نظریہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا تاریخی،علمی اورتقابلی جائزہ
ڈاکٹرحبیب الٰہی

ABSTRACT
Since long Sufism has been an important topic of discussion at least within the confines of Islamic world. However, the two prime theories under Sufism are: Monotheism and Pantheism that talks primarily about the very existence of the Creator and the Creation and in that sense, their controversy is significant even in the modern age. The discourse of these theories is also one of the central themes of the Holy Quraan. However, the fact remains that the language and style of argumentation in philosophy and Sufism is difficult for a lay man to understand. Such discourses are complex and perplexing besides, having lack of comprehensible writings, coupled with scarcity of researchers in this field. This research paper is an attempt to address the afore-mentioned issue in very simple and plain words by giving a practical as well as a comparative analysis of the two theories. Hopefully, this intellectual pursuit will be useful equally for scholars as well as for a lay man and will pave way for further guidance and research .

 مسلہ کا بیان (تعارف): وحدت الوجود اور وحدت الشہود اہل تصوف کے درمیان فلسفیانہ اور نظریاتی مسئلہ ہے۔جس کی بنا پر اہل تصوف دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ اس سلسلے میں بعض صوفیاء نے ایک دوسرے کا رد کیا ہے، کئی نے دونوں نظریات میں تطبیق کی کوشش کی ہے اور کچھ نے قرآن اور سنت کی سادہ تعلیمات پر زور دے کر ان فلسفیانہ نظریات کو غیر ضروری قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے تو اسے صریح کفر یا دین کے مقابلے میں علیحدہ دین قرار دیا ہے۔  اس تحقیق میں دونوں نظریات کا عام فہم مفہوم سمجھانے ،دونوں نظریات میں بنیادی فرق اور یکسانیت بیان کرنے اورصوفیا ، علمائے کرام اور فلاسفہ کے نظریات کا علمی جائزہ لیا جائے گا  اور اسے قرآن و سنت کے میزان پر بھی تولنے کی کوشش کی جائے گی ۔
مقالے کے اغراض مقاصد:        مقالے کے اغراض و مقاصددرجہ ذیل ہیں۔
(۱)فلسفہ وحدت الوجوداور فلسفہ وحدت الشہود کوآسان زبان میں بیان کرنا۔
(۲)دونوں فلسفوں کے درمیان حقیقی فرق کی وضاحت کرنا۔
(۳)فلسفہ و حدت الوجود اور وحدت الشہود کے اثرات بیان کرنا۔
(۴)دونوں مکتبہ ہائے فکر کا علمی جائزہ لینا۔
(۵)قرآن وسنت کا  پیش کردہ توحید کے نظریے کا اس سے تقابلی جائزہ لینا۔
مطالعے کی اہمیت:          تصوف زمانہ قدیم سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ پھر اس میں فلسفہ وحدت الوجود اور وحدت الشہوددو اہم نظریئے ہیں، یہ اللہ کی ذات اور مخلوق سے تعلق کے حوالے سے بحث کرتے ہیں جو انسان کیلئے انفرادی اور اجتماعی حوالوں سے اہم موضوع ہے یہی وجہ ہے کہ یہ قرآن و سنت کا بھی مرکزی مضمون ہے ۔لیکن تصوف اور فلسفہ کی ایک تو زبان مشکل ہے دوسرا یہ مسئلہ بے حد پیچیدہ بھی ہے ۔ تیسرا اس حوالے سے جدیدآسان زبان اور انداز میں تحریریں عام طور پر موجود نہیں ہیں۔ اس لئے عام لوگ تو کیا خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس موضوع سے واقفیت نہیں رکھتے یا اسے خشک اور گنجلک تصور کرتے ہیں ۔اس لئے اس مقالے میں اس موضوع کے اہم نکات اور مبحث علمی مگر آسان زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو عام لوگوں اور اہل علم کیلئے مزید تحقیق کا سبب بنے گا۔
ادب کا مطالعہ:        تصوف کے حوالے سے ان کے بانیوں کے امہات الکتب موجود ہیں۔ منصورحلاج کی کتاب  ـ’’الطوسین‘‘ جس میں ازل،خدا،تخلیق،شجرہ،زیتوں،خدا کے نور جیسے موضوعات بیان کئے ہیں ،موجودہے۔ ان کی دیگر کتابوں کے علاوہ امام غزالی  (۴۵۰ھ تا۵۰۵ھ)نے احیاء العلوم میں تصوف کے حوالے سے کافی بحث کی ہے ۔ وحدت الوجودی نظریے کے بانی ابن عربی کی فصول الحکم اور فتوحات مکیہ اہم ترین تصانیف ہیں۔شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ کی منازل السائرینہے جو علم تصوف کا اہم ترین ماخذ مانا جاتا ہے۔ شیخ احمد سرہندی(۹۷۱ھ تا ۱۰۳۴ھ) جو وحدت الشہود کا بانی سمجھا جاتا ہے کے’’ مکتوبات‘‘، شاہ اسماعیل کی(۱۱۹۳ھ تا ۱۲۴۶ھ) عبقات جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی تطبیق پر لکھی گئی ہے ۔شہاب الدین سہروردی (۵۳۹ھ تا ۶۳۲ھ) جو سروردیہ سلسلہ کے بانی ہیں کا’’ عوارف المعارف‘‘ ،عبدالکریم جلیلی (وفات ۸۳۲ھ )کی’’ الانسان الکامل فی معرفۃ الأواخرو الأوائل‘‘ ، مولانا عبدالعلی کا رسالہ وحدت الوجود ،زید الحسن فاروقی کا رسالہ وحدت الوجود ،شیخ عبدالغنی کی کتاب ’’الصباح المقصود،مکتوبات مرزا مظہر جانِ جانان ،شاہ غلام علی دہلوی کی مقامات،رود کوثراز شیخ محمد اکرم ،سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام مصطفے خان کی لوائح خانقاہ مظہریہ ملا تیمور کا قلمی نسخہ’’ شریعت و طریقت‘‘ اور مکتوبات لعل بدخشان جیسے اہم بنیادی ماخذ کی کتب اور نسخہ جات موجود ہیں۔ جدید دور میں بھی تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی گئی کتب موجود ہیں ۔تاہم  وحدت الوجود اور وحدت الشہود نظریات پرآسان زبان میں، دونوں کے تقابلہ ،ایک دوسرے پر اثرات اور علمی جائزے کے حوالے سے اردو زبان میں تحقیق کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔یہ آرٹیکل اس تشنگی کودورکرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
طریقہ کار: اس تحقیق کے دوران اہل تصوف کی بنیادی کتب،اس سلسلے میں تنقید کی کتب اور تحریروں کا مطالعہ کیا جائے گا۔پرانے قلمی نسخوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ بنیادی اور ثانوی ماخذوں سے موادجمع کر کے غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے گا اور مختلف مکاتب فکر کے نظریات کو زیر بحث لایا جائے گا۔ اور اس کا مقابلہ قرآن و سنت کے پیش کردہ توحید کے تصور سے کیا جائے گا ، اور جو رائے اوردلائل منطقی معیار پر پورا اتریں گے، بے کم وکاست بیان کئے جائیں گے۔
فلسفہ وحدت الوجود:   وحدت الوجود یعنی ہمہ اوست (Pantheism )  کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا ، اس سے زیادہ نہ کم۔ اس فلسفے کا بانی شیخ محی الدین ابن عربی(۵۶۰ھ تا۶۳۸ھ) جانا جاتا ہے(۱)چنانچہ وہ کہتا ہے کہ
وَفِیْ کُلِّ شَیٍٔ  لَہُ اَیَۃٌ        تَدُلُّ عَلٰی اَنَّہُ عَیْنُہ‘۔(۲)
ترجمہ:کائنات کی ہر شے میں اس حقیقت کی دلیل موجود ہے کہ وہ شے عین اللہ ہے۔ اگرچہ بعض ابن عربی کے پیروکار ہوتے ہوئے کہتے تھے۔
اَلْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرْفَعْ               وَالرَّبُّ رَبٌ وَاِنْ تَنَزَّلَ ۔(۳)۔
ترجمہ: بندہ بندہ ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی اوپر چلا جائے اور رب رب ہی ہے خواہ وہ کتنا ہی نیچے چلا جائے۔
ابن عربی اپنی کتاب فصوص الحکم میں لکھتے ہیں: ’’وجود ایک حقیقت ہے اس لیے ذات باری تعالی کے سوا کچھ باقی نہ رہا چنانچہ نہ کوئی ملا ہوا ہے، نہ کوئی جُدا ہے، یہاں ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے‘‘۔(۴)
اس طرح وہ کہتے ہیں کہ’’ اگرچہ مخلوق بظاہر خالق سے الگ ہے لیکن با اعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں۔ نہیں بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی ان سب حقائق میں نمایاں ہے‘‘(۵)وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ’’ کائنات خدا کا تخیل ہے۔ جس نے مظاہر کا لباس پہن لیا، یا اس کی تجلی ہے جو اس سے جدا نہیں.....۔اس دنیا کے فنا کے بعدایک نئی دنیا پیدا ہو گی پھر ایک اور،اور، پھر اور،اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا‘‘۔ (۶)
            لیکن انہوں نے خود نہیں سوچا کہ کائنات میں یہ تغیر ،یہ تباہی وغیرہ ، کیا خدا میں بھی تصور ہوگا؟یعنی خدا تغیر پذیر رہے گا؟ کیونکہ اس فلسفے کے مطابق کائنات تو خداہے ۔خوداس فلسفے کاتشریح وہ یوں کرتاہے
ــ’’ کائنات کا وجود خالق سے علیحدہ نہیں ،سمندر کی لہریں سمندرسے ایک نظر آتی ہیں لیکن یہ فریب نظر ہے ۔اللہ زندگی کا سمندر ہے جس سے یہ ایک کائنات لہروں کی طرح ابھری ،نام جدا سہی لیکن حقیقت ایک ہے، شعاعیں افتاب سے اور لہریں سمندر سے الگ نہیں ہو سکتیں جس طرح پھول مرجھا جانے اور نغمہ کے ختم ہونے کے بعد بھی خوشبو اور موسیقی کی لہریں کائنات میں باقی رہتی ہیں اس طرح موت کے بعد انسان کل میں جذب ہو کر ہمیشہ زندہ رہتاہے یہ کائنات بظاہر کثرت لیکن دراصل وحدت ہے اورخدا بظاہر وحدت لیکن دراصل کثرت ہے‘‘۔(۷)
اس کامطلب یہ ہے کہ اصل میں یہ فلسفہ، اللہ کی ذات اور کائنات (مخلوق )کی حیثیت ،پہچان اور دونوں کے درمیان رشتے کو بیان کرتا ہے اور نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ بس ساری کائنات خدا ہے اس طرح انسان بھی خدا ہے یا خدا  بن سکتا ہے یا خداانسان میں حلول کر جاتاہے۔
یہ فلسفہ ابن عربی کا تخلیق کردہ نہیں ہے،اسلام سے بھی پہلے دیگر مذاہب میں خصوصاً ہندو مت میں چلا آرہا ہے۔(۸)بلکہ کئی مسلمان صوفیا ء ابن عربی سے پہلے اللہ کی ذات با الفاظ دیگر مسئلہ توحید کے حوالے سے اس قسم کے نظریات رکھتے تھے۔ ایران کے عبیداللہ بن احمد بن ابی ظاہر بن حسین بن منصور حلاج (۸۵۸ء تا۹۲۲ء) نے بغداد و بصرہ  میں خواجہ جنید سے چھ سا ل فیض حاصل کیا تھااور حج بیت اللہ کے بعد اسی نظریئے کے مطابق ’’اناالحق‘‘ کے نعرے بازاروں میں لگایا کرتے تھے ۔جس کا مطلب خود خدا ہو جانا اور خدا سب کچھ ہونا تھا چنانچہ ان کا کہنا تھا کہ
’’ اللہ زمین پر انسانی صورت بدل کر نازل ہوا، میرے اور میرے خدا کے درمیان میری اناحائل ہے،۔۔۔۔۔  عشق میں ایک ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ دل بیت اللہ بن جاتا ہے اور فرض حج ساقط ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اور انسان تزکیہ روح کے بعد حدود شریعت سے ابھر کر ذات خدا وندی میں جذب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔تمام مذاہب کی حقیقت ایک ہے فرق صرف فروع میں ہے‘‘  (۹)
اس کا مطلب کیایہ ہے کہ خدا بن جانا ایک اکتسابی عمل ہے ؟ دوسرا یہ کہ یہ کفرو شرک ،ہندو مسلمان ،مسلم و غیر مسلم محض فروعی مسئلہ ہے؟ظاہرہے کہ نہیں۔
 منصورحلاج اپنے بیٹے کو خط میں لکھتے ہیں کہ:
’’ اے بیٹے !اللہ تجھ پر کفر کی حقیقت کھولے اور تجھ سے ظاہری شریعت کو چھپائے ،شریعت کا ظاہر شرک خفی ہے اور کفر کا باطن معرفت جلی،خدا نے کہاکہ وہ مخلوق نہیں اورمخلوق نے کہا کہ وہ خدا نہیں، دونوں غلط، خدا کے اثبات و نفی کے قائل بھی غلط،اللہ کا فریب نہ کھانا اور نہ اس سے مایوس ہونا، خدا سے ہر گز محبت نہ کرو،اور نہ اس سے عشق کے سوا کوئی اور مقام قبول کرو، خدا کو نہ مانو انکار کرو اور عقیدہ توحید سے دور رہو۔‘‘(۱۰)
یہ اس حلاج کا فلسفہ ہے جس کا چرچا نثر و نظم دونوں میں کیاجاتا ہے علامہ اقبال جیسی شخصیت’’ اناالحق‘‘ کا مداح ہے۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی فلسفہ ابن عربی سے پہلے بھی موجود تھا ،یہ لا موجودہ الااللہ  یا  لا موجود ہ الا ہُ  نعرہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ موجود صرف اللہ ہوا کرتا ہے ۔شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ جیسے عالم کا کہنا تھا کہ یہ حادث کی نفی اور قدیم کا اثبات ہے(۱۱) مشہور فلسفی ،صوفی اور امام محمدالغزالی ابن عربی سے بہت پہلے اس بات کے قائل تھے ، جیسا کہ وہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں۔
’’ توحید کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ بندہ صرف ذات باری تعالیٰ ہی کو موجود دیکھے،یہی صدیقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیاء اسے ہی فنافی التوحید کہتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ اس مرتبے میں بندہ چونکہ وجود واحد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا چنانچہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا اور جب وہ توحید میں اس استغراق کے باعث اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا  تو اس ذات میں اس کانفس اور مخلوق ،دونوں اس کی نگاہ کے لئے معدوم ہو جاتے ہیں۔‘‘(۱۲)
فلسفہ وحدت الشہود:   ہندوستان میں تصوف کے تینوں سلسلے ایران اور ایران کی علمی سرحد عراق کی پیداوار تھے۔ قادریہ سلسلے کے بانی عبدالقادر جیلانی بغدادی تھے سہروردی(۵۳۹ھ تا ۶۳۲)سلسلہ سہروردی سے متعلق ہے جو بغداد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرایک گائوں تھا۔ چشت بھی خراسان کی ایک بستی ہے ان تینوں سلسلوں میں جزوی اور فروعی اختلافات تھے ،لیکن ان کا روحانی پس منظر ایک تھا۔  تینوں میں’’ صلح کل‘‘ کا طریقہ موجود تھا جس کے تحت غیر مروجہ، ہندوانہ اور غیر اسلامی چیزیں اس میں شامل ہو ئیں ۔شرع کی پاپندی ضروری نہیں رہی تھی اور تینوں میں وحدت الوجود کے قائل تھے (۱۳) نقشبندیہ اگرچہ کئی امور میں دیگر سلسلوں میں ممتاز تھا اور شرع کے قریب تھا لیکن ان کا بنیادی فلسفہ بھی دوسروں سے مختلف نہ تھا اس لئے شیخ احمد بدرالدین ابو برکات فاروقی ،سر ہندی(۹۷۱ھ تا ۱۰۳۳) جو شیخ مجدد اورمجدد الف ثانی کے لقب سے مشہورہیں ،نے اصلاح کی خاطر وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا جس نے یقینا کافی حد تک اصلاح کی کوشش کی۔(۱۴)
وحدت الشہود یعنی ہمہ از اوست) Panenthesm ) کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خدا کا پر تو ہے۔(۱۵) مجدد الف ثانی کا کہنا تھا کہ:
’’ کائنات وعالم چونکہ مرتبہ و ہم میں بہرحال موجود ہے اس لئے نفی صرف شہود کی ہونی چاہیے، یہ وہ مقام ہے کہ جب سالک اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتا چنانچہ اس وقت اس کی توحید یہ ہے کہ وہ مشہود صرف اللہ کو مانے اور انہیں صرف اللہ دکھائی دے رہا ہو۔‘‘(۱۶)
شیح احمد سرہندی نے ممکنات کی ماہیت میں ابن عربی سے اختلاف کیا ورنہ دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ ابن عربی کے نزدیک وہ اسما ء و صفات ہیں ، جنہیں مرتبہ علم میں امتیاز حاصل ہو ا ہے اور مجدد الف ثانی انہیں عدمات کہتے ہیں جنہوں نے علم خداوندی میں تعین پیدا کیا اورمرتبہ وہم و حس میں ثابت ہو گئے ہیں۔ رہا ان کے وجود کا مسئلہ تو اسکے بارے میں ان کی رائے بھی وہی ہے۔(۱۷)
سالک کے اس اونچے مقام تک رسائی کے حوالے سے تو یہ حضرات خود بھی عجیب دعویٰ کرتے ہیں مجدد اپنی روحانی ترقی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
 ’’دوسری عرض یہ ہے کہ اس مقام کے ملاحظہ کے وقت اور بہت سے مقام ایک دوسرے کے اوپر ظاہر ہوئے۔ نیاز اور عاجزی سے توجہ کرنے کے بعد اس پہلے مقام سے اوپر کے مقام میں پہنچا تو معلوم ہوا کے حضرت ذی النورین کا مقام اور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے۔ اور یہ مقام بھی تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور ایسے ہی اس مقام سے اوپر کے دو مقام بھی جن کا اب ذکر ہوتا ہے ، تکمیل و ارشاد کے مقام ہیں اور اس مقام سے اوپر ایک اور مقام نظر آیا جب اس مقام میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت فاروق اعظمؓ کا مقام ہے اور دوسرے خلفاء کا بھی وہاں عبورواقع ہوا ہے اور اس مقام سے اوپر حضرت صدیق اکبرؓکا مقام ظاہر ہوا۔ بندہ اس مقام پر پہنچا اور اپنے مشائخ میں حضرت خواجہ نقشبندی قدّہ وسرہ۔کو ہر مقام میں اپنے ہمراہ پاتا تھااور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے سوائے عبور اور مقام اور مروراور اثبات کے کچھ فرق نہیں ہے اور اس مقام کے اوپر سوائے حضرت محمدﷺ کے اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتااور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مقابل ایک اور نہایت عمدہ نورانی مقام کہ اس جیسا کبھی نظر میں نہ آیا تھا ظاہر ہوا اور وہ مقام اس مقام سے تھوڑا سا بلند تھا جس طرح کہ صفہ کو سطح زمین سے ذرا بلند بناتے تھے اور معلوم ہوا کہ وہ مقام محبوبیت کا مقام ہے اور وہ مقام رنگین اور منقش تھا اپنے آپ کو بھی اس مقام کہ عکس سے رنگین معلوم کیا۔‘‘(۱۸)
اس طرح کے خیالات سے بڑھ کر بعد میں مریدوں نے دعوے کیے اور’’حلول‘‘ اور’’ صلح کل‘‘ کے مترادف عقائد اپنائے یہی وجہ ہے کہ علما ء نے کہا کہ حضرت مجدد کی وفات پر کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ان کے حلقے کے لوگوں نے ان کو قیوم اول اور ان کے خلفاء کو قیوم ثانی کا خطاب عطا کر دیا۔(۱۹)یہ وہی باتیں تھیں جس پر احمد شاہ تیمورباجوڑی جیسے صوفی نے بھی گرفت کی۔(۲۰)ـ
وحدت الشہود نظریے کے اثراتـ: جیسا کے ظاہر ہوا ہے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے دونوں فلسفے ذات باری تعالیٰ اور مخلوقات کے تعلقات کو بیان کرتے ہیں ۔ تصوف کی زبان میں اسے توحید عینی اور توحید ظلی بھی کہا جاتا ہے۔(۲۱)
مجدد الف ثانی وحدت الوجود کے فلسفے سے بدعات اورغیر اسلامی افکار دور کرنا چاہتے تھے شائد کچھ حد تک وہ کامیاب ہوا ہو گا لیکن ایک تو حقیقتاً دونوں نظریات میں جوہری فرق نہیں تھا ۔وجود باری تعالی کے حوالے سے دونوں کے نظریات یکساں تھے مثلاً ان کا یہ کہنا تھا کہ:
’’ ممکن کیلئے وجود ثابت کرنا اور خیر و کمال کو اس سے متعلق ٹھہرانا درحقیقت اُسے ذات باری تعالی کے مِلک اورمُلک میں شریک کرنا ہے۔‘‘(۲۲)
لیکن دوسری طرف مجدد الف ثانی کے فلسفے سے مسئلہ حل ہونے یا تطبیق ہونے کے بجائے دو مکاتب فکرآمنے سامنے آئے۔ اگرچہ اس دوران مرزا مظہر ،ملاتیموراور اس مکتبہ فکر کے دیگر صوفیاء نے اسے دبانے کی کوشش کی کیونکہ انکے نظریہ کے مطابق یہ ضروریات دین کا مسئلہ نہیں تھا۔(۲۳) لیکن اس کے باوجود اختلافات روز بروزبڑھتے گئے۔جانبین ایک دوسرے پر کفر کے فتوے دینے لگے۔ اختلافات جو احمد شاہ تیمور اور مرزا مظہر نے خانقاہ تک محدود کر دینے کی کوشش کی ،کو گلی کوچوں میں آئے۔ اس سے متاثر ہو کر حضرت شیخ محمد مرالنگ کشمیری (۱۷۳۱تا۱۷۱۸)ایک کتاب صلح الفرقین فی منع تکفیر موحدین تالیف کی ۔شاہ ولی اللہ نے بھی اس میدان میں آکر دونوں نظریات میں تطبیق کی کوشش کی اور اسے صرف لفظی اختلافات قرار دیا۔ (۲۴)ولی اللہ اور ملا تیمور کے مرشد مرزا مظہر اگرچہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے اور عوام میں مناظرے کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن وہ اس انطباق کو بھی تسلیم نہیں کرتے تھے چنانچہ انہوں نے غلام یحی بہاری کو حکم دیا کہ وہ اس موضوع پر ایک رسالہ لکھے چنانچہ انہوں نے ’’کلمات حق‘‘ تطبیق کے رد میں لکھا ۔اس طرح مظہر کی فرمائش پر رسالہ’’ مظہر النور‘‘ لکھا گیا۔ کلمات حق پر تقریظ خود مرزامظہر نے لکھی پھر اس کی ایک شرح ’’المظاہرہ ‘‘ سید نورالہدی نے لکھی اس طرح جھگڑے ختم ہونے کے بجائے مزید الجھ گئے۔شاہ ولی اللہ کی طرف سے پھر شاہ رفیع الدین دہلوی نے ایک ضخیم رسالہ ’’دمغ الباطل‘‘ تالیف کر ڈالا اس طرح اول الذکر کے رد میں اور تطبیق کے حق میں دلائل دیئے۔(۲۵)
احمد شاہ تیمور باجوڑی تو سرے سے اس بحث کے قائل نہیں تھے لیکن دیگر میانہ رو علماء اور اہل تصوف نے بھی افراط وتفریط سے اپنے مریدوں اور شاگردوں کو دور رکھنے کی کوشش کی اور علمی بحث باہر لانے کے بجائے اپنی خانقاہوں تک محدود رکھنے کی سعی کی۔(۲۶) دوسری طرف خانوادہ مجددیہ کے علماء اور صوفیاء ابھی تک اپنے اسلاف کے نظریئے کے مطابق اسے لفظی اختلاف نہیں سمجھتے تھے بلکہ واضح قسم کا کشفی اختلاف ثابت کرتے تھے۔(۲۷)
اگرچہ ملاتیمور اور مرزا مظہر حضرت مجددالف ثانی کے بڑے مداح ،قدرداں اور پیرو کار تھے کیونکہ وہ انہیں اصلاح حکومت اور اصلاح عوام کا بیڑا اٹھانے کا موجد گردانتے تھے اور انکے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے۔ (۲۸) لیکن اس مسئلے یعنی وحدت الشہود میں ان کے حق میں نہیں تھے۔ پھر شاہ ولی اللہ کے پیش کردہ نظریئے کے حق میں بالکل نہیں تھے کہ یہ لفظی تنازعہ ہے ورنہ دونوں ایک چیز ہیں۔
شاہ اسماعیل کا موقف:  شاہ ولی اللہ ، ان کے صاحبزادے اور خاندان، دونوں نظریات کے درمیان تطبیق کی کوشش کرتے تھے لیکن جب ان سے اتفاق نہیں کیا گیا تو یہ لوگ خود ایک مکتبہ فکر اور فلسفہ بن گئے ۔شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ محمد اسماعیل (۱۱۹۳ھ تا ۱۲۴۶)نے بھی اس مسئلے کو محض تعبیر کا فرق قرار دیا ،وہ کہتے ہیں :
’’ وہ سب لوگ جوکشف ووجدان، شہود و عرفان کی لغت سے بہرہ یاب ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ تمام مخلوقات کیلئے مابہ التعین ایک ہی متعین وجود ہے اور عقل کے دلائل اور قرآن و حدیث کے ارشادات سے ان کی اس بات کی تائید ہوتی ہے ----------  اور ان میں (وجودیہ و رایہ ہیں )مشہود یہ ظلیہ میں اگر تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کے سوا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مقامات کے فرق اور لاہوت (اللہ)تک پہنچنے کی راہوں کے اختلاف کی وجہ سے ایک مدعا کی وضاحت کیلئے ایک دوسرے سے ذرا مختلف اسلوب اختیار کیا ہے‘‘۔(۲۹)
ایک جگہ کہتے ہیں :
 ’’چنانچہ عارف کی یہ سرفی اللہ جاری رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اس وحدت کو پالیتاہے ، جو تمام اسماء کے لئے وحدت جامعہ ہے یہ توحید باطن الوجود ہے‘‘۔ (۳۰)
بہر حال یہ رد و قبول ومناظرے اٹھارویں صدی تک تو زور و شور سے جاری رہے ، اب بھی اہل تصوف کے درمیان موجود ہیں تاہم عام لوگوں سے پوشیدہ اور زیادہ سے زیادہ لائبریریوں کی زینت بنتے جارہے ہیں۔
دونوں نظریات کاتقابلہ :          دونوں نظریات کا فرق یاتقابل ذیل کے نقشے سے ہوتا ہے۔(۳۱)
وحدت الوجود (ہوالکل )                             وحدت الشہود (ہوالہادی)
(۱) نظریہ ہمہ است یا اندرہمہ اوست               (۱) نظریہ ہمہ ازاوست
(۲) رحجان تصوف، سکون کی طرف  مائل           (۲) جوش کی طرف مائل
(۳) میں اور وہ جدا نہیں وہ دریا تو میں قطرہ ہوں  (۳) اس کے ساتھ میں اور میرے ساتھ وہ ہے
(۴) وصل                                     (۴) عشق
(۵) اعتقاد : میں کون ہوں ؟ اَ ناَ الحق (عارف )       (۵) میں کون ؟ اناَ عَبدُہُ  (عاشق)  
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے دونوں نظریات ذات باری تعالیٰ اور مخلوقات کے تعلقات کو بیان کرتے ہیں اور ان کے مطالب کے لحاظ سے انہیں توحید عینی اور توحید ظلی بھی کہا جاتا ہے ۔ تصوف کی ایک اہم کتاب ’’تذکرہ غوثیہ‘ ـ‘  میں دونوں کا فرق اس طرح بیان کیا ہے ۔
وجود یعنی ہستی حقیقی واحد ہے لیکن ایک ظاہر وجود اور ایک باطن ۔ باطن وجود ایک نور ہے جو جملہ عالم کے لئے بمنزلہ جان کے ہے۔اسی نور باطن کا پرتو ظاہر وجود ہے، جو ممکنات کی صورت میں نظر آتاہے ۔ ہر اسم و صفت و فعل کہ عالم ظاہر میں ہے ، ان سب کی اصل وہی وصف باطن ہے اور حقیقت اس کثرت کی وہی وحدت صرف ہے۔ جسے امواج کی حقیقت عین ذات دریا ہے۔( ۳۲)  
اس فلسفے کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی ذات کائنات ہے اس سے زیادہ نہ کم ۔ اس کے مقابلے میں مجددالف ثانی نے جو نظریہ وحدت الشہود پیش کیا اُسے توحید ظلی بھی کہا جاتاہے۔ اس کا مطلب تصوف کی مشہور کتاب’’ غوثیہ‘‘ میں کچھ یوں ہے۔
’’وجود کائنات اور ظہور آثاروصفات مختلفہ واحد مطلق کی ذات و صفات کا ظل و عکس ہے ، جو عدم میں منعکس ہو رہاہے اور یہ ظل عین صاحب ظل نہیں بلکہ محض ایک مثال ہے‘‘ ( ۳۳)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالی کا سایہ ہے۔
احمد شاہ تیمور باجوڑی کا موقف :        احمدشاہ تیمورباجوڑی کاموقف یہ تھا کہ دونو ں مکتبہ یا اس میں تطبیق لانے والوں کا اس مسئلہ پر بحث کرنا ،دلائل دینا نہ مفید ہے، نہ قابل فہم ،اور نہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں قرآن مجید میں جو ہدایات ، رہنمائی کا واحدذریعہ ہے، بیان کی ہیں ۔ اللہ تعالی کے بارے میں اس طرح لڑنے جھگڑنے، بحث کرنے پر قرآن مجید نے پابندی لگائی ہے اور اس چیزکو کافروں کا شیوہ قرار دیا ہے۔( ۳۴)  اللہ کا فرمان ہے کہ ہدایات اور دلیل کے بغیر اللہ کے بارے میں بحث کرنا ، جھگڑنا گمراہ لوگوں کا کام ہے آخرت میں اُنہیں سخت عذاب چھکایا جائے گا۔(۳۵) جیسا کہ اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے کہ بعض گمراہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے وجود اور صفات کے حوالے سے بحث مناظرے (جھگڑے ) روشن کتاب (قرآن ) کی دلیل کے بغیر کرتے  ہیں ۔( ۳۶)
لہٰذا اگر اللہ کی ذات،صفات ، توحیداور کائنات اور اللہ کے باہم رشتہ و تعلق کے حوالے سے جو بھی بات کرنی ہے، نظریہ قائم کرنا ہے، عمل کرنا ہے تو سب کی دلیل و ثبوت اسی اللہ کی کتاب قرآن مجید سے ہونی لازمی ہے۔ قرآن و سنت نے انتہائی اسان زبان ، تفصیل اور کسی بھی شک و شبہ اور تنازعے سے پاک توحید ، اللہ اور مخلوق کے باہم تعلق و حیثیت بیان کیا ہے۔ مزید کسی الہام ، ریاضت ، فلسفے اور نظریے گھڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ۔قرآن مجید نے ۲۶۹۸ مرتبہ اللہ کا نام یعنی اسم ذات بیان کیا ہے۔ یہ نام خود اللہ کی ذات حیثیت اور صفات کی ایک مکمل دلیل ہے ، پہچان ہے اور ثبوت ہے ۔ اس کی نہ جمع ہے ، نہ ضد ، نہ مذکر اور نہ مونث ۔ اللہ کے پاک نام کا تجزیہ کریں تب بھی اللہ کی ذات ہوتاہے ، مثلاً  ا (الف ) ہٹائیں  تو ’للہ‘ رہ جاتا ہے ، ل (لام ) بھی ہٹائیں توــ’ لہ‘ رہ جاتا ہے اور اگر یہ دوسرا  ل (لام) بھی ہٹائیں تو ’ہ‘  بن جاتاہے ۔ ان تمام کا مطلب پھر بھی ذات باری تعالی ہے۔ انگریزی زبانوں میں بھی ادبی لحاظ سے اس نام کہ حیثیت علیحدہ اور منفرد ہے ، مثلاً انگریزی زبان میں اللہ کے لئے God    اور دیوتا کے لیے god استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی خود اپنی ذات ،صفات اور کائنات سے تعلق کے حوالے سے سورۃ الحشر میں فرماتا ہے۔   
’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، غائب اور ظاہر ۔ ہر چیزکا جاننے والا وہی رحمان اور رحیم ہے ۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس ، سراسر سلامتی، امن دینے والا ، نگہبان، سب پرغالب اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور بڑاہی ہوکر رہنے والا ۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کرتے ہیں ۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذکرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اُ س کے لئے بہترین نام (صفات ) ہیں ،ہرچیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے ( وہ غلام ہے ) اُس کی تسبیح (تابعداری) کر رہی ہے، اور زبردست اور حکیم ہے۔‘‘(۳۷) 
کائنات اور اللہ کا تعلق بس یہی ہے کہ اللہ تعالٰی کائنات کا خالق ہے مالک ہے اور حاکم ہے اور تمام مخلوق کو اسی کے مملوکہ ہونے کی حیثیت سے اس کے تکوینی اور شرعی دونوں احکام کی تابعداری کرنی چاہئے۔(۳۸) اللہ معبود ہے بندہ عابد ہے، اللہ خالق ہے بندہ مخلوق، اللہ مالک ہے بندہ مملوک ،اللہ حاکم ہے بندہ محکوم ۔ بس یہ سادہ تصور خود قرآن دے رہا ہے ،اسے اتنا پیچیدہ بنانے کی قطعا ًضرورت نہیں ہے۔ اس حوالے سے احمد شاہ تیمور نے مرزا مظہر، شاہ ولی اللہ اور دیگر متعلقہ افراد کے نام انفرادی خطوط بھی لکھے۔(۳۹)  شریعت وطریقت کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے پر بحث کی اور زور دیا کہ انسان صرف قرآن وسنت کی تابعداری پر مکلف ہے۔ طریقت انسان کی ذاتی تزکیہ نفس کے اعمال ہیں لیکن یہ بھی شریعت کے تابع اورقرآن وسنت کے احکامات کے مطابق ادا کرنے چاہئیں۔ جس طرح دنیا کے مسائل، تنازعات کے تصفیے اور زندگی بسر کرنے کیلئے شریعت نے حدود مقرر کی ہیں اسی طرح اللہ سے تعلق بنانے ،درجات بلند کرنے اور آخر ت کو سنوارنے کیلئے بھی شریعت نے حدود مقرر کی ہیں جس کی تابعداری لازم ہے ۔(۴۰)
قرآن وسنت اور ملاتیمور کی اس بحث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید جو تصورِ توحید پیش کرتا ہے اس میں نہ ممکن کیلئے وجود کا اثبات کوئی شرک ہے اور نہ موجود یا مشہود صرف اللہ ہی کو قرار دینا توحید کا مرتبہ ہے۔پھر اللہ کی ذات کے حوالے سے امر کیا جا رہا ہے کہ:
’’کہو کہ وہ اللہ ایک ہی ہے ۔اللہ تعالی بے نیازہے۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا اور نہ اس کا کوئی برابر ہے۔‘‘(۴۱)
قرآن کی رو سے توحید یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو الٰہ مانا جائے جو خدائی کی تمام صفات و کمال سے متصف اور عیوب نقائص سے پاک ہے جس کی وضاحت خود اللہ نے اپنے انبیاء کرام کے ذریعے کی ہے جوعقل مانتی ہے ۔احمد شاہ تیمور (۱۶۸۵ تا ۱۷۱۴) خودچاروں سلسلوں کا فیض یافتہ، نقشبندیہ سلسلے کا علمبردار اور مرزا مظہر کے مرید اور خلیفہ تھے ،ان کے ساتھی اور اساتذہ  اس معاملے میں پیش پیش تھے ۔لیکن اس کے باوجود وہ قرآن مجید کی توحید کے قائل تھے ۔ دونوں جانبین۔اور مدعیوں کو منع کیا کرتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ ایک تو یہ نظریات نہ ضروریات دین سے ہے نہ اس کا فائدہ ہے ،نہ اصلاح کا کوئی ذریعہ ہے بلکہ الٹا پیچیدگی، تنازعات اور فرقہ بازی کا ذریعہ ہے۔ دوسرے یہ کہ خدا جیسی ہستی کے بارے میں مخلوقات کا اس طرح نظریات گھڑنا کسی کے لئے بھی اور کسی بھی صورت میں جائز نہیں اس کے لئے شرع سے دلائل لانا محض تکلف ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ : اللہ کی ذات میں جھگڑنے اور دلیل بازی نہ کرو اللہ کی ذات میں فکر نہ کرو اللہ کی کائنات ،نعمتوں اور صفات پر ہدایت کے لئے فکر کرو۔ اس سلسلے میں خود اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی ہدایات اور تشریح کافی ہے۔(۴۲) وہ اللہ کی ذات اور مخلوق کی حیثیت قرآن کی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ ذات ،صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی اور مثال نہیں۔(۴۳)وہ تمام کائنات کا خالق ہے۔(۴۴) وہ مالک ہے ۔حاکم ہے اور کوئی بھی اس میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے ،نہ ہو سکتا ہے ،نہ ہو گا۔(۴۵)، نہ کوئی اس کے برابراور ہمسر ۔(۴۶)
            ملاتیمور اللہ اور کائنات کے تعلق کے لئے سورہ روم کی آیت پیش کرتے ہیں کہ زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہے اس کی مخلوق ہیں ، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔(۴۷)  نتیجہ یہ کہ :
۱۔        وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خدا ہے اور خدا کائنات ہے ۔
۲۔        وحدت الشہود فلسفے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کائنات کا پر تُو ہے یعنی اللہ کا عکس اور ظل ہے۔
۳۔       یہ دونوں نظریے ذات باری تعا لیٰ ا ور مخلوقات کے تعلقات کو بیان کرتے ہیں اور تصوف کی زبان میں ا سے توحید عینی اور توحید ظلی کہا جاتا ہے ۔
۴۔       وحدت الوجود فلسفے کا بانی ابن عربی مشہور ہے تاہم ان سے پہلے غیر مسلم اور مسلمان اہل صوفیاء بھی اس کے قائل رہے ہیں۔
۵۔       مجدد الف ثانی نے وحدت الوجود کی بدعات دور کرنے کیلئے وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا۔ لیکن اصلاح کے بجائے دو مخالف مکتبہ فکر ابھرکر سامنے آئے جوفرقہ بازی کے ساتھ ساتھ مسئلے کی پیچیدگی کا سبب بھی بنے۔
۶۔        علمائے دین اور صوفیاء میں سے بعض حضرات ان نظریات کو شریعت کے مطابق نہیں سمجھتے ۔
۷۔       قرآن وسنت نے توحید کا مسئلہ سادہ اورآسان پیش کیا ہے جس کو فلسفہ یا کسی اور مشکل زبان میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۸۔       قرآن مجیدکے مطابق اللہ ذات و صفات میں یکتا ہے ۔وہ خالق ، مالک ،حاکم اور معبودہے، جبکہ کائنات مخلوق ،محکوم ،مملوک،عابد اور شریعت کی تابعداری کرنے پر مکلف ہے۔
۹۔        تصوف انفرادی ،تزکیہ نفس، کا سبب ہو سکتا ہے ۔
۱۰۔       لیکن کوئی چیز نہ شریعت کی چوکاٹ سے باہر ہونی چائیے نہ دین دنیا کی کامیابی بغیر شریعت پر عمل کرنے کے ممکن ہے۔

ڈاکٹرحبیب الٰہی، اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ ایجوکیشن ، ہزارہ یونیورسٹی
حوالہ جات
۱۔        عبدالحی، الثقافت الاسلامیہ فی الہند، ادارہ ثافت الاسلامیہ ،لاہور،۱۹۷۰ء،ص ۱۷۰وبعد
۲۔        التابلسی،شیخ عبدالغنی،کتاب الصباح المقصود،طرابلس الرمتقی،۱۹۵۶ء،ص۱۷۳۱،بحولہ برقی،غلام جیلانی،فلسفیانہ اسلام،شیخ غلام علی اینڈ سننز پبلشر،۱۹۸۵ء ،ص۵۱
۳۔       ایضاً
۴۔       ابن عربی ،محی الدین،فصوص الحکم، دارلکتب العلمیہ، بیروت،۱۹۹۹ء ص ۱۱۴و بعد
۵۔       ایضا ً،ص ۷۸
۶۔        ایضاً
۷۔       ایضاً
۸۔       کوکن،تاریخ تصوف،مدراس،۱۹۵۹ء،ص۸۹
۹۔        برقی،غلام جیلانی،فلسفیانہ اسلام،شیخ غلام علی اینڈ سنزپبلشر،۱۹۲۷،ص ۸۹
۱۰۔       محی الدین،رسائل ابن عربی،دار الکتب العلمیہ،بیروت،۱۹۹۸ جز اول ،ص۱۳
۱۱۔       ابواسماعیل ،عبداللہ محمد بن علی الانصاری،منازل السائرین،انتشارات مولٰی تہران،۱۳۴۱ھ ص ۴۷
۱۲۔       ابو حامد ،محمد بن محمد الغزالی،احیاالعلوم الدین ،اردو ترجمہ محمد احسن،ناتوے مکتبہ رحمانیہ لاہور،۱۹۸۸ء جلد۴/۲۴۵
۱۳۔      محمد اکرم شیخ ،روداد کوثر،ثقافت اسلامیہ ، لاہور،۱۹۷۵ء، ص ۳۰۸،۳۰۹
۱۴۔      نظام ، نظام الملک،مناقب فخریہ،تہران،۱۹۶۸ء،ص ۲۲وبعد
۱۵۔      فیروزالدین،مولوی،فروزالغات، فیروزالدین انڈسنز پبلشر، لاہور، تاریخ اشاعت ندارد لفظ وحدت الشہود ،ص۱۴۰۶
۱۶۔       الف ثانی ، مجدد ،مکتوبات۱ ،مکتوب۴۳،مجلس نشریات اسلام، کراچی ۱۹۸۸ء
۱۷۔      غامدی، جاوید احمد، البرہان ،المورہ،ادارہ علم و تحقیق، ۲۰۰۹ء،ص م۱۸۷
۱۸۔      المرجع السابق،مکتوبات(دفتراول )،مکتوب یازدھم
۱۹۔       مودودی،ابو الاعلی،تجدید و احیائے دین،ادارہ تر جمان القرآن، ۱۹۷۷ء،ص ۷۷
۲۰۔      تیمور،احمدشاہ،شریعت و طریقت ،غیر مطبوعہ۱۷۵۰ء، ص ۲۰و بعد
۲۱۔       خلیق انجم،مرزامحمد رفیع سودا، علی گڑھ، ۱۹۶۶ء،ص ۴۷
۲۲۔      الف ثانی مجدد، مکتوبات۲، مکتوب۱،مجلس نشریات ،کراچی،۱۹۸۸ء
۲۳۔      عبد العلی،مولا، رسالہ وحدت الوجود، ترجمہ مولانا زید الحسن، مطبوعہ دہلی۱۹۷۱ء ص ۳۵۵،۱۲۵
۲۴۔      ولی اللہ ،شاہ،مکتوب مدنی، مطبوعہ لاہور ۱۹۷۰ء ص ۳ وبعد
۲۵۔      رفیع الدین،شاہ ،دمغ الباطل ،مرتبہ عبد الحمیدسواتی، مطبوعہ گوجرانوالہء ۱۹۷۶ء، ص۲۰ وبعد
۲۶۔      محمد اکرم،شیخ، روداد کوثر ،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور۱۹۷۵ء،ص۵۳۳
۲۷۔      فاروقی،زیدالحسن،رسالہ وحدت الوجود،دہلی۱۹۷۰ء ص۱۳۰،۱۳۶
۲۸۔      المرجع السابق ،ص ۴۸۲
۲۹۔      محمد اسماعیل ،شاہ،عبقات،اشارہ۱،عبقہ۲۰،رؤف اکیڈمی، لاہور
۳۰۔      ایضاً اشارہ۱،عبقہ۳۶
۳۱۔      نظام جنگ ،سراحمد حسین،فلسفہ فقراء، لکھنو ۱۹۹۰ء،ص ۳۱
۳۲۔      محمد اکرم، شیخ، روداد کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ ۱۹۷۵ء ص۳۱۱
۳۳۔      ایضاً
۳۴۔      الرعد ۱۳/۱۳
۳۵۔      لحج۲۲/۸،۹
۳۶۔      لقمان۳۱/۲۰
۳۷۔     الحشر۵۸/۲۳،۲۴
۳۸۔      انعام ۶/۱۰۲
۳۹۔      احمد شاہ ،تیمور ،شریعت وطریقت ،غیر مطبوعہ،ص ۱۲۰ وبعد
۴۰۔      الجاثیہ ۴۵/۱۸
۴۱۔      اخلاص ۱۱۲/۱ تا ۴
۴۲۔      الرعد۱۳/۱۳
۴۳۔      الشوریٰ۴۲/۱۱
۴۴۔      الاعراف ۷/۵۴
۴۵۔      حسین ،غلام ،مکتوبات لعل بدخشان ،غیر مطبوعہ، سنہ ندارد، ص ۲۰ و بعد
۴۶۔      اخلاص ۱۱۲/۴  (۴۷)تیمور ،احمد شاہ ،شریعت و طریقت ،غیر مطبوعہ ، ص ۱۲۰ و بعد

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com