محمد علی صدیقی کی تنقید نگاری
ڈاکٹر قاضی عابد
Abstract :


This paper depicts the salient features of the whole critical works of Dr. Mohammad Ali Siddique in the context of Progressive Writers Movement. It has been discussed that Dr. Siddique has shown his interest in six main fields of criticism such as theoretical criticism, poetics, Urdu fiction, Western influence on Urdu criticism, literary his and special studies of some important literary figures like Sir Syed Ahmad Khan, Ghalib, Iqbal and Josh Malihabadi. His work has proven its worth in the fields of criticism. Dr. Siddique may easily inculcated in the list of Urdu critics like Ihtasham Hussain, MumtazHussain and other great critics associate with progressive writers movement .

ڈاکٹر محمد علی صدیقی]۱[اُردو کے اُن اہم ناقدین میں شامل ہیں جن کے ذکر کے بغیر اُردو تنقید کی کوئی بھی تاریخ مکمل قرار نہیں دی جا سکتی۔ اُن کی تنقید ترقی پسند تحریک کے ساتھ اٹوٹ وابستگی کی حامل ہے لیکن انہوں نے یہ سارا سفر ایک مقلد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مجتہد کی طرح کیا ہے۔انہوں نے اُردو تنقید کو ایک ایسے دور میں ثروت مند بنایا جب ترقی پسند ناقدین کی ابتدائی نسل اپنا سفر مکمل کرکے تھک چکی تھی اور اِس زاویہ فکر کو نژادِ نو کی ضرورت تھی۔سجاد ظہیر ، احتشام حسین، علی سردار جعفری ، قمر رئیس، محمد حسن وغیرہ اپنا بہترین کام اُردو دنیا کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ اور اپنی اپنی بساط بھر کوششوں سے ترقی پسند تنقید کی روایت قائم کر چکے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب جدیدیت کی رو حلقۂاربابِ ذوق کی تنقیدی کاوشوں کو ترقی پسند تحریک کی مخالفت میں استعمال کرنا شروع کر چکی تھی ۔یہ منظر تو پاکستان کی حد تک تھا۔ہندوستان میں خود جدیدیت شمس الرحمن فاروقی کی قیادت میں ان کے معروف جریدے ’شبِ خون‘ کی مدد سے ترقی پسندوں کے خلاف ایک محاذ قائم کر رہی تھی۔اوردلچسپ امر یہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی اور’شبِ خون‘ کو شمیم حنفی اور ابولکلام قاسمی یا قاضی افضال حسین جیسے ذہین مقلدین (مقلدین کی نسبت رفقاء کہنا زیادہ بہتر ہے) تو بعد میں میسر آئے ۔ابتدائی ہنگامہ برپا کرنے مجاہدین باقر مہدی ،وارث علوی ،وحید اختر اور مہذب اختلاف کرنے والے ناقدین آلِ احمد سرور، خلیل الرحمن اعظمی اور دیگر تو خود ترقی پسندتحریک کو چھوڑکر جدیدیت کے محاذ پر اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرانے لگے۔یہ سب کیوں ہوا اس سوال کا جواب دلچسپ بھی ہے اور شاید سبق آموز بھی ۔لیکن اس سب سے بڑھ کر یہ کہ ہندوستان او ر پاکستان دونوں ممالک میں اس طرح کی نئی صف بندیوں کے محرکات بالکل مختلف تھے۔ہندوستان میں یہ ہوا کہ آزادی کے فوراًبعد یہ ہوا کہ ترقی پسند تحریک کے سر برآوردہ لیکھک کانگرس کے ساتھ اس طرح منسلک ہوئے کہ وہاں ان کے بارے میں یہ تاثر اُبھرا اور بڑی شدت سے اُبھرا کہ وہ ہندوستان کی سول بیوروکریسی یا اشرافیہ کا حصہ بن گئے ہیں اور ان مواقع پر جہاں حکومت کی کچھ پالیسیوں یا اقدامات پر ان کا ردِ عمل احتجاج کی صورت میں سامنے آنا چاہیے تھاوہاں پر وہ ہندوستانی اشرافیہ یا سول بیوروکریسی یا حکومت کی ان بے رحم پالیسیوں کے حق میں بیان جاری کرنے لگے۔یوں ایک طرح سے انہوں نے ترقی پسند تحریک کی اس روشن روایت سے رو گردانی کا شائبہ پیدا کیا جو روزِ ازل سے اس کا منشور تھی ٗ یہی وجہ ہے کہ باقر مہدی اور وحید اختر جیسے کمٹڈ لوگ بھی وارث علوی اور خلیل الرحمن اعظمی کی طرح ترقی پسند تحریک سے اس طرح دور ہوئے کہ انہوں نے ترقی پسندوں کی مخالفت کا بازار گرم کردیا۔پاکستان میں یہ ہوا کہ آزادی کے بعد امریکی اثرونفوذ نے ترقی پسندوں کاجینا دو بھر کر دیا۔مختلف حکومتوں نے ترقی پسندوں کو ہمارے معاشرے کے اندر مشکوک بتانا شروع کر دیا۔انہوں ایک طرف تو غدار، غیر ملکی ایجنٹ اور لا مذہب قرار دینے کی کوشش کی گئی دوسری طرف نام نہاد بابائے تصوف قدرت اللہ شہاب کے ذریعے رائٹرز گلڈ کی ترغیبات وتحریصات کے ذریعے بھی ترقی پسندادیبوں کو ان کے نقطہ نظر سے دور کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ۔تیسری طرف ردِعمل میں خود ترقی پسندوں نے بھی اپنے دل اور دروازے بند کرنے میں نجانے کیا عافیت محسوس کی کہ ایک طرف ہندوستان میں بیدی اور عصمت جیسے تخلیق کاروں کو مطعون قرار دے کر تحریک سے نکالا گیا تو دوسری طرف پاکستان میں بھی اس تحریک سے منسلک مختلف ادیبوں کے ساتھ یہی عمل دہرایا گیا۔اس پسِ منظر میں اگر ہم غیر جانبداری کے ساتھ تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نئے تخلیق کاروں اور ناقدین کے لیے ترقی پسند تحریک مختلف وجوہات کی بنیاد پر کوہِ ندا کا درجہ نہیں رکھتی تھی بلکہ ایسے دور میں اس تحریک سے ساتھ اپنے تخلیقی یا تنقیدی سفر کو آغاز کرنے کا عمل صرف اپنے باطن کر اندر موجودایک وابستگی یا کمٹ منٹ کی وجہ سے ہی ممکن تھا۔سو محمد علی صدیقی کے باب میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
انہوں نے شعوری طور پر اپنے آپ کو ترقی پسند فکر اور تحریک کے ساتھ ہم مزاج اور ہم آواز پایا۔انہوں نے ۱۹۵۸ء سے تنقیدی مضامین لکھنے شروع کیے اور بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے تنقید کی دنیا میں اپنا اعتبار قائم کیا۔تنقیدی سفر کے آغاز کے بہت ہی کم عرصے بعد ان کا شمار ترقی پسند تحریک کے اہم ناقدین میں ہونے لگا۔ان کی تنقید کے کئی اختصاص ہیں ،وہ ایک وسیع المطالعہ ، وسیع المشرب اور کھلے ذہن کے ناقد ہیں جنہوں نے ترقی پسند فکر کے ساتھ اپنی اٹوٹ وابستگی کے باوجود اپنے سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے ادیبوں اور ناقدین کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے۔انہوں نے اپنے پیش رو ترقی پسند ناقدین کے بہترین تنقیدی وژن سے تو یقیناًبہت کچھ سیکھا اور اخذ کیا لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیش رو ناقدین کی غلطیوں کو نہیں دہرایا۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا انگریزی ، فارسی اور اُردو ادب کا وسیع مطالعہ ان کی تنقید کو کثیر الجہات بنا دیتا ہے ۔ان کی تنقید فن پارے کی فکری سطحوں اور پرتوں کو ان کے مطالعاتی پسِ منظر میں قاری کے سامنے یوں کھولتی ہے کہ ہر تنقید پارے کی تمام فکری جہات قاری کے سامنے روشن تر ہو جاتی ہے۔
انہوں نے جہاں ایک طرف نظری مباحث پر قلم اُٹھایا ہے وہیں انہوں نے مغرب کی دنیا میں متعارف ہونے والے نئے تنقیدی معائراور تحریکوں سے اپنی گہری شناسائی کا ثبوت یوں دیا ہے کہ انہوں نے جدیدیت، ساختیات اور مابعد جدیدیت پر اس زمانے میں تنقیدی نظر ڈالی جب اُردو کے ناقدین ان تنقیدی رویوں سے شناسا ہی نہیں تھے۔انہوں نے ۱۹۷۵ء میں اس لسانی روایت کو اُردو میں نہ صرف متعارف کروایا جس نے مغربی تنقید کے زمین و آسمان بدل ڈالے تھے بلکہ اس فکری روایت کو اپنے یوں موضوع بتایا کہ ان کے معائب اور محاسن روشن تر ہوتے چلے گئے۔یوں محمد علی صدیقی نے اپنے ہم عصروں سے دس پندرہ برس پہلے جدید تنقیدی رویّوں کے ساتھ اپنے علمی انہماک اور شغف کا ثبوت دیا۔انہوں نے اپنے قاری کو محسوس کرائے بغیر عین اسی وقت جب مغرب میں پسِ نو آبادیاتی تنقیدی مطالعے کی منہاج کے اُصول وضع کیے جا رہے تھے، اپنے تنقیدی عمل میں اس رویّے کو جگہ دی۔بعد میں انہوں نے ما بعد جدیدیت پر بھی اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار بڑے سلیقے سے کیا۔اُردو میں جدید مغربی تنقیدی رویّوں اور تحریکوں کے خلاف جس قدر مہذب انداز میں شائستگی کے ساتھ محمد علی صدیقی نے قلم اُٹھایا ہے،وہ شاید اُردو کے کسی اور ناقد کے ہاں نظر نہیں آتا۔
انہوں نے اُردو کی ادبی روایت کے مختلف اظہاری پیمانوں ( شاعری، ناول، افسانہ) پر خوبصورت عمل تنقید بھی لکھی اور اُردو کی ادبی روایات کے سر بر آوردگان غالب، سر سید، اقبال اور جوش ملیح آبادی کو بھی اپنا تنقیدی اختصاص بنایا، انہوں نے ان چار ادیبوں سے جو کتابیں تالیف کی ہیں وہ ایک اور طرف بھی اشارہ کر رہی ہیں کہ نقاد محمد علی صدیقی نے اپنے اندر کے اس محقق محمد علی صدیقی کو بھی پورے طور پر دریافت کر لیا ہے۔ جو اس سے پہلے صرف پس منظر میں رہ کر اُن کے تنقیدی عمل کو بصیرت فراہم کرتا تھا۔ یوں انہوں نے اپنے تنقیدی سفر کے اس موڑ پر اپنی تنقید کو تحقیقی انتقاد سے سے معتبر تر کرنے کی مشکور سعی کی ہے۔ یہاں پر اُن کی تنقید کو چھ مختلف زُمروں میں تقسیم کر کے گفتگو کی جائے گی۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی تنقید کا پہلا اختصاص اس کا نظری ہونا ہے۔ اُردو تنقید میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نظری مباحث کو اپنی تنقید کے دائرہ عمل کا اہم حصہ یا جزو بنایا ہو اور اپنی عملی تنقید میں اپنے ہی جلائے ہوئے اس چراغ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تنقید کو روشن تر کیا ہو ورنہ عام طور پر اُردو کے ناقدین نے مانگے کی روشنی سے تخلیق کی دنیا کو منور کرنے کی بجائے مزید دھندلا دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اپنے مضامین میں ادب اور معاشرے کے تعلق کے مختلف پہلوؤں سے نظریہ سازی کرنے کی کاوش کئی عنوانات سے کی ہے۔ ان کے نزدیک ادب ایک سماجی عمل ہے اور سماج میں ایسا بھی ہوتا ہے اور سماج کی فکر و تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ ادب کو مقصود بالذات قسم کی کوئی شے سمجھنے کی بجائے اس کے سماجی تفاعل کے مدعی ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ادب پارہ یا فن پارہ ایک ایسا عمل انگیز ہے جو مختلف اقسام کے سماجی تفاعلات کا باعث بنتا ہے۔ یوں ادب کے کچھ عمومی تقاضے ہوتے ہیں، اس کا کسی بھی معاشرت اور ثقافت سے اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے اور ادب کا ایک جمہوری مزاج ہوتا ہے۔ اس کا مزاج، جمہوری اس لیے ہوتا ہے کہ وہ جمہور کے لئے ہوتا ہیے۔ انہوں نے اپنے مضمون ادب کے عصری تقاضے: میں ادب کی اسی ذمے داری کی طرف اشارے کیے ہیں۔ ان کے نزدیک ادب زندگی میں در آنے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کو نہ صرف محسوس کراتا ہے بلکہ ادیب اور تخلیق کار کا وژن اس تبدیلی سے بھی بہت پہلے اس کا ادراک کر لیتاہے اور وہ اپنے اس ادراک میں اپنے لوگوں کو شامل کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ یوں اس کا یہ فریضہ اس نغمے میں ڈھل جاتا ہے جسے سماجی معنویت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں اس سماجی معنویت کے نغمے میں دوسروں کی شرکت ہی اسے بامعنی بتاتی ہے اور اگر تاج کا یا کسی بھی زمانے کا ادیب اسے اپنے اس فریضے سے کسی بھی عنوان سے خواہ وہ عدم وابستگی کا ہو یا فن کی حرمت کے نام پر جدیدیت کا یا پھر انفرادیت پسندی کا بالآخر ایک ایسا امر ہے جو کسی بھی طور پر پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
’’ ہم اپنے پندار پر نظر ڈالتے ہیں تو کسی قدر رومان اوررجائیت کا اب بھی بول بالا نظر آتا ہے۔ کچھ سوچنے والے اگر بے اعتمادی اور کلبیت کے شکار ملتے ہیں تو ادیبوں کی ایک پوری کھیپ کیلئے زندگی ایک حسین خواب کی تعبیر بھی ہے۔ سیاسی عمل سے اس بلد کی خوش عقیدگی کا دور دورہ ہے کہ سیاسی غیر جانبداری مجرمانہ فعل بن کر رہ گئی ہے۔ جدید دنیا میں متوسط طبقے کے ذہین لوگوں اور عوام الناس کے درمیان ایک زبر دست بعد نظر آرہا ہے۔ سیاسی قیادت کے سوتے کھیتوں اور ملوں میں پھوٹ رہے ہیں اور فنکاروں کے لئے اس شدتِ جذبات کا ساتھ دینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ جو پیچیدہ معاشی رشتوں میں جکڑے ہوئے مجبور عوام کے اذہان پر طاری ہے۔ ‘‘ ]۲[
محمد علی صدیقی کا خیال ہے کہ ہر عصر اپنے خاص طرح کے تقاضے لکھنے والے کے سامنے رکھتا ہے اور لکھنے والے اپنے عہد کی سچائی کا گواہ ہوتا ہے اور جب یہ گواہی دیتا ہے تو یہی عمل تخلیقی عمل کہلاتا ہے جسے اس کے عصر سے الگ کر کے بھی نہین دیکھا جاسکتا۔
محمد علی صدیقی نے اپنی نظری تنقید میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے امتیازات کی وضاحت کے ساتھ یاسیت اورما بعد الطبیعات کے تعلق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ترقی پسندی ہی دراصل جدیدیت ہے اور جدیدیت کے نام پر یاسیت کی مابعد الطبیعات کے فروغ کے لئے جو کچھ لکھا جارہاہے وہ ادب کے عصری تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ ہر عہد کا انسان جو دکھ اُٹھاتا ہے وہی اس پر کشف اور ادراک کے در بھی کھولتا ہے لیکن دکھ کے بیان کو یا غم کے اظہار کو یاسیت پرستی میں ڈھال دینا اور انسان کی آنکھوں کے خوا ب اور دلوں کی رجائیت کو چھین لینا دراصل کارگاہِ زندگی میں طوفان حوادث کے مقابل اسے تنہا چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔
محمد علی صدیقی کی یہ رائے بے حد دقعت کی حامل ہے کہ یاسیت پرستی بالآخر انسان کو اس منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ عمل سے اس حد تک بے گانہ ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی کی محبت سے بھی دستبردار ہو جاتا ہے اور زندگی کی محبت سے دستبرداری انسان ہونے کے عمل سے ہی انکار ہے۔ دراصل ہر وہ تخلیق کار جو ادب اور افادیت کے حوالے سے ایک خاص نقطہ نظر کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اقبال ہو یا پریم چند یا پھر محمد علی صدیقی وہ ہیئت پسندی کو زندگی کی فعالیت اور زندگی سے مربوط اور مشروط تخلیقی عمل کے لئے زہرقاتل ہی تصور کرتے ہیں اقبال نے بھی اسرارِ خودی میں افلاطون اور حافظ شیرازی کے فطری میلانات کی تقریباً مذمت کی تھی جو ان کے خیال میں ایک طویل دور تک انسانوں اور زندگی کی محبت کے درمیان بُعد یا فصل پیدا کرتے رہے کیونکہ اقبال کے نزدیک بھی زندگی سے محبت ہی زندگی کی خوبصورت اور حسن کی دریافت نو یا تخلیق فکر کا محرک اول بنتی ہے اور انسان کو عمل پر اکساتی ہے اب یہ بات بہت عجیب ہے کہ شمس الرحمان فاروقی، شمیم حنفی ، تحسین فراقی اور سہیل عمر جیسے ناقدین اقبال کے ہاں تو اس عمل کی تحسین پر خود کو آمادہ پاتے ہیں لیکن ترقی پسندوں کی رجائیت دوستی اور زندگی سے محبت کا یہ عمل انہیں ان کی تنقیص پر مجبور کر دیتا ہے۔ محمد علی صدیقی نے ترقی پسندی، جدیدیت، یاسیت اور اس کی ما بعد الطبیعات پر جو کچھ لکھا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور ادب کاایک خاص ذوق رکھنے والے طبقے کے لئے خاصا چشم کشا بھی ہے ایک دو اقتباسات دیکھئے۔
’’ جدیدیت کی پناہیں مستقبل ہی میں نہیں بلکہ ماضی میں بھی ہوتی ہیں۔ روایت ماضی و حال کے مابین ایک میثاق کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ مستقبل کی طرف جست مارنے اور ماضی بعید میں ہچکولے لینے سے کم و بیش برابر ہی اثر انداز ہوتی ہے۔ نتیجتاً جب بادلئیر رومان پسندی اور فطرت پسندی کے دور کے بعد علامت پسندی کی طرف لوٹتے ہیں تو از منہ وسطیٰ میں پناہیں تلاش کرنا جدیدیت ٹھہرتا ہے اور یہی سب کچھ اہلیت کے ساتھ بھی ہوا وہ ہر لحاظ سے ایک رجعت پسند شاعر ہیں۔ ‘‘ ]۳[
’’ ہیئت ہی تجربوں اور ہم عصر مسیت کی مدد سے اسلوب میں تنوع اور تازگی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن شاعرانہ نے فکرصرف لہجہ کی تازگی اور شادابی کی وجہ سے ترقی پسند نہیں ٹھہرتی۔ ترقی پسند فکر انسان و سماج اور انسان اور کائنات کے درمیان تناقضات سے پاک سوچ سے عبارت ہے۔ انسانوں کے لئے لکھا جانے والا ادب ان کی خوشیوں مایوسیوں کے باب میں اس لیے غیر جانبدار نہیں ہو سکتا کہ فن کار ایک فرد رہتے ہوئے بھی اجتماعی بہبود کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے قارئین کو ظلم اور بد صورتی کے خلاف لڑنے کے لئے گہرے اور رنگا رنگ تجربات اور مشاہدات بہم پہنچا سکتا ہے۔ ‘‘ ]۴[
’’ شوین ہار تو اسلام کو بھی اس لیے نا پسند کرتا تھا کہ اس مذہب میں سماجی سسٹم پر زور ہے اورنا امیدی حرام سماجی سسٹم اور امید تو ترقی پسندوں کے یہاں بھی محترم ہیں اور یہ ایک ایسا زاویہ نگاہ ہے جو مذہبی احیاء کے دعوے داروں کو سماجی ترقی پسندوں کے قریب لاتا ہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ مذہبی جمالیات کے سارے راستے سریت، جنگل دائروں، گھپ اندھیروں کی طرف جاتے ہیں تو پھر تجربیت پسند حقیقت اور جدید نظریہ علمی کو اچھوت بنانے پر مصر روشن خیال رجعت پسندوں کو مجذوب کیوں نہ سمجھا جائے جو حقائق اس طرح صرف نظر کیے ہوتے ہیں جس طرح ان کی خانقاہوں کی سیلن میدانوں کی دھوپ سے۔‘‘ ]۵[

’’ دراصل پاؤنڈ انیسویں صدی کے آخر میں ترقی پسندانہ نظریات کے وفورسے برہم ہیں اور وہ کروچے کی پیروی میں ادب کی خود مختاری اور زندگی گریزی کے قائل ہیں تاکہ رجائیت کو قلم روئے ادب سے یکسر خارج کر دیا جائے تاکہ وہ نطشے کے اس خیال پر کہ ’’ کامل فن کار وہ ہے جو حقیقت سے بالکل دور ہو‘‘ اپنی مہر تصدیق ثبت کر سکیں اور برناڈشا اور ابسن کی حقیقت نگاری کے خلاف ایک مہاذ بناسکیں۔ ’ سب کچھ باطل ہے‘ کے نظریہ اور اندھی ( Will ) سے انکار کے بعد ’’ لا‘‘ کی طرف رجعت ہی قنوطیت کی مابعد الطبیعات کا حرفِ اوّل ہے اور اسی حرفِ اوّل کے سحر سے بچ نکلنے کا جذبہ نئے انسان کی فعال وابستگی بن کر رہ گیا ہے۔‘‘ ]۶[
ان نظری مباحث میں محمد علی صدیقی نے اپنی عمل تنقید کے رہنما اُصول وضع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قاری کے لئے اشارے بھی چھوڑے ہیں کہ انہیں تنقید کی دنیا میں کن امور سے زیادہ دلچسپی ہے۔ محمد علی صدیقی کی تنقید کا اگلا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے نظری سطح پر جو کچھ کہا ہے یا انہوں نے اپنی فکر کی جو نظری تشکیل کی ہے۔ اس کی اساس پر انہوں نے عملی تنقید بھی پیش کی ہے۔ اُن کے ہاں عملی تنقید کے کئی پہلو ہیں۔ انہوں نے شاعری اور افسانے کے علاوہ ناول اور دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ مختلف بڑے تخلیق کاروں کو بھی اپنے تنقیدی عمل کا حصہ بنایا ہے۔ جن میں غالب، سر سید، اقبال، جوش اور فیض پر انہوں نے زیادہ لکھا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’ نئی اُردو شاعری کی فلسفیانہ اساس‘‘ میں ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت اور نئی لسانی تشکیلات کے حوالے سے تخلیق ہونے والی شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ شاعری محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہے اور زندگی سے کوئی بامعنی ربط تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ بھی جدت اور جدیدیت کے نام پر یاسیت پھیلاتی ہے اور اس کی فکری اساس میں مغرب کے وہ شاعر اور ادیب شامل ہیں جو زندگی کو کوئی بامعنی عمل سمجھنے کی بجائے اسے محض لایعینت کا حوالہ قرار دیتے ہیں۔ یہ شاعری انسان کی انسانیت سے بھی کئی پہلوؤں سے انکارکرتی ہے اس لیے اس کے اس پر ڈارون وغیرہ کے غیر شعوری یا پھر شعوری لیکن غیر شعوری دکھائی دینے والے اثرات اس طرح مرتسم ہوئے ہیں کہ وہ انسان کے شرفِ آدمیت سے انکار کو اہم سمجھتے ہیں۔ اپنے زمانے کے مختلف شعری دھاروں کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ پاکستان میں نئی شاعری کے ہوا خواہ کسی ایک گروپ سے تعلق نہیں رکھتے اگر ایک گروہ پرانے علم الکلام اور متصوفانہ نظریات کی معطر فضاؤں میں رجعت کا خواہاں ہے تو دوسرا ’’ ویجنسائن ‘‘ دوست اور تجربیت دشمن ہے اور تیسرا جدید نظم کے مینی فیسٹوکی ابتدا سے کرتا ہے۔ بظاہر یہ کوئی مربوط اور منظم گروہ نہیں بلکہ لسانی تشکیلات کے متصوفانہ خیال سے پرائیویٹ طور سے لطف اندوز ہونے والا ایک متضاد گروہ ہے۔ جو تعمیر و ترقی کی قوتوں کی وضاحت پسندی اور متاثر کن طاقت کو زائل کرنے کے لئے لفظی، توصیفی اور جذبہ انگیز (Verbal, Qualitative &Emotive ) اظہار کو ہدف ملامت بناتا ہے اور خود اپنی شاعری کو ممیز کل اور جدا (Discreet, Total are individual ) قرار دے کر شعری اضافیت کے فروغ سے شعراء کو سیاسی و سماجی وابستگی کے آورشوں سے ہٹا کر خانقاہوں کے سپرد کر دینا چاہتا ہے۔ ‘‘ ]۷[
یہ مضمون ۱۹۷۵ء میں تحریر کیا گیا جب اس قماش کی شاعری کا چرچا اور شور وغوغا از حد زیادہ تھا آج اس تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو، محمد علی صدیقی سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ ادب سے اگر اس کی زندگی زاقوت چھین لی جائے تو وہ محض الفاظ کا بے جان اور بے روح مجموعہ ہوتا ہے ادب یا شاعری نہیں کہلا یا جاسکتا۔ ہم عصر شاعری کے ساتھ ساتھ محمد علی صدیقی نے امیر خسرو اور شاہ عبد اللطیف بھٹائی پر قلم اُٹھاتے ہوئے ان کے تخلیقی عمل کی مختلف جہات کی طرف بامعنی اشارے کیے ہیں۔
’’ اس لیے ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم امیر خسرو کو سہل انگاری کی وجہ سے کوئی ایسا نقطہ خیال نہ کر بیٹھیں جس کے بعد سے ہماری مرضی کے مطابق تہذیبی ڈرامہ شروع ہوتا ہے۔ تاریخ ہمارے تعصبات اور کم ہمتی کو حقارت سے ٹھکرا دیتی ہے۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم امیر خسرو کو ایک بہت طویل سفر کا ایک سنگ میل فرض کریں۔ جو ہمارے لیے اس قدردورہو چلا ہے کہ ہم امیر خسرو کے پار زیادہ دور تک اور دیر تک دیکھنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ یا پھردیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ مشترکہ تہذیب کی بات ہو یا تصوف کی۔ سیکولرازم کا معاملہ یو یا موجودہ معنوں میں رواداری ہوہم اپنی آسانی کے لئے امیر خسرو سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہماری دانست میں غزنی، غوری، خاندان، غلاماں تغلق اور خلجی دورمیں کیا ہوا ہے کہ چند ایک بادشاہ ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چند فقیر منش لوگ جو بادشاہوں کے ہم رکاب ہیں یا پھر وہ جو دربار سے دوربے لاگ زندگی گزارتے ہیں اور بس۔‘‘ ]۸[
’’شاہ صاحب نے اپنی شاعری سے زبر دست سماجی و سیاسی کام لیا ہے۔ انہوں نے شعوری طورپر ایک ایسے معاشرے کے حق میں آواز اُٹھائی ہے۔ جو خیر و عدل کے تقاضے پورے کرتا ہو، جہاں زبر دست اور زیر دست طبقات کی شکل اختیار نہ کیے ہوئے ہوں۔جہاں ماروی اپنی مرضی کے بغیر وطن سے جدائی پرغم و اندوہ کے بین کرنے پر مجبور نہ کی جا سکے۔یہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ جہاں محبوب اور عاشق ایک دوسرے کو اپنے روحوں کی گہرائیوں سے چاہ سکتے ہوں اور مجازی و حقیقی حقیقتیں یک رنگ ہو سکیں۔ ‘‘ ]۹[
ہم عصر شاعری پر لکھتے ہوئے محمد علی صدیقی نے فیض کی تخلیقی جہات کی متنوع صورتوں سے بہت بار اپنے مضامین میں بحث کی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ فیض کا شاعرانہ لہجہ جادوگری کاحامل ہے، وہ ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے سماجی شعورکو بہت کامیابی سے نغمے میں ڈھال دیا ہے، جو خوبی فیض کو اپنے حلقے میں یا پھر برونِ حلقہ ممتاز کرتی ہے وہ اظہار پر قدرت کے ساتھ ساتھ خودِ فیض کے لفظوں میں مشاہدے کی نسبت مجاہدہ ہے لیکن جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ ایک کلی کیفیت جو فیض کو فیض بناتی ہے۔
’’ فیض کے شعری اسلوب کی مخالفت کا ایک سبب تو صرف اس وجہ ہی سے عیاں ہے کہ فیض نے اپنی فکر کے ساتھ جس اعلیٰ پایہ کی صناعی کو ہم رنگ کیا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ فیض کی فکر پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ فیض کی صناعی پر ناک بھوں چڑھائی جاسکتی ہے اور فیض کی شعری زبان کی بعض جدت طرازیوں پر اُنگلی بھی اُٹھائی جاسکتی ہے۔ لیکن جب یہ تمام اجزاء فکر ضاعی اور ندرت جوئی، بہم ہوکر اپنا Mosaic ترتیب دے چکتے ہیں تو پھر سارے حملے بیکار ہوجاتے ہیں۔‘ ‘ ] ۱۰[
محمد علی صدیقی نے شاعری پر عملی تنقید لکھتے تھے ساتھ ساتھ اُردوافسانے پر بھی بے حد معنی خیز مطالعات پیش کیے ہیں۔ انہوں نے جہاں اُردو افسانے کی تاریخ کے ایک گوشے کا اختصاصی مطالعہ کیا ہے وہیں پر اُردو کے اہم ترین افسانہ نگاروں پر خوبصورت تنقیدی محاکمے تحریر کیے ہیں۔ انہوں نے پریم چند سے لیکر احمد داؤد تک کے تخلیقی عمل کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے اور ان افسانہ نگاروں کی فکر اور فن کے کئی ایسے نکات ہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے جن پر اس سے پہلے بہت کم لوگوں نے کچھ لکھا تھا۔ کرشن چندر اور مسعود اشعر پر محمد علی صدیقی کے مضامین افسانے کی تنقید کو ثروت مند بنانے میں بے حد کامیاب رہتے ہیں۔
محمد علی صدیقی نے اپنے کچھ مضامین میں ادبی تاریخ کے کچھ کم روشن منطقوں پر بھی قلم اُٹھایا ہے اس ضمن میں اُن کے مضامین محمد حسن عسکری کا دائرہ سفر، گذشتہ دس سال کے ادبی رجحانات اور نو آزاد ممالک کے ادب کا پس منظر بے حد اہم ہیں اور ہماری ادبی تاریخ کے ایسے رُخ کو روشن کرتے ہیں جو اس سے پہلے ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا۔
محمد علی صدیقی کی تنقید کا سب سے اہم حوالہ جدید مغربی تنقیدی رویوں اور رجحانات سے اُن کی خلاقانہ شناسائی ہے۔ 1975ء میں جب عسکری کے علاوہ ہمارا کوئی بھی ناقد ساختیات اور لسانیات کے حوالے سے مغربی تنقید کے بدلتے ہوئے ذہین اور آسمان سے شناسائی کا حامل نہ تھا۔ ایک ایسے دور میں جب ان تنقیدی مباحث کو روشناس کرانے والے ناقدین ابھی تک جدیدیت کے بے مہر آسمان تلے بے گانگی کا احساس لیے کسی نئی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے محمد علی صدیقی ان نظریات کے تجزیاتی مطالعے کے بعد انہیں برصغیر کی ادبی صورتحال کیلئے موزوں تصور نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ انہوں نے ان نظریات کے عقب میں موجود مغربی سیاسی ایجنڈے کو بھی بھانپ لیا تھا۔ انہوں نے ان مضامین میں جن مباحث پر گفتگو کی ہے۔ وہ ایک علیحدہ مضمون کا تقاضا کرتا ہے۔ بہر حال ذیل کا اقتباس واضح کرتا ہے کہ انہوں نے لسانیات، ساختیات، مطالعہ جدیدیت کا جس طور مطالعہ کیا ہے وہ اپنی اُردو کا پہلا ما بعد نو آبادیاتی نقاد بنا دیتا ہے۔
’’ اسٹر کچرل ازم، منطق، طبیعات، ریاضی اورحیاتیات کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا اب لسانیات کے میدان میں قدم رکھا چکا ہے ہم اس میدان میں بڑی طاقتوں کے درمیان اعصابی جنگ کی شطرنج بچھی ہوئی دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طورپر سائبرنیٹکس کے پیچیدہ آمدت کے ذریعے رائے عامہ سازی اور زبانوں کے عالمی سیاست میں روز افزوں کردار سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ حد سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی انسان اور انسان دوستی کے حوالے سے کلیہ سازی کی بجائے وہ ہمیں وجودیاتی (Ontological ) مباحث میں الجھانا چاہتے ہیں تاکہ ہم جوہر اور ڈھانچہ (Essence &Structure ) کی بحث سے آگے نہ نکل سکیں۔ اسٹرکچرل نفسیات اور لسانیات نے سردِ جنگ میں پھنسے ہوئے انسانوں کے لئے ایک ایسا مذہب تیار کیا ہے جو انہیں چیزوں کی شیئت میں الجھا کر خود چیزوں سے الگ تھلگ کر دیتا ہے۔‘‘ ]۱۲[
اپنے مضمون ’’ ما بعد جدیدیت اور نیا عالمی نظام‘‘ میں بھی انہوں نے ما بعد جدیدیت کے حوالے سے اہم نکات کی وضاحت کی ہے۔ جو اس نظام فکر کو اس کے درست پس منظر میں سمجھنے کی ایک مشکور سعی ہے۔ ’’ ادب میں مابعد جدیدیت کے بحث اس وقت تک نا قابل ادراک رہیں گے جب تک بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کے ادبی، فکری محاذ کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ مابعد جدیدیت اصولاًجبرواکراہ کے خلاف ہے۔ یہ تمام نظریوں کے احترام کا قائل ہے اور وہ اس لیے کہ یہ معاشی محاذ پر غیر لچکدار ہونے کی وجہ سے ثقافتی محاذ میں لچک اور نرمی کو ممکن بنانا چاہتا ہے۔ ‘‘ ]۱۳[محمد علی صدیقی نے غالب، سرسید، اقبال اور جوش پر جو کتب تحریر کی ہیں وہ انیسویں صدی کے آخری نصف اور بیسویں صدی کے سیاسی، تہذیبی اور ادبی مزاج کی تفہیم میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غالب پر یقیناًاُردو میں بہت لکھا گیا ہے۔ اتنا کہ اب اگر کوئی غالب پر قلم اُٹھاتے تو اسے سوچنا پڑے گا کہ وہ غالبیات میں کیا اضافہ کر سکتا ہے لیکن محمد علی صدیقی کی یہ کتاب غالبیات میں ایک اہم اضافہ ہے اور غالب کی زندگی اورادب کے کئی قسم مستور گوشوں کو وا کرتی ہے۔ یہی صورتحال اقبال کے حوالے سے لکھی گئی کتاب تلاشِ اقبال کی ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے آغاز پر اقبالیات کے حوالے سے اہم کتاب ہے جو اقبال کو اسی کے صحیح تناظر میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جوش بلاشبہ پاکستان میں ایک معتوب شاعر ہے۔ محمد علی صدیقی نے جوش ملیح آبادی کے ادبی مقام کا تعین اس طرح کیا ہے کہ ایک طرف تو جوش کے نکتہ چینوں کو آئینہ دکھایا ہے اور دوسری طرف خود ترقی پسندوں کی طرف سے جوش کے حوالے سے خاموشی کو توڑا ہے۔ یوں اس کتاب کو ترقی پسند تنقید کی طرف سے جوش کی مکرر پذیرائی میں شمار کیاجانا چاہیے۔ سر سید احمد خان پر لکھی گئی کتاب بھی ہماری ادبی تاریخ کے کئی ایسے گوشوں کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ جس پر خاص وضع کے ناقدین نے چپ سادھ رکھی تھی۔ اکبر اور سر سید کے تعلق سے اس کتاب میں جو مواد موجود ہے وہ اکبر کے کئی ناقدین کیلئے چشم کشا ہے یہ کتاب سر سید شناسی کے حوالے سے بہت اہم کتاب ہے۔
ممتاز حسین نے ایک مصاحبے میں کہا تھا کہ بڑا نقاد وہ ہوتا ہے جو پورے کلچر کا نقاد ہوتا ہے۔ محمد علی صدیقی بلا شبہ ایسے نقاد ہیں جو اس تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ انہوں نے فن کی تفہیم میں پورے کلچر کو تنقید کے عمل سے گزار کر اپنے پڑھنے والوں کو نئی بصیرتیں فراہم کی ہیں۔ وہ اگرچہ فن پارے کے سیاسی و سماجی اور تہذیبی پس منظر سے زیادہ بحث کرتے ہیں لیکن فن کے تقاضوں کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ وہ احتشام حسین اور ممتاز حسین کے ساتھ ترقی پسند تنقید کی صفِ اول میں کھڑے ہیں۔ ناصر عباس نیر نے اُن کی تنقید نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے درست طورپر لکھا ہے کہ:
’’ ڈاکٹر محمد علی صدیقی اُردو کے ممتاز نقاد ہیں گزشتہ ربع صدی سے اُن کی آواز ترقی پسند حلقے میں معتبر اور محترم تو ہے ہی ’’ غیر ترقی پسند‘‘ تنقیدی حلقوں میں بھی ان کے افکار کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور اُن کی رائے کو ہم گردانا جاتا ہے۔‘‘ ]۱۴[
حوالہ جات؍حواشی
۱۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی ۶ مارچ۱۹۳۸ء کو امروہہ میں سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔والد کا نام علی مستحسن تھا۔کراچی یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم ۔اے کرنے کے بعدصحافت سے منسلک ہو گئے۔مطالعہ پاکستان میں پاکستانی ادبیات کے حوالے سے پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ تحریر کیااور ۱۹۸۸ء سے پاکستان سٹڈی سنٹر ،کراچی یونیورسٹی سے اُستاد کے طور پر وابستہ ہو گئے۔مارچ ۱۹۹۸ء میں وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد ہمدرد یونیورسٹی ،کراچی سے منسلک ہو گئے جہاں وہ آج کل شعبہ تعلیم و سماجی علوم کے سربراہ اور سماجی علوم کی فیکلٹی کے ڈین ہیں۔کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے اپنے شاندار تحقیقی کام پر ڈی۔لٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی ۶سال تک قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔انہوں نے بیس سے زائد امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں میں پاکستانی ادب اور میڈیا پر لیکچر دیے ہیں۔ ان کی دو کتابوں ’’توازن‘‘ اور ’’کروچے کی سرگذشت‘‘پر انہیں ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔انہیں ۲۰۰۳ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔انہوں نے چالیس سال تک روزنامہ ڈان کراچی میں ادبی موضوعات پر ہفتہ وار کالم تحریر کیاجو پاکستان کی صحافتی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔وہ مختلف ادبی رسائل و جرائد کے ادارتی بورڈ میں بھی شامل رہے ہیں۔
۲۔ محمد علی صدیقی،ڈاکٹر،نشانات،کراچی،ادارۂ عصرِ نو،۱۹۸۱ء،ص۷۷،۷۸
۳۔ محمد علی صدیقی،ڈاکٹر،توازن،کراچی،ادارۂ عصرِ نو،۱۹۷۶ء،ص۵۱
۴۔ ایضاً،ص۵۱،۵۲
۵۔ ایضاً،ص۲۱
۶۔ ایضاً،ص۲۲
۷۔ ایضاً،ص۳۰
۸۔ ایضاً،ص۱۰۰
۹۔ نشانات،ص۱۴۸
۱۰۔ مضامین،کراچی،ادارۂ عصرِ نو،۱۹۸۱ء،ص۲۱۲،۲۱۳
۱۱۔ نشانات،ص۱۱۹
۱۲۔ نشانات،ص۱۴۸
۱۳۔ جہات،کراچی،ارتقاء مطبوعات،۲۰۰۴ء،ص۱۲
۱۱۔ نا صر عباس نیّر،محمد علی صدیقی کی تنقید نگاری،مشمولہ جدید ادب،
جرمنی، ،شمارہ۱،جولائی۔دسمبر۲۰۰۳،ص۱۹

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com