شیخ عبدالقادر: مقدمات اوردیباچے

ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ

Abstract

As Editor of Mukhzan, Sheikh Abdul Qadir played a vital role in identifying important and potential writers and to deliver their creations to common readers. This was the honor of Mukhzan to introduce Allama Iqbal and Maulana Abul Kalam Azad along many others. If one has to view the critical vision of Sheikh Abdul Qadir, he should study the forewords (Deebachas) written by him. Sheikh Abdul Qadir always remained ready for the prosperity of Urdu language and literature. He wrotes forewords to writings of new as well as admitted writers. The forewords written by Sir Abdul Qadir narrate the specific features of the books and provide guidance not only to readers but also to critics. The name of Sheikh Abdul Qadir keeps a vital place in deebachanigari. The forewords written by Sheikh are not merely an introduction to book or its author, but also reflect the command of his knowledge on the subject and research capabilities .

مقد مہ ، دیباچہ ، پیش لفظ، تقریظ، تمہید، تقریب،جواز ، افتتاحیہ، اظہاریہ ، بیانِ حقیقت ، حرفِ آغاز، عنوان ، خطبہ ء کتاب ، اظہارِ عقیدت ، نوائے راز ، سرنامہ ، پیش گفتار ، نقشِ اول، حرفِ اول ، حرفِ اولیں ، عرضِ حال، سخن ہائے گفتنی ، تعارف ، ابتدائیہ ، اہم باتیں ، غرض ، دیباچہ کسی نام سے لکھا جائے ، عموماً کتاب کا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے ۔ دیباچہ صرف کتاب کا تعارف ہی نہیں بلکہ دیباچہ نگار کے فکر و خیال اور جذبہ واحساس کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب کا بھی عکاس ہوتا ہے ۔دیباچہ؍ پیش لفظ یا مقدمہ کبھی مصنف اپنے نقطہ ہائے نگاہ کی وضاحت کے لیے خود تحریر کرتا ہے اور کبھی اس کے لیے اپنے دور کی کسی نامور ہستی کو تکلیف دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے تخلیق کیا ہے اس کا تعارف اور تعریف اس کے لیے با عثِ اعزازہوگی ۔
ْ سر شیخ عبد القادر کا نام اردو دیباچہ نگاری میں بے حد اہمیت کا حامل ہے ۔یہ دیباچے محض کتاب یا صاحب کتاب کا سرسری تعارف نہیں بلکہ شیخ صا حب کے وسیع المطالعہ ہونے اور ان کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت کے آئینہ دار ہیں ۔
 ’’ شیخ عبد القادر کے مضامین ، مقالات اور مقدمات کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ جب بھی انھوں نے کوئی مضمون تحریر کیا یا کسی ممتاز ادیب کی تصنیف کا دیباچہ لکھا ،اس کی ایسی خصوصیات گنوائی ہیں اور ایسی مثالیں منتخب کی ہیں جو مدتوں تک اس مصنف کی تخلیقات کے ضمن میں عام نقادوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی یہ خوبی ایک بلند تنقیدی صلاحیت کا پتہ دیتی ہے ۔ ۱ ؂
بانگِ درا کا دیباچہ شیخ عبدا لقادر کی شاہکار تخلیقات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ یقیناًیہی ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں سے ہی شیخ صاحب کی دلی وابستگی ، محبت اور احترام کا رشتہ ہے ۔ اہم بات یہ ہے شیخ صاحب ہی نہیں بلکہ عوام و خواص بھی صاحب کتاب سے عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب کا تحریر کردہ دیباچہ علامہ اقبال اور ان کے قارئین کے درمیان مزید یگانگت کا سبب ہے ۔ دیباچے کا آغاز غالب کے بے مثل تخیل ، بے نظیر اسلوب اور ہند و فارس میں ان کی بے پناہ مقبولیت جو بعد ازاں مغرب تک پھیل گئی ،کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو اس بات پر یقین رکھتا کہ غالب نے اقبال کی صورت میں جنم لیا ہے ۔ اقبال کے والدین اس امر سے آگاہ تھے کہ جس بچے نے ان کے گھر جنم لیا ہے اس کا نام اقبال کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا ۔طلبِ علم کی جستجو اقبال کو یورپ لے گئی ۔ جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی سند لے کر لوٹے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سر کا خطاب بھی ان کے لیے تجویز ہوا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اور سر کے سابقے ان کے لیے اہم نہیں کہ وہ اپنے نام اقبال سے زیادہ ہر دلعزیز ہیں۔ شیخ صاحب علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کے اس وصف کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے عربی و فارسی زبان کے طالبِ علموں میں ادب کا ایسا ذوق اور شعور پیدا کر دیتے تھے جو تا حیات ان کے لیے رہنما ثابت ہوتا تھا ۔ اقبال نے اپنی شعری شناخت سیالکوٹ میں ہونے والے مشاعروں سے قائم کی۔ داغ کی شاگردی بھی اختیار کی لیکن داغ جان گئے تھے یہ کوئی معمولی غزل گو نہیں ہے استادی شاگردی کا سلسلہ تو جلد ہی ختم ہوگیا لیکن داغ تمام عمر اس بات پر فخر کرتے رہے کہ اقبال ان کے شاگرد رہے ہیں ۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ دکن میں داغ سے ملاقات کے دوران یہ فخریہ الفاظ خود انھوں نے داغ کی زبان سے سنے ۔ سیالکوٹ سے لاہور تک کے تعلیمی سفر میں ، میر حسن کے بعد جو دوسرے اہم استاد انھیں نصیب ہوئے وہ تھامس آرنلڈ تھے ،جن کی جوہر شناس نگاہوں نے اس ہیرے کو پہچان لیا اور وہ بھی اس بات پر مسرور رہے کہ شاگرد ان کی توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوا۔ شیخ صاحب پروفیسر نکلسن کے بھی شکر گزار ہیں ، جنھوں نے اقبال کی فارسی نظم ’’ اسرارِ خودی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ دیباچہ اور حواشی کے ساتھ شائع کیا ،یوں اقبال کو بیرونی دنیا سے متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بنے ۔
یہاں اس واقعے کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا اقبال ایک خط کے مطالعے کے بعد آب دیدہ ہوئے۔ احباب نے سبب معلوم کرنا چاہا تو بولے کہ پروفیسر اے آر نکلسن کا خط ہے وہ اسرارِ خودی کا ترجمہ انگریزی زبان میں کرنا چاہتے ہیں ۔ کہا گیا ، یہ تو فخر کی بات ہے، اس میں افسردگی کیسی ۔ علامہ کہنے لگے رونے کی وجہ یہ کہ میں نے جو کچھ اپنے لوگوں کے لیے کہا وہ تواسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور غیر میری فکر کو اپنے عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں جبکہ اس کی ضرورت یہاں ہے ۔ بعد ازاںیہ منظوم تر جمہ’’ The Secretof Life ‘‘ کے نام سے شائع ہوا اورپروفیسر اے آر نکلسن نے اس پر ایک بھر پور مقدمہ بھی لکھا۔
اقبال کے بزرگ معاصرین شبلی ، حالی واکبر سبھی نے کلامِ اقبال کے معترف ہیں ۔ شیخ صاحب اقبال سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں ،ملاقات کیا تھی ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا تھا کہ جہاں ان کے دوست انھیں زبردستی لے گئے تھے اور ان سے ایک غزل بھی پڑھوائی تھی ۔ غزل سادہ سی تھی لیکن کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن نے انھیں اہل لاہور سے متعارف کرایا اور انھیں بار بار مشاعرے میں مدعو کیا جانے لگا ۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ لاہور میں ایک ادبی مجلس میں اقبال نے اپنی ایک نظم ’’ کوہ ہمالہ سے خطاب ‘‘پڑھ کر سنائی۔ انگریزی خیالات ، فارسی بندشیں، وطن پرستی کی چاشنی ، مذاقِ زمانہ اور ضرورتِ وقت ہونے کے باعث بہت پسند کی گئی لیکن ا قبال نے اشاعت کے لیے دینے سے معذرت کر لی کہ ایک مرتبہ اور دیکھ لوں کہ بے داغ تکمیلیت کی عادت ان کے مزاج میں رچی بسی تھی ۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ جب میں نے ’’مخزن ‘‘کے اجراکا ارادہ باندھا تو ان کے پاس گیا ، ان کا ایک ہی جواب تھا کہ ابھی کوئی نظم تیار نہیں ، میں نے ہمالہ والی نظم زبر دستی لے لی ، جو مخزن کے پہلے شمارے ، اپریل ۱۹۰۱ میں شائع ہوئی اور یوں اقبال کی مقبولیت کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔۱۹۰۵ تک وہ مخزن کے ہر نمبر کے لیے نظم کہتے رہے ۔ ادبی انجمنیں اور رسائل سبھی کی خواہش تھی کہ اقبال کا کلام حاصل کریں، ان کی محفلوں میں شریک ہوں ۔یہ وہ دور تھا کہ طبعیت زوروں پر تھی، غضب کی آمد تھی، شعر ہورہے ہیں اور دوست اور طالبِ علم ، پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے ہیں ، خود انھیں لکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ خاص کیفیت طاری ہوتی ، اشعار ترنم سے پڑھتے خود بھی وجد میں آجاتے اور دوسروں پر بھی ایک سحر طاری کر دیتے ۔ ایک اور خصوصیت جو صرف اقبال سے مخصوص تھی کہ مسلسل نظم کے اشعار اگر کسی دوسری نشست میں سنانا ہوں تو اسی ترتیب سے سناتے جائیں گے ۔ حالانکہ انھوں نے انھیں قلمبند بھی نہیں کیا تھا ۔ دوسری اہم بات یہ کہ فرمائش پر وہ کبھی کچھ نہ لکھ سکتے تھے ۔ انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں سامعین کی تعداد دس ہزار سے زائد ہوتی تھی ۔مجمع دم بخود اور اقبال کی آواز کی گونج ، ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔
اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک ہے قیام یورپ کے دوران انھوں نے بہت کم شعر کہے ۔ ایک روز تو بات یہاں تک پہنچی کہ اقبال کہنے لگے میں شاعری ترک کرنا چاہتا ہوں ، شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انھیں اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی ، فیصلہ سر آرنلڈ پر چھوڑا گیا ، سر آرنلڈ نے انھیں سمجھایا کہ جو وقت آپ شاعری کو دے رہے ہیں ، ملک و قوم کے لیے اس سے بڑی کوئی اور خدمت نہیں ہوسکتی ۔ اقبال کی شعری زندگی میں اسی موقع پر یہ ایک اہم موڑ آیا کہ انھوں نے اردو کے بجائے فارسی کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ شیخ صاحب نے اس تبدیلیء زبان کی کئی وجوہ پیش کی ہیں ۔ پہلا سبب یہ کہ انھوں نے تصوف پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیااور اس سلسلے میں غائر مطالعہ کیا تو اس میں بھی اس تغیر مذاق کا دخل ہوگا ، پھر فلسفے کے مطالعے نے بھی اس امر کی توثیق کی کہ فارسی کے مقا بلے میں اردو زبان کا سرمایہ بہت کم ہے ۔فارسی گوئی کے آغاز میں اس چھوٹے سے واقعے نے بھی اہم کردار ادا کیا کہ ایک دعوت میں ان سے فارسی میں اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور اقبال نے ندامت محسوس کی کہ ایک آدھ شعر کے سوا ان کا فارسی سرمایہ کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے اور اس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ صبح ہوتے ہی انھوں نے مجھے اپنی دو فارسی غزلیں زبانی سنائیں ۔ اقبال کو خود بھی اپنی فارسی گوئی کی قوت کا اندازہ ہوگیا ۔ ۲؂
ممتازحسن ’’اقبال اور عبد الحق‘‘ میں شیخ عبد القادر سے کسی قدر اختلاف کرتے ہوئے رقم طر از ہیں جواسباب شیخ صاحب نے علامہ اقبال کی فارسی شعر گوئی کے بتائے ہیں وہ درست سہی لیکن اہم سبب یہ تھا کہ ملتِ اسلامیہ کے درمیان فرق اور نفاق کی صورتِ حال کوختم کرنا چاہتے اور اسے ایک جسم کے روپ میں دیکھنے کے خواہش مند تھے ملتِ اسلامیہ کو حرکت و عمل پرآمادہ کرنا دین اور دنیا میں غلامی کے بجائے سرخروئی اور سرداری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے آمادہ کرنا ان کی تعلیمات تمام مسلمانوں کے لیے تھیں اور اردو ذرائع ابلاغ میں ابھی اس سطح تک نہ پہنچی تھی۔۳؂
پھر شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے پاس اس وقت چندایک فارسی اشعار کے علاوہ اس زبان میں کچھ سرمایہ نہ تھا ، جبکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ فارسی اشعار کی تعداد کم و بیش سو ہو گی۔ شیخ صاحب کہتے ہیں، بعد میں انھوں نے اردو میں بھی اچھی نظمیں کہیں لیکن توجہ فارسی زبان پر ہی مرکوز تھی ۔ یہ ان کی شاعری کا تیسرا دور ہے کہ جب اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی اور پیام مشرق سامنے آتی ہیں ، ہر کتاب دوسری سے بڑھ کر ہے فارسی نے وہ کام کیا جو اردو سے نہیں ہوسکتا تھا ،اس کے وسیلے سے اہِل مشرق و مغرب اقبال سے متعارف ہوئے ۔ اقبال کی تیسرے دور کی شاعری میں اردو کلام پر فارسی تراکیب اور بندشوں کا اثر واضح ہے۔
شیخ صاحب کہتے ہیں کہ بار بار کے تقاضوں کے بعد ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’ بانگِ درا ‘‘ کے نام سے منصہء شہود پر آرہا ہے اور یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اردو میں یہ واحد کتاب ہے کہ جس میں خیالات کی فراوانی اور مطالب کی ایک دنیا آباد ہے ۔ شیخ صاحب اس بات کے آرزو مند ہیں کہ یہ مجموعہ ان کے ایک دوسرے اردو کلیات کا پیش خیمہ ہو ۔ ۴؂
مولوی عبدالحق نے بانگِ دراپر مبسوط تبصرہ کیا ہے۔ شیخ صاحب کے انداز تحریر کوسراہتے ہوئے مولوی صاحب کہتے ہیں۔’’جناب شیخ عبدالقادر(صاحب) نے اس مجموعے کے شروع میں ایک پر لطف دیباچہ لکھا ہے جوصرف شیخ صاحب ہی لکھ سکتے تھے ۔اس میں انھوں نے اقبال کے کلام پر تنقید نہیں کی بلکہ ان کی شاعری کا نشوونما اور تدریجی ترقی دکھائی ہے جو پڑھنے کے قابل ہے ۔‘‘ آگے چل کر مولوی صاحب علامہ اقبال کی فارسی شعر گوئی کی طرف ہونے کی روداد بزبانِ شیخ عبد القادر سنانے کے بعد اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ علا مہ اپنے فکر وتخیل سے اردو کو اس کا حصہ ضرور دیں اور قارئین اردو کو مایوس نہ کریں ۔۵؂
بانگِ درا کا دیباچہ اقبال کے اشعار کی تفیم و تعبیر میں ، ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو سمجھنے میں وہ فضا جو ان تخلیقات کا محرک بنی ، وہ مسائل جو امتِ مسلمہ کو اور بنی نوع انساں کو در پیش تھے ، سبھی کا احاطہ کرتا ہے ۔ شیخ صاحب کی دعا پوری ہوئی اور اردو داں طبقے کے لیے علامہ کے اردو شعری مجموعے بالِ جبرئیل، ضربِ کلیم ا ور ار مغانِ حجاز کے عنوان سے شاعر مشرق ، ترجمانِ حقیقت ، حکیم الامت کی قدر و منزلت میں مزید اضافے کا سبب ہوئے ۔
شیخ صاحب سے علامہ اقبال کی محبت کا یہ عالم تھا کہ علامہ اقبال کی زندگی میں اور ان کے بعد ان کی شخصیت اور فن پرلکھی گئی متفرق کتب کے دیباچے بھی تحریر کیے اور مصنفین کی حوصلہ افزائی کی ۔
تلوک چند محروم کے صاحبزادے جگن ناتھ آزاد، علامہ اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے ۔ انھوں نے ایک مختصر سا شعری مجموعہ ’’ نذرِ اقبال ‘‘ کے نام سے ترتیب دیا جس کا پیش لفظ شیخ صاحب کا تحریر کردہ ہے ۱۹۴۷ء کے ہنگام نے اشاعت کی مہلت نہ دی ، لیکن دیباچہ حمیدہ سلطان کی کتاب ’’ جگن ناتھ آزاد اور اس کی شاعری ‘‘ میں شامل ہو نے کی وجہ سے محفوظ ہوگیا ، شیخ صاحب دیباچے کے آخر میں دعا گو ہیں ’’ امید ہے کہ یہ چھوٹا سا مجموعہ بڑے مجموعوں کی اشاعت کا پیش خیمہ ہوگا اور آزاد اپنی ادبی خدمت کو جاری رکھیں گے ،جس کا بیج ان کے دل میں ان کے باپ کے فیضِ صحبت سے جما اور جس کی آبیاری کلامِ اقبال کے اثر نے کی ہے ۔ ۶؂
’’یاد اقبا ل‘‘ مو ئفہ، چو ھد ری غلام سرور فگار ایڈ یٹر ر سالہ ’’ پیغام حق‘‘ شا ئع کردہ اقبال اکیڈ می لاہور، پہلا ایڈ یشن ۱۹۴۰ء، دو سرا ا یڈ یشن ۱۹۴۴ء۔ چودھری غلام سرور فگار کی اس تالیف میں سر زمینِ ہند کے مقتدر شعرا نے اقبال کی وفات پر اپنے غم کا اظہار کیا ہے ، اظہارِ عقیدت و محبت سے لبریز ان منظومات کے قیامِ پاکستان سے قبل دو ایڈیشن شائع ہو چکے تھے ۔ شیخ صاحب کی اقبال سے وابستگی اس امر میں مانع ہے کہ وہ اقبال سے متعلق کسی بھی تحریر کو نظر انداز کریں۔ یہ اس دور کے اہم شعرا کے درد و اندوہ سے پُرتاثرات تھے، جو انھیں اقبال کی جدائی میں سہنے پڑے۔ شیخ صاحب دیباچے میں لکھتے ہیں کہ کلام اقبال کو جو شہرت ان کی زندگی میں نصیب ہوئی تاریخ عالم میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ ان کی وفات کے موقع پر جتنی منظومات کہی گئی ہیں اس کی نظیر بھی کہیں دستیاب نہیں ہے ۔ اقبال کے ارادت مندوں میں ایک غلام سرور فگار بھی ہیں اس مرتبہ کتاب میں ان کی اپنی نظموں کے علاوہ دیگر شعرا کے مرثیے یکجا کیے گئے ہیں ۔ حسرت موہانی کا ایک مصرع دیکھیے۔
دل پہ ذوقِ شاعری اک بار ہے تیرے بغیر  اس مجموعے میں مختلف شعرا کی تاریخیں بھی درج کی گئی ہیں مثلاً خواجہ دل محمد اقبال کی ہجری و عیسوی تاریخیں ایک شعر میں یوں رقم کرتے ہیں ’’ شمعِ خاموش‘‘ سالِ ہجری ہے ۱۳۵۷ھ عیسوی ’’ شمع شاعری خاموش‘‘۱۹۳۸ع ۷؂
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ شیخ اکبر علی نے علامہ اقبال کی شاعری پر انگریزی زبان میں چھ لیکچر دیے تھے ۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں ’’اقبال ۔ ہز پوئٹری اینڈ میسج ‘‘ کتابی صورت میں ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی بعد ازاں اس کا اردو ترجمہ’’ اقبال ۔ اس کی شاعری اور پیغام ‘‘ کمال پبلشرز کی جانب سے ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا ، شیخ صاحب دیباچے میں شیخ اکبر علی کے زاویہ نگاہ کو سراہتے ہیں کہ انھوں نے اس انگریزی خواں طبقے کو جس کا میلان اردو اور فارسی کی جانب کم تھا، انگریزی میں اقبال کے کلام کو متعارف کرا یا اور انھیں باور کرایا کہ فکر و فلسفہ کی تلا ش میں مغرب کی جانب بھٹکنے والوں کو مشرق کے اس نابغہ ء روزگار کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ کتاب انگریزی زبان میں شائع ہوئی لیکن طلب بڑھتی رہی ، پھر اسے اردو داں طبقے کے لیے اردو میں ترجمہ کیا گیا ۔ چار سو صفحات سے زائد پر مشتمل اس کتاب میں اقبال کی اردو و فارسی تصانیف کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ پہلے باب میں انھوں نے حیاتِ اقبال کا تفصیلی جائزہ لیا ہے دوسرے باب میں اقبال کے اولیں مجموعے ’’ بانگِ درا‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی دیگر تصانیف کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے ۔ شیخ عبد القادر تیسرے باب کا تجزیہ یوں کرتے ہیں کہ اقبال کے نظریہ فن پر اکبر علی نے سیر حاصل بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تخلیق کار کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ اس کا فن ملک و ملت کے لیے باعثِ ثمر ہو۔
پروفیسرمحمد حسین الاعظمی، الازہر یونی ورسٹی قاہرہ سے وابستہ، اعظم گڑھ یوپی سے تعلق لیکن شوق علم مصر لے گیا جہاں الازہر یونی ورسٹی قاہرہ میں پروفیسر مقرر ہوئے ، ان کی عربی تالیف ’’ الحیاۃ و الموت فی فلسفہ اقبال‘‘ جس کا اردو ترجمہ بھی ساتھ ہی شائع ہوا۔ کتاب کے دیباچے میں پروفیسر صاحب کے تفصیلی تعارف کے بعد کتاب کی جانب توجہ کرتے ہیں شیخ صاحب کہتے ہیں ۔
اس کتاب کی یہ عجب صفت ہے کہ یہ اردو میں بھی ہے اور عربی میں بھی ، نظم میں بھی اور نثر میں بھی ۔۔۔ یہ کتاب اپنی طرز کی ایک نرالی چیز ہے اور امیدِ قوی ہے کہ یہ ہندوستان اور مصر دونوں ملکوں میں مقبول ہوگی۔۔۔ بلکہ جہاں کہیں عربی بولی یا سمجھی جاتی ہے وہاں اقبال کا پیام اس کے ذریعے پھیل جائے گا ۔ ‘‘ ۸؂
شیخ صاحب ، صاحبِ کتاب کی علمی و ادبی فتوحات کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی اقبال سے محبت و عقیدت کے ثبوت میں ان کی ان کاوشوں کو پیش کرتے ہیں جو انھوں نے اقبال کو عرب دنیا سے متعارف کروانے کے سلسلے میں کیں ۔
پروفیسرمحمد حسین الاعظمی، الازہر یونی ورسٹی قاہرہ میں ’’ الاخوٰۃ الاسلامیہ‘‘ جماعت کی تشکیل بھی کرتے ہیں کہ جہاں مصری ادیب و دانشور اقبال کی شاعری اور فلسفے کی تفیم و تشریح کے لیے لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں ، کئی ایک مصری شاعروں نے کلامِ اقبال کا منظوم ترجمہ نہایت مشاقی سے کیا ہے ۔
شیخ عبد القادر اور علامہ اقبال کے اہم معاصرین میں میر غلام بھیک نیرنگ بھی شامل ہیں، ابتدا میں موّاج تخلص کرتے تھے ، جلد ہی تخلص بدل کر نیرنگ ہوگئے۔ ان کی زندگی ایک مخلص اور قوم کے ہمدرد رہنما کی حیثیت سے مثالی تھی ۔مذہبی مبلغ کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے اور عالمِ اسلام کی بے حسی پر کڑھتے ہی نہ تھے بلکہ اس کی نشان دہی کرتے اور مقصد تک رسائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ، حج کے دوران مسجدِ نبوی کی حالتِ زار دیکھتے ہیں اور اس کے لیے پوری امتِ مسلمہ اور فرما روائے عرب ،خادم الحرمین الشریفین تک کو متوجہ کرتے ہیں ، یہی حال تعلیمی و سماجی خدمات کا ہے ۔ خوب صورت نثر لکھتے ہیں اور شیخ صاحب کے مطابق نثر میں بھی موتی پروتے ہیں ۔وہ نظم اور غزل کے بہترین شعرامیں شمار ہوتے تھے لیکن قومی، سیاسی ، تعلیمی ، تبلیغی و مذہبی مصروفیات کی بنا پر شاعری کی جانب سے بے نیازی برتتے تھے۔ حلقہء احباب میں با اصرار نظم یا غزل سنا دیا کرتے لیکن اشاعت کی طرف توجہ نہ دیتے ۔ شیخ صاحب ان کی علمی و ادبی تحریروں اورمنظومات کے منتظر رہتے ۔ غلام بھیک نیرنگ کی زیادہ تر تخلیقات ’’ مخزن‘‘ میں ہی شائع ہوئیں۔ مختصر سا شعری مجموعہ’’ کلامِ نیرنگ‘‘ دوستوں نے بکھری ہوئی تخلیقات کو یکجا کرکے ۱۹۰۷ء میں بعد ازاں ۱۹۱۷ ء میں شائع کیا گیا ۔ ۱۹۸۳ء میں ان کا مدون و غیر مدون کلام شائع کیا گیا ۔ اولین اشاعت کے لیے دیباچہ لکھنے کا خوشگوار فرض شیخ عبد القادر نے نبھایا ، جو بقیہ اشاعتوں میں بھی کتاب کی قدر کے تعین میں معاون ثابت ہوا ، شیخ صاحب نیرنگ کے علمی و ادبی مرتبے سے آگاہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میر صاحب ایسے مختصر مجموعے کی اشاعت پر راضی نہ تھے ، مگر میرا خیال تھا اور ہے کہ چند اشعارِ نغز ایک مجموعہ ء بے مغز سے بدرجہا بہتر ہیں۔۹؂
مجمو عہ کلام سید غلام بھیک نیر نگ، مر غوب ایجنسی، لاہور، ۱۹۱۷ء سے شائع کیا گیا ۔
شیخ صاحب نے جب کسی حقیقی مصنف کا دیباچہ لکھا ہے اس کی موضوعاتی و اسلوبیاتی صفات، خلوص و صداقت ، پیرایہء ادا کی گہرائی و گیرائی ، محاکاتی و بیانی خصوصیات ، واقعیت و قطعیت سبھی کا ذکر کرتے ہیں ، صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دل سے لکھا ہے اور کتاب سونگھ کر نہیں بلکہ مکمل کتاب پڑھ کر لکھا ہے ، شعری اور نثری مثالیں ایسی دی ہیں جو واقعی کتاب کا مغز ہیں ، یہیں ان کی تنقیدی بصیرت عیاں ہوتی ہے ۔مصنف اور اس کی تخلیق کی معنویت کو پا لینا اور قارئین تک اس جذبے کی ترسیل میں معاونت کرنا جو مصنف کے وجود اور اس کی تخلیق میں موجود ہے، ا یک دیباچہ نگار کی کامیابی ہے ۔
ا بلیس کی مجلس شو ر یٰ ) The Devil ' Conference )مو ئفہ محمداشرف مطبو عہ اردو ہا ؤ س، گجرات، ۱۹۴۶ء میں اشاعت پذیر ہوا۔
محمد اشرف اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر تے ہیں۔سر عبدالقادر نے اس کے دیباچے میں ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کا ملٹن کی نظم "Paradise Lost " کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ملٹن کی نظم حضرت آدم اور حوا کے جنت سے نکالے جانے کے واقعہ کی بنیاد پر ہے۔ جب کہ اقبال کی نظم خیر و شر کے قوتوں کے مابین کشمکش، مخالف اور منفی قوتوں کی مثبت روّیوں پر تسلط کی کوشش، جوازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی، کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس مضمون میں سر عبدالقادر نے جہاں اس ترجمے کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا ہے وہیں اقبال کی شاعری اور فلسفہ پر بھی اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اقبال کی شاعری وحی الہی کی آئینہ دار ہے ۔ حریت آموز قومی شاعری اور بین الاقوامی سازشوں پر ان کی گہری نظر ہے۔آخر میں ملک اشرف کے اس ترجمے کی توصیف کرتے ہیں اور اقبال کی نظم کی روح کو اس ترجمے میں سمو دینے کے کام کو وہ نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوراس کام کی وسیع قبو لیت کی امید کرتے ہیں۔
دیباچہ نگار کا عمومی روّیہ یہ ہوتا ہے کہ کتاب کے مسودے کو دیکھ کر کتاب کا مفصل تعارف کرادیتے ہیں اور مصنف کی ذات کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ دوسرا انداز یہ ہوتا ہے کہ کتاب کو بھول کر مصنف کی ذات کے سحر میں ایسے گرفتار ہوتے ہیں کہ کتاب کے موضوع کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔اس سلسلے میں شیخ صاحب کا انداز خاصہ مختلف اور منفرد تھا۔ان کے پیش نظر کتاب کے ساتھ مصنف کا تذکرہ بھی ضروری تھا۔چنانچہ آپ نے جس قدر بھی دیباچے تحریر کیے ان میں خاص طور پر مصنف کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا اور اس کے متعلق قارئین کو زیادہ سے زیادہ معلو مات بہم پہنچائیں۔ تا کہ پڑھنے والے نہ صرف کتاب سے محفوظ ہوں بلکہ ساتھ ہی ساتھ مصنف کی علمی استعداد، ذہنی نشو ونما اور فنی اہلیت کو جان سکیں اور اگر ہو سکے تو اس جیسا فکر پیدا کر سکیں۔۱۰؂
شیخ صاحب حفیظ جا لند ھری کی بے مثل تخلیق ’’یاد ایام‘‘ المعروف’’ شا ہنامہء اسلام ‘‘ کا نو صفحات پر مشتمل دیباچہ ’’ تقریب ‘‘ کے عنوان سے تحریر کرتے ہیں ۔ دیباچے کے آغاز میں ہی وہ مختصر ترین الفاظ میں کتاب کا تعارف کراتے ہیں کہ یہ محض شاعری نہیں ، اسلام کی منظوم تاریخ ہوگی، تعلیماتِ اسلامی کے لیے درسی کتاب کا درجہ رکھے گی ۔ سادہ الفاظ میں دو ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل پہلی جلد کا دیباچہ لکھنے کی سعادت کو وہ اپنی خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔وہ امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ ہر وسیع الخیال غیر مسلم بھی شاعر کے کمالِ فن کا معترف ہوگا۔ اس دیباچے میں شیخ عبد القادر مصنف کا بھر پور تعارف کرواتے ہیں۔ وہ جنھوں نے حفیظ کی نظم، جس کا عنوان ہے’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ سنی ہے انہیں شاید حفیظ کی شاعری کو اس شانِ بزرگی اور تقدیس میں دیکھ کرمتعجب ہوں کہ ان کی طبعِ رسا کن آسمانوں تک پہنچ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حفیظ عمر میں جوان ہے ، مگر شاعری میں بزرگ شعرا کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ شیخ صاحب حفیظ کی ہر لمحہ مصروف رہنے کی عادت یا ضرورت کو سراہتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ یہ صرف تخیل کا کرشمہ اور زورِ طبعیت اور خدا داد ذہانت ہے کہ جس کی بنا پر وہ ایسی پر بہار نظمیں لکھ جاتا ہے ورنہ روٹی روزی کے چکر نے اسے کبھی اتنی مہلت نہ دی کہ دنیا کی رنگینیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ صبح سے شام تک لکھنا ، کسی اخبار کے لیے ، رسالے کے لیے یا پھرکبھی اپنی کوئی کتاب لکھنے میں لگا ہے جس کے سستے داموں ہی سہی بکنے کی کچھ امید ہے ۔ مشاعروں کے لیے نظمیں لکھ رہا ہے۔ مخزن کی ادارت کی دمہ داریاں نبھا رہا ہے ۔ ملاقاتیوں سے نبٹ رہا ہے اور قدر دانوں سے خط و کتابت کے لیے وہ خود ہی منشی ، پروف دیکھنے کے لیے خود ہی مصحح اور مطبع والوں سے مقابلہ کرنے کے لیے جنگجو کا روپ دھار رہا ہے ۔ موقع ملتا ہے تو شاہنامہ ء اسلام بھی لکھ رہا ہے ۔یاد رہے کہ تاریخی موضوع پر طبع آزمائی کے لیے پہلے پڑھنا ، وسیع الطالعہ ہونا بے حد ضروری ہے اور حفیظ میں یہ وصف بھی موجود تھا ۔ دیباچے میں شیخ صاحب حفیظ سے پہلی ملاقات کا احوال بھی رقم کرتے ہیں کہ انھوں نے انھیں ایک مشاعرے میں دیکھا ، یہ دبلا پتلا نوجوان صرف داد کے قابل شعر پر کسی قدر اٹھتے ہوئے کہتا کیسا بلند شعر ہے ۔ یہ انداز متوجہ کرنے والا تھا کسی سے پوچھا تو صرف اتنا معلوم ہوا کہ جالندھر کے ہیں اور مولاناگرامی کے شاگرد ہیں۔تب شیخ صاحب کو یاد آیا کہ گرامی کے داد دینے کا انذاز بھی ایسا ہی تھا ۔ اب وہ اور زیادہ مشتاق ہوئے کہ اس نئے شاعر کو سننا چاہیے ۔ انھیں سنا تو مولانا گرامی کی ایک اور مشابہت دکھائی دی ۔ وہ بھی اپنے چہرے بشرے سے فارسی کے بلند پایہ شاعر معلوم نہ ہوتے تھے یہ نوجوان بھی کہیں سے دکھائی نہ دیتا تھا کہ نظم پر اتنی دستگاہ رکھتا ہوگا ، پھر نظم ترنم سے پڑھی گئی ۔۔۔اس کے بعد تو بے شمار مرتبہ حفیظ کو مشاعرے لوٹتے دیکھا گیا ۔

اس دیباچے میں آگے چل کر رقم طراز ہیں۔
’’ابو الاثر نے جس دن نظم کی بنسری بجائی ہے، اس بنسری سے طرح طرح کے راگ نکلتے ہیں اور نظموں کے اس مجموعے میں جس کا نام ’’نغمہ راز‘‘ ہے اور بعض غیر مطبوعہ نظموں میں جو اس کے بعد لکھی گئی ہیں،اس نے اپنی وسیع ہمدردی اور سچی قدرتی شاعری کے میلان سے کہیں کرشن کے گُن گائے ہیں اور کہیں پریت کے گیت سنائے ہیں۔ مگر اُس نے تھوڑے عرصے میں محسوس کر لیاکہ اثر کے لحاظ سے جو بات پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے واقعات میں ہے،وہ کسی دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔‘‘
اور پھر اس نے شاہنامہ لکھنے کا اعلان کیا ، جس کے نام پر بہت اعتراضات ہوئے ، فردوسی کی ہمسری کا دعویٰ کرنا چاہتا ہے، اسلام کا شاہی سے کیا تعلق وغیرہ وغیرہ ، شیخ صاحب نے ان اعتراضات کے مدلل جواب دیے ہیں، پھر فردوسی نے فارسی میں اپنے جوہر دکھائے ہیں ،حفیظ اردو میں رہبرانِ اسلام کی یاد تازہ کر رہا ہے تو یہ اردو ادب پر احسان ہے۔ شیخ صاحب حفیظ کے شاہنامہ کا موضوعاتی اور اسلوبیاتی تجزیہ کرتے ہیں ۔ ابتدا دعائیہ شعر سے ہوتی ہے اور اس خواہش کا بیان کہ میں ’’ خدمتِ اسلام ‘‘کرجاؤ ں۔، پھر اس عجز کا اظہار  تقابل کا کروں دعویٰ یہ طاقت ہے کہاں میری تخیل میرا ناقص ،نامکمل ہے زباں میری زبانِ پہلوی کی ہم زبانی ہو نہیں سکتی ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی  شیخ صاحب نے تین اشعار درج کیے ہیں جن میں حضرت ابراہیم کا بیوی اور بیٹے کے ہمراہ صحرائے عرب کی طرف سفر کا احوال نظم کیا ہے ، یہاں وہ حفیظ کی اختصار نویسی کے قائل نظر آتے ہیں کہ کوئی اور شاعر یہ واقعہ بیس اشعار میں بیان کر تا ۔ یہ خوبی تمام کتاب میں موجود ہے۔ شیخ صاحب نے شاہنامہ کے مختلف مقامات سے اشعار درج کرکے قارئین کی توجہ اختصار ، سادہ بیانی ، عام بول چال کا انداز، خلوص و صداقت ، صوتی محاسن ، محاکات کا کمال ، پیرایہ ہائے اظہار کی گیرائی اور موضوع سے گہری وابستگی کی طرف دلائی ہے اور دعا کی ہے حفیظ صاحب کہ جلد اول کی طرح بقیہ تاریخِ اسلام بھی اسی جو؛ و جذبے سے مکمل کرکے اردو ادب کو مستفید کریں ۔ ۱۱؂
اردو سے محبت کے نتیجے میں انھوں نے نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ، خواہ مخزن کے لیے ابو الکلام آزاد کا پہلا مضمون ہو یا کسی نئے لکھاری کا ابتدائی کلام ۔ دیباچہ نگاری کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے نوجوان مصنفین اور شعرا ان کی حوصلہ افزائی کے سبب ادبی کائنات کے فعال کارکن شمار ہوئے ۔
’’ جب بھی کوئی نو آموز مصنف اپنی تصنیف لے کر ان کی خدمت میں حا ضر ہوا کرتا اور دیباچے کے لیے عر ض کرتا تو عبدالقادر اپنی ساری مصرو فیات کے باو جود اس کام کے لیے وقت نکال لیتے اور ان تصانیف میں ایسی خو بیاں تلاش کر لیتے جن سے تصنیف کا مر تبہ بلند ہو جا تا۔ ان کی نظر میں حسن تھا اور وہ حسن کو ہر جگہ ڈھو نڈ لیتے، یہی نہیں بلکہ خود اس میں حسن پیدا کر د یتے۔زندگی بھر انھوں نے کبھی کسی کا دل نہیں توڑا۔ان کے دروازے اتنے کشادہ تھے کہ وہاں سے کوئی خالی ہا تھ نہ گیا۔ نو جوان لکھنے وا لوں کی ہمت افزائی کر نا گو یا ان کی زندگی کا مشن تھا۔وہ انھیں نیک مشو رے د یتے۔ ہمت بند ھاتے اور ان کے دلوں میں وہ و لولے پیدا کرتے، جو انہیں زند گی کی شا ہراہ پر کا مران کرتے رہے۔‘‘۲؂۱
خواجہ الطاف حسین حالی کے متعلق ہمیشہ کہا جاتا رہا کہ وہ نوجوان لکھنے والوں کی حد درجہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن کے سبب وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھنے لگتے ہیں ۔ حالی کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ ان کی داد سے تخلیق کار کا دل کتنا بڑھ جاتا تھا اور آئندہ اس سے بھی اچھا کام کر کے دکھانے کی خواہش جاگ جاتی تھی ، بعینہ یہی حال شیخ صاحب کا تھا۔
’’ایک ملاقات میں میں نے کہا بعض لوگ کہتے ہیں حفیظ جا لندھری کی کا میا بی کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ایک ان کا ترنم اور دو سری آپ کی مر بیانہ روش۔آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے۔بو لے تمھارا کیا خیال ہے تم پہلے اپنی رائے ظاہر کرو۔میں نے کہا۔میں تو اس خیال کو غلط سمجھتا ہوں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں حفیظ ایک بڑا شاعر ہے اور اس کی شاعری میں اتنی جان ہے کہ وہ اپنے پروں سے اُڑ سکے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ادبی د نیا میں اپنا لوہا منوا سکے۔ کہنے لگے تمھاری رائے صحیح ہے۔ یہ جو تم نے لو گو ں کی رائے کا ذکر کیا ہے یہ حفیظ کے حا سدوں اور مخا لفوں کی رائے ہے۔میں نے حفیظ کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ محض اتنا ہے کہ شا ہنا مہ ء اسلام کا دیباچہ لکھا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ حفیظ کو زمین سے اُ ٹھا کر آسمان پر پہنچا دے۔دیبا چے تو میں نے اور بھی کئی شا عرو ں کے لکھے ہیں۔ لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو میرے دیبا چے کی بدولت حفیظ کے مقام تک پہنچے ہیں۔۱۳؂
شیخ صاحب کی تنقیدی بصیرت کا جائزہ لینا ہو تو اس کاسب سے اہم ذریعہ ان کے دیباچے ہیں ، یہ واضح رہے کہ دیباچہ لکھوانے کی غرض صرف تعارف اور بین السطور تعریف ہوتا ہے ۔ شیخ صاحب کی دیباچہ نگاری پر اکثر یہ اعتراض ہوا کہ شیخ صاحب نے اہم اور معمولی لکھنے والوں میں تخصیص نہیں رکھی اور کسی لکھنے والے کو اس کی تحریر اور ذہنی اپچ کی درست صورتِ حال سے آگاہ نہیں کیا، اس لیے ان کی دیباچہ نگاری کو کسی معیار پر پرکھنا مناسب نہیں ۔ اعتراض کرنے والے اس امر سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں کہ دیبا چہ نگاری کے لیے مصنف کا انتخاب اپنا نہیں بلکہ مصنف دیباچہ نگار کا انتخاب کرتا ہے اورکوئی مصنف یہ خواہش نہیں کرسکتا کہ اس کی تحریر کی خامیاں کھل کر عیاں کی جائیں اور قارئین کو اس کی تحریر سے متنفر کیا جائے ، پھر شیخ صاحب جیسی متواضع اور با مروت شخصیت کے لیے مصنف کے اصرار کو رد کرنا ممکن نہ ہوتا تھا ، خواہ وہ اس کے لیے ان کی طبعیت کتنی ہی منغض کیوں نہ ہور ہی ہو، ریاض قادر ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خود والد حاحب نے انھیں اپنے کمرے میں بلا کر ایسے ہی ایک مفلس مصنف کے مطالبوں سے پُرخطوط کا پلندہ دکھایا اور اس مصنف کی تحریر کے کچھ نمونے بھی سنائے ، شیخ صاحب کہنے لگے کہ ان مصنفوں کو کیا کہا جاسکتا ہے جنھیں خود پر اتنا اعتماد ہو ، اب اس کے دیباچے میں یہ تو نہیں لکھا جاسکتا کہ مصنف ذہنی افلاس کا شکار ہے اور تعریف کے لیے اس کی تصنیف میں گنجائش نہیں ہوتی ، اس کے مسلسل تقاضوں سے اس شعر پر عمل کرکے ہی جان چھڑائی جا سکتی ہے ۔
دندانِ تو جملہ در دہانند چشمانِ تو زیرِابرو آنند شیخ صاحب کے نزدیک اس مصنف کی کتاب کا دیباچہ اس انداز میں ہی تحریر کیا جا سکتا ہے کہ مصنف نے اس تصنیف پر بہت محنت کی ہے ۔ مجموعے میں طویل اور مختصر دونوں قسم کی نظمیں ملتی ہیں ، مختصر کم اور طویل زیادہ ، مصنف اقبال سے متاثر معلوم ہوتے ہیں، پُرگو ہیں ۔۔۔ اصل بات کہ مصنف کی تخلیقات کا معیار کیا ہے ۔ اسلوب کیسا برتا ہے سے صاف پہلو بچا لیا جائے ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بیشتر مصنف اس انداز کو بھی اپنی تعریف سمجھے ۔ ۱۴؂
جہاں انھیں اقبال کے اولیں شعری مجموعے ’’ بانگِ درا‘‘ کا مقدمہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا،وہیں ایسی کتب بھی دیباچے کی غرض سے انھیں پیش کی گئیں ، جن پر دیباچہ لکھتے ہوئے انھوں نے خود کو تسلی دی کہ اردو میں کچھ لکھا تو جارہا ہے ، ان کی حوصلہ افزائی ممکن ہے کل کسی بڑی تخلیق کا باعث ہو ۔ماہنامہ مخزن ، جلد ۱ نمبر ۲ ، ستمبر، ۱۹۰۱ء میں شائع ہونے والے مضمون ’’ فنِ تنقید‘‘ میں وہ اس کیفیت ، اذیت کو بیان کرتے ہیں جو کسی کتاب کا دیباچہ یا تقریظ لکھتے ہوئے سہنی پڑتی ہے ۔ وہ کہتے ہیںیہاں مدت سے تقریظوں کا رواج رہا ہے۔کوئی پرانا دیوان یا کتاب اٹھا کر د یکھے،قلمی نسخہ ہو یا چھپا ہوا،آخر میں صفحوں کے صفحے تقر یظو ں سے پر ہیں۔۔۔ تقر یظو ں کو دیکھیے تو سب کی سب کتاب کو لا جواب ،رشک آفتاب ومہتاب،ہزاروں میں انتخاب بتا رہی ہیں۔۔۔بعض ایسی مثالیں بھی دیکھنے اور سننے میں آئی ہیں کہ تقریظ میں تو تعریف کے پل با ندھ دیے اور ویسے اگر کسی نے پو چھا کہ کتاب کیسے لکھی گئی ہے تو کہہ دیا کہ ’’کتاب تو مبتدیانہ مشق ہے ۔ہم نے تو ایک دوست کی خاطر سے تقریظ لکھ دی ہے۔‘‘ ۵؂۱
شیخ صاحب جتنا عرصہ دہلی میں مقیم رہے اس دوران شائع ہونے والی بیشتر کتب کے دیباچے آپ ہی کے تحریر کردہ ہیں ۔َ ً  ِِ شیخ صاحب عموماً دیباچہ نگاری کے لوازم نگاہ میں رکھتے ہوئے دیباچہ تحریر کرتے ہیں ، ان کے دیباحوں میں کتاب کے اسباب و علل کا بیان ، کتاب کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا۔ مصنف کی موضوع سے ذاتی دلچسپی یا کسی خاص تحریک یا تقاضے کے سبب کتاب تخلیق کی گئی ، سبھی پہلو پیشِ نظر رکھتے ہیں ۔ مثلا شیخ صاحب ’’گلبا نگِ حیات ‘‘موئفہ امین حز ین سیا لکوٹی شا ئع کردہ اردو اکیڈمی پنجاب لاہور،اکتوبر ۱۹۴۰ء کے دیباچے میں مصنف اور ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر کرنے کے بعد علامہ اقبال سے ان کا تعلق واضح کرتے ہیں ۔ یہ وہ دور ہے کہ جب اس دور کے بیشتر شاعر اقبال کی شاعری کے گہرے اثرات قبول کررہے تھے ۔ ا مین حزیں اور اقبال کی قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں نے ایک ہی استاد مولوی میر حسن سے فیض اٹھایا ہے۔ امین حزیں کو اپنی موزونیِ طبع کا احساس ہوا دو ایک غزلیں شائع ہو ئیں اور پسند کی گئیں تو خیال آیا کہ اقبال سے اصلاح لینی چاہیے خواہش کا اظہار کیا تو علامہ نے مشورہ دیا کہ شاعری خدا داد عطیہ ہے ، جذبہ سچا ہو تو کامیابی یقینی ہے ، اساتذہ کا کلام پڑھیے اور مشق کرتے رہیے۔ شیخ صاحب نے امین حزیں کی شاعری کے دورِ اولین میں مولانا ظفر علی خان اور محمد علی جوہر اور بعد ازاں اقبال کے اثرات کا جائزہ لیا ہے ۔
’’فکر جمیل ‘‘ کے پیش لفظ میں وہ جمیل واسطی کے نظریہ حیات،زندگی میں دکھوں اور سکھوں کی آمیزش،امیدو یا سیت کی کرنیں اور گھور اند ھیرے اور خیر وشر کی متصادم قو توں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے کلام میں کلاسیکیت و جدیدیت کی کار فرمائی کا جا ئزہ لیتے ہیں۔
’’تغزل ایک پامال طرزِکلام ہے لیکن واسطی کے جذبات کی سچائی نے اس نقشِ کہن کو ایسا رنگِ نو عطا کیاہے کہ اس کے کلام میں تعزل کی روایات دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔ذاتی تجربہ،تصوف، حکیمانہ نکات جو طو فانِ حوادث کے مکتب میں حاصل ہوئے ہوں۔حیا ت و حسن و محبت پر تفکر،رو حانی کشمکش واسطی کی شاعری کا سرما یا ہیں،مگرواسطی نے غزل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے صنف کو بھی جو سانٹ کے نام سے مشہور ہے اردو کا جا مہ پہنایاہے۔یہ خیال کہ چودہ اشعار کی کوئی نظم سانٹ ہوتی ہے مبتدی شاعروں کو بھی سانٹ نویسی پر آمادہ کر دیتا ہے، لیکن سانٹ کی اندرونی معنوی بندش اس طرزِ نظم میں جذبات کے گہرے مطالعہ اور صحیح تحلیل کے بغیر سمجھی نہیں جا سکتی۔واسطی کے سانٹ میں یہ صفات مو جود ہیں۔‘‘ ۱۶؂
دیباچہ کسی بھی تخلیق کار کا مکمل تعارف ہوتا ہے بسا اوقات کتاب کا موضوع ایسا تحقیقی ، تنقیدی یا تخلیقی ہوتا ہے جس کا مصنف کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ تخلیق کا براہِ راست تعلق، مصنف کی زندگی سے ہوتا ہے لیکن مصنف اپنے بارے میں کھل کر بیان کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتا ہے ۔ دیباچہ نگار یہ ذمہ داری بڑی خوش دلی سے نبھاتا ہے اور مصنف کی ذاتی خدمات کے علاوہ اس کے علمی خاندانی پس منظر ، اس کے علمی و ادبی حیثیت ، اس کے وسعت مطالعہ، کشادہ نظری ، فکرِ رسا ، اس کی الوبی خصوصیات سبھی قاری کے سامنے واضح کر دیتا ہے ۔ اس کتاب کے علاوہ اس نے جو کارہائے نمایاں کیے ہیں ان کا بھی برسبیل تذکرہ احوال بیان کر جاتا ہے ، شیخ صاحب لمعہ حیدرآبادی ۔۔۔ کی کتاب ’’۔’’تقدیرِ امم ‘‘ ‘‘ کے دیباچے میں ان کی خاندانی شرافت و نجابت کے ساتھ ساتھ ان کے علمی و ادبی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہیں
لمعہ حیدر آبادی اپنا اردو اور فارسی کلام اصلاح کے لیے علامہ اقبال کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے ، اقبال ان کے خیالات و احساسات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے وہیں اپنے صائب مشوروں سے بھی نوازتے ۔ لمعہ کی خواہش تھی کہ ان کے کلام کا دیباچہ شیخ عبد القادر تحریر کریں، شیخ صاحب نے مقدمہ لکھا اور صاحب کتاب کے بھر پور تعارف بھی پیش کیا ۔ ڈاکٹر لمعہ حیدر آبادی ، ایک وضع دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، علم ابدان و علم ادیان سے گہری واقفیت اورروابط نے شعری فضا کی تشکیل میں مدد دی ہے ۔ فطرت سے قربت اور دریا کے کنارے سے لگاؤ انھیں قدرت کی بے پناہ نیرنگیوں سے روشناس کراتا ہے ۔ لمعہ حیدرآبادی کا فارسی اور اردو مجموعہ کلام بیک وقت اشاعت کے مراحل طے کر رہا تھا۔ شیخ صاحب نے اردو مجموعہ ء کلام کی دیباچہ نگاری میں شاعر کے اقبال سے دلی تعلق کی وضاحت کرتے ہؤے اقبال کا اس شعر کو درج کیا ہے
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِ ِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر
لمعہ صاحب فنا فی الاقبال ہیں ۔ ٹیگور سے بھی عقیدت رکھتے ہیں ۔ لمعہ کی شاعری پر ان دونوں کے اثرات واضح ہیں مگر اقبال کے گہرے، بلکہ بسا اوقات تو وہ اقبال کے مکبر معلوم ہونے لگتے ہیں اقبال کی زمینوں میں کہی ئی غزلیں بے شک اقبال کے درجے تک نہیں پہنچتیں لیکن ، پیامِ اقبال کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتی ہیں ۔ ڈاکٹر لمعہ سے علامہ اقبال کی طویل خط کتابت تہی ۔ شیخ عطا اللہ کے مرتب کردہ مکاتیب اقبال کے مجموعے ’’ اقبال نامہ میں ‘‘ اقبال کے ان نام انتیس خطوط موجود ہیں ، شیخ عطا اللہ اس بات کے لیے شیخ عبدالقادر کے ممنون ہیں کہ انھوں نے لمعہ حیدرآبادی سے ان کا تعارف کرایا جنھوں نے مکاتیب اقبال کا ایک گراں بہا مجموعہ عنایت کیا بلکہ حیدرآباد میں مکاتیب اقبال کی فراہمی کے لیے مسلسل سعی کر رہے ہیں، وہ اقبال کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے اور اقبال انھیں محسن انامل کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔۱۷؂
بیاضِ سحر مو ئفہ بیگم تراب علی، شیخ صاحب اس کتاب کے حوالے سے شیخ ہمایوں کو ایک خط میں تحریر کرتے ہیں۔’’ میں نے کتاب کا دیباچہ جو تحریر کیا ہے اس کا مسودہ آپ کو بھیجتا ہوں ۔ احتیاط سے چھاپ لیجیے اگر ہوسکے تو صاف پروف مجھے دکھا لیں تا کہ کوئی لفظی غلطی نہ رہ جائے ۔ سرورق میں کچھ تبدیلی مناسب سمجھی ہے اور اس کی وجہ دیباچہ میں لکھ دی ہے امید ہے آپ بھی اس تبدیلی سے اتفاق کریں گے ‘‘ ۱۸؂
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ صاحب صرف دیباچہ نگاری کو ایک فرض جان کر ہی نہیں نبھاتے بلکہ کتاب کے بارے میں صائب مشورے بھی دیتے ہیں جن سے کتاب کی وقعت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
آغا محمد حسین ۱۹۴۶ء میں اپنی نظموں کے مجموعہ پر دیباچہ لکھنے کے لیے شیخ صاحب کی خدمت میں ارسال کرتے ہیں ، فرصتِ زندگی کم ہے ۔ شیخ صاحب کی لامتناہی سیاسی سماجی ، سرکاریادبی اور علمی مصروفیات کے ازدحام میں گم ، مصنف کا اصرا ر جاری ہے اور آ پ انتہائی خوش دلی سے ان کے یاد دہانی کے ہر خط کا جواب دیتے ہیں، لیکن زندگی وفا نہیں کرتی اور آپ دیباچہ تحریر نہ کرسکے،جس کا مصنف کو ہمیشہ ملال رہا ۔
شیخ صاحب کی بہو برجیس ارشاد کہتی ہیں کہ وہ صاحبِ ذوق شخصیت تھے اور مطالعے کا ذو ق رکھتے تھے ۔ ادب سے دلچسپی تھی ، اگر دیکھا جائے تو ان کی کسی موضوع پر مکمل اور مبسوط کتاب تحریر نہیں کی ، لیکن متفرق موضوعات پر مضامین موجود ہیں۔ جو ان کی وفات کے بعد کتابی شکل میں یکجا کیے گئے ۔ وہ ادب اور ادیب نواز شخصیت تھے ادیبوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ بہت سی کتابوں کے دیباچے کتاب سونگھ کر نہیں بلکہ پڑھ کر لکھے ۔ نصیحت بھی کر تے تھے اور مزید بہتری کے لیے رائے بھی دیتے تھے ۔۱۹؂
شیخ صاحب نے مختلف النوع موضوعات پر تحریر کردہ کتابوں کے دیباچے تحریر کیے ، جن میں درج ذیل کتب بھی شامل ہیں ۔ سر گز شت ہاجرہ از بیگم ہما یوں مرزامطبوعہ ۱۹۲۶ء۔لیگ آف نیشنز :جمیعت الاقوام(جنیوا)مو ئفہ ایم ایچ بھٹی۔ مطبوعہ پنجاب پر نٹنگ ورکس ، لا ہور، ۱۹۲۷ء۔ جذباتِ بسمل :موئفہ منشی سکھدیو پر شاد ۔ گنج مآنی: مجموعہ کلام معروف موئفہ منشی تلوک چند محروم،مطبوعہ عطر چند کپور اینڈسنز، انار کلی لاہور ۱۹۳۲ء۔ اتا ترک غازی مصظفی کمال پاشا: مو ئفہ کے اے حمید مطبوعہ قومی کتب خانہ ،لاہور ۱۹۳۹ء۔رسولﷺ عر بی پیغمبر اسلام :مو ئفہ پرو فیسر جی ایس دارا، شا ئع کردہ مجلس اردو ماڈل ٹاؤن لاہور، ۱۹۴۱ء۔ معجزات رسولﷺ :موئفہ حسان الہند فضل محمد فضل جا لند ھری شا ئع کردہ بزم مد ینہ سعدی پا رک لا ہور، ۱۳۶۱ھ؍۱۹۴۱ء۔د یہا تی د نیا :مو ئفہ امر نا تھ مو ہن شا ئع کر دہ گیلانی الیکٹرک پر یس ، لا ہور، دسمبر ۱۹۴۱ء۔ بہا ر ستان: آل انڈیا مشا عرہ امر تسر کی رو ئداد مر تبہ ر یا ض قر یشی شا ئع کر دہ مجلس منتطمہ۔ آل انڈ یا مشا عرہ امر تسر پنجاب ،۱۹۴۳ء۔ صد پا رہء دل:(پا نچ سو ر یا عیات کا مجمو یہ) مولفہ خواجہ دل محمد شائع کردہ خواجہ، بکڈپو، لاہور، ۱۹۴۶ء۔ ر قعات اکبر :مرتبہ شیخ محمد نصیر ہمایوں شائع کردہ قومی کتب خانہ لاہور۔طبع ثانی ۱۹۴۷ء۔صبح ازل: مجموعہ کلام ذ کاء الملک خواجہ ڈاکٹر محمد شجاع نا مو س شا ئع کردہ قو می کتب خانہ لاہور، ۱۹۴۷ء۔پھول اور کلیاں :مو ئفہ آغا شیدا کا شمیری شا ئع کردہ کتاب منزل لا ہور، طبع اول ۱۹۴۸ء۔ دو ست اور د شمن :مو ئفہ عبدالر شید تبسم شائع کردہ درد اکا دمی شاہ عالم گیٹ لاہور ا کتوبر ۱۹۶۵ء۔ ۲۰ ؂
شیخ صاحب ان دیباچوں میں عالمانہ ، فاضلانہ تیور نہیں دکھاتے نہ ہی ترئین و آرائشِ لفظی سے انھیں سرو کار ہے وہ سیدھے سبھاؤ اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور مصنف یا اس کی تخلیق کو کہیں طنز و تشنیع کا نشانہ نہیں بناتے بلکہ حوصلہ افزائی ان کا شعار ہے۔ سلاست ، روانی ، تازگی ، شگفتگی اور لطافت ان کی تحریر کو لائقِ مطالعہ ہی نہیں قابلِ دادبھی بناتی ہے ۔
’’ان کے لکھے ہوئے دیباچے کس قدر مکمل اور جامع ہیں۔ان میں کسی بھی پہلو سے تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کتاب اور مصنف دونوں کو سامنے رکھ کر دیباچے لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ہر مصنف کی یہی کو شش ہوتی تھی کہ اس کی کتاب پر دیباچہ شیخ صاحب ہی لکھیں۔ چاہے اس کے لیے انھیں کتنا ہی انتظار کیوں نہ کر نا پڑے۔’’شیخ صاحب کے تحر یر کردہ د یباچے نہ صرف ادبی لحاظ سے بلند مرتبہ تھے بلکہ صنفِ دیباچہ نگاری میں بھی ایک مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘۲۱؂




حوالہ جات:
۱۔ محمد حنیف شاہد: مرتب،۱۹۸۶ء،’’ مقالاتِ عبد القادر‘‘، لاہورمجلسِ ترقیء ادب،ص ۷
۲۔ شیخ عبد القادر ، ۱۹۹۹ء،’’ دیباچہ بانگِ درا ‘‘مشمولہ ،کلیاتِ اقبال ، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن،ص۱۹تا ۳۱
۳۔ممتازحسن:مرتبہ،۱۹۷۳ء ’’اقبال اور عبد الحق‘‘،لاہورمجلسِ ترقیء ادب، ص ۱۱
۴۔ شیخ عبد القادر ، دیباچہ ، ۱۹۹۹ء،’’دیباچہ بانگِ درا‘‘ مشمولہ ،کلیاتِ اقبال ، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن،ص۱۹تا ۳۱
۵۔ممتازحسن:مرتبہ،۱۹۷۳ء ’’اقبال اور عبد الحق‘‘،لاہورمجلسِ ترقیء ادب، ص ۱۱
۶۔محمد حنیف شاہد: ۱۹۷۲ء،’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور ، بزمِ اقبال ، کلب روڈ ص۵۵
۷۔ شیخ عبد القادر’’یادِ اقبال‘‘ ، مشمولہ’’ نذرِ اقبال‘‘، ص ۶۷
۸۔ ۔محمد حنیف شاہد،۱۹۷۲ء،’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور ، بزمِ اقبال ، کلب روڈص ۸۴
۹۔ سر شیخ عبد القادر،۱۹۸۳ء،’’ دیباچہ طبع ثانی ۔ کلامِ غلام بھیک نیرنگ‘‘ ،ص ۷ ۴
۱۰۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف) ،۱۹۶۰ء،’’شیخ سر عبدالقادر،دو دیباچے‘‘ مشمولہ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص۷۲
۱۱۔ سر شیخ عبد القادر،’’ دیباچہ شاہ نامہ ء اسلام ‘‘، جلد اول ، ص، ۲۳۔۱۵
۱۲۔ شیر محمد اختر،’’ عبدالقادر زندہ رہیں گے‘‘، مشمولہ اوراقِ نو ،ص ۱۴۴
۱۲۔ جگن ناتھ آزاد،’’ شیخ عبدالقادر سے چند یادگار ملاقا تیں‘‘، مشمولہ انتخاب از مخزن،ص۱۱۸
۱۴۔ ریاض قادر ’’ اک شمع رہ گئی تھی ‘‘ مشمولہ ’’ اوراقِ نو ‘‘ شیخ عبد القادر پر خصوصی اشاعت ، ص ۲۱
۱۵۔ شیخ عبد القادر۱۹۸۶ء،’’فنِ تنقید‘‘ ، مشمولہ مقالاتِ عبد القادر، ص ۲۰۳
۶ ۱۔سید جمیل واسطی،۱۹۴۸ء ،’’فکر جمیل ‘‘، کراچی، بشیر اینڈ سنز ،ص۶
۷ ۱۔محمد عبد اللہ قریشی ،۱۹۷۷ء، ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘لاہور،مجلس ترقیِ ادب ، ص ، ۵۸۴
۱۸۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف) ،۱۹۶۰ء ،’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ،۱۱ دسمبر ۱۹۴۰
۱۹۔برجیس ارشاد سے مکالمہ
۲۰۔ محمد حنیف شاہد، ۱۹۹۲ء، ’’ سر شیخ عبدالقادر، کتابیات‘‘ اسلام آباد ، مقتدرہ قومی زبانِِ،ص ۳۰
۲۱۔ محمد نصیر ہمایوں موء لفہ ’’شیخ سر عبدالقادر،دو دیباچے‘‘ مشمولہ’’ شیخ عبد القادر‘‘ ،ص۷۶


کتابیات:
اقبال ،علامہ محمد، ۱۹۹۹ء،’’ بانگِ درا‘‘ مشمولہ ،کلیاتِ اقبال ، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن،
جمیل واسطی سید،مو ئفہ، ۱۹۴۸ء،’’فکر جمیل‘‘ ،کراچی،بشیر اینڈ سنز ،
حفیظ جالندھری،۱۹۳۳ء،’’شاہ نامہ ء اسلام‘‘ ، جلد اول
شاہد، محمد حنیف ، ۱۹۹۲ء، ’’ سر شیخ عبدالقادر، کتابیات‘‘ اسلام آباد ، مقتدرہ قومی زبان
شاہد،محمد حنیف ، ۱۹۷۲ء،’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور ، بزمِ اقبال ، کلب روڈ
شاہد،محمد حنیف ،۱۹۷۲ء،’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘ ، مجلس ترقی ادب لاہور
شاہد،محمد حنیف ،۱۹۸۶ء،’’مقالاتِ عبدالقادر ‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور
قریشی، محمد عبداللہ ۱۹۷۷ء ،’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘ ، لاہور ، مجلسِ ترقی ادب
ملا واحدی ، ۲۰۰۴ء ،’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘ ، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس
ممتاز حسن ، ڈاکٹر، مرتبہ : ۱۹۷۳ء’’اقبال اور عبد الحق‘‘لاہور، مجلسِ ترقی ادب
نیرنگ، سید غلام بھیک، ۱۹۸۳ء مرتبہ: ڈاکٹر معین الین عقیل،’’ کلامِ نیرنگ‘‘ کراچی، مکتبہ اسلوب
ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف) ،۱۹۶۰ء ،’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ

رسائل:
احمدسلیم ، ۲۰۰۴ء ’’انتخاب مخزن‘‘، لاہور ، سنگِ میل پبلی کیشنز
ریاض قادر ، ناصر کاظمی ، مدیران ،۱۹۵۰ء ’’ اوراقِ نو ‘‘ شیخ عبد القادر پر خصوصی اشاعت

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com