اکتسابی جائزے کے پیمائشی آلات( لسانی آزمائشوں)کے لیے ضروری ہے کہ ان میں موزونیت، اعتمادیت اور عملیت جیسی خوبیوں موجود ہوں ۔موزونیت یہ ہے کہ وہ اردوزبان کی کسی ایک مخصوص مہارت یاتمام مہارتوں کی پیمائش میں واقعی مدد گار اور مفید ثابت ہوں۔ اعتمادیت یہ ہے کہ لسانی آزمائش کے نتائج میں معروضیت اور داخلی مطابقت پائی جائے۔عملیت یہ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے کے مالی وسائل کے مطابق قابل عمل ہوں نیز تربیت یافتہ اردو معلّم اورتدریسی نظام الاوقات میں اس کے لیے وقت کی گنجائش ہو۔ [۶]اردوزبان کی تعلیمی پیمائش میں زبانی آزمائشوں کی صورت میں بچوں کی اردوبول چال کامشاہدہ کرکے اکتسابی نتائج مرتب کیے جاسکتے ہیں جبکہ تحریری آزمائشوں کی صورت میں حل شدہ جوابی کاپیوں کی جانچ (Marking )کرکے لسانی نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں اور انہی کی بنا پر عددی لحاظ سے طالب علم کی اردو زبان کی آموزش کی کارکردگی متعین کی جاتی ہے ۔تعلیمی پیمائش کا تصوّربہت محدود ہے اور اس کا تعلق صرف ایک ہی نصابی مضمون سے ہوتاہے ۔ اردو زبان کے تناظرمیں تعلیمی پیمائش سے مرادموادِ مضمون کے کسی ایک مخصوص لسانی پہلو، خصوصی لسانی مہارت یا قابلیت سے ہو سکتا ہے [۷] عموماً اردو کی تعلیمی پیمائش کا تعلق زیادہ تر لکھنے کی مہارتوں سے وابستہ کرلیا جاتا ہے اور دیگر لسانی مہارتیں مثلاً سننا، بولنااور پڑھنا وغیرہ عموماً نظر انداز ہو جاتی ہیں ۔ گویا تعلیمی پیمائش کے ذریعے تمام لسانی مہارتوں کی تحصیل کا بیک وقت احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
اکتسابی جائزہ ایک جامع تعلیمی اصطلاح ہے جوتعلیمی پیمائش کے مقابلے میں زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔ تعلیمی نظام میں جائزے سے مراد اکتسابی کام کی جانچ کرنا، پرکھنا اوراسے ایک طے شدہ معیار کی کسوٹی پرلانا ہے تاکہ ’’تعلّم ‘‘کی سطح معلوم ہو سکے۔ [۸] تدریس اردو کا اکتسابی جائزہ ہرطالب علم کی اردو زبان کی چاروں لسانی مہارتوں میں کارکردگی اور لسانی رویے پر مشتمل ہوسکتا ہے۔تعلیمی آزمائش، امتحان اور تعلیمی پیمائش وغیرہ اکتسابی جائزے کے وہ بنیادی مراحل ہیں جن کی تکمیل پر تدریس اردو کے تعلّم کا تجزیہ ممکن ہوسکتا ہے لیکن یہ مراحل حتمی نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے علاوہ بھی کئی دیگر تعلیمی سرگرمیاں ہیں جن کی بنیاد پر جامع اکتسابی جائزہ لیا جا تا ہے۔بقول ڈاکٹر عبدالرشید آزاد کسی طالب علم کے تدریسی جائزے میں اکتسابی آزمائشوں کے نتائج کوبہت زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے بلکہ ا ن نتائج کا تجزیہ وتشریح دیگر معلومات کی روشنی میں ہونا چاہیے۔[۹] گویا اکتسابی جائزے میں رسمی لسانی آزمائشوں کے علاوہ سکول کی حدود میں منعقد ہونے والی ہم نصابی سرگرمیاں اور کمرہ جماعت میں سرانجام پانے والی غیر رسمی آزمائشوں کے نتائج نیز مختلف لسانی مہارتوں کی تدریس کے دوران طالب علموں کے انفرادی لسانی روّیوں کے بارے میں اردومعلّم کے ذاتی مشاہدات بھی شامل ہوتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ رسمی آزمائشوں کے نتائج کے ساتھ ساتھ ہر طالب علم کا لسانی واقعاتی ریکارڈ مرتب کرنابھی ضروری ہوتا ہے تاکہ ایک جامع لسانی جائزہ لیا جاسکے۔ معین الدّین کا کہنا ہے کہ جائزہ ایک مسلسل عمل ہے جس کی بدولت استادطالب علموں کے کمزور تعلیمی پہلوؤں اور کوتاہیوں کی شناخت کرتا ہے،ان کمزوریوں کو دور کرنے کے طریقے ڈھونڈتا ہے اورکسی مضمون کے مروّجہ نصاب کی تدریسی افادیت کا اندازہ کرتا ہے۔[۱۰]
اردو زبان کے اکتسابی جائزے سے مرادایک ایسا منظم طریقہ کار ہے جس پہ عمل پیرا ہوکر اردو زبان کے مروّجہ طریقہ تدریس کی عملی اثرانگیزی، مطلوبہ لسانی مقاصد کے حصول میں اردو کے نصابی مشمولات کی افادیّت اوراردو استاد کی تدریسی کارکردگی متعین کی جاسکے نیز یہ معلوم ہوسکے کہ کسی خاص درجے میں زیر تعلیم ایک طالب علم نے اردو کی تدریس کے نتیجے میں بنیادی لسانی مہارتوں(مثلاًسننا، بولنا، پڑھنا، لکھنا، خوشخط لکھائی وغیرہ) پر کس حد تک عبور حاصل کیا ہے؟ املائی اغلاط کس حد تک ہیں؟طالب علم اردو رسم الخط میں لکھتے ہوئے الفاظ کی صحت، ظاہری صفائی اور خوشخطی کا کتنا التزام کرتاہے؟ اردو خوشخطی کے سلسلے میں کونسا طریقہ زیادہ کارگر ثابت ہوا ہے؟ ابتدائی جماعتوں کے طالب علم اردو پڑھنے اور لکھنے کے دوران ’’خطِ نستعلیق‘‘ یا ’’خطِ نسخ‘‘ میں سے کس رسم الخط میں آسانی محسوس کرتے ہیں؟نیز تدریس اردو کے نتیجے میں ہر لسانی خطے کے طالب علموں کی شخصیت اور ان کی سماجی ومعاشرتی نشوونمامیں کیا اثرات مرتّب ہوئے ہیں؟اس لحاظ سے دیگر نصابی مضامین کے مقابلے میں اردو زبان کا اکتسابی جائزہ لیناقدرے ایک مشکل ، محنت طلب اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی امرہے جس میں طالب علموں کی تقریر وتحریر میں اردو الفاظ کے انتخاب، ان کی ترتیب و ادائیگی، خیالات کی صفائی اور لب ولہجہ کی تاثیر ، الفاظ کے ہجے، اوقاف کی پابندی،عبارت کی پارہ بندی اور جملوں کی ساخت وغیرہ کااندازہ لگانا ضروری ہوتاہے۔علاوہ ازیں اردو نثر کے پیراگراف کی تشریح ،استحسانِ شعر اورانشا پردازی کے نمونوں سے طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتیں پرکھی جاتی ہیں۔ [۱۱] اور یہ لسانی اکستابی جائزہ محض ایک سوالیہ پرچے کی مدد سے نہیں لیا جاسکتا بلکہ یہ مختلف مہارتوں میں طالب علموں کی کارکردگی کے تناظر میں استاد کے سارے سال کے گہرے مشاہدے پر محیط ہوتا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اردو زبان کا اکتسابی جائزہ لیناسیاسی وسماجی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی کی بدولت ہی ہمیں مختلف لسانی خطوں کے طالب علموں کی ثانوی زبان اردو کی لسانی ترقی کااندازہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے ہر لسانی خطے کے غیر اہلِ زبان طالب علموں کی اردو تقریرو تحریر میں لسانی خامیوں سے آگاہی حاصل ہوسکتی ہے۔ اُن کی لسانی نشوونما،اُن کے لسانی شعور،اردو زبان کی طرف ان کے فطری رجحانات نیز مادری زبان اور اردو کے بارے میں ان کے ذُولسانی تصوّرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابتدائی، وسطی اور ثانوی جماعتوں میں اردو زبان و قواعد کی آموزش میں رکاوٹ بننے والے عوامل کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ہر درجے میں طالب علموں کی بنیادی لسانی مہارتوں کی آموزش ،پختگی، لسانی کارکردگی اور تعلّم کی سطح معلوم کی جا سکتی ہے۔مروّجہ اردو نصاب اور درسی متن کی خوبیوں اور خامیوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔اردو سکھانے کے مختلف تدریسی طریقوں کے فائدے ونقصانات معلوم کیے جاسکتے ہیں۔اردواستاد کی علمی و تدریسی کارکردگی کی جانچ کی جاسکتی ہے نیزاردو زبان کوزیادہ بہترانداز میں سکھانے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر مظفر حسن کا کہنا ہے کہ اکتسابی جائزہ ایک دو دھاری تلوار ہے جو متعلّم کی لسانی اکتسابی صلاحیتوں کے معیار کا تعین کرتی ہے اور دوسری طرف استاد کے تدریسی کام کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔[۱۲] پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تدریس اردوکا بنیادی مقصد یہی’ ’لسانی تعلّم ‘‘ ہے۔
زبان ایک ایسی چیز ہے جس کی مختلف مہارتوں کو مسلسل استعمال کرنے کے بعد ہی اُس پر مکمل عبور حاصل ہوسکتا ہے اور مخاطب یا قاری کی تفہیم کے مطابق خیالات، احساسات اور جذبات وغیرہ کی بامعنی ترسیل ممکن ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے مختلف لسانی خطوں کی دیہی،پہاڑی،ریگستانی یاخانہ بدوشی معاشرت و سماج میں بعض مخصوص مواقع کے علاوہ اردو کا استعمال عام نہیں ہوتا۔ بیشتر پاکستانی بچے صبح و شام کے معمولات کے دوران اپنی مادری زبان کا بکثرت استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اردوکی مختلف لسانی مہارتوں پرکامل عبور حاصل کرنے کے لیے کافی محنت درکارہوتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی تعلیمی اداروں اردو زبان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ سکولوں میں سالانہ امتحانات کے موقع میں ذہین اور محنتی بچوں کے علاوہ مختلف مضامین میں کمزوربچوں کواگلی جماعت میں سالانہ ترقی دینے کے لیے بالعموم جو فارمولا طے کیا جاتا ہے ، اس کے مطابق صرف دو لازمی مضامین یعنی ’’انگریزی‘‘ اور’’ ریاضی ‘‘میں پاس ہوناضروری سمجھا جاتا ہے جبکہ’’ اردو لازمی‘‘ جو بیشتر سرکاری،نیم سرکاری ا ور نجی تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم کی زبان ہے، اسے سالانہ تعلیمی ترقی کی پالیسی میں کوئی خاص اہمیّت نہیں دی جاتی۔حالانکہ ہوناتو یہ چاہیے کہ ابتدائی جماعتوں میں جو طالب علم اردو زبان کی پڑھنے،لکھنے اور بولنے کی مہارتوں میں کمزور ہوں، انھیں کسی طورپر بھی اگلی جماعت میں ترقی نہ دی جا ئے تاکہ پاکستانی طالب علموں کا تعلیمی معیار بہتر بنایا جاسکے اور وہ اپنے اندرایک حقیقی علمی قابلیت اورلسانی صلاحیتیں پیدا کر سکیں۔ ان میں اردو زبان کے حوالے سے ادبی ذوق ،سماجی و معاشرتی شعور اور پاکستانیت کی روح پھونکی جاسکے۔رسمی وغیر رسمی آزمائشوں کے ذریعے اردو کی لسانی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ درج ذیل مراحل پر مشتمل ہوسکتا ہے :

i ۔ تدریس اردو کاروزانہ غیر رسمی جائزہ
ii ۔ تدریس اردو کا ہفتہ واراورماہانہ غیررسمی جائزہ
iii تدریس اردو کا سہ ماہی ، ششماہی اورسالانہ رسمی جائزہ
iv ۔ افسران بالا کے اتفاقیہ معائنہ کے دوران لسانی مہارتوں کا غیر رسمی جائزہ وغیرہ ۔
روزانہ لسانی جائزہ درسی سبق کے آغاز پرگھر کے کام(Home Work )کی پڑتال اورگزشتہ اسباق پرمبنی سابقہ معلومات کی صورت میں لیا جا سکتا ہے نیز درسی اسباق کی متن خوانی کے دوران اور اختتام پر بھی لیاجاسکتا ہے۔ اس میں اردوسن کر سمجھنے کی تفہیمی سطح،کسی عام سماجی ومعاشرتی موضوع پراجتماعی بحث، درسی سبق کی متن خوانی اور اس پر مبنی اعادے کے معروضی طرز کے سوالات، مشکل الفاظ کے معانی،درسی مشقوں میں شامل ہم صوت الفاظ، متضادالفاظ،مترادف الفاظ، تذکیر و تانیث، واحد و جمع، تراکیب،ضرب الامثال اورمحاورات وغیرہ کی تفہیم ،خوشخطی اوردیگرلکھنے کی مہارتیں، طالب علموں کی اردوزبان میں روزمرہ باہمی گفتگو کا مشاہدہ وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں ۔موضوعاتی بحث،متن خوانی اور سبقی اعادے کی آزمائشوں میں تمام طالب علموں کی شمولیت ضروری ہے۔درسی اسباق کے آخر میں دی گئی مشقوں کوحل کرانے کے علاوہ سماجی زندگی سے متعلق عملی کام بھی تفویض کیاجاسکتاہے۔ہفتہ وار اورماہانہ لسانی جائزے میں طالب علموں کی کارکردگی کے علاوہ تدریسی خامیوں کا ادراک بھی کیا جاسکتا ہے۔جبکہ سالانہ جائزہ زبانی و تحریری معیاری لسانی آزمائشوں کی صورت میں لیا جاسکتاہے۔تاہم ضروری ہے کہ تدریس اردو کا جائزہ خواہ زبانی ہویا تحریری ، اس میں درسی اسباق کے متن کے مطالعے، اردو قواعد اور اردو انشا سے متعلق متفرق قسم کے سوالات شامل کیے جانے چاہیے۔ تعلیمی ادارے کا سربراہ اور دیگر افسران بالا بھی اپنے معائنے کے دوران سکول کی ہر جماعت کے بچوں کا لسانی جائزہ لے سکتے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری،نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں تدریس اردو کے جائزے کی مروّجہ صورت انتہائی ناقص، غیر معیاری اور غیر تسلّی بخش ہے کیونکہ اردو کا اکتسابی جائزہ صرف چند مخصوص رسمی تحریری آزمائشوں تک محدود ہوکررہ گیا ہے۔بقول ڈاکٹر پرویز ہودبھائی پاکستان میں طالب علموں کی (تعلیمی ولسانی) کارکردگی کے ایک جامع جائزے کے لیے میٹرک و انٹر میڈیٹ کے تمام امتحانی بورڈ اپنی ناقص،غیرمعتبر اور غیر معیاری آزمائشوں کی بدولت ٹھوس بنیادیں فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں [۱۳] چنانچہ طالب علموں کی حقیقی لسانی کارکردگی کادرست تعین کرنا بالکل ناممکن ہے۔ اردو لازمی کی تدریس قدیم وفرسودہ تدریسی طریقوں اور غیر لسانی اصولوں کے تحت سرانجام پارہی ہے، رسمی امتحانات میں اردو لازمی کا ایک سو نمبروں کاایک تحریری پرچہ حل کروالیا جاتا ہے جس میں ’’لکھنے کی مہارتوں‘‘ کے حوالے سے طالب علموں کی صرف یادداشت اورحافظے کی پیمائش کی جاتی ہے جبکہ ا ردو زبان کی دیگر لسانی مہارتوں مثلاً سننا، بولنا اور پڑھنا وغیرہ کا اکتسابی جائزہ لینے کی بالعموم کوشش نہیں کی جاتی۔ مختلف تعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چند گھنٹوں کی زبانی یا تحریری رسمی آزمائش کے ذریعے کسی طالب کی سال بھر کی لسانی آموزش کا ہمہ پہلو جامع اکتسابی جائزہ نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اردو کی تحریری آزمائش میں شامل مختلف سوالات کا دائرہ اثر بہت محدود ہوتا ہے اور طالب علم اردو لازمی کے پورے نصاب کا مطالعہ کیے بغیر بھی صرف منتخب نصابی مشمولات کی چند دن تیاری کر کے اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوسکتے ہیں۔ اس طرح اردو معلّم ا ور اس کی شاگردوں کی لسانی سرگرمیاں امتحانی نقطہ نظر سے اہم نصابی مشمولات کے گرد گھومتی رہتی ہیں۔ اسی لیے مروّجہ رسمی امتحانات پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر مظفر حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں منعقد ہونے والے رسمی امتحانات بالکل ناقابلِ اعتماد اور لسانی جائزے کی نامکمل کوشش ہیں کیونکہ چند معروضی طرز کے سوالات کے علاوہ موضوعی طرز کے پانچ چھ سوالات میں ’’اردولازمی‘‘ کے سارے نصاب کا احاطہ کرنا اور پورے سال کے تدریسی کام کا اکتسابی جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ [۱۴]
بازارمیں عام دستیاب امتحانی گیس پیپرز (Guess Papers )، سالانہ آزمائشوں کے متعلق راز افشانی،امدادی کتب کی ارزاں دستیابی، نقل کے عام رجحان، پرچہ جانچنے کے غیر یکساں معیار، پرچہ حل کرنے کی رفتار میں فرق،طالب کی لکھائی میں ظاہری نقائص اور املائی غلطیاں، ممتحن کی ذاتی پسند وناپسند اور کچھ دیگر عوامل کی وجہ سے تدریس اردو کی تمام لسانی مہارتوں کاجامع اور معیاری اکتسابی جائزہ نہیں لیا جارہاہے ۔ کم و بیش پاکستان کے ہر لسانی خطے میں سکول وکالج کے اردو اساتذہ بالعموم یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے طالب علموں کا عام تعلیمی معیار پست ہوچکا ہے اور ان کی اردو تقریرو تحریر میں خامیاں موجود ہیں لیکن ان اساتذہ کو اپنی اس کوتاہی کا یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ وہ ابتدائی جماعتوں ہی سے اردوزبان کے تمام مہارتوں کے اکتسابی جائزے کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں۔چنانچہ اردوزبان کی حقیقی لسانی جانچ کے لیے روزانہ کے تدریسی کام اور گھر کے کام کو بھی اہمیت دینا ہوگی۔[۱۵] اردو کی تمام لسانی مہارتوں کے جامع جائزے کے لیے موضوعی طر ز کی آزمائشوں کے علاوہ معروضی، نیم معروضی اور عملی و زبانی آزمائشوں سے بھی استفادہ کرنا ہوگا۔
اگرچہ پاکستان کے بیشتر سرکاری، نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں’’اردو ‘‘ایک ذریعہ تعلیم کی زبان کے طور پر رائج ہے مگر کسی بھی تعلیمی ادارے میں اس کی تمام لسانی مہارتوں کے اکتسابی جائزے کی سالانہ رپورٹ کااہتما م نہیں کیا جاتا۔اس خامی کی بنیادی وجہ ہمارے تربیتی اداروں میں زیرتربیت اساتذہ کو دی جانی والی ناقص پیشہ ورانہ تعلیم ہے جس میں تدریس اردو کا اکتسابی جائزہ لینے اور اس کی سالانہ جامع رپورٹ تیار کرنے کا کوئی باقاعدہ نصاب یا رہنمامواد موجود نہیں ہے ۔اردو زبان کے اکتسابی جائزے سے چشم پوشی کرنے کی دوسری ذمہ داری تعلیمی اداروں کے سربراہان اور محکمہ تعلیم کے افسرانِ بالاپر عائد ہوتی ہے جنھوں نے بالعموم کبھی یہ زحمت گوارا نہ کی کہ وہ تدریس اردو کا فریضہ سرانجام دینے والے اساتذہ سے اردو کے اکتسابی جائزے کی ماہانہ،ششماہی اور سالانہ رپورٹ طلب کریں تاکہ مستقبل میں ایسی رپورٹوں کی روشنی میں اردو ماہرین کی مشاورت ومعاونت سے اردو زبان کے نصاب، درسی کتاب کے متن، طریقہ تدریس، سمعی وبصری معاونات اور اردو اساتذہ کے لیے تجدیدی کورسوں وغیرہ کے ذریعے اصلاحی اقدامات تجویز کیے جاسکیں۔ تدریسی جائزے کی عدم موجودگی کی وجہ سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اردو لازمی کے ’’نصاب کی تبدیلی‘‘ ایک مذاق بن کررہ گئی ہے۔ اردو کی درسی کتاب کا سرورق اورنظم ونثر کے چندایک اسباق بدل دیے جاتے ہیں جبکہ اردو قواعد وانشا کے مشمولات کم وبیش وہی رہتے ہیں کیونکہ پاکستانی نصاب ساز ماہرین کے سامنے ایسی مستند معلومات نہیں ہوتیں جن کی روشنی میں ابتدائی جماعت سے بارھویں جماعت تک درجہ بدرجہ اردو زبان کاایک ایسا منطقی،مربوط اورجامع نصاب مرتب کیا جا سکے جس میں اردو زبان کی لسانی مہارتوں کی آموزش کے حوالے سے ایک تسلسل اور منطقی ربط موجود ہو۔ ایسے معیاری اور مربوط اردو نصاب کی عدم موجودگی کی وجہ سے ابتدائی، وسطی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں کی مروجہ درسی اردوکتب کی تدریس سے مطلوبہ قومی لسانی مقاصد کماحقہ حاصل نہیں ہو رہے۔
ایسی ر سمی وغیر رسمی (زبانی و تحریری)آزمائشوں کے ذریعے تدریس اردو کا جائزہ لیا جاناچاہیے جو حقیقی معنوں میں کسی طالب علم کی چاروں لسانی مہارتیں پرکھنے میں معاون اور مفید ثابت ہوسکیں اور اس کی ثانوی زبان ’’اردو‘‘ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں اور تقریرو تحریر کی خوبیوں و خامیوں کے جائزے میں مدد دے سکیں۔ علاوہ ازیں ان لسانی آزمائشوں کی بدولت طالب علم کی ذہنی، جذباتی،نفسیاتی اور سماجی ومعاشرتی نشوونما کی سطح معلوم کی جاسکے اور نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ طالب علم اپنی مادری زبان کے سماجی ماحول میں رہتے ہوئے اردو(ثانوی زبان) کی معلومات کس حدتک استعمال کرتا ہے۔[۱۶] ان میں اردو زبان و قواعد اور انشا پردازی سیکھنے کا شوق پیدا کیا جاسکے تاکہ وہ اردو زبان اِس نظریے سے سیکھیں کہ اس کی تمام لسانی مہارتوں پر عبور حاصل کر نا ہے اور ان کامدعاصرف امتحان پاس کرنا نہیں ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہی استاد تدریس اردو کا اکتسابی جائزہ لے جوانھیں سارا سال اردو کی لسانی مہارتیں سکھاتا رہاہو کیونکہ وہ اپنے طالب علموں کی انفرادی لسانی کمزوریوں اور غلطیوں سے بہتر واقف ہوسکتا ہے۔ تحریری آزمائش کی جوابی کاپیاں جانچنے کے بعد طالب علموں کو دکھائی جانے چاہیے تاکہ وہ بھی اپنی لسانی خامیوں سے آگاہ ہو سکیں۔[۱۷] اور ان میں اردوزبان کی لسانی مہارتیں سیکھنے کا فطری احساس پیدا ہوسکے۔
معلّم اردو کے سامنے ایسی آزمائشوں کے مقاصد نہ صرف واضح اور متعیّن ہوں بلکہ ایک پیمانے کی حیثیت سے تحریری طورپر بھی موجود ہوں تاکہ سال کے آخر میں حقیقی معنوں میں تدریس اردو کا جامع لسانی اکتسابی جائزہ لیا جاسکے۔ہر قسم کی رسمی آزمائشوں کے سوالات طالب علموں کی ذہنی عمر، درجے اور صرف نصابی مواد پر مبنی ہو نے چاہیے۔ان میں کسی قسم کی لسانی مشکلات اور پیچیدگی ہرگزنہیں ہونی چاہیے۔آزمائش میں ایسے سوالات شامل نہیں ہونے چاہیے جو لسانی جائزے میں مفید و معاون ثابت نہ ہوسکیں یا جن کے جوابات قیاس اور اٹکل پَچّو سے دیے جا سکیں ۔[۱۸]تمام درجات میں اردو زبان کے تحریری جائزے کے دوران نقل کارجحان ختم کرنے کے لیے رسمی امتحانات میں تمام طالب علموں کو الگ الگ لسانی آزمائشیں مہیا کی جا نی چاہیے ۔اس کے لیے اردو اساتذہ کو کمپیوٹر لٹریسی کی اس قدر تعلیم وتربیت دی جانی چاہیے کہ وہ کمپیوٹر کو نہ صرف ایک تدریسی معاون کے طور پر استعمال کرسکیں بلکہ تدریس اردو کے اکتسابی جائزے کے لیے ازخود وقتاً فوقتاً ہر قسم کی لسانی آزمائشیں بھی تیار کرسکیں۔ اردو کا اکتسابی جائزہ درسی متن سے متعلق طالب علم کی عام لسانی معلومات تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے زبان کی چاروں لسانی مہارتوں کا احاطہ کرنا چاہیے ۔
(ا) اردو سننے کی مہارتوں کاجائزہ
ہر تندرست اورنارمل بچہ ابتدائی جماعت میں داخلہ لینے سے پہلے پہلے اپنی مادری زبان میں بالعموم اتنی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے کہ وہ ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے اپنے اہلِ خانہ اوردیگر افراد کے سامنے اپنا مافی الضمیربیان کرسکے۔ پاکستان میں اردو نما زبانیں مثلاً میواتی، ریواڑی ، حصاری، کرنالی، روہتکی اور لکھنوی وغیرہ بولنے والے مہاجر گھرانوں(Commonly Called Urdu-speaking Families )کے علاوہ پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، حیدرآباد، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان،کوئٹہ اورپشاوروغیرہ میں بالعموم اورپنجابی لسانی خطے میں مقیم بعض تعلیم یافتہ پنجابی گھرانے بالخصوص اپنے بچوں کو مادری زبان سکھانے کی بجائے’’ثانوی زبان اردو‘‘ پہلی زبان کے طور پر سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔چنانچہ ایسے بچوں کو اہلِ خانہ اور اردو ذرائع ابلاغ ( ٹی وی چینل)کی بدولت ابتدائی سکول جانے سے بہت پہلے اپنے گھر کی چاردیواری کے اندرہی اُردو سننے کا موقع ملتا رہتاہے اور وہ بالعموم انگریزی میڈیم سکولوں یا نجی اردو میڈم سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اِن کے برعکس دیہی ،پہاڑی،ریگستانی اور خانہ بدوشی معاشرت سے تعلق رکھنے والے غیر تعلیم یافتہ اورکم پڑھے لکھے والدین کے بچے بالعموم سرکاری اردو میڈیم سکولوں میں داخلہ لینے کے بعد سکول کی حدود کے اندرہی اردوزبان سننا شروع کرتی ہے اور وہیں اردو زبان سیکھتی ہے تاہم بچوں کو نجی اردو میڈم سکولوں میں بھیجنے کا رجحان بھی بڑھ رہاہے۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستانی طالب علموں کو ثانوی زبان ’’اردو سننے کی مہارت‘‘ سکھانے کاصحیح دورانیہ ابتدائی اوروسطی سکول کا زمانہ (پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک ) ہے کیونکہ میٹرک میں طالب علموں کی بلوغت اور نفسیاتی وجذباتی نشوونماکا زمانہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے کہ مادری زبان کا صوتی نظام بالغ طالب علم کے تحت الشعور میں اس حد تک رچ بس جاتا ہے کہ اس کی سماعت بھی اسی حدتک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔چنانچہ وہ نئی آوازوں کو مادری زبان کے انداز میں سننے او رسمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ [۱۹ ] یہی وجہ ہے کہ ان پڑھ، گنوار اورغیر اہلِ زبان والدین کے بچوں کو اہلِ زبان کی اردو سن کر سمجھنے میں کسی حدتک دشواری پیش آتی ہے جبکہ وہ اپنے لسانی خطے کے افراد کی اردو گفتگوسن کرآسانی سے سمجھ لیتے ہیں کیونکہ ایسی اردو میں ان کی اپنی مادری زبان کا لب ولہجہ اور اتار چڑھاؤشامل ہوتا ہے۔
طالب علموں کی سننے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ کئی طریقوں سے لیا جاسکتا ہے مثلاًابتدائی جماعتوں میں اردو معلّم درسی ا سباق کی متن خوانی کے دوران ہی مسلسل گہرے مشاہدے کے ذریعے ہر طالب علم کی اردو سننے کی مہارتوں کا جائزہ لے سکتا ہے جبکہ وسطی جماعتوں میں طالب علموں کواردواہلِ زبان ماہرین کی آواز میں مزیدار کہانیاں، تقریریں،ریڈیائی ڈرامے اور خاکے سنائے جا سکتے ہیں۔طالب علموں کا پابند کیا جائے کہ وہ انھیں غور سے سنیں۔پھر اُن پر مبنی سوالات کے ذریعے طالب علموں کی سننے کی مہارت جائزہ لیا جاسکتا ہے۔اگر کسی قسم کے بھی سمعی معاونات میسر نہ ہوں،تو اردو معلّم درست لب ولہجہ میں بلند آواز سے کسی اردو اخبار میں سے کوئی سنسی خیز خبر ،رپورٹ یا روداد کی تفصیلات پڑھ کرسنا سکتا ہے او ر اس کی روشنی میں طالب علموں سے فرداً فرداً مختلف قسم کے سوالات کرکے اُ ن کی اردو سننے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ لے سکتا ہے۔
(ب ) اردو بولنے کی مہارتوں کاجائزہ
اردو زبان کے حوالے سے کسی فرد کی لسانی نشوونما میں’’بولنے کی مہارت‘‘بنیادی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ اسی کی بدولت اردو صرف ونحو کے اصول عملی طورپرواضح ہوکر ذہن نشین ہوتے رہتے ہیں،تلفظ کی اصطلاح ہوتی رہتی ہے،ذخیرہ الفاظ کی توسیع ہوتی ہے،مربوط اظہارِخیال کا طریقہ آتاہے،اردو زبان میں فہم وادراک کی قوت تیز ہوجاتی ہے، آئندہ اردو عبارت لکھنے اوراردو متن پڑھنے میں آسانی رہتی ہے اور بحیثیت مجموعی اردو زبان پر عبور حاصل ہوتاہے۔[۲۰] کسی فرد کی علمی اہلیت،ذاتی قابلیت اور شخصی خصائل جاننے کے لیے زبانی آزمائشوں کی اہمیت وافادیت صدیوں سے مسلمہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور یونانی فلسفی’’ سقراط‘‘ کسی فرد کی ذہنی اور علمی صلاحیتوں کی فوری جانچ کے لیے اُس سے زبانی سوالات کیاکرتا تھا۔
مڈل،میٹرک،انٹرمیڈیٹ اور اگلی اعلیٰ جماعتوں میں رسمی امتحانات کے دوران مختلف مضامین مثلاًزراعت،ہوم اکنامکس، طبیعات، کیمیا، حیاتیات ،شماریات،نفسیات،صحت و جسمانی تعلیم اورسوشل ورک وغیرہ کے عملی امتحانات کے ساتھ زبانی امتحان بھی ہوتا ہے۔ ہر مضمون کا ممتحن امیدواروں کی اپنے مضمون میں عمومی قابلیت اور صلاحیتیں جانچنے کے لیے اُن سے مختلف قسم کے معروضی طرز کے سوالات پوچھتا ہے اور وہ ان کے زبانی جوابات دیتے ہیں۔ا سی طرح سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی محکموں میں ملازمت کے لیے امیدواروں کی شخصی قابلیت اور علمی صلاحیتوں کی حتمی جانچ بالعموم زبانی آزمائشوں(انٹرویو)کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔[۲۱] گویا تعلیمی اداروں میں امیدوار کی اردوبولنے کی مہارت میں پختگی ہی اسے عملی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے ۔طالب علمی کے دور میں مباحثوں اورتقریری مقابلوں کی کامیابی کا سارا دار ومداراردو بولنے کی اعلیٰ مہارتوں میں مضمر ہے جبکہ عملی زندگی میں ایک کامیاب دکاندار وتاجر،ہر دلعزیز استاد، اعلیٰ منتظم، نمایاں سیاستدان، بہترین مقرر، مؤثر مبلّغ اور بلند پایہ خطیب بننے کے لیے بھی اردو بولنے کی مہارتوں کی بہت زیادہ تربیت اور اصلاح کی ضرورت ہے۔پس کہاجاسکتا ہے کہ کسی بھی سطح پر تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے یا اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد، ہر فرد کواپنی عملی زندگی میں قدم قدم پرہر قسم کی زبانی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے اس کی مادری زبان ، اردو اور بین الاقوامی زبان انگریزی میں اس کی لسانی صلاحیتوں اور بولنے کی مہارتوں کی جانچ ہوتی رہتی ہے۔
چونکہ ابتدائی جماعت کے طالب علم اردو لکھنے کی مہارتوں میں بہت ہی کمزور ہوتے ہیں، اِسی لیے اس درجے میں بالعموم زبانی آزمائشوں کے ذریعے ہی ہر بچے کی لسانی کارکردگی کا اکتسابی جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ پہلی جماعت سے اردولازمی کا ا متحان صرف تحریری طور پر لیا جاتا ہے حالانکہ اگلی جماعتوں میں بھی درست متن خوانی اوردیگر تقریری پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے زبانی امتحان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ [۲۲]چونکہ انسان کی معاشی ، معاشرتی ،سماجی اور سیاسی زندگی کی دوڑ میں نفسیاتی طورپر بولنے کے آداب، گفتگو کے طور طریقے،لفظوں کی سحر انگیزی ،لب ولہجہ کا اتار چڑھاؤ اور اظہار خیال کا فن جاننا بہت ضروری ہے ،اس لیے پہلی سے بارھویں تک ہر جماعت میں اردو بولنے کی مہارتوں کا مؤثر اکتسابی جائزہ لینے کے لیے زبانی آزمائشوں کا اہتمام لازمی ہے۔ [۲۳] ابتدائی اور وسطی جماعتوں میں زبانی آزمائشوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہیں تاہم یہ زبانی آزمائشیں پورے سال پر محیط ہونی چاہیے اور اِنھیں صرف سالانہ امتحانات تک محدود نہیں رکھاجاناچاہیے۔
کمرہ جماعت میں اردو بولنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ لینے کے لیے ہرقسم کی زبانی آزمائشوں سے کام لیا جاسکتا ہے۔اگرچہ زبانی امتحان کے ذریعے کم وقت میں فرد کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے لیکن اس کے نتائج کا انحصار ممتحن کے مزاج،موسم،ماحول اور وقتی حالات پر ہوتاہے نیزممتحن کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ [۲۴] تاہم تدریس اردو کے زبانی اکتسابی جائزے میں ممتحن کی ذاتی پسند وناپسند اور طا لب علموں کی درسی معلومات کاعمل دخل دیگر سائنسی و غیر سائنسی مضامین کے زبانی امتحان کی نسبت بہت ہی کم ہوتا ہے ۔چونکہ زبانی آزمائشوں کا بنیادی مقصد بولنے کی مہارتوں کا لسانی جائزہ لیناہوتا ہے، کسی طالب علم کی یادداشت یا حافظے کی صلا حیتیں پرکھنا ہر گز نہیں ہوتا۔ اس لیے اردو بولنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائز ہ لینے کے لیے ایسی زبانی آزمائشوں کااہتمام کیا جانا چاہیے جن کی روشنی میں ہرطالب علم کی انفرادی طورپراردو بولنے کی مہارتوں کی پرکھ ہو سکے کہ آیا وہ آئندہ اپنی عملی زندگی میں اپنی مادری زبان کی طرح ،اردو زبان میں بھی بلا جھجک اور روانی سے اپنا ما فی الضمیربیان کرسکیں گے یا نہیں۔
زبانی آزمائشوں کے سوالات نہ صرف طالب علموں کی ذہنی سطح کے مطابق ہونے چاہیے بلکہ اردو کے لسانی جائزے میں بھی معاون ثابت ہوں۔علاوہ ازیں ہر قسم کی زبانی آزمائشیں پاکستانی طالب علموں میں ثانوی زبان ’’اردو‘‘ کے لیے ’’فطری دلچسپی‘‘ بڑھانے کا ذریعہ بھی ثابت ہو سکیں کیونکہ اردوزبان پر لسانی قدرت اُن کی بنیادی ضرورت ہے خصوصاً’’اردو ذریعہ تعلیم ‘‘کے تحت پڑھنے والے طالب علموں کے لیے یہ ضرورت نسبتاً زیادہ ہوجاتی ہے تاکہ وہ حسب خواہش اسے اپنے خیالات وجذبات کے اظہارکا ذریعہ بناسکیں اور اپنے استاد کی بات سن کر سمجھ سکیں۔ [۲۵]ایسی زبانی آزمائشیں ہرگز مرتب نہ کی جائیں جن کی بدولت اردو زبان کے طالب علم نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائیں یا وہ اپنی مادری زبان کی نسبت اردوبولنے میں مشکل محسوس کریں۔اس سلسلے میں اردومعلّم ہر ممکن کوشش کرے کہ سب کے سامنے کسی طالب علم کی اردوبولنے کی لسانی خامیوں کی نشاندہی کرکے اس کے شخصی وقار کو ہرگزمجروح نہ کرے ورنہ وہ اردو زبان سیکھنے کے بارے میں بغاوت کا اظہار کرسکتا ہے ۔طالب علموں کی مشترک لسانی خامیاں مجموعی طورپر زیر بحث لائی جائیں اور صیغہ تعمیم استعمال کرتے ہوئے ہر بچے کی بولنے کی مہارتوں کی اصلاح کی جائے۔
اردو لازمی کی درسی کتاب نہ صرف رسمی امتحانات کے لیے تحریری آزمائشیں مرتّب کرنے کے لیے استعمال کی جائے بلکہ اسے اردو بولنے کی مہارتوں کاروزانہ اکتسابی جائزہ لینے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ معروضی طرز کی آزمائشوں کے ذریعے اردو زبان وادب کے بارے میں طالب علموں کی صرف سطحی معلومات کا پتا چلایا جاسکتا ہے تاہم درسی کتاب طالب علموں کو اردو زبان کے حوالے سے منظّم مواد فراہم کر سکتی ہے اور اردو بولنے کی مہارت کی آموزش میں بڑی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ [۲۶]مثلاً جب ہر روزاگلے نئے سبق کے آغاز سے پہلے گزشتہ درسی سبق میں سے اعادے کے طورپر معروضی طرز کے تمام ممکنہ سوالات کے جوابات زبانی طور پر پوچھے جاسکتے ہیں،تو ان کے ذریعے نہ صرف غیر اہلِ زبان پاکستانی طالب علموں کی اردو بولنے کی مہارتوں کی نشوونما ہوسکتی ہے بلکہ ایک تسلسل سے اردو بولنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ بھی لیا جاسکتاہے۔استاد کو چاہیے کہ وہ ایسی اکتسابی آزمائشوں کے سوالات پہلے ہی مرتب کرلے تاکہ لسانی جائزے کا عمل زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔ ایسے آزمائشی سوالات جزوی اعادے کے طور پر نئے سبق کی تدریس کے دوران بھی پوچھے جاسکتے ہیں ۔تاہم اس بات کا دھیان رہے کہ اعادے کے سوالات صرف چند مخصوص طالب علموں تک محدود نہ رکھے جائیں بلکہ اس سرگرمی میں پوری جماعت خصوصاًاردو بولنے میں کمزور طالب علموں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔البتہ کمزور بچوں سے نسبتاً آسان سوالات پوچھے جانے چاہیے ۔علاوہ ازیں کبھی کبھار طالب علموں کی عام معلومات کو مدنظر رکھ کر انھیں روزمرہ زندگی کے معمولات سے متعلق کوئی آسان فہم موضوع دے کر اردو زبان میں گپ شپ کرنے کے لیے کہاجا سکتا ہے۔ اسی دوران مشاہدہ کیاجاسکتا ہے کہ کون سے طالب علم اردو بولتے ہوئے جھجکتے اور شرماتے ہیں؟اور کون سے بچے درست تلفّظ اور روانی سے اردو بول سکتے ہیں؟
درسی اسباق کی متن خوانی کے دوران رموزِ اوقاف کا جائزہ لیاجاسکتا ہے یعنی کیا وہ ہر جملے کی تکمیل پر وقفہ کرتے ہیں؟ یا کہیں بھی وقفہ کرلیتے ہیں۔مزید برآں وہ اپنے صوتی اسلوب کے ذریعے کس حدتک ہر جملے کے مفہوم کا تاثر برقرار رکھتے ہیں؟ ان کی اردو پڑھنے کی رفتار تیز ہے،سست ہے یا مناسب ہے؟کیا وہ ایک ہی انداز میں عبارت خوانی کرتے ہیں؟ یا حسبِ موقع موزوں صوتی اتار چڑھاؤ سے مختلف اردوالفاظ کی ادائیگی پر قادر ہیں؟جیسا کہ پروفیسر انعام اللہ خاں شروانی لکھتے ہیں کہ اردوزبان کی تعلیم میں بولنے کی مہارتوں کاجائزہ لینا ضروری ہے۔اس سلسلے میں یہ اہم نہیں کہ طالب علم کی اردوبولنے کی رفتار کیا ہے بلکہ اس کے حافظے کی صلاحیت، اندازِ گفتگو، حاضر جوابی، سلیس اورواضح اسلوب، تلفّظ، اردوزبان سے فطری لگاؤ،اردوذخیرہ الفاظ کا استعمال، خیالات کی گہرائی،اردو قواعد پرقدرت اور جذبات کے اظہار وغیرہ کی اہمیت ہے۔سکول کی سطح پر یہی لسانی جانچ کاکام ہے۔[۲۷]
پروفیسر انعام اللہ شروانی کی مذکورہ بالا رائے سے ہم آہنگ خیالات کااظہارڈاکٹر گوپی چند نارنگ کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اردو زبان سیکھنے کا مطلب ہے کہ طالب علم نہ صرف الفاظ کے صحیح تلفّظ اور فقروں کی ساخت سے مکمل طورپر واقف ہو بلکہ اردواہلِ زبان(Native Speakers )کی طرح بے تکلفی سے بات چیت کرسکے۔صرف الفاظ سے واقفیت بہم پہنچا لینے کو اردوزبان سیکھنے کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ [۲۸] وہ اردو زبان کی مخصوص آوازوں کو پیدا کرنے ، ان سے بننے والے الفاظ کو ترتیب دینے اور جملوں میں اِس طرح پیش کرنے پرقادر ہو کہ اہلِ زبان اُس کے مفہوم کوپوری طرح سمجھ جائیں۔یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم اندازہ کرتے ہیں کیونکہ ثانوی زبان سیکھنا ایک مشکل اور صبر طلب مرحلہ ہے اور طالب علم کو مادری زبان کا خول توڑکر نئی لسانی دنیا میں داخل ہونا پڑتا ہے [۲۹] پنجابی،سندھی، سرائیکی، ہندکو، بلوچی وبراہوی، پشتو، کوہستانی، چترالی، بلتی، شینا،بروشسکی ،پہاڑی اور کشمیری لسانی خطوں کی دیہی معاشرت میں قائم سکولوں کے تناظر میں ڈاکٹرنارنگ کی درج بالارائے سے مکمل طورپر اتفاق کیا جا سکتا ہے جہاں طالب علم کے گھر اور سکول کے ماحول میں اردو کی بجائے اُس کی مادری یا علاقائی زبان کا اَنمٹ اثرورسوخ موجود ہوتاہے۔
کوئی پاکستانی طالب علم اردو کے مقابلے میں اپنی علاقائی زبا ن وثقافت سے انحراف نہیں کرسکتاکیونکہ مادری زبان سے محبت اسے ورثے میں ملتی ہے تاہم اپنی مادری زبان سے فطرتی محبت،لگاؤاور اپنائیت جس قدر سندھی،سرائیکی، ہندکو، بلوچی وبراہوی،پشتو،کوہستانی ،چترالی،بلتی، شینا،پہاڑی،ڈوگری اور کشمیری زبانیں بولنے والے افراد میں پائی جاتی ہے،پاکستانی پنجابیوں میں بالعموم اتنی گہری نظر نہیں آتی لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی بچوں میں سے ’’پنجابی ‘‘ طالب علم ہی بالعموم سب سے زیادہ غلط اردو بولتے ہیں خصوصاًوہ بچے جو دوردراز کے پس ماندہ اورغیر ترقی یافتہ دیہی آبادیوں اور قصباتی علاقوں میں رہتے ہیں، اردو تلفّظ اور لب ولہجہ کی غلطیاں نسبتاً زیادہ کرتے ہیں کیونکہ دیگر پاکستانی زبانوں کی نسبت پنجابی زبان اور اردو زبان کے مابین روزمرہ معمولاتِ زندگی سے متعلق ذخیرہ الفاظ کا بہت زیادہ اشتراک موجود ہے۔لیکن دونوں زبانوں میں مشترک الفاظ کا تلفظ جداگانہ ہے۔چنانچہ پنجابی بچے مسلسل مشق ،سخت محنت، مناسب رہنمائی اور نجی کوشش کے بغیرایسے اردوالفاظ ( مثلاًعَقْل،عِلْم وغیرہ) کے درست تلفّظ کی ادائیگی پر کامل قدرت حاصل نہیں کرسکتے جن کے ہجوں میں دو ساکن حروف شامل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی مادری زبان’’پنجابی‘‘ کی پختہ لسانی عادات (Speech Habits )کی بدولت بالعموم پنجابی لب و لہجہ ہی میں اردو الفاظ بولنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے غلط تلفظ ان کا محاورہ بن جاتا ہے۔ لسانی اصول ہے کہ اگر کوئی لفظ پہلی بار غلط تلفّظ کے ساتھ کسی فرد کی سماعت سے ٹکرا جاتا ہے تووہ اسے اُس وقت تک غلط ہی پڑھتا رہے گا، جب تک اُس کی اصلاح نہ ہوجائے۔[۳۰]جبکہ پاکستانی سکولوں میں اردوپڑھانے والے اساتذہ سمیت اکثرتعلیم یافتہ افراد اردو بولتے ہوئے بالعموم پنجابی واردو کے مشترک الفاظ اُسی لب ولہجہ اور تلفّظ سے بولتے ہیں جیسے وہ اپنی مادری زبان ’’پنجابی‘‘ میں گفتگو کے دوران انھیں ادا کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مادری زبان کے ماحول میں مستعمل اردو کے غلط تلفظ کی بدولت پنجابی طالب علموں کی اردو بولنے کی مہارت بالعموم ناقص رہتی ہے۔پشتون طالب علموں کو اپنی مادری زبان ’’پشتو‘‘ کی لسانی عادات کی بدولت تذکیروتانیث کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے لسانی مسائل دیگر پاکستانی زبانیں بولنے والے طالب علموں کو درپیش ہوسکتے ہیں۔
ابتدائی جماعتوں میں پنجابی بچوں کو بالخصوص اورمذکورہ بالادیگر لسانی گروہوں کے بچوں کو بالعموم کمرہ جماعت میں مختلف لسانی سرگرمیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بولنے کاموقع دیاجاناچاہیے کیونکہ زبانی کام اور بول چال کی مسلسل مشق سے تدریس اردو ایک زندہ اور متحرک چیز معلوم ہوتی ہے ورنہ وہ ایک بے کیف اور مردہ سی چیز بنی رہتی ہے۔[۳۱] بولنے کی مشق کے دوران طالب علموں کے تلفّظ، لب ولہجہ کے اتار چڑھاؤ، اندازِ گفتگو اور اسلوب و غیرہ کا عمیق اکتسابی جائزہ لیاجاناچاہیے۔اردو بول چال کو’’ اردو لازمی‘‘ کے وقفے سے مختص کرنا درست خیال نہیں ہے بلکہ پرائمری اساتذہ کو یہ امر ملحوظِ خاطر رکھناچاہیے کہ جب تک بچے سکول کی حدود میں ٹھہرتے ہیں،وہ غیررسمی اورلاشعوری طور پرمحض بول چال کے مشاہدات کے ذریعے درست اردو بولنے کی تعلیم وتربیت حاصل کر سکتے ہیں۔ [۳۲] بشرطیکہ تدریس اردو کے پیریڈمیں اردو معلّم ا ور بچوں کے لیے اردو زبان میں بات چیت کرنا لازمی قرار دے دیاگیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ابتدائی سکول سے لے کر ثانوی سکول کی سطح تک طلبا کی نسبت طالبات بالعموم درست اردو بول سکتیں ہیں کیونکہ تدریسی اوقات اورسکول کے اندر دیگر تقریبات کے دوران مرداساتذہ اور پاکستانی لڑکوں کے مقابلے میں خواتین اساتذہ اور لڑکیوں کے مابین اردو بول چال کا زیادہ رجحان کارفرما ہے۔ تاہم ابتدائی سطح ہی سے پاکستانی طالب علموں خصوصاً پنجابیوں کو قومی زبان کے ساتھ ساتھ مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ مادری زبان ہی فرد کے جذبات کی صحیح عکاسی کرسکتی ہے۔مادری زبان کی بول چال پر پابندی خلاف فطرت ہے اور اس کے بارے ثقافتی شرم کا رویہ اپنانا ایک صحت مند لسانی سرگرمی نہیں ہے۔ بچوں کی مادری زبان کی تحقیر سے کئی قسم کے سماجی ونفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔طالب علم اپنے والدین کے بارے میں منفی سوچ پیدا کرسکتا ہے۔ انھیں کم علم اور گنوارسمجھتے ہوئے ان کا حقیقی مقام ومرتبہ گھٹاسکتا ہے۔ اس طرح طا لب علم اور اس کے والدین کے باہمی تعلقات کشید ہ ہوسکتے ہیں۔
وسطی اور ثانوی جماعتوں میں بھی زبانی اظہار اور جانچ کایہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ ان جماعتوں میں فرد کی اردوزبان میں محض علمی قابلیت جانچنااہم نہیں ہے بلکہ اظہار بیان کی صلاحیتوں کاجائزہ لینا بھی ضروری ہے۔اس سلسلے میں پروفیسر اسحاق جلالپوری کی بھی یہی رائے ہے کہ ابتدائی جماعتوں سے لے کر آٹھویں جماعت تک اردو بولنے کی مہارت، گفتگو میں سلیقہ شعاری، بلند خوانی اور اردو زبان سے متعلق اہم معلومات کا زبانی امتحان لیا جائے تاکہ پاکستان میں تدریس اردو کے مطلوبہ لسانی مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔[۳۳] پاکستان کے مختلف لسانی خطوں میں الگ الگ مادری زبانیں بولنے والے طالب علموں کی ’’اردو بول چال‘‘ کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جو لسانی اصول روہتکی، میواتی،پنجابی، ہندکو، سرائیکی، گوجری،ڈوگری اورپہاڑی زبانیں بولنے والے طالب علموں پر لاگو ہوتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ وہ سندھی، بلوچی، براہوی، پشتو، چترالی، شینا، بروشسکی، بلتی، ڈومکی، کشمیری اور گاؤری زبانیں بولنے والے طالب علموں پر بھی ویسے ہی لاگو ہوں۔ اس لیے بولنے کی مہارتوں کے اکتسابی جائزے کی بدولت ہی پاکستانی طالب علموں میں معیاری ’’اردو بول چال‘‘ پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔
(ج) اردو پڑھنے کی مہارتوں کاجائزہ
پڑھنے کی مہارتوں میں الفاظ کا درست تلفّظ، لب ولہجہ،صوتی اتار چڑھاؤ، الفاظ پڑھنے کی روانی،عبارت میں مناسب مقامات پر اوقاف اور معنی ومفہوم کی تفہیم وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ [۳۴]اردوپڑھنے کی مہارتوں کاجائزہ لینے کے لیے اردو لازمی کے اسباق کی متن خوانی کراناایک آسان اوراہم طریقہ ہے کیونکہ درسی اسباق کی قرأت کی بدولت ایک طرف طالب علموں کی اردو زبان میں دلچسپی، آمادگی، آزموشی ترقی اور پڑھنے کی مہارتوں میں پختگی کا جائزہ لے جا سکتاہے تو دوسری طرف اردو استاد اپنا طریقہ تدریس مؤثر بنا سکتا ہے ۔گویااردو کی درسی کتاب مرکزیت کی حامل ہوتی ہے۔ تاہم درسی کتاب کی ساری اہمیت اِس بات پرمنحصر ہے کہ وہ جدید لسانی اصولوں کی روشنی میں تیار کی گئی ہو۔ [۳۵] ثانوی زبان کی حیثیت سے اردو سیکھنے والے ہرلسانی گروہ کے طالب علموں کے تناظر میں،بعض اساتذہ کے اس رجحان سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ وہ آج ایک پیریڈمیں جو کچھ اردو لازمی کی درسی کتاب سے پڑھائیں، اُسی پیریڈ میں اس کام کی جانچ کرکے کسی طالب علم کی متن خوانی کی صلاحیت کا جائزہ لے سکیں کیونکہ پاکستانی طالب علموں کواپنی مادری زبان مثلاً پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، براہوی، پشتو، ہندکو اور کشمیری وغیرہ کی پختہ عادات اور اس کے اثرات کی بدولت اردو اسباق کا متن پڑھتے ہوئے کئی قسم کی نفسیاتی و لسانی مشکلات کا سامنا پڑتاہے۔
ہر درسی سبق کی تکمیل کے بعد استاد کو چاہیے کہ وہ اگلے دن تمام طالب علموں سے باری باری گزشتہ سبق کے متن کی قرأت کرائے۔علاوہ ازیں ہفتہ وار اورماہوار تمام طالب علموں سے دہرائی کے طور پر گزشتہ اردو اسباق کے درسی متن کی قرأت کرائی جاسکتی ہے کیونکہ اردو پڑھنے کی مہارتوں کاجائزہ ایک دن میں نہیں لیا جاسکتا ہے۔یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کا تعلق استاد کے گہرے مشاہدے اور ذاتی توجہ سے ہے۔ اردو پڑھنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ لینے کے لیے کمرہ جماعت ہی میں غیر رسمی امتحان کا طریقہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ [۳۶] اس طریقے میں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، ہندکو، چترالی، کشمیری یا بلتی وغیرہ بولنے والے طالب علموں کے اردو تلفّظ کا مؤثراکتسابی جائزہ لیا جا سکتاہے نیزیہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ متن خوانی کے دوران کیسے صوتی اتارچڑھاؤ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اردو عبارت پڑھنے کی اُن کی رفتار کیا ہے؟ آیا وہ اردو عبارت خوانی کے دوران مختلف مقامات پر وضاحتِ مفہوم کے لیے حسبِ ضرورت ٹھہراؤ کرتے ہیں ؟ یا نہیں۔ اردو پڑھتے ہوئے وہ کس قدر بے تکلفی سے کام لیتے ہیں؟
اردو پڑھنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ صرف ابتدائی جماعتوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ میٹرک اور کالج کی سطح پراردو خوانی کے اکتسابی جائزے کا خصوصی اہتمام کیاجا نا چاہیے کیونکہ ابتدائی، وسطی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں طالب علموں کی نصابی اور لسانی ضروریات مختلف ہونے کی وجہ سے ہر تعلیمی درجے میں درسی مواد کا اردو ذخیرہ الفاظ یکساں اور ایک ہی لسانی معیار کا کبھی نہیں ہوسکتا ۔طالب علم ہر جماعت میں نئے نئے اردوالفاظ و تراکیب، مرکبات، محاورات، ضرب الامثال،تشبیہات اور استعارات وغیرہ سے متعارف ہوتے ہیں۔وہ اردو زبان میں شامل مقامی زبانوں کے علاوہ انگریزی، ترکی، عربی اور فارسی زبانوں کے غیرمانوس دخیل الفاظ سیکھتارہتا ہے جن کی ادائیگی،معنی ومفہوم اور استعمال کا موقع محل جاننے کے لیے اسے ہمیشہ رہنمائی اوراصلاح کی ضرورت ر ہتی ہے کیونکہ متن خوانی کسی بھی زبان کی ہمہ جہت آموزش کا ایک بنیادی اوراہم ذریعہ ہے۔
لسانی مواد کی متن خوانی اس وقت تک بے معنی رہتی ہے جب تک قاری کواس متن میں شامل الفاظ وفقرات کا مکمل مفہوم سمجھ نہ آجائے۔چنانچہ پاکستان کے چاروں صوبوں اورریاست آزاد جموں وکشمیر کے اردو ذریعہ تعلیم کے طالب علموں کے لیے مربوط نصاب کے تحت اردو زبان میں لکھی گئی درسی کتب میں بنیادی لسانی مہارتوں بالخصوص متن خوانی میں پختگی کے ساتھ ساتھ اردوعبارت کا مفہوم سمجھنے کی بھی اہمیت ہے۔ [۳۷]مثال کے طور پر پاکستان میں بیشترخواندہ اور ناخواندہ مسلمان مرد و عورت عربی زبان میں لکھی ہوئی آخری الہامی اور مذہبی کتاب’’قرآن مجید‘‘ کی متن خوانی پر عبور رکھتے ہیں لیکن لاکھوں پاکستانی افراد میں سے چند ایک عربی زبان وقواعد سے آشنا افرادہی ایسے ہونگے جو ’’قرآن مجید‘‘ کے الفاظ کے معنی ومفہوم سے بھی واقف ہونگے ورنہ قرآن مجید کے عام پڑھنے والوں کو بالعموم یہ علم نہیں ہوتا کہ انھوں نے جس قرآنی جملے کی تلاوت کی ہے، اس کا معنی و مفہوم کیا ہے؟
قرآن مجید کی قرأت کی طرح، اردو تحریروں کامتن پڑھنا اِتنااہم نہیں جتنا کہ اُس کے معانی ومفہوم کی مکمل تفہیم حاصل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیے ابتدائی جماعتوں میں درسی متن میں شامل اردو الفاظ کے معانی ومفہوم ، الفاظ کی تذکیر وتانیث، واحد و جمع اور متضاد و مترادف وغیرہ کااکتسابی جائزہ لیا جاناچاہیے۔وسطی اور ثانوی جماعتوں میں مذکورہ بالا اشیا کے علاوہ درسی اسباق میں موجود اردوتراکیب ، محاورات اور ضرب الامثال وغیرہ کا تفہیمی جائزہ لینے کے لیے زبانی وتحریری آزمائشیں دی جا سکتی ہیں۔ طالب علموں کی الفاظ سازی کی صلاحیت پرکھنے کے لیے درسی متن کے الفاظ میں سے سابقے اورلاحقے ڈھونڈ کر نئے نئے الفاظ بنوائے جاسکتے ہیں۔کالج کے طالب علموں سے اردو ادب میں مستعمل تلمیحات، تشبیہات، استعارات،کنایوں اور درسی متن میں شامل اشعار میں مستعمل آسان فہم صنائع کی وضاحت کرائی جاسکتی ہے ۔نیز درسی اسباق میں سے اردو اقتباسات منتخب کرکے ان کی تلخیص کرائی جاسکتی ہے۔نصاب میں شامل اردو شاعری میں موجود تشبیہات اور استعارات کی توضیحات کرائی جاسکتی ہیں۔علاوہ ازیں ، سارا سال نظم ونثر کے اقتباسات کی تشریح کرائی جاسکتی ہے۔ نظموں اور درسی اسباق کے مرکزی خیال اور خلاصے لکھوائے جاسکتے ہیں۔وسطی اور ثانوی جماعتوں میں درسی کتا ب کے علاوہ طالب علموں سے کمرہ جماعت میں معیاری اردو جرائد رسائل سے اقتباسات نیز اردو اخبارات سے شہ سرخیاں اور منتخب خبریں پڑھوائی جائی سکتی ہیں تاکہ طالب علموں میں مطالعے کی عادات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی لسانی تفہیم کا جائزہ لیا جاسکے ۔ علاوہ ازیں ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی، نوماہی اور سالانہ امتحانات میں ایسی زبانی وتحریری آزمائشیں شامل کی جاسکتی ہیں جن کی بدولت معلوم ہوسکے کہ ہر طالب علم اردو الفاظ کے ہجے، تلفّظ اور ادائیگی کیسے کرتا ہے؟وہ اردو الفاظ کس حد تک سمجھ کرپڑھ رہا ہے نیزاس کی اردوپڑھنے کی رفتارکیا ہے ؟وغیرہ ۔[۳۸]تاہم لسانی آزمائشوں کے فوائد کے باوجود ، پڑھنے کی مہارتوں کے اکتسابی جائزے میں اردو معلّم کے روزمرّہ ذاتی مشاہدے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔وہ ہر بچے کی ذاتی لسانی صلاحیتوں اور لسانی کمزوریوں سے واقف ہوتا ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں اردو استاد کو چاہیے کہ درسی اسباق کی متن خوانی کے دوران تمام طالب علم کی پڑھنے کی مہارتوں کا الگ الگ مسلسل جائزہ لیتارہے ،علاوہ ازیں متن خوانی اور تفہیم عبارت کے حوالے سے ان کی لسانی صلاحیتیں پرکھتا رہے اور سال کے آخرمیں سالانہ نتائج کے موقع پر ایک ایسا مربوط ریکارڈ مرتب کرے جس سے ہر طالب علم کی پڑھنے کی مہارتوں کا اندازہ ہوسکے۔
(د ) اردو لکھنے کی مہارتوں کا جائزہ
اردولکھنے کی مہارتوں میں بالعوم اردو رسم الخط کے صوتیے، اردو لکھائی،اِملا نویسی،نقل نویسی اوراردو انشاپردازی وغیرہ کی صلاحیتیں شامل ہوتے ہیں۔اردو رسم الخط اور لکھائی کی آموزش عموماًپرائمری سطح ہی پرمکمل ہوجا تی ہے۔ املانویسی اور نقل نویسی کی مشق ابتدائی جماعت کے علاوہ وسطی اور ثانوی جماعتوں تک جاری رہتی ہے جبکہ اردو انشاپردازی کی تدریس کاآغاز عموماً چوتھی یا پانچویں جماعت سے کیاجاتاہے۔اردولکھنے کی مہارتوں کااکتسابی جائزہ لینے کے لیے ہمیشہ انشائیہ طرزیاموضوعی طرزآزمائشیں( (Subjective Type Testsہی مؤثراور مفید ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان آزمائشوں کے ذریعے ہی طالب علموں کی ذہنی وفکری صلاحیتوں ، اُن کے اندازِ بیان، اردو ذخیرہ الفاظ کا استعمال،فقرات کی ساخت ، لفظوں کی ظاہری بناوٹ ،املا،صفائی اور خوشخطی وغیرہ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔علاوہ ازیں اردو الفاظ میں شوشوں کی بناوٹ، حروف کی اونچائی اور پھیلاؤ، الفاظ کا باہمی فاصلہ،اوقاف کے استعمال اور پارہ بندی کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔اردو انشاپردازی کے نمونوں مثلاً مضمون نگاری، خطوط نویسی، درخواست نویسی،حکایت نویسی، تلخیص نگاری، رودادی نویسی، اور مکالمہ نگاری وغیرہ کے ذریعے ان کی تخلیقی صلاحیتیں پرکھی جاسکتی ہیں۔ نظم ونثر کے اقتباسات کی توضیح وتشریح کی مدد سے اردو زبان پر اُن کے لسانی رسائی کا تعین کیاجاسکتا ہے جبکہ معروضی طرز آزمائشیں (Objective Type Test ) اردولکھنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ لینے میں بالعموم کوئی کردار ادا نہیں کر تیں۔ پاکستان کے مروّجہ امتحانی نظام کے تحت امتحانی آزمائشوں کے ذریعے طالب علموں کی اردولکھنے کی مختلف لسانی مہارتوں کا جائزے لینے کی بجائے صرف ان کی رٹنے کی صلاحیت ،حافظے اور یادداشت کا جائزہ لیا جارہا ہے کیونکہ طالب علموں، والدین، اساتذہ، سکول، حکومت اور عوام النّاس کے نزدیک دیگر مضامین کی طرح ’’اردو لازمی‘‘بھی اچھے نمبروں سے پاس کرنا ہی بنیادی مقصد ہے جبکہ اس میں علمی قابلیت پیدا کرنا ثانوی اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔ [۳۹]
ششماہی اور سالانہ امتحانات کے علاوہ روزانہ، ہفتہ وار اورماہانہ تحریری لسانی آزمائشوں کے ذریعے پورا سال فرداً فرداً ہر طالب علم کی لکھنے کی مہارتوں کا اکتسابی جائزہ لیاجانا چاہیے اوران کی کارکردگی کا ریکارڈباقاعدگی سے مرتب کیا جانا چاہیے تاکہ سالانہ تعلیمی ترقی کے وقت اردو زبان اور قواعدو انشا پردازی میں اس کی علمی قابلیت اور اکتسابی مہارتوں کی سطح کا تعین کیا جا سکے۔اردولکھنے کی مہارتوں کے مؤثر اور ہمہ پہلو جائزے کے لیے ضروری ہے کہ تحریری آزمائشیں تیار کرتے ہوئے کسی درجے میں لاگو اردو لازمی کے پورے نصاب کااحاطہ کیا جائے اور انھیں چند نصابی اسباق اور مشمولات تک محدود نہ رکھا جائے۔[۴۰]علاوہ ازیںیہ تحریری آزمائشیں تمام طالب علموں کے لیے الگ الگ تیار کی جانی چاہیے تاکہ نقل کا رجحان مکمل طورپرختم کیاجاسکے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر اردواستادکو کمپیوٹر پرمختلف ضروری پروگراموں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ ازخود کمپیوٹر کی مدد سے ایسی معیاری اکتسابی آزمائشیں تیارکرسکیں نیز شعبہ نصاب سازی حکومت پاکستان کی طرف سے ہرجماعت کے بچوں کے لیے اردو کی تمام لسانی مہارتوں کا ا کتسابی جائزے لینے والی مختلف آزمائشوں پر مشتمل ’’رہنما کتابچے‘‘ مرتب کیے جانے چاہیے تاکہ اردو اساتذہ کو لسانی آزمائشیں تیارکرنے کے لیے نمونے فراہم ہوسکیں اور کم سے کم وقت میں مؤثراکتسابی جائزہ لیا جاسکے ۔
تحریری نمونوں سے طالب علموں کی لکھائی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں انھیں روزانہ تفویض کیاجانے والا گھر کا کام بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔چونکہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ’ ’تحریری کام‘‘ پر خصوصی توجہ نہ دینے کی وجہ سے بے شمار طالب علم اردو زبان وبیان،اِملا اور تقریری وتحریری اظہار میں حد درجہ تک خام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں عملی زندگی میں شدید لسانی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ [۴۱] سکول سطح پر بچوں کو باقاعدگی سے گھر کا کام دیا جانا چاہیے اور لسانی جائزے کے نقطہ نظر سے اس کی روزانہ پڑتال کی جانی چاہیے کیونکہ ابتدائی اور وسطی جماعتوں کے طالب علموں کی تحریریں بالعموم رموزِ اوقاف، زبان،لفظوں کی بناوٹ اور اِملا وغیرہ کی اغلاط سے مبرا نہیں ہوتیں۔ چونکہ اردو خوشخطی ابتدائی جماعتوں ہی میں پروان چڑھتی ہے،لہٰذاابتدائی جماعتوں کے بچوں کو اپنی نگرانی میں تحریری کام کرواتے ہوئے استاد ا ن کے درمیان مستعدی سے چل پھر کر لکھائی کے نمونوں کامشاہدہ کرسکتاہے اور لکھنے کی بنیادی مہارت کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر روز بچوں کو پڑھے ہوئے درسی سبق میں سے زبانی املا لکھوائی جاسکتی ہے یانثرونظم میں سے کسی مخصوص اقتباس کی نقل کر نے کے لیے کہا جاسکتا ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک کی بدولت طالب علموں کی لکھائی کی انفرادی غلطیوں اور مشترک لسانی مسائل کا جائزہ لیا سکتا ہے۔
پس کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی جماعت سے لے کر بارھویں جماعت تک ہر طالب علم کی اردو زبان پر دسترس کی سطح معلوم کرنے اور لکھنے کی مہارتوں کا ہمہ جہت لسانی جائزہ لینے کے لیے اردو استاد کوسالانہ امتحانات میں شامل صرف ایک ہی تحریری آزمائش پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ درسی کتاب کی معاونت سے پورا سال مختلف قسم کی زبانی، تحریری اور عملی آزمائشوں کے ذریعے اردو زبان کی تمام مہارتوں کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے ان کا اکتسابی جائزہ لینا چاہیے ۔ابتدائی سکول کے اردو استا د کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اگرچہ ہر طالب علم شعوری طور پربیک وقت ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ سکتا ہے لیکن وہ اُسی زبان پر مکمل عبورحاصل کرپاتا ہے جسے وہ بچپن ہی سے استعمال کرنا شروع کرتا ہے۔[۴۲]اس لیے اردو کی مہارتوں کے اکتسابی جائزے کی سب سے زیادہ مؤثر ضرورت ابتدائی ا ور وسطی سکولوں میں ہے ۔ہرقسم کی آزمائشوں کی پیمائش کے نتائج کی روشنی میں طالب علموں کی لسانی مہارتوں کا تجزیہ کیاجانا چاہیے اور ان کی خامیوں اور غلطیوں کی ایک جامع فہرست مرتّب کی جانی چاہیے تاکہ اس کی روشنی میں تدریس اردو کا آئندہ بہتر اہتما م کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ رزلٹ کارڈ اور تعلیمی اسناد پر طالب علم کی عددی قابلیت کے علاوہ یہ بھی لکھا ہوناچاہیے کہ اسے اردو سننے، بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں میں کس حدتک عبور حاصل ہے تاکہ اس کی ہمہ پہلولسانی صلاحیتوں کا فوراً ادارک ہوسکے۔


حوالہ جات
۱) عبدالرشید آزاد،ڈاکٹر،’’تعلیمی پیمائش‘‘، ادارہ تالیف وترجمہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور،۱۹۹۲ء،ص۱۲۔
۲) ایضاً،ص۲۲۔
۳) ایضاً،ص۱۳۶۔
۴) ایضاً،ص۱۲۔
۵) اسحا ق جلالپوری،پروفیسر،’’جائزہ وآزمائش‘‘، مشمولہ ’’تدریس اردو ‘‘ تجرباتی ایڈیشن، ٹیچر ٹریننگ پراجیکٹ،شعبہ نصاب سازی، وزارتِ
تعلیم اسلام آباد، طبع سوم، ۲۰۰۵ء،ص۲۳۷۔
۶) عبدالرشید آزاد،ڈاکٹر،’’تعلیمی پیمائش‘‘،ص۵۸،۵۹۔
۷) معین الدین،’’ہم اُردو کیسے پڑھائیں ‘‘،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ،نئی دہلی،بارسوم، ۲۰۰۴ء،ص۱۲۷۔
۸) مظفرحسن،ڈاکٹر،’’تحصیل وتدریس زبان کا جائزہ‘‘، مشمولہ ’’ اردوزبان اور اس کی تدریس ‘‘ سی ٹی پروگرام، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،
اسلام آباد، اشاعت تیرھویں، ۲۰۰۳ء،ص۳۶۵۔
۹) عبدالرشید آزاد،ڈاکٹر،’’تعلیمی پیمائش‘‘،ص۱۳۷۔
۱۰) معین الدین،’’ہم اُردو کیسے پڑھائیں ‘‘،ص۱۲۸۔
۱۱) ایضاً،ص۱۲۹۔
۱۲) مظفرحسن،ڈاکٹر،’’تحصیل وتدریس زبان کا جائزہ‘‘،ص۳۶۵۔
۱۳) پرویزامیر علی ہودبھائی،ڈاکٹر،’’پیش لفظ: کیا پاکستان کو تعلیمی دلدل سے نکالنا ممکن ہے؟ لیکن کیسے؟‘‘، مشمولہ ’’ریاست اور تعلیم :پاکستان
کے پچاس سال‘‘مؤلفہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، مشعل لاہور، ۱۹۹۸ء،ص۳۱۔
۱۴) مظفرحسن،ڈاکٹر،’’تحصیل وتدریس زبان کا جائزہ‘‘،ص۳۷۱۔
۱۵) انعام اللہ خاں شروانی،پروفیسر،’’تدریسِ زبانِ اردو‘‘،ص۱۲۷۔
۱۶) ضیاء الدین علوی،سیّد محمد، ڈاکٹر،’’جدید تعلیمی مسائل‘‘،ایجوکیشنل بُک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۶ء، ص۳۰۶۔
۱۷) سلامت اللہ،ڈاکٹر،’’ہم کیسے پڑھائیں‘‘،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی،۲۰۰۵ء،۱۸۶۔
۱۸) ایضاً،ص۱۷۵۔
۱۹) گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر،’’اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو‘‘،مشمولہ ’’ اردو کے لسانی مسائل‘‘، مرتّبہ سیّد روح الامین، عزت اکادمی ،گجرات،
۲۰۰۷ء،ص۷۲۔
۲۰) سلیم فارانی،ڈاکٹر،’’اردو زبان اور اس کی تعلیم ‘‘،ادارہ مطبوعاتِ فارانی، لاہور،طبع پنجم، ۲۰۰۰ء، ص۴۸۰۔
۲۱) مظفرحسن،ڈاکٹر،’’تحصیل وتدریس زبان کا جائزہ‘‘،ص۳۷۰۔
۲۲) اسحا ق جلالپوری،پروفیسر،’’جائزہ وآزمائش‘‘،ص۲۴۷۔
۲۳) انعام اللہ خاں شروانی،پروفیسر،’’تدریسِ زبانِ اردو‘‘،انجلی گھوش کلکتہ، بھارت،بارِدوم، ۲۰۰۷ء،ص۱۲۶۔
۲۴) محمد قاسم صدیقی،پروفیسر،’’ ثانوی تعلیم اور اُس کے مسائل‘‘، ایجوکیشنل بُک ہاؤس، علی گڑھ،۲۰۰۶ء،ص۱۱۹۔
۲۵) مظفرحسن،ڈاکٹر،’’تحصیل وتدریس زبان کا جائزہ‘‘،ص۳۶۹۔
۲۶) محمد قاسم صدیقی،پروفیسر،’ ’ثانوی تعلیم اور اُس کے مسائل‘‘،ص۹۸۔
۲۷) انعام اللہ خاں شروانی،پروفیسر،’’تدریسِ زبانِ اردو‘‘،ص۱۲۷۔
۲۸) گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر،’’اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو‘‘ ،ص۵۳ ۔
۲۹) ایضاً،ص۵۵۔
۳۰ ) اسحا ق جلالپوری،پروفیسر،’’جائزہ وآزمائش‘‘،ص۲۴۲۔
۳۱) سلیم فارانی،ڈاکٹر،’’اردو زبان اور اس کی تعلیم ‘‘،ص۴۸۳۔
۳۲) سلیم عبداللہ،’’اُردوکیسے پڑھائیں‘‘،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ،۲۰۰۴ء،ص۱۰۱۔
۳۳) اسحا ق جلالپوری،پروفیسر،’’جائزہ وآزمائش‘‘،ص۲۴۷۔
۳۴) سلیم فارانی،ڈاکٹر،’’اردو زبان اور اس کی تعلیم ‘‘،ص۴۹۷۔
۳۵) ایضاً،ص۵۲۱۔
۳۶) معین الدّین،’’اُردو زبان کی تدریس ‘‘،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان ،نئی دہلی،۲۰۰۴ء،ص۱۰۷۔
۳۷) اسحا ق جلالپوری،پروفیسر،’’جائزہ وآزمائش‘‘،ص۲۴۲۔
۳۸) معین الدین،’’ہم اُردو کیسے پڑھائیں ‘‘،ص۱۳۳۔
۳۹) انعام اللہ خاں شروانی،پروفیسر،’’تدریسِ زبانِ اردو‘‘ ،ص۱۲۴۔
۴۰) سلامت اللہ،ڈاکٹر،’’ہم کیسے پڑھائیں‘‘،ص۱۸۴۔
۴۱) طاہر فاروقی،پروفیسر،’’ہماری زبان: مباحث ومسائل‘‘، مرتّبہ ڈاکٹرسرور اکبر آبادی، انجمن ترقی اردو ،پاکستان، ۱۹۹۶ء،ص۱۳۲۔
۴۲) ضیاء الدین علوی،سیّد محمد، ڈاکٹر،’’جدید تعلیمی مسائل،‘‘ایجوکیشنل بُک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۶ء، ص۶۹۔



اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com