سائنس اور ادب کے باہمی روابط و اشتراکات

ڈاکٹر قاضی عابد،عمران اختر
abstract

This article is basically concerned with the domain occurred betweenthe entities of Literature and Science, which the land of commonalities in the both. The article addresses the issues and concerns which have an importance simultaneously in the both fields different apparently but very close to each other as far as the human life and its interests are concerned. The beginning of the essay exhibits the deep relation of the both Literature &Science with the light of Philosophy, as it is very rightly believed that each &every aspect and dimension of Knowledge has its roots in Philosophy. Later, it is explored by the various examples from theoretical and implied realm of the history i.e. of Scientific development, of academic progress and of socio-political perspective. The article encircles almost the whole dimensions related with the common domains of interests among Literature &Science e.g. Mythology, Anthropology etc as the ancient times of Greek and Roman civilization is also recalled, while discussing the origin of this journey of enlightenment. I hope, it would be studied thoroughly and judged on thejustified grounds .


سائنس حقیقت کے ادراک،عقلیت کی نفی،غیر جانبداری،تعصبات شکنی،آفاقیت،انفرادیت،مطلق آزادی اور انسانی فلاح و بہبود کے بیشتر پہلووں کا احاطہ کرتی ہے۔سائنس چونکہ ایک آفاقی مذہبی عینیت کی حامل ہے لہذا پوری دُنیا نے بالخصوص اور اسلامی دُنیا نے بالعموم اسکے افادی پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے پر متفقہ طور پراتفاق کر لیا ہے،حالانکہ سائنس کو کلیسا اور مندر و مسجد نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیامگر اسکے باوجود عام بنی نوع انسان نے اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلیوں اور سہولتوں کے پیش نظر اس کے استعمال میں ہمیشہ سُرعت سے کام لیا ہے۔سائنس میں تحقیق،تفکر،تجسس اور سماجی و معاشرتی ضروریات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں تاہم زندگی میں در آنے والے واقعات و حادثات اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے سائنس نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا لہذا اسی لیے ایسی سائنس کو صحت مند سائنس کے زمرے میں شامل کیا گیا مگر محض ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی خواہش لیے ہوئے سائنسی طرزفکر اختیا ر کرنا کسی بھی صورت میں سائنس کو اہم مقام پر فائز نہیں کر سکتا کیونکہ سائنس بنیادی طور پر ہماری سماجی و معاشرتی زندگیوں میں خون کی طرح گردش کر رہی ہے۔
 سائنس ایک مربوط (Systematic ) مکمل (Complete ) اور درست واقفیت کا علم ہے جبکہ طبعی علوم یعنی (Natural Science ) اشیاء کو جیسی کہ وہ ہیں اسی حالت میں بیان کرنے کانام ہے۔رابرٹ بریفالٹ کے مطابق’’ سائنس سے مراد تحقیق کی نئی روح ، تفتیش کے نئے طریقے اور پیمائش ومشاہدہ کے نئے اسلوب ہیں۔۔۔۔جن سے لوگ بے خبر ہیں‘‘ سائنس ارتقائی نقطہ نظر کا سہارا لیتے ہوئے حالات وواقعات کی سچی تصویر معاشرے کے سامنے پیش کرنے کا بنیادی فریصہ سرانجام دیتی ہے جبکہ سائنسی طرزِ فکر میں معروضی طریقہ کار کو اپنایا جاتا ہے اور یہ مشاہدہ observation سے اپنے سفرکا آغازکرتا ہے اور مشاہدہ کو مربوط انداز میں پیش کرنے کے لیے مفروضہHypothesisکو قائم کیاجاتا ہے پھر مفروضے کی جانچ کیلئے تجربات درتجربات یعنیExperiment کے ایک منظم نظام سے راستہ تلاش کیاجاتا ہے اور اگر تجربات مفروضہ کو درست انداز میں مثبت پیشِ رفت کے ضمن میں پیش کریں تو صرف ایک نظریہ یعنی Theory کو قائم کر لیا جاتا ہے اور پھر نظریہ کے بعد پیشین گوئی یعنی Prediction کا مرحلہ آتا ہے، یہاں پر انسانی حواس خمسہ اور سائنسی طرزِ فکر معروضی سے موضوعی صورت اختیار کر لیتا ہے اگر پیشنِ گوئی منفی نتائج کی صورت میں سامنے آئے تونظریے کی صداقت مشکوک ہو جاتی ہے جبکہ پیشین گوئی درست انداز میں واضح صورت اختیار کرلے تو پھر وہی پیشن گوئی Law یعنی قانون کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ سائنس کا مقصد کائنات کوطبعی قوانین کی روشنی میں دیکھنا اور طبعی و معاشرتی سائنسوں کا باہم ا شتراک ہے جہاں انسانی زندگی کے مسائل ، ان کا حل اور زندگی میں در آنے والے واقعات و حالات کا سائنسی طرزِ فکر کی روشنی میں درست اندازہ لگا نا ہے۔
کائنات اور فکرکی تسخیر کانام ادب ہے گویا ادب فکری جمود کو موضوعی صورت میں پیش کرنے کا ایک منظم طریقہ کار ہے جس کی مددسے انسانی ذہن علم و ادراک کی وسعتوں کو کسی ایک نقطہ تک محدود نہیں کر پاتا بلکہ وہ پوری کائنات کو موضوع بنا کر مرکزی نقطہ فکر کے شعوری حوالوں کو پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے نزدیک :
’’ادب کو تخلیق کا ماحصل مان کر اتناتو بحرحال ماننا پڑے گا کہ ادب اپنی کلیت و ماہیت میں علم وفکر یا فلسفہ منطق کا اسیر وحلیف نہیں بلکہ ایک حد تک ان کا نقیض و حریف ہے علم کی صورت یہ ہے کہ وہ فرد کے ذاتی میلانات یا جذبات کومَس کرتے ہوئے گزرے تو نامعتبر ٹھہرے گا اس لیے محض علم کی بنیاد پر ادب کے بارے میں کوئی حکم لگانا مناسب نہ ہوگا‘‘ [۱]
ادب تاریخی شعور او رسائنسی طرزِ فکر کے دباؤ سے آزاد ہو کر تخلیقی عمل کے بیان کرنے کا نام ہے۔ نظریات تین قسم کے ہوتے ہیں، رُومانی ،عملی اور فکری ۔ ادب ان تینوں نظریات کو بیک وقت استعمال کرتے ہوئے ادیب کے لئے فکری راہ کا تعین کرتا ہے جب ہم ادب کی آنکھ سے تمثال یعنیs Image کامشاہدہ کرتے ہیں تو اس سے متعلق ذہن کی آنکھ بیدار ہوتی ہے اور ان تمثال کی روشنی میں مکمل تصویر کو فکر کے کینوس پر اتار دیتی ہے، خیالات و تصورات ایسے جامدپن کا شکار نہیں کہ شعور کی دنیا میں اچانک سے دَر آئیں اور پھر ہمیشہ کیلئے عکس چھوڑ کر لاشعور میں کہیں کھو جائیں بلکہ یہ تو حالات و واقعات کا ایسا امتزاج ہوتے ہیں جو خیالات کو مخرج کے طور پر پیش کرنے اور ان کو ذہنی اور فکری تمثال Images کے ساتھ مربوط کرنے کا سارا عمل سرانجام دیتے ہیں۔
سائنس اور ادب کے باہمی اشتراکات زندگی میں در آنے والے واقعات کوفکری آسودگی بہم پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس طرح سائنسی فکر میں Dogmatic یعنی ضابطہ عقائد اور جامدپن خو داپنے ہی وجود سے عاری ہوتے ہیں،اسی طرح ادب میں بھی کسی ایک خاص پیمانے کو معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ سائنس نے جس طرح سماج کی ہیت ترکیبی کو بدل کر رکھ دیا ہے بالکل اسی طرح ادب ہم عصر زندگی کے مسائل کے حل اور ادراک کی دنیا سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ جہاں سائنس فکری بے راہ روی کو انسانیت کے Destructionیعنی تباہی کا ذمہ دارسمجھتی ہے وہیں منفی ادب بھی انسانوں کے لہو میں( Poisons ) زہریلی آمیزش کومہلک گردانتا ہے ۔ ادب بھی سماجی تغیرات کے ساتھ ساتھ اپنی فکری رجحانات کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرتا چلاجا رہا ہے گویا اگر سائنس کو جسم مان لیا جائے تو ادب کو روح تسلیم کرنا پڑے گا یا اس کے برعکس بھی۔
تغیر ادب اور سائنس دونوں کے لیے عصری حیثیت کا درجہ رکھتا ہے۔ معاشرتی تبدیلیاں ادبی ماحول میں تہذیبی آمیزش پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں جبکہ سائنسی طرزِ فکر ٹیکنالوجی کی سیڑھی استعمال کرکے انسانی فکر کو آسائشوں سے آشنا کر دیتی ہے اور یوں فکر سائنس اور ادب کے بیچ کہیں گم ہو کر رہ جاتی ہے مگر وجدانی فکر کو ان دونوں کے بیچ سے گزرنے کا بہترین سنگِ میل کہا جا سکتا ہے جبکہ ادب ان دونوں کے مرکز سے گزر کر شعور و آگہی اور ادارک کا دوسرا نام ہے۔ادب ہمارے سائنسی انداز فکر کو کیسے متاثر کرتا ہے یا سائنس ہمارے ادبی میلانات میں کیسے دخیل ہے؟ اس بات کو فہم وادارک اور شعوری کوششوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے ، جب ہم آکسیجن کے بغیر سانس لینے کاعمل مکمل نہیں کر سکتے تو پھر زندگی میں سائنس کے نہ ہونے کا جواز کیسے پیش کیاجاسکتا ہے؟ ہر ادب اپنے فکری جمود سے آزادی چاہتا ہے اور یہ آزادی اس کو زندگی کے مسائل کے حل اور اس کو منطقی انداز میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جبلت اور جذبات کی نفسیات ہمارے ادب کوہر لحظہ متاثر کررہی ہے۔ انسانی امور میں ادب کے مقام ومرتبہ کو جاننے کیلئے تجربے کے عمومی ڈھانچے کا ادارک ضروری ہے۔
فکر، وجدان سے شعوری بالیدگی حاصل کرتی ہے اور سماجی تغیرات اس کے ارتقاء کی منازل طے کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں ، ادراک کی بدولت فکر میں گہرائی ، وسعت اور فکری منہاج متعین ہوتی ہیں اور یوں انسانی فکر کا عمل بھی سانئسی طرز فکر کی طرح دو طریقے کار اختیار کرتا ہے ۔ استخراجی( Deductive )جو کل سے جزو یعنی (Whole to Part ) کی جانب سفر کا آغاز کرتا ہے جبکہ دوسرا استقرائی طرز فکر ہے جو جُز سے کُل کی سمت فکری کا وشوں کو متعین کرتا دیکھائی دیتا ہے ،اس In deductive طرزِ فکر میں اساس بھی سائنسی طرزِ فکر کی طرح تجربے اور مشاہدے کو ہی حاصل ہوتی ہے۔سائنس و ادب فلسفیانہ نقطہِ نظر میں زیست سے متعلق آگہی اور تہذیب نفسِ و شعور کی جانب پیش قدمی کے بہترین ذرائع ہیں۔ سائنس کے ضمن میں فلسفیانہ مباحث نے عام انسان کی زندگی کو بھی بہت حد تک متاثر کیا اور سائنسی انکشافات سے متعلق حقائق کو اپنی فکر میں شامل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
تاریخی تناظر میں سائنس اور ادب کے متوازی ارتقاء،عہدبہ عہد سائنسی ترقی اور ادبی رجحانات کے عوامل جاننے کے لیے تہذیبی تغیرات کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سپارٹا اورایتھنز کی ابتدائی معاشرتی اور ادبی ضرورتوں کا تجزیہ کرنے کے بعد سو فسطائی فلسفہ علم و ادب کی ابتداء پانچویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے ۔ سو فسطائی اساتذہ کو یونانی زبان میں’’ سوفسط‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔ یونانی زبان کا یہ لفظ’’ سونی و سوف‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی متقی ،پرہیز گار ، پاکباز اور شریف النفس کے ہیں یعنی ان اساتذہ میں اخلاقی بلندی بدرجہ اتم موجود تھی اور یہ اساتذہ یا فلسفی زیادہ تر گشت کرتے ہوئے اپنے تعلیم کو دوسروں تک پہنچاتے تھے اور اس طرح آزاد خیالی کا آغاز ہوا اور عقائد و روایت پرستی سے ہٹ کرقوانین قدرت اور حقیقت کی جانب رسائی کا سلسلہ شروع ہوا ،دراصل یہیں سے سائنس کی ابتداء ہوتی ہے اور یوں علم وادب کا باقاعدہ آغاز نظر آتاہے جو سو فسطائی طبقہ وجود میں آیا وہ دراصل ’’گشتی ‘‘کہلائے کیونکہ یہ لوگ بازاروں اورشہرں میں جا کر اپنی تعلیمات لوگوں تک پہنچاتے تھے اور مقامی مسائل پر گفتگو کرتے اور ان کا باقاعدہ حل پیش کیاجاتا تھا، جس کی بدولت لوگوں میں مشاہدہ اور غور وفکر کا عنصر پیدا ہوالیکن ایتھنز کا قدامت پسند طبقہ اس آزاد خیالی کو پسند نہیں کرتا تھااور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ سو فسطائی طبقہ معاشرہ میں گمراہ کن خیالات کو ہوا دے رہا ہے۔ الغرض سوفسطائی طبقہ فکر کے یہ مصلحین بدنام ہونے لگے ،مشہور ر یونانی مفکر سقراط کا تعلق بھی اس گروہ سے تھا۔ جس پر حکومت ایتھنز نے مذہب کے خلاف جذبات بھڑکانے کے الزام میں مقدمہ بھی چلایا اور یوں اس مقدمے کے فیصلے کے ضمن میں سقراط کو سزا ئے موت دی گئی۔ سقراط کے ہاں دو قسم کے علوم کا تذکرہ ملتاہے ،علم حقیقی اور علم غیر حقیقی۔ سقراط کا طریقہ تدریس استدلالی تھا اس نے باقاعدہ کوئی کتاب نہیں لکھی مگر ا فلاطون کی کتاب ’’جمہوریہ Republic ‘‘میں اس کا بار بار تذکرہ اس کی توقیع و اہمیت کا بیّن ثبوت فراہم کرتا ہے۔" مکالمات " سے اس کی علمی و فکری تعلیمات کی نوعیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے ،حالانکہ سقراط کی ذاتی باقاعدہ کوئی تحریر نہیں ملتی جس سے اس کے حالات زندگی کا اندازہ لگایا جا سکے مگر اس کے شاگرد افلاطون کی تحریروں ، تصانیف اور مکالوں میں سقراط کی علمی بحثوں کے تذکرے سامنے آتے ہیں جس سے اس کے حالاتِ زندگی اور طرزِ تعلیم و فلسفانہ افکار کا پتہ چلتا ہے۔
یونان کے عظیم مفکر سقراط ]*[۱نے جہاں سائنس و فلسفہ کو وجودیت عطا کی ہے وہیں ادب کے ذریعے اپنی ریاستوں میں زندگی کی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے کلیسا کے راستے پر چلنے کے لیے راہ کو بھی ہموار کیا۔ جب ہم یونان کی دوعظیم شہری ریاستوں ایتھنز اور سپارٹا کے نظام معاشرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی تصور کائنات ہی معاشرتی اقدارکو مثبت فکری رجحان عطا کرتا ہے جبکہ سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں تبلیغ اور فکر کی اشاعت کیلئے سماجی ، معاشرتی ادبی اور تہذیب یافتہ زبان کا استعمال نظر آتا ہے گویا ادب کی جڑیں ان کے فکری جمود کو سبو تاژ کرنے کیلئے وہاں بھی نئی اقدار متعین کرتی دکھائی دیتی ہیں۔اس ابتدائی یونانی تہذیب و معاشرت میں ارسطو کے خیالات بھی فلسفیانہ فکر کے حامل لوگوں کیلئے کسی کوہ گراں سے کم نہ تھے۔یونانی تصورِ کائنات علوم عقلیہ کی تحصیل پر زور دیتا ہے اور اسی معاشرے میں مذہب (Religion )میں دیوتاؤں کی کثر ت کابیان اپنا ایک اہم مقام رکھتاہے ان دیوتاؤں میں Zeus کو برتری اور تمام پر فوقیت حاصل ہے۔ یونانیوں کے نزدیک Zeus تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہوتا ہے مگر اپنے تمام دیوتاؤں سے اولیت کی بنیاد پر وہ سب پر سبقت رکھتا ہے اور تمام تر دیوتا اس کے حکم کے محتاج ہیں مگر ان میں اقتدار کی جنگ اور باہمی احکامات کے حوالے سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہونے کی وجہ سے جنگ و جدل کا بازار گرم رہتا ہے الغرض یونانی عقیدے میں ذاتی عقائد بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
’’درحقیقتReduction نظریہ تقلیل یونانی تصور کائنات اور یونانی تمدن کی اصل بنیاد تھا مثال کے طور پر بابائے فلسفہ سقراط کا یہ خیال تھا کہ انسانی روح کے تین اجزاء ہیں۔ عقلی ، جذباتی اور اکتسابی۔ صالح روح میں ان تینوں اجزاء میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور ہر جزو دوسرے جزو سے تعاون کرتا ہے ،عقل سربلند مقام پر فائز ہونے کے باعث جذبات کی نگرانی کرتی ہے۔ جذبات کی مدد سے وہ تمام افعال و اعمال وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کا عقل حکم دیتی ہے اور ان اجزاء میں اشتراک عمل کے فقدان کے باعث روح مریض ہوتی ہے‘‘۔ [۲]
سقراط کے بعد افلاطون کے تعلیمی اور ادبی نظریات ہمارے سامنے آتے ہیں اس کے فلسفہ کو سمجھنے کیلئے’’ فلسفہ تصور‘‘ کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’حقیقت کو تصور کی مدد سے معلوم کیاجا سکتا ہے جبکہ حواس خمسہ صرف مادی علوم کا ذریعہ ہیں‘‘۔ افلاطون ان لوگوں کو ہی فلا سفر گردانتا ہے جو عقل وادراک کو تصور کی آنکھ سے دیکھنے کے قائل ہیں۔ افلاطون کی کتاب ’’جمہوریت‘‘ میں مکالموں کا مرکزی کردار سقراط ہی ہے۔
ارسطو تعلیم میں روایت کی بجائے درایت کا قائل تھا اس نے سائنسی فکر کے حوالے سے مشاہدات ، تجربات اورمعقولات کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ زور استدالال پر دیا اور وہ عقل کو جذبات سے برتری پر رکھتا ہے۔ ارسطو استقرائی طریقہ پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ وہ روحانی ، اخلاقی اور ا دبی علوم کو بھی زندگی کیلئے ضروری سمجھتا تھااس سلسلے میں ارسطو کا یہ نظریہ اسکی سماجی اور معاشرتی پس منظر کو بخوبی بیان کرتا نظر آتا ہے۔
’’ارسطو کا یہ نظریہ کے علوم عقلیہ کی عِلّت اولیٰ لازمی ہے چوتھی صدی قبل مسیح کے Pyrrhon of Elin جیسے مُتشکک فلسفیوں کو قابل قبول نہ تھا۔ان فلسفیوں کے ہاں مرکزی نقطہ تشکیک ہے Pyrrhonکے شاگرد Timonنے منطقیوں کے استخراجات کے بنیادی مقدمات صحیح نہ ہونے پر سخت گرفت کی ۔ Empiricus نے نظریہ قیاس کومنطقی اور بے بنیاد بتاتے ہوئے مسترد کیا ان کا کہنا تھاکہ منطقیوں کے ہاں مقدمات ہی کی بنا پر نتائج کو فرض کر لیا جاتا ہے ۔ انہوں نے نظریہ علیّت کو بھی اس لیے رد کیا کہ بیک وقت وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں تو کوئی ربطہ تلاش کیاجا سکتا ہے لیکن اسباب معلول سے قبل واقع ہوتے ہیں۔ ان کے بقول نظریہ علیّت ذہن کی اختراع محض ہے۔‘‘ [۳]
یونان کا عہدِ اول ا دب (۲۵۰۰ق۔ م)سے شروع ہو کرہومر کے دور تک پھیلا ہوا ہے جو (Myth ) کے دلچسپ اور حیرت انگیزدیومالائی قصوں اور دیوی دیوتاؤں کی پرستش اوررسومات و عقائد پر محیط ہے جبکہ اس ضمن’’ایئیلڈاور اڈیسی ‘‘ یونانی ادبیات خاص طور پر اپنا ایک علیحدہ مقام رکھتی ہیں۔ بیسویں صدی کے مورخین کے نزدیک چھٹی صدی قبل مسیح کا یونانی ادب تاریخی حیثیت کاحامل ہے اور یہی وہ دور تھا جس میں ہومر اور ہسیڈ Hesiod کا فلسفۂ حیات خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔Hesiod ہسیڈ کہتا ہے کہ ’’کائنات قدرتی ہے اور اس کو عقلی اُصولوں سے سمجھا جا سکتا ہے‘‘ ۔ واضح باد کہ :
’’برٹرینڈرسل نے لکھا ہے کہ استخرابی طریقہ کار دو ہزار برسوں تک انسانی ذہن پر چھایا رہا ، راجر بیکن نے استقرائی طریق فکر کو آگے لانے کی کوشش کی لیکن اس کی نگارشات توجہ کا مرکز نہ بن سکیں لگ بھگ تین صدیوں کے بعد یورپ کے نشاۃ ثانیہ کے آغاز پر فرانسس بیکن نے راجر بیکن کے استقرائی طریق فکر کو آگے بڑھایا اور یوں جدید سائنس اور اس کے اندازِ فکر کی بنیادیں استوار کیں۔ جدیدیت کا تانا بانا سائنسی منہاج اور اس کے حاصلات سے ہی عبارت ہے‘‘ [۴]
جبکہ اس کے برعکس چینی طرزِ فکر اور طریقہ علم زیادہ تر نامیاتی وجود کا قائل ہے اور چینی معاشرتی ضرورت کے حوالے سے سائنس وٹیکنالوجی کو بطور تجربہ کی حد تک دیکھتے ہیں اور چینیوں کی زیادہ تر سائنس معروضی طریقہ کار پر مشتمل دکھائی دیتی ہے جبکہ یونانی طرز فکر، منطق اور نظریہ تقلیل کو بنیاد سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح فیثا غورث کائنات کو ریاضیات کی آساس تصور کرتے ہیں جبکہ ارسطو کائنات کو ریاضی کی تجریدی شکل گردانتے ہیں بحرحال کائنات کا پورا وجود ایک انتہائی پیچیدہ اور خود مکتفی نظام کی اساس ہے اور اس اساس کی بنیادی وجہ وہ سائنسی طرزِفکر ہے جو سائنسدانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
چینی تمدن حیات یونانی تمدن سے یکسر مختلف ہے چونکہ یہ تمدن سائنس کو بہت دیر سے قبول کرتا ہے اس لئے اس نے ادب کا سہارا لیا ہے اور اس تناظر میں انسانی رشتوں اوراقدار کومتعین کیا گیا ہے۔ ہر تمدن اپنے خدوخال کو واضح کرنے کیلئے ایک مخصوص تصور کا ئنات کا اعادہ کرتا ہے اس ضمن میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ:
’’چینی تصور کائنات کینفوشش Confucius کی تعلیمات سے ماخوذہے جس میں تقریباڈھائی ہزار سال تک کینفوشش کی تعلیمات کادوردورہ رہا،ان کی تعلیمات کے زیرِ اثرچینی تمدن معرض وجود میں آیا‘‘ [۵]
اہل یورپ میں علمی بیداری عرب سیاحوں کی مرہون منت ہے۔ عربو ں کی علی و ادبی زندگی کا آغاز طلوع اسلام سے ہوتا ہے جب چھٹی صدی کے آخر اور ساتویں صدی کی ابتداء میں اسلام عرب ریاستوں سے ہوتا ہوا افریقہ ، چین ، سپین اور ہندوستان تک جا پہنچااورپھر یوں نویں اور دسویں صدی میں عرب لوگ اہل یونان کے علمی و ادبی سرمایہ سے نبردآزما ہوئے اور انہوں نے تمام تر یونانی علوم کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان عربوں نے نہ صرف یونان بلکہ اہل روم و ہند اور ایران میں بھی حصول علم کیلئے کوششوں کو تیز کر دیا اور علمی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا اس علمی و ادبی تحریک کی رُو نے اہل یورپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ مشہور مورخ ایچ جی گوڈ لکھتا ہے کہ ’’مغربی ممالک میں ثقافت ، تہذیب کی توسیع اور اشاعت میں عربوں کا مؤثر حصہ ہے‘‘۔ [۶]
یورپ کی درسگاہوں میں عربوں کی ترجمہ کی ہوئی کتب سے چھ صدیوں تک استفادہ کیا جاتارہا اور اسی طرح فرانس اور اٹلی کی درسگاہیں بھی عربوں کی تصانیف سے اپنی علم کی پیاس بجھا تی رہیں۔ مسلم تہذیب و تمدن کے عروج کا زمانہ سات سو سالوں پر محیط ہے جو ۷۰۰ ؁ ق م سے ۱۵۰۰ ؁ ق م تک پھیلا ہوا ہے، اس ضمن میں ۱۱۳۰ ؁ طلبلطلہ میں مترجمین کا مدرسہ قائم کیا گیا جہاں عرب تصانیف کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا الغرض یورپ میں بارہویں اور تیرہویں صدی میں یونانی اور لاطینی علوم سے استفادہ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یورپ اس زمانے کو Renaissance سے موسوم کرتا ہے یہی وہ زمانہ تھاجب اہل یورپ نے یونانی اور رومی تصانیف کا مطالعہ شروع کیا اور ان کے فکر و عمل میں ایک انقلاب برپا ہوا اوریہ انقلاب ان کی ذہنی بیداری ، سائنسی زرخیری اور ادبی میلانات کا باعث بنا ۔ یورپ میں چونکہ تمام علمی وادبی فکر پرکلیسا قابض تھا لہذا انہیں سائنسی طرزِ فکر اور ادبی شعور نے یکسر جھنجھوڑ کر رکھ دیااور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ مذہبی آزادی کو شعور وآگہی صلّب کرتے جا رہے ہیں اور یو ں کلیسا کی فوقیت علمی وادبی فضا میں کہیں دھندلا نہ جائے، اس خطرے کے پیش نظر انہوں نے سائنسی فکر اور فلسفیانہ سوچ سے آزادی ختم کرنے کیلئے تمام تر تعلیمی نظام اور فکری احیا ء کو کلیسا کے ماتحت کر دیااور یوں چودہویں اور پندرہویں صدی یورپ میں مذہبی و اقتصادی تبدیلوں کا پیشِ خمیہ بنی۔ یورپ کی تمام تر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو پادریوں کے ماتحت کر دیا گیا اور کلیسا کے کے منشور کے خلاف بات کرنا تو درکنار سوچنے پر سخت سزا کا قانون بنا لیا گیا۔ چھاپا خانہ کی ایجاد سے کلیسا کے اقتدار کا سورج ایک مرتبہ پھر ماند پڑتا نظر آ رہا تھا اور یونان اور روما ادبی دنیا کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے اور انہی لوگوں کو خاص فوقیت دی جاتی تھی جو کلاسیکی ادب کے ماہر اور کلیسا سے جذباتی ہم آہنگی رکھتے تھے۔ مشہور مذہبی مصلح جان لوکان اور مارٹن لوتھر جیسے مذہبی اکابرین نے مذہبی اصلاح کیلئے تحریک کو جنم دیا اور یوں جرمنی ، انگلینڈاور فرانس میں بھی سائنسی طرزِ فکر رکھنے والے مفکرین نے سنجیدگی سے ادب اور ادب کی افادیت کے حوالے سے سوچنا شروع کیا اور وہ بیک وقت فلسفہ ، منطق اور طبعیات کے ساتھ ساتھ ادب کی طرف راغب ہونا شروع ہوئے ان مفکروں میں جان ایموس کو منیٹس 1592 ؁ ء کی کتاب’’ The way of Light ‘‘ چین چیکوئس روسو کا۲ ۱۷۱ء کی شہرہ آفاق تصنیف ’’EMILE ‘‘جو پانچ ،جلدوں پر مشتمل ہے خصوصی مقام رکھتی ہے اس میں خود رومیو اپنے ابتدائی زندگی کے بارے میںیوں لکھتا ہے کہ   ’’ا س نے چوری بھی کی ،جھوٹ بھی بولا اور گندی حرکات کا مرتکب بھی ہوا، وہ ذہین اور کاہل تھا اس کا کوئی اصول نہ تھاکیونکہ اس کو بچپن میں صحیح تربیت نہیں ملی تھی‘‘۔
عہد حاضر میں شواہد و نظائر اور ادب و سائنس کے انجذاب کوظاہری صورت میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں علوم کے متوازی ارتقاء کو سامنے رکھا جائے۔تخیل اور تفکر کسی بھی سائنسی و ادبی تخلیق کے لیے ذی روح کی حیثیت رکھتے ہیں ،سائنس وٹیکنالوجی اور سوشل و نیچرل سائنسز انسانی شعور یا لا شعور کی تخلیق کا وشوں کے ہی مرہون منت ہیں اور فہم وادارک کسی بھی تخیل کو عملی صورت میں لاکرسائنسی ایجادات یا ادبی کاوش کے ضمن میں ہمارے سامنے بہترین صورت میں پیش کرنے کا فریضہ سرانجام دیتاہے، بنیادی طور پر محرک اور قوت متخیلہ کو جھجھوڑنے والی تحریک ہی دراصل فہم وادارک کی نئی نئی راہوں کو انسان کے لیے آئینہ کئے رکھتی ہے اور یوں سائنسی اور ادبی تخلیقات دراصل ایک دوسر ے کی مخفی صلاحیتوں کو فکری اور شعوری سطح سے قریب تر کرنے اور نئی ایجادات اور ادبی شہ پارے وجود میں لانے کا باعث بنتی ہیں لہذا سائنسدان یاادیب صرِف خارجی نہیں بلکہ داخلی طور پر بھی جمالیاتی اظہار کے لیے اپنے آپ کو مجبور سمجھتاہے ۔ ادیب یا سائنسدان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں اور یہ وہ حساس اور بے رحم طبقہ ہے جو اپنی قوت فکر اور معروضی نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے تلخ و شیریں حقائق کی جانب ہماری توجہ مبذول کرواتا رہتا ہے جبکہ عام انسانی معاشرہ ایسی سوچ سے یکسر محروم دکھائی دیتا ہے ،سائنسدان یا ادیب اپنی فہم وفکر اور شعور و آگہی کے سبب تمام تر موضوعی حوالوں کومفروضوں ، تجربوں اور نظریوں کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ایسے معروضی حقائق پیش کرتے ہیں کہ جہاں ادب اور سائنس باہم مربوط اور منظم صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ادب انسان کو انسان کے قریب جبکہ سائنس معا شرتی اور تہذیبی رشتوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم سے کم کرنے کیلئے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لاتی ہے، اگر چہ سائنس و ادب اور سائنسدان و ادیب میں طریق کار، تخیل ،فکر اور سماجی و تہذیبی عوامل باہم مربوط ہوتے ہیں تاہم وہ فکری و شعوری طور پر سائنسی طریقہ کار اور ادبی میلانات کو اپنے ادارک کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ ادیبِ خیال کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے کیونکہ خیالات کے تواتر کو وہ ابلاغ سمجھتا ہے جبکہ سائنسدان اور سائنسی طرزِ فکر رکھنے والے شخص کے لئے’’ خیال‘‘ سب سے اہم شے نہیں ہے ،وہ خیال کو اہم سمجھتاہے مگر ان خیالات کو جو اس کے مشاہدے، مفروضے ، نظریے اور تجربات کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں گویا وہ عقل و ادارک کو کبھی بھی جذبات کی آنکھ سے نہیں دیکھتابلکہ جذبات و خیالات کو فکری سطح سے ہٹ کر معروضی سطح پر پرکھنے کی جانچ کرتا ہے مگر اصل کام روح اور جسم کا باہمی تعلق دکھانا نہیں بلکہ عملاً جسم میں روح پھوکنا ہے۔ جب ادیب یا سائنسدان کسی نظریے کو ادراک اور عمل کی کسوٹی پر اپنی فکر کے دائرے میں مربوط اور منظم انداز میں پرکھ لیتا ہے تب جا کر وہ ’’قانون‘‘ بنتا ہے اور اس کی فکری اور شعوری جہتیں کھل کر سامنے آتی ہیں تو گویا اس مقام پرہر ادیب ایک سائنسدان اور ہر سائنسدان ایک ادیب کا روپ دھار لیتاہے۔
"Poetry enlightens us in different way from science; it speaks directly to our feelings or imagination. The findings are no more and no less free then science. [ ۷ ]
اس اقتباس میں سائنس و ادب میں موجود دائمی رشتہ اور زیادہ نکھر کر سامنے آتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’نیچرل سائنسز ، سوشل سائنسز، ٹیکنکل سائنسز ، انسانی شعور، لاشعور اورتحت شعور کسی نہ کسی سائنس کے زیرِ اثر ضرور ہے۔تخیل کو کسی بھی تخلیق و مشاہدے اور پرکھ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے،بنیادی فکر اور ادارک و فہم اس قوت تخیلہ میں جان ڈالتے ہیں او ر کسی سائنسدان اور شاعر کو تجربے اور مشاہدے سے گزر کر اصول و قوانین اور ادب میں نئی تخلیقات کے فکری اور سائنسی انداز سے وجود میں آنے کا سبب بنتے ہیں‘‘۔ [۸]
ادب اور سائنس اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ حال اور مستقبل کے ساتھ بھی مربوط اور منظم رشتہ استوار رکھتی ہے اور سائنسی فکر و ادبی شعور کسی بھی معاشرے کو بے یقینی کی کیفیت سے نکالنے اور جمود سے آزاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے یہ اقتباس اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے کہ
’’ہر عہد اور سماج کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ۔ تہذیب و روایات اور پسندو ناپسند کے معیار ہوتے ہیں جو قوموں کے مزاج کی تشکیل کے اہم عنصر کی حیثیث رکھتے ہیں اور انہی کا اظہار ادب میں بھی ہوتا ہے‘‘۔ [۹]
اگر سائنس وآرٹس یا ادب عملی فنون ہیں تو پھر ادیب سائنسدان کیوں نہیں ہو سکتا؟خیالات جب فکری سطح سے بلند ہوکر سائنسی فکر کے تابع ہوتے ہیں تو سائنسی طریقہ کار ایک شخص کو سائنسدان اور جب یہی خیالات ادراک کی جہتو ں سے گزر کر عملی صورت میں اظہار پاتے ہیں تو ادب تخلیق ہوتا ہے اور یوں ایک شخص سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب کی صف میں بھی آن کھڑا ہوتا ہے۔ نظریات کا مطالعہ انسان میں ایسا شعور پیدا کرتا ہے جو اس کو زندگی سے آگہی کے ساتھ ساتھ عمل کے راستے کا تعین کرتے ہیں مدد دیتا ہے۔نظریات کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ اپنے عہد اور تمدن کے آئینہ دار ہوتے ہیں تو گویا سائنسی فکر کے حامل تصورات رکھنے والا ہر شخص ادبی شعور کا حامل ہوسکتا ہے اور وہ ادب اور سائنس دونوں میں کائنات کے قدرتی حسن اور رنگا رنگی کو اصل طریقے سے دیکھ سکتا ہے۔
’’ہم سائنسی دور میں جی رہے ہیں جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم سائنسی طرزِ فکر اختیار کریں اور اضطراری یا جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے مسائل کا معروضی تجزیہ کریں، سائنسی اصولوں کی روشنی میں اُن کا حل سوچیں اور ماہرین کی رائے پر عمل کریں ‘‘۔ [۱۰]
سائنس کی اس انتہائی ضرورت کے ساتھ ساتھ سائنسی فکر کا حامل ہر شخص ادب کو کسی بھی طرح سائنس سے جدا نہیں گردانتا بلکہ اردو ادب بلا شبہ جغرافیائی حدود و قیود سے بہت آگے کی جانب اپنے سفر کے اشارے بہم پہنچا رہا ہے اور دوسری زبانوں کے اصنافِ ادب و سائنس کو اردو میں ڈھالا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سائنسی شعور اور ادبی ذوق کو یک رنگی کیفیت سے مزین کیاجائے اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی اردو اصناف ادب اور سائنسی انکشافات کو دیگر عالمی زبانوں میں تراجم کے ضمن میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں یہ اداریہ خاصی توجہ کا مستحق ہے کہ ’’ہمارا یہ احساس اس حقیقت کے پیشِ نظر اور بھی تقویت حاصل کر رہا ہے کہ مغرب جس کی زبان ہی نہیں بلکہ تہذیب ومعاشرت بھی جنوبی ایشیاء پر اپنا مکمل تسلط جما چکے تھے اور جن کی گرفت سے ہماری حیات اجتماعی کے مظا ہر بلکہ اذہان تک آج بھی آزاد نہیں ہو سکے ہیں،خود اردو زبان و ادب کی سحرانگیز افادیت کے زیرِ اثر آتاجا رہا ہے، اس کا سہرا بالخصوص جنوبی ایشیاء سے نقل مکانی کر کے مغرب کی طرف جانے والوں کے سر ہے جن میں پاکستانی تارکین وطن زیادہ سرگرم و متحرک نظر آتے ہیں‘‘۔ [۱۱]
ادیب یا سائنسدان ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں تفکر مشاہدہ تجربہ اور تخیل ہر ممکن صورت میں ہر زی روح کو متاثر کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔فطرت کا مطالعہ چاہے وہ ادب کی آنکھ سے ہو یا سائنسدان کی سائنسی فکر کے سائے میں بہرحال یقینی صورت میں ا پنا مثبت تاثر اور حقیقی نقش پورے تہذیبی و معاشرتی فضا ء پر مسلط کرتا ہے جہاں سائنس انسانی فکر، رویے اور سوچ کو متاثر کرتی ہے وہیں ادبی فضا انسان کے سانس لینے کا سامان پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ انسانی فطرت ایسی قوت مُتخیلہ کے زیرِ اثر ہے جہاں سائنسی فکر اور فہم وادارک ادبی رشتوں میں باہم جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور شاید اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ   ’’آج ضرورت ایسے نقاد کی ہے جوBig Bang سے نیا جہانِ نقد وجود میں لائے اسے ’’حالی‘‘ قرار دیاجا سکتا ہے مگر ایسا ’’حالی‘‘ جو حال کی بجائے مستقبل میں ظہور پائے گا‘‘۔ [۱۲]
اس اقتباس پر غور کیجئے کہ’’تجربہ، جذبات اور رجحانات سے بنتاہے جذبات ہی وہ محرک ہیں جو جسمانی تبدیلیوں میں بازگشت کے ساتھ ردِعمل کے طو رپر پیدا ہوتے ہیں جبکہ رجحانات و محرکات ہیں جو ایک قسم یا دوسرے قسم کے طرزِ عمل کے جواب یا ردِ عمل کی مدد سے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ [۱۳]
ہر ادیب اور سائنسدان کی ذہنی سطح اپنے اپنے فکری ماحول میں پروان چڑھتی ہے ہم میں سے اکثر لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہیجانات اور اہتیزازی کیفیات کے سوا کیا سائنسی تصورِ کائنات کا انسانی جذبات سے کوئی سنگم ہے؟ جذبات ہر ذی شعور شخص کی زندگی میں بنیادی محرکات کار درجہ رکھتے ہیں حالانکہ انسان خود آگاہی اور تفکر پسندی کی جبلت لیے اس دنیا میں آیا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ (Inquisitive )یعنی پرُتجسس ہے ۔ احساسات، رویے اور زندگی میں در آنے والے واقعات انسانی شعورکو متاثر کرتے ہیں ہماری معاشرتی ضروریات بسااوقات ہماری فکر پر حاوی ہو جاتی ہیں تو چاہے ادیب ہو یا سائنسدان وہ اس فکری خلفشار میں ادب یا سائنس کے میدان میں اپنی فکر کے دائمی اظہار وا بلاغ میں پریشان نظر آتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کی فکر وادراک کے دھارے ایسی کشمکش میں اس کے لیے فکر کے نئے راستے کھولنے کا باعث بنتے ہیں۔ سائنٹیفک اور جذباتی بیان و عمل میں تفاوت ہوتا ہے سائنس’’ سچائی‘‘ کو تجربہ گا ہ میں جانچنا چاہتی ہے جبکہ ادب اس کو رویو ں اور افکار کی روشنی میں دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ فرضی اور خیالی دنیا میں تخیل خود آپ اپنی دنیا پیدا کرتا ہے غیر حقیقی باتیں (Fiction ) ادیب اور سائنسدان کی فکری رویوں میں تبدیلی کا پیش خمیہ ہوتی ہیں۔’’ سچائی‘‘ اور’’ سائنسی سچائی‘‘ دونوں میں خاصا فرق ہے مگر دونوں اپنے اپنے افکار و نظریات کے ضمن میں درست معنی رکھتے ہیں۔ رویے اور عوامل ادیب اور سائنسدان دونوں کو اپنے اپنے فکری اور منطقی رشتے میں باندھے ہوئے ہیں۔
’’یہ ضروری ہے کہ بیماری کی صحیح تشخیص ہو ، عام طور پر سائنس کی نام نہاد ’’مادیت ‘‘ کو الزام دیاجاتا ہے یہ غلطی ایک حد تک بھونڈی بے ہنگم فکر کی وجہ سے ہے لیکن خاص طور پر جادوئی نظریے کی یادگاروں میں سے ایک ہے کیونکہ اگر کائنات کو پورے طور پر ’’رومانی‘‘ سمجھا جائے تو یہ بات اسے انسانی رویوں کے مطابق نہیں بناتی ،یہ نہیں کہ کائنات کن چیزوں کا مرکب ہے بلکہ یہ وہ کیسے کام کرتی ہے؟ وہ کونسا قانون ہے جس کی وہ پابندی کرتی ہے؟ یہ چیزیں جو علم کو ہمارے جذبات ابھارنے سے قاصرکر دیتی ہیں اور پھر بذات خود علم کی نوعیت بھی اسے ناکافی بنادیتی ہے‘‘۔ [۱۴]
موجودہ صدی میں Dialectics ) ) جدلیات اور Numina نے انسان کو سائنسی فکر اور استقرائی طریق پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے اور مادیت کے ائتلاف نے انسان کو داخلی ارتقاء کی جانب پیش قدمی کرنے اورSelf-Innovation یعنی اپنی ذات سے بیگانگی کے بھنور سے نکالنے کی راہ کو ہموار کر دیاہے۔ ادب اور سائنس زندگی کا ایسا حسین امتزاج ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمیں اپنی زندگی کی تمام تر مشکلات کو ا پنے فکر اور فہم وادارک سے حل کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ مادیت زندگی گزارنے کیلئے ہمارے اندازِ فکر کو مادی حوالوں سے پرکھنے کانام ہے جبکہ مادیت پسندی جس کو بورژوا طبقہ فکر نے معیوب شکل دے رکھی ہے حالانکہ اس مادیت پسندی میں فلسفیانہ اور عملی پہلو دونوں ہمیں حقیقت پسندی کی جانب لے جاتے ہیں جہاں پر انسان حقیقت کی آنکھ سے تصویر کے دونوں پہلوؤں پر غور وفکر کرتا ہے گویا ادب اور سائنس ہمارے فکری کینوس پر ایک مکمل تصویر مکمل سچائی کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے ۔ جیسے جیسے جدید علوم کی جانب ارتقاء کا عمل وقوع پذیر ہو رہا ہے ویسے ویسے ادب اور سائنس اپنے اپنے فکری میلان میں وسعت پیدا کرتے جارہے ہیں۔ سائنسی طرزِ فکر ایک انسان اور معاشرے کو illusionیعنی سراب سے نکال کر متحارب اور مستحکم قوت عطا کرتی ہے اور یوں مادی جدلیات اور انسانی فکر و ادارک اور معاشرہ کے لئے نمو پذیری کے اسباب پیدا کرتی ہے ،تصور کائنات ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام تر کائنات عقل وجدان اور تخیل سے تخلیقی عمل کے کٹھن مرحلے سے گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ سائنس میں حواس فکر کے دائرے کو زندگی عطاکرتے ہیں تاہم تخلیقی عمل چاہے ایک ادیب کی فکر کا عکاس ہو یا سائنسدان کی ،مترادف سمتوں میں سفر کرتا دکھائی دیتا ہے اس ضمن میں اقتباس ادیب اور سائنسدان کو معاشرتی مسائل اور حوالوں کے ضمن میں سوچنے پرمجبور کرتا دکھائی دیتا ہے۔
"The Enlightenment a period in the eighteenth century when many writers and scientist's believed that science and knowledge, not religion, could improve peoples [۱۵]
سائنسی طرزِ فکر نے فلسفہ کی افادیت کوکم کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی بھی علم اپنے افادی پہلوؤں پر ہی کھڑا ہوتا ہے سگمنڈ فرایڈ نے علم نفسیات اور سائنسی فکر و فلسفہ کو ہم معنی قرار دیا ہے جدید فلسفہ نے فلسفہ قدیم کے افاقی پہلوؤں کو نئے اسلوب و معنی عطا کیے ۔ آئن سٹائنِ اورگلیلیو سرفہرست ہیں، گلیلیو نے سائنسی فکر و شعور کی بناء پر نظام شمسی سے متعلق قدیم فلسفیانہ فکر کے تمام بُرج الٹ کر رکھ دئیے اور بطلمیسونسی عقائد کا خاتمہ کر دیا۔ قدیم یونانی فلسفے کے افادی پہلوؤں میں ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ اس فلسفہ نے تمام قدیم مذاہب کو فکری ہم آہنگی کا راستہ دکھایا ہے، سو فسطائی طبقہ فکر کے معلمین کے بارے میں پانچویں صدی میں تحریک عقلیت یونانی فکر و فلسفۂ قدیم کو بہترین صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ الغرض ادب اور سائنس تاریخی و تہذیبی تناظرات،روابط اوراشتراکات کا ایک ایسا حسین امتزاج ہمارے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں جہاں جسم اور روح باہم مربوط و منظم دکھائی دیتے ہیں۔



حواشی و حوالہ جات
؂۱ ۔فرمان فتح پوری،ڈاکٹر’’ ادب اور ادب کی افادیت ‘‘،اختر کتاب گھر کراچی ، جولائی 1996 ؁ء، ص 9 ۔
؂۲۔ ضیاء الدین سردار،’’اسلامی سائنس کیوں ؟‘‘، سنٹر فارسٹیڈیز انِ سائنس ، سول لائن، علی گڑھ، انڈیا، اشاعت دوم اپریل 1991 ؁،ص9۔
؂۳۔ ضیاء الدین سردار’’اسلامی سائنس کیوں ؟‘‘ سنٹر فار سٹڈیز ان سائنس، سول لائن، علی گڑھ، انڈیا، اشاعت دوم اپریل 1991 ،ص15۔
؂۴۔ثاقب رزمی، سائنسی فکر او رہمعصر زندگی ’’نگارشات ، ۳ ٹیمپل روڈ لاہور اشاعت اول ۱۹۸۸ ، ۸ص۷ پیش لفظ از قاضی جاوید۔
؂۵۔ ضیاء الدین سردار ، ’’اسلامی سائنس کیوں؟‘‘،سنٹر فار سٹڈیز ان سائنس، اشاعت دوم1991 ؁ء سول لائن علی گڑھ انڈیا،ص6۔
؂۶۔رسول بخش سرانی ، پروفیسر’’ مغربی مفکرین تعلیم‘‘ص39۔
؂۷۔بحوالہ انوار احمد ، ڈاکٹر، خالد جاوید،’’پروین شاکر کی شاعری میں سائنسی شعور‘‘، جرنل آف ریسرچ اردو فیکلٹی آف لنگویجزاینڈ اسلامک سٹڈیز اشاعت 2008 ؁، والیوم 14، ص 164۔,
Oxford University Press Oxford, 1999,p.221.(Kemp, Peter; edited, "Literary Quotations "
؂۸۔بحوالہ انوار احمد ، ڈاکٹر، خالد جاوید،’’پروین شاکر کی شاعری میں سائنسی شعور‘ ‘، جرنل آف ریسرچ اردو فیکلٹی آف لنگویجزاینڈ اسلامک سٹڈیز اشاعت 2008 ؁، والیوم 14،ص 148۔
؂۹۔روبینہ ترین ، ڈاکٹر ،’’اردو کی ابتدائی نثری تصنیف معراج العاشقین، تحقیق و تنقید کے آئینے میں‘‘ ریسرچ جرنل فیکلٹی آف لینگو یجزاینڈ اسلامک سٹدڈیز بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان 2001 ؁،والیوم1، ص 102۔
؂۱۰۔شان الحق حقی ،’’ سائنسی تعلیم اور لال بھجکڑ والی منطق‘‘،اخبار اردو ، شمارہ خصوصی اپریل 1990 ؁ ،مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،ص 16۔
؂۱۱۔اداریہ ، سہ ماہی الاقرباء ، اسلام آباد ، جولائی تا ستمبر2004 ،الا قرباء فاؤنڈیشن ، اسلام آباد،ص 6
؂۱۲۔سلیم اختر ، ڈاکٹر ،’’ مشرق اور مغرب کے معیارات تنقید کا تصادم اور انجذاب‘‘ ، جرنل آف ریسرچ، فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ اسلامک سڈڈیز بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ا شاعت 2003 ؁،والیوم 4،ص71۔
؂۱۳۔آئی ۔ائے رچرڈسن،’’ سائنس اور شاعری (1926)‘‘ ، ارسطو نے ایلیٹ تک ،طبع ہفتم اشاعت 2003 ؁، نیشنل بک فاؤنڈیشن کراچی، ص436۔
؂۱۴۔آئی ۔ائے رچرڈسن،’’ سائنس اور شاعری (1926)‘‘ ، ارسطو نے ایلیٹ تک ،طبع ہفتم اشاعت 2003 ؁ ؁، نیشنل بک فاؤنڈیشن کراچی،ص 452۔
؂۱۵۔’’اردو میں خردافروزی کی فکری روایت ’’حماد رسول ،ریسرچ سکالر، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ،جنرل آف ریسرچ فیکلی آف لیگویجز اینڈ اسلامک سٹڈیز ،سن 2008 ،والیوم 13، ص 265 , )لا نگ مین (455
*۱۔ارسطو شمالی یونان کی ریاست مقدونیہ کے ساحلی علاقے میٹگر میں ۴۸۴ ق م میں پیدا ہواتھا اس کا والد ایک طبیب تھا اس نے ارسطو کی تعلیم کا خاص اہتمام کیا اور اس کو سترہ سال کی عمر میں افلاطون کی مشہور اکادی میں داخل کرایا وہ علم جراحی میں ارسطو کے جوہر کو آزمانا چاہتا تھا۔ افلاطون نے ارسطو کو اپنے خاص شاگردوں میں شامل کر لیا۔ افلاطون کی وفات کے وقت ارسطو کی عمر ۳۷ سال کے قریب تھی ارسطو کوطبیعات علم ہیت، طب ، ریاضی اور حیاتیات پر مکمل دسترس حاصل تھی وہ ادبی لحاظ سے شاعرانہ افکار کا شو قین تھا اس کی قابلیت کی شہرت جب مقدوینہ پہنچی تو بادشاہ فلپ نے ارسطو کو اپنے بیٹے کے لئے اتالیق مقرر کیا ۔ ارسطو نے ایتھنزمیں ایک ذاتی مدرسہ قائم کیا اور اس کانام جولائی سیم رکھا۔ ارسطو نے اپنی اہم تصانیف منطق وخطابت ، ادبیات ،جمالیات ما بعد الطبیعات اور اخلاقیات چھوڑیں اور ایتھنزمیں ہی اس کی وفات ہوئی۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com