خاکہ نگاری کا فن:تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ
سید کامران عباس کاظمی

abstract

Art of Sketch Writing: A Research based and Analytical Study
various styles of Prose in Urdu literature may be distinguished by very sophisticated and peculiar differences. The effect of structure and topic of one style exist in the other. There are some styles those have no particular definition till now but one may distinguish that due to peculiar style and sense of description, for instance light essays has achieved its recognition after various experiments with a long practice similarly sketch writing also recognized. The tradition of sketch writing as a recognized style of prose is not very old, it had to pass through the various experiment to make a distinction among biography and essays on personalities. What is sketch? What are its technical requirements? What type of dignitaries normally becomes the topic of sketch? In this thesis types and other aspects of sketch writing as well as work have done in sketch writing is discussed .

اصنافِ نثر کی مختلف اقسام کو شناخت کرنے یا ایک صنف کو دوسری صِنف سے ممّیز کرنے میں بعض اوقات ایک لطیف سا پردہ حائل ہوتا ہے اور ان کے مابین امتیاز زیادہ واضح اور صاف نہیں ہوتا۔ایک صنف پر کسی دوسری صنف کا عمل دخل ہئیت اور موضوع دونوں سطحوں پرموجود ہوتا ہے۔کچھ اصناف ادب ایسی بھی ہیں جن کی قطعی یا معین تعریف ابھی تک رواج نہیں پاسکی لیکن ایسا ضرور ہوا کہ بعض اصناف اپنے مزاج اور طرزِ بیان کے اعتبار سے علیحدہ شناخت کی حامل تصور کی جاسکتی ہیں۔ مثلاًاردو ادب میں انشائیہ نگاری مختلف تجربات اور مسلسل ریاضت کے بعد ہی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئی۔یہی صورتِ حال اردو میں خاکہ نگاری کی بھی ہے۔ایک باضابطہ اور مکمل صنف کی حیثیت سے خاکہ نگاری کی روایت زیادہ پرانی نہیں ہے اسے خود کو سوانح اور شخصی مضمون نگاری سے الگ شناخت کروانے میں مسلسل تجربات سے گزرنا پڑا۔ ’’خاکہ کیا ہے؟‘‘اس کی فنی ضروریات کیا ہیں؟ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس پہ مزید بحث کرنے سے قبل خاکہ کے لغوی معانی اور اس کی مختلف تعریفوں کا جائزہ لے لیا جائے۔
دراصل اردو ادب کی اصطلاح’’خاکہ‘‘انگریزی لفظSketch کا متبادل ہے۔کشاف تنقیدی اصطلاحات کے مطابق ’’ادب کی جس صنف کے لیے انگریزی میں سکیچ یا پن پورٹریٹ(Pen Portrait )کا لفظ استعمال ہوتا ہے اردو میں اسے خاکہ کہتے ہیں۔‘‘۱ سیکچ (Sketch ) کے مترادف کے طور پر انگریزی میں پورٹریٹ’Portrait ‘مستعمل ہے۔تاہم دونوں کے معانی میں کافی تفاوت ہے:
Sketch:- A drawing, slight, rough or without detail. A short descriptive essay.2
Portrait:- Likeness of a real person. A vivid description in words.3

اسے زیادہ واضح انداز میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ سکیچ’Sketch ‘مختلف خطوط کی مدد سے کسی شخصیت کے خط وخال اُبھارنے کو کہا جاتاہے جبکہ’Portrait ‘ سے مراد کسی واضح شبیہہ کی عکاسی ہے۔سیکچ کے معانی انجمن ترقی اردو کی مرتب کردہ اردو انگلش لغت میں یوں درج ہیں۔’’۱۔خاکہ (تصویر کا)،ڈھانچا ۲۔خلاصہ ، مختصر بیان، خاکہ، مسودہ ،۳۔مختصر مضمون جس میں واقعات کا بیان ہو۔‘‘ ۴اور پورٹریٹ کے معانی لکھے ہیں ’’۱۔تصویر، شبیہہ ۲۔(مجازاً)ہو بہو تصویر، کامل نمونہ لفظی تحریر وغیرہ۔‘‘ ۵ اس طرح خاکہ کی بحث سے پورٹریٹ خارج ہوجاتا ہے۔ جبکہ فرہنگ عامرہ کے مطابق خاکہ کے معنی ہیں ’’تصویر کا ڈھانچہ‘‘،’’بیرونی ہئیت بذریعہ خطوط کشی۔‘‘ ۶فرہنگ آصفیہ نے اسی لفظ کو ’’خاکا‘‘ لکھا ہے اور اس کے معانی’’گروہ نقاشاں، خاک کے ذریعہ سے نقشہ وغیرہ کا نشان ڈالنا۔ ڈھانچا، نقشہ، چربہ۔‘‘۷ دیے ہیں۔دیگر اردو لغات نے خاکہ کے یہی معانی درج کیے ہیں۔ گویا کہ مشترک معانی میں لکیروں سے نقشہ، ڈھانچا یا چربہ شامل ہیں۔خاکہ کے معانی کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خیال ہے ’’خاکہ کے لغوی معنی ابتدائی نقشہ،ڈھانچہ اور چربہ کے ہیں۔خاکہ کھینچنا کے معنی ہیں کسی کی تصویر لفظوں میں ادا کردینا۔‘‘۸ (Sketch ) سکیچ کی بطور ادبی اصطلاح انگریزی زبان و ادب میںیوں تعریف کی گئی ہے:
"Two basic categories of sketch may be distinguished: a short piece of prose (often of perhaps a thousand to two thousands words) and usually of a descriptive kind. In some cases it becomes very nearly a short story."9

خاکہ نگاری میں افسانہ نگاری کا شائبہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق بیک وقت تاریخ اور تخیل سے ہوتا ہے۔خاکہ نگاری کو شخصیت نگاری یا مرقع نگاری بھی کہا جاتا رہا ہے۔جیسا کہ بعض لوگ نقوش کے’’شخصیت نمبر‘‘ کو خاکہ نگاری نمبرقراردیتے ہیں تو یہ بات درست نہیں۔ اُس میں شامل اکثر مضامین کو شخصی مضامین کہا جاسکتا ہے اور پھر خاکہ نگاری اور شخصیت نگاری میں بھی وہی فرق ہے جو’’اسکیچ‘‘اور ’’پورٹریٹ‘‘میں ہے۔ایسی ہی غلط فہمی ابوالخیر کشفی کو بھی ہوئی۔اپنے مضمون’’ادبی اصطلاحات‘‘ میں وہ خاکہ کو پورٹریٹ کے مماثل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’سوانح عمری اگر کسی شخصیت کے مختلف فوٹوز کا(ترتیب کے ساتھ)البم ہے تو خاکہ پورٹریٹ کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘ ۱۰ خاکہ کے بیشتر ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ خاکہ پورٹریٹ کا نہیں سکیچ کا مترادف ہے۔البتہ شخصیت نگاری کے لیے پورٹریٹ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔ شخصیت نگاری اور خاکہ نگاری کی ادبی اصطلاحات کی توضیح اور اُن کی انفرادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
مصوری کی اصطلاح میں بات کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ سوانحی مضمون رنگین پورٹریٹ ہے جس میں مصور پس منظر اور پیش منظر کو اجاگر کرتے ہوئے شبیہ سے وابستہ تمام جزئیات نمایاں کرتا ہے۔جب کہ خاکہ پنسل سکیچ ہے جس میں کم سے کم لائنوں سے چہرہ کا تاثر واضح کیا جاتا ہے۔اب یہ مصور کا اپنا وجدان اور فنی شعور ہے کہ وہ تاثر کو اُبھارنے کے لیے چہر ہ کے کن خطوط کو نمایاں کرتا ہے۔ ۱۱
دراصل ادب میں جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں اُن میں اور سائنسی اصطلاحات میں فرق ہوتا ہے۔ سائنسی اصطلاحات قطعی اور حتمی ہوتی ہیں۔ادبی اصطلاحات محض اشارہ ہوتی ہیں جو کسی سمت ،رجحان یا میلان کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔اس لیے ادب میں کسی صنف کی کوئی واضح اور حتمی تعریف نہیں کی جاسکتی البتہ ایسی تعریف ہی ممکن ہوتی ہے جو کافی حد تک صحیح اور اُس صنف کی وضاحت میں معاون ہو سکے۔خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ سوانح نگاری، شخصیت نگاری،مرقع نگاری وغیرہ کی علیحدہ شناخت اب بھی زیرِبحث ہے۔البتہ مجموعی طورپر خاکہ نگاری بطور صنفِ ادب اپنی علیحدہ شناخت کی حامل صنف بن چکی ہے۔ ذیل میں خاکہ نگاری کی مختلف تعریفوں کا ذکر کیا جائے گا۔ خاکہ نگاری کی تعریف کرتے ہوئے حفیظ صدیقی کا خیال ہے:
خاکہ ایک سوانحی مضمون ہے۔جس میں کسی شخصیت کے اہم اور منفرد پہلو اس طرح اجاگر کیے جاتے ہیں کہ اس شخصیت کی ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں پیدا ہوجاتی ہے۔ خاکہ سوانح عمری سے مختلف چیز ہے۔سوانح عمری میں خاکے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن خاکے میں سوانح عمری نہیں سماتی۔۱۲
یہ بات درست ہے کہ خاکہ نگاری کا تعلق سوانحی ادب سے ہے۔ لیکن سوانح میں شخصیت کے متعلق زیادہ تفصیل سے کام لیا جاتا ہے۔جبکہ خاکے میں تو محض چند خطوط کی مدد سے شخصیت کا تصور اُبھارا جاتا ہے۔یعنی اختصار خاکہ کی ایک اہم خوبی ہے۔خاکہ نگاری کی ایک تعریف معروف خاکہ نگار محمد طفیل نے اس طرح کی ہے۔’’میرے نزدیک خاکہ نگاری خدائی حدود میں قدم رکھنے کے مترادف ہے یعنی جو کچھ آپ کو خدا نے بنایا ہو، اس کے عین مین اظہار کا نام خاکہ نگاری ہے۔‘‘۱۳ سکیچ دراصل مصوری کی اصطلاح ہے جس میں چند لکیروں کے ذریعے کسی شخصیت کے چہرے کے خدوخال اُبھارے جاتے ہیں ۔الفاظ کی ادب میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو مصوری میں لکیروں کو حاصل ہوتی ہے۔خاکہ نگاری کی مزیدتعریف ایک اور نقاد اس طرح کرتے ہیں:
ادبی اصطلاح میں خاکہ و ہ تحریر یا مضمون ہے جو کسی شخصیت کا بھر پور تاثر پیش کرے۔ اسے کسی شخص کی قلمی تصویر بھی کہہ سکتے ہیں۔ خاکہ(Sketch ) کو شخصی مرقع یا شخصیہ بھی کہتے ہیں اور خاکہ نویسی کو شخصیت نگاری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ایک اچھے خاکے میں ہم کسی شخص کے بنیادی مزاج،اُس کی افتاد طبع، اندازِ فکرو عمل اور اُس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہوتے ہیں۔۱۴
خاکہ نگار موضوع خاکہ شخصیت کے نمایاں اوصاف کو کم سے کم الفاظ میں پیش کرتا ہے۔یہ کام دقت نظر کا طالب اور ایک خاص سلیقے کا محتاج ہوتا ہے۔کیونکہ خاکہ نگار موضوع خاکہ شخصیت کے بہت سے پہلوؤں ،اُس کی زندگی کی مختلف جہتوں اور کئی طرح کے واقعات و تاثرت میں سے اپنی ضرورت کے واقعات کا انتخاب کرتا ہے اور پھر اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم الفاظ میں ایسا آئینہ مہیا کردے جس سے پوری شخصیت کا عکس نظر آئے۔گویا خاکہ نگاری دراصل کسی شخصیت کے واقعات زندگی کو اس طور سے پیش کرنا ہے کہ موضوع خاکہ شخصیت کے تمام خط و خال اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اپنے اصلی یا حقیقی رنگ میں نمایاں ہو جائیں۔خاکہ نگار اور مصور میں یہی مماثلت ہے کہ دونوں چند لکیروں اور لفظوں کی مدد سے کسی شخصیت کا جامع،مکمل اورمتحرک پیکر تراش دیتے ہیں۔ اس کی شخصیت کے ایسے عناصر جو مرکزی حوالہ ہوں یا اس سے وابستہ ایسے واقعات جن سے شخصیت کاباطن ظاہر ہو، خاکہ نگار کا بنیادی سروکار انہی سے ہوتا ہے۔ گویا خاکہ نگاری کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہوتی ہے جس کے لیے خاکہ نگارکا قوت مشاہدہ،فہم و ادراک اور غیر جانبداری کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اور پر اثراندازِ بیان کا حامل ہونا ضروری ہے ایک اچھے خاکے کی خوبیاں ایک نقاد نے اس طرح واضح کی ہیں:
اچھے خاکے کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخصیت کے کچھ پہلو اہم یا منفرد پہلو ایسی ماہرانہ نفاست کے ساتھ بیان کیے جائیں کہ قاری پر اس شخصیت کا مخصوص تاثر پیدا ہوجائے اور اُس کے افکار و کردار کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو مل جائیں۔نیز خاکہ پڑھنے کے بعد متعلقہ شخصیت کی صورت،سیرت، مزاج، ذہن، اُس کی خوبیاں اور خامیاں سب نظروں کے سامنے آجائیں۔ خاکے میں غیر ضروری تفصیل کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔۱۵
خاکہ کسی فرد یا شخص کی مکمل زندگی کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ اُس کی نمایاں خصوصیات کا اظہار لیے ہوتا ہے۔ خاکہ نگار عموماً موضوع خاکہ شخصیت کی زندگی کے اُن گوشوں کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے جونظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور بسااوقات کوئی شخصیت اُنہیں خود بھی چھپا کر رکھتی ہے۔لیکن ایک اچھے خاکے کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ شخصیت کے محاسن و معائب کو ناقدانہ رویے کے بجائے ہمدردانہ رویے کے طفیل ہر طرح سے سامنے لے آئے۔کیونکہ خاکہ میں بنائی جانے والی تصویر کی اصل شخصیت سے مطابقت ضروری ہوتی ہے۔ اگر تصویر اصل شخصیت سے ذراسی بھی مختلف ہو گی تو خاکہ ناقص قرار پائے گا۔مثلاًافسانے میں افسانہ نگار کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کردار میں کوئی بھی تبدیلی کرسکتا ہے کیونکہ اُس کا تعلق براہ راست تخیل سے ہوتا ہے مگر خاکے میں ایسی کردار نگاری ممکن نہیں ہوتی اُس کی وجہ بھی یہی ہے کہ خاکہ کی موضوع شخصیت خارج کا جیتا جاگتا حصہ ہوتی ہے۔ خاکہ صرف اُسی شخصیت کا لکھا جاسکتا ہے جس کی شخصیت سے خاکہ نگار کو کسی طرح کی بھی دلچسپی ہومثلاًاگر کوئی خاکہ نگار کسی شخص کی محض شاعری یا نثر سے دلچسپی رکھتا ہے تو وہ ایک تنقیدی یا توصیفی مضمون تو لکھ سکتا ہے جس میں اُس شخص کی شخصیت کے کچھ پہلو بھی اظہار پاسکتے ہیں مگر اُس پر خاکہ نہیں لکھا جاسکتا۔لیکن اگر خاکہ نگارکو اس شخصیت سے کوئی دلچسپی ہے توممکن ہے اس کاتخلیقی کام خاکہ نگار کے لیے قابل اعتنا نہ رہے۔البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات کسی شخص کی تخلیقی جہات سمجھنے میں اس کی شخصیت اور شخصیت سمجھنے میں اس کی تخلیقات معاون ہوتی ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خاکہ تو ایسی شخصیت کا بھی لکھا جاسکتا ہے جو سرے سے ادیب ہی نہ ہو۔خاکہ نگار کا موضوع شخصیت ہوتی ہے اور شخصیت اپنی عادات و خصائل کا اظہار اپنی گفتگو، اپنے افعال و اعمال، اپنے اوہام و عقائد،اپنی خواہشوں اور امنگوں، اپنے عزائم اور اسلوب حیات میں کرتی ہے۔ خاکہ نگار شخصیت کی تصویر بناتے ہوئے انہی مظاہر کو گرفت کرتا ہے اور اُن کے وسیلے سے شخصیت کو دکھاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ شخصیت کا ظاہری اظہار تو شجاعت و بہادری کا ہو اور حقیقت میں وہ بزدلی چھپانے کا پردہ ہو اسی طرح یہ بات تو ادب اور نفسیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ برتری کا الجھاؤ دراصل احساس کمتری کا نتیجہ ہوتا ہے۔خاکہ نگار گویا شخصیت کا اس طرح سے محاکمہ کرے کہ وہ اُس کے تمام پردوں کو ایک طرف رکھ دے اور اصل شخصیت کو سامنے لاکھڑا کرے۔لیکن ایسا کرنے میں اختصار اور ہمدرادانہ رویہ کسی بھی خاکہ نگار کی بنیادی صفات ہیں۔ پردوں کے پیچھے چھپی حقیقی شخصیت تک رسائی ہی خاکہ نگار کا منصب ہوتا ہے۔مثلاً’’باری صاحب‘‘ خاکے میں منٹو باری علیگ کے احترام کے باوجود اُن کی اصل شخصیت تک رسائی میں کسی جھجھک کا مظاہرہ نہیں کرتے اور اس حقیقت کا برملا اظہار کردیتے ہیں کہ اشتراکی ادیب باری اندر سے بہت بڑا رومانی تھا۔خاکہ نگار نہ تو شخصیت کی سوانح لکھ رہا ہوتا ہے اور نہ سیرت نگاری کررہا ہوتا ہے۔اُس کی توجہ تصویر کے چند خطوط نمایاں کرنے پر ہوتی ہے۔خاکہ نگارکی نظر انتخابی ہوتی ہے وہ شخصیت سے منسوب ہر واقعے کی تفصیل میں نہیں جاتا۔ ڈاکٹر انور سدید کا خیال ہے :
خاکہ ایک ایسی صنف ادب ہے جس کا خام مواد کسی دوسری شخصیت کے اخذو مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے لیکن عمدہ خاکہ اس خام مواد کو من و عن پیش نہیں کرتا بلکہ مختلف واقعات کو مشاہدہ بین کے تاثراور تجزیئے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہی وہ مشکل مرحلہ ہے جہاں مصنف کے تخلیقی جوہر سے مِس خام یا تو کندن بن جاتا ہے یا راکھ۔۱۶
انسان کے اندر ایک جہان معانی آبادہے۔ماہرین نفسیات اور دیگر انسانی علوم کے ماہرین نے انسان کی ذات کے جو انکشافات کیے ہیں اورسماجی اور باطنی علوم کے ماہرین نے انسان کے ذہنی،نفسی اور باطنی کوائف کے بارے میں جوبعض انکشافات کیے ہیں اس نے انسان کو مزید چوکنا کردیا ہے اور پہچانے جانے کے ڈر سے اُس نے اپنے خول کو مزید دبیز کرلیا ہے۔ایسی ہی ایک مثال کیمرہ ہے جو شخصیت کیمرے کی آنکھ سے نظر آرہی ہوتی ہے دراصل وہ ہوتی نہیں کیونکہ اب انسان کیمرہ کانشس ہوگیا ہے۔خاکہ نگار کا وصف یہی ہے کہ وہ دبیز پردوں میں چھپی شخصیت کو سامنے لے آئے ۔خاکہ نگار جس طرح کہ نقاد نہیں ہوتا بالکل اسی طرح اُسے ناصح بھی نہیں بننا چاہیے اور نہ خاکہ نگارکو محتسب ہوناچاہیے:
اسے یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موضوع پر اخلاقی حکم لگائے یا فیصلے صادر کرے۔اسے افسانہ نگار کی طرح اپنے موضوع کی طرف خاصا رواداری کا رویہ اپنانا پڑتا ہے۔تاکہ اُس کی بنائی ہوئی تصویر کسی ترمیم و اضافے کے بغیر،جیسی کہ وہ ہے اسی شکل میں سامنے آئے۔ خاکہ نگارجب تک اس کلیت کا احترام نہیں کرتا جس سے شخصیت اپنی خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ پہچانی جاسکے،اس کی بنائی ہوئی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی اس کا کام نہ تو بت گری ہے نہ بت شکنی۔افسانہ نگار کی طرح اپنے تاثرات میں وہ قدرے مبالغہ آمیز ہو سکتا ہے،مگر موضوع کی طرف ہمدردی،رواداری اور انصاف پسندی کا رویہ برقرار رہنا چاہیے۔ ۱۷
رواداری اور ہمدردی سے قطعاًیہ مراد نہیں کہ خاکہ نگار محض شخصیت کے محاسن پر نظر رکھے یا اُس کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا رہے۔اسی طرح خاکے میں پہلے سے کسی بھی شخصیت کے متعلق کوئی معیار نہیں بنایا جاسکتااور نہ کوئی بنا بنایا فارمولا یا سانچہ ہے جس میں رکھ کر کسی شخص کے پیکر میں رنگ بھرے جاسکیں۔خاکہ نگار شخصیت کے ظاہر کوراستہ بنا کر اُس کے باطن تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اگر وہ باطنی کیفیات تک رسائی حاصل نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خاکہ ناکام ہوگیا۔
ایک شخصیت کے متعلق کئی قسم کی معلومات خاکہ نگار کے پاس جمع ہو سکتی ہیں ۔کئی طرح کے واقعات اُس کی زنبیل میں موجود ہوں گے۔ خاکہ نگار کے لیے زیادہ سہولت اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایسی شخصیت کو موضوع خاکہ بنائے جس کے ساتھ اُس کے تعلقات کی عمر طولانی ہو۔اس طرح وہ اُس شخصیت کے ظاہر و باطن کے متعلق معلومات کا وافر ذخیرہ مہیا کر لیتا ہے لیکن یہ سب خام مواد ہوتا ہے۔خاکہ نگاری کا عمل ان معلومات میں سے ایک مکمل شخصیت کو تراشنا ہے ایسے ہی جیسے کوئی بت تراش پتھر کے ایک بڑے ٹکڑے سے ایک بت کا خاکہ اُبھار لیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی وافر معلومات و واقعات میں سے خاکہ نگار کو کس قسم کی معلومات اور واقعات کا انتخاب کرنا چاہئیے اس سوال کے جواب میں کوئی کلیہ وضع نہیں کیا جاسکتاتاہم بقول حفیظ صدیقی خاکہ نگار کو موضوع خاکہ شخصیت کو روشنی میں لانے کے لیے تین قسم کی باتوں کا ذکر کرنا پڑتا ہے:
۱۔ وہ باتیں جنھیں اخلاقی محاسن سمجھا جاتا ہے،جیسے حیا،خلوص،معصومیت، رواداری، ایثار، تحمل، خوش معاملگی اوربہتر علم وغیرہ۔
۲۔ وہ باتیں جنھیں اخلاقی معائب سمجھا جاتا ہے،جیسے مغلوب الغضبی،خود غرضی،الحاد، بدزبانی اور بے راہروی وغیرہ۔
۳۔ وہ باتیں جنھیں نہ اخلاقی خوبیاں سمجھا جاسکتا ہے نہ خامیاں،جیسے ایک خاص قسم کا لباس پہننا،کرسی پر اکڑوں بیٹھنا،ایک خاص انداز سے چلنا،بلند آہنگ قہقہے لگانا، بلیاں یا کبوتر پالنا، پتنگ اڑانا،ہجوم میں بدحواس ہوجانا،چٹپٹی چیزیں کھانا،حقے یا پان سے رغبت، گرمیوں میں گرم پانی سے غسل کرنا، خوشی کے موقعے پر غمگین ہو جانا،یادوں سے جی بہلانا، خیالی پلاؤ پکانا وغیرہ۔۱۸
درج بالا معلومات اور ان جیسی ڈھیروں معلومات میں سے خاکہ نگار کو انتخاب کرنا ہوتا ہے اور اُس سے یہ توقع رکھنا درست نہیں کہ وہ شخصیت کے متعلق وہ سب کچھ لکھ دے جو اس کے علم میں ہے۔ کیونکہ قبل ازیں بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ خاکہ سوانح عمری نہیں ہوتا بلکہ سوانح میں سے شخصیت کی تلاش ہے۔’’خاکہ نگار کے پاس افسانہ نگار کا کینوس ہے،ناول نگار کا نہیں۔چنانچہ خاکہ نگار کو صرف وہ باتیں منتخب کرنی ہیں جو شخصیت کو روشنی میں لاسکیں۔‘‘۱۹ واقعات کے انبوہ میں انتخاب سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے واقعے کو چنا جائے جو کسی شخصیت کے زیادہ پہلوؤں کا احاطہ کرسکے یعنی کوئی ایک واقعہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس سے شخصیت کی کچھ مماثل جہات کو دریافت کرنے میں ایسے کئی واقعات کی ضرورت نہ رہے۔خاکہ نگار کو حسن انتخاب کا مالک ہونا چاہیے۔حفیظ صدیقی نے بعض ایسے امور کی نشاندہی کی ہے جنھیں بعض اوقات فنی ضرورتوں کے تحت چھوڑنا پڑتا ہے جبکہ کچھ باتیں بعض مصلحتوں کے تحت بھی چھوڑنا پڑتی ہیں۔ ایسی باتوں کی مثال دیتے ہوئے حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:
۱۔ قانونی تقاضوں کے تحت بعض باتیں چھوڑنی ضروری ہوجاتی ہیں۔
۲۔ بعض باتیں اس لیے چھوڑنی پڑتی ہیں کہ وہ شائستگی کے منافی ہیں۔
۳۔ بعض باتیں اس خوف کے تحت چھوڑ دی جاتی ہیں کہ ان کا تذکرہ زیر بحث شخصیت اور اُس کے احباب و اعزہ کی شدید خفگی یا آزردگی کا موجب ہوگا۔۲۰
یہ درست ہے کہ خاکہ لکھتے وقت خاکہ نگار کو شخصیت سے اپنے بغض،عناد،کینہ اور حسد ،ذاتی پسند ناپسند اور تعصبات وغیرہ سے اپنی ذات کو بالا تر رکھنا پڑتا ہے۔اسی طرح اُسے محض مدح یا صرف عقیدت مندی سے بھی گریز کرنا چاہیے۔اس کی بہترین مثال فرحت اللہ بیگ کا ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ ہے جس میں انہوں نے مولوی صاحب کے عادات واخلاق بلکہ محاسن و معائب کا تذکرہ بڑی خوبی سے کیا ہے اور اُن تمام واقعات کو خاکہ کا حصہ بنایاہے جن میں مولوی صاحب کی خارجی شخصیت کے ساتھ ساتھ باطنی شخصیت بغیر کسی پردہ کے نظارہ بن جاتی ہے۔
خاکہ نگار کے لیے موضوع خاکہ شخصیت سے ذاتی قربت بہت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ شخصیت کے اُن پہلوؤں سے بھی روشناس ہو سکے جو ظاہر ی آنکھ سے نظر نہیں آتے یا اُس مخصوص شخص نے اُسے کسی پردے کے پیچھے چھپا یا ہوتا ہے۔ خاکے کا مقصد شخصیت کے فنی مقام و مرتبہ کا تعین کرنے کے بجائے اُس کے اندر پوشیدہ شخص کو اُس کے تمام افکار و اعمال کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے۔کسی شخصیت کو موضوع خاکہ بنانے کے لیے ایک خیال یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار اس شخصیت کے بارے میں دوسروں کی آراء، تحریروں،خطوط یا نگارشات حتیٰ کہ سنی سنائی باتوں سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ اول تو یہ کہنا درست نہیں کیونکہ اس طرح جو تصویر بنے گی اسے حقیقت سے براہ راست ربط نہیں ہوگا۔ البتہ بعض اوقات معلومات کے ان اسباب کی ضرورت پڑسکتی ہے۔تاہم اُن کی حیثیت ثانوی یا تائیدی مواد کی ہوگی۔ بنیادی حیثیت براہ راست معلومات کو ہی حاصل ہوتی ہے جن کے بغیر ایک اچھے خاکے کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔ سنے سنائے واقعات کے برعکس ایسے واقعات کو ترجیح حاصل ہوتی ہے جو خود خاکہ نگار کے مشاہدے یا تجربے میں آئے ہوں۔اسی لیے خاکہ نگار اور موضوع خاکہ شخصیت کی آپسی قربت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔یوں بھی انسان اپنے قریبی دوستوں پر ہی کھلتا ہے عام لوگوں سے میل ملاقات میں عموماًبے تکلفی پیدا نہیں ہوتی۔ کسی بھی شخصیت تک رسائی آسان کام نہیں ہے اور نہ چند ادھوری ملاقاتوں میں کسی شخصیت کے باطن میں اترنا ممکن ہوتا ہے اس کے لیے شخصیت کے ساتھ طویل رفاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک خاکہ نگار موضوع خاکہ شخصیت کے سماجی رشتوں سے تعلقات،اُس کی سوچ اور فکر وغیرہ سے آگاہی حاصل نہیں کرے گا وہ اُس شخصیت سے انصاف نہیں کر سکے گااور اس طرح ادھوری یا چند ملاقاتوں پر مشتمل تاثرات اور معلومات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا خاکہ محض تاثراتی یا تعارفی مضمون بن جائے گاکیونکہ اُس میں خاکہ نگار کا ذاتی نقطۂ نظر اہم ہوجائے گا۔ اچھے خاکے کی خوبی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک معروف نقادکا کہنا ہے:
اچھے خاکے کی ایک خوبی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اس میں شخصیت کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤں کی جھلک دکھائی جائے ورنہ پیش کردہ قلمی تصویر یک رخی قرار پائے گی۔ کیونکہ انسان نہ اچھائیوں کا مرقع ہے نہ برائیوں کا۔۔۔ خاکہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخصیت کو اس کی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ پیش کرے۔محض خوبیوں کے بیان سے خاکہ مدحیہ مضمون بن جائے گا او ر صرف خامیوں کے اظہار سے دشنام طرازی کی حدود میں داخل ہو جائے گا۔۲۱
خاکہ البتہ شخصیت کی نقاشی کے بجائے عکاسی کا نام ہے اور اس میں کہانی نہیں ہوتی بلکہ اول تا آخر شخصیت ہوتی ہے۔ خاکہ نگار کے لیے معروضی انداز نظر کا حامل ہونا ضروری ہے اور اسے چاہیے کہ اپنی پسند و نا پسند کو بالائے طاق رکھ کر موضوع خاکہ شخصیت کا عدل و انصاف سے پیکر تراشے۔اس ساری گفتگو میں سے خاکہ کی دیگر ضروریات سے قطع نظر،ایک ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ خاکہ کی موضوع شخصیت کیسی ہوتی ہے یا کیسی ہونی چاہیے؟
عموماًیہی دیکھا گیا ہے کہ خاکہ نگار کا قلم ایسی شخصیتوں کے پیکرتراشنے میں خوب رواں ہوتا ہے جو غیر رسمی ہو ںیا جن کی شخصیت میں کوئی خاص انوکھا پن یاکوئی انفرادیت ہو۔یہ بات کسی حد تک درست ہے مثلاً اردو میں شہرت پانے والے خاکوں کی شخصیات کوئی نہ کوئی انفرادیت رکھتی ہیں۔مولوی نذیر احمد کے خاکے میں مولوی صاحب کی شخصیت کا عمومی انداز،رہن سہن اور سود لینے کی عادت،ایسی ہی دیگر عادات یا عصمت چغتائی کے خاکے ’دوزخی‘ اور منٹوکے خاکے ’مرلی کی دھن‘میں فلم سٹار شیام یا ’’رفیق غزنوی‘‘ میں رفیق غزنوی کی شخصیت ہی توجہ طلب تھی۔جس شخصیت میں کوئی انوکھی یا عجیب بات نہ ہو یا قاری کومتوجہ کردینے کی صلاحیت مفقود ہو اُن پر خاکہ لکھنا مشکل کام ہوتا ہے۔ البتہ ایک بڑا فنکار کردار نگاری کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت کم دلچسپ کرداروں کا بھی خاکہ لکھ سکتا ہے جیسا کہ مولوی عبدالحق نے رام دیو مالی کا خاکہ لکھا اور اشرف صبوحی نے بھی دلی کی عام شخصیات پر خاکے لکھے ہیں۔ خاکہ کا موضوع کس قسم کی شخصیت کو ہونا چاہیے؟اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک نقاد کا کہنا ہے:
ہر زبان کے ادب میں،سب سے اچھے خاکے وہی سمجھے جاتے ہیں،جن کا تعلق بے ڈھنگی، مرکز سے کھسکی ہوئی،قدرے اول جلول شخصیتوں سے ہویا پھر غیر معمولی کارنامے انجام دینے والے،ہماری جذباتی اور ذہنی زندگی پر اثر انداز ہوتے لوگوں کے خاکے۔۲۲
علم نفسیات کی رو سے کسی بھی شخصیت میں کوئی ابنارمل رویہ اُس میں ایک خاص دلچسپی اور توجہ پیدا کردے گا اور جب خاکہ نگار اس شخصیت کو موضوع بنائے گا تو اس کی غیر معمولی عادات و اطوار کاتذکرہ دلچسپ ہو جائے گااور اس میں فنکار کو کوئی خاص صنم تراشنے کی ضرورت نہیں پڑتی:
وہ شخص دلچسپ سمجھا جاتا ہے جو نمایاں طور پر ابنارمل یا Eccentric ہو۔ میرا جی نمایاں طور پرEccentricتھے۔چنانچہ ان کے غیر معمولی عادات و اطوار کا تذکرہ خواہ مخوا ہ دلچسپ ہو جاتا ہے اور اس میں کچھ زیادہ فنکارانہ سلیقے سے صناعی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔۲۳
لیکن فنکارانہ کمال یقیناًاسی بات میں ہوتا ہے کہ نارمل شخصیات کو دلکشی سے اُبھارا جائے اور ان کی زندگی کے دلچسپ گوشوں کو سامنے لایا جائے۔گویاخاکہ نگار کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ شخصیت کو ایسے پہلوؤں سے ابھارے یا اجاگر کرے کہ پڑھنے والے اُس شخصیت میں دلچسپی لینے لگیں۔بعض اوقات خاکہ نگار شخصیت کی کسی ایک خصوصیت کو گرفت میں لے کر شخصیت کے باقی تمام مظاہر میں اُس کی کھوج کرتا ہے ۔ممکن ہے خاکہ نگار اس طرح درست نتائج نہ اخذ کر سکے۔ دراصل یہاں خاکہ نگار کی اپنی بصیرت کا امتحان ہوتا ہے۔ایک باریک بین،حسن شناس اور دوررس نگاہوں کا مالک فنکار شخصیت کی محض ایک خصوصیت سے اُس شخصیت کی ایسی کلید وضع کرلیتا ہے کہ باقی شخصیت خود بخود سامنے آن موجود ہوتی ہے لیکن یہ کلید شخصیت کی کسی بنیادی صفت سے تشکیل پائے گی تو خاکہ اپنے درست نتائج کے ساتھ دلچسپی کا عنصر بھی برقرار رکھ سکے گا۔ظاہر ہے اس کلید کے ہاتھ آنے میں بنیادی شرط خاکہ نگار کا موضوع خاکہ شخصیت سے تعلقات میں بے تکلف ہونابھی ہے۔ خاکہ نگار شخصیت کو دریافت کرنے میں کلید کیسے وضع کرتا ہے اور شخصیت کی بنیادی اور ثانوی صفات خاکے کے نتائج وضع کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟ اسے ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مطالعہ کے جنون کی دو پرتیں ہو سکتی ہیں۔۱۔شوق علم، ۲۔ تلخ حقائق سے گریز یا فرار۔ اس صورت میں محض جنون مطالعہ کو کلید قرار دینے سے شخصیت کا مکمل اظہار ناظرپہ نہیں ہوسکے گا۔ چونکہ مطالعہ کے جنون کی دو ظاہری پرتیں تو فوری سمجھ یا نظر آرہی ہیں دیگر کئی امور بھی ہو سکتے ہیں۔اس صورتحال میں اس جنون کی بنیادی وجہ کو مرکز توجہ بنانا ہوگا تاکہ جو دائرہ لگایا جائے وہ مکمل ہو۔یعنی یا تو شخصیت کے شوق علم کو کلید بنانا ہوگا یا پھر حقائق سے گریز کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آزردگی یا ناکامیوں کے اسباب موضوع خاکہ شخصیت میں تلاش کرنے پڑیں گے۔ زیرک فنکار کسی ایک پہلو کو کلید بنا کر پوری شخصیت دریافت کرنے کے مراحل طے کر لے گا۔ مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاکہ شخصیت کے کسی ایک پہلو تک محدود رہ جاتا ہے اور پوری شخصیت کا پیکر نہیں بن پاتا۔ اس صورتحال میں اُس تحریر کو کوئی اور نام دے لینا چاہیے اسے شاید خاکہ کہنا مناسب نہ ہوگا۔
درج بالا سطور میں موضوع خاکہ شخصیت کا جائزہ لیا گیاہے۔ایک حتمی بات خاکہ نگار کی ذاتی دلچسپی بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کس شخصیت کو موضوع بنانا چاہتا ہے۔مثلاًمنٹو جو جدید خاکہ نگاری کا نقطہ آغاز ہے،نے اپنے عہد کی معروف شخصیات کو موضوع بنایا مگر اُن میں سے اکثر اور خصوصاًفلمی شخصیات اب وقت کے غبار میں گم ہو کر رہ گئیں ہیں۔گویا خاکہ کے لیے کسی شخصیت کا مشہور ہونا ضروری نہیں ہے گم نام شخصیات بھی خاکہ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ بعض ایسے خاکے شہرت بھی حاصل کر لیتے ہیں اور کبھی کبھی یہ خاکے زیادہ جاندار ہوتے ہیں۔رشید احمد صدیقی کا ’’ایوب‘‘ اور مولوی عبدالحق کا’’گڈری کا لعل‘‘ اور ’’نور خان‘‘اس کی عمدہ مثال ہیں۔
خاکہ نگار ی کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔شخصی خاکے اور کرداری خاکے۔شخصی خاکے ایسے خاکے ہیں جن میں باقاعدہ کسی شخصیت کو موضوع بنایا جاتا ہے یعنی ایک مخصوص شخصیت جو ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ ہوتی ہے۔ خاکہ نگاری میں اکثریت ایسے ہی خاکوں کی ہے۔جبکہ کرداری خاکے چونکہ تعداد میں بہت قلیل ہیں اور بہت کم لوگوں نے اس موضوع پر توجہ دی ہے اس لیے یہ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔لیکن کرداری خاکوں سے مراد ایسے خاکے ہیں جو کسی مخصوص شخصیت کا پیکر تو نہ ہوں مگر ان میں موضوع بننے والی شخصیت ہماری سماجی زندگی کا حصہ ہو اور اُن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی اُس درجے یا صفات کی حامل شخصیت پر منطبق کیے جاسکتے ہوں۔ ان اشخاص کو کردار اس لیے کہا جارہا ہے کہ نذیر احمد،شیام،میرا جی کی طرح ان کا کوئی نام نہیں ہے اُس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ اشخاص یا افراد نہیں ہیں بلکہ یہ اپنی ذات میں ایک پورے طبقے کے نمائندہ کردار ہیں۔مثلاًفرحت اللہ بیگ کے ہاں ایسے خاکے موجود ہیں جیسے’’بہرا‘‘،’’غلام‘‘یا’صاحب بہادر‘‘وغیرہ۔
کرداری خاکوں پہ زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔اس لیے یہ خاکے فکشن میں اکثر جگہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جیسے ’’ابن الوقت‘‘،’’خوجی‘‘،’’آزاد‘‘وغیرہ کے کردار تفصیل سے ملتے ہیں اور’’چچا چھکن‘‘وغیرہ کے کردار میں اختصار ہے۔لیکن یہ تمام کردار اپنے عہد کے نمائندہ کردار تھے۔شخصی اور کرداری خاکے کے مابین موجود لطیف سے فرق کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔شخصی خاکہ پتھر کی سالم سِل کی تراش خراش سے ایک پیکر اُبھارنے کا عمل ہے جبکہ کرداری خاکے کو بکھرے اینٹ گارے سے تعمیر کرنا ہوتا ہے۔دونوں عملوں میں فن کارکی کاریگری اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔چونکہ دونوں صورتو ں میں تخلیق پانے والی تصویر فن کار کے ذہن میں موجود ہوتی ہے اور تصویر ابھارنے کے لیے فن کار شخصیت کے اخلاقی محاسن و معائب اور عادات و اطوار کو موضوع بناتا ہے اور اُن کے ذریعے سے تصویر کے خاکے میں رنگ آمیزی کرتا ہے۔
موضوع خاکہ شخصیت پر بعض اوقات خاکہ نگارکی شخصیت حاوی نظر آتی ہے۔اسے خاکہ کی کمزوری گردانا جاتا ہے۔ خاکہ میں خاکہ نگار اور شخصیت کے مابین تعلقات کا اشتہار نہیں دیا جانا چاہیے۔اسی طرح خاکہ میں خاکہ نگار کا اپنی ذات اور شخصیت کا اظہار بھی کم سے کم ہونا چاہیے۔یعنی خاکہ نگار کو اپنی ذات یا شخصیت کی نمائش کے بجائے موضوع خاکہ شخصیت کی پیکر تراشی پر توجہ رکھنی چاہیے اور اُسے صیغہ واحد متکلم استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ تاکہ خاکہ نگار اور موضوع خاکہ کے آپسی تعلقات نہ تو اشتہار معلوم ہوں اور نہ زبردستی کے تعلقات محسوس ہوں البتہ شخصیت سے قربت کے باعث وہ جن واقعات کا خود شاہد ہے انھیں بیان کرنے میں یقیناًخاکہ نگار کی اپنی شخصیت منظر پر موجود رہے گی۔اس کی وضاحت ایک خاکہ نگار نے یوں کی ہے:
چونکہ خاکہ ہمیشہ ذاتی واقفیت کے سہارے لکھا جاتا ہے۔اس لیے ضمیر واحد متکلم کا استعمال تو ناگزیر ہو جاتا ہے۔مگر لوگ ضمیر واحد متکلم کے استعمال سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاکہ موضوع خاکہ سے مصنف کے تعلقات کا اشتہار اور خود اپنی شخصیت کے اظہار کا وسیلہ بن جاتا ہے۔۲۴
اس صورتحال میں شخصیت ایک جگہ کھڑی نظر آئے گی اور خاکہ نگار اُس کے گرد گھوم پھر کر تعارف کرارہا ہوگا۔ یوں خاکہ محض بیانیہ مضمون بن کر رہ جائے گااور اگر مصنف کی شخصیت پس منظر میں رہے گی تو قاری موضوع خاکہ شخصیت سے ملاقات میں آسانی محسوس کرے گایعنی اُس کی توجہ کا مرکز مصنف کے بجائے موضوع شخصیت کو ہونا چاہیے۔ خاکہ نگار کو جب تک شخصیت میں کچھ دلچسپی کا سامان نہیں ملے گا اسے اُس پر خاکہ نہیں لکھنا چاہیے۔خاکہ میں اس بات سے سروکار نہیں ہوتا کہ موضوع شخصیت کا ادب و فن میں مقام و مرتبہ کیا ہے گوکہ اس طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے اصل کام اس شخصیت کے باطن میں اتر کر پردۂ اخفا میں چھپی شخصیت کی تلاش کرنی ہوتی ہے اور لکھنے والے کی اپنی شخصیت گوکہ پیش کردہ واقعات کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے لیکن کہیں بھی اپنے موضوع پر غالب نہیں آتی۔ خاکہ نگار جو تصویر بناتا ہے وہ مکمل ہوتی ہے یعنی اخلاقی ضابطوں سے آزاد ہو کر انسان کو اُس کی تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنے کا رجحان خاکہ نگار کے ہاں ہونا چاہیے۔البتہ سماجی اقدار کو ایک حد تک قبول کرنے اور اُن اقدار کی روشنی میں جتنی حق گوئی ممکن ہو سکے وہ خاکہ نگار کے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے اس سے زیادہ کی اُس سے توقع کرنا عبث ہے اور سماجی اقدار بہت سخت ہوں اورہر چھوٹی بڑی برائی شخصیت کی عظمت کے منافی جاتی ہو تو پھر خاکہ نگار کو اشاروں، کنایوں سے کام لینا چاہیے تاکہ اگر شخصیت کا وہ پہلو پوری طرح اُجاگر ہو کر سامنے نہیں آسکتا تو بھی بالکل ہی تشنہ نہ رہے۔ یہی صورتحال موضوع خاکہ شخصیت کے بارے میں جھوٹ یا سچ بولنے کی بھی ہے۔یعنی اگر کسی شخصیت میں کوئی کمزوری راہ پاگئی ہے تو دو صورتیں ہی جنم لیں گی یا تو جھوٹ بول کر اُس کمزوری کو چھپا لیا جائے یا پھر سچ بول کر ایک فتنہ پیدا کرلیا جائے۔اعتدال پسند رویہ یہی ہے کہ خاکہ نگار سچ کو قابل برداشت یا گوارا بنانے کے ہنر سے آگا ہ ہو۔ ایک معروف نقاد کے بقول:
خاکے میں نہ دروغ مصلحت آمیز کی گنجائش ہے نہ راستئ فتنہ انگیز کی ہے۔اگر آپ کو کسی شخصیت کی تصویر کشی میں جھوٹ بولنے کی ضرورت پڑتی ہے تو شعر گفتن چہ ضرور۔ آپ اس شخصیت پر قلم نہ اٹھائیں۔باقی رہا راستئ فتنہ انگیز کا معاملہ،تو اگر آپ کسی شخصیت کے بارے میں بہت سے سچ بول سکتے ہیں البتہ اکا دکا بات سچ ہونے کے باوجود فتنہ انگیز ہے تو راستی کے اظہار میں’’ٹن ٹن‘‘والا انداز نہ اپنائیے۔اشارہ بلکہ اشارہ بھی فتنہ انگیز ہو تو اشارہ ساکیجئے اور آگے بڑھ جائیے۔۲۵
اگر تلخ سچائی کو بھی ہمدردانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اُس کی تلخی کم ہو سکتی ہے خاکہ نگار اگر شخصیت پر حملہ آور ہو جائے گا تو وہ اس کے باطن تک رسائی نہیں حاصل کر سکے گا۔بلکہ حملے کے نتیجے میں شخصیت کے گرد خول مزید سخت ہو جائے گا۔ خاکہ نگار خلوص،محبت اور دوستی کا رویہ اپناکر شخصیت کے باطن میں بآسانی اترسکتا ہے۔ان اوصاف سے مبرا اور جھوٹ،خوشامد،مجبوری،لالچ یا خوف کے نتیجے میں لکھے گئے خاکے کبھی بھی معیاری نہ ہوں گے۔ سچائی کے اظہار کے لیے خاکہ نگار کا حقیقت پسند ہونا ضروری ہوتا ہے۔حقیقت نگاری کا استعمال ذہانت سے کیا جائے تو شخصیت کے پیکر کی دلکشی بڑھے گی لیکن حقیقت نگاری کی ایک بڑی مثال عصمت چغتائی کے اپنے بھائی پر لکھے گئے خاکے’’دوزخی‘‘کی ہے جس کے بارے میں بعض ناقدین کی رائے ہے کہ عصمت اگر یہی مضمون عظیم بیگ کی زندگی میں لکھ دیتی تو وہ ان کا گلا گھونٹ دیتے۔یعنی ایسی حقیقت نگاری جو غلو کا باعث ہو اور غصہ دلائے،مناسب نہیں ہے۔حالانکہ غصہ دلائے بغیر بھی حقیقت نگاری سے کام لیا جاسکتا ہے۔البتہ خاکہ نگار کا منصب یہ ہے کہ وہ نہ تو شخصیت کی ذات پر حملہ آور ہو اور نہ اُس کی کمزوریوں کا مذاق اڑائے۔یعنی اگر تمام انسانوں کی تصویر صرف اچھائیوں کی ہی مظہر ہو تو پھر اسے مکمل تصویر کیسے کہا جاسکتا ہے۔اسی نقطے کی وضاحت میں مرزاغالبؔ نے کثافت اور لطافت کی بات کہی تھی۔لغزشیں اور خامیاں انسان کی اسی اچھی تصویر کا دوسرا رُخ ہوتی ہیں اور خاکہ نگار دونوں رخوں کو توازن کے ساتھ پیش کرتا ہے تاکہ قاری مکمل شخصیت سے متعارف ہو۔اسی طرح ایک دقت کا اظہار قاری یا سامع کو تب ہوتا ہے جب خاکہ نگار اپنے کسی مخصوص سیاسی،نظریاتی ، نفسیاتی اور ادبی نقطۂ نظر کا پابند ہو کر شخصیت کی جانچ کرتا ہے اور موضوع خاکہ شخصیت کے مزاج اور ماحول سے قطع نظر اپنے ادبی،نظریاتی رویوں کے مطابق فیصلے صادر کرنا شروع کر دیتاہے ۔یہ بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے۔ اس سے ایک قباحت پیدا ہوتی ہے کہ خاکہ نگار قاری کو اپنی محبت یا نفرت کے سبب قوت فیصلہ سے محروم کر دیتا ہے اس طرح خاکہ کی تصویر بالکل یک رخی ہو جاتی ہے اور قاری اُس خاکہ میں وہی تصویر دیکھنے لگتا ہے جو خاکہ نگار دکھانا چاہتا ہے۔یعنی خاکہ تحریر کرنے میں یا الفاظ سے شخصیت کی تصویر بنانے میں خود خاکہ نگار نے توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ توازن کو خاکہ نگاری میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ توازن کے معانی خاکہ نگاری میں کیا ہوں گے؟ شخصیت کے ایسے قابل ذکر پہلو جن کی کمی بیشی تصویرکے کسی ایک رخ کو دھندلادے یہیں سے خاکہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔محمد طفیل کے تصورِ توازن پر کیا گیا حفیظ صدیقی کا تبصرہ زیادہ جامع ہے اور خاکہ نگاری میں توازن قائم رکھنے کے رہنما اصول بھی متعین کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے:
محمد طفیل کے ہاں توازن کے معنی یہ ہیں کہ کمزور پہلوؤں کا تذکرہ تو کیجئے مگر پگڑی نہ اچھالیے،منتقمانہ رویہ نہ اپنائیے،خاکے کو ہجو نہ بننے دیجئے،کمزوریوں کے اظہار میں نفرت و حقارت،چڑچڑے پن اور جھلاہٹ،طنز اور زہرناکی سے کام نہ لیجئے۔انصاف کے ساتھ عفو و احسان کے جذبوں سے کام لیجئے۔آپ محتسب نہیں اس لیے درہ نہ پھٹکاریے، پیار کیجئے اوراگر ممکن نہیں تو کم از کم ترس کھائیے۔کمزوریوں پر قلم اٹھاتے ہوئے اپنے جذبات پر بھی قابو رکھیے۔جذباتی توازن بڑی چیز ہے۔۲۶
حفیظ صدیقی کی یہ رائے بہت جامع ہے اور خاکہ نگاری میں توازن قائم رکھنے اور اُسے سمجھنے میں مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگاری کے بعض اہم اصولوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ خاکہ نگار کی قوت مشاہدہ،فہم و ادراک کی صلاحیت،غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ رویے کی بھی اہمیت ہوتی ہے تاکہ وہ موضوع خاکہ شخصیت کے کسی پہلو کو نظر انداز نہ کر دے اور تصویر کا کوئی بھی رخ بگاڑ کا شکار نہ ہو۔ خاکہ نگار کا اندازِ بیان فصیح و بلیغ ہوگا تو وہ موضوع کا قاری پر بہتر اثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔البتہ خاکہ میں ادیب کے پیشِ نظر مضمون آفرینی نہیں ہوتی بلکہ شخصیت کی فطرت کو آشکار کرنا ہوتا ہے۔ ایک اچھا انشا پرداز ہی شخصیت کی خوبیوں او ر خامیوں سے پردہ اٹھا کر اُس کی متوازن تصویر سے قاری کو محظوظ کر سکتا ہے۔ لیکن خاکہ کی بنیادی غایت انشا پردازی نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حفیظ صدیقی کا خیال ہے :
جس طرح رعایت لفظی کا التزام بسا اوقات معانی کا خون کردیتا ہے اس طرح انشا پردازی کے جوہر دکھانے کی خواہش بعض اوقات شخصیت کی تصویر کو مسخ کر دیتی ہے۔اس لیے خاکے میں انشا پردازی کی چکا چوند کو نہیں موضوع خاکہ کو اہمیت دینی چاہیے۔ ۲۷
اس کی مزید وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ خاکہ نگاری میں ادیب سے اسی قدر انشاپردازی کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ الفاظ کی تزئین و ترتیب سے موضوع کا ایسا پیکر ہمارے سامنے پیش کردے جسے ہم چھو تو نہ سکیں البتہ اپنے تخیل کی مدد سے محسوس ضرور کر سکیں۔
اس سے قبل وضاحت کی جاچکی ہے کہ موضوعاتی اعتبار سے خاکہ نگاری کی دو اقسام متعین کی جاسکتی ہیں نمبر۱۔ شخصی خاکے، نمبر۲۔ کرداری خاکے۔اسی طرح تکنیکی اعتبار سے بھی خاکہ کی دو اقسام ہیں نمبر۱۔طویل خاکے، نمبر۲۔مختصر خاکے۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مولوی عبدالحق کا لکھا ہوا حکیم امتیاز الدین کا خاکہ صرف ڈیڑھ صفحے کا ہے جبکہ فرحت اللہ بیگ کا خاکہ’’نذیر احمد کی کہانی کچھ اُن کی کچھ میری زبانی‘‘کئی صفحات پر مشتمل طویل خاکہ ہے۔ اول الذکر خاکہ مختصر خاکہ کی جبکہ مؤخر الذکر طویل خاکہ کی عمدہ مثال ہے اور اگر خاکہ انتخاب و ایجاز کے باوصف طویل بھی ہو جاتا ہے اور اُس میں خاکے والی دیگر خصوصیات موجود رہتی ہیں یعنی وہ سوانح نہیں بن جاتا،تو یہ عیب نہیں ہوگا البتہ نسبتاًمختصر خاکہ ہی اچھا سمجھا جاتا ہے کیونکہ خاکے کا مقصد حالات و واقعات کی تفصیل پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ موضوع کے نظریات و خیالات کی مدد سے اُس کی شخصیت کا عکس اُبھارنا ہوتا ہے۔یہی سبب ہے کہ خاکہ سوانح سے زیادہ موضوع شخصیت کی سیرت و کردار سے متعلق ہوتا ہے۔
اختصار خاکہ نگاری کا بنیادی وصف ہے۔اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ خاکے کو سوانح سے ممیز کرنے والی خوبی اختصار ہی ہے۔اچھے خاکہ نگار کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہنی چاہیے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں موضوع خاکہ کے نمایاں اوصاف و خصائص کو خاکے کا حصہ بنا سکے ۔ چونکہ خاکے کا بنیادی فریضہ کسی شخصیت کا جامع تاثر دینا ہے تو بڑی حد تک خاکے کی طوالت یا اختصار کا مسئلہ موضوع شخصیت کے عادات و خصائل کو گرفت میں لینے پر بھی انحصار کرتا ہے۔اختصار سے مراد محض لفظوں کی کفایت نہیں بلکہ غیر ضروری تفاصیل سے بھی گریز ہے۔گویا صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنا ہی خاکہ نگاری کے باب میں اختصار کہلاتا ہے۔خاکہ نگار اگر براہ راست مشاہدے سے حاصل کی ہوئی معلومات کی بنیاد پر نہایت اختصار کے ساتھ ایک شخصیت کا عکس چند صفحات میں اُتار دیتا ہے تو جو شخصیت چند صفحوں میں گرفت میں لی جاسکتی ہو اُس کے لیے زائد صفحات کا استعمال کیوں کیا جائے۔اہم بات براہ راست مشاہدہ سے حاصل معلومات کا ہونا ہے۔بصورت دیگر خاکہ نگار ثانوی معاونات پر بھروسا کرے گا اور یہاں اُسے کڑے انتخاب سے گزرنا ہوگا۔
انتخاب کا عمل بنیادی یا ثانوی دونوں قسم کے معاونات کے لیے ضروری ہوتا ہے۔شخصیت کے کن پہلوؤں کی تفصیل ضروری ہے، کہاں اختصار سے کام لینا ہے، کہاں اشارہ کرنا ہے اور کب جزئیات نگاری سے رنگ آمیزی کرنی ہے انتخاب کی اس صلاحیت سے ہی شخصیت کی عکاسی کرنے میں جامعیت کا وصف پیدا ہوگا۔شخصیت کی تصویر بنانے میں ریاضی کے اصولوں کا سا اختصار کام نہیں دیتا۔یہاں طوالت و اختصار دونوں سے کام لینا ہوتا ہے اور یہ خوبی انتخاب کی صلاحیت سے ہی میسر ہو سکتی ہے۔اسی طرح شخصیت کی تصویر میں کسی حد تک جامعیت تو ہوسکتی ہے البتہ قطعیت بالکل بھی ممکن نہیں ہوتی۔حفیظ صدیقی کا بیان،شخصیت میں قطعیت کی تلاش کے مسئلے پر زیادہ مدلل ہے:
ریاضی میں مختلف اعداد کا مجموعہ ایک قطعی تاثر دے سکتا ہے لیکن شخصیت نگاری میں خصوصیات کی میزان نہیں بن سکتی 9=4+3+2میں معنوی قطعیت موجود ہے لیکن علم+حلم+غود غرضی=شخص خاص ،معنوی قطعیت سے عاری ہے۔ چنانچہ یہاں علم کی تھوڑی سی تفصیل اور حلم اور خود غرضی کے چند مظاہر کا تذکرہ ہی شخصیت کی تصویر بنا سکتا ہے۔ گویا شخصیت نگاری کے لیے ریاضی کے جملے کا سا حد درجہ اختصار کام نہیں دیتا۔ یہاں تفصیل میں جانا پڑتا ہے۔۲۸
خاکہ نگار کی نظر میں شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کی کلیت سے پہچانی جانے والی تصویر اہم ہوتی ہے اور وہ اُسی کا عکس لفظوں میں اُتارنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ خاکہ نگار کا کام نہ تو بت تراشنا ہے اور نہ بت شکنی ہے۔
کیا خاکہ تخلیقی صنفِ سخن ہے؟خاکہ نگاری کو ایک حوالے سے تخلیقی صنف کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں بھی خاکہ نگار کو اپنی موضوع شخصیت کے باطن میں اُترناہوتاہے اور اُس کے کردار کی ساری پرتیں اُتار کر اصل شخصیت کو سامنے لانا مقصود ہوتا ہے۔خاکہ نگاری کو اس طرح سے تخلیقی ادب کا حصہ تو نہیں کہا جاسکتا جیسے افسانہ ہے البتہ خاکہ نگار شخصیت کا ادراک کرنے کے بعد اُس کا اظہار کرتا ہے اور یہ اظہار جب تک تخلیقی چاشنی سے مزین نہیں ہوگا شخصیت کا عکس دھندلا رہ جائے گا۔ خاکہ نگاری کو تخلیقی ادب میں شمار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تخلیقی ادب میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں شخصیت کاہی اظہارہوتا ہے۔ خاکہ نگار کے پاس شخصیت کی تلاش میں افسانہ نگارکا سا نہ صرف یہ کہ کینوس ہوتا ہے بلکہ منظر کشی،جزئیات نگاری اور واقعات و کردار سازی میں بھی وہ افسانوی تکنیک سے استفادہ کرتا ہے۔ یحییٰ امجد خاکہ کو تخلیقی صنف ادب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
خاکہ ایک تخلیقی صنف ادب ہے۔جس میں زندہ شخصیت گوشت پوست کا بدن لیے،علمیت کی بھاری بھر کم عباؤں کو دم بھر کے لیے اتار کر،روز مرہ کے لباس میں نظر آتی ہیں اور ہم انھیں ویسا دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ سچ مچ تھے نہ کہ جیسا ظاہر کرتے تھے۔۲۹
اپنی اس بات کو وہ ایک مثال سے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ملکہ وکٹوریا دربار میں تو ایسی حکمراں ہے،جس کی قلمرو میں کبھی سورج نہیں ڈوبتا،مگر ان فلک بوس مرتبوں کی دھونس ہٹانے کے بعد لٹن سٹریچی کے مضمون میں وہ ایک عام عورت رہ جاتی ہے اور اس روز مرہ زندگی کے فریم میں شخصیت کے مطالعے کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت اندازِ بیان تخلیقی ادب پارے کا سا ہو تو پھر وہ خاکہ کہلاتا ہے۔۳۰
خاکہ نگاری کے بارے میں اہل علم مختلف آراء رکھتے ہیں۔کچھ اسے ا س قدر آسان سمجھتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ شخصیت کے متعلق ضروری کوائف اکٹھے کیے جانے اور ترتیب سے لکھ دینے سے خاکہ وجود میں آجائیگا جبکہ بعض نقاد ڈاکٹرانور سدیدکے ہم خیال نظر آتے ہیں اور وہ اسے اتنا مشکل سمجھتے ہیں کہ:
خامہ خونچکاں اور انگلیاں فگار ہوجانے کے باوجود شخصیت کی ڈوری مصنف کے ہاتھ میں نہیں آتی۔کہیں عقیدت مدح کا روپ دھار لیتی ہے کہیں نفرت کا قدح۔کچھ لوگ خاکہ نگاری کرتے کرتے سیرت نگاری کا فریضہ سرانجام دے ڈالتے ہیں جبکہ دوسرے شخصیت کی تلاش میں تاریخی گوشواروں کے جنگل میں کھو جاتے ہیں۔۳۱
خاکہ نگار شخصیت کے بطون میں جھانکنے کے لیے اس کی جزئیات کو بھی مدِ نظر رکھتا ہے اور اُس عہد سے بھی واقفیت رکھتا ہے جس میں موضوع خاکہ شخصیت رہ رہی ہوتی ہے۔اُس کا ماحول ،گردوپیش ، اس کی تعلیم و تربیت اور دیگر اسباب و عوامل جو شخصیت کی بناوٹ میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں،کا شعور بھی خاکہ نگار کے لیے از بس ضروری ہوتا ہے۔ماحول اور تربیت کے مطالعہ سے تو خاکہ نگار کی نظر موضوع کی عادات و اطوار،حرکات و سکنات یعنی مظاہر شخصیت کا ہی اندازہ کر سکیں گی ان سب کے عقب میں کام کرتی روح کو یعنی موضوع کی سوچ و فکر کو بھی گرفت میں لانا خاکہ نگارکے لیے اہم ہوتا ہے۔یعنی اگر محض موضوع شخصیت کی حرکات و سکنات،عادات واطواروغیرہ پر ہی انحصار کیا جائے گا اور اس کے نظریات وفکریات تک خاکہ نگار کی رسائی نہیں ہوگی تو خاکے میں صرف شخصیت کا خول نظر آئے گا اس کی روح سے قاری کا رابطہ نہیں ہوسکے گا۔
خاکہ نگاری کی فنی ضرورتوں کے علاوہ کیا خاکہ کے اجزاء ابھی الگ الگ شمار کیے جاسکتے ہیں جن کی بنیاد پر ایک خاکہ استوار ہوتا ہے؟ ایسا کوئی حتمی اصول توموجود نہیں ہے مگر خاکہ کو عموماََ دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ نمبر۱۔ حلیہ نگاری یا سراپا نگاری اورنمبر۲۔ کردار نگاری ۔ حلیہ نگاری سے مراد جہاں موضوع کا سراپا بیان کرنا ہے وہیں اُس کا تعارف کرانا بھی مقصود ہوتا ہے۔حلیہ نگاری کو خاکے کا جزو سمجھا جاتا ہے البتہ یہ خاکے کا لازمی جزو نہیں ہے تاہم بیشتر خاکہ نگار حلیہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے تھے البتہ جدید خاکہ نگاروں نے اسے ضروری نہیں بھی سمجھااور ساری توجہ کردار نگاری پر مبذول رکھی ہے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اکثر اوقات ظاہری شکل و شباہت کردار کو سمجھنے میں زیادہ معاون نہیں ہوتی۔ موضوع خاکہ شخصیت کا ظاہری تعارف حلیہ نگاری یا سراپا نگاری کے ذیل میں آئے گا ۔ ڈاکٹر اسرائیل صدیقی نے حلیہ نگاری اور کردار نگاری کو ایک زمرے میں رکھا ہے۔ وہ خاکے میں کردار نگاری پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کردار نگاری کے ضمن میں مذکورہ شخصیت کے خدوخال ،حرکات و سکنات، لباس، نفسیاتی اور ذہنی کیفیات و تغیرات سب کچھ پیش کیا جاتا ہے۔۔۔ خاکہ نگار کو شخصیت کے رنگ و روپ، وضع قطع اورعادات و اطوار کی جھلک بھی دکھانا ضروری ہے۔۳۲
خاکے میں حلیہ نگاری اور کردار نگاری دونوں عناصر الگ الگ اور کبھی باہم مل کر ایک شخصیت کو جنم دے رہے ہوتے ہیں۔حلیہ یا سراپا نگاری موضوع شخصیت کے خارجی یا معروضی تعارف پر مشتمل ہوگی۔جبکہ کردار نگاری اس شخصیت کے افعال و کردار، فکر و نظریات یعنی اُس کے باطنی مطالعے سے سروکار رکھتی ہے۔اس طرح خارجی و باطنی مظاہر مل کر ایک شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔
خاکہ لکھنے کے لیے کسی خاص اسلوب کو حتمی قرار دینا درست نہیں ہے۔ اسلوب کا انحصار لکھنے والے کے مزاج اور سہولت کے پیشِ نظر متعین ہوتا ہے۔اردو خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش کے حوالے سے’’آبِ حیات‘‘کا مطالعہ کیا جائے تو آزادؔ کے اسلوب کی شگفتگی اور بعد ازاں اردو کے پہلے باقاعدہ مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کے خاکوں میں مزاح کے عنصر سے یہ سمجھا جانے لگا کہ خاکہ نگاری کے لیے شگفتہ اور پُر مزاح اسلوب ضروری ہے۔ ڈاکٹر اسرائیل صدیقی کا بیان ملاحظہ ہو۔’’خاکے کے فنی لوازم میں مزاح کی چاشنی اور نکتہ آفرینی بھی ضروری ہے۔ لیکن طنز کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جہاں خاکے میں طنز یا تیکھا پن آیا وہیں سے ہجو کی سرحد شروع ہو سکتی ہے۔‘‘۳۳ طنز و مزاح بہت ممکن ہے کہ ہجو کی صورت اختیار کر لے جس سے شخصیت کی تنقیص کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ ڈاکٹر احمد فاروقی تو خاکہ نگاری میں مزاح کے شدت سے حامی ہیں۔’’خاکے میں لطیف مزاح اور نکتہ آفرینی ضروری ہے۔‘‘۳۴ جبکہ ڈاکٹر عبدالغنی تو طنز و تمسخر کو بھی خاکہ نگاری میں برا نہیں سمجھتے۔’’ایک حس مزاح وسیع ترین معنوں میں تحریر کے اندر خوشبو کی طرح بسی ہوئی ہو۔کچھ ظرافت کے انداز بھی پائے جاتے ہوں اور اگر طنز و تمسخر کا شائبہ بھی موجود ہو تو مضائقہ نہیں۔‘‘۳۵
گزشتہ سطور میں وضاحت کی گئی ہے کہ خاکہ دراصل شخصیت کی دوبارہ دریافت ہوتا ہے اور اگر خاکہ نگار اس دریافت کے عمل میں سے سنجیدگی کے ساتھ گزر سکے تو مزاح کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خاکہ لکھتے وقت شعوری طور پر مزاح نگاری کی کوشش شخصیت کی تنقیص کا باعث بھی ہو سکتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ موضوع سے بھی دور نکل جائے۔کیا خاکہ نگاری میں مزاح بطور لازمی عنصر کے شامل ہے یا خاکہ نگار کے اسلوب اور موضوع شخصیت کے کردار و عمل پر اس بات کا انحصار ہے؟ڈاکٹر انور سدید اس اہم مسئلے پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایک عرصے تک مزاح کو خاکہ نگاری کا ایک ضروری عنصر تصور کیا جاتا رہا۔ہر چند شخصیت کے بعض تیکھے نقوش ابھارنے کے لیے مزاح سے عمدہ کام لیا جاتا ہے۔لیکن مزاح اس فن کے لیے مقصود بالذات نہیں ہے۔۳۶
خاکہ کے فنی لوازم میں شگفتگی اور نکتہ آفرینی تو ضروری ہوتی ہے مگر مزاح لکھنے والے کے اسلوب اور بعض اوقات شخصیت کی بے ترتیبی سے پیداہوتا ہے۔مزاح آمیز یا ہلکی پھلکی تحریر کا تو پھر بھی خاکہ متحمل ہو سکتا ہے لیکن طنز کی گنجائش تو خاکہ میں بالکل نہیں ہوتی چونکہ خاکہ نگار شخصیت کے متعلق تنقید یا تنقیص کا رویہ نہیں اپنا سکتا وہ شخصیت کے ساتھ اپنی قربت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس کی دریافت کے عمل سے گزررہا ہوتا ہے اس لیے خاکہ میں جہاں غیر حقیقی مزاح،طنز اور تیکھا پن آئے گاوہیں سے ہجو کی حدیں شروع ہو جائیں گی ۔ مزاح کے لیے اکثر اوقات مبالغے سے کام لینا پڑتا ہے جبکہ خاکہ نگارکو کسی شخصیت کی دریافت میں مبالغہ سے کام نہیں لینا چاہیے چاہے وہ مبالغہ اُس کی تعریف میں ہو یا تنقید میں۔ڈاکٹر بشیر سیفی خاکے میں مزاح کی موجودگی پر اصرار کو خاکہ نگار پر بوجھ تصور کرتے ہیں:
یہ کہنا کہ خاکہ میں مزاح کا ہونا لازمی ہے نہ صرف فنِ خاکہ نگاری کی مبادیات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے بلکہ مصنف پر ایک غیر ضروری قدغن لگانے کے مترادف بھی ہے۔ خاکہ مزاحیہ مضمون نہیں جس میں مزاح کا ہونا ضروری ہو۔۳۷
البتہ خاکہ کو دلچسپ ہونا چاہیے لیکن یہ دلچسپی پیدا کرنے کے لیے شخصیت کی پیش کش میں ضروری نہیں کہ خاکہ نگارمزاح کی رنگ آمیزی کرے بلکہ اسے شخصیت کے ایسے گوشے دریافت کرنے ہوتے ہیں جو دلچسپ ہوں۔ اس کے علاوہ خاکے کی دلچسپی اور اثر انگیزی کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ خاکہ نگار اُنھیں کس طرح پیش کررہا ہے اور کون ساڈھنگ اختیار کررہاہے۔ اگر لکھنے والا شگفتہ اور دلچسپ اسلوب کا مالک ہے اور موضوع خاکہ شخصیت کی طبعیت اور مزاج میں بھی ظرافت کا عنصر موجود ہے تو خاکہ میں کسی حد تک مزاح کی موجودگی ممکن ہے لیکن طنز کی گنجائش تو پھر بھی نہیں ہے۔ طنز و تمسخر سے شخصیت کا حقیقی روپ متاثر ہو سکتا ہے۔ خاکہ کا مقصد شخصیت کا مذاق اڑانا نہیں ہوتا لہٰذا خاکہ کے لیے مزاح کو ضروری قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
بعض اوقات خاکہ نگار اپنے تعلقات اور قربت کی وجہ سے موضوع شخصیت کے بارے میں کوئی شوخ جملہ اچھال دیتا ہے ایسا جملہ اگر تنقیص کے دائرے میں نہ آئے تو اس سے خاکہ میں دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے۔لیکن اس سارے عمل میں بنیادی کردار خاکہ نگار کے زاویۂ نگاہ کا ہے۔زاویۂ نگاہ سے یہ مراد قطعاً نہیں کہ خاکہ نگار شخصیت کو کسی مخصوص زاویہ سے دیکھے اور اُس کے مطابق نہ ہونے پر لٹھ لے کے پیچھے پڑ جائے۔مثلاًناقدین خاکہ کا خیال ہے کہ خاکہ نگار کا کسی مخصوص اندازِ نظر کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ وہ موضوع شخصیت کا کسی خاص زاویۂ نظر سے مطالعہ کر سکے، یہ بات اپنی کلیت میں درست نہیں ہے۔ اگر خاکہ نگار شخصیت کے افکار و نظریات کا حامی ہوگا تو وہ اُس کے ہر عمل کو درست قرار دینے میں تمام صلاحیتیں صرف کر دے گا۔ بصورت دیگر موضوع شخصیت اپنے افعال و کردار کے سبب اور کچھ خاکہ نگار کی بدولت منہ چھپائے پھرے گی۔اسی طرح اگر خاکہ نگار موضوع شخصیت سے متاثر ہوگا تو سرسید کے باب میں حالیؔ کی’’مدلل مداحی‘‘والی صورتحال پیدا ہو جائے گی ۔خاکہ نگار دیگر اصناف ادب کے برعکس بالکل غیر جانبدار ہوتا ہے۔خاکہ تنقیدی مضمون نہیں کہ تنقید نگار اپنے افکار و نظریات کا پرچار کرتا پھرے۔ خاکہ نگار اپنی محبت،نفرت یا دیگر جذبات سے مبرا ہو کر موضوع شخصیت کا جائزہ لیتا ہے۔اسی طرح خاکہ نگار کے اپنے سماجی، اخلاقی،مذہبی اور سیاسی تصورات کو بھی خاکہ نگاری یا شخصیت کی کھوج میں حائل نہیں ہونا چاہیے ورنہ شخصیت کی درست دریافت یا حقیقی تصویر کشی ممکن نہیں ہو سکتی ۔خاکہ نگاری کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ خاکہ نگار اور موضوع خاکہ شخصیت خاکہ میں بھی ایک دوسرے کے قریب نظر آئیں بلکہ شخصی سطح پر اُن کے مابین تعلق ظاہر ہونا چاہیے۔ یعنی ایک ایسا جذباتی رشتہ جو مصنف اور موضوع کے مابین تکلف کے حائل پردے ہٹاکر بے تکلفی کی فضا پیدا کر دے۔
بے تکلفی کی اس فضا کے اظہار میں خاکہ نگار کی زبان و بیان کو بھی اہمیت حاصل ہے۔خاکہ چونکہ بیانیہ صنف ہے اس لیے بھی اس میں زبان کو واضح اہمیت حاصل ہے۔ خاکہ کے فنی اسلوب میں دیگر خصوصیات کی طرح کوئی مخصوص زبان اور اصطلاحات موجود نہیں ہیں البتہ خاکہ نگاری میں ایسی زبان و بیان درکار ہوتی ہے جس سے موضوع شخصیت کی تمام عادات و اطوار کا بخوبی اظہار ہو۔یعنی خاکہ نگار شخصیت کو چلتا پھرتا،ہنستا بولتا،خوش ہوتا یا غصہ کرتادکھا سکے۔ خاکے کی زبان کا شخصیت کے مطابق ہونا بھی اہم ہے ۔ خاکہ نگاری کے لیے شگفتہ اندازِ بیان، دلچسپ تراکیب، رنگین اصطلاحات ،شستہ محاورات اور برجستگی، جذبات و تاثرات کے لیے موزوں الفاظ اور روزانہ بول چال کی زبان، بنیادی عناصر کا درجہ رکھتے ہیں۔خاکہ نگاری کے فن کو سنجیدگی سے اختیار کرنے والوں کے لیے یہ بڑی ذمہ داری اور جان جوکھم کا کام ہے۔ یعنی مشکل اس لیے ہے کہ انسانی کمزوریوں کو بیان کرنے میں اگر خاکہ نگار نے ذرا شوخی دکھائی تو ممکن ہے کہ وہ حقائق سے روگردانی کا مرتکب ہو جائے۔خاکہ نگاری کے اسلوب کا خاص وصف یہ ہے کہ خاکہ نگار حقائق کو توڑ موڑ کر پیش نہیں کرتابلکہ اُنھیں من و عن پیش کردیتا ہے۔کوئی بھی شخصیت چاہے وہ غیر معروف ہی کیوں نہ ہو اگر اسے صداقت سے بیان کیا جائے گا تو وہ غیر دلچسپ ہو جائے گی اور دلچسپی خاکہ نگاری میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔اس کے بغیر تصویر روکھی پھیکی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔
خاکہ نگاردراصل شخصیت کی دوبارہ دریافت کے عمل سے گزرتا ہے۔اس طرح یہ صنف تخلیقی صنف کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔جبکہ خاکہ نگار شخصیت کی دریافت کے ساتھ ساتھ اُس مخصوص عہد کی تہذیب و ثقافت کی بازیافت بھی کر رہا ہوتا ہے۔اس طرح بہترین خاکہ گویا ادب اور معاشرہ کی خدمت بھی انجام دے رہا ہوتا ہے۔ چونکہ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کی مثبت قدروں کو بھی آنے والے دور میں منتقل کر رہا ہوتا ہے۔خاکہ نگار ہمیشہ اپنی تہذیبی زندگی کا مشاہدہ گہرا اور باریک بینی سے کرتا ہے۔خاکہ نگار اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو کر انسان کو اُس کے معائب و محاسن سمیت قبول کرتا ہے اور اُن تصویروں کی تخلیق ایسے سلیقے سے کرتا ہے کہ اُس عہد کا ثقافتی چہر ہ بھی سامنے آجاتا ہے۔
خاکہ نگاری اپنے اسلوب،فنی تکنیک اور عناصر ترکیبی کے اعتبار سے جلد ہی سوانح اور آپ بیتی سے الگ شناخت کی جانے لگی۔اردو ادب میں خاکہ نگاری عہد جدید کی پیداوار ہے اور یہ بھی دیگر اصناف ادب کی طرح انگریزی ادب کے ذریعے ہی سے اردو ادب میں رائج ہوئی اور بہت جلد افسانے اور ناول کی طرح اردو ادب کا تخلیقی حصہ بن گئی۔اردوخاکہ نگاری کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں لیکن ہئیت اور مواد دونوں سطح پر دیگر اصناف کے اثرات قبول کرنے کے باوجود باقاعدہ خاکہ نگاری کا اردو ادب میں آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔

حواشی
(۱) حفیظ صدیقی،ابوالاعجاز،مرتب:کشاف تنقیدی اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،۱۹۸۵ء ص ۷۲
(2) Chambers Twentieth Century Dictionary, Edited by A.M Macdonald.W &R Chambers Ltd.1982.P1266
(3) Abid. P1045
(4) The Standard English-Urdu Dictionary. Edited by Dr. Abdul Haq, Anjuman-e-Taraqqi-e-Urdu,Karachi.4th Edition1985 Ad.P1146
(5) Abid. P891
(۶) محمد عبداللہ خان خویشگی،فرہنگ عامرہ،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد۱۹۸۹ء،ص ۲۲۷
(۷) سید احمد دہلوی ,مولوی، فرہنگ آصفیہ،اردو سائنس بورڈلاہور،جلد اوّل دوم،طبع چہارم۲۰۰۳ ، ص۱۷۶
(۸) رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر،اصناف ادب،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۱ء،ص ۱۷۶
(9 J.A.Cuddon-Dictionary of Literary Term &Literary Theories. Penguin Books.1977-P-884
(۱۰) ابو الخیر کشفی،ادبی اصطلاحات،مشمولہ،فنون جون،جولائی۱۹۷۷ء،مدیر،احمد ندیم قاسمی،ص۲۴
(۱۱) سلیم اختر،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ،سنگ میل پبلی کیشنزلاہور،طبع پنجم ، ص ۲۲۹
(۱۲) حفیظ صدیقی،ابوالاعجاز،مرتب:کشاف تنقیدی اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،طبع دوم ۱۹۸۵ء ،ص ۷۲
(۱۳) محمد طفیل،محبی،ادارہ فروغ اردو لاہور،س ن ،ص ۷
(۱۴) رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر،اصناف ادب،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۱ء،ص ۱۷۶
(۱۵) اسرائیل صدیقی،ڈاکٹر،یادگار مرزا فرحت اللہ بیگ،الوقار پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۴ء،ص۲۰۰
(۱۶) انور سدید،ڈاکٹر،اردو میں خاکہ نگاری، مشمولہ: محمد نقوش ، مرتب: سید معین الرحمن،ڈاکٹر،کاروانِ ادب ملتان، ۱۹۸۳ء،ص ۳۲۹
(۱۷) شمیم حنفی،ڈاکٹر،مرتب ، آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ،اردو اکادمی دہلی،طبع چہارم۲۰۰۴ء،ص ۱۱
(۱۸) حفیظ صدیقی،ابوالاعجاز، محمد طفیل کے خاکے اور فن خاکہ نگاری ، مشمولہ: محمد نقوش ، مرتب: سید معین الرحمن،ڈاکٹر، کاروانِ ادب ملتان،۱۹۸۳ء،ص ۳۰۱
(۱۹) ایضاً،ص ۲۸۰
(۲۰) ایضاً،ص ۲۸۱
(۲۱) بشیر سیفی،ڈاکٹر،خاکہ نگاری (فن و تنقید)شاخسار پبلشرز ،راولپنڈی،۱۹۹۰ء،ص ۱۴
(۲۲) شمیم حنفی،ڈاکٹر ،مرتب: آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ،اردو اکادمی دہلی،طبع چہارم۲۰۰۴ء،ص ۱۰
(۲۳) حفیظ صدیقی،ابوالاعجاز، محمد طفیل کے خاکے اور فن خاکہ نگاری ، مشمولہ: محمد نقوش ، مرتب:سید معین الرحمن،ڈاکٹر، کاروانِ ادب ملتان،۱۹۸۳ء،ص۲۸۱
(۲۴) ایضاً،ص ۲۷۵
(۲۵) ایضاً،ص ۲۸۲
(۲۶) ایضاً،ص ۲۷۹
(۲۷) ایضاً،ص ۲۶۹
(۲۸) ایضاًََ،ص ۲۸۸
(۲۹) یحییٰ امجد،فن اور فیصلے،مکتبہ عالیہ لاہور،طبع اول ،۱۹۶۹ء،ص۲۶
(۳۰) ایضاً،ص ۲۶
(۳۱) انور سدید،ڈاکٹر،اردو میں خاکہ نگاری، مشمولہ: محمد نقوش ، مرتب:سید معین الرحمن،ڈاکٹر،کاروانِ ادب ملتان، ۱۹۸۳ء،ص ۳۲۹
(۳۲) اسرائیل صدیقی،ڈاکٹر،یادگار مرزا فرحت اللہ بیگ،الوقار پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۴ء،ص ۲۰۲
(۳۳) ایضاً،ص۲۰۱
(۳۴) احمد فاروقی،ڈاکٹر،نقوش مئی۱۹۵۹ء، ادارہ فروغ اردو لاہور، ص ۵۷
(۳۵) عبدالغنی ،ڈاکٹر،خاکہ نگاری،رسالہ کتاب نما،کتاب نما دہلی،جنوری۱۹۸۵ء،ص ۱۰۰
(۳۶) انور سدید،ڈاکٹر،اردو میں خاکہ نگاری، مشمولہ: محمد نقوش ، مرتب:سید معین الرحمن،ڈاکٹر،کاروانِ ادب ملتان، ۱۹۸۳ء،ص ۳۳۴
(۳۷) بشیر سیفی،ڈاکٹر،خاکہ نگاری (فن و تنقید)شاخسار پبلشرز ،راولپنڈی،۱۹۹۰ء،ص ۱۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com