مؤمن کی شاعری پر سید احمد بریلوی ؒ تحریک کے اثرات

          ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری
ولی محمد

Abstract


In indo-pak history, Syed Ahmad Shaheed jehad movement has a key importance because it was a military movement against the cruelties of Sikhs and Britains. The movement attracts the minds and sympathies of not only the common people but also the poets and writers of that time. Unfortunately, movement failed due to some basic defaults of "Mullaism" and the contrast and conflict of its basic principles with pushtoon culture and society. The present study deals that why the movement got the sympathies of Momin and what were the causes of its failures in Khyber Pakhtoonkhwa

.
            ہندوستان کی تاریخ میں انیسویں صدی مذہبی حوالے سے حرکت و حرارت کی حامل صدی ہے۔ اور اسکی بنیادی وجہ انگریزوں کا مستحکم ہوتا ہوا سیاسی اور عسکری اقتدار تھا۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ایک صدی ہندوستان کے منظر نامے پر ایسی تین جاندار تحاریک دیکھتی ہے جو مذہبی نوعیت کے اعتبار سے مختلف بھی ہیں اور بعض حوالوں سے متضاد بھی ۔ ان تحریکوں کا مزاج بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ لہٰذا سید احمد بریلویؒ کی تحریکِ جہاد کا فکری زاویہ اگر چہ روایتی اور رسمی شریعت تک محدود ہے لیکن سکھوں اور انگریزوں کے سیاسی اور عسکری اقتدار کا تختہ اُلٹنا اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔ ۱۸۵۷؁ء کی جنگِ آزادی انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی تسلط کو ختم کرنے کے لئے ہنگامی حالات میں جذباتی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتی ہے اور علی گڑھ تحریک زمینی حقائق کو تسلیم کرتی ہوئی سیاسی حوالوں سے مصلحت کا رویہ اپنا لیتی ہے جبکہ مذہبی حوالے سے سید احمد بریلوی کی مذہبی تنگ نظری کے برعکس مذہبی پیشوائیت کے تنگ و تاریک سانچے کو عقلیت کے وار سے توڑتی ہوئی بے باکانہ مستقبل کی طرف قدم اُٹھاتی ہے۔
            سید احمد بریلویؒ کی تحریک اس دور کے خاص سیاسی حالات کے تحت ظہور میں آئی تھی۔ چونکہ مومنؔ اسی دور میں سانس لینے والے شاعر ہیں ۔ لہٰذا مومنؔ پر اس تحریک کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تحریک کے مذہبی، سماجی اور سیاسی پس منظر پرروشنی ڈالی جائے اور پھر اسکی ہیئت و ماہیت واضح اور متعین کرنے کے بعد مومنؔ کی شاعری پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
            شیخ محمد اکرام تیرھویں صدی ہجری کے مسلمانوں کی سماجی اور مذہبی حالت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔
‘‘ہندوستان کا اکثر حصہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اور بہت سی معاشرتی اور مذہبی خامیاں جن پر اسلامی حکومت کے زمانے میں پردہ پڑا ہوا تھا۔ بے نقاب ہوگئیں تھیں۔ اس زمانے میں جو کتا بیں لکھی گئیں انکے مطالعہ سے خیال ہوتا ہے کہ اگر چہ شاہ ولی اﷲ ؒ اور دوسرے بزرگوں کی کوششوں سے ذی علم طبقے اسلام کے متعلق زیادہ صحیح معلومات حاصل کررہے تھے۔ لیکن عوام کی مذہبی حالت نہایت گری ہوئی تھی۔ انہوں نے ہندومذہب چھوڑ کر اسلام تو اختیار کرلیا تھا۔ لیکن اس سے ان کی روحانی حالت میں کوئی اہم تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ اگر پہلے وہ مندروں میں مورتیوں کے سامنے ما تھا ٹیکتے تھے۔ تو اب مسلمان پیروں اور قبروں کے سامنے سجدے کرتے ۔ اور ان سے مرادیں مانگتے ۔ پجاریوں اور برہمنوں کی جگہ مسلمان پیروں نے لے لی تھی۔ جنکے نزدیک انسان کی روحانی تربیت کیلئے احکامِ اسلام کی پابندی، اعمالِ حسنہ اور سنتِ نبویؐ کی پیروی ضروری نہ تھی۔ بلکہ یہی مدعا مراقبوں ، وظیفوں اور مرشد کی توجہ سے حاصل ہوجاتا تھا۔ تعویزوں اور گنڈوں کا بہت زور تھا۔ بیماریاں دور کرنے یا دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے سب سے زیادہ کوشش تعویزوں کی تلاش میں کی جاتی۔ ہندو جوگی اور مسلمان پیر کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر خوش اعتقادوں کو دیتے اور یوں انہیں حصول مقصد کیلئے صحیح اسلامی طریقوں سے باز رکھتے ۔ معاشرتی رسموں کے اعتبار سے بھی مسلمانوں اور ہندوؤں میں کوئی بڑا فرق نہ تھا۔ اسلام کی تعلیم یہ تھی کہ خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو لیکن اب بھوت پریت کے ڈر اور دوسرے وہموں سے زندگی کا سکون تلف ہورہا تھا۔ ہندوؤں میں نکاحِ بیوہ گاں پاپ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں میں بھی نکاحِ ثانی برا سمجھا جانے لگا ۔ ۱ ؂
            شاہ ولی اﷲ ؒ نے اپنی وصیت میں مسلمانوں کو جن چار چیزوں کے متعلق متنبہ کیا تھا وہ یہ تھیں۔
            ۱ (         بیوہ کی شادی نہ کرنا۔
            ۲ (         بڑے مہرباندھنا
            ۳ (         خوشی کے موقع پر اسراف
            ۴ (         غم و ماتم کے موقع پر اسراف ۲؂
            اس سے مذہب کی جو تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے آتی ہے۔ وہ اتنی گھمبیر اور مایوس کن ہے جو معمولی سے صاحبِ بصیرت کو بھی مایوس کردیتی ہے اور اس ردعمل کو سمجھنے میں مدد بھی دیتی ہے جو اگر ایک طرف سید احمد بریلوی ؒ کی وہابیت کے ساتھ ملتی جلتی سوچ کی شکل میں سامنے آیا تو دوسری طرف ۱۸۵۷؁ء کی جنگِ آزادی کے بعد تحریکِ علی گڑھ کی شکل میں وہ فکری جَست بھی لگائی جو اپنے عدم توازن کی کمی اقبالؒ کے فکری توازن کی صورت میں پوری کرلیتی ہے۔
            یہ ہشت گو نہ تحریک جسمیں مذہب ، معاشرت، معاشیات اور سیاست کے مختلف دھارے بیک وقت آکر ملتے ہیں مذہبی غلاف میں لپٹی ہوئی ہمارے سامنے آتی ہے۔ لیکن اس کے باطن میں معاشیات اور سیاسیات کا پہلو اتنا عمیق ہے کہ اگر سید احمد بریلوی ؒ کی ذات کو درمیان سے نکالا جائے تو ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے الفاظ میں کسی حد تک یہ بھی قبول کرنا پڑتا ہے کہ
‘‘ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش و خروش کے ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی۔ اسلامی قبائل میں جو ذیادہ پرجوش اور توہم پرست تھے وہ اس بات سے بہت خوش ہوئے کہ ان کو اپنے ہندو ہمسایوں کو لوٹنے کے لئے ایک مذہبی بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ امام صاحب نے ان لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ جو شخص غازی ہوگا وہ مالِ غنیمت سے مالا مال ہو کر لوٹے گا اور جو میدانِ جنگ میں کام آئے گا وہ جنت کو سدھارے گا۔ اور شہادت کا درجہ پائے گا۔۔۔۔ انہوں نے اپنی قوت مستحکم کرنے کیلئے مختلف قبیلوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا اور ان کادین یہ کہہ کر خرید لیا کہ میں تمام دنیا کے مشرکین سکھوں سے لے کر چینیوں تک کی بیخ کنی کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں ـ’’۔ ۳؂
            ہنٹر کے اس بیان میں کسی حد تک تعصب بھی ہے اور مبالغہ بھی۔ ظاہر ہے کہ سید احمد بریلوی ؒ کی تحریک عملی طور پر صرف ہندوستان تک ہی محدود تھی اور ہندوستان کی حدود سے نکلنے اور اس تحریک کو چینیوں تک پھیلانے کی کوئی بھی آواز ہمیں اس تحریک میں سنائی نہیں دیتی ۔ پھر اس جنگ کے اعلان نامہ میں سکھوں کے خلف جہاد کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں وہ لاہور میں سکھوں کا بڑھتا ہوا تشدد اور مسلمانوں کی مذہبی بے حرمتی ہے۔جسمیں گا وٗ کشی اور مسجدوں میں اذان پر پا بندی کے سا تھ سا تھ مسلمانوں کی بے عزتی اور قتل عام شامل ہے۔ ۴؂ اور شیخ محمد اکرام کے بقول مولا نا کا مقصد ملک گیری یا کسی دوسری قوم سے بے ا نصا فی نہ تھا بلکہ اس عام مذہبی آزادی کا حصول تھا جو تمام مہذب ملکوں میں ہر ایک کو حا صل ہے۔ ۵؂ سر دار یا ر محمد خان اور سلطان محمد خان کو سید صا حب کی طر ف سے جو خط بھیجا گیا اس سے اس جنگ کے مقا صد پر اچھی طر ح سے روشنی پڑتی ہے۔
 ـ‘‘ جنا ب ِ والا کی خد مت ِ عالی میں گزا رش ہے کہ اگر عالی جناب بھی اما م المسلمین )حضرت سید احمد( کی ر فا قت اختیار فر ما ئیں تو نہا یت مناسب ہوگا ۔۔۔ جب آپ کو )سید احمد کو( حصول سلطنت و حکومت کی طرف قطعاً میلان نہیں تو والیانِ سلطنت واہل ریا ست کو آپکی ر فا قت ا ختیار کرنے اور تھوڑے سے صرف سے زیا دہ سے زیا دہ نفع حاصل کرنے میں کیاعذر ہو سکتاہے۔ جب اسمیں سعا دت اخروی بھی ہے اور فوائد دنیوی بھی۔ اور اُن دشمنانِ دین کی سر کو بی اورا ستیصال بھی جو سلطنت و حکومت کے دشمن تمام مسلمانوں کے ننگ و نا مو س کیلئے خطرہ اور خا ص طور پر مسلمانوں کے حدودِ حکومت میں توسیع، ان کی مملکت کی حفاظت اور ان کی خود مختاری کی ضمانت ،اسلامی افواج کی آسودگی اور سرداروں کی نیک نا می بھی ہے’’۔ ۶؂
وینٹور ا کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ
‘‘ تم نے جو یہ لکھاہے کہ یہ ملک ہمارے خا لصہ جی کا ہے سنو یہ تمہارا دعویٰ بلا دلیل ہے اسلئے کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے اسمیں تمہارے خالصہ جی کا کیا دخل ؟ دوسرے یہ تمام ملک مشرق سے مغرب تک اﷲ تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہے وہ جسکی تلوار کو زور دیتاہے وہ لے لیتاہے۔ ۔۔۔۔اول تو ہم تم کو اسلام کی دعوت دیں گے اگرتم قبول کروگے تو ہمارے بھائی ہو گے تمہارا ملک تم کو مبارک رہے۔ اگر نہیں ما نو گے تو ہم تمہارے خلاف جہاد کریں گے’’۔۷؂
            سلطان محمد خان کے نام ایک خط میں وہ وا ضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم کافرِ لا ہو ر سے جہاد کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ۸؂
            یوں ہم دیکھتے ہیں کہ تحریکِ جہاد کے مقا صد میں سکھوں کی بڑھتی ہوئی استعماریت اور مذہبی انتہا پسند ی سے مسلمانوں کو نجا ت دلا نا تھا۔ جس سے کو ئی بھی مسلمان محفو ظ نہیں تھا۔ مغلوں کی کمزور حکومت کو استحکام بخشنا بھی اس تحریک کے مقا صد میں داخل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ و ہ سکھوں اور ا نگریزوں کو سلطنت و حکومت کے دشمن قرار دیتاہے۔ اور اس سے یہ قیا س بھی کیا جا سکتاہے کہ مغلوں کی طرف سے اس تحریک کے پس پردہ ضرور مالی امداد پہنچ چکی ہو گی۔ سکھ حکومت مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کر رہی تھی۔ انکے عبا دت خانوں کو خاکستر اور انکی عزتیں لوٹ رہی تھی۔ ملک کو کفر سے پا ک کر نا اور دشمنانِ دین کا خاتمہ اس تحریک کا مطمعٔ نظر تھا۔
            اس تحریک کے ابتدائی دور میں پشاورکے سرداروں کے لئے اقتدار کی ہو س کی تسکین کا سا مان مو جو د تھا۔ لہٰذا پا ئندہ خان کے سا تھ ایک معا ہدے میں سید احمد بریلوی ؒ کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے معا ہدے پر قائم رہا تو پشاور کی فتح کی صورت میں ان کی جا گیر واپس کر دی جا ئے گی۔ اور ان کو بڑے در جہ کا سردار بنا یا جائے گا۔ ۹؂ بہت سے سرداروں نے سو چنا شروع کیا کہ وہ سید احمد شہید کی ر فا قت ا ختیار کر کے ا پنا کھویا ہوا اقتدار حا صل کر سکتے ہیں لہٰذا اس نئی قوت سے بے نیاز ہو کر الگ تھلگ بیٹھ جا نا ایک سنہرے موقع کو ضا ئع کرنے کے مترادف تھا۔ اور وہ سوچنے لگے کہ اس سے پہلے کہ یہ نئی عسکری طا قت سکھوں کو بے دخل کر کے پورے علا قے کو اپنے اقتدار میں لے لے اُن کو اس کے اندر ا پنی جگہ بنا لینی چا ہیے۔۱۰؂ لہٰذا شروع شروع میں تو وہ برا بر اسکی طر ف متوجہ ہو ئے لیکن پھر آہستہ آہستہ جب انہیں اس با ت کا احسا س ہو ا کہ یہ تحریک ان کو فوائد دینے کی بجا ئے انکی سردار یت کے لئے خطرہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ تو وہ اسکے مخالف بنتے چلے گئے۔ وہ رجزیہ نظم جسے مجا ہدین بلند آواز میں اپنے سا تھ پڑھتے تھے۔
 اس تحریک کے کئی گوشے ہمارے سامنے لا تی ہے۔ چند اشعار ملا حظ ہوں۔
بعد تمہیدِ خدا نعتِ رسولِ اکرمؐ
یہ رسالہ ہے جہادیہ کہ لکھتا ہے قلم
واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طمعِ بلاد
اہلِ اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد
اے برادر تو حدیثِ نبویؐ کو سن لے
با غِ فردوس ہے تلوار وں کے سا ئے کے تلے
عمر بھر ہی کے گناہِ شہدا مٹتے ہیں
کیوں نہ ہو ؟ راہِ خدا ان کے تو سر کٹتے ہیں
زورِ تلوار سے غالب رہا اسلام مدام
سستی اگلے جو کبھی کر تے تو ہوتا گمنام
اب تو غیرت کرو نامردی کو چھوڑو یارو
سید احمد سے ملو جلد سے کافر مارو
حضرتِ مولوی اب طاق میں رکھ دیجے کتاب
لیجے تلوار و میدان کو چل دیجے شتاب
ایک ہے شرط کہ تم مانو بدِل حکم امام
ورنہ تلوار لگانا بھی نہیں آوے کام
ہند کو اسطرح اسلام سے بھردے اے شاہ
کہ نہ آوے کوئی آواز جز اﷲ اﷲ! ۱۱؂
             اس نظم کو اگر بغور جا نچنے اور پرکھنے کی کوشش کی جا ئے تو اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتاہے کہ مجا ہدین کی اس جماعت کے سا منے تحریک کے کچھ خا ص مقا صد تھے۔ اور سب سے بڑی با ت جو اس نظم میں محسوس کی جا سکتی ہے وہ ان تمام کا فرانہ قوتوں کے خلاف نفرت اور غصہ ہے جو ہندوستان کو آہستہ آہستہ غلامی کے شکنجے میں کسنا چاہتی تھیں۔ اس نظم میں یہ آواز بھی مو جو د ہے کہ اگر ایک شخص چا ہے کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو لیکن جہاد میں شرکت اسکے تمام گناہوں کو دھونے کے لئے کا فی ہے۔ لہٰذا وہ جر ائم پیشہ لوگ جو زندگی بھر اپنی مجرمانہ زندگی سے اُکتا چکے تھے۔ انکے لئے اس تحریک میں کافی دلکش سامان موجود تھا۔ سب سے دلچسپ با ت یہ کہ حضرتِ مولوی سے بھی کتاب طاق میں رکھنے اور اس تحریک میں عملی طور پر شامل ہونے کی اپیل کی گئی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اس تحریک کے علمبردار روایتی مولویوں کے طر زِفکر سے وا ضح اختلاف ر کھتے تھے اور بعد میں ثا بت بھی ہو جاتاہے۔ کہ سا نحۂ پشاور میں کس طرح مقامی مولوی صا حبان یہاں کے مقامی لوگوں سے ملکر ایک ہی رات میں تحریک کی کمر تو ڑ دیتے ہیں۔
            ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب ‘‘ ہمارے ہندوستانی مسلمان’’ میں سید صا حب پروہابی فر قہ سے منسلک ہو نے کا الزام عا ئد کیا ہے۔اور اگر بنظر عا ئر اس تحریک کے با طن میں اُترنے کی کوشش کی جا ئے تو ہنٹر کی رائے بعید از قیا س بھی نہیں ہو سکتی۔ اسلئے کہ در جہ بالا نظم میں یہ والا شعر محتاج توجہ ہے۔
ایک ہے شر ط کہ تم مانو بدِل حکمِ امام
ورنہ تلوار لگانا بھی نہیں آوے کام
            وہا بی فر قہ کے کلیدی نظریات میں سے اس نظریہ کو بنیا دی اہمیت حا صل ہے اس فر قہ کے سا ت بڑے اصول ہیں۔
۱ (         خدائے وا حد پر کلی ا عتماد اور یقین و ایمان
۲ (         خدا اور بندے کے درمیان کسی بھی وا سطے سے قطعی انکار
۳ (         ہر شخص کو قرآ ن کی تا ویل کرنے کا حق حا صل ہے۔
۴ (         ان تمام طریقوں، مر ا سم اور ریا کاریوں سے پر ہیز کرنا جن کو گزشتہ اور موجودہ مسلمانوں نے صا ف اور سچے مذہب پر ایزاد کیا۔
۵ (         ہمیشہ اس امام کی تلاش میں رہنا جو سچے مسلما نوں کی تما م کفار کے خلاف فا تحانہ رہنما ئی کر ے گا۔
۶ (         ہر وقت علمی اورعملی جہاد کو اور اسکی ضرورت کو مد نظر رکھنا۔
۷ (         روحانی رہنما کی مکمل اطا عت۔ ۱۲؂
            یوں ہم سمجھتے ہیں کہ اس فر قہ میں روشن خیالی کا ایک غالب رجحان مو جو د ہے۔ یہ اگر ایک طرف عقل کے ہتھیا ر سے قر آنی فکر کو پرکھنے کی کو شش کر تی ہے۔تو اسکے سا تھ سا تھ اپنے نظریۂ ز ندگی کو نا فذ کرنے کے لئے تلوار سے حرارت بھی حا صل کر تی ہے۔ پا نچویں اور ساتویں شق کے مطا بق اس فر قہ کی ایک اور ذمہ داری یہ گردانی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ اس امام کی تلاش میں رہے جو کفا ر کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کی فا تحانہ رہنما ئی کر ے گا۔ یہ فر قہ اگر ایک طر ف عوامی مذہبی ذہنیت پر برق کی طرح گر تاہے۔ تو دوسری طر ف یہ تلوار کسی بھی دور کی کا فرانہ قوتوں کے سا تھ نبر د آزما ہو نے کا حو صلہ بھی ر کھتی ہے۔ یہی دو بنیا دی نکات سید ا حمد بریلوی کی تحریکِ جہا د میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔اور ہنٹر کے مطا بق ایسا معلوم ہو تاہے کہ مکہ میں قیا م کے دوران سید احمد بریلوی اس فر قہ سے برابر متاثر ہوئے اپنے ایک خط میں سید صا حب لکھتے ہیں کہ
 ‘‘ آخر الذکر اصول کا مطلب یہ ہے کہ سچا اور صا ف مذہب یہ ہے کہ رسول اﷲ ؐ کے وقت میں جس طر ح عبادت اور زندگی بسر کی جا تی تھی۔ اسکی سختی سے پا بندی کی جا ئے اور تمام بد عتوں مثلاً بیا ہ،شادی کی ر سمیں ، مر گ کی رسمیں ، خانقاہوں کی تعظیم ، قبروں پر قبہ بنانا،مر دے کے سا لا نہ رسم پر بے در یغ روپیہ خر چ کر نا و غیرہ سے پرہیز کیا جائے اور جہاں تک ہو سکے ان رسموں کو بند کرنے کی کو شش کی جائے’’۔۱۳؂
             اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اسمیں وہا بیت سے متاثر ہونے کے اثرات کس حد تک مو جو د تھے۔ یہ شریعت جب عملی بنیا دوں پر قا ئم ہوئی تو شیخ محمد اکرام کے الفا ظ میں : ۔
۱ (         پشا ور شہر میں بھنگ ، چر س اور ا فیون و غیرہ کی دکا نیں بند ہو گئیں۔
۲ (         شر اب کی بھٹیاں اور شراب فروش نا پید ہو گئے۔
۳ (         کسبیاں اور فا حشہ عورتیں جو اس شہر میں ہزار ہا تھیں اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئیں۔
۴ (         لڑکیوں کی شا دی کر تے وقت لڑکے والوں کی طر ف سے بھا ری رقمیں وصول کی جا تی تھیں۔ جسکی وجہ سے لڑکیاں منگنی کے بعد اپنے والدین کے گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جا تی تھیں۔۱۴؂
             اسکے سا تھ ساتھ برہنہ غسل کر نے پر سزامقر ر ہوئی۔ کسی کی کھیتی کو نقصان پہنچانے اور اسمیں جا نور چرانے پر جر مانے تجویز کئے جا نے لگے۔ جو عورت تا رک الصلوٰۃ ہوتی اس کو بھی زنان خانے میں سزا دی جا نے لگی۔۱۵؂ تارک الصلو ٰۃ عورت یا مر د کو سزا دینا یقینا ایک ایسی با ت تھی جس پر ا عتراض کیا جا سکتا ہے۔ اسلئے کہ تارک الصلو ٰۃمر د یا عورت کی سزا کا قرا ٓن میں کوئی ذکر نہیں بلکہ یہ سزا فقہ کی تر اشیدہ ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جا ئے تو با قی اقدا مات یقینا قا بل ستا ئش تھے۔ اور صرف اُ ن لو گوں کے لئے رنجیدگی کا با عث بن سکتے تھے جنکو ان ا قدا مات سے نقصان پہنچ ر ہا تھا یا پہنچ سکتا تھا۔ پھر وہ کو نسی و جو ہا ت تھیں؟ جسکی و جہ سے یہ تحریک جنگل کی آگ کی سی تیزی سے پھیلی، تندو تیز طو فان کی طرح اُٹھی اور سمند ر کی جھا گ کی طر ح ا چا نک بیٹھ گئی۔ شیخ محمد ا کرام نے اس تحریک کی نا کا می کے بنیادی و جو ہا ت ا قتصا دی اور سیا سی بتائے ہیں۔
ٌٌٔ۱( وہ و صو لیا ں جو سکھوں کے دور میں کی جا تی تھیں۔ اسی طرح بر قرار رہیں حا لا نکہ لو گوں کا کہنا تھا کہ وہ ا نہیں سکھوں اور انکی وصولیوں سے نجا ت دلا ئیں گے۔
۲ ( عشر پہلے علما ء کو ملا کر تا تھا اور اب مجا ہدین کو ملنے لگا ۔ علما ء نے مخا لفت کی دبا نے سے دب کر انکے ہمنوا بن گئے اور یوں سید احمد بریلویؒ اس بہت بڑے پلیٹ فارم سے محروم ہو گئے۔ جو اس تحریک کی جڑیں معاشرے میں اُتارکر انکی مضبو طی کا با عث بن سکتی تھیں۔
۳ ( مجا ہدین کا رویہ بھی دن بدن تبدیل ہو تا چلا گیا وہ بہت جلد فا تحانہ تشدد پر اُتر آئے۔ او ر جنہوں نے اُن سے نظری یا فکری اختلاف کیا تو اسکا جواب گھو نسوں سے د یا گیا۔
۴ ( قبا ئل کو جو رسمیں عزیز تھیں و ہ مجا ہدین کے نزدیک کفر تھیں لہٰذا یہ خلیج دن بدن و سیع ہو تی چلی گئی۔
۵ ( پشا ور کے سردار معا شرے کے اندر اس تحریک کے خلاف منفی اور منتشر قوتو ں کو نہا یت ہی چالا کی سے یکجا کر کے متحدہ محاذ بنا نے میں کا میا ب ہو گئے۔
۶ ( یوں پشاور کے سرداروں اور عالموں کا ایک متحدہ محاذ قائم ہو گیا جسکا مقا بلہ مہا جر مجا ہدین کر نے سے قا صر تھے۔ مجا ہدین کے خار ج از اسلام اور وا جب القتل ہو نے کے فتوے دئے گئے۔ ۱۶؂
۷ ( سردارانِ پشاور رعا یا کی کھیتی کا نصف و صول کر تے تھے اور نظامِ شریعت کی مو جو دگی میں انکا یہ ٹیکس خطرے میں نظر آ نے لگا۔
۸ ( اس تحریک پر وہا بیت کا الزام لگا یا گیا۔
۹ ( خوا نین اپنی بیٹیوں کی شا دی میں ر عیت سے بڑی گراں قدر قیمتیں و صول کر تے تھے جو ا حکام ِ شر عی کے ا جرا ء سے مو قو ف ہو گئے۔
۱۰ ( جب لڑکی کی شا دی جلد از جلد کر نے اور داما د سے کچھ نہ لینے کی ہد ایت کی گئی تو پٹھا نوں کی طبیعت پر بڑاشا ق گزرا۔
۱۱ ( سید احمد بریلویؒ کے خلاف پر و پیگنڈہ کیا گیا کہ وہ نہا یت درشت مزاج زود ر نج اور غضبنا ک آدمی ہیں۔ ۱۷؂
            جو و جو ہات یہاں یہ گنو ائی گئی ہیں اُن میں کوئی ایک وجہ بھی ایسی نہیں جو دوسرے کے مقا بلے میں کم وزن رکھتی ہو۔ اور ان کا جا ئزہ لینے سے ایسا معلوم ہو تاہے کہ کوتا ہیاں بہر حال مجا ہدین کی طرف سے بھی مو جو د تھیں۔سید صا حب اپنے مقر ر کردہ قا ضیوں کو لوٹ کھسو ٹ سے روکنے میں نا کام رہے۔ اور سب سے بڑی با ت یہ کہ وہ اُن مجا ہدین کا رویہ بھی تو ازن بدوش ر کھنے میں نا کا م رہے جو اپنے مخالفین کے ا عتراضات اور ا ختلافا ت کا جواب گھو نسوں سے دینے لگے تھے۔ اور پھر سید صا حب جو سنتِ نبوی کی پیروی کے اتنے بڑے مدعی تھے۔ کیا اُن کو اس با ت کا احساس نہیں تھا کہ دور ِ جا ہلیت کے رسوم کا خاتمے اور امت کی تربیت میں آپ ؐ نے تئیس برس صرف کئے تھے۔ اقتدار کے آتے ہی یہ سمجھ لینا سید صا حب اور انکے پیروکاروں کی کتنی بڑی غلط فہمی تھی کہ ڈنڈے کے زور سے پشتون کلچر کی تمام بر ائیاں اور غلط رسوم ختم کئے جا سکتے ہیں۔ یہ اس تحریک کی سب سے بڑی غلطی اور انسانی نفسیات سے گمراہی کا ثبو ت ہے۔ یہ با ت درست ہے کہ تحریک مجا ہدین سے پہلے پشتون معا شرہ معاشی اور معاشرتی مسائل میں گھر ا ہو اہے۔ خوا نین کی بیٹیوں کی شا دی پہ لو گوں سے روپیہ و صول کر نا اور سکھوں کے دور میں بھاری و صولیاں یہاں کے لو گوں پر ایک بہت بڑا معا شی بو جھ تھا۔ لیکن سکھوں کے دور کی و صولیوں کو بر قرار رہنے دینا بھی مجا ہدین کی مثبت اور خوشنما تصویر ذہن میں نہیں اُبھا رتی۔ علما ء کی بجا ئے عشر جب مجا ہدین کو ملنے لگا تو اُسکا کوئی دوسرا متبا دل طریقہ ہو نا چا ہئے تھا۔ معا شرہ میں ا ثر ورسوخ کے ا عتبار سے اتنی متا ثر کن قوت کو معاشی طور پر بانجھ کر دینا اور پھر اس قوت کے سا زشوں سے بے خبر رہنا مجر مانہ غفلت نہیں تو اور کیاہے؟
            سید صا حب کے خلاف پر و پیگنڈہ مہم انتہا ئی کا میا بی کے سا تھ چلا ئی گئی۔ اسمیں شک نہیں کہ وہ پر خلوص انسان تھے۔ لیکن انکا مز اج ایک بہت بڑے جر نیل کا نہیں تھا۔لہٰذا اپنے سا تھیوں سے کہنا کہ قوا عد پر اعتما د نہ کر نا بلکہ فتح و شکست خدا تعالیٰ کے ہا تھ میں ہے۔ مولوی خیر الدین کے کہنے کے با و جود سنت کی پیر وی کر تے ہوئے باقاعدہ فوج نہ رکھنا۔۱۸؂ سلطان محمد خان کو یہ کہہ کر معا ف کر نا کہ دلوں کا حال خدا تعالیٰ جا نتا ہے اور شریعت ظا ہر کو دیکھتی ہے یہ اطلا ع ملنے کے با وجو د کہ سمہ کے سردار سلطا ن محمد خان کے در با ر میں معمول سے زیادہ آنے جا نے لگے ہیں یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا کہ پہلے درانیوں اور سمہ کے سرداروں کے درمیان نا ا تفا قی تھی اب اتفاق ہو گیا کس قدر سیا سی سمجھ بو جھ سے عاری پن ہے۔ اور چند دنوں کے بعد ہی پشاور اور اسکے گردنواح میں وہ قتل عام شروع ہو گیا جسکا ازالہ سید صا حب ا پنی زندگی کی قربانی پیش کرکے بھی نہ کر سکے ۔
            اورپھر با لاکوٹ کے مقام پر نا صر خان اور حبیب اﷲ خا ن نے مشورہ دیا کہ اس طرف پہاڑ پرشیر سنگھ لشکر لئے پڑ ا ہے اور دریا کے پار اس کا توپ خانہ ہے اگر دریا کے اُس پار چھا پہ مارا جا ئے تو شیر سنگھ کا توپ خانہ اپنے قبضہ میں آجا ئے گا۔ اور یوں یہ سکھ جو پہا ڑ پر ہیں بغیر لڑائی کے بھا گ جا ئیں گے۔ یہ تجو یز سن کر آپ نے فر ما یا کہ خان بھائی تم سچ کہتے ہو مگر اب کفار کے سا تھ چوری سے لڑنا ہم کو منظور نہیں۔ اسی بالا کو ٹ کے نیچے اُن سے لڑیں گے اسی میدان میں لا ہور ہے اسی میں جنت ہے اور جنت تو پر وردگار نے ایسی عمدہ چیز بنا ئی ہے کہ ساری دنیا کی ریاست اُس کے آگے کچھ حقیقت نہیں ر کھتی۔ ۱۹؂
            با لا کوٹ کی طر ف بڑھتے ہوئے را ستے میں مجا ہدین کے لشکر نے قیا م کیا۔ آپ نے ایک جنگل میں قیام کے دوران مجا ہدین سے اجا زت چا ہی کہ وہ اکیلے خدا تعالیٰ کو یا د کر نا چا ہتے ہیں۔ اسکی عبادت کر نا چا ہتے ہیں اُسے را ضی کر نا چا ہتے ہیں تم بھی ایسا ہی کرو۔ بہت دیر کے بعد آپ تشریف لا ئے لو گوں نے تا خیر کی وجہ پو چھی تو آپ نے فر ما یا کہ ہاں مجھ کو معلوم ہو تاہے کہ مجھے بہت دیر ہو گئی۔و ہا ں بیٹھے بیٹھے میر ے پا ؤں سن ہو گئے تھے۔ اس وقت سے آپکی طبیعت اور طرح سے ہو گئی۔ جہا د کے معاملے میں جو صلا حیں اور مشورے آپ ہمیشہ کیا کر تے تھے اس وقت یک لخت موقوف کردیئے۔ بلکہ جو لوگ کفا ر کو مارنے اور مغلو ب کر نے کی تد بیریں آپ کی خدمت میں عر ض کر تے تھے۔ آپ ا نہیں مزید تقریر سے روک دیتے تھے اور ہر گز نہیں ما نتے تھے۔ ۲۰؂
            با لا کو ٹ کی لڑا ئی شروع ہو نے سے پہلے حبیب اﷲ خان کسی آدمی سے کہنے لگے کہ سکھوں کی جمیعت بہت زیا دہ ہے تو آپ نے فر ما یا کہ ــ‘‘ حبیب اﷲ خان کیا با تیں کرتے ہیں؟ خان بھا ئی فتح اور شکست اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس کو چا ہے دے۔ بہت اور تھوڑے لو گوں پر موقوف نہیں ہے۔ کبھی اﷲ تعالیٰ تھوڑوں کو بہتوں پر غالب کر دیتا ہے اور کبھی بہتوں کو تھوڑوں پر ۔ ہم کو صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی در کارہے۔ ۲۱؂
            اس قسم کی ذہنیت پیدا ہونے میں پشاور کے اس قتل عام کا بڑا عمل دخل ہے جو شاید اسے نفسیاتی طور پر اندر سے کھوکھلا کرچکی تھی۔ جہا دکے معاملے میں مشورہ تک چھوڑدینا اور زمینی حقائق کو بھی نظر انداز کرکے جذباتی انداز میں پوری تحریکِ جہادکو ایک ڈرامائی موڑ دے کر گویا آگ میں کودنا اور اپنے آپ کو اور اپنے پورے لشکر کو تباہی کے منہ میں دھکیلنا کم از کم ایک ایسے جرنیل کی شان کے خلاف ہے جس نے اسلام کی خاطر تلوار اٹھائی ہو ۔
            یو ں ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں اس جنگجو پر اس کی ملایا نہ شریعت غالب ہوتی چلی گئی اس کی جنگجو یانہ صلاحیتوں پر پانی پھیرتی چلی گئی جنت کی شدید خواہش نے اسے اس چھاپہ مار جنگ سے بھی تائب کردیا اور اپنے آپ کو یہ کہ کر تسلی دی کہ چوری چھپے لڑنا اب ہم کو منظور نہیں ۔ یہی وہ بنیادی غلطیاں تھیں جس نے انہیں بالآخر تباہی اور ناکامی سے دو چار کردیا۔ سید احمد بریلویؒ کی جاندار تحریکِ جہاد سے اس دور کے کسی بھی بڑے شاعر کے لئے متاثر نہ ہونا ناممکن تھا۔ اور پھر مومن جو دہلی کے ایک نامور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد کے مطب کے قریب ہی شاہ عبدالعزیز ؒ کا مدرسہ تھا۔ والد کی شاہ صاحب سے ملاقاتیں رہتی تھیں جس نے ان کو کاخاصا مذہبی بنا دیا تھا۔ مومنؔ کے کان میں اذان بھی شاہ عبدالعزیز ؒ نے دیا تھا اور ان کا نام بھی شاہ صاحب ہی نے رکھا تھا۔ ۲۲؂
            کچھ تعلیم تو انہوں نے گھر پر حاصل کی کچھ کتابیں شاہ صاحب سے پڑھیں ۔ ان کے وعظ بڑی دلچسپی سے سنتے ۔ ‘‘آب حیات’’میں لکھا ہے کہ جو بات شاہ صاحب سے سنتے تھے بعینہ اس طرح ادا کردیتے تھے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومن کو ان بزرگوں سے دلی لگاؤ تھا۔ شاہ عبد العزیز ؒ کی وفات پر جو تاریخ انہوں نے کہی ہے اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
انتخابِ نسخۂ دیں مولوی عبدالعزیز
بے عدیل و بے نظیر و بے مثال وبے مثل
جانبِ ملکِ عدم تشریف فرما کیوں ہوئے
آگیا تھا کیا کہیں مردوں کے ایماں میں خلل
ہے ستم اے چرخ تو کس کے یہاں سے لے گیا
کیا کیا یہ ظلم تو نے بے کسوں پراے اجل
جب اُٹھائی نعش اک عالم تہہ و بالا ہوا
لوٹتا تھا خاک پر ہر قدسیٔ گردوں محل
کیا کس و ناکس پہ تھا صدمہ کیا جس وقت دفن
ڈالتا تھا خاک سر پر ہر عزیزو مبتذل
مجلسِ درد آفرینِ تعزیت میں میں بھی تھا
جب پڑھی تاریخ مومن نے یہ آکر بے بدل
دستِ بے دادِ اجل سے بے سروپا ہوگئے
فقرو دیں، فضل وہنر، لطف وکرم، علم و عمل ۲۳؂
ابوالخیر کشفی لکھتے ہیں کہ
‘‘مومنؔ کے والدحضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کے مرید تھے۔ اور حضرت سید احمد بریلویؒ بھی اس گھرانے کے نیاز مندوں میں شامل تھے پھر حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے کہنے سے ہی شاہ اسماعیل اور مولوی عبدالحیٔ نے سید احمد بریلوی ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مومن کے کانوں تک جو پہلی آواز پہنچی وہ شاہ عبدالعزیز ؒ ہی کی تھی۔ جنہوں نے نو مولود بچے کے کانوں میں اذان دی تھی۔ اور اذان کے پردے میں مومن کو ‘‘فلاح’’ کے لئے اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دیا تھا۔۲۴؂
            ایسی صورت میں سید احمد بریلویؒ کی تحریک سے متاثر ہونا مومن کیلئے ایک فطری بات تھی۔ لیکن مومنؔ جب عنفوانِ شباب کو پہنچے اور عشق کی دنیا میں عملاً داخل ہوئے تو نتیجہ وہی ذہنی اور نفسیاتی انتشار کی شکل میں نکلا۔ مومنؔ کی کلیات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک انکی شخصیت کے بعض متضاد پہلو باہم دست و گریباں دکھائی دے رہے ہیں۔ غزل میں انکی شخصیت کا یہ تضاد کسی حد تک ایک فنکارانہ امتزاج پیدا کرنے میں کامیا ب ہوجا تا ہے لیکن مثنویوں کا مومنؔ غزل کے مومنؔ سے مختلف اور بالکل الگ مخلوق ہے۔ غزل میں متضاد خیالات تک کو جذب کرنے کی جو صلاحیت ہے وہ غزل کے مومنؔ پر پردہ ڈال اس کے متضاد پہلوؤں کو چھپا دیتی ہے لیکن مثنویوں کا مومنؔ مذہب اور عشق و عاشقی دونوں حوالوں سے بالکل بے پردہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں محبوب اور ایمان ایک دوسرے کے متضاد ہیں ۔ اور یوں ہر وقت ‘‘مسلمان مومن’’ اور ‘‘کافر مومن’’ کے درمیاں کھینچا تانی برابر جاری رہتی ہے۔ یہ کیفیت ہر غزل گو شاعر کے ہاں موجود ہے لیکن مومن کی شاعری میں اس نے ایک واضح شکل اختیار کرلی ہے۔یہاں صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا جا تا ہے۔
دوستی اس صنمِ آفتِ ایماں سے کرے
مومن ایسابھی کوئی دشمنِ ایماں ہوگا ۲۵؂
دیکھیں گے مومنؔ یہ ہم ایمان بالغیب آپ کا
اس بتِ پردہ نشیں نے جلوہ گر دکھلا دیا ۲۶؂
تو نے جو قہرِ خدا یاد دلایا مومنؔ
شکوۂ جورِ بتاں دل سے فراموش ہوا ۲۷؂
کیا کسی بت کے دل میں جگہ کی کوئی ٹھکانہ اور ملا
حضرتِ مومن ؔاب تمہیں کچھ ہم مسجد میں کم پاتے ہیں۲۸؂
درِ بتخانہ و عشقِ بتاں اور آپ اے مومنؔ
یہ حضرت آگئی اک بار کیا طبعِ مقدس میں ۲۹؂
سن اے مومنؔ یہ ایماں ہے ہمارا
نہ کہنا کفر پھر عشقِ بتاں کو ۳۰؂
محوِ وعدہ ہے کسی بت کا تو مومن کہ نماز
پھیر کر قبلے سے منہ جانب در کرتا ہے ۳۱؂
مومنؔ سوئے شرق اس بتِ کافر کا تو گھر ہے
ہم سجدہ کدھر کرتے ہیں اور کعبہ کدھر ہے ۳۲؂
            یہی مومنؔ کی کیفیت رہی کہ بتِ کافر کا گھر مشرق میں ہونے کی وجہ سے وہ مشرق کی جانب سجدہ کرتا ہے لیکن کعبہ کے چھوٹنے کی خلش اس کی نفسیات میں اتر گئی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ دیروحرم کی علامات مومنؔ کی شاعری میں اتنے حوالوں سے آئی ہیں کہ جس سے اس اعصابی اور نفسیاتی کشمکش کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو مومن ؔکی شاعری کو گو یا جذبات کے ایک میدانِ جنگ میں تبدیل کردیتی ہے۔مثلاً چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
طوافِ کعبہ کا خو گر ہے دیکھو صدقے ہونے دو
بتو سمجھو ذرامومن ہے مومن یوں نہ ٹھہرے گا ۳۳؂
مومنؔ چلا گیا تو چلا جائے اے بتو
آخر قدیم خادمِ بیت الصنم نہ تھا ۳۴؂
ربطِ بتانِ دشمنِ دیں اتہام ہے
ایسا گناہ حضرتِ مومنؔ سے کب ہوا ۳۵؂
مومنِ دیں دار نے کی بت پرستی اختیار
ایک شیخِ وقت تھا سو بھی برہمن ہوگیا ۳۶؂
کافر گلے لگا ہے تو مومن کے مت مکر
دیکھ اپنے نقشِ رشتۂ زنّار کی طرف ۳۷؂
جاکے کعبے میں بھی مومنؔ نہ گئی دیر کی یاد
جائے لبیک صدا ہائے صنم کرتے ہیں ۳۸؂
مومنؔ رہِ عشق آہ کچھ خوب نہیں
واﷲ بتوں کی چاہ کچھ خوب نہیں
آمان کہا نہ جا سوئے بتخانہ
کچھ خوب نہیں یہ راہ کچھ خوب نہیں ۳۹؂
            یہ بات تسلیم کرلینے کے قابل ہے کہ شاعری میں زورِ بیان کیلئے بھی شعراء مسجد و میخانے دیر اور حرم کے اصطلاحات استعمال کرتے ہیں لیکن مومنؔ کی شاعری میں ان کازیادہ اور شدت سے استعمال ہمیں یہ سوچنے اور اس نتیجہ تک پہنچنے پر مجبور کرتا ہے کہ مومنؔ کے لاشعور میں یہ نفسیاتی جنگ کس شدت سے جاری و سار ی ہے ۔ اس کے عاشقانہ جذبات اور ذاتی خواہشات کا ٹکراؤ ان کے مذہبی جذبات کے ساتھ ہو رہا ہے۔
            شاعری کا تعلق جذبات اور احساسات سے ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اس کیلئے خام مواد معاشرے ہی سے ملتا ہے لہٰذا کوئی بھی شاعر اپنے ماحول سے الگ تھلگ رہ کر شاعری نہیں کرسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ مومن سید احمد بریلویؒ کی تحریکِ جہاد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ وہ اپنے زما نے کے سیاسی ، معاشرتی، معاشی اور مذہبی خیالات سے برابر متاثر تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اس دور کے متعلق لکھتے ہیں کہ
‘‘یہ زمانہ سیاسی اعتبار سے ایک انتشار اور افراتفری کا زمانہ ہے اس زمانے میں مرکزیت ختم ہوئی ہے۔ اقتدار کا خاتمہ ہو اہے۔ طاقت نے دم توڑا ہے حکومتِ وقت کی بنیادیں متزلزل ہوئی ہیں۔ نظامِ مملکت کی جان کے لالے پڑگئے ہیں ۔ نظم و نسق پر جان کنی کا عالم طاری ہے۔ زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہوگئی ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں ہنگامے کھڑے ہوئے ہیں ہر چیز اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہے۔ زندگی میں کوئی نظم و ضبط باقی نہیں رہا ہے۔ بد نظمی زندگی کا قانون بن گئی ہے ۔ شورشوں نے سراٹھایا ہے۔ فتنے بیدار ہوئے ہیں ۔ بغاوتوں نے جڑ پکڑی ہے ۔ سازشوں کا بازار گرم ہوا ہے شاہانِ وقت صرف نام کے بادشاہ رہ گئے ہیں ۔ ۔۔ سات سمندر پار سے آئے ہوئے لوگوں نے ملکی سیاست میں باقاعدگی سے حصہ لینا شروع کردیا ہے ۔ اور طاقت کی ہوس نے انہیں جو خواب دکھائے ہیں انہیں عملی شکل دینے کی کوشش بھی انہوں نے باقاعدگی سے شروع کردی ہے ۔ وہ صحیح معنوں میں حکمران بنے بیٹھے ہیں اور بادشاہوں کو اُٹھانے بٹھانے کا کاروبار انہوں نے شروع کردیا ہے۔ چنانچہ ان کا اقتدار بڑھنے لگا ہے’’۔۴۰؂
            اب ذرا مومن ؔکی پیدائش سے پہلے اس زمانے کو ذہن میں رکھیئے جسے مومنؔ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو نہیں تھا البتہ اس کے متعلق سنا ضرور تھا۔ ۱۰ اگست ۱۷۷۸؁ء کو غلام قادر روہیلہ نے شاہ عالم کی آنکھیں نکلوائیں۔ ۱۷۹۹؁ء میں مومنؔ کی پیدائش سے دو برس قبل ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی ۔ اور ان کی پیدائش کے صرف دو سال بعد ۱۸۰۳؁ء میں لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوئیں اور شاہ عالم کی پنشن مقرر کرکے اس سے فوج نہ رکھنے کا معاہدہ کیا۔ یوں اس کے بعد کے بیس اکیس سال ذرا سکون کا زمانہ ہے جس میں سکھوں اور انگریزوں کا حیطۂ اقتدار وسعت اختیار کرتا جارہا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان دونوں قوتوں کے خلاف غم و غصہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ٹیپو سلطان کے بعد مسلمانوں کی طرف سے اگر کوئی مضبوط اور منظم مزاحمت سامنے آتی ہے تو وہ سید احمد بریلویؒ کی تحریکِ جہاد ہے ۔ جو ۱۸۵۷؁ ء کی جنگِ آزادی کے برعکس عسکری حوالے سے منظم بھی ہے ۔ اور اس کے پیچھے زندگی کا ایک خاص تصور بھی کار فرما ہے۔ سید احمد بریلویؒ اور مومنؔ نے ایک ہی استاد شاہ عبدالعزیز سے استفادہ کیا ہے یوں مومنؔ اگر اس تحریک کو جذباتی سطح پر ایک طرف اس حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ فکری حوالے سے سید احمد بریلویؒ اور مومنؔ میں فکری ہم آہنگی کا موجود ہونا بھی ایک فطری امر ہے ۔ اس کا اظہار مومن ؔنے اپنی شاعری میں جگہ بہ جگہ کیا ہے ۔
شوق بزم احمد و ذوقِ شہادت ہے مجھے
جلد مومن لے پہنچ اس مہدی ٔ دوراں تلک ۴۱؂
مومنؔ تمہیں کچھ بھی ہے جو پاسِ ایماں
ہے معرکۂ جہاد چل دیجیے واں
انصاف کرو خدا سے رکھتے ہو عزیز
وہ جاں جسے کرتے تھے بتوں پر قرباں ۴۲؂
            اور وہی مومن جس نے ایک جگہ پر کہا ہے کہ
اے حشر جلد کر تہہ و بالا زمین کو
یوں کچھ نہیں امید تو ہے انقلاب میں ۴۳؂
            یہی جذباتیت جب سید احمد بریلویؒ کی حمایت میں اٹھتی ہے تو اپنے لئے ایک فکری بنیاد بھی تلاش کرلیتی ہے ۔ لیکن یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح کا اثر اس تحریک کا پشتون کلچر پر ہوا تھا تقریباً اسی طرح کا اثر مومن ؔکی شخصیت اور شاعری پر بھی ہوا۔ ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ اگر بالفرض یہ تحریک نہ بھی ہوتی تب بھی مومن ؔکی شاعری میں یہ کیفیت موجود ہوتی ۔ اس لئے کہ یہ ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ البتہ یہ تحریکِ جہاد ان کے مذہبی رنگ کو ایک خاص مذہبی لمس سے ضرور آشنا کردیتی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پشتون کلچر کی طرف سے مزاحمت شدید شکل میں سامنے آئی جبکہ مومنؔ کی کیفیت یہ ہوگئی کہ ‘‘عاشق مومن’’ تحریکِ جہاد سے ہمدردی رکھنے والے مومنؔ سے مغلوب ہوتا چلا گیااور اس کی بنیادی وجہ وہ مذہبی تربیت تھی جو شاہ عبدالعزیز سے انہیں بچپن ہی میں ملی تھی ۔
             تحریک جہاد کیساتھ مومنؔ کی وابستگی کو صرف ایک جذباتی اُبال کی صورت میں دیکھنا اور پرکھنا یقیناً زیادتی ہے ۔ اس لئے کہ مومنؔ کی شاعری خود اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہے کہ مومنؔ نے مذہبی حوالے سے تفکر کا ایک طویل سفر سرسری انداز میں ہی سہی لیکن طے ضرور کیا ہے اور یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مومنؔ اتنے کٹر مذہبی تنگ نظری کا شکار بالکل نہیں جو ان کی شاعری کو پڑھ کر بالعموم اندازہ ہوتا ہے۔
دیر و کعبہ یکساں ہے عاشقوں کو اے مومنؔ
ہو رہے وہیں کے ہم جی لگا جہاں اپنا ۴۴؂
خالص ہوں محمدؐی مرا دین اسلام
گو رائے صواب ہو نہیں مجھ کو کام
تقلید کی ٹھہری تو بنوں گا شیعہ
کس واسطے چھوڑ دیجئے افضل تر امام ۴۵؂
            البتہ بدعت کے متعلق ان کے ہاں کئی اشعار ملتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ‘‘بدعت’’ کو ختم کرنے پر وہابی ذیادہ زور دیتے ہیں ۔ مومنؔ نے مولانا فضل حق خیر آبادی کے متعلق کہا تھا کہ
لے نام آرزو کا تو دل کو نکا لیں
مومن نہ ہو جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم ۴۶؂
یہ چند منافق سراپا بدعت
ہے کفر و ضلال و فسق جنکی طینت
بتلاتے ہیں بدعتی امامِ حق کو
گویا کہ جہاد ہے خلافِ سنت ۴۷؂
            اب آئیے اس نظم کی طرف جس میں مومنؔ نے تحریکِ جہاد کے ساتھ کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
پلا مجھ کو ساقی شرابِ طہور
کہ اعضاء شکن ہے خمارِ فجور
کوئی جرعہ دے دیں فزا جام کا
کہ آجائے بس نشہ اسلام کا
عنادِ نہفتہ کو ظاہر کروں
دمِ تیغ سے قتلِ کافر کروں
پئے تشنہ کامی سبو در سبو
پیوں شوق سے ملحدوں کا لہو
یہی اب تو کچھ آگیا ہے خیال
کہ گردن کشوں کو کروں پائمال
دکھا دوں بس انجام الحاد کا
نہ چھوڑوں کہیں نام الحاد کا
وہ نورِ مجسمؔ وہ ظِلِؔ الٰہ
کہ سایے سے جس کے خجل مہر و ماہ
زہے سید احمد قبولِ خدا
سرِ امتانِ رسولِ خدا
رہے حشر تک زندہ وہ نیک ذات
ہے کفار کی موت اس کی حیات
امام زمانہ کی یاری کرو
خدا کیلئے جان نثاری کرو
الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب
یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
کرم کر نکال اب یہاں سے مجھے
ملا دے امامِ زماں سے مجھے ۴۸؂
            اس مثنوی کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ مومنؔ کا اس تحریک کے ساتھ کونسا جذباتی رشتہ تھا۔ وہ اپنے لوگوں کو ایمان کی حرارت سے بھرنا چاہتا ہے۔ ہ جذباتی خواہش صرف مومنؔ کی نہیں بلکہ اس دور کے تمام مسلمانوں کی ہے جو سوا ایک صدی سے غفلت کی نیند سورہے تھے۔ وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ کافروں کو قتل کرنا چاہتا ہے۔اس مثنوی میں کافروں کے ساتھ لڑنے، مارنے اور نیست و نابود کرنے کی جو روح ایمان سے حرارت لیکر کام کر رہی ہے وہ اس دور کے ایک خاص ماحول کانتیجہ تھی۔ اس مثنوی میں شریعت کے اجراء کی خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اور ہم تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ سید احمد بریلویؒ کی تحریک کے مقاصد میں کافروں اور ملحدوں کا خاتمہ اور شریعت کا اجراء تھا۔ مومنؔ سید احمد بریلویؒ کو ‘‘امامِ زماں’’ کہہ کر پکار تا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ امامِ مہدی یا امامِ زماں کی جو دو شرائط روایات کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں سید احمد بریلویؒ اس پر برابر پورا پورا اتر رہے تھے۔
۱ (         ان کا نام ‘‘احمد’’ تھا۔
۲ (         اور وہ پیغمبر کے خاندان ‘‘سادات’’ سے تعلق رکھتے تھے۔
            لہٰذا وہ بڑے شوق سے سید صاحب کے ساتھ جذباتی وارفتگی کا اظہار کرتا ہے ۔ وہ انہیں حضرت علی ؓ ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین ؓ کا خلیفہ اور جانشین بتا تا ہے۔ اس کی حیات کافروں کیلئے موت کا پیغام ہے ۔ خود سید احمد بریلویؒ نے اپنے نام کا جو سکہؔ رائج کیا تھا اس پر یہ عبارت کندہ تھی۔
‘‘احمد العادل محافظِ دینِ اسلام جس کی شمشیر کی چمک کافروں کیلئے پیغام ِ اجل ہے’’۔۴۹؂
            اس کی تلوار موت کے بو سے لیتی ہے۔ اس کی فوج میں تمام امت ایک ہی جان کے قالب میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔ یوں مومنؔ جیسے جذباتی انسان اور شاعر کیلئے اس میں ہر وہ جاذبیت موجود ہے جو اسے مذہبی اور جذباتی اطمینان دے سکتی ہے۔

            حوالہ جات
۱ (         محمد اکرام، شیخ، موجِ کوثر، ص ص ۱۳، ۱۴
۲ (         ظہیر احمد، صدیقی، پروفیسر، مومن شخصیت اور فن ، ص ۶۷
۳ (         ڈبلیو ، ڈبلیو، ہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص، ص، ۱۶، ۱۷
۴ (         ڈبلیو ، ڈبلیو، ہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص، ۱۷
۵ (         محمد اکرام، شیخ، موجِ کوثر، ص، ۲۴
۶ (         ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ۲
۷ (         ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ص، ۱۰۱، ۱۰۲
۸ (         ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص،۲۴۴
۹ (         ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص،ص، ۲۱۱، ۲۱۲
۱۰ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ۳
۱۱ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ص، ص، ۲۷۰،۲۷۱، ۲۷۲
۱۲ (       ڈبلیو ، ڈبلیو، ہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص، ص،ص، ۵۲، ۵۳، ۵۴
۱۳ (       ڈبلیو ، ڈبلیو، ہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص، ص، ۵۰، ۵۱
۱۴ (       محمد اکرام، شیخ ،موجِ کوثر، ص، ۲۹
۱۵ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص،۲۱۲
۱۶ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ۲۵
۱۷ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ص، ص، ص، ص،۳۱۸، ۳۱۹، ۳۲۰، ۳۲۱، ۳۲۲
۱۸ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ص۳۶۴، ۳۶۵
۱۹ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ۴۲۰
۲۰ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص، ۴۱۰
۲۱ (       ابوالحسن علی، ندوی، سید، سیرتِ سید احمد شہید ؒ ، ص،۴۲۶
۲۲ (       عبادت بریلوی ، ڈاکٹر ، مومن اور مطالعہ مومن، ص،۲۰
۲۳ (       عبادت بریلوی ، ڈاکٹر ، مومن اور مطالعہ مومن، ص،ص، ۲۲، ۲۳
  ۲۴ (      محمد ابوالخیر کشفی ، سید ، اردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پسِ منظر، ص، ۲۴۶
۲۵ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۵۷
۲۶ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۷۰
۲۷ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۷۹
۲۸ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص،۱۱۷
۲۹ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۱۹
۳۰ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۳۵
۳۱ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۵۷
۳۲ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۷۰
۳۳ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۶۶
۳۴ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۶۹
۳۵ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۷۳
۳۶ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۷۴
۳۷ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۰۷
۳۸ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۰۱
۳۹ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۹۶
۴۰ (       عبادت بریلوی ، ڈاکٹر ، مومن اور مطالعہ مومن، ص،ص، ۱۶۴، ۱۶۵
۴۱ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۰۹
۴۲ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۹۶
۴۳ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۳۱
۴۴ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۸۴
۴۵ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص،۱۹۴
۴۶ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص، ۱۱۴
۴۷ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص،۱۸۵
۴۸ (       محمد مومن خان مومنؔ ، حکیم ، کلیات ِ مومن، ص،ص،ص، ۴۹۰، ۴۹۱، ۴۹۲
۴۹ (       ڈبلیو ، ڈبلیو ، ہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان ، ص، ۱۹

 

کتابیات

۱ ( ابوالحسن علی ،ندوی، سید            سیرتِ سید احمد شہید )جلد اوّل(         ایچ ایم سعید کمپنی ناشران و تاجرانِ کتب ادب    منزل پاکستان چوک کراچی .ن ۔ د
۲ ( ڈبلیو، ڈبلیو، ہنٹر                       ہمارے ہندوستانی مسلمان                  مکّی دارالکتب اردو بازار لاہور اپریل ۱۹۹۷؁ء          مترجم: صادق حسین ، ڈاکٹر
۳ ( عبادت بریلوی، ڈاکٹر                  مومن اور مطالعۂ مومن                               اردو دنیا کراچی لاہور نومبر ۱۹۶۱؁ء
۴ ( ظہیر احمد صدیقی، پروفیسر         مومن شخصیت اور فن                    غالب اکیڈمی حضرت نظام الدین نئی دہلی ۱۹۹۵؁ء
۵ ( محمد ابوالخیر کشفی، سید             اردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر                 نشریات اردو بازار لاہور ۲۰۰۷؁ء
۶ ( محمد اکرام ،شیخ                       موج ِکوثر                                    ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور ۔ جون ۲۰۰۳؁ء
۷ ( محمد مومن مومنؔ،حکیم   کلیات مومن                       مجلسِ ترقی ادب لاہور        مرتبہ : کلب علی خان فائق ۔  ن ۔ د

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com