ڈاکٹر وزیر آغا اور جدید نظم کی پہچان
ڈاکٹر سعدیہ طاہر
Abstract
The main focus of this essay is the contribution of Dr. Wazir Agha in critical appreciation of various poets who have given a distinct shape to new peom. He traces the evolution of the new poem from Muhammad Hussain Azad and Allama Iqbal to Akhtar-ul-Emaan and Majeed Amjad, from early nineteenth century to the late twentieth century. This is an everlasting contribution of Dr. Wazir Agha to Modern Urdu poetry.
ڈاکٹروزیر آغا نے اُردو ادب میں جدید نظم کی پذیرائی ، پہچان اور تحسین کی فضا پیدا کرنے میں جو قابلِ صد تحسین مساعی عمل میں لائی ہیں وہ آج ہماری ادبی تاریخ کا ایک انتہائی قابلِ قدر حصہ بن چکی ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں انہوں نے جدید نظم نگاروں کے فنّی اور فکری کمالات پر ایک ایک کر کے جو مضامین ماہنامہ ‘‘ادبی دنیا’’ میں شائع کیے تھے اُن کی کتابی صورت میں یکجائی اور اشاعت ہنگامہ خیز ثابت ہوئی تھی۔اِس ہنگامۂ بحث کے احوال و مقامات کے بیان سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے مندرجات سے سرسری سا تعارف حاصل کر لیا جائے۔
ہر چندنظم انیسویں صدی میں ظہور پذیر ہوئی، پروان چڑھی اور نکتۂ عروج کو پہنچی تاہم نظم جدید بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں نمودار ہوئی اور اُردو شاعری کو ایک نئے مزاج سے آشنا کرنے لگی۔ آزاد نظم قافیہ ردیف کی بندشوں کے رسیا شاعروں کے لیے ایک گالی سے کم نہ تھی لیکن اس کے بنیاد گزاروں نے )جن میں ن م راشد، میرا جی اور مجید امجد کا نام سرِفہرست ہے( قبولِ عام سے بے نیاز ہو کر اس کی ترویج کے لیے بے مثال کام کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ روایت کے اندھادھندمقلد ہر نئے کو ناپسند کرتے ہیں۔ آزاد نظم کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا لیکن آفرین ہے جدید نظم نگاروں پر جنہوں نے ہماری شاعری کو نِت نئی جدت سے آشنا کیا اوریوں جدید شاعری کو مقبولیت بخشی۔ جس دور میں آزاد نظم اہلِ نظر کے نزدیک کارِ زیاں تھی اس دور میں اُس پر تنقید کا کارِعبث ہونا بعید از قیاس نہیں۔ وزیرآغا نے آزاد نظم پر میرا جی کی روایت میں باقاعدہ کام کی بنیاد رکھی۔ یہ کتاب اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ صاحبِ کتاب خود آزاد نظم کے ایک اچھے شاعر ہیں۔ ہر چند جدیدنظم پر میرا جی کی کتاب ‘‘اس نظم میں’’ بنیادی اہمیت کی حامل ہے تاہم وزیرآغا کی زیرِ نظر کتاب بھی جدیدنظم کی تفہیم و تعبیر میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب جدید نظم کی تہذیبی اور جمالیاتی شناخت کی تلاش و جستجو کا ثمر ہے۔
اس کتاب کا پیش لفظ صلاح الدین احمد نے تحریر کیا جبکہ نظم اور اس کا پس منظر اور اُردو نظم کے عنوان سے پینتیس صفحات پر مشتمل بھرپور مقدمہ خود صاحبِ کتاب نے رقم کیا ہے جس میں نظم اور نظمِ جدید کے نمایاں خدوخال اُجاگر کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا مضمون شاعرِ مشرق کی نظم نگاری پر ہے اور مقالے کا عنوان ‘‘فطرت پرستی کی ایک مثال’’ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظاہرِ فطرت پر قلم اُٹھانے والوں میں اقبال سرِفہرست ہیں۔ اوّل اوّل اُن کے ذوقِ جمال کا غالب میلان فطرت پرستی کی طرف رہا ہے۔ وزیرآغا نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں ہمالیہ، کہسار، مسجد قرطبہ، دریائے نیکر، موجِ دریا، ستارے، ایک آرزو، کنارِ راوی، نویدِ صبح کی سی نظموں کے اشعار پیش کیے ہیں اور اقبال کے احساسِ جمال اور مظاہرِ فطرت کے باب میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے :
‘‘اظہارِ فطرت کی طرف اقبال کی پیش قدمی نے اُن کے احساسِ جمال ہی کو صیقل نہیں کیا بلکہ ان کے احساسِ وسعت کی پیدائش اور نکھار میں بھی حصہ لیا ہے۔ دراصل آغازِ کار ہی میں اقبال کو فطرت کے ان مظاہر نے خاص طور پر متاثر کیا جو اپنی عظمت، رفعت، دوری اور پرشورروانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے)۱(۔ ’’
حقیقت یہ ہے کہ اقبال ہماری شاعری میں انقلابی آرزومندی کی ایک روشن مثال ہیں۔ وزیرآغا نے اقبال کے ابتدائی اورمشقِ سخن کے زمانے کی شاعری کو موضوعِ بحث بنا کر بڑے پتے کی باتیں کی ہیں۔اِسی طرح محمد حسین آزاد کی شاعری کوآزاد روی کی ایک مثال ثابت کیا گیاہے۔آزاد کی شاعری محض برائے بیت ، فرمائشی اور موضوعاتی نظموں پر مشتمل ہے۔محمد حسین آزاد کا اصل کمال اُن کی تخلیقی نثر اور اُن کی بے مثال انشا پردازی میں نمایاں ہے۔وزیرآغا نے اپنے اِس مضمون میں آزاد کی زندگی اور آزاد کی تخلیقی آزادہ روی کے حوالے سے جو خیال انگیز باتیں کی ہیں وہ سب آزاد کی نثر پر صادق آتی ہیں۔
فیض احمد فیض کی نظریاتی استقامت کو ڈاکٹر وزیرآغا انجماد سے تعبیر کرتے ہیں۔اپنے مضمون ‘‘انجماد کی ایک مثال……فیض’’ میں وہ فیض احمد فیض کی رومان سے حقیقت کی جانب پیش قدمی کو فیض کی شاعرانہ عظمت کی نفی قرار دیتے ہیں :
‘‘اب فیض زندگی کے کرخت اور ٹھوس حقائق کو دیکھتے ہیں۔ معاشی بے اعتدالیوں ، ظلم، کساد بازاری، اجتماعی غم اور فرد کلی حرص و آز کا جائزہ لیتے ہیں اور ناظر کو ایک نئے سماجی شعور سے آشنا کرانے کے لیے حرکت کرنے، پُرانے بتوں کو توڑنے اور زندگی کی قابلِ نفرت ناہمواریوں کو ختم کرنے کی تلقین کرنے لگتے ہیں اور اس عمل کے دوران میں ان کی نگاہیں اس منزل پر مرکوز رہتی ہیں جہاں پہنچ کر سارے دُکھ دُھل جائیں گے اور جنتا کی ساری مصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔ جہاں رات کی سیاہی پر سحر کا اُجالا مسلّط ہوگا اور نیا انسان ایک نئے عزم کے ساتھ زندگی کی شاہراہ پر آغازِ سفر کر سکے گا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عوام کو قعرِ مذلّت سے باہر نکالنے، ان کی رگوں کے منجمد خون میں حرکت اور حرارت پیدا کرنے اور اُن کے سماجی شعور کو صیقل کرنے کی اِن مساعی میں فیضؔ کی عظمت پنہاں ہے……یہ بات درست نہیں)۲(۔ ’’
اپنے اِس مضمون کے آخر میں فیض کے نظریاتی مؤقف کی افادیت اور عالمگیریت کا اعتراف کرنے کے باوجود فیض کی نظریاتی استقامت کوفیض کے فنی ارتقاء کی راہ کا سب سے بڑا سنگِ گراں قرار دیتے ہیں :
‘‘مندرجہ بالا تجزیاتی مطالعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فیض نے ‘‘نقش فریادی’’ میں جس اجتہادی نقطۂ نظر کو پیش کیا تھا۔ ‘‘دست صبا’’ اور ‘‘زنداں نامہ’’ میں بھی وہ اسی نقطۂ نظر کے اظہار اور اپنے اسی مسلک کی تشہیر پر کاربند رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ فیض کا یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔ ایک عالم اس نظریے کی افادیت اور ہمہ گیری کا معترف ہے۔ کون ہے جو ظلم، جبر، غلامی اور حق تلفی کی حمایت کرے گا لیکن فیض کا منصب شاعر کا ہے مصلح یا سیاسی لیڈر کا نہیں۔ لیڈر یا مصلح کے لیے ایک خاص نقطۂ نظر کی لکیر پر کاربند رہنا از بس ضروری ہے۔ لیکن شاعر، نشوونما، مسلسل تخلیقی عمل اور تدریجی ارتقاء کا نقیب ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی ایک مقام پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رُک جانا اُس کی شاعری کے حق میں مفید نہیں ہوتا۔ ‘‘نقشِ فریادی’’ کے بعد فیض کے ہاں جو ٹھہراؤ، ایک رُکی رُکی سی کیفیت ملتی ہے نقطۂ نظر کے انجماد ہی کا نتیجہ ہے)۳(۔ ’’
راقمہ فیض کی نظریاتی استقامت کے باب میں ڈاکٹر وزیرآغا کی اِس رائے سے متفق نہیں۔ فیض کے انقلابی ادبی مسلک کی تردید بھی ایک ادبی نظریاتی مسلک ہے۔ ادب و شعر کے وسیلے سے انقلابی سیاسی شعورکی ترویج و اشاعت کا مطلب انجماد ہر گز نہیں۔ جدید ادب میں اِس کا ایک ثبوت خود فیض احمد فیض کا شعری اور فنی ارتقائے مسلسل ہے۔نظم ‘‘دوعشق’’ سے لے کر طویل نظم ‘‘سرِوادیٔ سینا ’’اور پھر‘‘ویبقیٰ وجہ ربک’’کی سی نظموں تک فیض کا فکری اور فنی ارتقاء مسلسل جاری رہا ہے۔یہ مسلسل ارتقاء فیض کی نظریاتی استقامت سے پھوٹا ہے۔ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وزیرآغا کا فنی مسلک شاعر کی سماجی ذمہ داری اور شاعری کے انقلابی کردار کو شاعری کے جمالیاتی تقاضوں سے انحراف قرار دیتا ہے۔بے شک یہ بھی ایک قابلِ قدر فنّی مسلک ہے مگر اِس مسلک کی تکریم کے باوجود راقمہ فیض کے فنی مسلک کو بھی قابلِ تحسین سمجھتی ہے۔ اپنے فنی مسلک پر قائم رہتے ہوئے ڈاکٹر وزیرآغا مجید امجد کی نظم نگاری کے محاسن اُجاگر کرتے وقت طبقاتی ظلم اور معاشی استحصال کے سے مضامین سے بڑی حد تک صرفِ نظر کرنے کے خوگر ہیں۔نظم ‘‘کنواں’’ کا درج ذیل بند اُنہیں کسی سیاسی رمزیت یا تہہ در تہہ معنویت کی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہتا ہے :
کنوئیں والا گادی پہ لیٹا ہے مست اپنی بنسی کی میٹھی، سریلی صدا میں
کہیں کھیت سوکھا پڑا رہ گیا اور نہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری
کہیں بہ گئی ایک ہی تند ریلے کی فیاض لہروں میں کیاری کی کیاری
کہیں ہو گئیں دھول میں دھول، لاکھوں رنگا رنگ فصلیں، ثمر دار، ساری
پریشاں پریشاں
گریزاں گریزاں
تڑپتی ہیں خوشبوئیں دامِ ہوا میں
نظامِ فنا میں
اسی طرح اپنی نظم ‘‘درسِ ایّام’’ میں مجید امجد نے اپنے سیاسی شعور اور اپنی انقلابی آرزومندی کا اظہار فنّی جمالیات کے تمامتر تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر یوں کیا ہے :
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدھا تبسموں سے لدے طاقچے گئے !
آنکھوں کو چھیدتے ہوئے نیزوں کے سامنے
محرابِ زر سے اُٹھتے ہوئے قہقہے گئے !
ہر سانس لیتی، کھال کھچی، لاش کے لیے
شہنائیوں سے جھڑتے ہوئے زمزمے گئے !
دامن تھے جن کے خون کی چھینٹوں سے گلستاں
وہ اطلس و حریر کے پیکر گئے! گئے !
ہر کنجِ باغ ٹوٹے پیالوں کا ڈھیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
) ۲ (
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
یہ ہاتھ، جھریوں بھرے، مرجھائے ہاتھ، جو
سینوں میں اٹکے تیروں سے رستے لہو کے جام
بھر بھر کے دے رہے ہیں تمھارے غرور کو،
یہ ہاتھ، گلبنِ غمِ ہستی کی ٹہنیاں
…… اے کاش، انھیں بہار کا جھونکا نصیب ہو !……
ممکن نہیں کہ ان کی گرفتِ تپاں سے تم
تا دیر اپنی ساعدِ نازک بچا سکو
تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں
ہم بیکسوں کی ہڈیاں، لیکن یہ جان لو
اے وارثانِ طرّۂ طرفِ کلاہِ کےَ،
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے !
ہرچند مجید امجد کی شاعری میں مروّجہ نظامِ زر کے خلاف احتجاج کی لَے بُلند آہنگ نہیں تاہم زیرِ لب بھی نہیں۔نظم ‘‘جہانِ قیصر و جم میں’’ کا اختتامی بند اِس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے :
کسی کے ہانپتے ارماں ، جنھیں جگہ نہ ملی ،
نظامِ زر کے چمکتے ہوئے قرینوں میں ……
اب ایک دوزخِ احساس بن کے کھَولتے ہیں
مرے تڑپتے ارادوں کی آبگینوں میں !
پڑا رہے گا یونہی کب تک، اے خَسِ پامال !
بلند محلوں کے رفعت نورد زینوں میں
عطا ہوا ہے تجھے بھی یہ حق مشیّت سے،
خراج مانگ بہاروں کی بادشاہت سے،
ڈاکٹر وزیرآغا زیرِ نظر مضمون میں اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ‘‘اِن کی نظموں میں نفسیاتی مطالعہ بھی ہے اور معاشی ابتری کا احساس بھی۔ اِن میں زَر کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف احتجاج بھی ہے پھر بھی مجموعی تاثر یہی مرتب ہوتا ہے کہ شاعر کسی ایک نقطۂ نظر کا رسیا نہیں)۴(۔’’اپنے اِس نقطۂ نظر کی وضاحت وہ درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
‘‘مجید امجد کی نظموں کے مطالعے سے پہلا تاثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ شاعر کے باطن کی دُنیا خارج کے مظاہر سے منسلک اور ہم آہنگ ہے۔ مجید امجد کی نظموں میں توازن یا ربطِ باہم کے کئی مدارج ہیں۔ خالص ارضی سطح پر یہ توازن جذبے کی اضطراری کیفیت اور مادی اشیاء کی بے جان صورت کے مابین استوار ہوا ہے۔ مجید امجد کی نظموں میں قریبی اشیاء کے وجود کا گہرا احساس ہوتا ہے۔ ممٹیاں، کلس، گلیاں، بس اسٹینڈ، پان، چائے کی پیالی، دھوپ رچے کھلیان، آنگن، کھڑکیاں، نالیاں اور اس طرح کی اَن گنت دوسری اشیاء جو شاعر کے ماحول کا حصہ ہیں بڑی آہستگی سے اس کے کلام میں ابھرتی چلی آئی ہیں۔ شاعر کا مشاہدہ بڑا گہرا ہے اور اس کی نظروں سے ماحول کا کوئی نوکیلا پہلو اوجھل نہیں۔ تاہم مجید امجد کا یہ مشاہدہ محض خارجی ماحول کی تصویر کشی تک محدود نہیں۔ یہ سارا ماحول اور اس کی اشیاء شاعر کے تجربے کی چکاچوند سے اکتساب ِ نور بھی کرتی ہیں)۵(۔ ’’
ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی اسی رائے کو اپنے ایک اور مضمون بعنوان ‘‘خرقہ پوش و پابہ گل’’میں زیادہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے :
‘‘اس)مجید امجد( کی ذات کا پھیلاؤاس بات سے عیاں ہے کہ اس نے کائنات کے پس منظر میں ‘‘حسن پُراسرار’’ کا ادراک کیا ہے۔ اسے زمان و مکان کی حدود میں قید کر کے نہیں دیکھا اور اس کا مسلک اس بات سے ظاہر ہے کہ اس نے یہ نظمیں محض تسکینِ ذوق کے لیے لکھی ہیں، کسی نظریاتی مسلک کے تابع ہو کر نہیں لکھیں۔ گو ان میں معاشرے کی کروٹوں کا جو شعور جھلکتا ہے وہ ڈھول تاشوں کے ساتھ نظریاتی پراپیگنڈہ کرنے والوں کے شعور سے کہیں زیادہ پختہ اور جاذبِ نظر ہے)۶(۔ ’’
یہی اندازڈاکٹر وزیرآغاکے مضمون بعنوان ‘‘مراجعت کی ایک مثال ۔اختر الایمان’’ میں فلسفیانہ استدلال کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا آغاز درج ذیل سطور سے ہوتا ہے :
‘‘لامحدود و لازوال کائنات ہو یا مختصر اور ناپائدار زندگی۔ مظاہر کی دو سطحیں ایک دوسری کے مقابل اُبھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک سطح تو انتشار، تقسیم اور تصادم کی سطح ہے اور دوسری نظم و ربط، ایکتا اور سکون کی۔ عام طور پر انسان مقدم الذکر سطح پر مصروفِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے ماحول سے متصادم ہوتا اور جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے مکروہاتِ دُنیا کی زنجیروں میں اسیر رہتا ہے۔ اُس کے سامنے جسم کے تقاضے ہی زندگی کا منتہائے مقصود ہیں اور وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتوں اور صعوبتوں کے جال میں اُلجھا گویا سطح کے اوپر بسر اوقات کرتا چلا جاتا ہے۔ نفسیات کی اصطلاح میں اس سطح کو Trivial Plane کا نام دیا گیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں زندگی کی ایک ایسی سطح بھی ہے جو انتشار اور تصادم کے پسِ پشت ایک وسیع و لامحدود ‘‘چُپ’’ کی صورت میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسی بات کو ایک تشبیہہ سے بیان کرنا مقصود ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سمندر کی ہر دم متحرک اور سیماب آسا سطح کے بہت نیچے گہرائی، سکون اور تاریکی کی ایک سطح بھی ہے۔ جہاں انسان کا نسلی ورثہ روحانی سرمایہ اور ابدی قدروں کا اثاثہ آبدار موتیوں کی طرح بکھرا پڑا ہے۔ اس سطح کو نفسیات کی اصطلاح میں Tragic Plane کا نام دیا گیا ہے۔ ایک عام انسان کی زندگی میں ان دو سطحوں کا آپس میں ملاپ نہیں ہوتا اور فرد محض پہلی سطح پر اپنی زندگی گزارتا چلا جاتا ہے لیکن زندگی کے بعض حادثات اُسے اس طور پر متاثر کرتے ہیں کہ وہ اچانک زندگی کی‘‘ دوسری ’’سطح سے متعارف ہو جاتا ہے ۔ مثلاً سخت علالت، محبت میں ناکامی موت سے قربت، شدید تنہائی وغیرہ صورتوں میں فرد اپنی ذات میں غوطہ لگا کر اس ‘‘دوسری’’ سطح تک رسائی حاصل کرتا اور یوں اپنے ذہنی اور احساسی تموج کو سکون اور ایکتا کے وسیع تر پسِ منظر میں ضم کر کے مائل بہ سکون ہو جاتا ہے)۷(۔ ’’
اخترالایمان سے ڈاکٹر وزیر آغا کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ خارجی زندگی سے داخلی زندگی کو ہجرت توکرتے ہیں مگر یہاں مستقل قیام نہیں کرتے اور دوبارہ خارجی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔وزیرآغا کی رائے میں ‘‘یہ ایک ایسا المیہ تھا جس نے اختر الایمان کی نظم نگاری کو خاصا نقصان پہنچایا’’۔اِس سلسلے میں وہ اختر الایمان کے ترقی پسند احباب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
‘‘صاف ظاہر ہے کہ احباب کے اس حلقے نے اخترالایمان سے کہا ہوگا کہ عظیم شاعری تو بڑے بڑے موضوعات سے متعلق ہوتی ہے۔ اس میں جنتا کی گونج، نقطۂ نظر کا اظہار اور فلسفے کی چاشنی کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ شخصی غم کے اظہار سے تو محض‘‘ قنوطی، یاس انگیز اور گھٹن’’ کی حامل شاعری ہی معرضِ وجود میں آ سکتی ہے۔……لیکن زندگی کی ‘‘پہلی سطح’’ کی طرف اخترا لایمان کی مراجعت محض چند احباب کے تقاضوں کے احترام میں شاید نہیں تھی۔ غور کیجیے تو یہ زمانہ ہی ایسا تھا جس میں ‘‘شخصی غم’’ غمِ دوراں سے کمتر قرار دیا جانے لگا تھا اور فرد کی ذات اور شخصیت جنتا کے وسیع تقاضوں کے سامنے ہیچ متصور ہونے لگی تھی۔ اُردو میں ترقی پسند شاعری کے آغاز کا یہ زمانہ تھا۔ فیض نے ‘‘نقشِ فریادی’’ میں غم جاناں کو غمِ دوراں میں مبدّل ہوتے دکھایا تھا اور اگرچہ یہ گریز بجائے خود خلوص پر مبنی تھا اور اسی لیے فیض کو اس عمل میں بڑی کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی، تاہم بہت جلد یہ چیز ایک میکانکی صورت اختیار کر گئی اور فیض کے بعد ساحر، مجاز، جاں نثار اختر اور دوسرے بہت سے نظم گو شعراء نے فیض کے تتبع میں ایسی نظمیں لکھنے کا آغاز کیا جن میں شخصی غم کی نفی کر دی گئی تھی اور شاعر کے ہاتھ میں ایک پرچشم تھما دیا گیا تھا۔ یہ عوامی تحریکات کا زمانہ تھا۔ اور اُردو نظم نے تخیل اور انکشافاتِ ذات کے بعد ‘‘عوامی سطح’’ سے پہلی بار اس طرح کا تعارف حاصل کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی نظمیں اپنی وسیع اپیل اور نعرہ بازی کی صفات کے باعث بہت مقبول ہوئیں اور بیشتر شعراء نے غیر رسمی طور پر اس راستے کو فن کی سلامتی کے لیے موزوں ترین راستہ سمجھا۔اختر الایمان بھی اسی دَور کا شاعر تھا اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بھی فن کے اس نئے تقاضے سے متاثر نہ ہوتا۔ میری رائے میں ‘‘تاریک سیّارہ’’ میں اختر الایمان کی مراجعت فن کے بارے میں بعض مقبول عام نظریات ہی کے تابع تھی اور اختر الایمان نے اگر ‘‘یاس اور قنوطیت اور گھٹن’’ کی شاعری سے مُنہ موڑ کر ارادی طور پر خاک سے پیمانِ وفا باندھنے اور ‘‘تاریک سیارہ’’ سے رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی تو یہ خارجی ماحول کے اثرات کا ایک نتیجہ تھا اور بس!)۸ (’’
شعر و ادب میں کسی اجتماعی نصب العین کی عکاسی اور ترجمانی سے علیحدگی کا یہی روّیہ یوسف ظفر ، قیوم نظر اور راجہ مہدی علی خان پرخیال انگیز مضامین میں اختیار کیا گیا ہے۔ راجہ مہدی علی خان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کی تحسین کے دوران لکھتے ہیں :
‘‘راجہ مہدی علی خاں کی نظمیں تحصیلِ مسرت کی جو ایک عمدہ مثال پیش کرتی ہیں، اُس میں زندگی اور اس کی کروٹوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی وہ روش ہی نہیں ملتی جو بچپن کا طرۂ امتیاز ہے، بلکہ زندگی سے مسرت اخذ کرنے کا وہ رُجحان بھی ملتا ہے جو بچے سے مخصوص ہے۔۰۰۰ راجہ مہدی علی خاں کی نظموں میں پرانی اشیاء کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے کا فقط وہ رُجحان ہی نہیں ملتا جو ناہمواریوں کو سطح پر لاکر تحصیلِ مسرت کا موجب بنتا ہے، بلکہ اُن کے ہاں زندگی کے مظاہر، کیفیات اور عناصر سے مسرت کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی وہ کوشش بھی موجود ہے جو اُردو نظم کی عام ڈگر سے ہٹ کر معرضِ وجود میں آئی ہے)۹(۔ ’’
اُردو شاعری میں راجہ مہدی علی خاں کے نئے اور منفردزاویۂ نگاہ کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے زندگی کی نفی کے رُجحان پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :
‘‘شاید یہ ہمارے مخصوص فلسفیانہ افکار کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں فاروانی کے باوصف زندگی کی نفی کا رُجحان امسلط رہا ہے اور فرد نے ارضی کیفیات سے قطع نظر کر کے حیاتِ جاوید کی تلاش میں اپنی تمام تر مساعی کو وقف کر رکھا ہے۔ زندگی بعد از موت کے تصور کی مقبولیت کی وجہ غالباً یہی ہے۔ پھر حیاتِ جاوید کی تلاش میں زندگی کی عام مسرتوں اور رعنائیوں سے کنارہ کش ہونے کا جو رُجحان اُبھرا اور جسے ہمارے مخصوص فلسفیانہ اور مذہبی نظریات نے فروغ دیا خود ہمارے ادب بالخصوص شاعری پر بھی اثر انداز ہوا اور ناآسودگی، غم اور خلش نے ہماری اصنافِ شعر بالخصوص غزل میں ‘‘مستقل’’ جگہ بنا لی۔ اس پس منظر میں راجہ مہدی علی خاں کی نظموں کا مطالعہ کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس شاعر نے زمینی مسرت کی نفی کرنے کی بجائے ایک مثبت طریق کار کو حرزِ جاں بنایا ہے اور زندگی کے مظاہر سے کنارہ کش ہو کرا پنی ذات میں سمیٹنے کی بجائے زندگی کے مظاہر کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عظیم شاعری دردمندی اور غم کی پیداوار ہے اور اسی لیے بذلہ سنجی )Wit( کی شاعری کو فن کے زینے پر کوئی بلند مقام حاصل نہیں۔ تاہم یہ شاعری فرد کو زندگی اور اس کی مسرتوں سے قریب تر لانے کا جو فریضہ سرانجام دیتی ہے، اُس کی اہمیت کسی طور بھی نظرانداز نہیں ہو سکتی)۱۰(۔ ’’
ن م راشد کی شاعری پر ڈاکٹر وزیر آغا کا مضمون جداگانہ رنگ و آہنگ کا حامل ہے۔یہاں فرد کی زندگی میں مسرت کی تلاش سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی کے عذاب و کرب کو راشد کی شاعری کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ‘‘بغاوت کی ایک مثال ’’کے عنوان سے ن م راشد کی شاعری پر اُن کے مضمون میں راشد کی شاعری کے موضوع و مطالب کو پہلی بار زیرِ بحث لایا گیا تھا۔پیشتر ازیں ہماری تنقید کی روشِ عام راشد کی شاعری میں ہیئت و اسلوب کی جدّت کی تحسین و تردیدتک محدود چلی آ رہی تھی۔وزیرآغا کے نزدیک ن م راشد کا عہد انتشار اور افراتفری سے عبارت تھا۔ آبادی کی دیہات سے شہروں کی طرف پیش رفت، مغربی کلچر اور تعلیم کی یلغار، انفرادی ترقی کا جنون ایسی چیزوں نے انسان کو خود غرضی کی منزل تک پہنچایا جہاں انسانوں کا رشتہ اپنے ماضی کی اقدارِ حیات سے کٹ گیا۔ جس کے باعث وہ ذہنی خلفشار اور فردیت کا شکار ہوا۔ باغی ذہنیت افسوسناک حد تک انسان کے حواس پر چھا گئی۔وزیرآغا اپنے اِس مضمون میں اسلوب اور ہیئت کو زیرِ بحث نہیں لائے۔
ڈاکٹروزیرآغا کا یہ مقالہ راشد کی شاعری کی فکری جہات کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ مقالہ اُس زمانے میں لکھا گیا جب جدیدنظم کی تنقید صرف ہیئت و اسلوب کے حصار میں بند تھی۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے اُردو تنقید کو اِس حصار سے باہر نکالااور ایک اجتہادی شان کے ساتھ یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ڈاکٹر وزیر آغا کایہی اجتہادی زاویۂ نگاہ میرا جی پر اُن کے مشہور مضمون بعنوان‘‘دھرتی پوجا کی ایک مثال’’ میں کارفرما ہے۔میرا جی کی شاعری کی تفہیم و تفسیر میں ڈاکٹر وزیرآغا کا یکسر نیا علمی اور تنقیدی اندازِ نظر ایک طویل ہنگامۂ بحث کا سبب بن گیا تھا۔ ‘‘نظمِ جدید کی کروٹیں ’’کے عنوان سے کتابی صورت میں جدید نظم پر اُن کے اِن مضامین کی اشاعت نے نئے علمی مباحث کا دروازہ کھول دیا ۔
‘‘دھرتی پوجا کی ایک مثال’’ کے عنوان سے میرا جی کی نظموں پر بحث کی گئی ہے۔ سرزمین ہند سے میرا جی کی شدید وابستگی کو اس کا کلام ظاہر کرتا ہے۔ وزیرآغا نے میرا جی کے اس انوکھے رجحان کے بارے میں چشم کشا حقائق سے پردہ اُٹھایاہے۔ یہاں میرا جی کے عشق اور ثناء اﷲ ڈار سے میرا جی ہونے تک کے سفر کو اجتماعی لاشعور کے آئینے میں دیکھا گیا ہے۔ وزیرآغا کے بقول میراسین کی زندگی محض اس لاشعوری رجحان کو جنبش میں لانے کی موجب بنی۔ اسی کے باعث میرا جی صدیوں پرانی وابستگی اور پوجا کے رجحان کو اپنے کلام میں جابجا ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق سے تخلیق کار کو الگ کر کے پڑھا جائے تو یہ ساری باتیں بے معنی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں صورت حال مختلف ہے۔ وزیرآغا نے میرا جی کی دھرتی ماتا سے شدید وابستگی کو ان کی نظموں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان نظموں میں حرامی، دوسری عورت، چل چلاؤ، دوکنارہ، عدم کا خلا، ایک نظم، دور ونزدیک، جنگل میں ویران مندر، برہا، کھٹور، شام کو راستے پر، تغاوت راہ، تنہائی، برقع، اس کی انوکھی لہریں، مجاور،آدرش، رخصت، ہندی نوجوان، سنجوگ، ترقی پسند ادب، ایک منظر، اجنتا میں ایک ہی کہانی شامل ہیں۔ وزیرآغامیرا جی کی مجموعی ذہنی و فکری پیش رفت اور اسلوبِ اظہار پر بات کرتے ہوئے درج ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں :
‘‘میرا جی نے دھرتی پوجا کی ایک اہم مثال قائم کی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس خاص میدان میں )جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے( میرا جی کی حیثیت منفرد اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعرا میں سے شاید ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی، شغف اور سرزمین وطن سے ایسے گہرے لگاؤ کا ثبوت بہم پہنچایا ہے، جیسا کہ میرا جی کے ہاں نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میرا جی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی، اس کی اپنی مادرِ وطن سے خون حاصل کیا ہے اور اسی لیے اس میں وطن کی خوشبو، حرارت اور رنگ نمایاں ہے)۱۱(۔ ’’
مجلہ ‘‘فنون’’ میں اِس مضمون کی انتہائی تحسین کے ساتھ ساتھ شدید تنقیص کی حامل تحریریں شائع ہوئیں۔ اس اعتبار سے ہر دوتنقیدی روّیے ڈاکٹر وزیر آغا کی خدمت میں خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتے ہیں۔اب تک جدید اُردو تنقید میں کسی ایک مضمون پر اِس قدر گرما گرم اور اتنی خیال انگیز بحث نہیں ہوئی۔‘‘نظمِ جدید کی کروٹیں’’پر اپنے تبصرے میں انور خواجہ نے لکھا تھا :
‘‘دھرتی پوجا کی ایک مثال……میراجی’’ اس کتاب میں سب سے بصیرت افروز اور میرے نزدیک جدید تنقیدی ادب میں ایک بلند پایہ مقالہ ہے۔ میرا جی کی شاعری کے ایک بنیادی رجحان کو جس طرح وزیرآغا نے منکشف کیا ہے اس سے یہ مقالہ ایک قابلِ قدر تخلیق بن گیا ہے۔ میرا جی پر بے شمار نقادوں اور ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور عام طور سے اس پر ابہام اور جنس کا الزام لگایا گیا ہے لیکن میرا جی کی شاعری کی اصل روح اور اُس کی شخصیت کی تعمیر میں جن عناصرنے کام کیا اُن کو پہلی دفعہ وزیرآغا نے آشکار کیا ہے۔وزیرآغا نے نقادوں کی اس غلط رائے کو بڑی خوبی سے رد کیا ہے کہ میرا جی کی ابہامیت اور جنسیت ملارمے اور بودلیئر کے اثرت کا نتیجہ ہے۔ میرا جی نے تمام اثرات اپنی سرزمین سے قبول کیے۔ اس کے تمام موضوعات کا تعلق اُس کے وطن سے ہے، اُس کی دیومالا اور روایات سے ہے۔ میرا جی وشنومت کے بہت قریب ہیں۔ اس مت کے نمایاں پہلو کرشن اور رادھا کی ناجائز محبت ہے۔ وشنومت میں جنس کا واضح بیان اس سرزمین کی زرخیزی سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔ یہاں صرف وہی علامتیں رائج ہو سکتی ہیں جو زرخیزی اور پیدائش سے وابستہ ہیں۔ میرا جی جب جنس کا ذکر کرتا ہے تو اس نظریے کو ذہن میں رکھتا ہے اور ہم عصر زمانے کے اخلاقی نظام کی پروا نہیں کرتا۔ وزیرآغا کا یہ مقالہ میرا جی کو سمجھنے کے لیے میرے نزدیک ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے مجھے وزیرآغا کے اس دعویٰ سے اتفاق ہے کہ اردو نظم میں میرا جی ایک نیا رجحان لائے جس کو بعد کے شعرا نے اپنایا اور اردو نظم کا دھارا موڑ دیا)۱۲(۔ ’’
اِس کے برعکس جناب عمیق حنفی اپنے مضمون بعنوان ‘‘مِیراجی، ویشنومت اور وزیرآغا’’میں دعویٰ کرتے ہیں کہ :
‘‘ڈاکٹر آغا کا یہ مضمون منطقِ معکوس کی ایک مثال ہے۔ ہرچند کہ اُنہوں نے میرا جی کو شریف النفس، مہذب اور مفکر شعراء کی دنیا میں بحال اور Rehabilitate کرنے کی نہایت مخلصانہ کوشش کی ہے اور اپنے مؤکل کی پیروی میں شہادتیں ایجاد تک کر ڈالی ہیں لیکن اس کوشش میں ویشنومت، بھگتی تحریک اور ہندوستان کی ہزارہا سال پرانی تہذیب کے متعلق غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے کئی نئے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ وہ Lense اُلٹ دیا گیا ہے جس سے میرا جی کو اب تک دیکھا جا رہا تھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ علّت معلول بن گئی ہے اور مقتول قاتل نظر آنے لگا ہے)۱۳(۔ ’’
اسی مضمون میں آگے چل کر عمیق حنفی ڈاکٹر وزیرآغا کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
‘‘شیؤاور ویشنومت کی داغ بیل برہمنوں کے ہاتھوں نہیں پڑی تھی۔ برہمنوں کی دست درازیوں اور استبداد سے جب لوگ تنگ آنے لگے تو قدیم ویدک مذہب کے ردِّعمل کے طور پر کچھ رہبانی اور متصوفانہ فرقے رونما ہوئے جو برہمنی شریعت کے برخلاف نفس کشی، خاموشی، ترک تپسیا کی تبلیغ کرتے تھے۔ بدھ اور جین مذاہب کی ابتدا بھی انھیں حالات اور ایسی ہی صورت میں ہوئی۔ ویشنومت بھی برہمنوں کے استبداد اور ویدک مذہب کی سختی اور گرانی کے خلاف ردِعمل کی صورت ہی میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا لیکن یہ غیر آریائی پیداوار نہیں تھا، نہ افزائش اور زرخیزی سے متعلق تھا اور نہ اس کی ابتدا جنوب سے ہوئی تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ تحقیق ایجاد بندہ ہے۔ معلوم نہیں ویشنومت کو قدیم ہندوستانی باشندوں کے تہذیبی ابال کی صورت وزیرآغا نے کس طرح قرار دیا ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے وشنو پوجا، ویشنومت،شیؤمت، شاکت مت اور بھگتی تحریک کو گڈمڈ کر کے ‘‘استخراجِ نتیجہ’’ کا دلچسپ عمل کیا ہے)۱۴(۔ ’’
مزید یہ کہ :
‘‘ڈاکٹر آغا ویشنو مت اور اس کی بھگتی تحریک کو رواروی میں ایک ہی تحریک سمجھ کر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔ یہی نہیں شیومت اور ویشنومت جو ایک عرصۂ دراز تک باہم دست و گریباں رہے ہیں ڈاکٹر آغا کی بے احتیاطی سے ہم معنی ہو گئے ہیں۔…… ویشنو مت اور اس کی بھگتی تحریک میں وہی لطیف سا مگر امتیازی فرق ہے جو اسلام اور تصوف کے درمیان ہے۔ ڈاکٹر آغا نے اس فرق کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ ……ویشنو مت کی بھگتی تحریک وشنو کے دواوتاروں یعنی رام اور کرشن کی بھگتی کی عوامی اور متصوفانہ تحریک تھی۔ اسی تحریک کی ایک شاخ ‘نرگنی’ سنتوں کی تھی)جیسے کبیر( رام بھگتی والی شاخ میں تلسی داس اور کرشن بھگتی رال شاخ میں بے شمار سنت شاعر شامل ہیں۔……کہا جاتا ہے کہ واسدیوکوں )آبھیروں( میں کانھ نام کے بانسری بجانے والے ایک لڑکے اور ‘راھا’ نام کی ایک لڑکی کی پریم کہانی بڑی مقبول تھی اور اسی کہانی کو بعد میں روحانی اور مذہبی رنگ دے کر رادھا کرشن کے حقیقی ،علامتی اور روحانی معاشقے کی مقدس داستان بنا دیا گیا۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اس مشکل کا کیا حل ہے کہ اگر کانھ کرشن بن گیا تو راھا بھی اسی وقت رادھا کیوں نہ بن گئی۔ کرشن کی زندگی میں رادھا کو صدیوں بعد کیوں چپکے سے شامل کر دیا گیا؟……کرشن اور رادھا عوامی ذہن میں اس حالت کا منظر پیش کرتے ہیں جس میں یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ کب ایک لوک کتھا کا ہیرو دیوتا بن گیا اور کب یہ دیوتا ایک معمولی آدمی کی طرح بیوہارکرنے لگا، معمولی اور غیر معمولی، فطری اور فرق الفطرت عام اور خاص ایک دوسرے میں تحلیل ہو جانے، ملنے اور پھر جدا ہو جانے کا یہ دلچسپ اور سحر آفریں عمل انسان اور اس کی اجتماعی زندگی کے متعلمین کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس حیرت انگیز معمے سے لطف اندوز ہونا اور بات ہے لیکن اسے زرخیزی اور افزائش کے اساطیر کے طریقے اور نفسیاتِ جنس کی اصطلاحات کے ذریعے حل کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ڈاکٹر آغا سمجھتے ہیں۔……جنس کا جو عجیب اور بگڑا ہوا Distorted منظر میرا جی نے پیش کیا اس کا پس منظر ہمارے اجتماعی لاشعور اور ہندوستان کی قدیم تہذیب میں تلاش کرنا بے سود اور غلط ہے۔ میرا جی نے بدعملی پہلے کی، اس کا جواز بعد میں تلاش کیا۔ اس کی ذہانت، شرارت اور چالاکی کی داد نہ دینا بخل ہے۔……رادھا کرشن کا Cult اور Myth اور ان کا تتبع کرنے والی شاعری کئی منازل اور کئی صورتوں سے گزری ہے۔ عوام کی داستان طرازی، فلسفیوں کی موشگافی اور شاعروں کی رنگ آمیزی نے انھیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے اور اس قدر مختلف النوع اور رنگا رنگ عناصر نے انھیں ترتیب دیا ہے کہ جب تک ان کا معاشی، عمرانی، نفسیاتی اور تاریخی مطالعہ متوازن انداز سے نہ کیا جائے کوئی بات اس یقین سے نہیں کہی جا سکتی جس یقین سے ڈاکٹر آغا نے کہی ہے)۱۵(۔ ’’
میرا جی کی شاعری میں دھرتی پوجا کے تصورات،احساسات اور تلازمات کی تلاش و جستجومیں ڈاکٹر وزیرآغا نے جو نتائج اخذ کیے ہیں اُن کی تردید میں عمیق حنفی کا استدلال قابلِ غور ہے۔لکھتے ہیں :
‘‘ویشنوبھگتی کی شاعری میں کرشن کے Erotic اور Pastoral پہلوؤں کا Allegoric اور Pornographic ہوجانا ابتذال اور اخلاقی زبوں حالی کے دور کی بات ہے اور اس دور کی شاعری کے اس رنگ کو کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ میرا جی اسی دور اسی رنگ کا دلدادہ تھا کیونکہ یہیں اسے اپنی مرغوب غذا حاصل ہو سکتی تھی۔ اس کے جنسی ابتذال اور بے راہ روی کے لیے موزوں اور مناسب لباس پیکر رنگ اور بو یہیں سے مل سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رادھا اور کرشن کے علاوہ غیرویشنوی دیوی دیوتا مثلاً شِو اور کالی کا پجاری بھی بن جاتا ہے اور ان میں بھی اسے اپنے مطلب کے پہلو ہی نظر آتے ہیں۔ ویشنو بھگتی کی انسان دوستی، خلوص، روحانیت، اخوّت، مساوات اور دردمندی کے بجائے وہ صرف جنسی علائم و رموز کا انتخاب ہی کیوں کرتا ہے؟ ایک زمانہ وہ تھا جب شعرا اور بھگت روحانی رموز اور اپنے عقائد کے اظہار کے لیے جنسی علامتیں اور عشقیہ اندازِ بیان کا بے حجابانہ استعمال کرتے تھے۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ روحانی علائم و استعمارات میں بھی جنسی اسرار کی تلاش کی جاتی ہے۔ فرائڈ زندہ باد!)۱۶(۔ ’’
اپنی تمام تر علمی گہرائی،وسعت اور تجزیاتی بصیرت سے پھوٹنے والے قوّی استدلال کے ساتھ عمیق حنفی میرا جی کی شاعری پر وِشنومت کے اثرات کی نفی کرتے ہیں۔ عمیق حنفی کے نزدیک :
‘‘بات صرف اتنی ہے کہ میرا جی نفسی مریض اور جنس گزیدہ تھا۔ وہ ذہین فن کار تھا لیکن Perverted بلکہ Inverted Genins تھا۔ وہ کرشن اور رادھا کے جلوے دیکھ کر ویشنومت کا پجاری اسی طرح بن گیا تھا جیسے کثرتِ ازدواج کی رعایت سے فائدہ اُٹھانے کی نیت سے کوئی مشرف بہ اسلام ہو جائے اور حلیہ بدل ڈالے۔ اور پھر کوئی وزیرآغا کی یہ بات کس طرح مان لے کہ ہندوستانی ثقافت اور ہندو مذہب نے اپنے اجتماعی لا شعور کے اظہار کے لیے ثناء اﷲ میرا جی ہی کو واحد حقدار منتخب کیا اور اسے اپنی ہزارہا سالہ تہذیب اور مبینہ زرخیزی، افزائشی اور جنسی علامات کا متولی کیوں مقرر کیا؟ اس ارضیت اور ہندوستانیت کے حسن اور خلوص سے کسے انکار ہے لیکن ان خصوصیات کو لاشعور اور اجتماعی لاشعور میں تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے شعور کی سطح پر ہی ان کا راز اظہر من الشمس ہے۔ یہیں اس کی نظم‘‘ کیفِ حیات’’کے دستی آہنگ کا سرِنہاں موجود ہے۔
جیون کی ندی رک جائے
رُک جائے تو رُک جائے
رُک جائے تو رُک جائے
اور‘‘لبِ جوئبارے’’ آلودہ ونمدارہاتھ کے معمے کا حل بھی یہیں مل جائے گا۔ ‘‘بعد کی اُڑان’’ بھرنے والے کالے کلوٹے کا جن کوّے کے بسیرے کی شاخ، ‘‘سرسراہٹ’’ کرتی ہوئی سلوٹوں کی لہروں کے بستر پر آرمیدہ میرا جی کی جنسی خود لذتی کا سرچشمہ بھی یہیں نظر آ جائے گا۔ یہ اور ایسی کئی نظموں کو کون سی پوجا کی مثال قرار دیا جائے گا؟ ڈاکٹر آغا ان بہت سی نظموں کو دھرتی پوجا اور ویشنومت سے اور ہندوستان کے اجتماعی لاشعور سے کس طرح یکجان فرمائیں گے؟ دراصل میرا جی کی دھرتی پوجا بھی ناری پوجا کی ایک صورت ہے کہ قدیم ہندوستان میں ناری اور دھرتی کو مماثل قرار دیا گیا تھا۔ ……میراجی کی شاعری میں ہندوستان کی دھرتی اور اس کا حسن، دیومالائی تلمیحات، استعارات اور تشابیہہ، علائم و رموز کی درایت رنگ اور رس بے شک ہے اور کافی گہرا ہے لیکن یہ سب شعوری اکتساب ہے۔……ویشنو مت اور دھرتی پوجا اور اجتماعی لاشعور کی باتیں محض تاویلات ہیں اور ان عناصر نے اسے غلط راہ پر نہیں لگایا۔ اپنی کجروی کے لیے وہ آپ ہی ذمہ دار ہے)۱۷(۔ ’’
میرا جی کی نسبت سے دھرتی پوجا کے تصوّر کے اس انہدام پر ڈاکٹر وزیرآغا نے ‘‘فنون’’ کے اگلے شمارہ)۷-۶( میں‘‘میرا جی اور دھرتی پوجا’’ کے عنوان سے ایک اور مضمون قلمبند کیا جس میں عمیق حنفی کے اخلاقی معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔وہ اپنے اِس مضمون کا اختتام درج ذیل پیراگراف پر کرتے ہیں :
‘‘یہ انداز بجائے خود کسی عمدہ اخلاقی معیار کا نمونہ نہیں۔ فاضل مضمون نگار کا جنس پرستی کے سلسلے میں میرا جی سے برہم ہونا سراسر زیادتی ہے۔ بے شک صاحبِ مضمون کی نظروں میں جنس کو موضوع بنانا ایک ناقابلِ عفو جرم ہے لیکن ایں گناہِ ایست کہ در شہر شما نیز کنید! پھر جنس سے اس قدر بدکنا بھی تو خالص ملّایانہ عمل ہے ورنہ آج کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ زندگی کی تمام اعلیٰ قدروں کے پسِ پشت ایک گرم اور تند جنسی جذبہ ہی تو کارفرما ہے۔ یہی نہیں بلکہ تہذیب بجائے خود اس جذبے پر محض چھلکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ ہر روز نہایت موٹا اور مہذب لباس پہن کر بازار میں نکلتے ہیں لیکن اس کے نیچے آپ کاجسم ازل سے بالکل ننگی حالت میں موجود ہے۔آپ رسوم سے سوسائٹی کی تصدیق حاصل کرتے ہیں ورنہ جنسی اتصال کے بنیادی رجحان میں سرِموفرق پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح فن کی صورت میں روح کی بالیدگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ورنہ اس کے پس پشت بھی جنسی جذبہ ہی کارفرما ہے۔ اگر میرا جی کی شاعری میں جنسی جذبے کا اظہار موجود ہے تواس میں کیا برائی ہے۔ شاعر کسی مُلّا سے مشورہ کر کے تو شعر نہیں کہتا۔ وہ تو محض ایک ذریعہ ہے جسے شاعری استعمال کرتی ہے۔ اسی لیے شعری نوعیت کے بارے میں اخلاقی بندشوں کو سامنے رکھ کر شاعر کو موردِ عتاب ٹھہرانا ایک بالکل غلط بات ہے)۱۸(۔ ’’
اِس مضمون کے جواب میں عمیق حنفی نے ‘‘فنون’’ ہی کے اِس سے اگلے شمارے میں ‘‘آہ میراجی بمرد’’ کے عنوان سے اپنا جواب الجواب شائع کیاجس میں وزیرآغا کے نئے استدلال کو بھی رَد کر دیا۔اُن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ :
‘‘وزیرآغا میرے مضمون کے بیشتر اہم حصوں سے آنکھ ملانے کے بجائے ‘‘بالفرضِ محال ’’قسم کے جملوں میں اُلجھنا پسند کرتے ہیں۔ ان جملوں کو سیاق و سباقِ تحریر سے نوچ کر قیدِ تنہائی کی سزا دیتے ہیں اور پھر ان پر اپنی کاٹھ کی تلواریں چلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے سر راہے ناری پوجا والی بات لکھی تھی بلکہ بات سے بات نکل آئی تھی۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ قدیم ہندوستانی قانون سازوں نے ناری کو دھرتی کے مماثل مان کر قوانین ازدواج وضع کیے تھے۔ بیوی کو کھیت اور شوہر کو کھیت کے مالک کی سطح پر رکھ کر زرعی اور ازدواجی قوانین میں یکسانیت پیدا کی تھی۔ اسی مماثلت کے زیر اثر نیوگ کا اصول بھی قائم کیا گیا تھا جس کے مطابق شوہر کی طویل المدت جدائی میں بیوی کسی غیر مرد سے ‘‘تخم’’ لے کر اولاد پیدا کر سکتی تھی اور ایسی اولاد کا باپ عورت کا شوہر ہی مانا جاتا تھا جس طرح فصل کا مالک زمیندار ہوتا ہے نہ کہ مزدوری کرنے والا کسان۔ اس لیے میں نے ایک شوشہ چھوڑ دیا تھا کہ اگر میرا جی نے واقعی کسی پوجا کی مثال قائم کی ہے تو وہ دھرتی پوجاکی بجائے ناری پوجا کی مثال ہے۔ میں اپنے گذشتہ مضمون میں بین السطور لکھ چکا ہوں اور اب ضرورتاً واضح الفاظ میں لکھ رہا ہوں کہ میں میرا جی کو نہ کسی کلچرل مسئلے کا شاعر مانتا ہوں نہ Culture Poet تسلیم کرتا ہوں اگر ایسا ہے تو وزیرآغا نے ان نظموں کا تعلق قدیم ہندوستان کے اساطیر اور کلچر سے کیوں قائم نہ کیا جن کے متعلق میں نے سوال کیا تھا؟ جلق، اختلام، حیض، موئے زیرناف، پیشاب کرنے کی آواز کے سے موضوعات پر جو نظمیں میرا جی نے لکھی ہیں انھیں کس پوجا کی مثال قرار دیا جائے گا؟)۱۹(۔ ’’
اپنی جانب سے اِس بحث کو ختم کرتے وقت عمیق حنفی نے اپنے خیالات کا خلاصہ یوں پیش کیا ہے :
) ۱ ( میرا جی کی ہندوستانی تہذیب، ثقافت اور صنمیات سے رغبت نہ دھرتی پوجا کی قدیم روایت کے باعث ہے اور نہ اس کا کوئی تعلق قدیم ہندوستانی معاشرت کے اجتماعی لاشعور سے ہے۔ ان تمام عناصر کی جڑیں اس کے شعور میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے اظہار کا راز اس کی جدّت پسند طبیعت میں مضمر ہے۔
) ۲ ( ویشنومت کا پجاری وہ اس لیے نہیں بنا کہ ویشنومت یا ویشنو بھگتی تحریک کے اثرات اس کی نسل اور موروثی یادداشت کا حصہ تھے بلکہ اسے کرشن کی راس لیلاؤں میں اپنی نامرادی اور گھٹن کے لیے تسکین و تشفی نظر آئی۔ شِو اور شکتی بھی )جن کا تعلق ویشنومت یا ویشنو بھگتی تحریک سے نہیں ہے( اسے اپنی انھیں صورتوں اور انھیں پہلوؤں میں راغب کر سکے جو اس کے اپنے Pattern میں موزوں تھے۔ بھگتی تحریک کی شاعری کے محض شرنگار رس والے Erotic حصے ہی اسے اپیل کر سکے۔ اس کی شاعری کے ہندوستانیت آمیز حصے توارد نہیں استفادے کی مثالیں ہیں۔ اور ان کے محرکات کی تلاش میں اجتماعی لاشعور کی پیمائش مایوس کن اور مضحکہ خیز ہی ثابت ہو سکتی ہے۔ ان محرکات کی تلاش اس کی اپنی ذات ہی میں کرنا سودمند ہوگا۔
) ۳ ( میرا جی کسی کلچرل مسئلے کا شاعر نہ تھا اور نہ وہ Culture Poet ہی تھا۔ اس کی شاعری دقیق ہے لیکن ان دقتوں کا حل اس کی نسلی یادوں، موروثی سرشت اور اجتماعی لاشعور میں تلاش کرنا ان دقتوں سے فرار ہونے کے مترادف ہے۔ وزیرآغا نے ایسے فرار اور مطالب کی درآمد کی مثال قائم کی ہے۔
) ۴ ( دھرتی پوجا کی ایک مثال قائم کرنے میں وزیرآغا نے ویشنومت اور بھگتی تحریک کی جو تاریخ دُہرائی ہے وہ بیشتر ان کی اپنی ایجاد ہے۔ ویشنو مت، شیؤمت اور شاکت مت تین مقصود بالذات فرقے ہیں بھگتی تحریک ایک صوفیانہ قسم کی تحریک تھی جسے ویشنو، شیؤ اور ساکت فرقوں نے اپنے اپنے رنگ میں الگ الگ اپنایا بھگتی تحریک کا تعلق افزائش اور زرخیزی کے اساطیر سے کچھ نہ تھا وہ تو شنکراچاریہ کے ادویت واد اور گیان مارک کے ردعمل کے روپ میں شروع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر وزیرآغا ویشنو مت بھگتی تحریک اور ویشنو بھگتی تحریک کو بری طرح Confuse کر گئے ہیں اور اس Confusion سے اب انھیں دلی لگاؤ پیدا ہو گیا ہے۔
) ۵ ( بعض مشابہتوں کی بنا پر میرا جی مجھے قدیم تانترک اور جدید بیٹنک تحریکوں کے زیادہ قریب نظر آتا ہے لیکن میں وثوق اور یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ تانترکوں اور راگھوریوں کا مزاج اسے اجتماعی لاشعور کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا۔
) ۶ ( جنس اور جنسی جذبے کی تندی اور گرمی کے بارے میں اپنے نظریے کی وضاحت میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ قدیم معاشروں میں جنسی حجابات Inhibitions حائل نہ تھے اور اس وجہ سے وہ معاشرے صحت مند اور بیباک تھے۔ ہمارا معاشرہ اس کے برعکس ہے۔ بہرصورت میں جنسی جذبے کو تاریخ، تہذیب اور معاشرت کا واحد محرک اور ان کی روح رواں تسلیم نہیں کرتا)۲۰(۔ ’’
اِس ہنگامہ خیز بحث میں پیش کیے گئے استدلال اور ردِّاستدلال کے عیب و ثواب سے قطع نظر ہر دو جانب سے جس علمی وُسعت اور گہرائی کا ثبوت مہیا کیا گیا ہے وہ بجائے خود قابلِ صدتحسین ہے۔ ہندوستان کی قدیم تہذیب اور ویشنومت کے باب میں فریقین نے جو دادِ تحقیق دی ہے اُس نے اُردو تنقید کا دامن علم وفن کے انمول موتیوں سے مالا مال کر دیا ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے جدیدنظم کی تفہیم و تعبیر میں قدیم تاریخ، آثار شناسی، سوشیالوجی، انتھروپالوجی اور فلسفہ سمیت جن قدیم و جدید علمی اور سائنسی نظریات سے جس دقتِ نظر کے ساتھ استفادہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔درحقیقت دھرتی پوجا کے موضوع پر اِس ہنگامۂ بحث نے ختم ہونے کے بعد بھی ختم ہونے سے انکار کر دیا تھا اور پھیلتے پھیلتے وزیرآغا کی اگلی تصنیف‘‘ اُردو شاعری کا مزاج ’’کی صورت اختیار کر لی تھی جو اس باب کے اگلے حصّے کا موضوع ہے۔
حوالہ جات
) ۱ ( وزیرآغا، ڈاکٹر،‘‘نظم جدید کی کروٹیں’’، صفحہ ۴۹
) ۲ ( ایضاً، صفحہ ۱۰۷
) ۳ ( ایضاً،صفحہ ۱۱۶
) ۴ ( ایضاً،صفحہ ۱۱۷
) ۵ ( ایضاً،صفحہ ۱۲۲۔۱۲۳
) ۶ ( مجید امجد کی داستانِ محبت، )باردوم(،لاہور ، صفحہ ۳۱
) ۷ ( وزیرآغا، ڈاکٹر،نظمِ جدید کی شاعری، صفحات۲۰۵۔۲۰۶
) ۸ ( ایضاً، صفحات ۱۸۵۔۱۸۶
) ۹ ( ایضاً، صفحات۱۸۶۔۱۸۷
) ۱۰ ( ایضاً، صفحات ۲۲۱۔ ۲۲۲
) ۱۱ ( ایضاً، صفحہ۹۸
) ۱۲ ( ایضاً، ‘‘فنون’’،لاہور،شمارہ جنوری ۱۹۶۴ء ،صفحات۴۶۷۔۴۶۸
) ۱۳ ( مجلہ ‘‘فنون’’،شمارہ اپریل، مئی ۱۹۶۴ء، صفحہ ۲۷۳
) ۱۴ ( ایضاً، صفحہ ۲۷۹
) ۱۵ ( ایضاً، صفحات، ۲۸۰،۲۸۱،۲۸۳،۲۸۴اور۲۸۵
) ۱۶ ( ایضاً، صفحہ ۲۸۶
) ۱۷ ( ایضاً، صفحات۲۸۶۔۸۷
) ۱۸ ( وزیر آغا،ڈاکٹر،میرا جی اور دھرتی پوجا، فنون ، لاہور، اکتوبر،نومبر۱۹۶۴ء، صفحات:۲۳۳۔۲۳۴
) ۱۹ ( ایضاً، شمارہ مئی، جون ۱۹۶۵ء، صفحہ ۲۹۹
) ۲۰ ( ایضاً، صفحات ۳۰۳۔۳۰۴