مولوی امام بخش صہبائی اوراردوقواعدنویسی
                                                                       
  ڈاکٹرغلام عباس

ABSTRACT
Molvi Imam Bakhsh Sahbaai is one of the famous scholars of oriental languages and literature and famous poet of Persian language. Urdu philology was one of his favourite topics. Translation of ''Hadaaiq Ulbalaghat'' and '' Risala Qwaed i Sarf o Nav i Urdu" are among his famous works. ''Risala Qwaed i Sarf o Nahv i Urdu " deals with the rules of morphology) Sarf  (,syntax)Nahv(and vocabulary of Urdu language. This article is first time detailed analysis of his work on the topic of Urdu grammar. The rules he described in this books are presented in light of Arabic Grammar methodology and terems. Ism,Fel and Harf are main topics but Afaal )verbs(and Afaal i Mushtiqa)derived nouns( are discussed in morphology,All the remaining topics are discussed in synatax. It is first time that Urdu syntax is presented in rather detailed manner. Urdu sentenses are also catagorized in "Jumla Khabariah" and "Jumla Inshaaiah"           
           
            ‘‘رسالہ قواعدصرف ونحواردو’’عربی و فارسی کے معروف عالم ،شاعراوردہلی کالج کے پروفیسرامام بخش صہبائی کی تالیف ہے۔ ان کے تعارف میں جامع اردوانسائیکلوپیڈیامیں درج ہے :
‘‘دہلی کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسرتھے۔روشن خیال اور بے باک انسان تھے۔فارسی کے بلندپایہ ادیب وشاعرکی حیثیت سے انھیں بڑااعتبارحاصل تھا ۔۔۔انھوں نے شمس الدین فقیرؔکی ‘‘حدائق البلاغت’’کااردوترجمہ کیا۔اس کے علاوہ ان کی متعددکتابیں یادگارہیں۔صرف ونحوپر ایک کتاب لکھی جس کے آخرپراردوکے محاورات اور ضرب الامثال درج کیے گئے ہیں۔غدرکے زمانے میں مارے گئے۔’’[۱ ]
            مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ‘‘مرحوم دہلی کالج ’’میں لکھاہے :
‘‘مولوی امام بخش صہبائی،صدرمدرس فارسی ،اپنے وقت کے بہت بڑے فارسی ادیب تھے۔مصنف اور شاعر بھی تھے۔ان کی کتابیں نصاب تعلیم میں داخل تھیں۔شہرمیں ان کی بڑی عزت تھی۔علاوہ فارسی کی مشہورتالیف کے ‘‘اردوصرف ونحو’’پربھی ایک اچھی کتاب لکھی جس کے آخر میں بہ ترتیب حروفِ تہجی اردوکے محاورات اور کہیں کہیں ضرب الامثال بھی درج ہیں۔’’ [۲ ]
            ان دونوں بیانات کے علاوہ متعددکتب تاریخ واکابرمیں جنگ آزادی کے)۱۸۵۷ء(کے شہیدکے طورپرآپ کانام بہت قدرومنزلت سے مرقوم ہے۔ ‘‘رسالہ قواعدِ صرف ونحوزبانِ اردو’’کی تالیف کے اثبات کے علاوہ زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔اسی لیے ڈاکٹرمزمل حسین نے لکھاہے :
‘‘امام بخش صہبائی کاسوانحی تعارف اردوکی ادبی تاریخ میں اس طرح سے نہیں ہواجیساکہ ان کی خدمات کے صلے میں ہوناچاہیے تھا۔’’[۳ ]
            جس طرح امام بخش صہبائی کی سوانح کے بارے میں زیادہ معلومات میسرنہیں اسی طرح اردوقواعدنویسی کی روایت اور تاریخ پرلکھے جانے والی تحریروں میں بھی ‘‘رسالہ قواعدصرف ونحواردو’’ کاذکربہت مختصرالفاظ میں ہے۔اتناضرورہے کہ ڈاکٹرابواللیث صدیقی اور مولوی عبدالحق نے ۱۸۵۰ء سے قبل اس رسالہء قواعد کی اشاعت کی اطلاع دی ہے۔ ڈاکٹرابواللیث صدیقی ۱۸۵۰ء سے سے قبل کی اردوقواعدکی کاوشوں کے تعارف کی ذیل میں لکھتے ہیں :
‘‘اسی زمانے میں اس عہدکے مشہورعالم اور شاعرومصنف امام بخش صہبائی نے جودہلی کے مشہوردلی کالج میں پروفیسرتھے،اردوصرف ونحوپرایک کتاب لکھی،جودہلی کالج سے ۱۸۴۵ء میں شائع ہوئی۔’’[۴ ]
            اسی طرح مولوی عبدالحق لکھتے ہیں :
‘‘مولوی امام بخش صہبائی دہلوی ،فارسی کے مشہورمنشی اور ادیب گزرے ہیں اور دہلی کالج میں پروفیسر تھے، انھوں نے بھی اردوصرف ونحوپر ایک کتاب تالیف کی تھی،جودہلی میں ۱۸۴۹ء میں طبع ہوئی،یہ کتاب بھی اچھی ہے۔اس کے آخرمیں بہ ترتیب ِ حروف ِ ابجداردو کے محاورات اور کہیں کہیں ضرب الامثال بھی درج ہیں۔’’[۵ ]
            ان اقتباسات سے اس امرپر اتفاقِ رائے ثابت ہوتاہے کہ یہ کتاب ۱۸۵۰ء سے پہلے شائع ہوچکی تھی۔اس سلسلے میں خودصہبائی کاایک بیان بھی ہماری رہنمائی کرتاہے ۔کتاب کی ابتدامیں وہ اس کالج کے ایک پرنسپل کاذکران الفاظ میں کرتے ہیں :
‘‘صاحب والامناقب،بلندمراتب،منصفِ دوراں،نوشیرونِ زماں،بوٹرس صاحب بہادر،پرنسپل مدرسہ اور ان کی سعی سے اکثرکتبِ زبانِ انگریزی اور بعض زبانِ عربی اور چند نسخہء سیر اورتاریخ کے زبانِ فارسی سے اردومیں ترجمہ ہوئے۔’’[۶ ]
            اس بیان میں بوٹرس صاحب بہادرکاذکرموجودہے۔مسٹربوٹرس ۱۸۴۰ء اور۱۸۴۵ء کے درمیانی عرصے میں دہلی کالج کا پرنسپل رہا۔یہ ایک عام اورعلم دوست شخص تھا۔اس ن کی تحریک سے دہلی کالج سے وابستہ علماکی کئی تصانیف سامنے آئیں۔یہاں ان کی تفصیل سے غرض نہیں لیکن اس سے یہ طے ہوجاتاہے کہ یہ کتاب ۱۸۴۵ء یااس سے پہلے کی تالیف ہے۔کتاب میں مختصرمقدمے کے بعدکتاب تین حصوں میں منقسم ہے ۔پہلاحصہ صرف ،دوسرانحواورتیسرالغت کومحیط ہے۔
            کتاب کے مقدمہ میں اردوکے آغازکے بارے میں رائے دی گئی ہے۔لکھتے ہیں :
‘‘معلوم کیاچاہتاہے کہ زبان اردوہندوستان کی زبانوں میں مثل زبان‘ دری ’کے ہے ،فارسی زبانوں میں سے۔ہرچنددری کے معنوں میں اختلاف اقوال کابہت ہے لیکن جومحقق ہے ، وہ یہ ہے کہ دری مرکب ہے لفظ ‘در’اور یائے نسبت سے اور دربمعنی دربارکے ہے۔پس دری کے معنی یہ ہیں کہ منسوب دربارکے ساتھ اور دربار سے جمشیدکادربارمرادہے یعنی یہ زبان جمشیدکے دربارمیں حاضرہونے والوں کی ہے اور محل خاص میں اس زبان کے علیحدہ ہونے کاسبب یہ ہے کہ از بس کہ اطراف سے لوگ وہاں جمع ہوتے تھے۔ان سب کی زبان کے الفاظ مخلوط ہوکرایک زبان جداگانہ حاصل ہوگئی۔اسی طرح سے یہ زبان ‘اردو’ہے اور یہ لفظ فارسی بمعنی لشکرکے۔ اسی طرح سے زبان اردو،اور یہ لفظ فارسی ہے بمعنی لشکر کے ،ظاہراًلشکر سے اس جائے میں مرادلشکرشاہجہان بادشاہ ہے کس واسطے کہ اردوشاہجہان آبادکے رہنے والوں کی زبان کانام ہے ۔ازبس کہ اردوئے معلّیٰ شاہی میں اطراف و جوانب کے آدمی مجتمع تھے۔ان سب کی زبان مل کر یہ زبان حاصل ہوئی اور اس کوزبان اردو کہتے تھے۔بعدمدت کے لفظ زبان کامحذوف ہوکراس زبان کانام اردو ہوگیا۔اسی واسطے اس زبان میں الفاظ عربی اور فارسی بلکہ سنسکرت کے بھی پائے جاتے ہیں۔’’[۷ ]
            اردوکی پیدائش اورارتقا کوخاندان تیموریہ کے زمانہ بادشاہت کے حوالے سے دیکھنے کایہ پہلارویّہ نہیں ہے بل کہ یہ رویہ انیسویں صدی میں مقبول ترین رجحان کے طورپرموجودنظرآتاہے۔ امام بخش صہبائی سے پہلے میرامن دہلوی اوربعدمیں مولوی محمداحسن اور مولاناآزادؔنے اسی قسم کے خیالات کااظہارکیاہے ۔
            جہاں تک قواعدکامعاملہ ہے ؛کتاب کی پہلی فصل میں علم صرف کی تعریف ہے ۔یہ تعریف اس اعتبار سے اہم ہے تعریف کے ہمراہ واضح طورپراشتقاق کی بنیادوں پر بات کی گئی اورصرف کے دائرے کو مصدر اور اس کے مشتقات تک محدود کیا گیا۔خودمصدرکی بحث کواشتقاق سے پہلے مقدمے کے طورپرشامل کیا گیا۔صرف کی تعریف میں لکھتے ہیں :
‘‘معلوم کیاچاہیے کہ صرف،اصل واحد کے پھیرنے کانام ہے؛بطرف امثلہ مختلفہ کے،تاکہ ان امثلہ سے معانی متفاوتہ حاصل ہوجاویں اورمراداصل واحدسے مصدرہے۔امثلہ سے صیغے۔اورصیغے عبارت ہیں ان کلمات سے ، کہ ان میں بسبب عارض ہونے حرکت اورسکون اور تقدیم تاخیرحروف کے،ایک ہیئت، اورحاصل ہو۔مثلاً:‘کھانا’مصدر سے ‘کھایا’ماضی او ر ‘کھاوے گا’ استقبال اور ‘کھاتاہے’حال اور‘کھا’امراو ‘مت کھا’نہی اور ‘کھانے والا’ فاعل اور‘کھایاگیا’ اسم مفعول۔یہ سب چیزیں مصدر سے مشتق ہوئی ہیں۔’’[۸ ]
            اس عبارت سے ظاہرہوتا ہے کہ صرف کے دائرے میں مصدر سے حاصل ہونے والے مشتقات کے علاوہ الفاظ میں تبدیلی کی دیگر صورتیں شامل نہیں ہیں اور یہ مصدری صیغے اس طرح تشکیل پاتے ہیں کہ مادہ مصدر میں حروف کی حرکت اور سکون میں ردّوبدل کیاجاتا ہے یا حروف کی تقدیم وتاخیر کی جائے۔جہاں تک حرکت وسکون ِحروف کامعاملہ ہے توبات واضح ہے۔ ‘تقدیم وتاخیر حروف ’سے کیا مراد ہے؟اگر اس سے مرادمصدری مادے کے اپنے حروف کوآگے پیچھے پھیرنے سے مرادکچھ اضافی حروف تہجی اول وآخریاوسطِ کلمہ میں لانایاآخرکلمہ چندحروف کااضافہ ہے تواردوکے لیے یہ تعریف درست ہے۔یہ تقدیم وتاخیرمصدری مادے کے حروف کی تقدیم وتاخیر تک محدود ہے تواردوکے لیے اس میں ‘‘کمی اوراضافہِ حروف ’کی گنجایش پیداکرنی ہو گی۔کیوں کہ اردو کے صرف چندمشتقات؛ مصدری مادے کے حرو ف اصلی کی تقدیم وتاخیر سے نہیں بنتے بل کہ حروف کااضافہ یاکمی کرناپڑتی ہے ۔دوسری صورت حروف کی تبدیلی کی ہے کہ بعض صورتوں میں کئی حرف ،کسی دوسرے حرف سے بدل جاتے ہیں تعریف کے اندر جو مثالیں درج ہیں ،ان میں ایک بھی مشتق ایسا نہیں جومحض ‘حرکت وسکون’کے عارض ہونے سے یا تقدیم وتاخیرحروف سے متشکل ہوا ہو۔ ‘کھا’جوامر کا صیغہ ہے؛مصدر کے ‘نا’کی کمی سے حاصل ہواہے دوسرے لفظوں میں صرف مصدری مادہ ،صیغہ امربنارہاہے یابعض صورتوں میں حاصل مصدرکافائدہ دیتاہے۔ہ باقی تمام صیغوں میں مصدر کے ‘نا’کی کمی کے بعد مختلف شکل میں حروف کااضافہ موجود ہے۔
             مصدرکواسم کہاگیاہے اور شرط یہ ہے کہ اس سے ‘افعال اور اسماء’نکلیں۔افعال توویسے ہی مشتق ہوتے ہیں۔ یہاں اسما سے مرادصرف اسمائے مشتقہ ہیں اور صرف کی ذیل میں افعال کے علاوہ صرف اسمائے مشتقہ ہی کودرج کیاگیا ہے۔اسما کی باقی قسمیں نحوکے باب میں شامل کی گئی ہیں۔مصدرفاعل سے فعل کے صادرہونے یااس کے ساتھ قائم ہونے پردلالت کرتاہے۔ مصدرسے جوکیفیّت نفس الامری حاصل ہوتی ہے ،اس پرجواسم دلالت کرے ،اسے حاصل بالمصدرکہتے ہیں۔ان کے خیال میں حاصل بالمصدرکاکوئی طے شدہ اصول نہیں۔یہ سب ‘سماعی ’ہیں۔انہوں نے بعد‘تتبع اور استقرا’’کے کچھ نشانیاں تلاش کی ہیں،جواس طرح ہیں کہ کبھی صرف علامت مصدرگرانے سے،جیسے ‘مارنا’سے‘مار’،اورکبھی علامت مصدرگرانے کے بعداضافہ،‘واؤ’سے ،جیسے: ‘لگانا’سے ‘لگاؤ’ اور کبھی اضافہ‘اؤ’سے جیسے ‘سمٹنا’سے ‘سمٹاؤ’اورکبھی بائے فارسی کے اضافے سے جیسے: ملانا’سے‘ملاپ’۔مصنف نے اگرچہ تتبع اور استقرا کاذکرکیاہے لیکن وہ سارے قرینے بھی درج نہیں کیے جوقبل ازیں ‘صرف اردو’یا‘رسالہ گل کرسٹ میں ، مذکور ہیں، مثلاً ‘‘صرف اردو’’میں حاصل بالمصدر کواکثریہ اور جزئیہ میں تقسیم کے بعداکثریہ میں جن صورتوں کا ذکرکیا تھا،ان میں سے صیغہ امر پر‘ن’،‘ئی’،اور‘وٹ’کے اضافے سے حاصل بالمصدرکے حصول کاذکریہاں نہیں ہے۔بعدکے قواعدنویسوں نے کچھ اور صورتوں کاذکربھی کیاہے جیسے ‘گھبرانا’سے ‘گھبراہٹ’،‘جلنا ’سے ‘جلاپا’،‘بکنا’سے ‘بکواس’ ،‘ہنسنا’ سے ‘ہنسی’، ‘بکنا’ سے ‘بکری’، ‘پہننا’ سے‘پہناوا’ ، ‘جھگڑنا’ سے ‘جھگڑا’’وغیرہ۔ان سب صورتوں کاذکرمصنف کے ہاں موجودنہیں۔
            حاصل مصدرکی بحث کے بعدمصدرکی دوقسموں :لازم اور متعدی کی تعریف کی گئی ہے کہ لازم ،فاعل پرتمام ہوتاہے اور متعدی فاعل سے تجاوزکرکے مفعول بہ تک پہنچتاہے۔مفعول کے اعتبار سے متعدی کی روایتی تیں قسمیں یعنی متعدی بہ یک مفعول،بہ دومفعول اور بہ سہ مفعول بیان کی گئیں ۔یہ بھی بیان کیاکہ کچھ افعال کلمہ اصلی میں متعدی کے لیے وضع ہوتے ہیں اور کچھ علامت مصدرسے قبل حرف تعدیہ داخل ہونے سے حاصل ہوتے ہیں۔فعل لازم کاتعدیہ ‘ا’یا‘لا’یا‘و’داخل کرنے سے ہوتاہے۔متعدی بہ یک مفعول کہ تعدیہ بہ دومفعول ‘لا’یا‘و’داخل کرنے سے اور متعدی بہ دومفعول کاتعدیہ بہ سہ مفعول کرنے کے لیے ‘واؤ مع لام’یا‘و’یا‘لا’کوداخل کرتے ہیں۔ تعدیہ کی ان صورتوں کے علاوہ مصنف نے مصدرکے تعدیہ کی دیگرصورتیں بھی درج کی ہیں :
‘‘دوسری یہ ہے کہ مصدر کے اوّل میں ‘لے ’کالفظ لاویں۔وہ مصدرلازم ہویامتعدی بہ یک مفعول کہ اس مفعول سے جومقصود ہے مثلاً‘آنا’،‘جانا’یہ دونوں لازم ہیں۔جب ان کے اوّل میں ‘لے ’ کا لفظ رکھاگیا،یعنی ‘لے آنا’اور‘لے جانا’ ؛متعدی بہ یک مفعول حاصل ہوا۔اوراسی قبیل سے‘لے پہنچنا’اور‘لے چلنا’اور‘لے دوڑنا’اور‘لے بھاگنا’اور‘لے نکلنااورطرح تیسری یہ ہے کہ فعل کے‘فا’کلمہ کے بعد،حرف علت زیادہ کریں: ‘الف’جیسے ‘مرنے ’سے ‘مارنا’۔۔۔اور‘واؤ’جیسے ‘کھلنے’سے ‘کھولنا’۔۔اورچوتھی یہ کہ کوئی حرف صحیح دوسرے[سے]بدل جاوے مثلاً‘بکنے’سے‘بیچنا’۔۔۔’’[۹ ]
             اس بیان میں تیسری اور چوتھی صورت کاحال تووہی ہے کہ حرکت و سکون کی کمی بیشی یاحروف کی ترتیب کی تبدیل یاحروف کی کمی یااضافے کی مد میں آسکتے ہیں لیکن دوسری صورت یعنی کسی حرف کی بجائے کسی اور لفظ کی معاونت سے فعل کی تشکیل ایک الگ معاملہ ہے جسے یہاں مذکورکرنے سے پہلے بہترتھا کہ اردومیں مصادرسازی پرروشنی ڈالی جاتی اور یہ بتایاجاتاکہ اردومیں کس طرح افعال معاون کے داخل ہونے سے نئے افعال بنتے ہیں۔یہ صورت محض ‘لے’ کے قبل ازمصدرلازم ،تک محدود نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سے افعال معاون ہیں جن کاورودمصادرمیں احاطہءِ معنی یاصورت صدور یا صیغہ فعل یاتعدیہ ولزوم یاعرفیّت ومجہولیّت کے حساب سے تغیّرات لے کرآتے ہیں۔اگر‘لے’کے قبل ازمصدردخول برائے تعدیہ کواصول ماناجائے توپھر اس اصول کی ‘لے’کے ساتھ تخصیص کی بجائے تعمیم ہونی چاہیے ۔اس طرح دیگرافعال کے قبل ازمصدرلازم آکرفائدہ ءِ تعدیہ کے اظہارکی راہ ہموار ہوگی مثلاً ‘دے’کے قبل ازمصدرلازم آنے سے‘دے بیٹھنا’یا‘کھینچ ’ کے قبل ازمصدرلازم لانے سے‘کھینچ چلنا’وغیرہ۔اس قسم کے استعمالات میں ایک اور بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ ایسی ترتیب اسی وقت تعدیہ فعل کی ذیل میں داخل ہوگی جب وہ فعل واحد کے لیے استعمال ہوں گے۔ایسی کئی ترکیبیں عطف فعل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں ،جن میں حرف عطف مقدر ہوتا ہے۔ان جملوں پرغور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ تعدیہ فعل کے لیے نہیں بلکہ ان میں عطف فعل کاقرینہ موجود ہے :
  ۱۔کوا ،بچے کے ہاتھ سے روٹی کاٹکڑالے اڑا۔ ۲۔ماں بچے کوگود میں لے بیٹھی۔
             ان دونوں مثالوں میں دوافعال کاوقوع ہے۔پہلے جملے میں ،کوّے کاپہلافعل بچے کے ہاتھ سے ‘روٹی کاٹکڑا’لینے کاہے اور دوسرافعل ،کوے کے ‘اڑنے’کا ہے۔دونوں بالترتیب فعل اوّل اور فعل ثانی کی ترتیب زمانی سے زمانہ ماضی میں ہیں اور حرف عطف کے اظہار کے ساتھ یہ جملہ یوں ہوسکتاہے :
 کوابچے کے ہاتھ سے روٹی کاٹکڑالے کراڑا۔
یہی صورت دوسرے جملے کی ہے ۔اس میں بھی دوفعل ہیں۔ایک ‘گودمیں لینا’اوردوسرا‘بیٹھنا’دونوں زمانہ ماضی میں ایک ترتیب سے ہیں ۔
             اس تفصیل کے بعد،کتاب میں اشتقاق کی بحث شروع ہوتی ہے۔اس کی پہلی جنس میں ان چیزوں کابیان ہے جومصدرسے مشتق ہیں اوران کی انواع کی تعداددس درج کی ہے۔
             ‘‘بہرکیف ان سب کاحال جداجدا،دس انواع میں مذکورہوتاہے۔’’[۱۰ ]
             افعال کی بحث میں پہلی بحث ماضی کی ہے۔افعال کی بحث میں یہ طویل ترین بحث ہے۔اس میں ماضی کے بارے میں تویہ بتایاگیا کہ ماضی اس فعل کوکہتے ہیں جوگزرے ہوئے زمانے سے تعلق رکھتا ہو۔اس کے بعدصیغوں کی تعدادبارہ بتائی گئی۔یہ تعدادماضی سے خاص نہیں بلکہ ماضی،حال، مضارع اورمستقبل کے لیے یکساں ہے۔یہ بارہ صیغے واحدمذکرغائب،جمع مذکرغائب،واحدمؤنث غائب،جمع مؤنث غائب، واحدمذکرحاضر،جمع مذکرحاضر، واحدمؤنث حاضر،جمع مونث حاضر،واحدمذکرمتکلّم،جمع مذکرمتکلّم،واحدمؤنث متکلّم،اورجمع مؤنث متکلّم ہیں۔اس بحث میں بھی ، لاشعورمیں عربی قواعد کی موجودگی اپنے اثرات دکھارہی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
‘‘اگرچہ قیاس مقتضی تھا،اس امرکاکہ ازبس فاعل یامذکر ہے یامؤنث اورہرواحدیاغائب ہے یاحاضر یامتکلّم اورہرایک ان میں ،ایک ہے یادویازیادہ ،دوسے ،پس یہ سب اٹھارہ صیغے ہوتے لیکن ازبسکہ زبان اہل ہندمیں ،مافوق واحد کے حکم جمع میں ہے؛چھ صیغے تثنیہ کے بالکل ساقط ہوگئے۔’’[۱۱ ]
            عبارت کالہجہ اور ‘ساقط’کالفظ ظاہرکرتاہے کہ وہ اردوکے صیغوں کوعربی کے تقابل میں دیکھ رہے ہیں۔ساقط وہ کلمہ ہوتاہے جوموجود ہو لیکن بوجوہ گرگیاہویا ترک کردیاگیاہولیکن اردومیں عربی کے ایسے اسماتومل جاتے ہیں جوتثنیہ کے وزن پرہوتے ہیں اور تثنیہ کے معنی بھی دیتے ہیں جیسے فریقین اوریدین وغیرہ لیکن افعال میں تثنیہ کاصیغہ سرے سے وجودہی نہیں رکھتا اور تثنیہ عربی مستعملہ ء اردوکے افعال کے لیے بھی صیغہ جمع ہی لاگوہوتاہے۔ جس طرح ماضی کے بارہ صیغوں کی تعداد،فعل ماضی سے خاص نہیں اسی طرح مجہول اورمعروف ہونا ،اورمثبت یامنفی ہونا بھی فعل ماضی سے خاص نہیں لیکن اس کی توضیح بھی وہ فعل ماضی میں کرتے ہیں۔ماضی کی چارقسمیں ہیں یعنی مطلق ، قریب ،بعیداوراستمراری اور ہرقسم کامعروف ،مجہول،مثبت اور منفی ہونا،ان کی مجموعی تعدادسولہ کردیتا ہے جیسے ماضی مطلق معروف مثبت،ماضی مطلق معروف منفی،ماضی مطلق مجہول مثبت اور ماضی مطلق مجہول منفی۔یہی صورت باقی تین ماضیوں کی ہے۔ یہ ایک ایسی تمہیدی بحث ہے ، جس پرصرف ماضی کی دیگراقسام ہی نہیں ؛دیگرزمانوں کے افعال کی تفہیم میں بھی رہنما ہے ۔
             ماضی مطلق وہ ہے کہ جس میں قیدقریب یا بعیدیااستمرارکی کچھ نہیں۔اس کی بحث میں وہ تفصیل کے ساتھ اس کی تصریف پرروشنی ڈالتے ہیں ۔ان کااندازبیان اگرچہ پیچیدہ ہے لیکن ان کی کوشش ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ملاحظہ ہو :
‘‘اشتقاق صیغہ ماضی مطلق معروف مثبت ،اس طرح پرہے کہ ؛بعدگرانے علامت مصدریعنی ‘نا’کے، فقط علامت ،واحدمذکرغائب کی یعنی‘الف’اس کے آخرمیں لاحق کرنے سے فعل واحدمذکرغائب کاصیغہ حاصل ہوگا؛بشرطے کہ ماضی کے اخیرمیں حروف مدہ یعنیِ، ‘الف’اور‘واؤساکن ما قبل مفتوح ’اور ‘یائے ساکن ماقبل مکسور’نہ ہو؛جیسے:‘بیٹھنے’سے ‘بیٹھا’اور‘اونگھنے’سے‘اونگھا’اور‘جاگنے ۔۔۔اور‘کرنے’سے)جوکاف تازی مفتوح سے ترجمہ ۔ترجمہ یہ ہے ‘کردن کا(اگرچہ ماضی ‘کراہے لیکن فصحا بسبب کراہت کے،اس کومتروک کرکے اس کی جگہ ‘کیا’استعمال کرتے ہیں۔یہاں سے معلوم ہوا کہ ‘یائے تحتانی’،‘رے’ سے بدلی ہوئی ہے۔نہ اس قبیل سے ،جو‘حروف مدہ ’کے بعد زیادہ کی جاتی ہے۔۔۔۔اگرآخرمیں یاجوچیزکہ کلمہ اخیرمیں ہو،حروف مدہ ہوں،ان میں علامت فاعل اورحروف مدہ کی ‘یائے’تحتانی’ احتمال فتحہ کے واسطے لے آتے ہیں۔کس واسطے کہ ماقبل ‘ الف’ کے فتحہ چاہیے اور حروف مدہ بسبب سکون کے فتحہ اٹھانہیں سکتے۔ مثال اس کی ؛جس کے اخیرمیں حروف مدہ ہوں،جیسے ‘ملانے ’سے‘ ملایا’۔۔جیسے:‘کھونے ’سے‘ کھویا’۔۔ ۔جیسے:‘جینے’سے‘جیا’ ۔۔۔اورموافق اس قیاس کے حکم کیاجاتاہے کہ جن لفظوں کے اخیرمیں ‘یائے تحتانی اصلی ،دوسری‘یے’کے زیادہ کرنے کے بعد وہ تحتانی گرپڑتی ہے ،کیوں کہ اجتماع دوکامکروہ ہے۔۔۔پس جاننا چاہیے کہ اگرمصدر متعدی ہو۔پس وہاں دوحال ہیں۔اور وہ یہ ہے کہ ضمیرمنفصل مفعول کی ،یعنی ‘اسےُ اور‘ اس کو’ یا اسم اشارہ یعنی ‘وہ’اور‘یہ’ یااسم ظاہرہمراہ فعل ماضی کے مذکورکریں یانہ کریں۔اگرمذکورکریں تواس میں تفصیل ہے۔اگرضمیرمنفصل مفعو ل کی،مذکورکریں ۔پس مفعول اس فعل کاخواہ مذکرہویامؤنث،واحدہویاجمع ؛فعل کے اخیرمیں ‘الف’زیادہ کریں گے جیسے:‘اسے یا اس کوکھایا’یعنی ‘روٹی ’اور‘سالن’کواور ‘اس کوسنایا’یعنی‘ کلام’یا‘بات’کو ا،اور‘ اس کولایا’ یعنی ‘مرد’یا ‘عورت’کواور اسی قیاس پرجمع اور اگراسم اشارہ یا اسم ظاہربدون علامت مفعول کے مذکور کریں؛ فعل میں ،مفعول کے ،تذکیریاتانیث کی علامت لاحق کریں گے۔واحدہومفعول یا مجموع یعنی واحد مذکرکے واسطے‘الف’اور‘مؤنث کے واسطے‘یائے تحتانی’اور مجموع میں مذکر کے واسطے‘ئے بیائے مجہولہ’واحد کے ہوتا ہے،مگربسبب فاعل کے امتیاز حاصل اور مؤنث کے واسطے ‘ئیں بیائے معروفہ’جیسے :‘وہ کھایا’یعنی ‘سالن’ اور‘وہ کھائی’یعنی‘روٹی’۔۔۔اور اگراسم اشارہ کے ساتھ مشار‘’الیہ بھی بدون علامت مفعول کے ذکرکریں؛جب بھی یہی حال ہے ، جیسے ‘وہ روٹی کھائی’ اور‘وہ سالن کھایا’۔۔قس علیٰ ہذا۔اور اگر اسم ظاہرمع علامت مفول کے ساتھ اسم اشارہ اور اسم ظاہراور علامت مفول اکٹھی مذکورہوں توفعل کے اخیر میں ہمیشہ ‘الف’رہے گا؛ خواہ مفعول واحدہو،خواہ مجموع ۔۔۔۔اور جاننا چاہیے کہ مفعول مجموع کے لگنے سے فعل جمع کانہیں ہوجاتاتادام کہ فاعل مجموع نہ ہو۔پس‘ روٹیاں کھائیں اس نے ’اس عبارت میں ‘کھائیں’فعل واحدکا ہے اور‘کھائیں ہم نے’،اس میں فعل جمع کا ۔اورمذکور نہ کریں تواخبار اگرمذکر سے ہومقصودہو؛علامت تذکیر کی اوراگرمؤنث سے؛علامت تانیث کی اس کے اخیر میں لاحق کریں گے۔۔۔اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ،جیسے فعل متعدی کے اخیر میں ایسی علامت لاحق ہوتی ہے ،جومفعول کے تذکیروتانیث اور وحدت اورجمع پردال ہو،ایسے ہی اس جگہ اور ایسے لفظ کا ذکرکرنابھی درست ہے کہ اس کی وحدت اور جمع پردلالت کریں،مثلاً:‘ایک سیب کھایا’یا‘کئی سیب کھائے’یا‘ایک بہی کھائی’یا‘کئی بہی کھائیں’ اور اگر فعل ماضی واحدمؤنث کا بناویں ؛لازم میں؛‘یائے تحتانی معروف لگاویں کہ کہ یہ علامت فاعل مؤنث کی ہے ،جیسے:‘بیٹھنے ’سے‘بیٹھی’۔۔۔اور فعل متعدی میں ، مذکراورمؤنث کا حال مثل صیغہ واحدمذکر کے ہے۔۔۔اور اگر صیغہ جمع مذکرغائب کا بناویں،پس فعل اگرلازم ہوتو جس فعل میں‘یائے تحتانی’احمال حرکت کے واسطے زیادہ کی جاتی ہے،یائے تحتانی کے بعداورجس میں زیادہ نہیں کی جاتی،اس سے ،لفظ باقی کے بعدجوجوعلامت مصدر کے گرانے سے رہا ہے؛‘یائے تحتانی مجہولہ مذکر کے واسطے اور‘یائے معروفہ مع النون’مؤنث کے واسطے زیادہ کریں۔۔۔اور متعدی ہو،فعل جمع کا،مثل فعل ہوجاتا ہے۔جیسے:‘سیب کھایا اور بہی کھائی لوگوں نے’یا‘انہوں نے’اور یہ ضمیرمنفصل فاعل کی مشترک ہے مذکراورمؤنث میں اور اگرفعل واحدمذکرمخاطب یامؤنث مخاطب یامتکلم واحدیامع الغیرکابناویں ؛ اس کی تفصیل یہ ہے :لازم میں،جوفعل غائب مذکر یا مؤنث کا تھا،اس کے بعدمذکرواحدیامؤنث واحدکے واسطے ضمیرمنفصل مخاطب یامتکلم کی لگاویں جیسے:‘آیاتو’یا‘آئی تو’ اور‘آیامیں’یا‘آئی میں’اور یہ ضمیریں مذکراور مؤنث میں مشترک ہیں۔اور متعدی میں،بعدضمیروں کے لفظ‘نے’بھی زیادہ کیا جاتا ہے،لغات فصیحہ میں،جیسے:‘کہاتونے’۔۔۔اور فعل جمع مذکور مخاطب اور متکلم میں،اگرلازم ہو؛بعداسقاط علامت مصدر ،جوباقی رہے اس کے اخیر میں ‘یائے تحتانی مجہولہ ’اور ضمیر منفصل مخاطب یا متکلم کی یعنی ‘تم’اور‘ہم’لگاویں گے،جیسے:‘آئے تم’یا‘آئے ہم’اور اگر متعدی ہو؛صیغہ واحدمذکر غائب کے بعدضمیریں جمع مخاطب یا متکلم مع الغیرکے مع ‘نے’کے لگاویں،جیسے:‘کہا تم نے’اور‘کہاہم نے’۔اور فعل جمع مؤنث مخاطب یامتکلم میں؛اگر لازم میں،بجائے ‘یائے مجہولہ ’کے‘یائے معروفہ مع النون’اوراس کے بعد ضمیریں لگاویں،جیسے:‘آئیں تم’اور‘آئیں ہم’اور متعدی میں بعینہ وہی صیغہ جوجمع مخاطب یا متکلم میں کے واسطے گزرایعنی‘کہاتم نے’اور ‘کہاہم نے’۔۔اور اس ماضی پرجب لفظ‘نون’یا‘لفظ‘ نہیں’کالگاویں ،ماضی معروف منفی ہوجاوے،جیسے:‘نہ آیا’اور ‘نہیں آیا’اور جب ماضی معروف سے چاہیں کہ مجہول بناویں؛اور یہ ہمیں معلوم ہے کہ اسنادس فعل مجہول کی ۔ مفعول کی طرف ہوتی ہے اور عامل مفعول میں ،فعل متعدی ہوتا ہے،نہ لازم۔اس واسطے چاہیے کہ مفعول بھی فعل متعدی سے حاصل کیاجاوے۔پس مفعول کے آخر میں ‘گیا’ کا لفظ، کاف فارسی مفتوح سے،کہ وہ بصورت ماضی کے ہے جوجانے سے مشتق ہے،بڑھاویں جیسے:‘بٹھایاگیا’اور‘اٹھایاگیا’۔۔۔اور یہ جوہم نے ‘گیا’کے لفظ کوکہاہے کہ ‘بصورت فعل ماضی کے ہے’،نہ فعل ماضی کا؛۔۔۔‘گیا’اصل میں موضوع ہے فعل مجہول کے واسطے۔’’[۱۲ ]
            یہاں فعل ماضی مطلق کی بحث سے جوعبارت نقل کی گئی ،انتخابی ہونے کے باوجود بہت طویل ہوگئی ہے لیکن یہ اس لیے ضروری تھی کہ اس سے مولاناصہبائی کے طریق بحث پرروشنی پڑتی ہے۔وہ بغیرکسی وقفے کے، حروف عطف کے استعمال کے ساتھ اورجملوں کوالگ کیے بغیرمسلسل بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ان کے اس طریقہ بحث میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔سب سے بڑی خوبی ،ان کاتجزیاتی اورمنطقی انداز ہے۔انہوں نے شروع میں جن بارہ صیغوں کاذکرکیاتھا ،انہیں ایک ایک کرکے لے کرچلتے ہیں اور اردوساخت کے اندر سے اصول اخذکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وحدت وجمع اور تذکیر و تانیث توان بارہ صیغوں کی اسا س میں شامل ہے ۔وہ ہرصیغہ کو،صرف فاعل کی بناپرنہیں دیکھتے بلکہ فعل کی لازم اور متعدی قسم کوبھی سامنے رکھتے ہیں ۔اس دوران میں علامت ِمفعول اور علامت ِفاعل کے قواعدی ساخت پراثرات بھی دیکھتے ہیں ۔ مزیدبرآں ،فعل کی معروف اور مجہول حالت پربھی نظررکھتے ہیں اور اثبات و نفی فعل کے اصول بھی بیان کرتے ہیں۔اس بحث کے دوران میں فاعل کی کئی صورتوں کاذکرموجود ہے ۔فاعلوں کی ان قسموں میں ،ضمیر،اشارہ،اسم ظاہراوراسم اشارہ مع مشار‘’الیہ کاتذکرہ بطور خاص ملتاہے اور وہ سب کے قواعدتصریفی ،ان کی وحدت وجمع اور تذکیروتانیث کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔
 فعل ماضی کابیان دراصل ان کے قواعدی ماڈل کی اساس ہے ،جس پروہ آگے چل کر،مختلف زمانوں اور صیغہ جات کے مطابق ،مصدر سے اردو افعال کی تصریف کے اصول اخذ کرتے ہیں۔ماضی قریب اور بعید کی بحث میں وہ اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف ماضی مطلق پر اضافوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ماضی قریب کی صورت میں ‘‘ماضی مطلق کے صیغے کے اخیر میں ‘ہے ’ہائے مفتوح کے ساتھ اور اس کے اخوات’’کے اضافے کا اصول بتاتے ہیں۔ماضی بعید کے لیے ‘تھا’اور اس کی مختلف شکلوں کے اضافے کے اصول بتاتے ہیں۔ان دونوں ماضیوں میں ،ماضی قریب کی صورت میں ،زمانہ تکلم سے فعل کی زمانہ ماضی میں قربت اور ماضی بعید کی صورت میں بعدکی کیفیت بتاتے ہیں۔ ان کے ہاں ماضی استمراری کی بحث بھی قدرے طویل ہے۔وہ روایتی انداز میں اس کی تعریف کرتے ہیں اور بنانے کا طریقہ بھی بتاتے ہیں :
 ‘‘ صنف چوتھی ماضی استمراری کے بیان میں اوریہ وہ ہے کہ زمانہ گزشتہ میں فعلِ فاعل کے استمرار اور ہمیشگی پردلالت کرے اور اشتقاق اس کا مصدر سے اس طرح ہے کہ بعداسقاط علامت مصدرجوکچھ باقی بچے اس کے اخیرمیں تائے فوقانی مع الالف کوہمراہ لفظ ‘تھا’کے اضافہ کریں اور علامت تذکیروتانیث و واحدجمع کی دونوں کے اخیرمیں لاحق کریں جس کی تفصیل یہ ہے کہ واحدمذکر غائب کاصیغہ ‘آتاتھا’اور‘جاتاتھا’ الف کے ساتھ اور مؤنث غائب کافعل مثلاً‘آتی تھی’ اور‘جاتی تھی’ یائے معروفہ سے اور مذکرمجموع غائب کاصیغہ مثلاً‘آتے تھے ’ اور ‘جاتے تھے’یائے مجہولہ سے اور مؤنث مجموع کافعل‘ آتیں تھیں ’ یائے معروفہ سے مع نون غنہ سے اور ضمائرمفصلہ ان کے اخیرمیں لگانے سے متکلم مخاطب اور واحدوجمع کافعل حاصل ہوتاہے۔۔۔۔’’[۱۳ ]
             مقتبس عبارت میں ماضی استمراری بنانے کامعروف طریقہ صہبائی نے اپنے اسلوب میں بیان کیاہے۔صہبائی کے زمانے میں ضمیرکافعل کے آخرمیں لگاناجائزخیال کیاجاتاہوگالیکن آج کل متروک ہے۔فعل ماضی استمراری کی یہ تصریح صہبائی سے ماقبل اور مابعدتمام کتب میں درج ہے لیکن صہبائی نے ماضی استمراری کامطالعہ کہیں زیادہ محنت سے کیاہے۔وہ ماضی استمراری کے کئی اور قرینے بھی بتاتے ہیں۔ملاحظہ ہو :
‘‘ماضی استمراری اس طرح سے بھی حاصل ہوتی ہے کہ لفظ ‘کرتاتھا’اخیرمیں ماضی مطلق کے ، کسے مصدرسے ہو،زیادہ کریں جیسے وہ آیاکرتاتھااور جایاکرتاتھا۔۔۔’’[۱۴ ]
            اسی طرح آگے چل کرلکھتے ہیں :
‘‘اور کبھی ‘جاتاتھا’کالفظ زیادہ کرتے ہیں مگرفرق اتناہے کہ جب لفظ ‘کرتاتھا’کازیادہ کرنے ہیں ،صیغہ ماضیء مذکورہمیشہ الف کے ساتھ رہتاہے ۔اورعلامتیں،وحدت وجمع ومذکراور مؤنث کی ‘کرتا’اور‘تھا’دونوں کے اخیرمیں لاحق ہوتی ہیں جیسے ‘آیاکرتاتھاوہ مرد’اور‘آیا کرتی تھی وہ عورت’اورجب ‘جاتاتھا’زیادہ کرتے ہیں ،وہ ماضی کاصیغہ ہمیشہ یائے مجہولہ کے ساتھ رہتاہے جیسے اورعلامتیں بدستور‘جاتا’اور‘تھا’دونوں کے اخیرمیں لاحق ہوتی ہیں جیسے ‘آئے جاتاتھا’اور‘آئے جاتی تھی’۔۔۔۔کبھی قسم اول ماضی استمراری کے اخیرمیں لفظ‘رہتاتھا’زیادہ کرتے ہیں اورعلامتیں ماضی استمراری اور‘رہتا’اور‘تھا’تینوں کے اخیرمیں لاحق ہوتی ہیں جیسے ‘آتارہتاتھاوہ ایک مرد’،‘آتی رہتی تھی وہ ایک عورت’۔۔۔اورپلی صورت کی نسبت ان ڈورتوں میں معنی استمرارکے زیادہ ترواضح ہیں مگربعدتأمل کے معلوم ہواکہ ان سب صورتوں میں سے ‘کرتاتھا’ اور‘جاتاتھا’فقط ماضی استمراری ہے ۔اسی واسطے علامتیں تذکیروتانیث اور اورفاعل کی انھیں میں لاحق ہوتی ہیں ۔۔۔’’[۱۵ ]
             ان بیانات میں جس سطح کی تجزیاتی سوچ موجودہے ،وہ امانت اﷲ شیداؔاورصہبائی کے سواانیسویں صدی کے کسی قواعدنویس کے یاں نظرنہیں آتی۔پہلے تووہ معروف قرینے بیان کردیے کہ جن کے سبب سے اردومیں استمرارکے معنی حاصل ہوتے ہیں اور پھرفعل کی ساخت کی بنیادپریہ طے کیاگیاہے کہ ان میں سے کون کون سے استعمالات اشتقاق فعل کے قواعدکے مطابق حقیقی ماضی استمراری ہیں۔یہ مطالعہ ایک ایسی تقسیم کی بنیادفراہم کرسکتاہے کہ جس میں اردوکے فعل اصلی کی بنیادپربننے والے صیغوں اورامدادی افعال کے استعمال سے حاصل ہونے صیغوں کاالگ الگ مطالعہ کیاجا سکے۔ اردو قواعدنویسی کی روایت میں فتح محمدجالندھری اور مولوی عبدالحق دونمایاں نام ہیں۔فتح محمدجالندھری کی تالیف ‘‘مصباح القواعد’’۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔اس وقت تک قواعدنویسی صہبائی کے بعدبھی نصف صدی سے زیادہ کاسفرطے کرچکی تھی۔ان کے ہاں ماضی استمراری کے بیان میں ‘۔تاتھا’کی حامل فعلی ساختوں کے علاوہ ‘صرف ‘۔ئے تھا’کی حامل ساختوں کاذکرکیاہے جیسے ‘آئے تھا’اور‘جائے تھا’اور یہ شعر بھی درج کیاہے :
‘‘سن کے میری مرگ بولے مرگیااچھاہوا کیابرالگتاتھاجس دم سامنے آجائے تھا’’ [۱۶ ]
            فتح محمدجالندھری نے روزمرہ کی نشان دہی توکردی ہے لیکن قواعدی اساس پرگفتگونہیں کی۔مولوی عبدالحق کے ہاں یہ بحث ماضی ناتمام کے عنوان کے تحت درج ہے۔ ان کابیان ہے :
‘‘ماضی ناتمام یہ ظاہرکرتی ہے کہ گزشتہ زمانے میں کام جاری تھاجیسے وہ کھا رہاتھا، یا کھاتا تھا۔ آخری حالت میں بعض اوقات عادت ظاہرہوتی ہے جیسے جب کبھی وہ آتاتھاتوان سے ملنے ضرورجاتاتھا۔اس کے ظاہرکرنے کی دواور صورتیں بھی ہیں جیسے کھایاکرتاتھا۔ کھاتا رہتاتھااس کے علاوہ ماضی ناتمام، اور طرح بھی ظاہرکی جاتی ہے مثلاًکہتارہا، کھاتارہا، نکلتا رہا،اکثریہ صورت فعل کے متواترجاری رہنے کوظاہرکرتی ہے یاکسی ایسی حالت کوبتاتی ہے جب کہ دوکام برابرہورہے ہوں مثلاًمیں ہرچندمنع کرتارہامگروہ بکتارہا۔بارش ہوتی رہی اور وہ نہاتارہاسوائے ان صورتوں کے ماضی ناتمام کے ظاہرکرنے کی ایک اور صورت بھی ہے، جیسے پکاراکیا،بکاکیا،سناکیا،معناًاس کی حالت بھی گذشتہ صورت کی سی ہے۔بعض اوقات آخری علامت حذف ہوجاتی ہے،جیسے اس میں لڑائی کی کیابات ہے۔وہ اپناکام کرتاتم اپنا کام کرتے ۔)یعنی کرتے رہتے(میری عادت تھی کہ پہلے کھاناکھاتاپھرپڑھنے جاتا)یعنی کھاناکھاتاتھااور جاتاتھا(جب کبھی وہ آتے توہزاروں باتیں سناجاتے۔’’[۱۷ ]
             اس اقتباس میں مولوی عبدالحق نے اس میں مزید کئی صورتیں درج کی ہیں ۔صہبائی نے استمرارکے ضمن میں ایک اصول طے کیاتھااور وہ فعل کے ساتھ‘۔تا’کی موجودگی کاتھا۔مولوی عبدالحق کی مثالوں میں بھی زیادہ ترمثالیں ایسی ہیں جن کی ساخت میں ‘تا’کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے مگر‘کھارہاتھا’پکاراکیا،ایسی ساختیں ہیں جن کی بنیادماضی مطلق کی بنیادی شکل پرہے۔‘کیا’اور‘رہنا’دوایسے امدادی مصادرہیں کہ ماضی کے علاوہ بھی جس صیغے میں بھی ان کے داخل ہونے کی صورت بنتی ہے ،اس میں تسلسل اور تکرارفعل کی کیفیت پیداہوجاتی ہے جیسے لکھتارہے، لکھا کرے،لکھتارہتاہے،لکھتارہے گا،لکھاکرے گا،لکھاکر وغیرہ۔اگرمؤخرالذکردونوں قواعدنویسوں اور امام بخش صہبائی کی اس بحث کوتقابل میں دیکھاجائے تومولوی عبدالحق کے ہاں روزمرہ کی شناخت اور مختلف قرینوں کی تلاش میں زیادہ تفصیل موجودہے لیکن صہبائی ان کے مقابلے میں زیادہ تجزیاتی ہیں۔
            کتاب میں تمام چھ ماضیوں کابیان اسی باریک نکات کی توضیح کے ساتھ مکمل ہوتاہے۔مضارع میں علامت مصدر کے رفع کے بعدباقی ماندہ پر‘۔ئے’اور‘۔وے’اور‘ے’تین طرح کے قسم کے اضافے کودرست ماناہے جیسے ‘آئے، ‘آے ’اور‘آوے’ اس کی ایک تصریح یہ کی جاسکتی ہے کہ ‘ے’کااضافہ ایسے مادوں پراضافے کے لیے تجویزکیاہوگاجن کے آخرمیں حرف صحیح ہوجیسے ‘بول ’سے ‘بولے ’ لیکن مؤلف نے یہ وضاحت پیش نہیں کی۔ مستقبل کی بحث کومضارع کے ساتھ منسلک کردیاہے اور ‘گا’اس کی علامت بتائی ہے یعنی مضارع پر اس علامت کااضافہ کیاجائے گا۔لکھتے ہیں :
‘‘علامت استقبال کی ‘گا’اور حال کی ‘ہے’اور علامتیں تذکیروتانیث کی ان میں بھی لاحق ہوتی ہیں۔صیغہ استقبال کا:ا)ے(گا،آئے گا،آوے گا؛تینوں صورتوں کے ساتھ فعل واحدمذکر کااے گی،آئے گی،آوے گی ؛فعل واحدمؤنث غائب کا۔۔۔۔’’ [۱۸ ]
            حال میں مضارع کے بعد‘ہے ’،‘ہیں’،‘ہوں’کااضافہ بتایااور بنیادمیں مضارع کی تینوں شکلیں قائم رکھی ہیں جیسے :آے ہے،آئے ہے،آوے ہے،اے ہیں،آئے ہیں،آویں ہیں،وغیرہ لیکن متکلم میں صرف آؤہوں یاآؤں ہوں کاطریقہ بتایا۔آج کل حال کایہ طریقہ متروک ہے۔مؤلف کے اندراج سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ایسی ساختیں انیسویں صدی کے نصف اول تک غیرفصیح سمجھی جانے لگی تھیں ۔وہ لکھتے ہیں :
‘‘اورصیغہ حال کاجوکثیرالاستعمال اور مختارفصحاکاہے اس طرح ہے کہ بعداسقاط علامت مصدرجوکچھ باقی رہے اس کے اخیرمیں تائے فوقانی زیادہ کردیں مع اور حروف کے ،مثلاً:واحدغائب کامخاطب ؛مذکرکے واسطے ،اور واحدمؤنث کے واسطے،غائب ہویامخاطب ،یائے مثنات تحتانی ۔۔۔’’[۱۹ ]
            اس بنیادی ساخت میں ‘تائے مثنات’کے بعدکی علامت وحدت وجمع اور تذکیروتانیث کے ساتھ تبدیل ہوتی دکھائی گئی ہے۔ دیگرلوازم میں ایک تویہ امرواضح کرتے ہیں کہ حال میں ضمیرمنفصل کے آنے کے بعدفاعل کی حقیقی شناخت ہوتی ہے۔دوسرے ان ساختوں پر ضمیر کے مطابق‘ہے’،‘ہیں’،‘ہو’اور‘ہوں’کااضافہ بھی لازم ہے۔
            صیغ ِ افعال میں امر کی بحث سب سے دل چسپ ہے۔اس بحث میں یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ مؤلف اردوزبان کے تجزیے پرمضبوط گرفت رکھنے کے باوجودعربی اور فارسی قواعدکی منہاج کاتتبع رہے ہیں :
‘‘ہرچندمصدرسے بلاواسطہ اشتقاق صیغہ امرکاممکن ہے لیکن فارسی اور عربی میں اشتقاق اس کابواسطہ مضارع کے ہوتاہے اوراردوگواکثرامورمیں متتبع فارسی اور عربی کے ہیں لہٰذ امناسب معلوم ہواکہ صیغہ امرکااردوزبان کے مصدرسے بھی بواسطہ مضارع کے حاصل کیا جاوے۔ جانناچاہیے کہ صیغہء استقبال سے جمیع زوایددورکرنے سے صیغہ امرحاضر واحد کاباقی رہتاہے اوربواقی سے فقط علامتِ استقبال یعنی ‘گا’مثلاً،گرانے سے جوباقی رہاہے ،صیغہ جمع امرحاضراور واحدوجمع امرغائب حاصل ہوگا۔۔۔۔’’[۲۰ ]
            جمیع زوایددورکرنے سے مرادعلامت مضارع مع علامت استقبال ہے مثلاََ:جائے گا،یاجاوے گا،سے یائے مجہول اور علامت استقبال دونوں دورکرکے ‘جا’کاباقی بچنا جوکہ امرحاضرہے۔اسی طرح صرف علامت استقبال کے گرنے سے ‘جاؤگے ’سے ‘جاؤ’اور‘جائے گا’سے ‘جائے ’حاصل ہوتاہے جوامرحاضرجمع اور امرغائب واحدکی مثال ہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ صیغہ امرمیں غائب کے صیغے بھی موجودہیں لیکن متکلم پہ امرکی منشاممکن ہے ،نہ اس کاذکرہے۔اقتباسِ بالامیں مؤلف نے فارسی وعربی کے تتبع میں امرکاصیغہ اخذتوکرلیاہے لیکن یہ کاوش آج گردن کے پیچھے ہاتھ لے جاکرکان پکڑنے کے مترادف نظرآتی ہے لیکن ایسے بیان اردوقواعدنویسی کے رجحانات اور محرکات سمجھنے کے لیے کارآمدموادفراہم کرتے ہیں۔نہی کی بحث میں ‘مت’اور’نون’دونوں کوروارکھاگیاہے ۔آج کل اکیلا‘نون’نفیء ِ فعل میں متروک ہے اور ‘نہ’رائج ہے البتہ صفت منفی کی تشکیل کے لیے اس کاکردارتسلیم شدہ اورآج بھی قائم ہے اور جدیدقواعدنویس بھی اس کوتسلیم کرتے ہیں۔عصمت جاوید بھی ‘نون’سے تین لفظ لکھتے ہیں:‘‘ن۔ِ:نڈر، نکما،نہتا’’ [۲۱] لیکن یہ یادرکھناچاہیے کہ یہ ‘نون ’خالص ہندی ہے اور مکسورہے جب کہ اس زمانے میں نفیء فعل کے لیے مستعمل ‘نون ’ مفتوح ہوتاتھااور فارسی کے زیراثر مستعمل تھا۔
            مشتق کی بحث میں افعال مشتقہ کی بحث کے بعداسمائے مشتقہ کی بحث موجودہے۔اس بحث میں شامل اسمادرج ذیل ہیں :
ا۔اسم فاعل:اس کانام جس سے فعل صادرہوا۔اس کے اشتقاق کے دوطریقے بتائے ہیں :
            ۱۔مصدرکی الف کویائے مجہولہ سے بدل کے ‘والا’کااضافہ کرنے سے اور علامات تذکیروتانیث ووحدت وجمع ‘والا’پرلانے سے جیسے ‘آنے والا’،‘آنے والی’ وغیرہ ۔جمع مؤنث میں والیاں بھی لکھاہے جواب متروک ہے۔
            ۲۔فعل لازم کی ماضی مطلق کے بعد‘ہوا’اورہردوپر علامات تذکیرتانیث ووحدت وجمع جیسے :آیا ہوا،آئی ہوئی،آئے ہوئے وغیرہ۔
            دوسری شق کے مطابق قائم شدہ صرفی ساختوں کوصہبائی کے علاوہ کسی قواعدنویس سے اسم فاعل نہیں لکھا۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ جب بھی یہ مسندالیہ کی جگہ آتاہے توفعل مذکورکابراہِ راست اسم فاعل نہیں رہتااور حالیہ ہوجاتاہے۔جیسے:‘‘آیاہوا،کھارہاہے’’اس جملے میں ‘‘کھارہاہے ’’فعل ہے۔آیاہوا،فاعل ہے لیکن اسم فاعل نہیں ہے کیوں کہ اسم فاعل میں اسی فعل کی موجودگی کی شرط ہے ،جس کاوہ فاعل ہے۔اس صورت میں یہ اسم حالیہ ہوگااور فاعل ‘کھارہاہے’ کاہوگا۔‘آیاہوا،نیک ہے۔’اول تواس مثال میں ‘آیاہوا’کے ہمراہ ذوالحال ،مذکورنہیں۔اگر یہ بھی مان لیاجائے کہ جملے میں کچھ محذوف نہیں توفعل کسی جملے کامسندالیہ نہیں بن سکتا۔اس لیے اس کواسم ہی مانناپڑے گا اور اس صورت میں یہ اسم حالیہ کہلائے گا۔فتح محمدجالندھری نے مباحث قواعدمیں ،امام بخش صہبائی کے اسی رسالے کی ترتیب قائم رکھی ہے۔وہ اسم حالیہ کی بحث میں لکھتے ہیں :
‘‘کبھی لفظ ہوابھی زیادہ کردیتے ہیں جیسے: خالدمسکراتاہواجاتاتھا۔جمع اورمؤنثات میں ہواکاالف بھی صیغے کے آخرکے الف کی طرح یائے معروف اور معروف سے بدل جاتاہے لیکن صیغہءِ جمع مؤنث میں نون غنہ لفظ ‘ہوئیں’میں ہوتاہے،اصل صیغہ میں نہیں ہوتاجیسے : مسکراتے ہوئے،مسکراتی ہوئی ،مسکراتی ہوئیں۔’’[۲۲ ]
            اس بحث کے بعدغالب کاایک شعردیکھیے :
دائم پڑاہواترے درپرنہیں ہوں میں خاک ایسی زندگی پر،کہ پتھرنہیں ہوں
            اس شعر میں ‘پڑاہوا’واضح طورپراسمیہ خبرکے طورپرآرہاہے نہ کہ فعل کے طورپر۔اس بحث کے بعد‘آیاہواِ،آئی ہوئی وغیرہ کواسم فاعل ماننے کی بجائے اسم حالیہ ہی مانناچاہیے ۔
اسم مفعول:اسم مفعول کی تشکیل کے دوطریقے بتاتے ہیں:۔
۱۔پہلاطریقہ :
‘‘اسم مفعول مشتق ہوتاہے مصدرمتعدی سے ۔۔۔اور اس کااشتقاق اس طرح پرہے کہ بعد گرانے علامت مصدرکے جوکچھ باقی رہے ،اس کے بعد‘یاگیا’مذکرواحد‘یی گئی ’،دونوں یائے معروفہ کے ساتھ مؤنث واحد۔۔۔’’[۲۳ ]
            اس کلیے میں دوبنیادی نقص ہیں ۔ایک تویہ کہ یہ صورت صرف مجہول صورتوں اور ‘مفعول مالم یسم فاعلہ ’کے لیے درست ہے ،دیگرکے لیے نہیں۔دوسرے یہ کہ‘یاگیا’کااضافہ صرف ان مصادرکے لیے ہے جن کی علامت مصدرہٹانے سے آخرمیں حرف علت ہوگا۔حروف صحیح کی موجودگی میں ‘یا’کی بجائے صرف الف ماقبل مفتوح آئے گا۔
۱۔دوسراطریقہ :
‘‘اورکبھی بجائے ‘گیا’کے‘ ہوا’استعمال کرتے ہیں ’جیسے ٹوٹاہوا،لایا ہوا وغیرہ ’ ’[۲۴ ]
            مؤلف نے جس قسم کے لیے ‘‘کبھی’’کالفظ استعمال کیاہے وہی پسندیدہ اورمعروف ہے۔اسم آلہ،اسم تفضیل،صفت مشبہ اورظرف کی بحث بہت مختصرہے ۔ان کے خیال کے مطابق اردومیں اسم تفضیل ،صفت مشبہ اور ظرف مشتق نہیں ہوتا۔صفت مشبہ اور ظرف میں چندمثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں جیسے چمکیلا،بھڑکیلاڈھلواں ،جھگڑالو،رونی،کھاؤ وغیرہ صفت مشبہ میں اور ’رمنا’،‘’اور‘جھرنا’وغیرہ ظرف میں مذکورہوسکتے ہیں ،لیکن یہ عام نہیں ہیں۔مؤلف نے مشتق اسمامیں ایک سامنے کی چیزچھوڑدی ہے اور وہ اسم معاوضہ ہے جیسے:پکوائی،لکھوائی،پسوائی وغیرہ۔وجہ صرف یہ ہے کہ عربی میں اسم معاوضہ مشتق نہیں ہوتا۔
            اسمائے مشتقہ کی بحث کے بعدمصدرکی بحث ہے۔اس بحث میں وضع کے اعتبارسے اردومصدرکی دوقسمیں :وضعی اورغیروضعی گنوائی ہیں۔وضعی توشروع سے مصدری معنی کے لیے وضع ہوتاہے لیکن غیروضعی مصدر)ایک جزوالے(بننے کاطریقہ یہ ہے کہ غیرزبان کے کلمے پرعلامت مصدر‘نا’کے اضافے سے بنتے ہیں یااپنی زبان کے غیرمصدری کلمے کے آخرمیں‘مصدری ‘نا’لگاتے ہیں جیسے:قبولنا،خریدنا،شرمانا،مکیانا،مٹھیانا وغیرہ۔مصدروضعی بلفظِ مفردکے لیے اس سے بہترحدبندی ممکن نہیں۔وہ مصادرجودواجزاسے مرکب ہوں ،ان کی تشکیل کے کئی طریقے بتائے ہیں مثلاًجزوِاول صیغہء ِ امرہواورجزوِ ثانی اوس کاغیرہو۔اس کی مزیددوقسمیں ہیں۔پہلی یہ کہ جزوِ اول کامفہوم بالذات ہواورجزوِ دوم کامفہوم بالذات نہ ہوجیسے آنا،لینا،چکنا،ہونا،جانا وغیرہ کوجزدوم میں لانا۔مؤلف کے نزدیک اس کے قرینے لاتعدادہیں۔ دوسری قسم میں دونوں اجزاکے معنی مقصودبالذات ہوتے ہیں،جیسے جارہنا،کہہ جانا،اٹھ بیٹھنا وغیرہ۔فعل مرکب کی بحث میں مؤلف کواولیت حاصل نہیں ۔اس سے پہلے مولوی امانت اﷲ شیداؔاپنی کتاب ‘صرف اردو’’مطبوعہ ۱۸۱۰ء میں فعل مرکب کی کئی صورتیں بیان کرچکے ہیں ۔جن میں پہلالفظ جامدیاصٖفت ،اسم حالیہ ،مصدریا فعل ہوسکتاہے جب کہ دوسراہمیشہ فعل ہوتاہے۔افعال میں امرحاضرپرفعل ماضی یادونوں فعل ماضی کاقرینہ بتایاہے [۲۵]انشاؔنے بھی ‘‘دریائے لطافت’’میں فعل الحاقی کے بیان میں اس پرروشنی ڈالی ہے۔[۲۶]مؤلف کاامتیازیہ ہے کہ انھوں نے فعل مرکب کے جزواول اور اجزائے مابعدہ کارایساتجزیہ پیش کیاہے جوساخت اور معنی کے لازمی تعلق کی توضیح کرتاہے۔مابعدقواعدنویسوں میں سے بیش ترکے ہاں فعل مرکب کی بحث درج ہے۔تمناعمادی مجیبی پھلواوری نے صرف اس موضوع پر‘‘افعال مرکبہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔ان میں سے اکثرقواعدنویسوں نے ایسے دوفعلوں کے لیے جن میں سے زمانی ترتیب کے ساتھ دوفعلوں کے وقوع کے معنہ ہوں،فعل ماضی معطوفہ کے نام سے فعل مرکب سے الگ کیاہے۔[۲۷ ]
 قواعد‘‘صرف ونحواردو’’میں دوسراباب نحوکاہے۔نحوکی تعریف میں وہ لکھتے ہیں :
‘‘معلوم کیاچاہیے کہ اردوکی نحوایک علم ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے احوال ،ترکیب کلمات کا؛یعنی الفاظ ،مرکب میں ایک دوسرے سے کیاعلاقہ رکھتے ہیں اورچوں کہ مرکب کے اجزامفردہوتے ہیں ،تولازم ہے کہ پہلے مفرد کابیان کیاجائے’’[۲۸ ]
            اس تعریف کے بعد وہ لفظ کے لغوی اور اصطلاحی معنی پرروشنی ڈالتے ہیں۔ لفظ مفرداورمرکب اوربامعنی اور بے معنی میں فرق کرنے کے بعدکلمہ کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ وہ الفاظ جوبامعنی اور مفردہیں۔کلمے کی روایتی تین قسمیں اسم فعل اورحرف گنواتے ہیں۔کلمہ دلالت معنی میں دوسرے کلمے کامحتاج ہوتو‘حرف ’اور محتاج نہ ہوتودو صورتیں ہیں :ان میں زمانہ ہوگایانہیں ہوگا۔اثبات زمانی‘ فعل ’کرے گا اور بغیراززمانہ‘ اسم’ہوگا۔[۲۹ ]
            پہلا باب اسم کی بحث میں ہے ۔اس کی پہلی فصل میں اسم کی اقسام کابیان ہے۔پہلی قسم علم ہے ۔علم میں نام، لقب، خطاب،۔ دوسری قسم ضمیر ہے ۔ضمیرمتصل ہوتی ہے یامنفصل۔ہندی)اردو(میں ضمیرمتصّل ہمیشہ،مستترہوتی ہے۔ضمیریں تین ہیں یعنی غائب،مخاطَب اور متکلم۔وہ واحداورجمع غائب کے واسطے[۳۰]ضمیرغائب کی شکل ‘اِس’اور‘اُس’کوصرف واحدکے لیے ،‘انھوں’اور‘انھیں’صرف جمع کے لیے اور‘اِن’اور‘ان’مشترک ہیں واحداورجمع کے لیے۔ آج کل اس میں یہ تغیّرواقع ہوچکاہے کہ ‘انھوں’ ’اور‘انھیں ’بھی جمع کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں ۔‘تو’ضمیرخطاب کاواحدکے واسطے اور ‘تم’جمع کے لیے۔[۳۱ ]
            تیرا،تیری واحدکے لیے‘،تمھارا’،‘تمھاری’،‘تمھارے ’ جمع کے لیے۔‘تجھ ’،‘تجھے’بھی واحدکے واسطے،‘میرا’، ‘میری’او ر ‘میرے’ واحدکے واسطے اور‘ہم’ ‘ہمارا’، ‘ہماری’،‘ہمارے’جمع کے واسطے۔ضمیرکے بیان میں خطاب کی ضمیروں میں ‘تجھے’برائے واحداورتمھیں برائے جمع کا ذکرنہیں اور متکلم کی ضمیروں میں ‘مجھے’برائے واحداور‘ہمیں’ برائے جمع کاذکر موجودنہیں۔لیکن آگے چل کرکرجب وہ ضمیرکے فاعل یامفعول یامضاف الیہ کی طرف رجوع کی بحث کرتے ہیں توضمائرمذکورہ کومفعولی حالت میں زیربحث لے آتے ہیں۔ضمائر کی درجہ بندی وہ فاعل،مفعول یامضاف الیہ کی طرف رجوع کی بناپریوں کرتے ہیں :
‘‘اب سمجھناچاہیے کہ ضمائریاراجع ہوتی ہیں ،فاعل کی طر ف یامفعول کی یامضاف الیہ واقع ہوتی ہیں۔قسم اوّل کوضمیرمرفوع کہتے ہیں۔قسم دوسری کومنصوب اور قسم تیسری کومجرور۔’’[۳۲ ]
            قبل ازیں امانت اﷲ شیداؔنے ضمیرکی تین حالتیں فاعلی،مفعولی اوراضافی گنوائی تھیں ۔[۳۳]بعدمیں رائج ہونے والی اصطلاحوں کے مطابق بھی ضمیرمرفوع فاعلی حالت،ضمیرمنصوب،مفعولی حالت اور ضمیرِ مجرور،جری حالت ہے۔ضمیرکی اضافی حالت اورجری حالت کے فرق کوبعدمیں محسوس کیاگیاتوحالتوں میں ظرفی حالت اورطوری حالت کااضافہ کیاگیا مولوی عبدالحق ‘‘قواعداردو’’کی طبع جدید[۳۴]میں اورڈاکٹرابواللیث صدیقی ‘‘جامع القواعد’’[۳۵]میں پانچ حالتیں گنواتے ہیں جوکہ یہ ہیں:فاعلی حالت،مفعولی حالت،اضافی حالت،ظرفی حالت اورطوری حالت ۔
            جملے میں ضمیرکے مقام کی بابت وہ اس بات کے قائل ہیں کہ :
‘‘ ضمیریں فعل سے پہلے اور فعل کے بعددونوں جائے واقع ہوسکتی ہیں مثلاً‘وہ گیا ’ یا ‘گیاوہ’’’[۳۶ ]
            یہ چھوٹاساجملہ اوراس کی انتہائی سادہ مثال اردوقواعدکے ارتقااورصرفی اورنحوی تغیّرات کی تفہیم میں انتہائی اہم ہے۔ضمیرکے فعل سے پہلے اور بعدمیں آنے کی مثالیں دوسرے قواعدنویسوں کے ہاں بھی ہیں لیکن کسی نے یہ تصریح نہیں کی۔یہ جملہ ایک تویہ طے کردیتا ہے کہ انیسویں صد ی کے وسط تک ضمیرفاعل کے لیے فعل کے اوّل یا آخر،ذکرکی قیدنہیں تھی۔دوسرے یہ جملہ ہماری توجہ اس جانب بھی مبذول کراتاہے کہ کلاسیکی ادب اور بطورشاعری کے مطالعے میں اس دورکے صرفی ونحوی معیارات سامنے رکھنابھی لازم ہے۔ضمیرکے مقام کی اس آزادی کے بعدلاتعدادایسے اشعاراور نثری مثالیں ،جن میں آج ہم اجزائے کلام کی ترتیب میں کچھ تغیّردیکھتے ہیں ،اپنے عہدمیں وہ عین قواعدکے مطابق ہوسکتی ہیں۔
 ضمائر کی اس سہ جہتی تقسیم کے بعدہرقسم کووحدت وجمع اور تذکیرتانیث کی بناپرزیربحث لاتے ہیں۔یہ ایک مسلسل اور طویل بیان ہے :
‘‘فاعل کی ضمیرمیں۔۔۔فعل اگرلازم ہوتوضمیریں غائب یامتکلم سے،وہ ،تواورمیں، واحد کے واسطے؛ وہ ،تم اورہم تثنیہ اورجمع کے واسطے۔۔۔جمع اور تثنیہ مؤنث کے لیے؛ اور اگر متعدی ہوتواس میں تفصیل ہے یعنی اگرماضی قریب ہویابعید ہوتو اوس )اس( اوراون)ان( او ر تواو ر میں مع لفظ ‘نے’کے واحدکے لیے اوراونہوں)انہوں( اور تم اور ہم مع لفظ ‘نے’کے جمع کے واسطے،۔۔۔ماضی بعیداسی قیاس پر؛اوراگراستمراری ہویامضارع وغیرہ ،پس وہ اور تواورمیں واحداوروہ اورتم اور ہم جمع کے واسطے بدون لفظ‘نے’کے استعمال ہوتے ہیں۔ [۳۷] ۔۔۔جزو دوسراضمیرمنصوب یعنی مفعول کی ضمیرکی بیان میں اورمفعول کی ضمیریں یہ ہیں:اُس کو،اوس )اُس(کے تئیں، اوسے‘)اُسے(واحدغائب مذکریامؤنث،اُن کو،اون)اُن( کے تئیں،اونہیں)اُنہیں( جمع مذکریامؤنث ؛تجھ کو،تیرے تئیں،تجھے واحدمخاطَب مذکر یا مؤنث،تم کو،تمہارے تئیں، تمہیں،جمع مخاطَب مذکریامؤنث؛[۳۸]ہم کو،ہمارے تئیں، ہمیں۔۔۔ جزو تیسرا ضمیرمجرور:یعنی ان ضمیروں کے بیان میں جومضاف الیہ واقع ہوتے ہیں اوروہ ضمیریں یہ ہیں۔اوس)اُس(کاواحدمذکر یامؤنث غائب اور مضاف اس کاواحدمذکر ہوتاہے۔ اوس)اُس(کے ۔۔۔واحدمؤنث یامذکر غائب اور مضاف اس کا واحدیاجمع مذکر؛اوس )اُس(کی ۔۔واحدمذکریامؤنث اور مضاف اس کاواحدیاجمع مؤنث،اون )اُن ( کا،جمع مذکریامؤنث اور مضاف اس کاواحد مذکر، اون )اُن( کے ۔۔۔جمع مذکریامؤنث غائب اور مضاف اس کاواحدیاجمع مذکر، اون )اُن(کی، جمع مذکر یا مؤنث غائب اور مضاف اس کاواحدیاجمع مؤنث؛تیراواحدمذکریامؤنث مخاطَب اور مضاف اس کاواحدمذکر،تیرے ۔۔۔واحدمذکریامؤنث مخاطَب اورمضاف اس کا واحد یا جمع مذکرتیری ۔۔۔واحدمذکریا مؤنث مخاطَب اورمضاف اس کا واحدیاجمع مؤنث؛تمہارا جمع مذکر یا مؤنث مخاطَب اور مضاف اس کاواحدمذکر،تمہارے ،جمع مذکریامؤنث مخاطَب اور مضاف اس کاواحدیاجمع مذکر؛تمہاری۔۔۔جمع مذکریامؤنث مخاطَب اور مضاف اس کا واحدیاجمع مؤنث؛میراواحدمذکریا مؤنث متکلم اور مضاف اس کاواحدمذکر،میرے ۔۔۔واحد مذکر یامؤنث متکلم اور مضاف اس کاواحدیاجمع مذکر، میری۔۔۔واحد مذکریا مؤنث متکلم اورمضاف اس کاواحدیاجمع مؤنث۔ہمارامتکلم مع الغیرمذکریامؤنث اور مضاف اس کاواحدمذکر،ہمارے۔۔۔متکلم مع الغیرمذکریامؤنث اورمضاف اس کاواحد یا جمع مذکر، ہماری متکلم مع الغیرمذکریامؤنث اور مضاف اس کاواحدیاجمع مؤنث ۔۔۔اسی قیاس پرباقی مثالوں کوسمجھناچاہیے’’ [۳۹ ]
 یہ تفصیلی بیان بہت کچھ قطع وبریدکے بعدپیش کیاگیاْاس کے باوصف یہ ایک طرف امام بخش صہبائی کے اسلوب میں طوالت کے عنصرکی نشان دہی کرتا ہے تودوسری طرف یہ ظاہرکرتا ہے کہ وہ ضمیرکے ساتھ دیگر علامات اور ان کی تبدیل کوضمیرکے ساتھ ہی بیان کرکے ،استعمال کے تمام پہلوؤں کااحاطہ کرناچاہتے ہیں۔اس کے باوجودبہت سی باتیں تشنہ رہ جاتی ہیں ۔فاعل کی ضمیرمیں فعل متعدی کی بحث میں ماضی قریب اور بعیدکے ساتھ علامت‘نے’کاذکرکرتے ہیں اور مثالیں ماضی مطلق اورماضی بعیدکی دیتے ہیں حالاں کہ فعل متعدی کی علامت فاعل‘نے’میں ماضی مطلق کاتذکرہ پہلے ہوناچاہیے ۔اس کے بعداس پراضافات کے ساتھ بننے والی تمام ماضیوں کاتذکرہ ہوناچاہیے تھا۔ماضی استمراری میں جمع مؤنث کی ضمیروں میں فعل اورلفظ‘‘تھیں’دونوں جمع کے طورپرہیں جیسے وہ کہتیں تھیں،تم کہتیں تھیں،لیکن یہ وضاحت نہیں کہ یہ دہلی کامحاورہ ہے یاکیاصورت ہے؟اس عہدکی دیگرکتب میں ایسی صورت میں جمع کاصیغہ بالعموم ‘‘تھیں’’پرہے اور فعل واحد مؤنث ہی رکھاہے جیسے وہ کہتی تھیں،تم کہتی تھیں ،ہم کہتی تھیں۔ مولوی محمّداحسن نے یہ صراحت کی ہے کہ جمعیّت صرف ایک لفظ پرآئے گی۔[۴۰]فعل پریا‘تھیں’کی شکل میں جیسے وہ کہتی تھیں یاوہ کہتیں تھی۔ضمیرمضاف الیہ میں ویسے توبہت تفصیل سے بیان کیاگیا لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ یائے مجہولہ پرختم ہونے والی ضمیروں اس کے،تیرے، میرے،ان کے،تمھارے ،ہمارے میں واحدمذکرکے مضاف الیہ میں شامل ہونے کاسبب اردومیں آخراللفظ‘ الف’یا‘ہ’آنے والے الفاظ کی تبدیل کے قواعدکے مطابق ہوگا اور عمومی طورپریہ ضمیریں جمع مضاف الیہ کی ہوں گی جب کہ مضاف الیہ کے مابعدحرف معنوی نہ ہو۔اس میں ‘اس کے لڑکے کی بات کرو’تودرست ہے لیکن ‘اس کے لڑکاکدھرہے؟’درست نہیں۔
            اسم کی تیسری قسم اشارہ ہے ۔قریب کے لیے ‘یہ’اوربعیدکے لیے‘وہ’اور یہ وحدت وجمع میں یکساں ہیں۔[۴۱] ان کے خیال میں جب ضمیرغائب کے بعداسم ظاہرہوتوضمیراسم اشارہ میں تبدیل ہوگی۔چوتھی قسم اسم موصولہ ہے۔اس اسم کی معنویّت اسی میں ہے کہ جملہ صلہ میں کوئی ضمیران کی طرف راجع ہو۔ اسمائے موصولہ میں جس،تس،جن اورجنہوں کوشامل کیاہے ۔‘تس’ ان کے زمانے میں شاذالاستعمال ہونے کے باوجودشامل ہے جب کہ ‘جو’کاذکرنہیں کیاحالاں کہ یہ لفظ پچھلی تین صدیوں سے مستعمل ہے اور تاحال بمطابق محاورہ درست ہے۔پانچویں قسم اسم صوت کہ جن سے جانوروں کوآوازدیتے ہیں یاحیوانات کی بولی کی نقل کرتے ہیں۔اردو میں شائدہی کسی نے جانوروں کوآوازدینے کے مسئلے پرغورکیااوراسے اسم صوت کے زمرے میں شامل کیاہو۔اسم کی چھٹی قسم اسم ظرف ہے۔اس کی دوقسمیں:ظرف زمان اور ظرف مکان ہیں۔ظرف زمان کے لفظ ‘اب،جب ،تب،اور کب ہیں۔اس مقام پرجس تحقیق کی مصنف سے توقع تھی وہ موجودنہیں ہے۔یہ وضاحت ضروری تھی اردومیں ‘ب’حرف زمان ہے اور دوسرے الفاظ یاحروف کے ہمراہ آکرظرف زمان کے لیے لفظ بناتا ہے،مثلاً‘ج’عام طورپرکلمہ موصولہ کے لیے مستعمل ہے ۔اس کے ساتھ ‘ب’کااضافہ ‘جب ’بناتاہے توایساظرف زمان پیداہوتا ہے جو اسم موصولہ کی شرائط مانگتا ہے۔اب میں ‘الف’اوراس کے ‘سین’کی تبدیل ‘ب’کے ساتھ موجود ہے تو‘اب’اس وقت کافائدہ دیتاہے،علیٰ ہٰذالقیاس۔اسی بحث میں وہ ‘کب’کے خبرکے ساتھ آنے کاقرینہ بھی بیان کرتے ہیں جہاں استفہام کی بجائے خبرپرزور ہے جیسے ‘وہ کب کاآگیا یاوہ کبھی کاآگیا۔[۴۲]دولفظ اور یعنی ‘جوہیں’اور‘‘وہیں’بھی ظرف زمان میں داخل ہیں اور ان میں فائدہ حصرکاموجودہے۔ظرف مکان میں،وہ‘ہاں’مطلق مکان،‘وہاں’مکان بعیداور‘یہاں’مکان قریب کے لیے ہے۔ اسی طرح ‘جہاں’، ‘تہاں’جس میں اکثر‘جہاں تہاں’اکھٹاآتاہے اور‘کہاں’استفہام مکان کے لیے بھی مستعمل ہے۔‘کہیں’ استفہام اورحصرمیں مستعمل ہے۔[۴۳۔۱۸۹] مکان میں طرف کی نشان دہی کے لیے ادھر،اودھرکدھر،،جدھر،تدھراستعمال ہوتے ہیں۔ان کے خیال میں :
 ‘‘ظروف مکاں جتنے مذکورہوئے،ان سب کی اصل دولفظ ہیں:ہاں اور‘یاں’۔’’[۴۴ ]
            اسم کی ساتویں قسم کنایہ بتاتے ہیں،جس میں ‘کَے،اور‘کئی’کوشامل کیاہے۔‘کے ’کے بطوراستفہام کے استعمال کی نشان دہی بھی کی ہے۔اسم میں اقسام غیرمشتقہ)بشمول اسم ظرف غیرمشتق(کے بیان کے بعداسم کی معرفہ اور نکرہ میں تقسیم کی گئی ہے اور معرفہ میں اسم علم،اسم ضمیر،اسم اشارہ اور اسم موصول کے ساتھ اس مضاف کوبھی شامل کرتے ہیں جواقسام مذکورہ بالا کی جانب ہو۔اسم معرفہ کی چھٹی قسم وہ اسم کے جس پرحرف ندا )منادیٰ( ہو۔
            اگلی بحث تذکیروتانیث کی ہے۔یہ ایک منفرداندازکی بحث ہے جواس اندازمیں ماقبل قواعدنویسوں کے ہاں موجود ہے نہ مابعدکے ہاں۔انہوں نے سب سے پہلے ایسی تذکیروتانیث کولیا ہے ۔جس میں مذکرکے لیے مؤنث مقابل جنس کے طورپرہو،اس کومؤنث حقیقی کہاگیا۔دوسری مؤنث وہ ہے ، جس میں مؤنث کے مقابل مذکرحیوان نہیں ہوتامثلاً روٹی، لکڑی، آگ وغیرہ ۔ان کے خیال میں :
‘‘اردومیں اسامیٰ مؤنث بنانے کاکوئی قاعدہ کلیہ نہیں ،اس واسطے ضبط کرناصعوبت سے خالی نہیں۔ پس اس کوچھوڑ کر مذکراور مؤنث کی معرفت کاقاعدہ لکھ دیتاہوں تا کہ تتبع کواس واسطے مفیدہو اور جب اس قاعدے کے موافق نظرکرے ،مذکراورمؤنث میں تمیزکرے۔’’ [۴۵ ]
            اس مشکل کے بیان کے بعدپہلے وہ اسم معرفہ کولیتے ہیں کہ اس کی تذکیراورتانیث اس کے معنی پرموقوف ہے۔اس نکرہ کی تانیث کی چار قسمیں بتاتے ہیں :
  ۱۔ پہلی وہ کہ اس میں مذکر ہے اور مؤنث نہیں۔
  ۲۔دوسری وہ کہ جس میں مؤنث ہے لیکن مذکرنہیں۔
  ۳۔قسم تیسری کہ مذکر کے مقابل مؤنث ہے لیکن اس لفظ سے نہیں جس سے مذکرہے۔
  ۴۔قسم چوتھی کہ جس میں تذکیروتانیث میں ایک ہی لفظ پراساس ہے۔
            ان میں اوّل الذکرتینوں قسمیں سماعی ہیں کہ کوئی قاعدہ مقررکرناممکن نہیں۔چوتھی قسم کوذیلی تقسیم میں شاذ اورمطرّدمیں تقسیم کیاگیا ہے۔ شاذمیں ‘الف’یا‘ہ’کلمے کے آخرمیں آکرمذکرکومؤنث میں بدلتے ہیں۔اس کی صرف دوامثلہ ہیں ۔ایک ‘نایک’سے‘نایکا’اور‘دوسرے ‘خالو’ سے ‘خالہ’۔
 مطرّدمیں کئی طریق ہیں ۔اس میں مذکراسم کے آخرکے حروف اور اس کے مقابل مؤنث کے حروف کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ان کے بیان کوجدول کی شکل میں یوں پیش کیاجاتا ہے :
مذکر کے حروف آخرمع امثلہ
7مؤنث کے حروف آخر مع امثلہ
e‘الف’یا‘ہائے ہوّزجیسے:شاہزادہ، بکرا،رسا ،دولہا،ملا
‌یائے تحتانی فقط یانون فقط یانون مع الیاء جیسے:شاہزادہی بکری،رسّی۔دولہن،ملانی۔
ƒیائے تحتانی ماقبل مکسور جیسے:بھائی ،دھوبی،ہاتھی،نائی،چودھری،کھتری
ں فقط نون یانون مع الیاء یا یامع النون جیسے:بہن،دھوبن،ہتھنی،نائن،چودھرانی،کھترانی
ëالف یا یائے ماقبل مکسورکے علاوہ کوئی اور حرف یا یائے بغیرماقبل مکسور جیسے: سنار، پہاڑ ، کمہار، چمار،برہمن،پنڈت وغیرہ۔
میائے تحتانی ماقبل مکسوریانون فقط،یایانون مع الیا ء یانون مع الیا ء یا‘آنی جیسے:سناری،پہاڑی،کمہاری،چماری،برہمنی،
پنڈتانی وغیرہ
?کوئی قیدنہیں جیسے:گھڑا،کھاٹ،چڑا
I‘یا’علامت تذکیرجیسے:گھڑیا،کھٹیا،چڑیا
ھ          بعدکے قواعدنویسوں نے تذکیروتانیث مین بہت طویل فہرستیں دی ہیں اور بعض کتب جیسے ،‘‘دوپیکر’’ ،‘‘قران السعدین ’’وغیرہ صرف تذکیروتانیث کے موضوع پرلکھی گئیں لیکن ان بنیادی اصولوں میں اضافہ نہ کیا گیا۔کتاب میں حروف تہجی میں ب،پ،ت،ث، چ،ح،خ،د،ذ،ر،ز، ژ،ط،ظ،ع،غ،ف،م،و،ہ،اور ی کومؤنث لکھاگیا۔مذکرحروف کی فہرست نہیں دی گئی ۔اس لیے یہ طے نہیں کیاجاسکتا کہ انہوں نے حروف عربی وفارسی کے علاوہ خالص ہندی حروف یعنی ‘ڈ’،‘ٹ’اور‘ڑ’اورمرکب حروف مثلاًبھ،پھ،تھ،وغیرہ کواس تجزیے میں شامل کیا ہے کہ نہیں؟عربی اور فارسی کے حوالے سے باب تفعیل کے وزن پرموجودالفاظ،ایسے حاصل مصدرجن کے آخر میں ‘ش’یا‘ت’ آئے ،مؤنث ہوں گے۔
            کتاب میں اسم اور صفت کے لیے الگ درجے نہیں ہیں لیکن یہ تفریق ضرورکی گئی کہ اسم کسی شئے پردلالت کرے تواس کے معنی اسمی اوروصف پردلالت کرے تومعنی صفتی ہوں گے۔اسماکی تعدادکی بحث میں واحداور جمع کے علاوہ مثنیٰ کاصیغہ بھی مذکورہے اور اس کاقرینہ اسم سے پہلے ‘دو’لانے کابتایاہے۔یہ بھی محض تکلف ہے اور عربی کااتباع ہے۔
            نحوکادوسراباب ‘فعل ’کے مباحث میں ہے۔فعل کوسب سے پہلے لازم اور متعدی میں تقسیم کیاگیا۔اس کے بعدمعروف اور مجہول کاتصورواضح کیاگیا۔فعل معروف کافاعل معلوم اورمجہول کانامعلوم ہوتاہے اس لیے اس کی فعل کو ‘فعل مالم یسم فاعلہ’اوراس کے مفعول کو‘مفعول مالم یسم فاعلہ’کہتے ہیں۔‘مفعول مالم یسم فاعلہ ’میں یہ احتیاط لازم ہے کہ بعض اوقات ‘گیا’کے لفظ والے افعال کامفعول ‘مفعول مالم یسم فاعلہ’نہیں ہوتایہ فرق‘کھاناکھایا’ اور‘کھاناکھایا گیاتو کھاؤں گا’کی مثالوں میں واضح ہے۔مؤلف نے مفعول کی بحث میں ،مفعول کی پانچ قسمیں :مفعول بہٰ،مفعول مطلق، مفعول فیہ، مفعول معہٗ اور مفعول لہٗ بیان کی ہیں۔ان اقسام میں مفعول منہٗ شامل نہیں جوفعل کاذریعہ ہوتاہے اور اردومیں کوئی عضویاآلہ وغیرہ ہوتاہے۔اسی بیان سے منسلک بیان حال کاہے ،حال یہاں زمانہ ءِ حال کے معنوں میں نہیں ہے بل کہ مؤلف کے الفاظ میں :
‘‘حال اسے کہتے ہیں جوفاعل اور مفعول کی ہیئات پردلالت کرے۔’’[۴۶ ]
            اس حصے میں کی ایک اہم بحث افعال ناقصہ کی ہے۔لکھتے ہیں :
‘‘افعال ناقصہ وہ افعال ہیں جوموضوع ہیں اس امرکے واسطے کہ اپنے فاعل کوایک صفت مخصوصہ پرمقررکردیں اور وہ صفت غیراس صفت کے ہے،جوان کے مصدرسے مشتق ہو۔خلاف اور افعال کے کہ ان کافاعل صفت مخصوصہ پرمقررنہیں ہوتااوران کوافعالِ ناقصہ اس واسطے کہتے ہیں کہ افعال اپنے فاعل پرتمام نہیں ہوتے اور خبرکے محتاج رہتے ہیں،خلاف سب افعال کے۔اسی واسطے سواافعالِ ناقصہ کے اورافعا ل کوتامہ کہتے ہیں،اور وہ یعنی افعال ناقصہ یہ ہیں؛ہے،ہیں مثبت،نہیں منفی۔تھا،ہوا،ہوگیا،یہ مبتدااورخبرپرداخل ہوتے ہیں اور ان کے داخل ہونے کے بعدمبتداان کااسم اوراور مبتداکی خبران کی خبرکہلاتی ہے۔’’[۴۷ ]
            اس بیان کے بعدیہ بات سامنے آتی ہے کہ ‘ہے’،‘ہیں ’وغیرہ کواردوقواعدنویسی کے ابتدائی دورمیں بھی فعل ناقص ماننے والے موجودتھے اور فاعل کوصفت پرمقررکرکے ان کومبتدامیں اسم طے کردیناان کی خصوصیت تھا۔گویایہ کسی فعل کے بیان کی بجائے اسم کی کسی غیرفعلی حالت کاثبات یانفی کرتے ہیں۔
            نحوکاتیسراباب حرف کے بیان میں ہے۔حرف کی دوبنیادی قسمیں میانی اور معانی بتائی گئیں۔میانی کے بارے صرف یہ بتایاکہ ترکیب الفاظ میں کام آتے ہیں یعنی کلمات کے اجزاہوتے ہیں۔حروف معانی کسی معنی کافائدہ دیتے ہیں۔
            حروف معانی کوآٹھ فصل میں بیان کیاگیاہے۔پہلی فصل حروف جارکی ہے۔یہ فعل یامعنیء ِ فعل کواسم سے مربوط کرتے ہیں یعنی اسم اور اسم فاعل،اسم مفعول،فعل؛ وغیرہ کارابطہ قائم کرتے ہیں۔ان میں سے،نے،تک، تلک،توڑی،پر، اوپر،بیچ،میں، وغیرہ کے مباحث شامل ہیں۔دوسری فصل حروف مشبہ بالفعل کے بیان میں ہے۔ان میں،جیسا،ویسا، سا، ایسا اورپرکوشامل کیاہے۔ایسا برائے تشبیہ ہے ،اس معنی میں کہ میں نے تشبیہ دی اورجیساویساموصولات ہیں اور پر، برائے استدراک ہے۔تیسری فصل حروف نداکی ہے جن میں اے،او،ہوت،یا،ارے،اجی،ابیکوشامل کیاہے۔اس میں مختلف حروف کاحفظ مراتب میں استعمال بھی بتایا گیا۔چوتھی فصل حروف عطف کی ہے۔حروف عطف میں اور،پر ،لیکن ،بھی،نون نفی)نہ(پھرکوشامل کیاگیا۔پانچویں فصل حروف تردید خواہ،چاہو،نہیں ت شامل ہیں۔چھٹی فصل حروف شرط کی ہے ۔ اگر،جواورتوکو حرف عطف بتایاگیا۔یہاں مثال سے یہ توضیح ہوجاتی ہے کہ توبرائے شرط ،جواب شرط والاتونہیں ہے۔ مثال:آپ کہوتومیں جاؤں۔ساتویں فصل میں حروف استثنامیں مگر،ورا،ماورااورسواوغیرہ کاتذکرہ ہے۔آٹھویں فصل متفرق حروف کی ہے جن میں ‘ہاں’حرف ایجاب وتنبیہ واستفہام ،‘کا’ مع فعل بمعنی استقبال جیسے وہ نہیں آنے کا،‘کر’کافعلوں کے درمیان اولیت وبعدیت کافائدہ،‘ئیو،جیؤ،کاامر میں تاکیدکافائدہ ورچنددیگرنکات بیان کیے گئے ہیں۔اس بحث سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ حروف جوجملے کی ساخت میں اپناکردااداکرتے ہیں مؤلف انھیں نحوکی بحث میں شامل سمجھتاہے۔
            نحوکاآخری حصہ مرکبات کے بیان میں ہے۔پہلی بحث مرکب مفیدکی ہے۔مرکب مفیدکی تعریف اس طرح کی گئی ہے :
‘‘مرکب مفیدوہ ہے کہ سکوت اس پرصحیح ہواور سننے والے کواس سے خبرمطلب حاصل ہوجاوے۔اسی کوجملہ اور کلام بھی کہتے ہیں۔’’[۴۸ ]
            جملے کی تشکیل کے بارے میں قاعدہ بتایاکہ مسندالیہ اور مسندسے بنتاہے۔اگرمسندالیہ اور مسنددونوں اسم جامد یا مشتق ہوں توجملہ اسمیہ ہے اور پہلاسم مبتدا،دوسراخبراور دونوں کاتعلق حرف ربط سے بنتاہے جیسے ،وہ زیدہے یازیدجانے والاہے یاکام کرنے والاابھی جانے والاہے۔دوسرے جملوں میں مسندالیہ اسم جب کہ مسندفعل ہوتاہے۔اس صورت میں مسندالیہ کوفاعل اور مسندکوفعل کہتے ہیں۔ہم نے سابقہ اوراق میں دیکھاکہ مؤلف نے‘ہے’کوفعل ناقص قراردیاتھا۔یہاں حرف ربط کہاگیا۔ ا س کی وضاحت وہ ایک بارپھرکرتے ہیں۔ان کے الفاظ میں :
‘‘جوالفاظ کہ ان کوحروفِ رابط کہتے ہیں،مشترک ہیں حروف رابط اور افعال ناقصہ میں۔اس واسطے اس میں بھی اسمیہ ہونے پرجزم نہیں کیاجاتاپس وہ زیدہے ،جملہ اسمیہ اورفعلیہ دونوں کا احتمال رکھتاہے۔’’[۴۹ ]
            جملوں کودوبڑی قسموں خبریہ اور انشائیہ میں تقسیم کیاگیاہے۔خبریہ کے سچ اور جھوٹ کااحتما ل ہوتاہے جب کہ انشائیہ میں جھوٹ سچ کاقرینہ نہیں ہوتا۔انشائیہ کی ذیلی تقسیم میں امر،نہی،استفہام،تمنا،ترجی،عقود،ندا،قسم اورتعجب کوشامل کیاہے۔ مؤلف نے ان کی وضاحت میں صرف ایک ایک مثال لکھی ہے ۔تمام روایتی کتب میں جملہءِ انشائیہ کی قسم بندی اسی اساس پرکی گئی ہے۔ہم عصرقواعدنویسوں میں مولوی محمد احسن نے ‘‘رسالہ قواعداردو’’حصہ چہارم میں،منشی فیض اﷲ خان نے ‘‘رسالہ قواعداردو’’حصہ سوم میں اورمولوی کریم الدین نے ‘‘قواعدالمبتدی’’میں ‘عقود’کوجملہ انشائیہ کی قسموں میں شامل نہیں کیا۔اس کاسبب یہ ہے کہ عقودکامعاملہ متکلم کے منشاسے متعلق ہے نہ کہ جملے کی ساخت سے ظاہرہوتاہے۔
            دوسری بحث مرکب غیرمفیدکی ہے۔مرکب غیرمفیدیامرکب غیرتام اس مرکب کوکہاگیاکہ قائل کہہ کرخاموش ہو جائے اورتوسننے والے کواس سے خبریاطلب حاصل نہ ہو۔اس کی تین بنیادی قسمیں اضافی،عددی اورمرکب نام بتائی گئیں ۔ اس تقسیم کے بعدکچھ مسائل تمیزوممیز،استثنا،منادیٰ،مندوب،صفت وموصوف،تاکیدومؤکد،بدل ومبدل منہٗ ، عطف و معطوف اورعطف بیان کے عنوانات کے تحت زیربحث لائے گئے ہیں۔
            مرکب اضافی کی بنیادایک اسم کی دوسرے اسم سے نسبت بیان کی گئی۔اس کی ایک خاصیت یہ بیان کی کہ مضاف الیہ معرفہ ہوتواس کامضاف معرفہ ہوجاتاہے اور مضاف ہونکرہ کی طرف تومختصہ ہوجاتاہے۔اس بحث میں عربی قواعدکے تحت لام،من،فی وغیرہ حروف سے بننے والی اضافتوں کاتجزیہ کیاگیاہے۔اب معاملہ یہ ہے کہ یہ حروف عربی حروف جارسے ہیں اور مختلف کلمات میں اضافت نسبتی،ملکیتی،ابنی،ظرفی وغیرہ کوظاہرکرتے ہیں۔اردومیں ان حروف کے تراجم تعلق اضافت کے لیے بہت کم استعمال ہوتے ہیں اور جوہوتے ہیں ان کابیان قواعدکی کتب میں کم ہی ملتاہے۔اس لیے یہ بحث عام قاری توکجااچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات کے لیے بھی گنجلک ہے ۔عربی اضافت کی بنیادوں کی توضیح کے بعدوہ اردواضافت کے حروف کوتین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ایک توکا،کے،کی والے حروف جواسمایاضمائروغیرہ سے الگ آتے ہیں۔دوسرے را،رے،ری وغیرہ جوضمائرسے متصل آتے ہیں۔تیسرے ،نا،نے،نی وغیرہ ۔یہ بھی ضمائر سے متصل ہیں لیکن صرف ضمیرِ خویش میں آتے ہیں۔
            مرکب غیرمفیدمیں مؤلف نے دوسری قسم ان مرکبات کی بتائی ہے جن میں دوعددباہم مل کر،یاملنے کے ساتھ ساتھ کچھ متغیرہوکرایک نئے عددکی شکل اختیارکرتے ہیں۔یہ اردومرکب کی خاص قسم ہے۔اسے مرکب عددی کانام دیاجاتاہے۔اکثرزبانوں میں بڑے اعدادکے اجزااپنی اصلی حالت میں قائم رہتے ہیں۔مرکبات کی تیسری قسم وہ بیان کی گئی ،جہاں مختلف کلمات مل کرایک نام کی شکل اختیارکرتے ہیں۔اس کے بعدوہ ایک اسم کے طورپرمعنی رکھتے ہیں نہ کہ ان کے اجزااپنے صرفی معنی دکھاتے ہیں۔یہ بحث دراصل مرکب کی نہیں بل کہ تشکیل الفاظ کی ہے اور اس کادرست مقام علم کی بحث میں ہے۔
            قواعدکے مباحث کے اختتام سے پہلے‘‘ ضروریات ’’کی بحث ہے۔اس بحث میں تمیزوممیز،استثنا،منادیٰ، مندوب، صفت وموصوف،تاکیدومؤکد،مبدل ومبدل منہ ،معطوف ومعطوف الیہ اور عطف بیان پربات کی گئی ہے۔یہ تمام ترکیبیں اردومیں مرکب ناقص کی طرح کام کرتی ہیں اور اردومیں مکمل حالت میں مسندیامسندالیہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی سبب سے بعدکے قواعدنویسوں نے انھیں بھی مرکبات کی ذیل میں شامل کیاہے۔
            قواعدکے مباحث کے بعدلغت ،محاورہ اور ضرب الامثال کاحصہ ہے۔طوالت اور افراط وتفریط سے بچنے کے اس جائزے کوقواعدکے مباحث کے جائزے تک محدود رکھاگیاہے۔
            بحیثیت مجموعی دیکھاجائے توامام بخش صہبائی کی یہ کتاب روایتی قواعدنویسی کوایک مستحکم بنیادفراہم کرتی ہے۔ کتاب میں مکمل طورعربی قواعدکاتتبع کیاگیاہے۔اصطلاحات اورمنہاج کاملاََعربی سے مستفادہے۔بعض ایسی مباحث بھی شامل کردیے ہیں جن کااردوسے تعلق نہیں مثلاََافعال کی بحث میں تثنیہ کاذکربھی کیاگیاہے۔ صرف کے مباحث کاآغازفعل کے مباحث میں ہوتاہے۔ فعل کے مباحث کے بعداقسام مصدراور اقسام اسمائے مشتق کی بحث ہے۔فعل کے صیغوں کی مکمل بحث صرف کے باب میں ہے۔یہ عربی قواعدکے اثرات کے سبب سے ہے۔جوامد،حروف اور مرکبات ِ مفیدہ اور غیرمفیدہ کونحومیں شامل کیاگیاہے۔صرف ونحوکے موضوعات کی یہ تقسیم توآئندہ روایت میں مقبول نہ ہوسکی لیکن اردو قواعدنویس اگلے پچاس برس تک ان موضوعات کے دائرے سے باہرنہ نکل سکے اور اسی دائرے میں دادتحقیق دیتے رہے۔
﴿٭٭٭﴾
حوالہ جات وحواشی :
۱۔         جامع اردوانسائیکلوپیڈیا،نئی دہلی،قومی کونسل برائے فروغِ اردو)پہلی جلد(۲۰۰۳ء ،ص:۳۵۸
۲۔         عبدالحق،مولوی،مرحوم دہلی کالج،انجمن ترقیء اردوہند،۱۹۸۹ء ،ص:۱۶۲۔۱۶۳
۳۔         مزمل حسین،ڈاکٹر،)مرتب(حدائق البلاغت )ازصہبائی(فیصل آباد،مثال پبلشرز،جنوری ۲۰۰۹ء ،ص:۵۲
۴۔         ابواللیث صدیقی ،ڈاکٹر،جامع القواعد)حصہ صرف(،لاہور،مرکزی اردوبورڈ،۱۹۷۱ء،ص:۱۷۵
۵۔         عبدالحق،مولوی،قواعداردو)طبع اول(،لکھنؤ،الناظرپریس،۱۹۱۴ء ،ص:۱۶
۶۔         صہبائی امام بخش ،رسالہ قواعدِ صرف ونحواردو،لکھنؤ،مطبع منشی نول کشور،۱۸۸۰ء،ص:۳
۷۔         ایضاََ،ص:۴
۸۔         ایضاََ،ص:۱۲     
۹۔         ایضاََ،ص:۱۶
۱۰۔       ایضاََ،ص:۱۹
۱۱۔       ایضاََ،ص:۲۰
۱۲۔       ایضاً،ص: ۲۳
۱۳۔       ایضاً،ص:۲۷
۱۴۔       ایضاً،ص:۲۷
۱۵۔       ایضاً،ص:۲۹
۱۶۔       فتح محمدجالندھری،مصباح القواعد،علی گڑھ ،مسلم یونی ورسٹی بک ڈپو،۱۹۳۵ء ،ص:۵۷
۱۷۔       عبدالحق مولوی قواعداردو،لاہور،اردواکیڈمی،)طبع جدید(،۱۹۵۸ء ،ص:۱۲۶
۱۸۔       امام بخش صہبائی رسالہ قواعدصرف ونحو،ص:۳۷
۱۹۔       ایضاً،ص:۳۲
۲۰۔       ایضاً،ص:۳۴
۲۱۔       عصمت جاوید نئی اردوقواعد،لاہور،کمبائنڈپبلشرز،۲۰۰۰ء ،ص:۲۶۴
۲۲۔       فتح محمدجالندھری،مصباح القواعد،ص:۹۷
۲۳۔       ایضاً،ص:۳۵
۲۴۔       ایضاً،ص:۳۵
۲۵۔       ملاحظہ ہو:امانت اﷲ شیداؔکی کتاب‘‘صرف اردو’’مطبوعہ ہندوستانی چھاپہ خانہ کلکتہ ،سنہ۱۸۱۰ء میں ‘‘فعل جعلی مرکب’’کی بحث
۲۶۔       ملاحظہ ہو:انشاء اﷲ خان انشاکی کتاب‘‘دریائے لطافت ’’مطبوعہ مطبع آفتاب عالم تاب،مرشدآباد،سنہ ۱۸۵۰ء میں ‘فعل الحاقی ’کی بحث
۲۷۔       ملاحظہ ہو:تمناعمادی مجیبی پھلواروی کی کتاب‘‘افعال مرکبہ’’مطبوعہ مکتبہ اسلوب کراچی،سنہ ۱۹۶۱ء
۲۸۔       ایضاََ،ص:۴۲
۲۹۔       اس کے بعدوہ ایک طویل بحث اسم تصغیرکی شروع کردیتے ہیں ۔
۳۰۔       اس مقام پریہ وضاحت درج ہے:‘‘یہ زبان شاہجہان آبادکی ہے،اورشہروں میں جن کی زبان پایہ فصاحت سے گری ہوئی ہے ؛ضمیرجمع غائب میں ‘وے ’ واؤمفتوحہ مع یائے تحتانی ساکن کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔’’)ص:۴۷(‘وے’کااستعمال ہم ان کے ہم عصرقواعدنویسوں مثلاًمولوی کریم الدین اور میرزانثارعلی بیگ وغیرہ کے ہاں دیکھ سکتے ہیں،جوآگرہ میں بیٹھ کرقواعدلکھ رہے تھے۔
۳۱۔       وضاحت مصنف:‘‘باہر کے لوگوں کی زبان میں‘ تئیں’مستعمل ہے’’ص:۴۹
۳۲۔       صہبائی،امام بخش،رسالہ قواعدصرف ونحواردو،ص:۴۸
۳۳۔       ملاحظہ ہو:امانت اﷲ شیداؔ کی ‘‘صرف اردو’’میں حالات اسم کی بحث
۳۴۔       مولوی عبدالحق کی ‘‘قواعداردو’’طبع جدید،مطبوعہ اردواکیڈمی لاہورمیں حالات اسم کی بحث ملاحطہ ہو۔
۳۵۔       ڈاکٹرابواللیث صدیقی کی کتاب ‘‘جامع القواعد’’)حصہ صرف (میں حالات اسم بعینہٖ وہی ہیں جومولوی عبدالحق کے ہاں ہیں۔
۳۶۔       صہبائی،امام بخش،رسالہ قواعدصرف ونحواردو،ص:۴۸
۳۷۔       ‘‘اورماضی قریب متعدی میں لفظ ‘نے’ کافصحابل کہ عوام شاہجہان آباد کے بھی واجب التلفظ جانتے ہیں اورباہر کے لوگ اکثرمحذوف کرتے ہیں مثلاًمیں نے کہا کی جگہ میں کہابولتے ہیں’’صہبائی امام بخش،رسالہ قواعدصرف ونحواردو ص:۴۹
۳۸۔       قیاس یہ ہے کہ یہاں سے کچھ عبارت محذوف ہے، جس میں متکلم واحدکی ضمیرمجھے،مجھ کویامیرے تئیں کاذکرہوناچاہیے۔یہہ سہوکاتب کی بجائے خودمصنف کی چوک معلوم ہوتی ہے کیوں کہ آگے امثلہ میں بھی ضمیرمنصوب برائے واحدمتکلم کی مثال بھی موجودنہیں۔
۳۹۔       صہبائی ،امام بخش ،رسالہ قواعدصرف ونحواردو،ص:۴۹تا۵۱
۴۰۔       محمداحسن ،مولوی،رسالہ قواعداردو،لکھنؤ،مطبع منشی نول کشور،۱۸۸۲ء
۴۱۔       اوربعضے فرق کرتے ہیں کہ واحدکے واسطے یہ اور وہ ہائے ہوّز کے ساتھ ہے اور جمع کے واسطے‘یے’یائے تحتانی سے اور‘وو’دوواؤسے اورباہر کے لوگ اس جائے میں ‘وے’واؤمفتوحہ مع الیاء سے بولتے ہیں۔
۴۲۔       یہ لفظ یائے تحتانی کے ساتھ محاورہ فصحا میں شامل ہے اور جن کوٖفصاحت کالحاظ کم ہے گوکہ اس شہر کے رہنے والے ہیں ،لفظ کبھو،واؤ کے ساتھ بھی بولتے ہیں اور پہلی زبانوں میں یہ فصیح تھا۔اسی واسطے میر اور سوداکے اشعارمیں بہت ہے
۴۳۔       گنوار‘کہوں ’بولتے ہیں۔ص:۵۳
۴۴۔       صہائی امام بخش،رسالہ قواعدصرف ونحواردو،ص:۵۳
۴۵۔       صہائی امام بخش،رسالہ قواعدصرف ونحواردو،ص:۵۷،بب‘یاں’تنہابھی اہل شاہجہان آبادکی زبان میں بہت مستعمل ہے۔’’ص:۵۳
۴۶۔       صہبائی ،امام بخش قواعدصرف ونحواردو ص:۶۹
۴۷۔       ایضاً،ص:۷۱
۴۸۔       ایضاََ،ص:۸۳
۴۹۔       ایضاََ،ص:۸۴
کتابیات :
ابواللیث صدیقی ،ڈاکٹر،جامع القواعد)حصہ صرف(،لاہور،مرکزی اردوبورڈ،۱۹۷۱ء
امانت اﷲ شیداؔکی کتاب‘‘صرف اردو’’مطبوعہ ہندوستانی چھاپہ خانہ کلکتہ ،سنہ۱۸۱۰ء
جامع اردوانسائیکلوپیڈیا،نئی دہلی،قومی کونسل برائے فروغِ اردو)پہلی جلد (
صہبائی امام بخش ،رسالہ قواعدِ صرف ونحواردو،لکھنؤ،مطبع منشی نول کشور،۱۸۸۰
انشاء اﷲ خان انشاکی کتاب‘‘دریائے لطافت ’’مطبوعہ مطبع آفتاب عالم تاب،مرشدآباد،سنہ ۱۸۵۰ء
:تمناعمادی مجیبی پھلواروی کی کتاب‘‘افعال مرکبہ’’مطبوعہ مکتبہ اسلوب کراچی،سنہ ۱۹۶۱ء
عبدالحق،مولوی،قواعداردو)طبع اول(،لکھنؤ،الناظرپریس،۱۹۱۴ء
عبدالحق مولوی قواعداردو،لاہور،اردواکیڈمی،)طبع جدید(،۱۹۵۸ء
عبدالحق،مولوی،مرحوم دہلی کالج،انجمن ترقیء اردوہند،۱۹۸۹ء
عصمت جاوید نئی اردوقواعد،لاہور،کمبائنڈپبلشرز،۲۰۰۰ء ،
فتح محمدجالندھری،مصباح القواعد،علی گڑھ ،مسلم یونی ورسٹی بک ڈپو،۱۹۳۵ء
محمداحسن ،مولوی،رسالہ قواعداردو،لکھنؤ،مطبع منشی نول کشور،۱۸۸۲ء
مزمل حسین،ڈاکٹر،)مرتب(حدائق البلاغت )ازصہبائی(فیصل آباد،مثال پبلشرز،جنوری ۲۰۰۹ء
           
           
                       
                       

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com