تنفیذ اردو کا ایک نو دریافت حوالہ ....ماہ نامہ ’’ نفاذ اردو ‘‘ کراچی
فیاض احمدفیضی ؍ڈاکٹرشفیق احمد

ABSTRACT
This article is research and critical review of the monthly "Nafaz i Urdu" Karachi. It is being published since Jan. 2008 with the efforts of Dr. Sayyad Mobeen Akhtar , founder of Tahreek i Nafaz i Urdu. The articles, reviews, editorials, reports and letters published in this prestigious journal are now getting the shape of a campaign for the promotion of Urdu. It is very important journal working very hard for the national cause of promotion and implementation of Urdu as official language of Pakistan. Its articles and other constants show that it is working on the lines of Quid i Azam, Dr. Moulvi Abdul Haq, Dr. Sayyad Abdullah and Ch. Ahmad Khan(Alig).

اگست ۲۰۰۸ء میں انجمن ترقی اُردو(کراچی) میں دوران تحقیق ماہ نامہ’’نفاذِ اُردو‘‘ کے کچھ شمارے دیکھنے کاموقع ملا۔ بعد ازاں ڈاکٹر جمیل جالبی کی وساطت [۱] سے اس کے سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر سید مبین اختر سے تفصیلی ملاقات بھی ہوئی۔ڈاکٹر سید مبین اختر کا تخصص ’’سائیکاٹری اینڈ نیورالوجی ‘‘میں ہے۔نارتھ ناظم آباد میں ’’کراچی نفسیاتی ویلفئیر ہسپتال چلا رہے ہیں ۔انھوں نے اُردو کے ساتھ گہری محبت اور کچھ کر گزرنے کے جذبے کے ساتھ فروری ۲۰۰۵ء سے ’’تحریکِ نفاذ اُردو‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے اور رسالہ ’’نفاذِ اُردو ‘‘اس تنظیم کے بنیادی مقاصد کا آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نفاذِ اردو کے موضوع سے خصوصی محبت صرف رسالے کے اجرا تک محدود نہیں بلکہ’’ تحریک نفاذ اردو ‘‘کی ماہانہ نشستوں کا اہتمام اور اس میں نفاذ اردو کے حوالے سے ہونے والی عصری پیش رفت کا جائزہ لینا، تجاویز دینا اور مستقبل کی پیش بندی کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بلاشبہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ارددو پسند قافلے کے ایک نہایت مخلص سپاہی ہیں۔ زیرنظر سطور مجلہ مذکورہ کے ایک اجمالی جائزے پر مشتمل ہیں۔
تحر یک نفاذ اردو، پا کستا ن:
ماہ نامہ ’’نفاذ اردو ‘‘کا اجرا یکم جنوری ۲۰۰۸ء کو ’’تحریکِ نفاذِ اُردو پاکستان‘‘کے زیر انصرام عمل میں آیا۔یہ رسالہ مذکورہ تحریک کے بنیادی منشور کا آئینہ دار ہے ۔اس لیے ’’نفاذاردو ‘‘کے تجزیاتی مطالعہ سے قبل ’’تحریکِ نفاذِ اُردو‘‘ کے اغراض و مقاصد پر اجمالاً روشنی ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے تا کہ مجلّے کے پس منظر اور پیش منظر کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھا جا سکے ۔’’تحریک نفاذ اُردو‘‘کا قیام فروری ۲۰۰۵ء میں کراچی میں عمل میں آیا ۔[۲] اس ادارے کے نام سے ہی اس کے بنیادی فکر و عمل کی عکاسی ہوتی ہے کہ ادارہ اپنے قیام کے روزِ اوّل سے ہی ’’ہر سطح پر قومی زبان کی اہمیت‘‘ کا شعور بیدار کرنے کے لیے سر گرمِ عمل ہے[۳]اس کے اغرا ض و مقاصد درج ذیل ہیں:
ا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت اور اسلامی حدود قیود کے دائرے میں رہتے ہوئے اُردو کی ترویج و نفاذ کے لیے تمام وسائل اور ذرائع بروئے کار لانا۔
ب۔ نفاذ، اُردو کی آئینی حیثیت کی بحالی کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرنا خصوصاً ۱۹۷۳ء کے آئین کی شق ۲۵۱ کے تحت اس کی آئینی حیثیت پر عمل درآمد کے لیے جدو جہد کرنا۔
ج۔ اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے کوشش کرنا۔
د۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اُردو کے نفاذ کے لیے کوششیں کرنا۔
ر۔ تحریکِ نفاذ اُردو سے متعلق دیگر تنظیموں و اداروں سے معاونت حاصل کرنا اور انہیں اپنا تعاون فراہم کرنا۔
س۔ اُردو سافٹ ویئر کی ترویج کے لیے عملی جدو جہد کرنا۔
ًش۔ اُردو کی اہمیت اور ضرورت کو حکمرانوں کے سامنے مؤثر انداز میں پیش کرنا۔
ص۔ قومی زبان کو آنے والی نسلوں کے لیے بھرپور علمی خزانے سے مزین کرنا ، تعلیم و تدریس اور اظہار خیال کے قابل بنانا اور انھیں قومی زبان کی طرف راغب کرنے کے لیے ان کی دلچسپی کا مواد فراہم کرنا۔
ض۔ مرکزی و صوبائی سطح پر تقریروں و ترقیوں کے لیے مقابلے کے امتحانات اُردو میں منعقد کرانے کے لیے کوشش کرنا۔
ط۔ اشاعتی (Print ) و برقی(Electronic )ذرائع ابلاغ کو اُردو کی طرف راغب کرنا۔
ظ۔ قومی زبان کے حوالے سے نوجوانوں اور خواتین میں ان کی قومی ذمہ داری کا احساس اُجاگر کرنا۔
ع۔ اُردو کے اساتذہ کرام کے لیے تربیتی نشستوں کا انتظام کرانا۔
غ۔ اُردو کے نفاذ کے ساتھ صوبائی زبانوں کی ترویج کے لیے بھی دیگر تنظیموں سے تعاون کرنا اور ان کی معاونت حاصل کرنا۔
ف۔ اُردو کی ترویج کے لیے مذاکرے، مشاعرے اور ادبی تقاریب کا اہتمام کرنا۔[۴]

مذکورہ بالا اغراض و مقاصد اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ قائد اعظم ،مولوی عبد الحق و دیگر عمائدین ملک و ملت نے اُردو کی تائید میں جو تاریخی ارشادات فرمائے ہیں اُن کی عملی طور پر قدر کی جائے قومی اور سرکاری زبان کے طور پر اُردو کی ترقی و ترویج کے آئینی، قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کیا جائے۔عدالتوں اور دیگر سرکاری دفاتر میں انگریزی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ملک کی بقا اور مثالی ترقی کے لیے اُردو کو ذریعہ ء تعلیم بنایا جائے اور اُردو کو بین الاقوامی زبان کے طور پر رائج ہونے کی صلاحیت و قوت کا پوری دنیا کو بھرپور احساس دلایاجائے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ جہاں اُردو زبان و ادب کے حوالے سے تحریر کیے جانے والے تحقیق و تاریخی مضامین کی طباعت ، تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی دستاویزات اور مسودات کی تدوین کو اپنے انقلابی منشور کا حصہ سمجھتا ہے وہیں نفاذِ اُردو اُس کی ترجیحات میں سرِ فہرست ہے۔اس حوالے سے ایڈیٹر مسعود بن محمود کے ایک اداریے سے اس کا ایک اظہار ملاحظہ ہو۔
’’یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اردو ادب کے ان شہ پاروں کو ہم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جو’’ تحریک نفاذ ارد‘‘ سے منسلک ہیں وہ دوست جو ممکن ہے ہم سے دور ہوں مگر وہ بھی ہمارے نزدیک اور دل وجان سے زیادہ عزیز ہیں۔ ’’تحریک نفاذ اردو‘‘ ہم سب کی آواز ہے ، کسی سیاست یا گروہ کی آلہ کار نہیں اور نہ ہی کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے ہماری پر امن اور قومی زبان کے حوالے سے اس جدوجہد کو کوئی سیاسی چال سمجھے۔ بلکہ میری، آپ کی اور ہم سب کی مشترکہ جدو جہد کی عکاس ہے۔ ’’تحریک نفاذ اردو‘‘ اور اس کا مجلہ’’ نفاذ اردو ‘‘کے نام سے ہم اپنے تمام محسنوں کو فراموش نہیں کر سکتے جنھوں نے اردو کے لیے سخت جدوجہد کی اور کر رہے ہیں۔ جہاں جہاں کوئی بھی فرد اردو کی شمع کو روشن کیے ہوئے وہ در اصل دامے ، درمے، قدمے، سخنے کے ساتھ ان کا کسی نہ کسی طرح ان کی خدمات کا ہمیں اعتراف رہے گا۔ ‘‘[۵]
جنوری سے ۲۰۰۸ء سے مارچ۲۰۱۲ء تک ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ کے ۴۹شمارے شائع ہو چکے ہیں اور مارچ۱۲ ۲۰ء تک۸۴ ماہانہ نشستیں منعقد ہو چکی ہیں ۔ڈاکٹر سید مبین اختر اس کے تاحیات سر پرست ہیں تاہم رسالے کے ادارتی بورڈ میں سرپرستِ اعلیٰ،نگران،مدیر منتظم،مدیر،نائب مدیر،معاونین اورمجلس مشاورت ودیگر ارکان شامل ہیں۔سرپرستِ اعلیٰ کے ضمن میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر مبین اختر اس کے تاحیات سر پرستِ اعلیٰ ہیں ۔صغیر حسن صغیر یکم مارچ ۲۰۰۹ء میں صرف ایک ماہ کے لیے ادارتی بورڈ میں نگران کے عہدے پر مامور کیا گیا ۔اس سے قبل یا ما بعد اس عہدے کا کہیں ذکر نہیں ۔جہاں تک مدیر منتظم کا تعلق ہے ،جنوری ۲۰۰۸ء سے فروری ۲۰۰۹ء تک سید صلاح الدین اس کے مدیرِ منتظم رہے، بعد ازاں مارچ ۲۰۰۹ء سے جون ۲۰۰۹ء تک چار ماہ کے لیے قاسم جلال کو اس عہدے کی ذمہ داری دی گئی جو گزشتہ چودہ ماہ سے نائب مدیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔مدیر کی ذمہ داریوں کا آغاز مسعود بن محمود نے جنوری ۲۰۰۸ء سے کیا ، وہ ستمبر ۲۰۰۸ء تک مدیر رہے ، اکتوبر ۲۰۰۸ء میں قادر حسین خان قیادت کو مدیر بنایا گیا ، وہ جنوری ۲۰۰۹ء تک اس عہدے پر رہے۔اس کے بعد مارچ ۲۰۰۹ء سے حبیبہ خان کو یہ ذمہ داری دی گئی، جولائی ۲۰۰۹ء میں وہ رسالے کی مدیرہ بنیں ،مارچ ۲۰۱۰ء میں وہ مدیر اعلیٰ بنا دی گئیں اور تاحال وہ اسی عہدے پر امور انجام دے رہی ہیں۔
قاسم جلال نے نائب مدیر کے طور پر جنوری ۲۰۰۸ء میں ذمہ داری سنبھالی، فروری ۲۰۰۹ء تک وہ اس عہدے پر رہے ، بعد ازاں اُن کو مدیر بنا دیا گیا،اگست ۲۰۱۰ء تک اس عہدے کا ادارتی بورڈ میں کہیں ذکر نہیں۔شبیر احمد انصاری جنوری ۲۰۰۸ء سے جون ۲۰۰۹ء تک رسالے کے معاون مدیر رہے ، جولائی ۲۰۰۹ء سے تاحال وہ اس کے مدیر ہیں۔ابتدائی اٹھارہ شماروں میں ماہ رخ اختر نے ان کے ساتھ معاونت کی۔جولائی ۲۰۰۹ء سے جنوری ۲۰۱۰ء تک ماہ جبین ماہ رخ اختر کی جگہ معاون مدیر رہیں۔فروری ۲۰۱۰ء میں جب شبیر احمد انصاری کو نفاذِ اُردو کا مدیر بنایا گیا تو توسیف اللہ سالم سیفی اس کے مدیر منتظم بنے۔یہ دونوں اصحاب رسالے کے مدیر اور مدیر منتظم کے طور پر ادارتی بورڈ میں تاحال انہیں عہدوں پر امور انجام دے رہے ہیں ۔
کسی بھی رسالے کے مشاورتی بورڈ میں نامور علمی و ادبی شخصیات کا چناؤ کیا جاتا ہے، رسالہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن وقار گل (رئیس کلیہ‘ فنون و قانون جامعہ اُردو‘ عبد الحق کیمپس)،ڈاکٹر سیدہ تسنیم فاطمہ ،ڈاکٹر نظر کامرانی ،فلک نا ز حسین ،بیگم اشرف سلطانہ اورڈاکٹر حسیب احمد مجلس مشاورت میں شامل ہیں تاہم بیگم اشرف سلطانہ جنوری ۲۰۰۸ء سے فروری ۲۰۰۹ء تک اس کی ممبر رہیں۔اُن کے جانے کے بعد مشاورتی بورڈ کے اراکان کی تعداد پانچ رہ گئی۔اسی طرح ڈاکٹر تسنیم فاطمہ جنوری ۲۰۰۸ء سے اگست ۲۰۰۸ء سے مشاورتی بورڈ کا حصہ رہیں، اگست ۲۰۰۹ء سے فروری ۲۰۱۰ء تک مجلس مشاورت کے ارکان کی تعداد چار رہی۔مارچ ۲۰۱۰ء سے حکیم مجاہد محمود برکاتی کو بھی مشاورتی بورڈ میں شامل کر لیا گیا اور یوں مشاورتی بورڈ کے ارکان کی تعداد پھر پانچ ہو گئی۔[۶](*)
ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ کے مختلف شمار وں کی تحریروں کا غائر مطالعہ کیا جائے تواحساس ہوتا ہے کہ ’’تحریکِ نفاذِ اُردو‘‘ کو اس بات کا کامل یقین ہے کہ ہر سطح پر اُردو کے نفاذ کی بنیاد ذریعہء تعلیم کے طور پر اُردو کے نفاذ میں ہے ۔اُردو ذریعہ ء تعلیم ہو جائے تو قومی سطح پر ایسی ذہن سازی ہو سکتی ہے جو اُردو کے لیے قبولیت اور تحسین کے جذبات کی حامل ہو۔مزید برآں ذریعہ ء تعلیم بھی وہ ہتھیار ہے جو لسانی استعداد کی بنیاد ہے ۔اسی سبب سے ’’تحریکِ نفاذ اُردو‘‘ کے ترجمان’’نفاذِ اُردو‘‘ کے بیشتر مضامین اور اُردو بطور ذریعہ ء تعلیم کی مختلف جہتوں سے بحث کرتے ہیں اور یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسی ذریعہ ء تعلیم کے پر وردہ ذہن اُردو کو دفتری اور سرکاری زبان کا درجہ دلا سکتے ہیں اور اس کے لیے عملی اقدامات کر سکتے ہیں ۔بظاہر ذریعہ ء تعلیم اور دفتری زبان الگ الگ اصطلاحیں محسوس ہوتی ہیں مگر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق موجود ہے۔ڈاکٹر سید عبد اللہ کے لفظوں میں:
’’اشارہ نگاری محض ’’ہاں‘‘ (Yes )اور’’نہیں‘‘(No ) تک محدود نہیں، اس میں بھی بہت کچھ ہوتا ہے اور کیفیت نگاری تو خاص بلاغت کی طلب گار ہے ،ظاہر ہے کہ دفتروں کی سبھی تحریرات کا مقصد کسی نہ کسی مدعا کا اظہار یا ابلاغ ہوتا ہے اور کامیاب اظہار یا ابلاغ کے لیے زبان کے اسالیب پر اور اُن مطالب پر جن کا تعلق نظم و نسق کے اداروں، دفتروں یا عدالتوں سے ہے ، کامل قدرت لازمی ہے اور یہ قدرت ابتدا میں درسی نصابات کے ذریعے اور بعد میں مسلسل مشق اور مطالعہ و تجربہ سے حاصل ہوتی ہے ‘‘۔[۷]
ڈاکٹر صاحب آگے چل کراردو بطوردفتری زبان رائج کرنے کے طریقے کارکو تاریخی تناظر میں یوں دیکھتے ہیں:
’’مغلوں کے زمانے میں (بلکہ سارے ادوارِ اسلامی میں) دفتری زبان کے درس، مطالعہ اور تربیت کا مؤثر انتظام موجود رہا اور دفتری فنون(انشا اور خوش خطی) کے علاوہ خصوصی علمی استعداد اُس کے لوازم میں سے تھی جو خصوصی نصابِ تعلیم کی متقاضی تھی کیوں کہ اچھا منشی صرف نگار ندہ ہی نہ ہوتا تھا بلکہ مشیر اور دبیر بھی ہوتا تھا ۔۔۔برصغیر میں انگریزوں کے زمانے میں پہلے فارسی کو پھر انگریزی کو دفتری اہمیت حاصل ہوئی ، پھر جب انگریزی زبان مستقل طور پر دفتری نظام قرار پائی تو انگریزی نظامِ تعلیم میں انگریزی کی مہارت پر خاص زور دیا جاتا رہا۔۔۔چناں چہ خود دفتروں کے متوسط اور اعلیٰ کاڈرز (درجوں)میں اس کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ انگریزی بہت مضبوط ہو ۔۔۔جب تک انگریزی دفتری زبان رہے گی انگریزی کی مہارت کے لیے انگریزی کے نصابات کو مہارت کا وسیلہ بنایا جاتا رہے گا لیکن اگر اُردو کو مکمل دفتری زبان بنانا ہے (اور اسے محض چنگی کی رسید تک محدود نہیں رکھنا ہے)تو شروع سے آخر تک اُردو کے نصابات کی تشکیل اس طرح کرنا ہو گی کہ علومِ عامہ کے علاوہ اور جذباتی جمالیاتی زندگی کے سب لطیف سے لطیف پہلوؤں کی عکاسی کے لیے زبان و ادب کے مؤثر نصاب مقرر کرنا پڑیں گے(جو ایک ریاست کے نظم و نسق اور مالیاتی و ترقیات و دفاع وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں)‘‘۔[۸]
ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دفتری سطح پر اُردو کے نفاذ کے لیے اُردو پر جس کامل قدرت کی ضرورت ہے وہ اُردو ذریعہ تعلیم ہوئے بغیر حاصل ہو نہیں سکتی ۔اس سبب سے اس رسالے کی تحریروں میں مجلس زبان دفتری پنجاب نے دفتری زبان کے لیے مؤثر تجاویز پیش کیں، ان کے مطابق ملک بھر میں ایک ہی زبان یعنی اُردو کوذریعہ ء تعلیم اپنانے پر زور دیا گیا۔اس طرح مقابلے کے امتحانات، ذریعہ امتحان ، مصاحبے اور پیشہ وارانہ یونیورسٹیوں میں اُردو ذریعہ ء تعلیم اپنانے پر زور دیا گیا۔
اُردواورانگریزی کے مخلوط نظام تعلیم نے ہمارے ہاں’’ذہنی دو عملی‘‘[۹] کیفیت کو جنم دیا بالخصوص مڈل یا ثانوی سطح تک ملکی احساسات کی تشفی کے لیے اُردو کا چلن اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں انگریزی کا شدید غلبہ رہا اس سے طلبا نہ انگریزی پر قادر ہو سکے نہ اُردو پر ۔چناں چہ’’بطور منشی اور اہلکار دفتر میں بھی اُن کی مدعا نگاری کمزور اور اُن کی عبارتیں پھسپھسی ہوتی تھیں انگریزی میں بھی اور اُردو میں بھی ،کیوں کہ اُن کے اندر اُردو انگریزی کی لڑائی ہے‘‘۔[۱۰]
ڈاکٹر صاحب نے فارسی سے نمو پا کر قوت لینے والے اُردو ذریعہ ء تعلیم کے ثمرات کو اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں یوں بیان کیا ہے :
’’میں نے اپنے لڑکپن میں دیکھا ہے کہ ورنیکلرمڈل بلکہ محض پرائمری پاس اساتذہ جن کی فارسی توانا اور جن کاذریعہ تعلیم اُردو تھا اعلیٰ درجہ کے انشا پرداز ہوتے تھے اُردو میں جملہ عملی مقاصد و مطالب مکتوب نگاری، رسیدات، وثیقہ جات، دستاویزات اور دیگر موضوعات پر اُن کا قلم ماہرانہ چلتا تھا‘‘۔[۱۱]
اس سلسلے میں ابو سلمان شاہ جہان پوری کے اُن سوالات میں بصیرت افروز استفسار موجود ہے جو انھوں نے اپنے مضمون ’’نیا نصاب تعلیم اور قومی زبان ‘‘میں اٹھائے ہیں ۔
۱۔ آیا اُردو محض ایک زبان کی حیثیت سے شامل کی گئی ہے یا
ب۔ اُردو کی حیثیت اس کے علاوہ قومی زبان کی بھی ہے؟
ج۔ قومی زبان کی حیثیت سے اُردو کو نصابِ تعلیم میں کیا امتیاز حاصل ہے؟[۱۲]
ڈاکٹر سید عبد اللہ اور ڈاکٹر شاہ جہاں پوری کی مذکورہ بالا بحثیں اور سوال اُردو ذریعہ تعلیم کی دفتری اُردو کے ساتھ تعلق پر دلالت کرتے ہیں ۔ذیل میں نفاذِ اُردومیں شائع ہونے والی مختلف تحریروں کو اسی پس منظر اور زبان کے مختلف مباحث کے باہمی ربط کے ساتھ دیکھا جائے گا۔
جون ۲۰۰۸ء کے شمارے میں شامل مضمون ’’باربراڈی مٹکاف‘‘ کا تحریر کردہ ہے جو کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں ان کے مضمون کا اردو ترجمہ ’’نجم فاروقی‘‘ نے کیا۔ مقالہ’’ذاکر حسین اسٹڈی سرکل ‘‘کی طرف سے فروری ۲۰۰۸ء میں منعقدہ ’’انٹرنیشنل اردو کانفرنس‘‘ میں پڑھا گیا تھا۔ یہ کانفرنس بھارت کے شہر الہ آباد میں منعقدہوئی تھی ۔ اس طویل اور فکر انگیز مقالے کا عنوان ہے ’’بھارت میں اردو زبان کی موجودہ صورت حال‘‘ہے ۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں نفاذِ اُردو اور بطور خاص دفتری اُردوکے مسئلے کو وسیع تر زمانی اور مکانی حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس مقالے کے چند اقتباسات اس ضمن میں دیکھ لینا ضروری معلوم ہوتے ہیں:
’’۔۔۔دوسرا دور انیسویں صدی میں آیا جب انگریز حکومت نے اعلیٰ سطح پر فارسی کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا اور اس سے نچلی سطح پر مقامی زبان کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل در آمد شروع ہوا۔ مزید برآں، سرکاری سرپرستی مقامی زبانوں کو حاصل ہونے لگی اور قدیم زبانیں، خصوصاََ فارسی، سنسکرت اور عربی اس سے محروم ہوتی گئیں۔ یہ ایک نئے طویل دور کا آغاز تھا جب کہ بہار، شمال مغربی صوبے، اودھ اور پنجاب کے بڑے حصے میں تعلیم یافتہ اشرافیہ نے اردو پڑھنا شروع کیا ۔۔۔اردو تمام اشرافیہ خصوصاََ ’’طبقہء منشیاں‘‘ کے لیے ذریعہ اظہار بن گئی۔ اردو کی تاریخ میں تیسرااور نازک دور تب آیا جب اردو کو ہٹا کر، خصوصاََ اتر پردیش میں، ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ لیفٹننٹ گورنر میکڈانل نے ۱۹۰۰ء میں فیصلہ صادر کیا کہ ہندی کو اردو کے مساوی درجہ دیا جائے۔ یہ اس سلسلے کا سب سے زیادہ نمایاں سنگ میل تھا‘‘۔[ ۱۳]
حوالہ نگار نے ہندوؤں کے متعصبا نہ رویے کو بھی انھی کی سرزمین پر بڑی بے باکی سے واضح کرتے ہوئے کہا:
’’ہندو قوم پرست نظریے کے حامیوں کے ایک بڑے طبقے کا خیال تھا کہ اردو تو محض ایک آبرو باختہ رکھیل تھی جو زوال پذیر نوابی تہذیب کے مفادات کی خدمت گزار تھی۔ اس کے بر خلاف، ان کے خیال میں ہندی باعزت لوگوں کی زبان تھی۔....... ستم ظریفی یہ تھی کہ مسلم اصلاح پسندوں کا بھی اردو کی حد تک یہی مقصد تھا اور وہ ہندی کو دیہاتی گنواروں کی زبان قرار دیتے تھے۔‘‘ [۱۴]
مقالہ نگار نے پاکستان میں اردو کی سرکاری حیثیت و ارتقا پر بھی تفصیلاََ روشنی ڈالی :
’’ حقیقت یہ ہے کہ جب اردو پاکستان کی قومی زبان بن گئی........ تو اردو کو خود اپنے گھر میں ایک مزید مشکل دور سے گزرنا پڑا ۔ کرسٹو فرلی (Christopher Lee ) نے متعدد حالیہ اردو نظموں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان اشعار میں اردو سے مراد خود مسلمان ہیں، جنھیں اپنی زبان کے ساتھ ساتھ متعصبانہ طور پر خود بھی ’’غیر ملکی‘‘ کہا جانے لگا تھا۔....... بہتر یہ ہو گا کہ اردو کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں تھکی ہوئی پرانی شکست خوردہ لڑائیوں کو پھر نہ لڑا جائے بلکہ موجودہ دور کے مشترک قومی اقتدار کے حوالے سے گفتگو ہو۔‘‘[۱۵]
پاکستان میں دفتری اردو اور قومی سرکاری زبان کے ارتقا کی مختلف منازل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
’’اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے، اس بات کو ہندوستان میں مثبت نقطہ نظرسے دیکھا جانا چاہیے۔ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ اس زبان میں اپنی مشترک دلچسپی اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں ہونے سے دونوں ملک متنفع ہو سکتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی چار فیصد آبادی کی مادری زبان اردوتھی اور ملک میں اردو کو جو درجہ دیا جا رہا تھا اس سے نفرت کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے اور آج بھی اس ملک میں زبان ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایک قابل ذکر پاکستان نژاد ادبی شخصیت کی رائے میں:
’’زیادہ سے زیادہ اردو کی ترقی کے لیے اس ملک میں جو کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے روز مرہ کے کام کاج کی زبان کے طور پر فروغ دیا جائے۔ اردو کی ترقی کی کوششوں کو دبانے کی چاہے جتنی بھی سعی کی جائے، یہ ترقی کرے گی اور کچھ نہیں تو محض اس لیے کہ پاکستان کی قومی زندگی کو اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اردو کے فنا ہونے کا تو خطرہ نہیں ہے لیکن وہ اردو کس قسم کی ہو گی جو زندہ رہے گی؟ ظاہر ہے کہ یہ زبان نہ ہو گی جومیرو غالب کو عوام کی دسترس میں پہنچا سکے گی اور نہ یہ وہ زبان ہو گی جس کے ذریعہ اردو ادب کے نشاۃثانیہ کا کام ہو سکے بلکہ وہ کام کاج والی زبان اردو ہوگی‘ ‘ ۔ [۱۶]
انھوں نے اپنی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
’’مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے لاہور میں مجھے بالکل سنجیدگی سے بتایا گیا تھا کہ اس شہر میں صرف دو لوگ اردو بولتے ہیں جن میں ایک لکھنوی ہیں اور دوسرے جون پوری، پھر بھی پاکستان نے اردو کو اپنی لنگو افرینکا (رابطے کی زبان) بنا کر اس کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور یقیناََ یہ ایک باشعور اور مفید بات ہو گی اگر دونوں ملکوں کے لوگ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاقوں میں بھی اپنے محاورے اور لسانی مسالے کا باہمی تبادلہ کریں۔ مزید یہ کہ ہمیں اس دن کی امید کرنی چاہیے ، جیسا کہ یورپ میں ہو ہی رہا ہے کہ رابطے کی زبان کو خوش آمدید کہا جائے گا اور پرانی دشمنیوں کی جگہ علاقائی وحدتیں پیدا ہوں گی جن سے سبھی کو فائدہ پہنچا ہے۔‘‘[۱۷]
کرشن مہشوری کا مضمون ’’اردو کا مستقبل ۔امکانات اور اندیشے ‘‘ بھی اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ اس میں اردو کی ابتدا سے متعلقہ نظری بحثوں کا ذکر کرنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں اس سے ہونے والے سلوک کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں اٹھارہ قومی زبانوں میں سے ایک اردو ہے، جو سیاسی اور ذاتی وجوہ کی بنا پر الجھی رہتی ہے، جب کہ پاکستان میں اردو واحد قومی زبان قبول اور تسلیم کی جا چکی ہے، مگر صوبائی سطح پر اردو کی حیثیت ایک باندی کی سی ہے۔اس وقت دنیا کے سو سے زائد ممالک میں کسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والا موجود ہے، یعنی اردو بولنے لکھنے اور پڑھنے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اردو کی جڑیں ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں ہیں اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی بے جڑ پودا تادیر سلامت نہیں رہ سکتا۔ اس اردوپودے کی جڑیں تو ہیں، مگر اب اس کی دیکھ بھال، پھیلاؤ کے لیے جڑوں کو پانی اور کھاد کی ضرورت ہے،۔ ‘‘[۱۸]
کرش مہشوری نے اردو رسم الخط، رسائل و اخبارات اور ہندوستانی فلموں میں اردو کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے مگر مقالے کا سب سے جا ن دار حصہ وہ ہے جس میں زبان اردو کے آفاقی دائروں اور بین الاقوامی حیثیت کو روشناس کرانے کی سعی کی گئی ہے۔ بقول مصنف :
’’ہماری زبان ’’اردو‘‘ مذہب نہیں، اسے مذہب کے ساتھ جوڑنا اسکے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ہے، یہ غلط نظریہ کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے، کو کچھ لوگ حقیقت کا جامہ پہنا نے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں، جو سراسر غلط اور مضر ہے، اور اگر کچھ لوگ ایسا سوچتے ہیں تو اس میں ان کی نظر اور سوچ کا قصور ہے، تاریخ کے ساتھ حال اس بات کا گواہ ہے کہ اس زبان کیلئے ہندو، مسلم اور عیسائی ہر کسی نے بلا امتیاز مذہب و ملت کام کیا ہے، یہ ہر اس فرد کی زبان ہے جو اس کے قریب آنا چاہتا ہے، جس طرح اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت ہے، اسی طرح اس نے اردو کو نہ صرف قبول کیا بلکہ عزت بھی بخشی ۔ میر ہو یا بدھ قلندر سنگ، فراق ہو یافیض ، وزیر آغا ہو یا گوپی چند نارنگ ہر کسی نے اردو کی اتنی ہی خدمت کی ہے اور اردو نے بھی ان کو عزت و شہرت سے مالا مال کیا ہے۔ آل احمد سرور ایک جگہ کہتے ہیں کہ: ’’اردو کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ نہ تو یہ صرف ایک یادو ریاستوں کی حدود میں مقید ہے نہ ایک مذہبی گروہ کے ماننے والوں میں بلکہ خدا کے گھر کی طرح اسکی بہت سی ریاستوں میں بستیاں ہیں اور اس کے بولنے والے یا اس کے سمجھنے والے کشمیر سے کنیا کماری اور کلکتے سے کچھ تک پھیلے ہوئے ہیں‘‘ [۱۹] (پہچان اور پرکھ۔۔۔ص۶)
ڈاکٹرسید تسنیم کا مضمون بعنوان’’قائد اعظم اور اُردو ذریعہ ء تعلیم‘‘ جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں شائع ہوا جس میں انھوں نے ۲۷ نومبر ۱۹۴۷ کو کراچی میں ہونے والی پہلی پانچ روزہ تعلیمی کانفرنس کے صدر مرکزی وزیر تعلیم مسٹر فضل الرحمان (مشرقی بنگال) کے حوالے سے لکھاکہ انھوں نے خطبہ صدارت کو اُردو زبان کے حق میں مدلل انداز میں اظہارِ خیال کیا۔اس تعلیمی کانفرنس میں اُردو کو قومی زبان بنانے اور اُردو کو ذریعہ ء تعلیم میں لازمی مضمون کا درجہ دینے کی قرار دادیں منظور ہوئیں۔[۲۰]
ڈاکٹر ممتاز عمر نے مضمون ’’آندھی میں ایک چراغ جلائے ہوئے تو تھا‘‘ میں مولوی عبد الحق کی اُردو سے والہانہ محبت اور اُسے قومی و دفتری زبان بنانے کے حوالے سے یوں ذکر کیا:
’’پاکستان کے بعد کراچی میں اُردو زبان سے اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ’’اُردو کالج‘‘ قائم کیا ۔وہ نہ صرف پاکستان کی قومی زبان کو دفتری زبان بنانے پر زور دیتے رہے بلکہ اسے ہر شعبہء زندگی میں اپنانے، خصوصاً پاکستانی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم تک انگریزی کی بجائے اُردو کو ذریعہ ء تعلیم قرار دیے جانے کی ترغیب بھی دیتے رہے‘‘[۲۱]
مولوی عبد الحق کی یہ کوششیں وفاقی اُردو یونیورسٹی (۲۰۰۲ء ) کے قیام کی صورت میں متشکل ہوئیں۔ حبیب اللہ خان قائم خانی نے اپنے مضمون بعنوان’’ہماری قومی زبان ‘‘ میں بین الاقوامی تناظر میں اُردو بطور ذریعہ ء تعلیم کو اُس کا جائز مقام دلانے کی خواہش کی ، اُن کے بقول:
’’دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جو شے قدرے مشترک ہے وہ اُس ملک کا تعلیمی نظام اور قومی زبان کی اہمیت ہے ۔چین ، جاپان، فرانس اور جرمنی وغیرہ میں سرکاری زبان وہاں کی قومی زبان ہے ، ان تمام ممالک کی درس گاہوں میں وہاں کی قومی زبان ہی بطور ذریعہ ء تعلیم رائج ہے ۔ان تمام ترقی یافتہ ممالک میں انگریزی کو بطور ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے لیکن سائنس ہو یا تاریخ ، طب ہو یا جغرافیہ، انھوں نے اپنی قومی زبان کو حصولِ تعلیم کا ذریعہ بناکر ترقی حاصل کی ہے ۔‘‘[۲۲]
انھوں نے تجویز پیش کی :
’’اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا جائے اور تمام محکماتی کار روائی اُردو میں کی جائے ‘‘[۲۳]
رابعہ سرفراز نے پرائمری سکولوں میں اُردو اور انگریزی کومشترکہ اور متوازی نظامِ تعلیم بنانے کی تجویز پیش کی ۔ اُن کے نزدیک :
’’پرائمری سطح تک بچے کے لیے کسی بھی زبان کا سیکھنا ، اُس کی بنیادی معلومات حاصل کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ، اس سطح پر اُردو ذریعہ ء تعلیم بنانے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کی ابتدائی تعلیم بھی دی جا سکتی ہے ‘‘۔[۲۴]
اگلے درجات کے لیے اُن کا خیال ہے:
’’مڈل اور ہائی سکول کی سطح پر انگریزی بول چال کی تعلیم پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ادب ، تاریخ اور سائنس کی تعلیم کے لیے اُردو کو ذریعہ ء تعلیم بنانا زیادہ سود مند ہو گا‘‘۔[۲۵]
کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی انھوں نے اُردو ذریعہ ء تعلیم کو ہی ترجیح دی کیوں کہ:
’’اُردو ذریعہ تعلیم کے ذریعے نہ صرف ابلاغ میں درپیش مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ طلباکی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتیں بھی ابھر کر سامنے آئیں گی‘‘۔[۲۶]
رابعہ سرفراز کے اس مضمون میں بظاہر بڑی دلچسپ باتیں کی گئی ہیں ۔پرائمری سطح تک لازمی انگریزی کی بات انھوں نے شاید موجود نظامِ تعلیم سے لے لی ہو جس میں انگریزی ابتدائی جماعتوں سے ہی لازمی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مڈل ، ہائی اور اعلیٰ درجات میں علوم و فنون کی تعلیم اُردو میں ہو تو پرائمری میں لازمی انگریزی سیکھنا کیوں ضروری ہے ایسی صورت میں تو انگریزی کی تعلیم اختیاری مضمون کے طور پر ہونی چاہیے تا کہ قومی زبان اُردو کومرکزی حیثیت حاصل ہو سکے ۔
غزالہ قادر کے خیال میں :
’’اُردو زبان میں اعلیٰ تعلیم مہیا کرنے کے سلسلے میں سب سے پائیدار کوشش حیدر آباد (دکن ) میں ہوئی جہاں نظام دکن میر عثمان علی خان کے نام پر عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد ۱۹۲۰ء میں رکھی گئی ۔اس یونیورسٹی کے شعبہء ترجمہ و تالیف نے اُردو زبان میں بہت سے غیر ملکی جواہر پاروں کو منتقل کیا اور سائنس کو بھی اُردو میں پڑھانے کے انتظامات کیے لیکن ۱۹۴۸میں ہندوستان نے حیدر آباد پر زبر دستی قبضہ کر کے اُس کے تمام تہذیبی اثاثے کو برباد کر دیا‘‘۔[۲۷]
عزیز احمد کا تعلق بلند شہر ،ضلع ہاپوڑ (بھارت) سے ہے ، انھوں نے بھارت میں اُردو کے لیے کام کرنے کے بارے میں ایک مضمون بعنوان’’اُردو زبان کا فروغ، تحفظ، کیسے اور کس طرح‘‘کے نام سے تھا مگر پاکستانیوں کے لیے بھی اِس میں اتنی ہی رہ نمائی موجود ہے جتنی اہلِ بھارت کے لیے ۔اس مضمون میں موضوع تحقیق سے متعلقہ تجاویز کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔عزیز احمد کے خیال میں نظام تعلیم میں اُردو زبان کے اثر و نفوذ سے زبان ،کلچر کے تحفظ اور نسل در نسل اُس کی منتقلی کو فروغ ملے گا۔انھوں نے ہندوستان میں ’’مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ‘‘کا ذکر کیاجہاں تمام علوم و وفنون کی تدریس اُردو زبان کے ذریعے ہوتی ہے ۔جامعہ اُردو علی گڑھ کی فروغِ اُردو کی کاوشوں کو بھی انھوں نے سراہا اور تجویز پیش کہ جامعہ اُردو والے اپنے کورسوں کو پوری طرح فاصلاتی تعلیم کی طرز پر طلبا کو کتابیں ، اسباق، تفویضات اور کیسٹیں فراہم کر کے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں ۔[۲۸]
ہمارے ہاں بھی گزشتہ ۳۵برس سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ملک کے طول و عرض میں فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے جو کامیاب تجربہ کر رہی ہے دیگر جامعات کو بھی اس سلسلے میں اقدام کرنے چاہئیں۔انھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل وہاں کے وسیع تر لسانی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’صرف اُردو ہی ایسی زبان کے طور پر آگے آئی جو صدیوں پرانے دفتری و عدالتی نظام اور مشترکہ ثقافتی اثاثے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بن سکتی تھی ۔یہ بات بھی خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ سب کچھ سرکاری سرپرستی اور قانون کی پشت پناہی کے بغیر ہوا۔اُردو زبان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ انگریزوں کے زیرِ تسلط بیشتر علاقوں اور ایسی ریاستوں میں سو برس سے زیادہ تک انگریزی کے ساتھ اُردو کو بھی تعلیمی دفتری اور عدالتی نظام کی سعادت حاصل رہی اور ملک کی ایک یونیورسٹی میں تو وہ ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم کے میڈیم کی حیثیت سے بھی استعمال ہو رہی تھی ‘‘۔[۲۹]
انھوں نے اپنی تحقیقات کا استنتاج ان لفظوں میں کیا:
’’قصہ مختصر ۱۹۴۷ء تک اُردو اپنے فطری رفع و ارتقا کے طویل عمل سے گزرکر عام بول چال کے علاوہ ادب، علوم ، صحافت، نغمہ سرائی، قلم، میڈیا، تعلیم، عدالت اور دفتر کی نہایت پسندیدہ مستند اور برصغیر میں رابطے کی ہمہ گیر زبان کی حیثیت سے دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہو چکی تھی ‘‘۔[۳۰]
ہم پاکستانیوں کو بھی اُردو کو تعلیمی نظام میں مقام دلانے اور سرکاری و غیر سرکاری نظام تعلیم میں اس کے استعمال کے حق میں آواز بلند کرنے، مقامی سطح سے لے کر ایک مرکز تک ایک جمہوری طریقِ ترغیب کے ساتھ اُردو کی ترویج و تنفیذ میں اپنی تمام تر کوششیں کرنا ہوں گی ۔زین صدیقی مضمون بعنوان’’اُردو کا عدم نفاذ کیوں‘‘میں ۱۹۷۳ء کے شق ۲۵۱ کے حوالے سے یاد دہانی کراتے ہیں:
’’قومی زبان سے کسی تعصب کے بغیر صوبائی اسمبلیاں صوبوں میں اُردو کے علاوہ ایک صوبائی زبان کی تعلیم و ترویج اور استعمال سے متعلق اقدامات کا نفاذ بذریعہ قانون کر سکتی ہیں‘‘۔[۳۱]
زین صدیقی انگریزی پالیسی کی باقیات اور ذہنی غلامی کے شکار پاکستانی اربابِ بست و کشاد کو اس عدم نفاذ کا موجب سمجھتے ہیں۔پروفیسر محمد شکیل صدیقی نے ’’قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء ‘‘کے عنوان سے اہم دفعات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔وفاقی وزیر تعلیم نے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے طویل تعلیمی پالیسی کی تفصیلات پیش کیں ۔پالیسی کے بنیادی نکات پر نگاہ ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے تا کہ قومی زبان ملکی ترقی اور تعلیمی پالیسی کے اشتراکات سمجھ میں آ سکیں، نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ ملک بھر میں بتدریج یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا۔
۲۔ پہلی جماعت سے انگریزی تعلیم لازمی ہو گی۔
۳۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت کالج کی تعلیم کا حصہ نہیں ہو گی اور اسے اسکول ایجو کیشن میں ضم کر دیا جائے گا۔
۴۔ تعلیمی بجٹ میں ۲۰۱۵ ء تک مجموعی قومی پیداوار کا ۷ فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
۵۔ شرح خواندگی میں ۲۰۱۵ء تک ۸۶ فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
۶۔ اعلیٰ تعلیم کی سطح، موجودہ انرولمنٹ ۷.۴فیصد سے بڑھا کر ۲۰۱۵ء تک ۱۰ فیصد اضافہ کیا جائے گا اور ۲۰۲۰ء تک ۱۵ فیصد تک کی جائے گی۔
۷۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم اے لیول اور او لیول تک لایا جائے گا۔
۸۔ دوہرے اور طبقاتی تعلیمی نظام کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں گے۔
۹۔ فنی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جائے گی اور معیاری تکنیکی و فنی تعلیم کو یقینی بنایا جائے گا۔
۱۰۔ حکومت چاروں صوبوں میں اپنا گھر رہائشی اسکولوں کا قیام عمل میں لائے گی۔
۱۱۔ اسکولوں اور کالجوں میں تدریسی اور انتظامی معاملات کے لیے علیحدہ علیحدہ اسٹاف بھرتی کیا جائے گا۔
۱۲۔ تمام پرائمری اسکولوں کو مڈل کا درجہ دیا جائے گا اور ضلع کی سطح پر تعلیمی بورڈ قائم کیے جائیں گے، جن کے لیے عملے کی بھرتی صوبے کریں گے۔
۱۳۔ تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء پر عملدر آمد کی نگرانی کے لیے وفاق کی سطح پر بین الصوبائی وزرائے تعلیم فورم کو ادارہ جاتی شکل دی جائے گی جو ریگو لیٹری باڈی ہو گی۔
۱۴۔ پرائمری اساتذہ کی تقرری کے لیے بی ایڈ اور بیچلر کی ڈگری لازمی ہو گی۔
۱۵۔ تعلیمی اداروں کے نصاب کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قومی نصاب ونگ کو اپ گریڈ کیا جائے گا اور امتحانی نظام کو معیاری بنایا جائے گا۔[۳۲]
اب ذرا تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء کی مذکورہ بالا اصطلاحات پر ایک نگاہ ڈالیں۔
۱۔ پالیسی ۴ سال کے طویل انتظار اور مشاورتی عمل کے بعد سامنے لائی گئی ۔اس مشاورتی عمل کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔
۲۔ مشاورتی عمل میں ماہرین تعلیم کو مدعو ہی نہیں کیا گیا ،بلکہ من پسند حکومتی نمائندے یہ امور انجام دیتے رہے ۔نہ ہی پالیسی کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا گیا۔
۳۔ ملک بھر میں بتدریج یکساں نظام رائج کرنے کی بات کی گئی ۔بتدریج کی مدت کا تعین نہ کرنا کئی شبہات کو جنم دیتا ہے۔
۴۔ ذریعہ ء تعلیم کے حوالے سے روز اول سے قومی اتفاق موجود ہے کہ ذریعہ تعلیم پہلی کلاس سے قوم زبان اُردو میں ہو گا اس کے باوصف پہلی جماعت سے انگریزی تعلیم کو لازمی قرار دے کر تعلیمی پالیسی کا حصہ بنانا نا قابل فہم ہے۔
۵۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت کو کالج کی بجائے سکول کی تعلیم میں ضم کرنا بھی امریکی و برطانوی نظام کی نقل ہے ۔ اس سے پسماندہ طبقے کے لیے حصول تعلیم کے مسائل اور بڑھیں گے۔
۶۔ ضلعی سطح پر سرکاری تعلیمی بورڈز کی تشکیل کا فیصلہ خوش آئند ہے تاہم غیر سرکاری بورڈ کی تشکیل کا معاملہ زیر بحث نہ لا کر سرکاری بورڈز کو بے توقیر کیا گیا۔
۷۔ پرائمری تعلیم کے لیے اساتذہ کے تقرر میں بی اے اور بی ایڈ کی شرط تو لگائی گئی مگر موجود اور نو وارد اساتذہ کی تربیت کا کہیں ذکر نہیں ۔
۸۔ طبقاتی نظام تعلیم کو فی الفور ختم کرنے کی بجائے بتدریج ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔اس سے خود انحصاری نظام داخلہ (Self Finance Admissions )کی حوصلہ افزائی ہو گی اور فیسوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گا۔
۹۔ طب اور انجینئری کی تعلیم دینے والے پیشہ وارانہ نجی تعلیمی اداروں میں واجبات کی مد میں کسی ضابطائی نظام کی بات نہیں کی گئی۔
۱۰۔ تعلیمی بجٹ میں ۲۰۱۵ ء تک مجموعی قومی پیداوار کا ۷ فیصد کا نعرہ بھی ایک سرابِ محض ہے۔پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک پورا تعلیمی ڈھانچہ انقلابی تبدیلیوں اور تشکیلِ نو کا متقاضی ہے۔تعلیمی پالیسی کو ملک کی نظریاتی اساس سے ہم آہنگ کر کے نصاب سازی میں ایسی اصطلاحات لائی جائیں جن سے نظریہ پاکستان اور دین اسلام کے ساتھ محبت پیدا ہو۔
تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء کے معائب کے باعث نقائص کے باعث پروفیسر محمد شکیل صدیقی نے اس پالیسی کو ’’سیاسی شعبدہ بازی‘‘ قرار دیتے ہوئے رائے دی تھی:
’’ہم قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء کو موجود ہ شکل میں قوم کے لیے قابل قبول نہیں سمجھتے اور موجودہ خد و خال کے ساتھ تعلیمی پالیسی کا نفاذ نہ صرف قوم کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انتشار کا سبب بھی ۔اس لیے ضروری ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کے نقائص کو دور کرنے کے لیے ماہرین تعلیم، اساتذہ کرام، طلبا اور والدین سے وسیع پیمانے پر مشاورت کا عمل شروع کیا جائے اور از سر نو سفارشات مرتب کر کے پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیے جائیں‘‘۔[۳۳]
سید منور حسن امیر جماعت اسلامی نے آئینی تقاضے کے طور پر اُردو کو ذریعہ ء تعلیم بنانے پر زور دیا ۔انھوں نے وزیر تعلیم کے بیان ’’تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء کو کابینہ کی منظوری کے بعد نافذ کیا جائے گا‘‘کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ این جی اوز کی خواہش پر منظوری سے پہلے ہی تیسری جماعت سے انگریزی ذریعہ ء تعلیم کو یکم اپریل سے عملاً نافذ کر دیا گیا اس کے بعد اسے کابینہ کے سامنے پیش کرنے کا کیا جواز رہ جاتاہے؟[۳۴]
فروری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں سر پرست رسالہ ڈاکٹر سید مبین اختر کا اپنا مضمون بعنوان’’نفاذِ اُردو کی اہمیت‘‘ شائع ہوا جس میں انھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل انگریز کے زمانے میں عدالتوں اور دفتروں میں اُردو زبان کے عمل و رواج ، اُردو میں قانون کی مترجمہ کتب اور دفتری اُردو میں مقتدرہ کے کردار کے ذکر کے بعد حکومت سے وہی مطالبہ کیا ہے جو نفاذِ اُردو کے ضمن میں ہر مضمون نگار نے دہرایا ہے یعنی ۱۹۷۳ء کے آئین کے حوالے سے اُردو کے فوری نفاذ کی ضرورت ۔ ادارے کی طرف سے ایک خصوصی رپورٹ بھی فروری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی جس میں اقوام متحدہ کے ایک فیصلے کا ذکر کیا گیا جو ۱۹۵۰ء میں جاری ہوا ’’ہر ممبر ملک مادری زبان میں تعلیم کے لیے مناسب اقدامات کرے ‘‘ لیکن بہت سارے ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل تھا ایسے ٹھوس عملی اقدامات سے اجتناب کرتے رہے جو مادری زبان میں تعلیم کو یقینی بناتے ۔[۳۵] مارچ ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں شاہ نواز فاروقی کا نہایت فکر انگیز مضمون بعنوان ’’انگریزی میڈیم پنجاب اور اُس کے معنی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں مذہبی و ثقافتی تفہیم میں زبان کی اہمیت سے متعلق نہایت سنجیدہ سوال اٹھائے گئے ہیں ۔ فاضل مقالہ نگار نے میاں شہباز شریف کی پنجاب کے سکولوں میں انگلش میڈیم پالیسیوں سے اپنی بات شروع کی ۔وہ لکھتے ہیں:
’’میاں شہبا ز شریف کی حکومت نے پنجاب کے لسانی زمین و آسمان تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ایک اطلاع کے مطابق حکومت پنجاب نے اس یکم اپریل سے صوبے کے ۱۷ ہزار اسکولوں کو انگریزی میڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔صوبے کے باقی ۴۴ ہزار اسکولوں کو یکم اپریل ۲۰۱۱ء سے انگریزی میڈیم بنا دیا جائے گا۔اس مقصد کے حصول کے لیے نصابی کتب کی انگریزی میں اشاعت اور اسکولوں کے اساتذہ کو انگریزی کی تعلیم دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔منصوبے کے تحت اساتذہ کو صرف ’’۱۲ دن‘‘ میں انگریزی بولنا سکھایا جائے گا۔۔۔اطلاعات کے مطابق صوبے میں سرکاری اساتذہ کی تعداد ۳ لاکھ ۵۰ ہزار ہے جن کو انگریزی بولنے کی تربیت دینے پر ۶ سے ۱۸ ارب روپے خرچ ہو ں گے۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ چودہری پرویز الٰہی کے ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ کی طرح’’انگریزی میڈیم پنجاب‘‘ بھی محض ایک سیاسی نعرہ ہے جس کا مقصد سستی شہر ت حاصل کرنا ہے‘‘۔[۳۶]
انھوں نے اس اعلان کے پس منظر سے اصل مسئلہ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے :
انھوں نے زبان کو محض بول چال کا ذریعہ سمجھنے والے حکمرانوں کو زبانوں کے تہذیبی رشتے دریافت کرنے پر اُکسایا ہے ۔ ان کے خیا ل میں ہمارا مذہبی علم یا تو عربی میں دستیاب ہے یا فارسی میں یا اُردو میں۔اگر طالب علم اوّل و آخر انگریزی میڈیم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مذہبی کائنات اور اس کے علم سے یکسر بیگانہ ہو گیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی فکر اعشاریہ ایک فیصد بھی انگریزی میں دستیاب نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا محرومی معمولی چیز ہے؟
ادب مذہب کا ایک بڑا تہذیبی مظہر ہے اور معلوم کو محسوس بنانے کا عمل ہے۔اس عمل میں مذہبی حقائق معلوم سے محسوس بن کر اپنی تفصیلات اور جزئیات ظاہر کرتے ہیں لیکن اس عمل میں بھی زبان کا کردار بنیادی ہے۔چناں چہ جب کوئی اپنی زبان کے ادب سے دور ہوتا ہے تو وہ اپنی تہذیبی و ثقافتی کائنات سے دور ہوتا ہے، اور اس کائنات سے دور ہو کر شخصیت خام رہ جاتی ہے۔ادب کے دائرے میں مذہبی حقائق ہی نہیں خود زبان بھی اپنے امکانات ظاہر کرتی ہے۔چناں چہ ادب سے بے نیازی زبان کے امکانات سے بے نیازی بن جاتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب اور اس کے حوالے سے ادبی زبان کی اہمیت غیر معمولی ہے اور ان چیزوں سے دوری ایک بہت ہی بڑا نقصان ہے۔و ہ کہتے ہیں:
’’ہمارے حکمرانوں کا خیال ہے کہ زبان صرف بول چال کا ذریعہ ہے لیکن زبان ایک مکمل کائنات اور ایک کامل تہذیبی بیان ہے۔انسان زبان کی مدد سے سوچتا ہے، اسی کی مدد سے محسوس کرتا ہے، اس کی مدد سے جذبات و خیالات کا اظہار کرتا ہے، اس کی مدد سے نیا علم تخلیق کرتا ہے، اس کی مدد سے اپنے مذہبی، تہذیبی، سماجی اور لسانی رشتوں کو دریافت کرتا ہے۔چناں چہ زبان کی تبدیلی محض زبان کی تبدیلی نہیں ہوتی۔یہ مذہبی،تہذیبی، تاریخی، ثقافتی، ادبی اور سماجی کائنات کی تبدیلی ہوتی ہے۔[۳۸]
ہمارے ہاں ایک عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے یا ایک طبقہ کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے وہ سراسر غلط ہے کہ سائنس اور انگریزی لازم و ملزوم ہیں سائنس کے لیے جس سوچ اور تجربے کی ضرورت ہے وہ اپنی قومی زبان کے ذریعے ہی پوری ہو سکتی ہے باقی رہی دوسروں کی سائنسی معلومات تو ان کے حاصل کرنے کے لیے انگریزی زبان بھی کام آ سکتی ہے اور روسی چینی چاپانی اور جرمن سے بھی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔یہ کام سائنسدان خود بھی کر سکتے ہیں اور دارالترجموں کی ذریعے بھی یہ معلومات بہم پہنچائی جا سکتی ہیں مگر پوری قوم کے ذہن و فکر کو سائنسی سانچے میں ڈھالنے کے لیے، جیسا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوا ہے اپنی قومی زبان سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔
انیسویں صدی کے وسط آخر میں یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے قدم آگے بڑھائے اور یہ اس وقت ممکن ہوا جب انھوں نے اپنی اپنی قومی زبانوں کو سائنس کی زبان بنایا ورنہ اس سے پہلے یورپی ملکوں میں سائنس کی زبان لاطینی تھی۔ملکی زبانوں میں شعر و ادب و فلسفے کا فروغ تو ہو چکا تھا مگر سائنسی علوم کا اکتساب لاطینی ہی میں ضروری سمجھا جاتا تھا رفتہ رفتہ یہ برف ٹوٹی اور جدید یورپی لاطینی کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبانیں بن گئیں۔اس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم چند سکالروں کی بجائے عام لوگوں تک پہنچا انھی جدید یورپی زبانوں میں ہماری محبوب انگریزی زبان بھی شامل ہے اس لیے یہ سمجھ لینا کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے بہت بڑا مغالطہ ہے۔انھوں نے اس مفروضے پر بھی ضرب لگائی ہے کہ صرف انگریزی سائنس ٹیکنالوجی کی زبان ہے ۔اُنہی کے لفظوں میں:
’’ہمارے یہاں نہ جانے کہاں سے یہ دلیل آ گئی ہے کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے اور انگریزی سیکھ کر ہی ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر سکتے ہیں۔لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا مدار تخلیق و ایجاد پر ہے، اور تخلیق و ایجاد کا تعلق تصورات سے ہے ، اور تصورات کی تکمیل اور ان تک رسائی میں زبان کا کردار بنیادی ہے۔یہاں تک کہ ریاضیاتی فارمولے بھی اپنی نہاد میں تصورات ہی ہیں۔اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ مذہب اور ادب کے سلسلے میں ہی نہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے سلسلے میں بھی زبان اہم ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت غیر انگریزی داں اقوام مثلاً جاپان، چین اور جرمنی وغیرہ ہیں جنھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم بھی اپنی زبانوں میں تخلیق کیا ہے اور یہ صرف ان اقوام کا معاملہ نہیں، دنیا کی کوئی بھی قوم اس کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتی کہ وہ اپنی زبان میں علم تخلیق کرے ‘‘۔[۳۹]
چین پاکستان سے دو سال بعد ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا۔اس وقت چینی قوم دنیا کی سب سے جاہل اور پسماندہ قوم تھی۔آج کل چین کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا ہے۔یہ ترقی اس نے انگریزی کو چھوڑ کر چینی زبان کے ذریعے حاصل کی۔یاد رہے آزادی سے پہلی چین میں انگریزی سرکاری زبان تھی۔چین کی ساری ٹیکنالوجی چینی زبان میں ہے۔ہمارا طالب علم جتنا زور انگریزی میں مہارت حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے۔اتنی محنت چین کے طالب علم نے تحقیق و تنقید کے ذریعے وسائل پیدا وار کو ترقی دینے پر کی اور ہر شعبے میں ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔
جرمن اور فرانسیسی قومیں زمانہ قدیم سے لے کر آج تک ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتی ہیں کیا انہو ں نے انگریزی زبان کے ذر یعے ٹیکنالوجی پر گرفت حاصل کی ، نہیں ہرگز نہیں۔فرانس میں تو انگریزی بولنا قانونی طور پر منع ہے۔دنیا کی تجارتی منڈی کے بے تاج بادشاہ جاپان نے سپر طاقت کو اسلحہ سے نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے شکست دی، کیا جاپانیوں نے یہ ٹیکنالوجی پرائمری سے یونیورسٹی تک انگریزی پڑھنے کے بعد حاصل کی؟جاپان میں پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک سب مضامین میں جاپانی ذریعہ تعلیم ہے۔جدید ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ ، میڈکل، کمپیوٹر سائنس اور آرٹس کے جملہ مضامین جاپانی میں پڑھائے جاتے ہیں، یاد رہے کہ جاپان اور چینی زبانیں دنیا کی مشکل ترین زبانیں ہیں روس ماضی قریب میں دنیا کا سپر پاور تھا کیا روسی اقوام انگریزی سیکھ کر سپر پاور بنی تھی؟اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔انھوں نے اس فیصلے کو تخلیقی بنجر پن سے تعبیر کیا:
’’پاکستانی قوم کے لیے تخلیقی زبانیں صرف دو ہو سکتی ہیں،ایک اُردو اور دوسری ہماری کوئی بھی مادری زبان جیسے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اگر صوبے کے اسکولوں کو پنجابی میڈیم بنانے کا اعلان کیا ہوتا تو یہ ایک بڑی تخلیقی جست ہوتی اور اس سے ملک اور صوبے کی بڑی خدمت ہوتی لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ صوبے کے اسکولوں کو انگریزی میڈیم بنا کر اپنی آئندہ نسلوں کو مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے کھوکھلا اور تخلیقی اعتبار سے بنجر کر دینے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔[۴۰]
مضمون کے آخر میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے نام پیغام دیتے ہیں:
’’کوئی بتا سکتا ہو تو میاں شہباز شریف کو بتائے کہ انگریزی کو پنجاب میں تخلیقی زبان بننے کے لیے کم از کم سو سال درکار ہوں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان اسی وقت تخلیقی بنتی ہے جب وہ لوگوں کے خون میں شامل ہو جائے اور زبان خون میں اس وقت شامل ہوتی ہے جب پانچ چھ نسلیں اس زبان کی فضا میں سانس لیتی رہیں۔اس کے بعد انسان اسی زبان میں خواب دیکھتا ہے، اسی زبان میں ہنستا ہے، اسی زبان میں روتا ہے، اس کی مسرت بھی اسی زبان کے وسیلے سے ظاہر ہوتی ہے اور اس کے دکھ بھی اسی زبان میں اپنا اظہار کرتے ہیں ‘‘۔[۴۱]
اوریا مقبول جان کا فکر انگیز مضمون بھی اپریل ۲۰۱۰ء کے شمارے کی زینت بناجس میں انھوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہمارا مستقبل اُردو زبان سے وابستہ ہے ۔انھوں نے بڑی بڑی عالمی زبانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام ممالک اپنی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر کے ترقی یافتہ ملک بن گئے اور ہم گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے انگریزی کی غلامی کے جال میں اسیر ہیں۔بقو ل اُن کے :
’’پورے ملک کی بیور و کریسی جو انگریزی کے بل پر اس قوم پر حکومت کرتی ہے وہاں سیکشن آفیسر انگریزی میں نوٹ لکھتا ہے، ڈپٹی سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری سے ہوتی ہوئی فائل جب سیکرٹری تک پہنچتی ہے تو آخر میں ’ڈسکس‘لکھ کر اپنے کسی ماتحت کو بلاتا ہے اور کہتا ہے یار اُردو میں بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو ‘‘۔[۴۲]
وہ عدالتی نظام میں بھی اس لسانی شتر گربگی کا اظہار یوں کرتے ہیں:
’’ہمارا سارا عدالتی نظام، ریفرنس، پی ایل ڈی وغیرہ سب انگریزی میں ہیں ۔رٹ وغیرہ سب انگریزی میں لکھی جاتی ہیں لیکن عدالتوں میں بحث اُردو میں ہو رہی ہوتی ہے بلکہ جب کبھی جج کسی وکیل کی الٹی سیدھی انگریزی سے تنگ آ جائے تو کہتا ہے بھئی اُردو میں ، پشتو میں، سندھی میں یا پنجابی میں بتاؤ اصل بات کیا ہے؟‘‘[۴۳]
یہ ہے وہ انگریزی کا حال جس کا بہانہ بنا کر ایک مخصوص طبقہ اس ملک پر حکمرانی کر رہا ہے اور پوری قوم کو جاہل ، تخلیق سے عاری اور کم علم رکھا جا رہا ہے ۔ہمارا حال چند صدیاں پہلے والے افریقہ کا ہے جہاں جانوروں کی طرح جال لگا کر غلاموں کو پکڑا جاتا تھا اور کھیتوں میں کام کے لیے امریکہ لے جایا کرتا تھا ۔امریکہ کے کھیت آباد ہو گئے اور افریقہ کے کھیت ویران ۔ویسے ہی آج ہمارے ہسپتال، تعلیمی ادارے، تجربہ گاہیں ویران ہیں اور یورپ کے ادارے ہمارے نوجوانوں کی محنت سے آباد ۔اوریا مقبول جان نے اس حوالے سے یوں اظہار خیال کیا ہے :
’’جنگِ عظیم دوئم کے بعد فرانس، جرمنی، اٹلی سب تباہ و برباد ہو گئے تھے لیکن کوئی اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ آباد نہ ہوا اس لیے کہ اپنی زبان میں دی گئی تعلیم وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور دوسرا یہ کہ ان کی تعلیم صرف اُن کے وطن کے لیے کار آمد تھی ہم وہ قوم ہیں جس کی دانش و حکمت نے سات سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں پر راج کیا اور اُس کو صرف ایک چیز نے تباہ کر دیا اور وہ ہے غیرزبان میں تعلیم۔‘‘[۴۴]
شہناز کوثر نے عدالتوں میں اُردو کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’عدالتوں میں اُردو معاشرتی زبان اور بالخصوص تمام قوانین کے متعلق شعور بلند ہو گا ، آگاہی اور رابطے میں آسانی کی بنیاد پر انصاف کے امکانات زیادہ روشن اور واضح ہو جائیں گے ‘‘۔[۴۵]
وہ سمجھتی ہیں کہ اُردو کے نفاذ کا ہمارے معاشرتی اور اخلاقی انقلاب سے براہ راست تعلق ہے ، اُنہی کے لفظوں میں:
’’اس وقت یہ طبقاتی نظام اور سرکاری ، دفتری وعدالتی کاموں میں انگریزی کا استعمال ایک مشینی انسان تو بنا سکتا ہے لیکن ایک اچھے اور ہمدرد انسان کے لیے کارگر نہیں ہو سکتا‘‘۔[۴۶]
چند ماہ قبل ترک وزیر اعظم طیب ایرودو غان پاکستان آئے تو انھوں نے اپنی مادری زبان تُرکی میں تقریر کی ۔اُن کی تقریر کا ہر ہر لفظ پاکستانیوں سے اُن کی محبت ، جذباتی وابستگی اور گہرے تعلق کا اظہار کر رہا تھا ۔اس موقع پر ہمارے وزیر اعظم نے جوابی تقریر انگریزی زبان میں کی جو ذہنی غلامی اور مرعوبیت کا شکار ہونے کی وجہ سے نہایت غیر مدلل ، روایتی اور رسمی تھی ۔ ڈاکٹر ممتاز عمر نے اپنے مضمون بعنوان’’زبان غیر سے شرح آرزو‘‘میں اس خطاب کی بابت نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
’’انسان کے خوابوں کی زبان اُس کی مادری زبان ہوتی ہے ، انسان لاشعوری سطح پر اپنی مادری زبان میں لفظوں کو اپنے تخیل کے ذریعے اظہار کی قباء پہناتا ہے یوں وہ اپنے جذبوں کو پیش کرتا ہے جو مادری زبان کی بدولت اُسے حاصل ہوتی ہے‘‘۔[۴۷]
حارث خلیق نے ’’زبان کاظلم ‘‘کے عنوان سے اُردو زبان کے ساتھ ہونے والی اعلیٰ سطحی زیادتی کو آپ بیتی کے اسلوب میں بیان کیا۔یہاں اُن غیر رسمی معلومات سے استفادہ کرنا بے محل معلوم نہیں ہوتا ۔ملاحظہ ہو:
’’پچھلے ہفتے ہمارے ایک دوست کے ڈرائیور جو کہ درمیانی عمر کا با عزت اور متوازن آدمی ہے،زندگی اور سیاست کے بارے میں مناسب خیالات کا مالک ہے۔اس کو کسی کے گھر کچھ پہنچانے کے لیے شہر کے ایک امیرانہ علاقے میں بھیجا گیا ۔ اس کو پہلی کوشش میں گھر نہیں ملااور وہ واپس آ گیا۔سڑکوں کے نام اور راستہ بتانے کے بورڈ سارے انگریزی زبان میں تھے۔آج سے کوئی دو سال پہلے، میں نوکری کی غرض سے کراچی آیا اور دفترہی کی گاڑی میں اپنے دفتر کے ساتھی کے گھر ،جو ڈیفنس میں ہے، جاتے ہوئے گاڑی میں ذرا سی دیر کو اونگھ گیا۔اچانک بریک کے جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔میں نے بیچارے ڈرائیور کو دیکھا جو صحیح سڑک ڈھونڈنے کے چکر میں اُلجھا ہوا تھا۔وہ پہلے بھی میرے ان دوست کے گھر آ چکا تھا لیکن درمیانی عرصے میں انتظامیہ نے سڑکوں کے نام اور اشارات کے پرانے بورڈ اتار کر شوخ سرخ رنگ کے بورڈ لگا دیے جن پر صرف چمکتے انگریزی الفاظ میں لکھا ہوا تھا۔
ایک دفعہ میں نے دفتر کے باورچی سے پوچھا کہ اس کو کیسا لگتا ہے جب اسلام آباد میں سب اُس کے آس پاس انگریزی میں بات کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ وہ چائے پیش کر رہا ہوتا ہے یا پھر جب اسلام آباد کی سڑکوں اور بازاروں میں پھرتا ہے۔اُس نے بتایا کہ جب وہ جوان تھا تو اپنے مالک کے ساتھ وہ مختصر عرصے کے لیے چین گیا تھا۔وہ ایک لفظ بھی پڑھ نہ پایا نہ اُسے سمجھ پایا۔اب وہ ویسا ہی پاکستان میں رہتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔
جن تین شخصیات کا میں نے یہاں ذکر کیا ہے وہ سب پڑھے لکھے محنت کرنے والے اور حساس لوگ ہیں۔اُن میں سے دو اُردو کے اخبار پڑھتے ہیں اور ایک اُردو اور سندھی کے اخبارات کے علاوہ ٹی وی پر خبروں کے چینلز کے ذریعے بھی اپنے آپ کو با خبر رکھتے ہیں ۔لیکن ان لوگوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے‘‘۔[۴۸]
نجیب اقبال صدیقیکے خیال میں قومی زبان کے نفاذ کے لیے اداروں کے قیام کی بجائے صرف اور صرف خلوص اور نیک نیتی ضروری ہوتی ہے جو قومیں اپنی قومی زبان سے مخلص ہوتی ہیں وہ اُس کے نفاذ میں تاخیر نہیں کرتی۔انہوں نے اس سلسلے میں چین کی مثال دی جو ہم سے دو برس بعد آزاد ہوا لیکن اُس نے آزادی کے فوراً بعد چینی زبان کو نافذ کر دیا ۔آج چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے اور یہ مقام اُس نے انگریزی کی محتاجگی کے بغیر حاصل کیا ہے۔ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد ہندی کو بہ حیثیت سرکاری زبان نافذ کر دیا لیکن ہمیں انگریزی اصطلاحات کا اُردو ترجمہ کرنے اور مزید اصطلاحات وضع کرنے کے لیے پھیروں میں الجھا کر قومی زبان کے نفاذ کے سلسلے میں مسلسل تاخیر برتی جا رہی ہے ۔۔۔ہندوستان کے دو صوبوں اندھرا پردیش اور بہار میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے اور دفتری امور کی اُردو میں انجام دہی کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔۔۔قومی زبان کا فوری نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے لہٰذا اُردو کو دفتری و تعلیمی سطح پر فی الفور نافذ کیا جائے ورنہ قومی زبان کا خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خواب و خیال ہی رہے گا۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’قومی زبان کانفاذ‘‘ میں حائل رکاوٹ و مشکلات اور بہانوں کی نفی کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ا ز خود نوٹس لینے کی درخواست کی ۔[۴۹]
’’نفاذِ اُردو ‘‘میں اُن اداروں کا ذکر بھی ملتا ہے جنھوں نے دفتری اُردو کی ترویج و تنفیذ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔اُن میں سب سے نمایاں نام مقتدرہ قومی زبان کا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان میں ’’نفاذِ اُردو ‘‘کے نام سے اکرام بلال کا مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے مقتدرہ کی کار گزاریوں کا اجمالی انداز میں ذکر کیا ۔ڈاکٹر سید مبین اختر نے بھی دسمبر ۲۰۰۹ء کے اداریے میں مقتدرہ قومی زبان کے قیام کے حوالے سے اجمالی انداز میں معلومات بہم پہنچائی ہیں۔انھوں نے مقتدرہ کے ایک خط نمبر ک ۶۰/۸۵(الف) مؤرخہ ۲۹ جون ۱۹۸۶ ء بنام کابینہ ڈویژن حکومت پاکستان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ’’مقتدرہ وہ تمام بنیادی اور ضروری کام مکمل کر چکا ہے جو نفاذ کے عمل میں اہم ضمیمے کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘[۵۰] ۔’’نفاذِ اُردو‘‘ کی جنوری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں پرویز عبد اللہ کا مضمون ’’انجمن ترقی اُردو کی شاندارخدمات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔عنوان سے بظاہر لگتا ہے کہ اس میں انجمن کی علمی و ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہوگا مگر یہ مختصر تعارفی تحریر ایک خوش خبری سے متعلقہ ہے جس میں گلستانِ جوہر کراچی میں انجمن کی نئی عمارت کے حوالے سے تفصیلات دی گئی ہیں۔تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ تفصیلات بے محل نہ ہوں گی ۔
’’حال ہی میں انجمن کی اپنی نئی عمارت کی بنیاد رکھی گئی ہے جو ۵۳۰۰ مربع فٹ کے رقبہ پر تعمیر کی جائے گی ۔گلستان جوہر، کراچی یونیورسٹی کے بالمقابل واقع اس عمارت میں ایک مرکز طباعت، مرکزِ تحقیق اور شعبہ نظامت کے علاوہ ایک ریسٹورنٹ ، ڈائننگ ہال، قومی اور بین الاقوامی محققین کے لیے رہائش گاہ ، ایک کتب خانہ اور ادبی اجتماعات کے انعقاد کے لیے ایک سیمنار ہال ہو گا‘‘۔[۵۱]
اس مختصر تحریر کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ اس میں اُردو کو دفتری زبان بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے ۔اُنہی کے بقول:
’’ہم ملک میں اُردو کے جائز مقام کے حصول کے لیے کوشش بھی کر رہے ہیں ، بلند بانگ دعوؤں کے باوجود بھی محسوس ہوتا ہے کہ سرکار اپنے دفاتر میں اُردو کو رائج کرنے میں ہچکچاتی ہے‘‘۔[۵۲]
اے جے سنگھیانہ نے جنوری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں ’’اُردو ہماری قومی شناخت‘‘ کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا ، یہ مضمون چودھری احمدخان( علیگ) کے مضمون ’’اُردو انگریزی سے زیادہ بین الاقوامی زبان ہے‘‘مطبوعہ جولائی ۲۰۰۹ء اور مشتاق احمد کے مضمون’’اُردو عالمی لسانی تناظر میں‘‘ مطبوعہ جون ۲۰۰۹ء کی معلومات کا پر تو ہے ۔اس میں کوئی نیا نتیجہ نہیں نکالا گیا ، بس زبانوں سے متعلق عالمی زبانوں کے کوائف دہرا دیے گئے ہیں ۔[۵۳]
اُردو زبان پاکستانی عوام کے درمیان اتحاد، بھائی چارہ اور یگانگت کا دوسرا نام ہے ۔یہ اُردو ہی ہے جو چاروں صوبوں کی زبان کو ایک لسانی وحدت عطا کرتی ہے مگر افسوس کہ ہمارے سیاست دان ذاتی مفادات کی خاطر اس قومی سوچ سے محروم ہیں جو اُردو کو اُس کا مقام دلا سکے۔صغیر حسن صغیر نے اپنے مضمون ’’گفتگو اور زبان‘‘ میں افراسیاب خٹک کے ایک بیان کو ہدف تنقید بنایا جو میڈیا کو آرڈینٹر کی طرف سے دیا گیا کہ ’’سندھ میں پختون دوسری بڑی قوم ہیں ‘‘۔[۵۴]
انھوں نے کہا:
’’یہ قوموں کی تقسیم ، زبانوں کی تقسیم اور علاقوں کی تقسیم کسی سیاست دان کے لیے تو فائدہ مند ہو سکتی ہے مگر ملک اور قوم کے لیے نہیں‘‘۔[۵۵]
یہی وجہ ہے کہ ہم اس قومی وحدت سے محروم ہیں جو قومی زبانیں عطا کرتی ہیں کیوں کہ ہمارے حکمران سیاستدان، آئین اور قانون میں اپنے مطلب کی بات تلاش کرتے ہیں ۔انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے ’’آئین میں قومی زبان کون سی ہے ؟کب نافذ ہو گی؟اگر ٹائم فریم موجود ہے تو کیوں نافذ نہیں ہوتی؟‘‘۔غزالہ قادر نے اپنے مضمون ’’اُردو‘‘ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو لسانی اختلافات کا نتیجہ قرار دیا ، انھوں نے زبان کو قومی تشخص اور مسلم ثقافت کی علامت قرار دیا۔اُن کے نزدیک :
’’ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب نے زبان کے مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ، انھوں نے ۱۸۶۷ء میں سرکاری، دفتری اور تعلیمی اداروں سے اُردو کو خارج کرنے اور سنسکرت آمیز ہندی کو ٹھونسنے کی کوشش کی ‘‘۔[۵۶]
عمر فاروق عباسی نے ’’پرتشدد واقعات اور زبان ‘‘کے نام سے مضمون تحریر کیا جس میں انھوں نے کراچی کے داخلی انتشار و افتراق اور پر تشدد واقعات کے پس منظر میں لسانی تعصبات کو اُس کی ایک اہم وجہ قرار دیا وہ کہتے ہیں کہ’’ پڑوسی ملک بھارت میں کم و بیش تیس پینتیس زبانیں بولی جاتی ہیں مگر آج تک کوئی لسانی نوعیت کا جھگڑا سننے میں نہیں آیا ۔دہلی کے بازاروں میں انگریزی کی بجائے ہندی میں سائن بورڈ دیکھ کر اُنہیں خاصی حیرت ہوئی کیوں کہ ہمارے ملک میں تو اشتہارات پر بھی انگریزی زبان کا غلبہ ہے‘‘۔[۵۷]
’’نفاذِ اُردو ‘‘میں اُردو اور حکومتی رویوں کے حوالوں سے بھی مضامین شائع ہوئے ہیں ۔عبد الرشید ترابی نے اپنے ایک مضمون’’بے زبان قوم کو کب زبان ملے گی‘‘ میں اظہارِ خیال کیا تھا :
’’زبانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہی زبانیں زیادہ فروغ پذیر ہوتی ہیں جنھیں ریاست اور حکومت کی بھرپور سر پرستی حاصل ہو، برصغیرمیں افغان اور مغل حکمرانوں کی وجہ سے فارسی زبان کو جو مقام ملا وہ کسی مقامی زبان کو نہ مل سکا ، اس لیے کہ یہ حکمرانوں کی زبان تھی اور کارِ حکومت اس زبان میں انجام دیے جاتے تھے ‘‘۔[۵۸]
غلام حسین اظہر نے بھی ’’نفاذِ اُردو‘‘ میں تاخیر کو ارباب اقتدار کی غیر مخلصانہ نیت پر محمول کیا:
’’قائد اعظم کے بعد اُردو کی اہمیت اور افادیت کا زبانی اعتراف کیا گیا۔۱۹۵۶ء کے دستور میں انگریزی زبان کو زیادہ سے زیادہ تحفظات دینے کا اہتمام شروع ہوا۔۔۔شریف تعلیمی کمیشن میں بھی انگریزی کا پلڑا بھاری رہا‘‘۔[۵۹]
مسززیب النسا صغیر کو بھی بیو رو کریسی سے یہی شکایات ہیں کہ وہ زبان کے نفاذ کے معاملے میں مخلص نہیں ، وہ لکھتی ہیں:
’’جب ایک ملک کی قومی زبان کا فیصلہ ہو چکا ۱۹۷۳ء کے آئین میں جو ایک مشترک آئین ہے تمام جماعتوں، تمام رہنماؤں ، تمام لیڈروں نے ایک متحد قوم کی خواہش پر ایک قومی زبان بنانے کا مشترکہ فیصلہ کر لیا ، وقت، سن سب کچھ اس کے نفاذ کے لیے طے کر لیا تو پھر آئین سے انحراف کیسا اور وہ بھی آمرانہ دور میں نہیں ایک جمہوری دور میں‘‘۔[۶۰]
ذرائع ابلاغ اور اُردو کا باہمی رابطہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ، نفاذِ اُردو میں اس حوالے سے بھی ذکر موجود ہے:
’’ایف ایم چینلز کے منتظمین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے صدا کاروں اور میزبانوں کو درست قومی زبان کی تلقین کریں نیز اُس کو دید ہ و دانستہ جان بوجھ کر بگاڑنے اور غلط بولنے سے گریز کریں ۔ان ایف ایم چینلز کے ذریعے تعمیری نشریات کے ساتھ قومی زبان کی ترویج کی راہ کھولی جائے ، وزارتِ اطلاعات کو بھی چاہیے کہ وہ ذرائع ابلاغ کو قومی زبان کو بگاڑنے سے باز رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے‘‘۔[۶۱]
اُردو کی تنفیذ و ترویج میں انتظامی اداروں کا کردار مسلّم ہے ۔پولیس کا ادارہ بھی ان میں ایک ہے جس نے دفاتر میں نچلی سطح(مقامی اور تھانوں کی سطح)پر اُردو کے نفاذ کو اُردوبطور دفتری زبان قائم رکھا ہوا ہے ، نفاذ اُردو کے جنوری ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ایک اے ایس آئی محمد افضل کامضمون ’’محکمہ پولیس اور قومی زبان‘‘کے نام سے شائع ہوا جس میں اس نے غیر رسمی اسلوب میں ان حقائق کا اظہار یوں کیا:
’’سید مبین اختر کی تحریک نفاذِ اُردو کی کوششوں اور بین الاقوامی اُردو کانفرنس کی کاوشوں سے وہ نتائج اب تک حاصل نہ ہو سکے جو محکمہ پولیس نے قومی زبان کے رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کر رکھے ہیں۔ہم اپنے اپنے مقامات یعنی مقام تعیناتی پر باہم گفتگو قومی زبان میں کرتے ہیں ہاں کبھی کبھی علاقائی زبان میں بھی گفتگو ہو جاتی ہے مگر انگریزی میں کبھی نہیں ۔اسے ہم اور ہمارے آفیسر انتہائی مجبوری کے وقت جب ملزم یا معزز مہمان انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ جانتا ہو یہ غیر ملکی مہمان یا ملزم کی صورت میں مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔ہماری تحقیق ہماری تفتیش ہمارے سوال وجواب قومی زبان میں ملزم کے بیانات قومی زبان میں شکایات کی درخواستوں کی وصولی قومی زبان میں، یہاں تک کہ سرکاری کاغذوں پر بیانات کے ساتھ ساتھ ایف ۔آئی ۔آر بھی قومی زبان میں تحریر کی جاتی ہے کہ کوئی اور محکمہ ہماری ہمعصری آئین کے مطابق نفاذِ اُردو کے سلسلے میں نہیں کر سکتا اور یہ ابھی لازمی نہیں اس کے باوجود ہمارے آفیسر ان بالا قومی زبان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور ہمیں یہ فخر ہے کہ یہ اعزاز ہمارے محکمے کے پاس ہے کہ اس کی اکثر کارروائی قومی زبان میں ہو رہی ہے اور ہم اپنی تمام تر کوششوں سے اسے جاری و ساری رکھیں گے ہمارے آفیسر انِ بالاکا یہ ظرف ہے کہ وہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تمام اجلاسوں میں اپنے ماتحتوں کی میٹنگوں میں قومی زبان میں پیغام رسائی کرتے ہیں ہم وائر لیس پیغام بھی قومی زبان میں بھیجتے ہیں اور وصول کرتے ہیں اور یہی ہماری قومی زبان کی خدمت اور آئین سے وفاداری ہے‘‘۔[۶۲]
دفتری ادبیات کی تیاری میں اصطلاحات کی اہمیت بنیادی ہے ، نفاذِ اُردو میں تیاری کے حوالے سے کچھ زیادہ مواد نہیں ملتا ، زیادہ تر مضامین کا تعلق نظری بحثوں سے ہے ۔اصطلاحات کے تراجم کے حوالے سے علیم احمد کا ایک مضمون’’ری سائیکلنگ کا اُردو متبادل‘‘جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں طبع ہوا جس میں گزشتہ ربع صدی سے اصطلاحات کے تراجم، اصطلاح سازی اور نئی اُردو اصطلاحات کی معیار بندی میں جمود کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ اصطلاحات کے تراجم دفتری اُردو کے امکانات کو روشن کر دیتے ہیں ۔
نفاذِ اُردو کے اداریے:
نفاذِ اُردو کے ادارے بھی زیر تحقیق موضوع کے حوالے سے نہایت قابل توجہ ہیں کیوں کہ ان میں اُردو زبان کے نفاذ اور اس کی دفتری اُردو کی حیثیت سے متعلقہ امور کے حوالے سے خاصی راہ نمائی ملتی ہے۔شمارہ جون ۲۰۰۸ء کے اداریے میں ’’تحریک نفاذِ اُردو‘‘کے بانی و سر پرستِ اعلیٰ ڈاکٹر مبین اختر کا یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اگر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا ہے تو قومی زبان اُردو کو مکمل طور پر نافذ العمل کرا دیں اور انگریزی کی بالا دستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہ دیں ۔اداریے میں افواجِ پاکستان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی نفاذِ اُردو کی ضرورت پر زور دیا گیا اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تمام سرکاری اداروں میں نفاذِ اُردو کے لیے حکم صادر کرے۔
عالیجاہ!افواج پاکستان کے علاوہ دفاتر، کارخانے اور روز مرہ شعبہ ہائے زندگی میں اردو کے نفاذ کیلئے تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ ہم بہ حسن و خوبی انگریزی کی جگہ اردو کو نافذ کر سکتے ہیں۔ اس طرح ملک کے تمام محکموں ، کارخانوں، دفاتر بینکوں اور مالیاتی اداروں میں اردو کا نفاذ صرف ۲۴ گھنٹے میں کر سکتے ہیں۔
جناب عالی: فرانس میں انگریزی بولنا جرم ہے۔ جاپان میں میں انگریزی ناپید ہے، ایران میں فارسی ہے اور دفتر ی زبان کی حیثیت سے نافذ ہے، اسرائیل میں مکمل طور پر عبرانی زبان میں کام ہو رہا ہے۔ کوریا میں انگریزی کا وجود نہیں۔ چین اور روس صرف مادری زبان پر زندہ ہیں۔ [۶۳]
جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں عظیم جرمن فاتح ہٹلر اور فرانسیسی دانشور جنرل ڈیگال کے حوالے سے کہا گیا کہ اول الذکر نے جرمن زبان میں اپنی قوم کو متحد کر کے پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھا اور مؤخر الذکر نے فرانسیسی زبان میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کی کانفرنسیں پڑھ کر اپنی اپنی زبان میں فخر اظہار کیا۔مدیر نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی ریڈیو پر اُردو تقریب کا بھی حوالہ دیا جس میں انھوں نے نہایت حوصلہ افزا انداز میں اُردو زبان میں تقریر کر کے فوجی نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔اداریے میں قوموں سے سبق سیکھ کر نفاذِ اُردو کے لیے کمر بستہ ہونے پر زور دیا گیا۔[ ۶۴]اگست ۲۰۰۸ء کے اداریے میں یومِ پاکستان کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح کے ۲۱ مارچ ۱۹۴۸ء والے خطاب کا حوالہ دیا گیا ہے اور حکومتِ وقت سے ملک میں اُردو کے مکمل نفاذ کے اعلان کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔دسمبر ۲۰۰۸ء کا اداریہ ایڈیٹر قادر حسین خان قیادت کی دانش مندانہ فکر کا مظہر ہے جس میں انھوں نے آئینی تقاضے پورے کرنے اور نفاذِ اُردو کے اعلان کا مطالبہ کیا ،کیوں کہ ۲۰۰۸ء کو اقوامِ متحدہ نے مادری زبان کا سال قرار دیا ۔ایڈیٹر نے اربابِ اقتدار سے اس توقع کا اظہار کیا کہ ماہ دسمبر، جو ماہ قائد بھی ہے ،اُس میں ۱۹۷۳ء کے دستور کے اُس اعلان پر عمل کیا جانا چاہیے ،جس میں اُردو کو واحد قومی و سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔اداریے میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان چینی ہے۔اُس قوم کے ننانوے فیصد لوگ انگریزی سے نا بلد ہیں لیکن پھر بھی یہ قوم مادری زبان میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی بنا پر دنیا کی ترقی یافتہ قوم شمار ہوتی ہے ۔[۶۵]۲۰۰۹ء کے پہلے شمارے کے اداریے میں پاکستانی اربابِ اختیار سے گزارش کی گئی ہے کہ قومی زبان اُردو کو ملک میں مکمل طور پر نافذ العمل قرار دے دیں۔ ملک کے تمام محکموں میں بول چال و تحریری کام اُردو میں کرنے کا حکم نافذ کیا جائے۔اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات کے لیے انگریزی کی بجائے قومی اور صوبائی زبانیں استعمال کی جائیں۔[ ۶۶] فروری ۲۰۰۹ء کے اداریے میں کہا گیا کہ ہماری اُردو زبان سازشوں میں گھری ہوئی ہے ۔آج ہم لوگ اپنی روایات، تہذیب اور زبان کو مسخ کر کے اندھی تقلید کی راہ پر گامزن ہیں۔[۶۷]مارچ ۲۰۰۹ء کے اداریے میں گلہ کیا گیا کہ قومی زبان اُردو ، قومی پھول چنبیلی ، قومی کھیل ہاکی اور قومی ترانہ، سب کے اصل مفاہیم کو ہم نے طاق نسیاں میں بند کر دیا ہے[ ۶۸]۔مئی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں صغیر حسن صغیر معتمد خصوصی تحریک نفاذِ اُردو نے تحریک کی طرف سے ججز کو بحالی کی مبارک باد بھی دی اور انہیں اس زبان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ہونے والے کچھ وعدوں کی یاد دہانی بھی کرائی۔
’’آج کے جمہوری حکمرانوں کو اس جمہوری فیصلے پر میری اور تحریکِ نفاذِ اُردو کی جانب سے دلی مبارک باد کہ ایک غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کی توثیق کی بجائے یک جنبش قلم منسوخ کر دیا جمہوریت بحال ہوئی ، ججز بحال ہو گئے تو یقیناً ۱۹۷۳ء کا آئین بھی بحال ہو گیا ہو گا جس کی خالق خود پیپلز پارٹی ہے اور آئین کے بحال ہونے کامطلب ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے گا اور اگر ایسا ہے تو ۱۹۷۳ء کے آئین میں قومی زبان اُردو کو نافذ العمل کیا جائے گا اس کے لیے کسی تحریک کی ضرورت ہو گی نا کسی پٹیشن کی کیوں کہ آج کے حکمران خود اس آئین کے خالق ہیں انھیں صرف یاد دہانی کافی ہے۔‘‘[۶۹]
جولائی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں ارکان قومی اسمبلی سے گزارش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور نے عارضی طور پر انگریزی کو سرکاری زبان بنانے کی اجازت دی تھی مگر اصل اُردو زبان کو سرکاری زبان بنانا تھا اس کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی ایک ایک مقامی زبان کا نفاذ ہونا تھا اگر یہ زبانیں صوبے اور مرکز میں نافذ ہو جاتیں تو لوگوں کو بہت آسانی ہو جاتی کیوں کہ اکثریت سمجھ سکتی کہ عدالتوں، سرکاری دفتروں اور بازاروں میں کیا لکھت پڑھت ہو رہی ہے ۔[۷۰]اگست ۲۰۰۹ء کے اداریے کا موضوع’’عسکریت پسندی اور قومی زبان‘‘ ہے جس میں کہا گیا کہ ملک عسکریت پسندی میں مبتلا ہے۔ یہ داخلی، گروہی اور نظری اختلافات قومی یک جہتی کے فقدان کا نتیجہ ہے اور قومی یک جہتی صرف قوم زبان سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں ملکی سا لمیت ، ترقی اور باہمی یگانگت کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی میں قومی زبان کو ترجیح دینا ہو گی۔ [۷۱] ستمبر ۲۰۰۹ء کے اداریے کا موضوع ’’پاکستان میں نفاذِ اُردو، آئینی تقاضہ ، ملکی ترقی کے لیے نا گزیر‘‘کے عنوان سے ہے ،جس میں قائد اعظم کی تقاریر اور ۱۹۷۳ء کی شق نمبر ۲۵۱کے حوالے دیے گئے ہیں۔ [۷۲]اس کے بعد کے چار مسلسل شماروں کے اداریے کا موضوع ’’پاکستان میں نفاذِ اُردو ‘‘رکھا گیا ہے ۔اکتوبر ۲۰۰۹ء کے اداریے میں نواز شریف کے اُس فیصلے کا ذکر کیا گیا جس میں انھوں نے وفاقی ملازمتوں کے مقابلہ جاتی امتحانات (سی ایس ایس)اُردو میں لینے کا اعلان کیا تھا، مگر پرویز مشرف نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اُن امتحانات کے لیے انگریزی زبان کو ہی مقدم رکھا۔ [۷۳]نومبر ۲۰۰۹ء کے اداریے میں ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم کے لیے قائد اعظم کے دستور العمل اور منشور کی دفعہ ۱۱ ’’اُردو زبان اور رسم الخط کی حفاظت‘‘ کرنے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اُردو اور علاقائی زبانوں کے تعلق میں اس مفروضے کی نفی کی گئی ہے کہ زبانیں اُردو کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تو اُردو کی ترقی میں معاون ہیں۔اس اداریے میں قیا مِ پاکستان کے بعد نفاذِ اُردو کی کوششوں کا بھی ذکر کیا گیا ۔ یہ اداریہ ’’اُردو زبان‘‘کے حوالے سے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ [۷۴]۔دسمبر ۲۰۰۹ء کے اداریے میں گزشتہ اداریے کے موضوعات کا تسلسل ملتا ہے اور اس میں نفاذِ اُردو کی ۱۹۸۶ء تک کی تاریخ کے حوالے در آئے ہیں۔[۷۵]جنوری ۲۰۱۰ء کے اداریے میں اُردو دنیا کی تیسری بڑی زبان اور اُردو میں سائنسی کتب کی تصنیف و تالیف کے موضوع پر زبان کے عام قاری کے لیے خاطر خواہ معلومات موجود ہیں۔[ ۷۶]فروری ۲۰۱۰ء میں’’تحریکِ نفاذِ اُردو‘‘ کے پانچ سال مکمل ہوئے ،اداریے میں’’جریدے کا نیا سفر‘‘ کے عنوان سے اجمالاً تحریک کے حاصلات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[ ۷۷]مارچ ۲۰۱۰ء کے اداریے کو ’’قرار داد پاکستان اور آج کا پاکستان‘‘کا نام دیا گیا ہے جس میں اس قرار داد کے ۷۰ برس پورے ہونے پر خوشی اور افسردگی کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا گیا ۔ ایک طرف اس قرار داد کے نتیجے میں ایک خود مختار وطن کی حصول کی خوشی ہے تو دوسری جانب اُردو زبان کو اپنے قومی اعزاز اور استحقاق سے محروم ہونے کا دکھ۔[۷۸]اپریل ۲۰۱۰ء کا اداریہ’’اقبال کے خواب اور تصور‘‘ کی یاد تازہ کرتا ہے جو انھوں نے ۳۰ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الٰہ آباد مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کے صدارتی خطبے میں ذکر کیا تھا یعنی ایک مستحکم مسلم مملکت کا قیام۔اور یہ مسلم مملکت آج ہم سے کچھ سوال اور کچھ تقاضے کر رہی ہے۔[۷۹]مئی اور جون کے اداریوں میں ہمارے فکر و نظر کو جھنجھوڑا گیا ہے ۔مئی کے اداریے میں وطنِ عزیز میں معدنیات کے اعتبار سے ربِ ذوالجلال کی بیکراں عنایتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے جغرافیہ منظر نامے میں انعاماتِ خداوندی کی بیکرانیوں کا ذکر کر کے احساس دلایا گیا ہے کہ ہمیں اپنی نیتوں کا کھوٹ دور کرنا ہو گا تا کہ خدا کی یہ رحمتیں ابدی اور سرمدی رہیں۔[۸۰]جون کے اداریے میں ۲۵ جون ۱۹۴۴ء اور ۳ جون ۱۹۴۷ء کو تاریخِ پاکستان کے تاریخ ساز دن قرار دیے گئے ۔جولائی ۲۰۱۰ء کے اداریے میں ہماری بے بسی کے اس رخ کو سامنے لایا گیا جس میں اٹھارویں ترمیم میں’’قومی زبان اُردو‘‘کے عنوان کی عدم شمولیت ہمیں اربابِ اقتدار کی نیتوں میں اسی کھوٹ کا پتا دے رہی ہے جس کا ذکر مئی ۲۰۱۰ء کے اداریے میں کیا گیا تھا۔
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اس جریدے میں اردو زبان کی تنفیذو ترقی میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں کا تذکرہ بھی ہے اور اس کے نفاذ کے لیے مختلف تجاویز بھی ملتی ہیں۔ بالخصوص ماہانہ نشستیں اس حوالے سے نہایت اہم ہیں جن میں نفاذ اردو کی عصری صورت حال کے مختلف پہلوؤں پر ناقدین اور دا نش ور وسیع تر پس منظر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
نفاذِ اُردو اور مراسلات:
نفاذِ اُردو میں قارئین کے افکار و خیالات اور تاثرات ومیلانات سے آگاہی کے لیے اُن کے خطوط کو بھی رسالے میں جگہ دی گئی ہے ۔خطوط اگرچہ نجی تحریریں ہوتی ہیں اور اُن کا تعلق اکثر اوقات گزشتہ شمارے کے مندرجات پر جزو وقتی تاثرات سے زیادہ نہیں ہوتا مگر بعض اوقات ایسے مراسلے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو معاملات و مسائل کے بارے میں قارئین کی حساسیت کو سامنے لاتے ہیں ۔یہ مکاتیب بھی نفاذ اردو کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نفاذِ اُردو بہت سے ایسے خطوط شائع ہوئے جن میں اُردو زبان اور اُس کے نفاذ سے متعلقہ موضوعات پر قابلِ قدر تجاویز کے ساتھ معلومات اور تاثرات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ ان مکاتیب الیہ میں ملک کی مقتدر ادبی شخصیات بھی شامل ہیں اور عام شہری بھی۔ ان میں مقتدرہ قومی زبان کے سابق صدر نشیں پروفیسر فتح محمد ملک کا یہ خوش کن احساس ملاحظہ ہو:

محترمی و مکرمی جناب مسعود بن محمود صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ ’’نفاذ اردو‘‘ کا تازہ شمارہ دیکھ کر جی خوش ہوا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں پروفیسر آفاق صدیقی صاحب کا مضمون ’’اخبار اردو‘‘ میں بطور قند مقرر شائع کر دوں .
والسلام          
خیر اندیش
(فتح محمد ملک) [۸۱]
ڈاکٹر ممتاز عمر اپنے ایک مراسلے میں اردو زبان کے المیے کو اس طرح دیکھتے ہیں:
’’زبان اردو کی ترقی و ترویج تو جاری ہے اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے سرکاری سطح پر اس سے اپنایت بھی نظر آتی ہے جو مستقبل کے امکانات کو روشن کرنے اور ہمیں اس راہ گزر پر رواں دواں رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ حال ہی میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے اراکین کو حلف برداری کے موقع پر اردو حروف تہجی کے اعتبار سے پکارا گیا اس سے قبل حلف کی عبارت بھی قومی زبان میں پڑھی گئی۔ [۸۲]
ڈاکٹر سہیل اختر اپنے مراسلے میں معاشرتی اور سماجی زندگی میں اُردو کی ضرورت پر مفصل روشنی ڈالی ۔[۸۳]
رضوان طاہر مبین کا شمار نفاذِ اُردو کے اُن مقالہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی گہری بصیرت اور قومی زبان اُردو سے اپنی والہانہ محبت کی بنا پر ایک مقام اور پہچان پیدا کر لی ہے ۔انھوں نے اپنے ایک طویل مراسلے میں جہاں ایک طرف ڈاکٹر مبین اختر کی توجہ اُردو کے نفاذ سے بھی زیادہ اہم’’ تحفظ زبان‘‘ کے مسئلے پر مبذول کرائی ہے وہیں نفاذِ اُردو اور قومی زبان اُردو کے تحفظ کے لیے نہایت جامع مفصل اور قابل قدر تجاویز بھی دی ہیں ۔اُن کی تجاویز اگرچہ خاصی طویل ہیں تاہم قومی زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے ان کے خط کے متن کا مطا لعہ بہت معلو مات افزا ہے [۸۴]
ڈاکٹرعزیز احمد انصاری کراچی کے علمی اور ادبی حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ۔انھوں نیاپنے خطوط میں اُردو زبان کے حوالے سے با ا لعموم اور نفاذِ اُردو کی تحریک کو آگے بڑھانے کے حوالے سے با لخصوص سر پرستِ اعلیٰ ڈاکٹر سید مبین اختر کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔[۸۵]
ڈاکٹر سید مبین اختر ان خطوں کے جواب بھی دیتے ہیں ۔اُن کے جوابات میں بھی نفاذِ اُردو کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے اشارے ملتے ہیں ۔ایسے ہی ایک خط میں ڈاکٹر صاحب کا جواب ملاحظہ ہو :
’’مہرین صاحبہ !السلام علیکم
۔۔۔سب کو مل جل کر قوم کو یہ سمجھانا ہے اور ساتھ ساتھ حکومت کو بھی بتانا ہے کہ اُردو میں ہماری ترقی ہے اور قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اور ۱۹۷۳ء کے آئین کے مطابق اُردو ہی کا نفاذ اس ملک میں ہونا چاہیے۔اس سلسلے میں ہم نے ایک درخواست سندھ کی عدالت عالیہ میں دے رکھی ہے کہ جب دستور میں یہ درج ہے کہ اُردو پندرہ سال کے اندر اندر رائج کر دے جائے گی تو اس پر عمل کروانا جاہیے۔ان شاء اللہ ہم ہر پہلو سے اپنی زبان اور قوم کی بقا اور ترقی کے لیے جدو جہد کریں گے۔
آپ کا خیر اندیش
ڈاکٹر سید مبین اختر‘‘[۸۶]
’’تحریکِ نفاذِ اُردو‘‘ کا آغاز فروری ۲۰۰۵ء سے ہوا ، اس تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی ماہانہ نشستوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔یہی وجہ ہے کہ جب فروری ۲۰۱۰ء میں تحریک کو پانچ سال مکمل ہوئے تو اُس ماہ میں اس کی ساٹھویں(۶۰) ماہانہ نشست منعقد ہوئی ۔ان نشستوں میں مجلس ادارت اور مشاورتی بورڈ کے سینئر ارکان کے علاوہ عام ادیب اور شہری بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے۔ان نشستوں کے اوقات اور مقامات ، حالات و واقعات کے مطابق تبدیل ہوتے رہے تاہم گفتگو اور بحث کا بنیاد ی موضوع ایک ہی رہا کہ اُردو زبان کے نفاذ کی تحریک جو کراچی سے شروع ہوئی ہے اُسے کس طرح ملک گیر بنا کر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اُس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے اُن کے حل کے لیے کیا تجاویز ہیں ؟ اگرچہ ان نشستوں میں تاثرات اور بیانات کی بہت تکرار ملتی ہے تاہم یہ ’’تکرارِ تاکیدی‘‘ بنیادی موضوع کی اہمیت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ نفاذِ اُردو کے حوالے سے دی جانے والی تجاویز اور تبصروں کے مطالعے سے ان کا مجموعی مزاج متعین کرنے میں یقیناً مدد ملتی ہے۔ ملاحظہ ہو۔


ماہانہ نشستوں کی رودادسے اقتباسات:
اپریل ۲۰۰۸ء
ڈاکٹر حسن وقار گل:
’’سالانہ کنونشن یا نفاذ اُردو کے حوالے سے کسی بڑی تقریب کے لیے ہم اُردو یونیورسٹی کا ایک ہال مختص کر دیں گے۔عبد الحق کیمپس میں یہ جگہ مناسب رہے گی۔۔۔ہم پاکستان کے کسی علاقائی زبانوں کے خلاف نہیں بلکہ ہم اپنی جد و جہد میں تحریک نفاذِ اُردو کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کے لیے بھی ترقی کی خواہاں ہیں، ہم مختلف صوبوں میں بھی تحریکِ نفاذِ اُردو کی شاخیں قائم کریں گے۔۔۔
ڈاکٹر نظر کامرانی:
۔۔۔نفاذِ اُردو مجلہ کو آرمی اسٹیشن ہیڈ کواٹرز کو بھی بذریعہ ڈاک بھیجا جائے۔۔۔کراچی میں عنقریب منعقدہ ساکنانِ شہر قائد کی جانب سے عالمی مشاعرہ کے لیے تحریکِ نفاذ اہم امور سر انجام دے گی۔منعقدہ عالمی مشاعرہ میں دنیا بھر کے شعرا کرام کے علاوہ مشہور ادبی شخصیات کی شرکت متوقع ہے ۔‘‘[۸۷]
جون ۲۰۰۸ء
عبد المجید:
’’۔۔۔میں ، ایم اے(سیاسیات) ، ایل ایل بی اور ادارہ معارف القرآن سال دوئم کا طالب علم ہوںؤ۔۔۔انگریزی ٹایپنگ سیکھنے کے دوران مشتاق کے لیے تختہ کلید پر اپنی مہارت ماپنے کے لیے ایک جملہ ایسا ترتیب دیا گیا ہے جس میں انگریزی حروف تہجی کے تمام حروف موجود ہوتے ہیں۔وہ جملہ ہے "A quick brown fox jumps over the lazy dog "اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں بھی ایک ایسے جملے کی ضرورت محسوس ہوئی جو نہ صرف یہ کہ اپنے اندر اُردو حروف تہجی یعنی’’الف‘‘ سے لے کر ’ے‘ تک تمام حروف سموئے ہوئے ہو بلکہ با معنی بھی ہو جملہ یہ ہے:’’آج صبح ژالہ باری سے بیشتر ایک ضعیف قلی ظروف کا ذخیرہ اٹھائے ایک ثانیہ ٹھہرے بغیر پگڈنڈی کی طرف تیزی میں دوڑا چلا گیا۔
محمد مدنی:
تعلیمی اداروں میں اُردو کے نفاذ اوراس کی اہمیت کے لیے سب سے پہلے اپنے بچوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔وہ اُردو گنتی تک بھول چکے ہیں‘‘۔[۸۸]
فروری ۲۰۰۹ء
صاحبزادہ محمود مدنی:
چلتے پھرتے، جاگتے سوتے نفاذِ اُردو کا کام کیا جائے ہر جگہ پر اس کی تشہیر کی جائے۔ہمارے تمام ساتھیوں کا تعاون ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گا۔مقابلے کے امتحانات اُردو میں لیے جائیں۔‘‘[۸۹]
مئی ۲۰۱۰ء
جناب محمود خاں
* تحریک کا قومی زبان کے نفاذ کے حوالے سے عدالت میں جو کیس داخل ہے اس پر بھرپور توجہ کی جائے۔اس کے لیے ہر لحاظ سے اچھے وکیل کی خدمات حاصل کی جائیں۔[ ۹۰]
ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘ کراچی ایساجریدہ ہے جو عہد حاضرمیں اُردو کے واقعی نفاذ کے لیے اخلاص کے ساتھ کوشش کر رہا ہے ۔اس نے ایک طرف ماضی سے منتخبہ تحریریں شائع کر کے اس مسئلے کا تاریخی پس منظر از سر نو تازہ کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف موجودہ صورتِ حال کے درست تجزیے کے ساتھ ساتھ نفاذِ اُردو کے معاملے کو ایک تحریک کی شکل دینے کے لیے کوشاں ہے ۔اس کا کام اس اعتبار سے زیادہ وقیع اور داد طلب ہو جاتا ہے کہ یہ کسی سرکاری ادارے یا تنظیم کا رسالہ نہیں بلکہ اُن صاحب اخلاص دوستوں کی کاوش ہے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کے درمیان قدرے مشترک اُردو کے ساتھ اُن کی بے لوث اور بے پایاں محبت ہے ۔
حوالہ جات و حواشی

۱۔ ۲۸؍ اگست ۲۰۰۸ء۶ بجے شام، ڈاکٹر جمیل جالبی کی رہائش گاہ پر ۲۶۔ڈی،نا ر تھ نا ظم آ با د اُن کے ساتھ مصاحبے میں ہونے والی گفتگو۔شر یک گفتگو :غلا م عبا س گو ند ل،امان اللہ کلیم، فیاض احمدفیضی
۲۔ منشور، تحریکِ نفاذ اُردو؛ص:۳
۳۔ ایضاً،ص:۳
۴۔ ایضاً،ص:۶
۵۔ مدیر، ’’اداریہ‘‘، ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ ،کراچی، جلد ۱، شمارہ ۶، جون ۲۰۰۸ء،ص:۳
۶۔ مذکورہ بالا تمام معلومات ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردوکے مختلف شماروں کے اداراتی صفحوں سے ماخوذ ہیں۔
۷۔ سید عبد اللہ، ڈاکٹر، ’’دفتری زبان کا نصاب تعلیم سے تعلق‘‘،مشمولہ ’’منتخبات اخبار اُردو‘‘ مرتبہ، معین الدین عقیل،ڈاکٹر، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۸ء، ص:۱۶۸
۸۔ ایضاً، ص:۱۶۸،۱۶۹۔
۹۔ ایضاً، ص:۱۷۰
۱۰۔ ایضاً، ص:۱۷۰
۱۱۔ ایضاً، ص:۱۷۰
۱۲۔ ابو سلمان شاہ جہان پوری، ’’نیا نصاب تعلیم اور قومی زبان‘‘، مشمولہ ’’منتخبات اخبار اُردو‘‘ مرتبہ، معین الدین عقیل،ڈاکٹر، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۸ء، ص:۱۸۰
۱۳۔ باربراڈی مٹکاف،’’بھارت میں اردو زبان کی موجودہ صورت حال‘‘،مترجم، نجم فاروقی، نفاذِ اُردو، جلد ۱، شمارہ ۶، جون ۲۰۰۸ء، ص:۳
۱۴۔ ایضاً، ص:۴
۱۵۔ ایضاً، ص:۴
۱۶۔ ایضاً، ص:۵،۶
۱۷۔ ایضاً، ص:۷
۱۸۔ کرشن مہشوری کا ، ’’اردو کا مستقبل ۔۔۔امکانات اور اندیشے ‘‘ ، جلد ۱، شمارہ ۶،ص:۱۰
۱۹۔ ایضاً، ص:۱۱
۲۰۔ تسنیم سید ،ڈاکٹر ، ’’قائد اعظم اور اُردو ذریعہ ء تعلیم‘‘،جلد ۱، شمارہ ۷، ص:۳،۴
۲۱۔ ممتاز عمر،ڈاکٹر ،’’آندھی میں ایک چراغ جلائے ہوئے تو تھا‘‘،جلد ۱، شمارہ ۹، ص:۸
۲۲۔ حبیب اللہ خان قائم خانی، ’’ہماری قومی زبان ‘‘، جلد ۱، شمارہ ۹، ص:۲۲
۲۳۔ ایضاً،ص:۲۲
۲۴۔ رابعہ سرفراز، ’’اُردو بطور ذریعہ ء تعلیم ‘‘، ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ ،جلد ۱، شمارہ ۱۲، دسمبر ۲۰۰۸ء، ص:۱۰
۲۵۔ ایضاً، ص:۱۱
۲۶۔ ایضاً، ص:۱۱
۲۷۔ غزالہ قادر، ’’اُردو‘، ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ ،جلد ۲، شمارہ ۱،جنوری۲۰۰۹ء، ص:۹
۲۸۔ عزیز احمد،’’اُردو زبان کا فروغ، تحفظ، کیسے اور کس طرح‘‘، ماہ نامہ ’’نفاذ اُردو‘‘، جلد ۲، شمارہ ۱، جنوری ۲۰۰۹ء، ص:۲۵
۲۹۔ ایضاً، ص:۲۵
۳۰۔ ایضاً، ص :۲۶
۳۱۔ زین صدیقی ،’’اُردو کا عدم نفاذ کیوں‘‘، جلد ۲، شمارہ ۵، ص:۱۲
۳۲۔ محمد شکیل صدیقی، پروفیسر، ’’’’قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء ‘‘، جلد۲،شما ر ہ ۱۱،ص:۵
۳۳۔ ایضاً، ص:۶
۳۴۔ سید منور حسن،’’اُردو کو ذریعہ ء تعلیم بنانا آئینی تقاضا ہے‘‘،ہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘، جلد ۲، شمارہ ۷، جولائی ۲۰۰۹ء، ص:۳۲
۳۵۔ ’’دی نیوز ‘‘۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ء بحوالہ ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو‘‘ ، جلد ۲، شمارہ ۹، اگست ۲۰۰۹ء،ص:۱۸
۳۶۔ شاہ نواز فاروقی،’’انگریزی میڈیم پنجاب اور اُس کے معنی‘‘، جلد ۳، شمارہ ۳، مارچ ۲۰۱۰ء، ص:۱۰
۳۷۔ ایضاً،ص:۱۰
۳۸۔ ایضاً،ص:۱۰
۳۹۔ ایضاً،ص:۱۰،۱۱
۴۰۔ ایضاً،ص:۱۱
۴۱۔ ایضاً،ص:۱۱
۴۲۔ چیف جسٹس صاحب! ہمارا مستقبل اس سے وا بستہ ہے، اوریا مقبول جان، جلد ۳، شمارہ ۴، اپریل ۲۰۱۰ء، ص:۹
۴۳۔ ایضاً،ص:۹
۴۴۔ ایضاً،ص:۹
۴۵۔ شہناز کوثر، ’’اردو زبان، ہما ری قو می شنا خت‘‘، ماہ نامہ ’’نفاذِ اُردو، جلد ۲، شمارہ ۷، جولائی ۲۰۰۹ء،ص:۲۳
۴۶۔ ایضاً،ص:۲۳
۴۷۔ ڈاکٹر ممتاز عمر، ’’زبان غیر سے شرح آرزو‘‘، جلد ۳،شمارہ ۵، مئی ۲۰۱۰ء ، ص:۷
۴۸۔ حارث خلیق ، ’’زبان کاظلم ‘‘، جلد ۲، شمارہ ۹، اگست ۲۰۰۹ء،ص:۹
۴۹۔ جلد ۳، شمارہ ۴، اپریل ۲۰۱۰ء، ص:۷
۵۰۔ اداریہ، جنوری ۲۰۱۰ء
۵۱۔ پرویز عبد اللہ،’’انجمن ترقی اُردو کی شاندار خدمات‘‘، جنوری ۲۰۱۰ء،جلد ۳، شمارہ ۱، ص:۱۳
۵۲۔ ایضاً،ص:۱۴
۵۳۔ اے جے سنگھانیہ، ’’اُردو ہماری قومی شناخت‘‘، جنوری ۲۰۰۹ء، جلد ۳، شمارہ ۱، ص:۳
۵۴۔ صغیر حسن صغیر،گفتگو اور زبا ن، جلد ۱، شمارہ ۹، ستمبر ۲۰۰۸ء،ص:۱۵
۵۵۔ ایضاً،ص:۱۶
۵۶۔ غز ا لہ قا د ر ، اردو ،جلد ۲، شمارہ ۱، جنوری ۲۰۰۹ء، ص:۸
۵۷۔ عمر فا روق عبا سی ،پر تشدد واقعا ت اور زبا ن،جلد ۱، شمارہ ۹، ستمبر ۲۰۰۸ء،ص:۲۳
۵۸۔ عبد ا لر شید ترا بی ،بے زبا ن قوم کو زبان کب زبان ملے گی ،جلد۱، شمارہ ۷، جولائی ۲۰۰۸ء، ص:۱۳
۵۹۔ غلا م حسین اظہر ،نفا ذ اودو ،جلد ۱، شمارہ ۸، اگست ۲۰۰۸ء، ص:۹
۶۰۔ عبد الرشید ترابی، ’’بے زبان قوم کو زبان کب ملے گی‘‘،جلد ۳، شمارہ ۱، جنوری ۲۰۱۰ء، ص:۱۱
۶۱۔ رضوان طاہر(کراچی)، ’’نفاذِ اُردو ‘‘کے مدیر کے نام مراسلہ بعنوان ’’ایف ایم نشریا ت اور قومی زبان‘‘،مشمولہ :ماہ نامہ نفاذِ اُردو جولائی ۲۰۰۸ء، جلد ۱، شمارہ ۸، ص:۱۹
۶۲۔ محمد افضل( اے ایس آئی )، ’’محکمہ پولیس اور قومی زبان‘‘، جلد ۲، شمارہ ۱، جنوری ۲۰۰۹ء، ص:۱۰
۶۳۔ شمارہ ۶، ص:۲
۶۴۔ اداریہ، جولائی ۲۰۰۸ء،جلد ۱،شمارہ ۷
۶۵۔ اداریہ، اگست۲۰۰۸ء، جلد۱، شمارہ ۸
۶۶۔ اداریہ، جنوری ۲۰۰۹ء،جلد ۲،شمارہ ۱
۶۷۔ اداریہ، فروری ۲۰۰۹ء، جلد ۲، شمارہ ۲
۶۸۔ اداریہ، مارچ ۲۰۰۹ء،جلد ۲،شمارہ ۳
۶۹۔ اداریہ، مئی ۲۰۰۹ء، جلد ۲، شمارہ ۵
۷۰۔ اداریہ، جولائی ۲۰۰۹ء، جلد۲،شمارہ ۷
۷۱۔ اداریہ، اگست ۲۰۰۹ء، جلد ۲، شمارہ ۸
۷۲۔ اداریہ،ستمبر ۲۰۰۹ء، جلد ۲، شمارہ ۹
۷۳۔ اداریہ،اکتوبر۲۰۰۹ء، جلد۲،شمارہ ۱۰
۷۴۔ اداریہ،نومبر۲۰۰۹ء، جلد۲، شمارہ ۱۱
۷۵۔ اداریہ،دسمبر ۲۰۰۹ء، جلد۲، شمارہ ۱۲
۷۶۔ اداریہ،جنوری ۲۰۱۰ء، جلد ۳، شمارہ ۱
۷۷۔ اداریہ،فروری ۲۰۱۰ء، جلد ۳، شمارہ۲
۷۸۔ اداریہ،مارچ ۲۰۱۰ء، جلد ۳، شمارہ ۳
۷۹۔ اداریہ،اپریل ۲۰۱۰ء، جلد ۳، شمارہ ۴
۸۰۔ اداریہ،مئی، جون ۲۰۱۰ء، جلد ۳، شمارہ۵،۶
۸۱۔ فتح محمد ملک کا مراسلہ’’ایڈیٹر کے نام‘‘
۸۲۔ ڈاکٹر ممتاز عمر کا مراسلہ
۸۳۔ ڈاکٹر سہیل اختر کا مراسلہ
۸۴۔ رضوان طاہر مبین کا مراسلہ ‘‘داکٹر مبین اختر کے نام‘‘
۸۵۔ پروفیسر ڈاکٹر عزیز انصاری کا مراسلہ ’’ایڈیٹر کے نام‘‘
۸۶۔ سید مبین اختر کا جوابی مراسلہ
۸۷۔ اپریل ۲۰۰۸ء کی ماہانہ نشست کی روداد
۸۸۔ جون ۲۰۰۸ء کی ماہانہ نشست کی روداد
۸۹۔ فروری ۲۰۰۹ء کی ماہانہ نشست کی روداد
۹۰۔ مئی ۲۰۱۰ء کی ماہانہ نشست کی روداد

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com