قصۃ اصحاب الفیل اور شعر عربی

٭ ڈاکٹر محمد نعمان

٭٭ ڈاکٹر محمد سلیم

Abstract

There is a Sura of the Holy Quran with the name of" Suralfil" (the Elephant) in which Almighty Allah has counted his graces on Quraysh by Keeping away from them the attack of Abraha who had come with the intention to destroy ka'aba at Mkkah But almighty Allah destroyed him and his army by sending flock of birds. This incident had occurred 50 days before the birth of the Holy Prophet (PBUH). At that time, it was a unique incident and it had a great impact on the people, so they paid full attention to it and especially the poets of that time who comprised it in their verses which were later on narrated and compiled . At the time of the revelation of the SuratFil (the Elephant), briary Eye, witness were alive and they were a stomached to learn about an incident which had occurred 50 days before the birth of the prophet . The purpose of this article is to bearing to light the whale story mentioned in the sear books along with the Poetic verse which has pasteurized various scenes of expedition of Abraha at various moments .I hope that the readers will show their interest in the reading of this story and will benefit from it .

عربی زبان جس میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے یہ وہی عربی زبان ہے حس کو عرب اپنی روزمرہ کی بول چال اور نثر وشعر میں بروئے کار لاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں کی زبان اسلام کے ظہور سے پہلے انتہائی عروج پر تھی اسی ہی زبان میں عرب اپنے سیاسی دینی اور اجتماعی واقعات کو نظم کرتے تھے۔ اور ہم ان کی نثری اور شعری سرمایے یعنی کتابوں میں اس کی اشارات دیکھتے ہیں ۔ان میں سے وہ واقعہ جو حضور ﷺ کی ولادت سے ذرا قبل رونما ہوا تھا۔ جو عربوں میں ’’اصحاب الفیل‘‘ کے نام سے مشہور تھا ۔ جس کے بارے میں قرآن کریم کی ایک ’پوری سورت یعنی ’ ’سورۃ الفیل‘‘ کے نام سے نازل ہوئی ہے ۔ جس میں اللہ تعالی قریش پر اپنی احسانات کو گناتا ہے کہ جن سے حبشہ والوں کے حملہ کو لوٹا دیا تفاسیر اور سیرت کی کتابوں میں یہ قصہ یوں ذکر ہوا ہے۔
’’ کہ ابرہۃ (۱)نے جو نجاشی(۲) کی طرف سے یمن کے حاکم تھے۔ صنعاء میں ایک عبادت خانہ بنوایا جو اس کی بلندی اور عمدگی کی وجہ سے اسے ’’ القلیس‘‘ کے نام سے پکارہ جاتا تھا ۔ پھر نجاشی کو اپنے ایک مکتوب میں اس کی اطلاع دی کہ میں نے آپ کے لیے ایک ایسی عبادت گاہ بنوائی ہے جو آپ سے پہلے کسی بادشاہ کے لیے ایسی عمارت نہیں بنوائی گئی۔ اور میری یہ کوشش اس وقت تک جاری رہے گی یہاں تک کہ عربوں کی عبادت گاہ (کعبۃ اللہ ) کے زائرین کو اس کی طرف پھیر دوں (۳)۔ (یعنی عرب کعبۃ اللہ کی تعظیم کے جگہ میرے بنائے ہوئے عبادت گاہ کی تعظیم کریں)
اس عبادت خانہ کے بارے میں بہت سے عجائبات بیان کی گئی ہیں روایت ہے کہ تعمیر کے وقت اگر کوئی کام کرنے والا طلوع آفتات تک نہ پہنچتا تو اس کا ہاتھ لازماکٹوادیا جاتا ۔ سنگ مر مر اور پھتر’ بلقیس‘‘ کے محل سے لائے گئے تھے۔ منبر ہاتھی دانت اور آبنوس سے بنوائے گئے تھے۔ اور ابرہہ نے اس کی شان بڑھانے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی تھی۔ ابرہہ کی ہلاکت کے بعد جب حبشہ ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار ہوا اور کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا یا اس کی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا تو جنات اس کو نقصان پہنچاتے وجہ یہ تھی کہ یہ عبادت گاہ اس زمانہ کے دو مشہور بتوں ’’ کعیب اور اس کی بیوی کے نام ‘‘ سے بنوائی گئی تھی۔ جن میں س ہر ایک کی لمبائی ساٹھ ذراع تھی(۴)۔
اہل یمن نے ان بتوں کو اسی حال میں چھوڑا اور عباسی خلیفہ ’’سفاح‘‘ کے زمانے تک یہ عبادت گاہ اپنی اسی حالت پر رہی ’’سفاح‘‘ نے آکر چند لوگوں کو اس کے ڈھانے کے لیے بھیجا۔ جنہوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی جن کے آثار اور کھنڈرات ابھی تک باقی ہیں (۵)۔ ابن اسحاق(۶) نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ عربوں کو جب ابرہہ کے خط کے بارے میں معلوم ہوا جو اس نے نجاشی کو لکھا تھا۔ تو قبیلہ کنانہ کے لوگ جو ناسئین کے نام سے مشہور تھے۔ اور ان کا کام زمانہ جاہلیت میں حلال وحرام مہینوں میں تغیر وتبدل کرنا ہوتا (۷)۔ جس کی طرف قرآن کریم نے بھی ذیل کی آیت میں اشارہ کیا ہے:
(انما النسئی زیادۃ فی الکفر یضل بہ ۔۔۔)(۸)
اور قبیلہ کنانہ کے لوگ ناسئین‘‘ کے نام پر فخر کرتے تھے۔ جیسا کہ عمیربن قیس (۹)نے کہا ہے:
لقد علمت معد أن قومی کرام الناس أن لہم کراما
فأی الناس فاتونا بوتر وای الناس لم نعلک لجاماً
ألسنا الناسئین علي معد شہور لحل نجعلہا حراما(۱۰) ۔
یعنی معد قبیلے کو ان کی عزت وشرف معلوم ہے، یعنی وہ جانتے ہیں کہ وہ شریف وکریم لوگ ہیں۔ سو کنانہ قبیلے کا ایک شخص اس عبادت گاہ کی طرف روانہ ہو۔ او ربول وبراز کر کے واپس اپنے وطن آیا۔ جب ابرہہ کو اس اطلاع دی گئی ۔ تو وہ بہت غضبناک ہوا۔اور قسم کھائی کہ وہ ضرور کعبۃ اللہ کو ڈھائے گا یا منہدم کرے گا۔ پھر اہل حبشہ کو تیاری کا حکم صادر کیا ۔ پھر ہاتھیوں کی معیت میں اپنی مہم پر روانہ ہوا۔
جس کے بارے میں طالب(۱۱)بن ابی طالب بن عبد المطلب کہتے ہیں ۔
الم تعلموا ما کان فی حرب داحس وحبش ابی یکسوم اذا ملا والشعبا
فلو لا دفاع اللہ لا شیء غیر لأصبحتم لا تمنعون لکم سربا(۱۲)۔
کیا تم نہیں جانتے کہ داحس کی جنگ میں کیا تھا۔ او رابویکسوم کی لشکر جس نے گھاٹیوں کی (فوج سے) بھر لیا تھااگر اللہ تعالی طرف سے دفاع ومدافعت کا سامان نہ ہوتا۔ تو تم یقیناًان کو روکنے والے نہیں تھے۔
جب عربوں کو اس کی خبر ہوئی تو یہ بات ان پر بڑی شاق گزری اور اس کے خلاف جہاد کو اپنے اوپر ایک حق قرار دیا (یعنی کعبۃ اللہ کی دفاع کو اپنے اوپر لازم قرار دیا بالخصوص جب ان کو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ (ابرہہ) کعبۃ اللہ کو جو اللہ تعالی کا مقدس گھر ہے اس کو ڈھانے آرہاہے تو ابرہۃ کے پاس پہنچنے کے لیے یمن کے شرفاء میں سے ایک شخص ’’ذونفر‘‘ نامی نکلا لیکن اس کو قیدی بنالیا گیا ۔ اور او رابرہہ کے سامنے پیش گیا گیا ۔ ابرہہ بڑا حلیم شخص تھا۔ جب اس نے رحم کی درخواست کی تو اس کو قتل نہ کیا اور اس کی درخواست مان لی گئی۔ اور صرف اس کے قیدی بننے پر اکتفا کیاگیا اور ۔ ابرہہ نے بیت اللہ کے ڈھانے / منہدم کرنے کے مہم کو سر کرنے کے لیے اپنا سفر جاری رکھا اور خثعم کی سرزمین تک آگے بڑھا۔ جہاں پر نفیل بن حبیب خثعمی نے اس کا مقابلہ کیا ۔ لیکن شکست کھا کر گرفتار ہوا۔ لیکن اس نے بھی ذونفر کی طرح رحم کی درخواست کی جو منظور ہوئی ۔ اور نہ صرف قیدی بنایا گیا بلکہ بیت اللہ کی طرف ان کی رہنمائی حاصل کرنا لگاجب طائف سے گزرنے لگے۔ تو مسعود بن معتب بن مالک قیف کے لوگوں کے ہمراہ آئے۔ اور ابرہہ سے کہنے لگے۔
’’آپ نے جس گھر کے منہدم کرنے کا ارادہ کیا ۔ یہ وہ نہیں (یعنی بیت الحرام نہیں بلکہ ہمارے معبود’’ لات‘‘ کا معبد ہے۔ جس گھر کا آپ نے ارادہ کیا ہے وہ مکہ میں ہے اور ہم آپ کی رہنمائی کے لیے آپ کے ساتھ اپنا بندہ بھیجتے ہیں ابرہہ نے ان کی یہ بات سن کر ان سے درگزر کیا اور آگے بڑھ گئے۔’’لات‘‘ دراصل طائف میں ان کا معبود تھا۔ جس کی عزت وتعظیم وہ کعبۃ اللہ کی طرح کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے رہنمائی کے لیے ’’ابو رغال‘‘ کو ان کے ساتھ بھیجا تاکہ مکہ کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ ابرہۃ ابو رغال کی معیت میں آگے بڑھا یہاں تک کہ ’’ المغمس‘‘ تک ان کو پہنچایا ۔ او روہیں پر پڑا و کیا جہاں ابو رغال کی موت واقع ہوئی۔ اور وہیں پر دفن کیے گئے۔ جس کی قبر پر عربوں نے پتھر برسائے/ مارے(۱۳)۔ اس کی طرف جاہلی شاعر ابو ا لصلت بن ربیعہ(۱۴)نے اپنی اشعار میں اشارہ کیا ہے :
إن آیات ربنا ثاقبات لا یماری فیہن إلا الکفور
خلق اللیل والنہار فکل منتبسین حسابہ مقدور
ثم یجلوا النہار رب رحیم بمہاۃ شعاعہا منشورا
حبس الفیل بالمغمس حتی ظل یحبو کأنہ معقور(۱۵)

۱۔ کہ ہمارے رب کی نشانیاں واضح اور چمکنے والی ہیں ۔اور اس کا انکار کرنے والا صرف اس میں شک کرسکتا ہے۔
۲۔ اس اللہ جل شانہ نے رات او ردن پیدا کیے۔ جو بالکل واضح ہیں اور اس کا حساب (گنتی) اندازے کے مطابق ہے ۔
۳۔ پھر رجم کرنے والے رب نے دن کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ روشن کیا جس کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
۴۔ اسی اللہ جل شانہ نے ان کے ہاتھی کو مغمس کے مقام پر قید کیا (آگے بڑھنے سے روکا) او رزخمیوں جیسا چال چل رہا ہے۔ (یعنی اب وہ ایسے انداز سے چل رہا ہے۔ جیسے وہ زخمی حالت میں ہو)
جہاں تک ’’ ابو رغال‘‘ (۱۶)کا تعلق ہے تو ابن کثیر نے اسے متاخرین میں شمار کیا ہے کہ اس کا جد اول بھی اس نام سے موسوم تھا۔ جس کے قبر پر پتھربرسائے گئے تھے۔اور اپنی رائے کی تائید میں ابن کثیرنے جریر کا یہ شعر بطور ثبوت پیش کیا ہے(۱۷)۔ اذا مات الفرزدق فارجموہ کرجمکم نقبر إلی رغال(۱۸)
ترجمہ: کہ جب فرزدق فوت ہوجائے۔ اے عربو؛ اس کی قبر پر اس طرح پھتر برساؤ جس طرح تم نے ابو رغال کی قبر پر پتھر برسائے تھے۔
لیکن ابن کثیر ؒ کی اس تائید ی شعر میں یہ کہیں معلوم نہیں ہوتا۔کہ ابو رغال کے نام سے دو بندے تھے۔ بلکہ شعر سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی ابو رغال ہے ۔ جو ابرہۃ کے ساتھ تھا۔ بلکہ اس ضمن میں جوا اور اشعار ہمیں ملتے میں اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے۔ کہ یہ وہی ابو رغال ہیں ۔
جیسے امیۃ بن الصلت الثقفی کا قول ہے :
نفوا عن ارضہم عدنان طرا وکانوا اللقبائل قاہرینا
وہم قتلوا الرئیس آبار غال بمکۃ اذا یسوق بہا الوضینا(۱۹)
ترجمہ: انہوں نے اپنی سرزمین سے پورے عدنانیوں کو جلا وطن کیا حالانکہ انہوں نے تمام قبائل پر غلبہ حاصل کیا تھا۔ اور ابو رغال نامی رئیس کو مکہ میں قتل کیا ۔ اسی طرح مسکین الدرامی(۲۰) کا شعر ہے :
وارجم قبرہ فی کل عام کرجم الناس قبر ابی رغال(۲۱)
ہر سال اس کی قبر پتھر برساؤ جس طرح لوگ ابورغال کی قبر پر پتھر برساتے ۔ ہیں ان تمام ابیات میں کہیں بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ابو رغال دو ہیں بلکہ امیہ کے شعر میں تو ساتھ ہی مکہ کا ذکر ہی آیا ہے جس سے مرادوہی ابورغال ہوسکتے ہیں۔ جو ابرہہ کے ساتھ فوت ہوئے تھے۔ او راس کی غداری کی وجہ سے عربوں نے اس کی قبر پر پتھر برسائے تھے۔
بہر حال جب ابرہہ مغمس پہنچا تو اس نے اسو د بن مقصود کو مکہ کی طرف بھیجا جس نے جاکر وہاں کے مواشی جو قریش اور دیگر قبائل کے تھے۔ کو ہنکا کر لایا ۔ جن میں عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھے تھے۔ جو اس وقت قریش کے سردار تھے۔ جس پر قریش ، کنانہ، ہذیل او رحرم کے جو دیگر قبائل تھے۔ مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن پھر حقیقت حال کا ادراک کرتے ہوئے اپنے ارادے سے باز رہے(۲۲)۔
اس واقعہ کو طرف عکرمہ بن عامر بن ہشام بن عبد الدارین قصی (۲۳)نے ان ابیات میں اشارہ کیا ہے:
لا ہم أخذ الأسود بن مقصود الاخذ الہجمۃ فیہا التقلید
بین حراء وثبیر فالبید الصحراء یحبسہا وہی أولات التطرید
قضمہا إلی طماطم سود أخفرہ یا رب وأنت محمود(۲۴)
اے اللہ ! آسود بن مقصو۔ کو رسوا کردے، جس نے جعل سازی سے حملہ کیا ہے۔ (اس حملے کے نتیجے میں) حرا و بئیر او ریہ صحرا اس کو روکے گا۔اور سب سے پہلی بات اس حملے (یعنی حملہ آوروں)کو بھگا نا ہے۔
سو اے اللہ : ان کو ان یعنی سیاہ اور زبان کی لکنت والے لوگوں سے ملادے اور اے رب ان کو رسوا کردے۔ لائق تحمید تو تیری ہی ذات ہے۔
ابرہہ نے حناطہ حمیری کو مکہ بھیجا تاکہ وہاں کے شرفاء اور سرداروں کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ او ران کو یہ بتادے ۔ کہ ابرہہ تو صرف بیت اللہ کے ڈھانے کے لیے آیا ہے۔ او ران کا آپ کے ساتھ جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ پس جن کو اس تجویز سے اتفاق ہو۔ ان کو ساتھ لے آؤ(۲۵)۔
حناطہ نے ایسا ہی کیا جاکر عبد المطلب سے ملاقات کی اور ابرہہ کے احکامات کے بارے میں بتایا جس پر عبدالمطلب نے جواب دیا۔
اللہ کی قسم ! ہم ان کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چاہتے۔ اور نہ ہمارے بس کی بات ہے یہ تو اللہ کا اور اس کے دوست ابراہیم علیہ السلام کا گھر ہے ۔ پس اگر اللہ ان کو اس سے منع کردے تو یہ تو اس کا گھر او رحرم ہے ، کیونکہ ہم میں اس کے (ابرہہ) روکنے کی طاقت نہیں جس پر حناطہ نے اسے کہا:
کہ پھر میرے ساتھ چلو۔ اس لیے کہ اس نے مجھے یہی حکم دیا ہے۔ عبد المطلب اپنے بعض بیٹوں کے ساتھ ان کے ساتھ روانہ ہوئے جب چھاؤنی پہنچے ۔ تو عبد المطلب نے ذی نفر کے بارے میں پوچھا جو اس کا دوست تھا لیکن وہ تو خود ابرہہ کی قید میں تھا۔ عبد المطلب نے اس کو اپنی ضرورت بتادی ۔ اگرچہ ذونفر تو اس کی کوئی خاص مدد نہ کرسکا۔ البتہ انیس جو فیل بان تھا۔اس کے پاس بھیج دیا اور بتلایا کہ یہ قریش کے سرادار ہیں جو نشیبی علاقوں میں انسانوں کو اور پہاڑوں کے چوٹیوں پر وحشی جانوروں کو کھلاتے ہیں بادشاہ نے اس کے دوسو اونٹوں پر قبضا کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ ان کی جتنی مدد کرسکتے ہیں کر لیں۔ ایس نے اثبات میں جواب دیا ۔ اور اس طرح اس نے ابرہہ سے بات کی جس طرح ذونفر نے بتایا تھا۔ جس پر ابرہہ نے ملاقات کی اجازت دے دی (۲۶)۔
عبد المطلب بڑی حسین وجمیل شخصیت کے مالک تھے۔ ابرہہ نے جب اس کو دیکھا تو بڑی عزت دی اس کو نیچے بٹھانا کو مناسب نہ سمجھا۔جس طرح اہل حبشہ کے خوف سے اپنے پاس تخت پربھی نہ بتھانا نامناسب سمجھاپر ابرہہ نے اپنے ترجمان سے کہا ۔ اس سے اس کا مسئلہ پوچھو/ اس سے دریافت کرو کہ کیا مسئلہ ہے؟جب ترجمان نے اس سے ملاقات کی غرض وغایت معلوم کی تو عبد المطلب نے کہا کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ بادشاہ مجھے میرے دوسو اونٹ واپس کردے۔ جب ترجمان نے بادشاہ کو یہ بات بتائی تو ابرہہ نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے کہو کہ آپ کو دیکھ کر بادشاہ آپ سے بڑا متاثر ہوا۔ اور گرویدہ ہوا۔ پھر آپ کی دوسو اونٹوں کی واپسی کے مطالبہ سے وہ آپ سے بد دل ہوا۔ اور آپ دو سو اونٹوں کا تو مطالبہ کرتے ہیں ۔ اور اس گھر (بیت اللہ ) جو تمہارے او رتمہارے آباواجداد کا دین ہے اور جس کے ڈھانے کے لیے میں آیا ہوں اس کے بارے میں آپ بات نہیں کرتے ۔ جس پر عبد المطلب نے کہامیں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک یعنی اللہ جل شانہ کی ذات ، وہ عنقریب آپ کو اس سے روک دے گا۔ ابرہہ نے کہا: مجھے روکنے والا کون ہوسکتا ہے۔ عبد المطلب نے کہا تو جانے اور وہ (۲۷)۔
بہر حال عبد المطلب کو اونٹ واپس مل گئے ۔ اور مکہ واپس آکر ا س نے قریش کو سارا ماجرا سنایا ۔ اور مکہ سے نکل جانے کا حکم دیا ۔ پھر عبد االمطلب کعبۃ اللہ کے دروازے کے چوکھٹ کو پکڑ کر اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ اللہ سے ابرہہ اور اس کے لشکر کے خلاف مدد مانگنے لگے۔ اس وقت وہ اس طرح گویا تھے۔
لاہم إن العبد یمنع رحلہ فامنع حلالک
لا یغلبن صلیبہم ومحالہم غدوا محالک
إن کنت تارکہم وقد آ تنا فأمر ما بدالک(۲۸)
اے اللہ ! بے شک بندہ اپنے پالان /سواری کی حفاظت کرتا ہے ۔ پس تو اپنی جماعت کو بچا ان کا صلیب تیری قوت کے مقابلے ہر گز غلبہ نہ پائے۔
اگر تو ان کو چھوڑنے والا ہے اور وہ ہمارے پاس آنے والے ہیں (حملہ کرنے والے) تو یہ معاملہ تو تجھے ہی معلوم ہے۔ کہ وہ کس لیے حملہ آور ہو رہے ہیں(یعنی تیرے گھر کعبہ کو)۔
پھر دروازے کے چوکھٹ کو چھوڑ کر قریش کی معیت میں پہاڑوں کی طرف چلے گئے تاکہ پناہ لے لیں اور اس انتظار میں تھے۔ کہ ابرہہ کیا کرنے والا ہے۔ جب صبح ہوئی تو ابرہہ خود بھی مکہ میں داخل ہونے کی تیاری کرنے لگا۔ اور اپنے ساتھی اور فوج کو بھی تیار کیا ۔ اس کے ہاتھی کا نام ’’ محمود‘‘ تھا۔ جب ہاتھی کا رخ مکہ کی طرف کیا تو نفیل بن حبیب آیا۔ اور ہاتھی کے پاس آکر اس کا کان پکڑا او رکہنے لگا۔بیٹھ جاؤ مجمود (ہاتھی کا نام) او رصحیح طریفے سے وہاں واپس لوٹ جاؤ۔ جہاں سے تم آئے ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالی کے مقدس شہر(بلد حرام) میں ہو۔ پھر اس کے کان کو چھوڑا تو وہ بیٹھ گیا۔سہیلی(۲۹) نے روض الأنف میں بیان کیا ہے۔ کہ زمین پر گر پڑا اس لیے کہ ہاتھی بیٹھتا نہیں ۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ وہ اونٹ کی طرح بیٹھتا ہے۔ نفیل نے اس کو بہت مارا تاکہ وہ اٹھ جائے۔ لیکن وہ اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوا ۔ پھر اس کو کھ میں لوہے کی سلاخ کہ عصا (یعنی وہ ٹیڑی لکڑی جس کے سرے پر لوہا لگایا گیاہو) سے اس قدر مارا کہ وہ زخمی ہوا لیکن پھر بھی نہ اٹھا۔ جب یمن واپسی کے لیے اس محمود نامی ہاتھی کا رخ موڑ دیا تو بھاگتے ہوئے روانہ ہوا۔ پھر شام کی طرف اس کا رخ موڑا ۔ تو بھی دوڑنے لگا او رجب مشرق کی طرف اس کا رخ کیا تب بھی ایسا کیا پھر انہوں نے مکہ کی طرف اس کا رخ کیا تو بیٹھ گیا(۳۰)۔ اور اسی سلسلے میں ابو قیس بن الأسلت انصاری مدنی (۳۱)کے یہ چند ابیات ہیں:
ومن صنعہ یوم فیل الحبو ش إذا کلما بعثوہ رزم
محاجنہم تحت أقرابہ وقد شرقوا أنفہ فانخرم
وقد جعلوا سوطہ مغولاء إذا لمموہ قفاہ کلم
فولی وأدبر أدراجہ وقد باء بالظلم من کان ثم
فأرسل من فوقہم خاصبا فلفہم مثل لف القزم
تحص علي الصبرا حبارہم وقد ثاجوا کثؤاج الغنم(۳۲)

اور حبشیوں کے ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کے دن جب انہوں نے (محمود نامی ہاتھی) کو مکہ کی طرف بھیجنا چاہا ۔ تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا / ٹک گیا۔
ان کے سلاخوں والی عصا اس کوکھ (پہلو) میں تھی۔ انہوں نے اس کو ناک کے چھیدا تو وہ چہد گیا۔انہوں نے اپنے کوڑے ان چیزوں بنائے تھے۔ جس میں انہوں نے پتلی سی تلواریں نصب کی تھی اور اس کوڑے سے گدی پر مارا جس سے وہ زخمی ہوا۔تو وہ ہاتھی پیٹھ پھیر کر بھاگا۔ اور ظلم وہی لوٹ گیا جہاں سے آیا تھا۔ (یعنی حبشہ سے کعبۃ اللہ پر حملہ کرنے آئے تھے۔ اور وہیں ناکام ونامراد واپس لوٹے)۔پس ان پر اوپر سے کنکریوں کو اڑانے والی تیز آندھی بھیجی گئی ۔ جس نے ان کو بکریوں کے ریوڑ کی طرح باہم ملادیا ۔ ان کے مذہبی پیشوا ان کو صبر کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ اور تلقین کررہے تھے۔ حالانکہ وہ بکریوں کی طرح ممیار ہے تھے۔ (او ربھاگ رہے تھے) شاعر نے تو ان اشعار میں ان کے بھاگنے کا وہ نقشہ پیش کیا ہے جو اس واقعہ کے بعد نظم کیے گئے تھے۔
اللہ تعالی نے سمندر کی طرف سے ان پر سیاہ رنگ کے پرندے بھیجے جن میں سے ہر پرندے کے پاس تیں پتھر (کنکریاں) ہوتے تھے۔ ایک چونچ میں او ردوپاؤں میں جو چنے اور مسور کے دانے کی طرح تھے جونہی کسی کو لگتا وہیں ڈھیر ہوجاتا۔ یہ سب کو نہیں پہنچے تھے بلکہ وہ بھاگتے ہوئے اس راستہ کو ڈھونڈنے میں جلدی اور تیزی دکھا رہے تھے۔ جس راستے سے وہ آئے تھے۔ اور نفیل بن حبیب کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ کہ ان کی راہ نمائی کر ے(۳۳)۔ جب نفیل (۳۴)نے ان پر اللہ تعالی کا یہ عذاب دیکھا۔ تو بے اختیار کہنے لگا:
ألا أین المفر والإلہ الطالب والأشرم المغلوب ولحسن الغالب(۳۵)
جان لو ؛ کہ اب بھاگنے او رپناہ کی جگہ کہاں ہے۔ اللہ تعالی تمہارا طالب (طلب کرنے والا ہے۔ اور ابرہۃ الاشرم مغلوب رہے نہ کہ غالب۔
پھر مزید کہا:
ألا حییت عنا یا ردینا نعمنا کم مع الإصباح عینا
ردینہ لو رأیت فلا تریہ لدی جنب المحصب ما رأینا
اذا لعذرتنی وحمدت آمری ولم تأسی علی مافات بینا
وکل القوم یسأل عن نفیل کأن علی للحبان دینا(۳۶)
۱۔ خبردار ابرہۃ ! تمیہں ہماری طرف سے سلام ہو۔ ہم نے صبح ہوتے ہی اپنی آنکھوں کو تمہاری دیدار سے محظوظ کیا۔
۲۔ اے ردینہ اگر تم محصب کے مقام پر وہ کچھ دیکھتی جو ہماری آنکھوں نے دیکھا ۔
۳۔ تو یقیناًتو مجھے معذوز سمجھتی او رمیری تعریف کر بیٹھتی اور جدائی او رفراق پر کبھی غمگین نہ ہوتی۔
۴۔ ساری قوم نفیل کا پوچھ رہی تھی ۔ گویا کہ حبشیوں کا ہم پر کوئی قرض تھا۔
(یعنی جس طرح قرضخواہ ، قرضدار کا پوچھتا رہتاہے۔ اسی طرح اس روز اہل حبشہ نفیل کا پوچھ رہے تھے۔ تاکہ ان کو واپسی کی راہ دکھائیں)۔
بہر حال ! وہ گرتے پڑتے ۔ راستے میں مرتے ہوئے یمن کی طرف لوٹے۔ابرہ ہکو بھی جس پر زخم آئے تھے۔ جو پھنسوں کی شکل میں تھے۔ او رجب ان میں سے ایک گرتی تو دوسری نکلتی ۔ جس سے ایک عرصے تک پیپ وخون بہہ رہا تھا۔ یہاں تک کہ موت سے ہم آغوش ہوا۔
ابو قیس بن الأسلت نے اس کا نقشہ کھنچا ہے۔ وہ درج ذیل ابیات میں ملا حظ فرمائے۔
فقوموا فصلوا ربکم وتمسحوا بأرکان ہذا البیت عین الأخاشب
فعندکم منہ بلاء مصدق غداۃ ابی یکسوم ہادیء الکتائب
کتیبہ بالسہل تمشی ورحلہ علی القاذفات فی رؤوس المناقب
فلما آتاکم نصر ذی العرش ردہم جنود الملیک بین ساف وحاضب
فولوا سراعاً ہاربین ولم یؤب إلی أہلہ ملحبش غیر عصائب(۳۷)
۱۔ اٹھو اور اور اپنے رب کے لیے نماز پڑھو (دعاکرو) او رپہاڑوں کے درمیان واقع بیت اللہ کے ستونوں کو چھو لو (رامس سے چمٹ جاؤ)۔
۲۔ کیونکہ جس روز ابویکسوم (ابرہہ) لشکروں کے سردراابن کر بیت اللہ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ تو اس روز تمہارے ہاں اس کی تصدیق شدہ آزمائش موجود ہے۔ یعنی اللہ نے اس کی فوج کو ناکام ونامراد لوٹا دیا۔ اور اس گھر کی عظمت کو لوگوں پر ثابت کیا ۔
۳۔ اس کی لشکر نرم زمین پر چل رہی تھی اور اس کی پیادے پہاڑوں کے چوٹیوں کے راستوں میں سنگ باری کر ہے تھے۔
۴۔ پس جب تمہاریے عرش والے یعنی اللہ جل شانہ کی طرف سے مدد پہنچی تو اس نے بادشاہ کی فوج پستی اور پہاڑی (پتھریلی) میں ان کو لوٹا دیا۔ یعنی وہ منتشر ہوکر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔
۵۔ وہ بڑی تیزی کے ساتھ، بھاگنے لگے، اور اہل جبش میں صرف چند جمگھٹوں اور جماعات کے کوئی اپنے گھر نہیں لوٹا۔عبید اللہ بن قیس الرقیات(۳۸) کی بیت اللہ کی عظمت اور جو اس کی برائی کا ارادہ کرے کے باے میں یہ قول ہے:
کادہ الأشرم الذی جاء بالفیل فولی وحبشہ مہزوم
واستہلت علیہم الطیر بالجند ل حتي کأنہ مرحوم
ذاک من یغزہ من الناس یر جع وہو فل من الجیوش ذمیم(۳۹)۔
۱۔ ابرہۃ الاشرم بیت اللہ کے ڈھانے کے لیے ، ایک ساز ش او رحیلہ کے ساتھ ہاتھیوں کو لایا (تاک کعبۃ اللہ کو منہدم کردے نعوذ بااللہ ) تو وہ ایسی حالت میں پھر لوٹ گیا کہ اس کی فوج شکست خوردہ تھی یعنی اپنی فوج کی شکست خوردگی کی حالت میں وہ پیٹھ پھیر کر لوٹ گیا۔ بھاگ گیا ۔
۲۔ پرندے نے اس پر پتھر برسانے شروع کیے ۔ گویا کہ ان کو رجم کیا گیاہو۔ یعنی ابرہہ الاشرم کے بارے میں فیصلہ ہواہو۔ کہ اس کو سنگسار کیا جائے۔
۳۔ لوگوں میں سے کوئی بھی جب اس گھر یعنی بیت اللہ کے خلاف جنگ کرے گا۔ وہ ایسی حالت میں لوٹے گا۔ کہ اس کی فوج کو شکست ہوگی۔ یعنی وہ شکست خوردہ ہوگی اور اس کس کی مذمت کی جائے گی اور اس پر ملامت کی جائے گی (اور ابرہہ کے ساتھ حقیقتاً یہی ہو)۔
ابن کثیر نے نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں بہت سے روایات نقل کی ہیں جن کا آپس میں بہت تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور ترین قو ل یہ ہے ۔ کہ آپ ﷺ کی ولادت اس واقعہ کے پچاس روز بعد ہوئی(۴۰)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کہ اس نے ہاتھی بان اور اس کے قائد کو مکہ مکرمہ میں ایسی حالت میں دیکھا کہ وہ دونوں اپاہج اور اندھے تھے۔ اور بھیک مانگ رہے تھے(۴۱)۔
جب اللہ جل شانہ نے حبشہ والوں کو مکہ سے لوٹا دیا / دور کیا ۔
اور اللہ نے ان کو جو سزا دینی تھی۔ دے گئے۔ تو عرب کے لوگوں نے قریش کی عظمت کی جانا اور کہتے لگے کہ یہ اللہ والے لوگ ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی طرف سے جنگ کی اور وہی ذات ان کے دشمن کے مشقت کے مقابلے میں ان کے لیے کافی ہوئی اس وجہ سے انہوں نے اس کے بارے اشعار نظم کرنے شروع کیے۔ جن میں یہ بیان تھا۔ جو اللہ نے اہل حبشہ کے ساتھ کیا تھا۔ اور انہوں نے قریش کے خلاف جو حیلہ سازی کی تھی ان سے پھیر دیا / لوٹا دیا ۔ اس بارے میں عبد اللہ بن الزبعری(۴۲) کا قول ہے۔
تنکلوا عن بطن إنہا کانت قدیما لا یرام حریمہا
لم تخلق الشعر لیالی حرمت إذا لا عزیز من الأنام یرومہا
سائل أمیر الجیش عنہا مارای وسوف ینبی الجاہلین علیمہا
ستون الفالم یوبوا أرضہم ولم یعش بعد الإیاب مسقیمہا
کانت بہا عاد وجرہم قبلہم واللہ من فوق العباد یقیمہا

کہ زمین کے اس نشیبی حصے سے باز رہو۔ کہ قدیم زمانے سے یہ دستورچلا آرہا ہے کہ اس کییبے حرمتی کا کسی نے ارادہ نہیں کیا (یعنی قدیم زمانے سے لوگوں کے لیے قابل احترام رہا ہے۔
اس کی محترم راتوں نے شعر ی نام ستارہ کو پیدا نہیں کیا ۔جب کہ کوئی قوت والا اور عزت والا اس (گھرکا) قصد نہیں کرسکتا تھا ۔اس فوجی سردار (قائد) سے اس کے بارے میں پوچھو جو اس نے دیکھا۔ اور عنقریب علیم وخبیر ذات جاہلوں کو خبردار (بتا دے گا) کر لگا۔فوج میں سے (بلک موت سے ہم آغوش ہوئے کوئی اپنی سرزمین پر لوٹ نہ سکا) جو بیماری کے عالم میں لوٹ بھی گئے تو وہ وہاں زندہ نہ رہ سکے۔ان سے پہلے وہاں عاد اور جرہم قبیلے کے لوگ تھے۔ اور اللہ تعالی بندوں سے زیادہ اس گھر یعنی بیت اللہ کو قائم رکھے گا۔اور یہی ہو رہا ہے کہ آج دنیا بھر سے لاکھوں زائرین ہر سال حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے آتے ہیں ۔ جن میں پر قوم ، رنگ ، نسل اور زبان کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو مسلم امہ کی بین الاقوامی وحرممت کا جیتا جاگتا ثبوت فراہم کر رہاہے۔


حوالہ جات وکتابیات
(۱) ابرہہ کا پورا نام أبرہہ بن الصباح الحمیری تھا اور الأشرم کے نام سے مشہور تھے۔ زمانہ جاہلیت میں یمن کے حکماء میں سے تھے ۷۳ سال کی عمر میں حسان بن عمرو نے بعد ولی عہد یمن مقرر ہوئے ۔ ابرہہ کا تعلق حبشہ سے تھا ۔ یہ قول الفیروز آبادی نے قاموس میں ابن الأثیر کے حوالے سے ذکرکیا ہے کہ ابرہ غیر عرب ہونے کی دلیل یہ تھی کہ جب آپ کا مکالمہ عبد المطلب سے ہورہا تھا تو درمیان میں ترجمان تھا۔ دیکھئے: القاموس للفیروزآباد، مادۃ’’ابرہ‘‘ ۔ اور الزرکلی:خیر الدین ، الأعلام ، ۱/۸۲۔
(۲) النجاشی: عربی میں شاہ حبش کا لقب یہ کلمہ دخیل ہے اور اس کی اصل حبشہ زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ’’ بادشاہ ‘‘ شہزادہ‘‘ وغیرہ کے ہیں عربی میں یہ کبھی اسم علم کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، تو کبھی لقب کے طورپر ۔ اسے خالص عربی لفظ بھی قرار دیا جاسکتا ہے ، مگر اس صورت میں اس کے معنی ’’ شکار کو گھیر کر لانے والا ‘‘ ہوں گے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ کہیں نہیں آیا ، مگر حدیث میں اسے شاہ حبش‘‘ کے لقب کے طور پر استعمال کیا گیا اسی طرح جیسے قیصر کسری او رالمقوقس کے القاب علی الترتیب شاہان روم فارس اور مصر کے لیے استعمال کیے گئے ہیں مجموعی طور پر یہ چاروں وہ طاقتین تھیں جو حضور نبی کریم کے زمانے میں اسلامی سرزمین کو گھیرے ہوئے تھیں ۔اصل میں حبشہ میں حکمران کے لیے یہ لقب بولا جاتا تھا۔ تفصیل کے دیکھئے : الأعلام ، ۷/۱۴۳ ومابعد۔ابن منظور الأفریقی: لسان العرب، ماد ’’ ۔ح ب ش‘‘۔
(۳) ابن کثیر: عماد الدین ، البدایۃ والنہایۃ ، (دار الکتب العلمیۃ بیروت) ۲/۱۷۰؛ سیرۃ ابن اسحاق، ص ۴۰۔
(۴) نفس المصدر ونفس الصفحہ۔
(۵) نفس المصدر ونفس الصفحہ۔
(۶) ابن اسحاق : آپ کا پورا نام محمد بن اسحاق بن سیار المطلبی ہے ، آپ عرب کے قدیم مؤرخ ہیں۔ آپ کا تعلق اہل مدینہ سے تھا۔ آپ ۱۱۹ھ میں اسکندریا چلے گئے اور بغداد میں سکونت اختیار کی وہی ۱۵۱ھ میںآپ کا انتقال ہوا اور الخیزران ام الرشید کے مقبرے میں دفن کیے گئے۔ سیرۃ النبویۃ آپ کی مشہور اوربے مثال تصنیف جو مرجع اصلی کے طور استعمال کی جاتی ہے۔(الأعلام للزرکلی، ۶/۲۸)۔
(۷) سیرۃ ابن اسحاق ، ص ۴۲۔
(۸) سورۃ التوبۃ ۳۷۔
(۹) عمیر بن قیس کا اپورا نام عمیر بن القیس بن جذل الطعان الکنانی اور کنیت أبو وافر ہے ۔ جاہلی دور کے شعراء میں سے تھا۔ دیکھئے: المیمنی ، سمط الآلی، ۱/۳۔
(۱۰) عمیر بن القیس کے یہ اشعار المیمنی نے سمط الألی میں میں نقل کیا ہے، زیر عنوان ’’ألسنا الناسئین علی معد‘‘ ۱/۳۔
(۱۱) طالب بن أبی طالب۔ طاب بن أبی طالب بن المطلب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے۔ اور آپ ﷺ کی مختلف موقع پر مدح کی ہے۔
(۱۲) طاب بن أبی طالب کے یہ اشعار سیرت ابن ہشام میں منقول میں ہیں ۔ سیر ۃ النبویۃ لابن ہشام، بمعروف سیرۃ ابن ہشام، ۱/۶۲۔
(۱۳) تاریخ ملوک والمملوک ، الطبری، ۱/۱۹۴؛ البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، ۲/۱۷۱؛سیرۃ ابن اسحاق، ص ۴۴۔۴۵۔
(۱۴) ابن ابی الصلت کا پورا نام امیۃ بن عبداللہ أبی الصلت بن ابی ربیعۃ بن عوف الثقفی ، جاہلی شاعر ، حکیم، او راہل طائف میں سے تھے۔ بعد ازاں اسلام قبول کیا ، طائف میں مقیم رہے ، اور وہی ۵ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ابن خلکان، وفیات الأعیان ، ۱/۸۰؛ الأعلام ، ۲/۲۳۔
(۱۵) آپ کے یہ اشعار ابن ہشام میں نقل کیے گئے ہیں۔ واقعہ فیل کے ضمن میں دیکھئے: سیرۃ ابن ہشام، ۲/۶۳۔
(۱۶) ابورغال کا نام قسی بن منبہ النبیت بن یقدم، قبیلہ بنی آیاد سے تعلق تھا۔ نام کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ قبر پر پتھر برسائے گئے۔ ۵۷۵م کو انتقال ہوا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: ابن سعد: طبقات الکبری، ۱/۳۶ ۔۴۲؛ تاریخ ملوم ومملوک، الطبری، ۲/۱۸۱؛ ابن الأثیر ، الکامل فی التاریخ ، ۲/۷؛ الزرکلی: الأعلام ۵/۱۹۸۔
(۱۷) البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر، ۲/۱۷۷۱۔
(۱۸) دیوان جریر، ص ۵۲، دارالکتب العلمیۃ بیروت، طبع جدیدۃ۔
(۱۹) المسعودی نے یہ اشعار ذکر کیے ہیں ۔ دیکھئے: المسعودی ، مروج الذہب، ۱/۷۹۔
(۲۰) مسکین الدارمی: پورا نام ربیعۃ بن أنیف او رلقب مسکین الدارمی تھا۔ اور بنی تمیم سے تعلق تھا ، عراق کا شاعرشجاع تھے۔ آپ کی دیوان کو خلیل العطیۃ اور عبد الجبوری نے جمع کر کے دیوان کی شکل میں بغداد سے شائع کیا۔ آپ بغداد میں ۸۹ھ میں وفوت ہوئے۔ اور وہی دفن کیے گئے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: الصفدی: الوافی بالوفیات،۴/۴۴۸؛ ابن عساکر : تاریخ دمشق ، ۱۸/۵۳؛ الزرکلی: الأعلام ، ۳/۱۶۔
(۲۱) سیرۃ ابن ہشام نے یہ شعر نقل کیا ہے۔ ۱/۴۹۔ تاہم مسکین الدارمی کا مرتب کردہ دیوان تلاش بسیا ر کے باوجود نہ مل سکا۔
(۲۲) ابرہہ کی طرف سے ابن مقصود کو بھیجنا اور وہاں کے مال مویشوں کو لانا ، اس بارے میں ابن ہشام نے تفصیل سے ذکر کیا ہے، دیکھئے: سیرۃ ابن ہشام ، ۱/۴۹؛ ڈاکٹر جواد علی ، المفصل فی تاریخ عرب قبل الإسلام، ۴/۱۵۳۔
(۲۳) آپ کا تعلق اکابر صحابہ میں سے ہے ۔ تفصیل کے لیے : ابن عبد البر: الإستیعاب فی معرفۃ الصحابہ، ۱/۳۳۴۔
(۲۴) آپ کے یہ اشعار ابن ہشام نے نقل کیے ہیں: سیرۃ ابن ہشام، ۱/۵۲۔
(۲۵) سیرۃ ہشام ، ۱/۴۵۔
(۲۶) البدایۃ والنہایۃ، ۱/۱۷۲۔
(۲۷) سیرۃ ابن ہشام، ۱/۵۷۔
(۲۸) ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ اشعار اس واقع کے ضمن میں نقل کیے ہیں۔البدایۃ والنہایۃ ، ۲/۱۷۳۔
(۲۹) السہیلی: پورانام عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد الحثعمی السہیلی ہے ، حافظ، لغت اور سیرت کے بہت بڑے عالم تھے۔ مالقہ میں ۵۰۸ میں پیدا ہوئے۔ بعد میں مراکش چلے اور وہی آپ کا ۵۸۱ھ میں انتقال ہوا۔ آپ کی مشہور تصنیف الروض الأنف ہے جو سیرۃ ابن ہشام کی تفسیر ہے۔ ( الأعلام ، ۳/۳۱۳)۔
(۳۰) السہیلی: الروض الأنف، فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، (عباس أحمد الباز مکۃ المکرمہ ۱۹۹۷ء) ۱/۲۴۳۔
(۳۱) أبی قیس بن الأسلت کا پورا نام صیفی بن عامر الأسلت بن جشم بن وائل الأوسی الأنصاری، اور کنیت أبو قیس تھا۔ جاہلی دور کے شعراء میں نامور شاعر اور حاکموں میں سے تھے۔ آپ ﷺ کے اسلام کے دعوۃ دینا شروع کیا ۔ لیکن آپ ۱ھ میں دین ابراہیم پر مدینہ میں فوت ہوئے۔ الأصفہانی: کتاب الأغانی، ۱۵/۱۵۴؛ الأعلام ۳/۲۱۱۔
(۳۲) ابی قیس بن الأسلت کے یہ اشعار ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ میں نقل کئے ہیں۔دیکھئے: ۲/۱۷۵۔اور الإصفہانی: کتاب الأغانی، ۱۵/۱۵۵۔
(۳۳) سیرۃ ابن ہشام، ۱/۵۳۔
(۳۴) نفیل کا پورا نام نفیل بن حبیب الحثعمی ، جاہلی دور کے شاعر تھے اور لقب بذی الیدین لقب تھا۔ وہ اشعار بہت مشہور ہیں جو یوم الفیل کے موقع پرکہے گئے۔ الأعلام ، ۸/۴۵۔
(۳۵) نفیل کے ان اشعار کا تذکرہ اکثر تاریخ وسیرت کتب نے کیا ہے، اس ضمن میں ابن ہشام نے ذکر کیا ہے، سیرۃ ابن ہشام، ۱/۵۴۔
(۳۶) حوالہ سابق۔
(۳۷) سیرۃ ابن اسحاق میں یہ شعر اسی واقعہ کے مناسبت سے ذکر کیے ہیں۔
(۳۸) ابن قیس الرقیات کا پورا نام عبید اللہ بن قیس بن شریح بن مالک اور قبیلہ بنی عامر بن لؤی سے تعلق تھا۔ ابن قیس کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کا انتقال ۸۵ھ میں ہوا۔ اموی دور کے قریشی شاعر اور مدینۃ میں سکونت پذیر تھے۔آپ کے اکثر اشعار ، غزل، نسیب، مدح اور فخر پر مبنی تھے۔ آپ کے اشعار کا مدون دیوان شائع ہوچکا ہے۔ الأعلام ، ۴/۱۹۶۔
(۳۹) ابن کثیر نے آپ کے اشعار نقل کیے ہیں ۔ تاہم مطبوع دیوان نہیں مل سکا۔البدایۃ والنہایۃ ، ۲/۱۷۶۔
(۴۰) ابن کثیر ، البدایۃ والنہایۃ ، ۲/۲۶۲۔
(۴۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ، ابن اسحاق نے سیرۃ ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ سیرۃ ابن اسحاق ، ص ۵۰۔
(۴۲) ابن الزبعری کا پورا نام عبد اللہ بن الزبعری بن قیس السہیمی القریشی ، کنیت أبو سعد ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے شعراء میں سے تھے۔ بعد ازاں آپ ﷺ کی دعوت پر مشرف بإسلام ہوئے ، اور آپ ﷺ نے آپ کو ایک جوڑا عطا فرمایا۔ الأغانی، ۱/۴،۱۴۔ ابن سلام، طبقات الشعراء ، ص ۵۷، ۵۸۔ الأعلام، ۴/۵۵۔
(۴۳) آپ کے اشعار سیرۃ ابن اسحاق ص ۵۰، اور الأصفہانی نے کتاب الأغانی، میں ذکر کیے ہیں۔ کتاب الأغانی، ۱/۱۴۔

 

٭پروفیسر انسٹیوٹ آف ایجوکیشن، جامعہ پشاور
٭٭ایسوسی ایٹ پروفیسر انسٹیوٹ آف اسلامک اینڈ عریبک سٹڈیز، جامعہ پشاور

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com