اُردو ناول میں طبقاتی شعور
روبینہ الماس

ABSTRACT

The Society of Subcontinent has been divided in different classes from early times in history. Lower and upper classes always remain in the social structure of subcontinent. Nazeer Ahmad was the first person who portrayed his perception and discussed the middle class of Muslims in his novels. Pandat Rattan NathSarshar also painted the culture of Lucknow with the causes of decadence. Mirza Hadi Ruswa identified as well the life of upper class in Owadh culture. Twentieth century Premch and High lighten the social life of lower classes in his novels. Like wise Hayatullah Ansari, Krishan Chander, Jaillani Bano, Abduallah Hussain, Khadija Mastoor and Shaukat Siddiqui are visualized in this tradition .

برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ، اس سرزمین کا سماج مختلف حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ذات پات کی تقسیم نے اوائل سے ہی اس معاشرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کر کے رکھا ہے۔ کہیں اچھوت کا سلسلہ ہے تو کہیں اعلیٰ ذات اورادنیٰ ذات کا سلسلہ ۔ پھر مختلف صورتوں میں مختلف حملہ آوروں کی آمد اور نسلی امتیازات کا نیا سلسلہ ۔ فاتح ومفتوح ، وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بیچ کی یہ تقسیم مختلف طبقات کی شکل اختیار کر گئی اور انیسویں صدی کے اوائل میں دو واضح طبقات اونچا طبقہ (طبقہ اشرافیہ ) اور نچلا طبقہ (کسان ومزدور) میں تقسیم ہوگیا۔ یہ طبقات کبھی رجواڑوں اور جنتا (رعایا) ، کبھی بادشاہ اس کے خواص اور عوام میں تقسیم ہوئے ، کبھی جاگیردار اور کسان کی شکل میں سامنے آئے اور کبھی سرمایہ دار اور مزدور کے طور پر اظہار پذیر ہو ئے۔ مگر ہر صورت میں ایک استحصالی رویہ نمایاں رہا اور ۱۸۵۷ء کے واقعے کے بعد تیسرا طبقہ ، متوسط طبقہ منظرِشہود پر آیا۔ جو بیسویں صدی کے اوائل تک اپنی تمام اقدار وضع کرنے میں کامیاب رہا۔
متوسط طبقہ ہمیشہ اعلیٰ اورنچلے طبقے کے درمیان توازن کی شکل میں رہا۔ مگر اس کے اپنے مسائل تھے۔ ایک طرف تعلیم ، مذہب اور سیاست اس کے مسائل تھے تو دوسری طرف دونوں طبقوں کے درمیان سینڈوچ کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ تحریکِ آزادی میں سب سے زیادہ اسی طبقے کا حصہ رہا۔ جب معاشرے میں اس طرح طبقاتی تقسیم موجود ہو تو اس معاشرے میں توازن کی مثبت صورتحال کا پیداہونا ناممکن ہوجاتاہے اور کشمکش کی فضا رہتی ہے۔ یہی صورتحال برصغیر کی پوری تاریخ میں موجود ہے۔
بقول ڈاکٹر انور پاشا:
’’ تاریخ طبقاتی کشمکش کا نام ہے اور یہ کشمکش شروع سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں نہیں آجاتا۔‘‘(۱)
تاریخ میں موجود طبقاتی کشمکش کے اثرات یہاں (برصغیر) کے ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ جس کی نوعیت کبھی لاشعوری رہی اور کبھی شعوری اس ضمن میں ہم مختلف ناولوں میں اور ناول نگاروں کے طبقاتی شعور پر گفتگو کریں گے۔

ناول نگاروں میں سب سے پہلے ڈپٹی نذیر احمد کا نام آتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو اس عہد کے متوسط مسلم گھرانوں کی معاشرتی وسماجی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ خاص طور پر مراۃ العروس ، توبۃ النصوح اور فسانۂ مبتلا میں متوسط ونچلے طبقے کی زندگی پیش کی ہے۔ ان کی اس پیشکش سے ان طبقات کی گھریلو زندگی کی عکاسی تو ہوتی ہے مگر کوئی تضا دیا کشمکش سامنے نہیں آتی۔

بقول مولانا صلاح الدین احمد:
’’ مولوی صاحب نے مراۃ العروس اور اس کے بعد آنے والے ناولوں کے ذریعے سے اوسط درجے کے مسلمان گھرانوں کے سامنے ترقی اور خوشحالی کے نئے افق پیش کیے اور انھیں اپنی اصلاحِ معاشرت اور تدبیر منزل کی طرف توجہ دلائی ۔ (۲)
مراۃ العروس سیدھی سادھی خانگی زندگی پر مبنی ناول ہے جس میں عورت کا سلیقہ ہی گھروں کو بنانے اور قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے یا یہ کہ اوسط درجے کے گھروں میں تہذیب سے عاری خواتین (اکبری) کیا کرتی ہیں اور ہدایت بیگم جیسی کم عقل خواتین کس طرح ماما عظمت کے چنگل میں پھنستی ہیں اور استحصال کا شکا ر ہوتی رہتی ہیں۔
’’ توبۃ النصوح ‘‘ میں بھی متوسط طبقے کا مسلمان گھرانہ اور اس کی خانگی زندگی ہے جس سے نصوح اور اس کے خاندان کا تعلق ہے جبکہ نچلے طبقے کا نمائندہ مرزا ظاہر دار بیگ ہے۔ جوہر طرح کی اقدار سے عاری ہے۔ اس ناول میں کوئی باقاعدہ آویزش نظر نہیں آتی۔ مگر ایک غیر واضح تضاد ضرور موجود ہے جو کلیم کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ ایک طرف وہ فارغ البال انسان ہے شعرو شاعری میں مشغول اور فکرِ معاش سے آزاد طبقہ اشرافیہ کی نمائندگی کرتا ہے دوسری صورت وہ جب کہ وہ مسجد کے فرش پر لیٹا مسجد کی ویرانی وشکستگی کا مرثیہ پڑھ رہا ہے۔
’’ فسانہ مبتلا‘‘ میں ایک پرانا جاگیر دار طبقہ دکھایا گیا ہے۔ جس کی مضبوط علامت غیرت بیگم کے روپ میں ابھرتی ہے اور مبتلا جو اس طبقے کی نمائندگی اپنے عیاش رویے سے کرتا ہے اور ہریالی جو معاشرے کے رذیل طبقے (طوائف کے طبقے ) سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر سلیقہ میں غیرت بیگم سے بہتر ہے۔
اس طرح مولوی صاحب نے اپنے عہد کے نچلے متوسط طبقے کی پیشکش کے ساتھ ان کی بہتری چاہی ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معاشرے میں موجود طبقۂ اشرافیہ انھیں متاثر کرتا تھا۔ چنانچہ وہ نچلے اور بالائی طبقے کے درمیانی فرق کو لاشعوری طور پر ختم کرنا چاہتے تھے اور مولانا صلاح الدین احمدکے الفاظ میں :
’’ وہ نچلے درمیانے طبقے کو ابھار کر اور اسراف اور تضیحِ وقت وزر سے بچا کر ایسے مقام پر پہنچا دینا چاہتے تھے ۔ جو اس وقت تک اونچے طبقے ہی کی پہنچ میں تھا۔ ‘‘ (۳)
ڈپٹی نذیر احمد نے نچلے متوسط طبقے کو پیش کیا جبکہ پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناولوں میں طبقہ اشرافیہ (بالائی طبقہ ) کی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ سرشار کا تعلق ایک زوال آمادہ معاشرے سے ہے لہٰذا ان کے ناولوں میں بھی ایک زوال آمادہ معاشرے کے بالائی طبقے کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کے نمائندہ نالوں میں ’’ فسانہ آزاد‘‘ اور ’’ سیرِکہسار ‘‘ ہے۔ دونوں میں کم وبیش ایک ہی طرح کی زندگی اور صورتحال ہے کہ دونوں ناولوں میں لکھنؤ کے طبقہ اشرافیہ اور نچلے طبقے کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔
’’ لکھنؤ کے سماج میں دو طبقے ملتے ہیں ایک اونچا طبقہ اور دوسرا نچلا طبقہ، اونچے طبقے میں سرکاری ملازم ، ڈاکٹر، وکیل ، تاجر اور نوابین وغیرہ آتے ہیں۔ چھوٹے طبقے میں وہ تمام لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طور پر اونچے طبقے والوں سے کسبِ زر کر رہے ہیں، مغلا نیاں ، مہریاں ، داروغہ ، مالی ، کہار ، استانیاں ، چوڑی والیاں وغیرہ۔ جن کا تعلق براہ راست نوابین سے ہے۔ یہ نوابین کی کوئی نہ کوئی ضرورت ملازم کی حیثیت سے پوری کرتی ہیں۔ جس کے بدلے میں ان سرکاروں سے مالی معاوضے ملتے ہیں۔ نوابین سے مراد عام جاگیردار ہیں جن کا ذریعہ معاش بڑی بڑی جاگیریں اور تعلقے ہیں اور جن کا مشغلہ، ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے الفاظ میں زندگی کو چائے کے چمچوں سے ناپنا ہے۔‘‘(۴) سرشار کے ناولوں میں یہی دونوں طبقات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مگر یہاں کسی قسم کی آویزش نہیں بلکہ مفاہمت کی فضا، نظر آتی ہے۔
یہ سرشار کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے ایسے سماج کے اندر جنم لیا جس کی تہہ در تہہ طبقاتی (نوابین ، تعلقہ دار ، ملازم پیشہ ، ہنر مند، خدمت گار، مہریاں ،مغلانیاں ، لونڈیاں ، طوائفیں ) ہےئت اتنی بھرپور تھی کہ انھیں سماجی روئیوں کے مطالعے کے لیے ایک کھلا میدان ملا اور انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ (۵) چنانچہ سرشار نے اپنے عہد کے لکھنوی اشرافیہ کو ان کے تمام تر کھوکھلے پن کے ساتھ دکھایا ہے۔ نیز نچلے طبقے کی عکاسی بھی مناسب خطوط پر کی ہے کہ جن کی حیثیت طفیلیے کی سی تھی۔ خواہ وہ فسانۂآزادکےآزاد،خوجی،انجمنآراء،اللہرکھیاورنوابہوںیاپھرسیرکہسارکی قمرن چوڑی والی ، نواب محمد عسکری اور ان کے چرب زبان مصاحبین ، ہر جگہ پر یہ کردار ایک زوال آمادہ معاشرے میں اپنی زبان ، اپنے کردار ، اپنے رویے اور اپنی بے اعتدالیوں کے ساتھ اپنے اپنے خاص طبقے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اس وقت کا طبقہ اشرافیہ اخلاقی طور پر گیراوٹ کا شکار تھا۔ اونچے طبقے کی کوئی اخلاقیات ہی نہ تھیں۔
مرزا محمد ہادی رسواء کے ناولوں میں بھی لکھنوی تمدن کی عکاسی ملتی ہے۔ خاص طور پر امراؤ جان ادا اور ذاتِ شریف ۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ کی حیثیت اُردو ناول کی تاریخ میں سنگِ میل کی سی ہے کیونکہ اس عہد میں یہ ناول تکنیک اور موضوع کے اعتبار سے نئی طرز لے کر آیا تھا۔ اس ناول میں رسواء نے دو طبقات کو پیش کیا ہے۔ طبقہ اشرافیہ اور معاشرے کا اسفل طبقہ (طوائف) ۔ انھوں نے طوائف کے کوٹھے سے طبقہ اشرافیہ کی سماجی زندگی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یا صلاح الدین احمد کے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ :
’’ (امراؤ جان ادا ) ہماری زبان کی سب سے پہلی آٹو بائیو گرافی ہے جو نہ صرف اپنے موضوع کی بلکہ اپنے ماحول اور سماج کی پوری پوری آئینہ دار کرتی ہے۔(۶)
اس عہد کا لکھنؤ ، نوابین کا لکھنؤ تھا اور ان نوابین کے یہاں جو روایات موجود تھیں خواہ مسخ ہی ہوں ، تہذیب وتمدن کا حصہ تھیں۔
رسواء نے نوابین کے عمومی ماحول روایت اور رویے کے حوالے سے امراؤ کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ امراؤ جان ادا نواب جعفر علی کے ذکر میں لکھتی ہیں کہ :
’’ اس عمر اور ایسی حالت میں رنڈی نوکر رکھنا کیا ضروری تھا۔ سنےئے مرزا صاحب اس زمانے کا فیشن یہی تھا۔ کوئی امیر رئیس ایسا بھی ہوگا جس کے پاس رنڈی نہ ہو۔ نواب صاحب کی سرکار میں جہاں اور سامان شان وشوکت کے تھے وہاں سلامتی منانے کے لیے جلوسیوں میں ایک رنڈی کا بھی اسم تھا۔ پچھتر روپے ماہوار ملتے تھے۔ دو گھنٹے کے لیے مصاحبت کر کے چلی آتی تھی اور تکلف سنےئے ۔ نواب بوڑھے ہوگئے تھے مگر کیا مجال نو بجے کے بعد دیوان خانے میں بیٹھ سکیں۔ اگر کسی دن اتفاق سے دیر ہوجاتی تو کھلائی آکے زبردستی اٹھالے جاتی تھی ۔ نواب صاحب کی والدہ زندہ تھیں ان سے اسی طرح ڈرتے تھے جس طرح پانچ برس کا بچہ ڈرتا ہے۔ بیوی سے بھی انتہا کی محبت تھی ۔ ‘‘ (۷)
اس اقتباس سے طبقہ اشرافیہ کی نجی زندگی اور ان کی روایت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ مگر طبقات کے درمیان آویزش یا مفاہمت کا پتہ نہیں چلتا۔ نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسواء کا ایسا کوئی مقصد تھا۔
پریم چند کے ناولوں میں نچلے طبقے کی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ پریم چند کے یہاں ہندوستان کی وسعت ہے اور دیہی زندگی کے مسائل اور اونچے طبقہ (جاگیردار وزمیندار) کی بے حسی وزیادتی کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ مگر ’’ گؤدان ‘‘ اور ’’ میدانِ عمل‘‘ میں ایک واضح طبقاتی شعور کا احساس ہوتا ہے۔ ان ناولوں میں پریم چند نے طبقات کے درمیان موجود مفاہمت کو بھی دکھایا ہے اور کشمکش کو بھی ۔ مقبول وقار عظیم:
’’ پریم چند کے ناول کسی محدود اور مخصوص معاشرے کی بجائے ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوں اور اس کے نچلے اور متوسط طبقوں اور اس کی تہذیبی اورقومی الجھنوں اور کش مکشوں کے آئینے ہیں۔ ‘‘ (۸)
پریم چند کے ابتدائی ناولوں میں مثالیت اور گاندھی واد کا پرچار نظر آتا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ پریم چند اس آدرش رویے سے چھٹکارا پاتے ہیں۔
’’ میدانِ عمل ‘‘ (۱۹۳۲ء ) پریم چند کا وہ ناول ہے جس میں آدرش واد کا زور کم ہوتا نظر آتا ہے۔ اس طرح گاندھیائی فلسفے اور پرامن ستیہ گرہ پر بھی ان کا عقیدہ کمزور پڑتا نظر آتا ہے۔ جو چیز ان کے آخری ناول ’’ گؤدان ‘‘ میں واشگاف ہو کر سامنے آجاتی ہے اس کی ابتداء اس ناول کے صفحات سے ہی ہوجاتی ہے۔ تشدد کی جھلک سب سے پہلے ہمیں یہیں نظر آتی ہے۔ ‘‘ (۹)
گؤ دان کا ہیرو ہوری ایک قسمت پرست ، تقدیر کا شاکی رہنے والا پرانی روایات کا قائل ایک بوڑھا کسان ہے___ گوبر ایک باغی قسم کا نوجوان ہے ، جو بیگار ، ہری بوسا اور زمینداروں کے دیگر قسم کے حقوق سوائے لگان کے نہیں دینا چاہتا اور اپنی ساری عمر زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف اپنی وسعت بھربغاوت کر کے بسر کردیتا ہے۔ (۱۰) اس طرح ہوری طبقاتی مفاہمت اور گوبر طبقاتی آویزش کی مثال کے طورپر سامنے آتے ہیں۔
طبقاتی کشمکش کا اظہار حیات اللہ انصاری کے ناول ’’ لہو کے پھول ‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ ’’ لہو کے پھول ‘‘ ۱۹۱۲ء سے ۱۹۵۰ء تک کے حالات واقعات پر مشتمل ہے۔ لہٰذا اس ناول میں تحریکِ آزادی کے نشیب وفراز اور اس عہد کے ہندوستان کی معاشی ومعاشرتی صورتحال پوری طرح جلوہ گر ہیں۔ کسان ، انسان کے مسائل ، مزدور اور ان کا استحصال کرنے والے زمین دار ، مہاجن ، پنڈت ، انگریز حکمرانوں کے مظالم ، قومی آزادی کی جدوجہد ، خلافت تحریک، عدم تعاون ، عدم تشدد کا فلسفہ ، ہندومسلم سیاست، فرقہ واریت کا عروج اور تقسیم ملک سبھی کچھ اس ناول میں موجود ہے۔ (۱۱)
اس وقت کے ہندوستان میں سیاسی بیداری اور حقوق کی جنگ اپنے زوروں پر تھی ، خاص طور پر ۱۹۱۵ء کے بعد نچلے طبقے (کسان ، مزدور) میں اپنے حق، اپنی آزادی کی خواہش شدید تر ہورہی تھی اور ان میں ایسا جوش وخروش پیدا ہورہا تھا جو کچلے ہوئے عوام میں آخر کار پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں اب انگریزی عملداری سے ٹکرانے کے لیے تیار تھیں ۔ اس وقت کے حالات اور تاریخی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشہور مورخ رجنی پا مدت لکھتے ہیں:
’’ دوسری جنگِ عظیم کے ختم ہونے پر ہندوستان میں نئی بیداری آئی اور ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس دور کا آغاز (۱۹۲۱ء ۔ ۱۹۱۸ء) کی زبردست ہڑتالوں نے کیا اور انھوں نے ہی آخر میں کانگریس کو بھی میدان میں لااتار ا اس نے (۱۹۲۲۔ ۱۹۲۰) عدم تعاون اندولن چھیڑا۔
اس کے دس سال بعد مزدور طبقہ ایک آزاد اورمنظم قوت بند گیا۔ اسی کی اپنی آئیڈیولوجی سیاسی سرگرمیوں کو متاثر کرنے لگی۔ ۱۹۲۸ء میں ہڑتالوں کی ایک زبردست لہر آئی جس کی رہنمائی مزدور طبقے کے لڑاکو اور طبقاتی شعور رکھنے والے حصے نے کیا۔ ہڑتالوں کی اس لہر کے ساتھ نوجوانوں اور نیم بورژوائی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی نئی بیداری اور اس طرح مزدوروں کی ہڑتالیں قومی جدوجہد کی ایک نئی لہر کی پیش رو بن گئیں۔ قومی جدوجہد کی یہ نئی لہر ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۴ء تک رہی اس وقت بور ژوائی رہنماؤں نے کھلے عام یہ کہا کہ وہ دو محاذ پر لڑ رہے ہیں اور جس قدر وہ سامراجیت کے خلاف ہیں اسی قدر نیچے سے اٹھنے والی عوامی بغاوت کے خلاف بھی ہیں۔ ‘‘ (۱۲)
حیات اللہ انصاری نے اس ناول میں جانبداری کا ثبوت دیا ہے اور آزادی کا سہرا کانگریس کے سر باندھا ہے۔  حیات اللہ انصاری کے ناول ’’ لہو کے پھول ‘‘ میں عورت کو بھی مختلف روپ میں دکھایا گیا ہے۔ وہ کسان بھی ہے ، شہری ، متوسط طبقے کی پڑھی لکھی لڑکی بھی ، نوابزادی بھی ، طوائف بھی ، مظلوم بھی ہے اور ہمت والی بھی اپنی تمام ترخوبیوں کے باوجود ، حیات اللہ انصاری کی جانبداری کھٹکتی ہے۔ ’’ شکست ‘‘ کرشن چندر کا پہلا ناول ہے۔ اس ناول کا موضوع ذات پات میں بٹا ہوا سماج ہے۔ جس میں زندگی اور محبت کی کشمکش کو دکھا گیا ہے۔ ذات پات میں بٹا یہ سماج اونچی ذات اور نیچی ذات کے چکرمیں مبتلاہے۔ کرشن چندر کے اس ناول کو ہم اونچے طبقے اور نچلے طبقے کی تقسیم کے طور پر بھی لے سکتے ہیں۔ اس ناول میں ان دونوں طبقوں کے درمیان کی آویزش ابھرکر اوپر کی سطح پر تو نہیں ، مگر زیریں سطح پر گھٹے گھٹے غم وغصے کی کیفیت کی صورت میں ضرور نظر آتی ہے۔ ونتی ، چندرا نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں ۔ اورشیام اور موہن سنگھ اونچے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے ونتی اور چندرا کو اپنانے سے پنڈت کشن اور سماج کے ٹھیکیداروں کا دین بھرشٹ ہوتا ہے۔ لہٰذا سماج کا یہ اونچا طبقہ ، نچلے طبقے کو کچل دیتا ہے۔ ایک اقتباس سے یہ صورت واضح ہوتی ہے جب چندرا موہن سنگھ کی تیمارداری کرنا چاہتی اور شیام سے سفارش کرواتی ہے توڈاکٹر پس وپیش کرتا ہے۔ ’’ تیمار داری کے لیے ہر کس وناکس کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ یہ لڑکی اچھوت ہے۔ گاؤں والوں نے ان کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ موہن سنگھ کے رشتے دار اعتراض کرسکتے ہیں کہ راجپوت کا جنم بھرشٹ ہورہا ہے۔ براہمن اعتراض کریں گے، عرضی داغیں گے، میرے خلاف کارروائی ہوگی۔ (۱۳)
کرشن چندر کے ناول ’’ جب کھیت جاگے ‘‘ کی بنیاد تلنگانہ تحریک پر ہے۔ اس تحریک کا آغاز ۱۹۴۰ء میں ہوا اور ۱۹۵۱ء میں اسے واپس لے لیا گیا لیکن اس ناول کا کینوس انیس سال کا احاطہ کرتا ہے۔ مصنف نے کسانوں اور مزدروں کے استحصال اور جاگیردار طبقہ کے مظالم کو اس تحریک کے پیش خیمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس طرح ناول میں استحصال اور طبقاتی جنگ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جس میں جاگیردارانہ طبقہ اور کسانوں اور محنت کشوں کا طبقہ باہم طبقاتی آویزش سے دوچار ہے۔ محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنے استحصال کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔ جبکہ جاگیردار طبقہ اپنے استحصال نظام کو برقرار رکھنے اور کسانوں اور مزدوروں کی بیداری کو کچلنے کے لیے حکمرانہ جبر وتشدد کا استعمال کرتا ہے۔ نتیجے میں مظلوم محنت کش طبقہ مدافعت میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے ۔ (۱۴)
قراۃ العین حیدر کے بیشتر ناولوں میں پیش کردہ تہذیبی فضا ، اودھ اور خاص کر لکھنؤ کی تہذیبی فضا اور وہ بھی طبقۂاشرافیہ کی تہذیب اقدار ومعیار پر محیط جسے اس وقت کے فرماراؤں ، نوابوں اور جاگیرداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ طبقہ اپنے طرزِ معاشرت، نظام ریاست اور اقداروروایات کے سلسلے میں تنگ نظری پر وسیع النظری ، تعصب پر رواداری اور تفریق پر ہم آہنگی کو فوقیت دیتا تھا۔ (۱۵) خود قرۃ العین حیدر کا تعلق بور ژوا طبقے سے تھا اور وہ اس سے شدید لگاؤ رکھتی تھیں۔ لہٰذا اس زندگی کو لاشعوری طور پر پیش کیا۔
’’میرے بھی صنم ؔ خانے ‘‘ (۱۹۴۹ء ) قرۃ العین کا پہلا ناول ہے۔ اس ناول میں اس عہد کے زوال پذیر جاگیردارانہ معاشرے اور سرمایہ دار نظام کے درمیان سانس لیتی اودھ کی زندگی کوپیش کیا گیا ہے۔ یہاں جاگیردار ہیں، سرمایہ دار ہیں اور تعلق دار ہیں جن کے انگریزوں سے مفادات وابستہ ہیں۔ ناول میں برصغیر کی اس وقت کی تاریخ تمام جذئیات کے ساتھ موجود ہے۔ ناول میں کنور عرفان علی کا کردار ایرانی اقدار کے محافظ کے طور پر لایا گیا۔ جبکہ رخشندہ نئے آنے والے نظام کی خواہش مند ہے۔ اس طرح ناول میں پورے نظام کا کھوکھلا پن بھی اظہار پذیر ہے اور طبقاتی کشمکش کی جھلک بھی۔ مگر مصنفہ کا اسلوب پرانی قدروں کو ٹوٹنے پر دکھ کی کیفیت لیے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
بقول انور پاشا:
’’ قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں پیش کردہ مشترکہ تہذیب وثقافت ایک مخصوص طبقے کی میراث لگتی ہے اور جب اس طبقے کے مفادات دم توڑنے لگتے ہیں تو انھیں وہ سارا تہذیبی ڈھانچہ متزلذل ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ اس تہذیبی انتشار کے پسِ پردہ جاگیردارانہ طبقے کے اپنے کردار اور اپنی ذمہ داریوں کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ‘‘(۱۶)
’’ آخر شب کے ہمسفر ‘‘ بنگال کے دہشت پسندوں اور ۱۹۴۲ء کے اندولن کا احاطہ کرتا ہے۔ نیز جاگیردارانہ طبقے کے زاول کی کہانی ہے۔ نچلے طبقے میں ا یک محرومی کا احساس بھی ہے۔ قرۃ العین کا یہ واحد ناول ہے جس میں انھوں نے جاگیردارانہ طبقے کے عمومی رویے کا معروضی جائزہ لیا ہے۔ ناول میں دیپالی سرکار (نچلے طبقے کی نمائندہ ) کے حوالے سے ایک آویزش کی جھلک بھی پیش کی ہے۔ مگر قرۃ العین کے ناولوں میں زیادہ طبقہ اشرافیہ کی عورت زندگی ، ان کی خوشیوں اور ان کی محرومیوں کا احاطہ ملتا ہے۔ نچلے یا متوسط طبقے کی عورت تک ان کی نظر ذرا مشکل سے جاتی ہے۔ مثلا دیپالی سرکار کا کردار۔
قاضی عبدالستار نے دیہی زندگی کی معاشرت کو اپنے ناول ’’ شب گزیدہ ‘‘ اور ’’ شکست کی آواز ‘‘ میں موضوع بنایا ہے۔ مگر وہ زندگی اور معاشرت ، اعلیٰ طبقے یعنی جاگیرداروں اور زمینداروں کی زندگی کے المیے اور ان کے مسائل تک محدود ہے۔ ان میں کسانوں اور نچلے طبقے کے عوام کی زندگی زیادہ ابھر کر نہیں آسکی ہے۔ (۱۷) (ان ناولوں ) میں عورت کی جو حیثیت اور اس کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ جاگیردارانہ معاشرت اور نظام میں گھٹن ،بے بسی اور استحصال کی زندگی گزارنے والی عورتوں کی داستان کہتی ہے۔ ایک طرف محلوں میں زمینداروں اور جاگیرداروں کی بیویاں اور بیٹیاں گھٹن اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف نچلے طبقے اور معاشرتی اعتبار سے ماتحت افراد کی بیویاں اور بیٹیاں ان کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ (۱۸)
کسانوں اور محنت کشوں کی بیداری کی جانب جیلانی بانو کے ناول ’’ ایوانِ غزل ‘‘ میں اشارے ملتے ہیں۔ اس ناول کا موضوع گرچہ اس عہد کے حیدر آباد کے جاگیردارانہ نظام کا زوال اور اس کی کشمکش ہے لیکن اس ناول میں اس زوال اور کشمکش کے بطن سے ابھرتی ہوئی نئی قوت بھی عیاں ہے۔ تلنگانہ تحریک اور تحریک میں شامل باغی کسانوں اور محنت کشوں کی قربانیوں کی جانب بھی اشارے موجود ہیں۔ ناول نگار نے جاگیردارنہ نظام کی زیادتیوں مظالم اور استحصال کی عکاسی بھی بخوبی کی ہے۔(۱۹)
یہ وہ زمانہ تھا جب گاؤں میں دیش مکھ اور جاگیرداروں نے لوٹ کھسوٹ کو اپنا حق بنا لیا تھا۔ گاؤں میں کسی کسان کی عزت بچی تھی اور نہ دولت وہ دن دھاڑے کھیتوں پر کام کرنے والی لڑکیوں کو موٹر میں ڈال کر لے جاتے۔ کھڑی فصلیں کٹوا دیتے ، اس لیے پارٹی کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔ خصوصاً مزدروں اور کسانوں کا طبقہ پوری طرح پارٹی کے ساتھ تھا۔(۲۰)
غرض کہ جیلانی بانونے جاگیردارانہ نظام کے تحت کسانوں اور مزدروں پر رواظلم اور استحصال اور اس نچلے طبقے کی مظلومیت و بے چارگی کی عکاسی بھرپور انداز میں کی ہے۔
عبداللہ حسین کے ناول ’’ اداس نسلیں ‘‘ میں تحریک آزادی، مسلم لیگ اور اس کی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ کسانوں کی زندگی ان کے استحصالی نظام اور زمینداروں کے سیاسی رویے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تحریکِ آزادی کے ساتھ دو عظیم جنگیں انگریزوں کے بہمانہ سلوک ، پنجاب کے کسانوں کو زبردستی جنگ پر بھیجنے کا تمام عمل اس ناول میں ملتا ہے۔ روشن پور گاؤں ، روشن آغا زمیندار (مسلم لیگی ) نعیم (کانگریسی) اور عذرا ، روشن کی بیٹی ، نعیم کی بیوی اور ایک جدید دور کی انٹیلیکچوئل خاتون ہے۔ جن کے گرد تمام کہانی کا تانا بانا، بنا گیا ہے۔
اس میں انگریزی سامراجیت اور ہندوستانی جاگیرداروں کی ملی بھگت سے کسانوں اور نچلے طبقے کے استحصال کی سازشوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ یہ واحد پاکستانی ناول ہے جس میں کسانوں اور نچلے طبقے کے لوگوں کی جدوجہد آزادی میں شرکت کا پتہ چلتا ہے۔ بقول قمر رئیس :
’’ اداس نسلیں ‘‘ پہلا ناول ہے۔ جس میں پہلی جنگ عظیم سے لے کر تقسیم ہند تک برطانوی سامراج کی ریشہ دوانیوں، تحریک آزادی اور اس تحریک میں کسان کے نقطہ نگاہ سے دیکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ عبداللہ حسین نے شاید اپنے طبقاتی تعلق سے تحریکِ آزادی میں متوسط طبقے کے کردار اور قربانیوں پر زور دیا ہے۔ ‘‘ (۲۱)
’’ اداس نسلیں ‘‘ میں دونوں طبقوں (جاگیردار وکسان) کی عورت کو پیش کیا ہے۔ جاگیردار طبقے کی عورت کی نمائندگی اور عذرا کے کردار سے ہوتی ہے۔ جو نئی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور متوازن عملی کردار کا ثبوت دیتی ہے۔ ساتھ ہی کسانوں ، عورتوں کی زندگی اور رہن سہن کی جھلکیاں بھی ناول میں ملتی ہے۔ اس سماج کے دبے کچلے اور متوسط طبقے کی عورتوں کی نمائندگی، شہلا کرتی ہے۔
خدیجہ مستور کے ناول ’’ آنگن ‘‘ میں نہ طبقاتی کشمکش ہے اور نہ ہی مفاہمت ۔ انھوں نے خستہ حال زمیندار گھرانے کی معاشرت کی عکاسی کی ہے۔ اس معاشرت اور ماحول کے حوالے سے اس طبقے کے مردوں کے لاپروا روئیے کے ساتھ اس طبقے کی عورتوں کے مسائل اور احساس محرومی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
۱۹۴۷ء کے بعد مغرب کی طرف سے آنے والی فکری طغیان نے ہماری روایتی تہذیب کو جس طوفان میں لاکھڑا کیا ہے اس نے ہمیں تضادات کے اندر اپنے پر مجبور کردیا تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہوتی چلی گئیں ہر شعبہ زندگی میں نقالی نے بڑے بھونڈے انداز میں فروغ پالیا یہ صورتحال اتنی بھرپور اور تیز رو تھی کہ رنگ ڈھنگ اور رہن سہن میں آنے والی تبدیلیوں نے طبقاتی حد بندیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا قدروں کی تعبیر اور انسانی تقدیر کا نیا مفہوم سامنے آرہاتھا۔ ایک بڑی تعداد میں انتقال آبادی اور پھر مختلف شہروں اور دیہاتوں میں ان کی بحالی اور نئے معاشرے میں جڑیں پکڑنے کے سلسلے میں جذباتی ،نفسیاتی الجھنیں ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں شمولیت ، روپے پیسے جائیداد کے حصول کی تگ ودو اور ان کے عواقب ، بورژ وایت ، مہاجرت کا باطنی احساس اور اس پس منظر کے ساتھ روایتی تہذیب اور ثقافتی ڈھانچے کی حدود میں تغیرات کے ردوبدل کا رویہ جس لینڈسکیپ کو تیار کر رہا تھا اس کی موجودگی میں ناول نگار نے اپنی سوچوں کا رخ معاشرتی صورتحال کے مطالعہ کی طرف پھیر دیا۔ (۲۲)
اس مخصوص رجحان کی عکاسی شوکت صدیقی کے ناول ’’ خدا کی بستی ‘‘ سے ہوتی ہے۔جس میں زندگی اپنی تمام ترسماجی بدصورتیوں کے ساتھ چلتی پھرتی اور انسانی زندگی پر اپنے اثرات ثبت کرتی نظر آتی ہے۔
شوکت صدیقی کے ہاں گردوپیش کی زندگی ہے، راجہ ، نوشہ ، سلطانہ ، سلمان ، ڈاکٹر موٹو (خیرات محمد) سب ایسے انسان ہیں جنھیں عام زندگی کے اندر دیکھتے ہیں۔ معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار نے زرپرستی اور خود غرضی کے جوراستے کھول دئیے ہیں یہ کردار کہیں تو اس دھارے میں بہتے اور کہیں اس کے خلاف ناکام جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شوکت صدیقی نے حقیقت کو صنعتی دور کی (سماجی ) طبقاتی کشمکش میں دریافت کیا ہے۔ صنعتی دور کے لائے ہوئے نظام نے انسان اور انسان کے روابط کو جس طرح متاثر کیا ہے۔ اس کی عکاسی اس میں کامیابی سے کی گئی ہے۔ معاشرت کو صنعتانے(Industrialization ) میں اقدار کی تبدیلی نے کچھ ایسے روح فرسا ناظر کو ہمارے تمدن کا حصہ بنادیا ہے کہ جن کا تصور بھی بڑا اذیت ناک ہے لیکن یہ واقعات اپنی ساری دہشت ناکی اور ناقابلِ یقین کیفیت کے باوجود اپنی پشت پر صنعتی عہد میں ’’ سماجی مرتبے کی خواہش ‘‘ ، ’’ دولت کے حصول کی اندھی طلب ‘‘ ، ’’ مستقبل کا خوف ‘‘ بھوک اور بوالہوسی ‘‘ کی کچھ حقیقی اور منطقی صداقتیں رکھتے ہیں۔ (۲۳)
انتظار حسین کے یہاں ماضی اور جاگیردارانہ تہذیب کی چھاپ نظر آتی ہے۔ یہاں نفسیاتی گھٹن ، تواہمات ، ناسٹیلجیا ، ہجرت کا کرب دکھائی دیتا ہے۔ البتہ ایک طبقے کی دوسرے طبقے میں تبدیلی اور نیا ابھرتا ہوا طبقہ جو پاکستان کا نودولتیہ طبقہ کہلایا ، بھی ان کے یہاں نظر آتا ہے۔ خاص طور پر ’’ بستی ‘‘ جس میں ہجرت کا کرب بھی ہے نفسیاتی تموج بھی ، شکست خوردگی ، ویرانی بھی اور اپنے طبقاتی احساس تفاخر سے محرومی بھی ۔
رضیہ فصیح احمدکے ناول ’’ آبلہ پا ‘‘ اور’’ انتظار موسمِ گل ‘‘ میں پاکستانی معاشرہ اور اس معاشرے کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔ ’’ آبلہ پا ‘‘ میں پاکستان کی متمول طبقے کی ظاہری چمک دمک ان کی طرز معاشرت اور اقدار واطوار کے دوہرے پن کو بخوبی آشکارا کیا گیا ہے۔ مصنفہ کا دوسرا ناول ’’ انتظار موسمِ گل ‘‘ زیادہ وقیع اور اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ تقسیم کے بعد اس نئی مملکت میں جاگیردارانہ معاشرت اور بورژوائی نظام کے اشتراک سے جس طرح کی معاشرتی اخلاقی قدروں نے اپنا غلبہ برقرار رکھا ان کے اثرات کی نشاندہی اس ناول میں بخوبی کی گئی ہے۔ پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں کی قدروں کے درمیانی خلیج ، جاگیرداراہ طبقے کی استحصالی سازشیں ، سرمایہ دارانہ قوتوں کی بہمیت ، مزدوروں پر ہونے والے مظالم سبھی کچھ اس مختصر سے ناول میں آشکارا ہے۔ کس طرح جاگیردار اور زمیندار طبقہ ، سرمایہ دارانہ نظام کی تمام نعمتوں اور برکتوں پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا ہے اور ذہنی سطح پر پسماندہ اقدار وفکر پر اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑنا نہیں چاہتا۔ یہ ناول پاکستانی معاشرے میں اس دوہرے استحصال کا بہترین موقع ہے۔ اس ناول میں پاکستانی معاشرے میں عورت کی حیثیت کی جانب بھی اشارے ملتے ہیں۔ (۲۴)
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد اگر ہم طبقاتی کشمکش کے حوالے سے جائزہ لیں تو حیات اللہ انصاری کے ناول ’’ لہو کے پھول ‘‘ کرشن چندر کے ناول ’’ جب کھیت جاگے ‘‘ عبداللہ حسین کے ’’ اداس نسلیں ‘‘ جیلانی بانو کے ’’ ایوان منزل ‘‘ اور رضیہ فصیح احمدکے ’’ انتظار موسمِ گل ‘‘ کا موضوع طبقاتی کشمکش نظر آتا ہے۔ اردو ناول کا باقاعدہ موضوع طبقاتی کشمکش نہ بن سکا کیونکہ آنے والے وقت میں جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے طبقاتی شعور کا رخ فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا اور معاشرے میں فرقہ واریت اور مذہبی عصبیت کا دور دورا ہوا۔

حوالہ جات :
۱۔ پاشا ، انور، ڈاکٹر ۔ ۱۹۹۲ء۔ ’’ ہندوپاک میں اردو ناول /تقابلی مطالعہ ‘‘ ، نئی دہلی ، پیش رو پبلی کیشنز ، ص ۹۰۔
۲۔ احمد ، صلاح الدین ، مولانا۔ سن ندارد۔ ’’ اردو میں افسانوی ادب ‘‘ ، مرتب : معز الدین احمد، ’’ صریر خامہ(جلد دوم) ‘‘ ، لاہور، المقبول پبلی کیشنز ، ص ۱۔
۳۔ _____ص ۱۷۳۔
۴۔ ادیب ، حسین، لطیف ، سید ، ڈاکٹر۔ ۱۹۶۱ء۔’ ’رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری ‘‘ ، کراچی ، کل پاکستان ، انجمن ترقی اردو ، ص ۲۲۶۔
۵۔ عثمان ، فاروق ، ڈاکٹر۔۲۰۰۲ء۔ ’’ اردو میں مسلم ثقافت ‘‘، ملتان ، بیکن بکس، ص ۲۰۷۔
۶۔ احمد ، صلاح الدین ، مولانا، ص ۵۴۔
۷۔ رسوا، ہادی ، محمد، مرزا ۔ ۱۹۸۸ء۔ ’’ امراؤ جان ادا ‘‘ ، لاہور ، مجلس ترقی ادب، ص ۶۹۔
۸۔ عظیم ، وقار، سید۔۱۹۶۰ء۔ ’’ داستان سے افسانے تک ‘‘ ، کراچی ، اردو اکیڈمی سندھ ، ص ۸۲۔
۹۔ عثمان، فاروق ، ڈاکٹر ، ص ۲۴۶ ۔
۱۰۔ فاروقی ، احسن ، محمد، ڈاکٹر ، ہاشمی ، نور الحسن ، سید ڈاکٹر۔۱۹۶۴ء (جنوری ) ۔ ’’ناول کیا ہے ؟ ‘‘ ، لکھنؤ،نسیمبکڈپو،ص۱۵۴، ۱۵۵۔
۱۱۔ پاشا ، انور ، ڈاکٹر، ص ۶۴۔
۱۲۔ دت ، پام ، رجنی ۔ ۱۹۸۲ء (دسمبر )۔ ’’ ہندوستان ، حال اور مستقبل ‘‘ ، نئی دہلی ، پیپلز پبلی شنگ ہاؤس ، ص ۱۹۵،۱۹۶۔
۱۳۔ چندر ، کرشن۔ ۲۰۰۲ء(دسمبر)۔ ’’ شکست ‘‘ ، اسلام آباد، الحمراء پرنٹنگ پریس ، ص ۵۳۔
۱۴۔ پاشا ، انور ، ڈاکٹر ، ص ۸۷۔
۱۵۔ ____ص ۱۶۔
۱۶۔ ____ص ۲۳۔
۱۷۔ ____ ص ۹۴۔
۱۸۔ ____ ص ۱۰۳۔
۱۹۔ ____ ص ۹۴۔
۲۰۔ بانو، جیلانی ۔ ۱۹۷۶ء۔ ’’ ایوانِ غزل ‘‘ ، نئی دہلی ، ناولستان ، جامعہ نگر ، ص ۱۳۴، ۱۳۵۔
۲۱۔ رئیس ، قمر ، ڈاکٹر۔۱۹۶۸ء۔ ’’ تلاش وتوازن ‘‘ دہلی ، ادارہ خرام پبلی کیشنز ، ص ۵۵۔
۲۲۔ عثمان ، فاروق ، ڈاکٹر ، ص ۳۰۹۔
۲۳۔ ____ ص ۳۱۰۔
۲۴۔ پاشا،ا نور ، ڈاکٹر، ص ۵۳،۵۴۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com