اردو کے اعلیٰ سطحی نصابات:معاشی جائزہ (خیبر پختونخوا کی جامعات کے تناظر میں)
ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری        ڈاکٹر محمد حامد
ABSTRACT
In present era, education is considered as an investment. People are inclined to the education which has more chances of material return. The disciplines which have stronger commercial and professional value are getting more attention than the spiritual or general ones. So every discipline is strengthening itself by putting professional and market-oriented elements in it. Urdu is also a popular discipline in Pakistan. Urdu departments are running in many universities here which issue degrees upto doctorate level. Urdu's curriculum should also cope with the expectations of people; spiritually, intellectually and professionally. Keeping in view these challenges, curricula of Urdu must also be analyzed and reconstructed. Article under study is an effort in this connection .
تعلیمی نظام کسی بھی قوم کی ترفیع و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔ تعلیمی نظام ہی کسی قوم کے مزاج ، صلاحیتوں اور کارکردگی کا تعین کرتا ہے۔ بہتر تعلیم بہتر انسانی پیداوار دیتی ہے جبکہ بے جان تعلیم قوم کے بچوں کو بھی بے عملی کے گہرے گڑھے میں گرا کر قومی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ تعلیمی نظام مسلسل ترمیم و تغیر کی زد میں رہتا ہے تا کہ قومی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے اور قوم کو اقوامِ عالم میں نمایاں مقام دلا سکے۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وقت کے تقاضوں میں تبدیلی آ رہی ہے ۔ کل جو مسلمہ حقائق تھے آج وہ تشکیک کی زد میں ہیں۔ نئے حقا ئق اور نئے آفاق ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ پوری دنیا ان تبدیلیوں سے متاثر ہو رہی ہے اور نئے معیارات اور اقدار کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہے۔ جو اقوام وقت کی رفتار و جہت کو پکڑنے میں ناکام ہو تی ہیں وہ اقوام ترقی و ارتقا کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں اور دیگر اقوام کی دست نگر بن جاتی ہیں۔ اور جو اقوام وقت کی نبض کو پکڑ لیتی ہیں دنیا کی قیادت و سیادت ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔
اقوام کی زندگی کی جہت کا تعین تعلیم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تعلیم ہی قومی زندگی کی راہیں متعین کرتی ہے اس لیے تعلیم ہمہ وقت مثبت و مناسب تبدیلیوں کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھتی ہے۔ تعلیم کے نظام میں نصاب خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیو نکہ نصاب تعلیم کے تمام منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ نصاب ان تمام اقدامات و منصوبو ں کا مجموعہ ہوتا ہے جس کے ذریعے تعلیمی مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔تعلیمی نظا م میں یہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کی کامیابی و ناکامی پر تعلیمی مقاصد کی کامیابی و ناکا می کا انحصار ہو تا ہے۔
تعلیمی ماہرین قومی مقاصد کو اس انداز سے نصاب میں سموتے ہیں کہ قوم کو وہی پیداوار حاصل ہو جو وہ چاہتی ہے۔ اس لیے نصاب مسلسل تبدیلی کی زد میں رہتاہے۔نصاب قوم کے فلسفۂ حیات، اقدار، تاریخ،سماجی روایات کا امین ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی اصولوں سے مطابقت رکھتاہے تاکہ تقلیب و تربیت کا عمل مناسب طور پر رو بہ عمل ہو سکے۔
جدید دور میں مادے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ انسان کا رخ روحانیت سے زیادہ مادیت کی طرف اور اندر کی دنیا سے باہر کی دنیا کی طرف ہو گیا ہے۔تعلیم میں بھی یہ رجحان در آیا ہے ۔ وہی مضامین اور کورسز توجہ پا رہے ہیں جو مادی و معاشی خوشحالی کے ضامن ہوں۔ جبکہ ان مضامین اور کورسز سے لوگ  اجتناب کر رہے ہیں جو معاشی طور پر فائدہ مند ثابت نہ ہوں۔ بقول عطش درانی ’’نصاب کو محض ادبیاتی مطالعے تک محدود نہ رکھا جائے اس کا تعلق روزی روٹی سے جوڑنے اور اسے جدید تر بنانے سے قائم کیاجائے۔(۱)
افرادی قوت جس قوم کی زیادہ تربیت یافتہ اور ہنر مند ہو اتنی ہی اس کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ افراد کی صلاحیت میں بہت فرق ہوتا ہے۔اس لیے ہر معاشرہ تعلیم و تربیت کے پروگراموں کو ایسے انداز میں تشکیل دیتا ہے کہ اس کے تیار کیے ہوئے افرادمعاشرے کے لیے مفید اور بہترین ثابت ہوں اور وہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے اس کا بوجھ اٹھانے کی قابلیت رکھتے ہوں۔
The development of human resources to meet the manpower needs of economic development is a central purpose of education. Secondary, technical, vocational,  higher and professional education should, therefore, be placed in such a way that the manpower needs of development are  met and employment opportunities are maximized.(2 )
پاکستان میں اس وقت جو تعلیمی نظام رائج ہے اس کے مطابق بارہویں جماعت تک عام اور بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سطح تک کی تعلیم میں حساب، زبانیں، اخلاقیات، دینیات،بنیادی معاشرتی علوم اور بنیادی سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔اس سطح کے بعد کچھ طلبہ کومعاشی جہت(میڈیکل، انجنییرنگ،تکنیکی علوم، بی ایس وغیرہ) کا پتہ چل جاتاہے جبکہ باقی طلبہ کو دو سال مزید عمومی تعلیم(بی اے/بی ایس سی) میں گزارنے ہوتے ہیں جن کو بی اے /بی ایس سی کے بعد اپنے معاشی رخ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
جامعاتی سطح کی تعلیم ملک و قوم کی ترقی میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔سکول و کالج کی سطح پر طلبہ کو بنیادی و عمومی تعلیم فراہم کی جاتی ہے جبکہ یونیورسٹی سطح پر خصوصی اور پیشہ ورانہ تیاری پر مشتمل تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ اس لیے اس سطح کی تعلیم ملکی ترقی کی کلید سمجھی جاتی ہے اور اس پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔لیکن پاکستان میں تعلیم باقی دنیا سے مختلف منظر نامہ پیش کررہی ہے۔ یہاں  اعلیٰ تعلیم کو پرائمری وثانوی تعلیم کے مقابلے میں کم اہمیت دی گئی ۔اور یہ سمجھا گیا کہ اعلیٰ تعلیم ملک کی ترقی میں بنیادی وثانوی تعلیم کے مقابلے میں کم معاون ہے۔ڈاکٹر عیسانی اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
The [developing countries] have been misled by economic studies which highlighted the view that public investment in higher education brings meagre returns compared to investment in primary and  secondry school level. (3 (
جبکہ امرِ واقع یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اعلیٰ تعلیم ہی کی بدولت اتنی تیز رفتار ترقی کی ہے ،نہ کہ پرائمری وثانوی تعلیم کی بدولت ۔وجہ یہ کہ علم میں اضافہ ،ایجادات ،اختراعات سب اعلیٰ تعلیم وتحقیق ہی کی مرہونِ منت ہیں۔’’اعلیٰ تعلیم ملک کی معاشرتی ، معاشی اور ثقافتی ترقی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معیاری اعلیٰ تعلیم کے ذریعے قوم کو ایک ہی نسل میں ترقی یافتہ بنایا جا سکتاہے‘‘۔(۴)        
            اعلیٰ تعلیم کا شعبہ پاکستان میں خصوصی توجہ کا متقاضی ہے ۔کیونکہ یہی شعبہ ہے جوملک کو قیادت کو بھی فراہم کرتا ہے اور سوچنے سمجھنے والے دماغ بھی۔علم کی روز افزوں ترقی بھی اسی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور معاشی و معاشرتی بہتری کا دارومدار بھی اسی پر ہوتاہے۔ڈاکٹر ایم لطیف ورک پاکستانی یونیورسٹیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پاکستا ن میں اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔یہ ملک کی معاشی نشوونمامیں مؤثرکردار ادا نہیں کررہی۔  یہاں کی اعلیٰ تعلیم کا معیار بھی تسلی بخش نہیں۔ پاکستانی جامعات، موجودہ حالت میں، نہ نیا علم پیدا کر رہی ہیں اور نہ ان کے تدریسی پروگرام عالمی معیار کے مطابق ہیں۔(۵)
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تعلیم مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور Supply-orientedہے۔ یونیورسٹیوں میں وہ کام اور تحقیق بھی انجام نہیں دی جارہی جس پر ملک کی صنعت اور معیشت کی ترقی کا انحصار ہے ۔تحقیق کاکام جو ہو بھی رہا ہے وہ بھی کمزور درجے کا ہے۔(۶)   
پاکستان میں اردو کی تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو اردو کو بی ایس اور ماسٹر سطح پر بطور اختصاصی مضمون چنا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے نصاب کا معاشی جائزہ بھی ضروری قرار پاتا ہے کہ کیا یہ نصاب طلبہ و طالبات کے معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟اور کیا یہ مضمون جدید دور میں بھی بقا کا سامان رکھتا ہے یا آئندہ وقت میں یہ عدم توجہ کا شکار ہونے والا ہے؟ اور اگر اردو کے مضمون کو ایسا کوئی خطرہ ہے تو اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟زیرِ نظر مضمون ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی سعی پر مشتمل ہے۔
اعلٰی سطح پر داخلہ لیتے ہوئے طلبہ کو اپنی تعلیمی کارکردگی ، ذہنی میلان، داخلہ ملنے کے امکانات کے علاوہ معاشی کامیابی کے مواقع کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اردو کا طالب علم بھی اردو میں داخلہ لیتے وقت یہ توقع کرتا ہے کہ یہ مطالعہ اس کی فکر و دانش میں اضافے کے ساتھ سا تھ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ڈا کٹر ریاض مجیدکے مطابق ’’اب تعلیم کے حصول کامسئلہ معاشی وابستہ دائروں(Job-oriented Circles )میں داخل ہوچکا ہے۔یہ سلسلہ ابلاغیات ،صحافت،سماجیات،ترجمہ نگاری،ریڈیو،ٹی وی،سٹیج ڈرامہ، سینما انڈسٹری اوردوسرے کئی کاروباری شعبہ ہائے حیات (اشتہارات،پریس وغیرہ)سے جڑاہوا ہے۔(۷)اس لیے اردو کے نصاب میں معاشی و پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر مبنی کورسز کی شمولیت ضروری ہے۔ذیل میں خیبر پختونخوا کی جامعات میں رائج اردو نصابات کے معاشی عناصر کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے:

 

 

  تخلیقِ ادب
تدریس
صحافت
عرائض نویسی
ترجمہ کاری
دیگر پیشہ ورانہ کورسز
عام عملی زندگی میں معاون کورسز
  بی ایس  
  اردو
   ۱۔  فارسی ، عربی، ہندی زبانوں کے قواعد اور روایت،
۲۱۔ اردو زبان :  قواعد و املا ،۳۔ بیان و بدیع وعروض ،
۴۱۔ اردو نثر کے اسالیب : مزاح ، سفرنامہ ، آپ بیتی ۔ فنی،فکری    ااور اسلوبیاتی مطالعہ ،  ۵۔ریسرچ ورک ،
۶۱۔ اردو فکشن کا مابعد الطبیعیاتی مطالعہ ،
۷۔ اردو فکشن میں تاریخی و تہذیبی شعور ، ۸۔اردو ادب کے اہم کردار،۹۔اردو ادب کا تانیثی مطالعہ،۱۰۔ادبی تواریخ کا مطالعہ،۱۱۔ اردو کا ادب کا مابعدِ نو آبادیاتی مطالعہ۔
  ۔۔۔
ادب اور ابلاغیات
۱۔ تحریر وانشا
۱۔عالمی کلاسیک کے تراجم
 ۱۔ کمپیوٹر کا علم
۲۔معاشیات
۱۱۔انگلش
 ،۲۔ ریاضی
 ۳۔ شماریات،
۴۔نفسیات
تجزیہ:
چارٹ کے مندرجات سے واضح ہے کہ بی ایس اردوکا نصاب اردو زبان و ادب کے علمی، تاثراتی اجزا کے ساتھ ساتھ کافی مہارتی اجزا بھی رکھتا ہے۔ مہارتی اجز ا میں سب سے زیادہ ادبی تربیت پر توجہ دی گئی ہے جو اس سطح پر مناسب بھی ہے۔اس کے بعد عام عملی زندگی اور تحقیق میں معاون کورسز ہیں جن کی تعداد۴ ہے۔ انگریزی زبان دورِ جدید کی اہم ضرورت ہے اور بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے ہر علم میں معاون بھی ہے۔ریاضی کو بھی اردو بی ایس میں شامل کیا گیا ہے۔شماریات اردو اور دیگر سماجی علوم کی تحقیق میں معاونت فراہم کرتی ہے اور نفسیات ادب کی تفہیم، تخلیق، تنقید اور تحقیق تمام مدارج پر ممد ثابت ہوتی ہے۔
اردو کے فارغ التحصیل تخلیق کار بنتے ہیں،تدریس میں جاتے ہیں یا صحافت کے شعبے میں قسمت آزماتے ہیں۔ ماسٹر وبی ایس سطح پر اردو صحافت پر ایک کورس (عمومی کورسز میں یا بنیادی کورسزمیں) اگر شامل کیا جائے تو طلبہ کے لیے زیادہ مفید ہوگا اور وہ صحافت کے لیے درکار مہارتوں پر توجہ کرسکیں گے ۔موجودہ نصاب میں محض ایک اختیاری کورس’’ ادب اور ابلاغیات‘‘ شامل ہے۔
            عرائض کی تحریر کی زندگی میں بار بار ضرورت پڑتی ہے ۔ زبان و ادب کے طالب علم کے لیے اس پر عبور بہت ضروری ہے کیو نکہ وہ اس کے ذریعے اپنے معاملات بھی نمٹا سکتا ہے، دوسرے لوگ بھی اس سلسلے میں زبان و ادب کے طالب علم سے مہارت کی توقع رکھتے ہیں اور اس مہارت کو زبان کا طالبعلم بطور پیشہ بھی اپنا سکتا ہے۔اس مہارت کی تدریس کے لیے بی ایس کے نصاب میں تحریر و انشا کی عملی تربیت شامل کی گئی ہے۔ اس کورس میں مندرجہ ذیل اجزا کی تدریس کی تجویز پیش کی گئی ہے:
۱۔ مضمون نویسی ( علمی ، ادبی ، عمومی )،  ۲۔ تبصرہ و تجزیہ،  ۳۔ رپور تا ژ؍ دفتری مراسلہ،  ۴۔ تخلیقی نثر (مکالمہ، کہانی ، انشائیہ ،ڈرامہ ، فکاہیہ نثر ) ،  ۵۔ ترجمہ( انگریزی؍ اردو)
اس پرچے کے مشمولات کا تعلق ادب سے بھی ہے اور غیر ادبی عملی زندگی سے بھی۔ ترجمہ اور دفتری مراسلہ کے اجزاعام عملی زندگی کی ضروریا ت ہیں۔جبکہ باقی اجزاادبی عملی زندگی کے لوازمات ہیں۔
ترجمہ دیگر زبانوں تک رسائی کے ذریعے دنیا سے رابطے کا وسیلہ ہے۔ترجمہ کاری پر عبور سے ادب کا طالب علم نہ صرف بین الاقوامی دنیا کے ادب سے روشناس ہوتا ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ اپنے معاش میں بھی مدد حاصل کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بی ایس اردو میں دو کورسز رکھے گئے ہیں۔ـ’’تحریر و انشا ‘‘ میں اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو ترجمہ کرانے کی مشق کرائی جاتی ہے جبکہ عالمی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے طلبہ کو دنیا کے مشہور ادب پاروں کا علم دیا جاتا ہے۔ٰؓ   
کمپیوٹر اور معاشیات کے کورسز بھی بی ایس کے نصاب میں شامل ہیں۔کمپیوٹر کے عملی استعمال میں مہارت دورِ جدید کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ہر طالب علم کے لیے اس کا سیکھنا ضروری ہے کیونکہ جدیددور نے علم کی دنیا کو کمپیوٹر سے منسلک کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر ہر علم سے متعلق بے حساب مواد موجود ہے جس تک رسائی کمپیوٹر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ علمی ترسیل کا بھی ذریعہ ہے اور حصول کا بھی۔ محقق اس سے مواد حاصل بھی کر سکتا ہے اور اپنی تخلیقات ، تحقیقات کو دوسروں تک پہنچا بھی سکتا ہے۔ آج کا محقق کمپیوٹر سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اگر محقق کمپیوٹر سے لا تعلق ہے یا کمپیوٹر کے استعمال سے ناواقف ہے تو وہ آدھے سے زیادہ علم سے دور ہے۔ علاوہ ازیں کمپیوٹر پر اپنی تمام نگارشات تیار بھی کی جاسکتی ہیں، ان کے پرنٹ بھی لیے جاسکتے ہیں، ان کو محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ بہت زیادہ مواد کو ایک چھوٹے سے پرزے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔
بی ایس کے نصاب میں مہارتی و علمی تربیت پر مشتمل ایک اہم کورس ’’ ریسرچ ورک ‘‘بھی ہے۔جامعاتی سطح پر تحقیقی تربیت کی اہمیت مسلّم ہے۔ تحقیق مسائل کی بنیادیں کھوج کران کے حل ڈھونڈتی ہے اور پھر عمل بھی کرتی ہے۔ یعنی تحقیق تشخیص بھی کرتی ہے، دوا بھی فراہم کرتی ہے اور مزید تحقیق کیلئے دروازے بھی کھولتی ہے۔ اور پیش گوئی میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔بقول ایم سلطانہ بخش:
تحقیق ایک محتاط اور منظم جستجو کاعمل ہے جس کے ذریعے سے پریشان کن مسائل کا حل ڈھونڈنے ،علم میں اضافہ کرنے،حقائق معلوم کرنے، اصول وضع کرنے اور مستقبل کے متعلق پیش گوئی کرنے میں انسان کو مدد ملتی ہے۔(۸)
بی ایس اردو میں یہ کورس ساتویں اور آٹھویں سمسٹر ز کے دوران طلبہ سے کروایا جاتا ہے۔ طلبہ کو کسی موضوع پر تحقیق کرکے، ناقدانہ جائزہ لے کے ، تحقیقی رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے۔  اس کے ذریعے طلبہ کی تحقیق و تنقید کے حوالے سے بھی عملی تربیت ہوجاتی ہے اور اسلوب کے حوالے سے بھی۔ طلبہ کو خود تحقیق کرنی ہوتی ہے اور خود اپنی تحریر میں رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں طلبہ کو موضوع کے انتخاب ، مواد کی جمع آوری ، مواد پر تنقید ، نتائج تک رسائی ، کتابیات و حوالہ جات اور حواشی و تعلیقات سے عملی آگاہی بھی فراہم ہوجاتی ہے۔ یہ کورس طلبہ کو ادب کی دنیا میں عملی طور پر داخل کر دیتا ہے اور انہیں اپنے طور پر مطالعہ کرنے ، تحقیق کرنے اور علم کی دنیا میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل بناتا ہے۔ اس لیے یہ کورس بہت اہمیت کاحامل ہے۔
اردو میں ماسٹر/بی ایس ڈگری حاصل کرنے والوں کی اکثریت تدریس کے شعبے میں جاتی ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طلبہ کی اکثریت اس ڈگری کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے اور بہت کم طلبہ ایم فل /پی ایچ ڈی میں جاتے ہیں۔ لیکن ایم اے اردو اور بی ایس اردو کے نصابات میں اس پر کوئی کورس نہیں رکھا گیا ۔ ان نصابات کو عملی زندگی کی ضروریات سے ہم آہنگ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں تدریس ِاردو پر کورس شامل کیا جائے تاکہ طلبہ کو خصوصاً اردو کی تدریس کے حوالے سے معلومات وتربیت حاصل ہوسکے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تدریس
صحافت
عرائض نویسی
ترجمہ کاری
دیگر پیشہ ورانہ کورسز
عام عملی زندگی میں معاون کورسز
ایم اے اردو
پشاور یونیورسٹی:
  ۱۔ساتویں پرچے میں شامل اختیاری جزو ’’علمِ عروض،
  دسواں پرچہ :(مندرجہ ذیل میں سے دو لینے ہیں)
 ۲۔مضمون ،  ۳۔لسانیا ت،  ۴۔ فارسی زبان وادب، یا
 تحقیقی مقالہ
اسلامیہ کالج یونیورسٹی:
  ۱۔ساتواں پرچہ:  کلاسیکی شعری اصناف مع علمِ عروض   ۲۔دسواں پرچہ ۱۔فارسی زبان وادب کا مطالعہ
    یا  پشتو ز بان وادب کا مطالعہ
بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی:
  ۱۔پرچہ دوم: کلاسیکی شعری اصناف مع علم ِعروض،
  سمسٹر چہارم( مندرجہ ذیل میں سے دو لینے ہیں)
   ۲۔مضمون ،  ۳۔لسانیا ت،  ۴۔ فارسی زبان وادب، یا
 تحقیقی مقالہ
ہزارہ یونیورسٹی:
  سمسٹر اول (تین میں سے دو لینے ہیں)
  ۱۔فارسی زبان واد ب،
  ۲۔ اردو زبان اور اس کے مسائل
سمسٹر دوم (تین میں سے دو منتخب کرنے ہیں)
  ۳۔فصاحت و بلاغت ،۴۔عالمی کلاسیک
  ۵۔عربی زبان وادب
سمسٹر سوم (چار میں سے دومنتخب کرنے ہیں)
   ۶۔ ادبیات ِہزارہ‘ اردو،   ۷۔ہندی زبان وادب،
  ۸۔جدید لسانیات
  سمسٹر چہارم : اختیاری پرچہ
  ۹۔ تاریخ گوئی /علم ِعروض یا تحقیقی مقالہ
   گومل یونیورسٹی :    کوئی عملی کورس نہیں
  ۔۔۔

 

 

  ۔۔۔

 

 

  ۔۔۔

 

 

  ۔۔۔

 

 

 

 

 

  ۔۔۔
دسویں  پرچے کا ایک اختیاری جزو
  ۱۔ ابلا غِ عامہ

 دسویں پرچے کا ایک اختیاری جزوج۔صحافت صوبہ سرحد میں

سمسٹر چہارم کا ایک اختیاری کورس: ابلاغِ عامہ

سمسٹر اول کا ایک اختیاری کورس: ۱۔ اردو کے نمایا ں ادبی جرائد

   ۔۔۔
دسویں  پرچے کا ایک اختیاری جزو:   
  ۱۔دفتری خط وکتابت
   ۔۔۔

 

 

سمسٹر چہارم کا ایک اختیاری جزو: دفتری خط وکتابت
    ۔۔۔

 

 

 

 

 

   ۔۔۔
دسویں  پرچے کا ایک اختیاری جزو:
  ۱۔ فنِ ترجمہ نگاری
    ۔۔۔

 

 

 فن ِ ترجمہ نگاری

 

 

سمسٹر سوم کا ایک اختیاری کورس :
۱۔ترجمہ: اصول ومباحث

 

 

   ۔۔۔
دسویں پرچے کا ایک اختیاری جزو :  ۱۔ اردو کمپیوٹر سافٹ وئیر (صرف ریگولرطلبہ کے لئے)
    ۔۔۔

 

 

سمسٹر سوم
پرچہ پنجم:  اردو کمپیوٹر سافٹ وئیر

    ۔۔۔
   ۔۔۔

 

 

   ۔۔۔

 

 

فنکشنل انگلش   الف  و  ب

 

    ۔۔۔

 

    ۔۔۔

تجزیہ:
پشاور یونیورسٹی کا ایم اے کا نصاب کافی حد تک جامع ہے اور طلبہ کی ادبی ضروریات کو بخوبی پورا کرتا ہے۔ لیکن اس کے نصاب میں تحقیق اور انگریزی کے مضامین کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ تحقیق بھی ادب کی ایک اہم ضرورت ہے اور طلبہ کو ایم اے یا ایم فل / پی ایچ ڈی میں تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں تحقیق کا اثر طلبہ کی عملی زندگی پر بھی پڑتا ہے اوران کی سوچ و عمل میں قطعیت اور اعتماد کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ ظن و تخمین اور قیاس و اندازوں والی زندگی سے نکل آتے ہیں اور سائنسی طرزِ فکر و طرزِ عمل کے ساتھ زندگی کے حقائق کو بہترطور پر سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ دوسری اہم ضرورت تدریسِ انگریزی ہے۔ چونکہ آج کے جدید دور میں فکر و نظر کے نئے نئے دروا ہورہے ہیں اور انگریزی بین الااقوامی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ انگریزی میں بہت زیادہ نئی اور مفید تحریریں ادب و فن اور فکری تحریکات کے حوالے سے سامنے آرہی ہیں۔ ادب کے طلبہ کے لیے یہ ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ وہ نئے علوم سے کما حقہ روشناس ہوں اور اس کے لیے لامحالہ انگریزی ہی وسیلہ ہے۔ اس لیے انگریزی کی تدریس کو اس سطح ُپر شامل کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں علی گڑھ یونیورسٹی کے ایم اے اردو کے نصاب کی مثال دی جا سکتی ہے جس کے تیسرے سمسٹر میں ’’مغربی شاعری‘‘اور’’عالمی فکشن ‘‘کے دو پرچے شامل ہیں۔(۹) 
تحقیق پر کورس (تحقیق: اصول و روایت)ہزارہ یونیورسٹی نے اپنے نصاب میں شامل کیا ہوا ہے اور بے نظیر ویمن یونیورسٹی نے فنکشل انگلش کے دو پرچے اپنے نصاب میں رکھے ہیں۔ یہ دونوں اجزا پشاور یونیورسٹی کو بھی اپنے نصاب میں شامل کر لینے چاہئیں۔ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ـ’’ اردو زبان اور اس کے مسائل‘‘ اور’’ عالمی کلاسیک ‘‘کے مضامین بھی ادبی تربیت کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔
صحافت پر پشاور اور بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی میں ایک اختیاری کورس ’’ابلاغِ عامہ‘‘ کا رکھا ہو ا ہے جبکہ اسلامیہ کالج میں ’’صحافت صوبہ سرحد میں ‘‘ کا اختیار ی کورس شامل ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں صحافت کے موضوع پر ’’اردو کے نمایاں ادبی جرائد‘‘ کا ایک اختیار ی کورس رکھا گیا ہے۔
ٍ           عرضی نویسی وغیرہ کی مہارت کی تربیت کے سلسلے میں پشاور یونیورسٹی اور بے نظیر یونیورسٹی کے نصابات میں ــ’’دفتری خط وکتابت‘‘کا ایک اختیاری کورس رکھا گیا ہے جو کہ ایک اور عملی کورس ’’فنِ ترجمہ نگاری ‘‘کے مقابلے میں ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں عرضی نویسی پر کوئی کورس نہیں اور تیسرے سمسٹر میں ترجمے پر ایک اختیاری کورس’’ ترجمہ: اصول ومباحث‘ ‘شامل ہے۔
کمپیوٹر کی تعلیم پر مبنی کورس ’’اردو کمپیوٹر سافٹ وئر‘‘پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں بطور اختیاری مضمون اور بے  نظیر یونیورسٹی کے نصاب میں بطورلازمی مضمون شامل ہے۔
پیشہ ورانہ عملی تربیت کے حوالے سے ایم اے اردو کا نصاب کمزور ہے۔تدریس پر سرے سے کوئی کورس نہیں رکھا گیا جبکہ دیگر کورسز بھی بہت کم ہیں اور جو ہیں بھی وہ اختیاری ہیں اور اکثر طلبہ ان کو منتخب ہی نہیں کرتے۔ اس لیے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ معاشی طور پر اندھیرے میں ہوتے ہیں۔ ان کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ روزگار کی مارکیٹ میں میری ٖضرورت کدھر ہے۔

 

تخلیقِ ادب
تدریس
صحافت
عرائض نویسی
ترجمہ کاری
دیگر پیشہ ورانہ کورسز
عام عملی زندگی میں معاون کورسز
ایم فل اردو
پشاور یونیورسٹی:
  ۱۔علم ِعروض کا مطالعہ ،  ۲۔املا وتلفظ کے مباحث ،  ۳۔ اردو  زبان کا مطالعہ ،  ۴۔ افسانے کی تکنیک کا مطالعہ ،  ۵۔ انشائیے کی تکنیک کا مطالعہ ،  ۶۔لائبریری سائنس اور تحقیق،
 ۷۔ مخطوطہ شناسی کا فن،  ۸۔ادب اور سماجیات،  ۹۔ ادب اور جمالیات،  ۱۰۔ ادب اور نفسیات،  ۱۱۔ تحقیقی مقالہ
 اسلامیہ کالج یونیورسٹی:
اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں ایم فل کا کورس ایک جیسا ہے۔
  ہزارہ یونیورسٹی:
  ۱۔بیان وبدیع،  ۲۔ اردو املا،تلفظ اور رموز اوقاف، 
  ۳۔تحقیقی مقالہ
 تدر یسِ ارد

 

 

  ایضاً

 

  ۔۔۔
اردو میں انٹرویو نگاری

 

 

  ایضاً

 

علمی وادبی جرائد
   ۔۔۔

 

 

 

  ۔۔۔

 

   ۔۔۔
    ۔۔۔

 

 

 

   ۔۔۔

 

ترجمہ:اصول ومباحث
اردو کمپیوٹر سافٹ وئر

 

 

 

   ایضاً

 

   ۔۔۔
   ۔۔۔

 

 

 

   ۔۔۔

 

   ۔۔۔
تجزیہ:
ایم فل اردو پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے نصاب( اختیاری و متعلقہ کورسز) میں پانچ عملی ادبی کورسز ہیں؛دو کورسز (لائبریری سائنس اور تحقیق اور مخطوطہ شناسی کا فن)تحقیق اور تلاش سے متعلق ہیں؛ تحقیقی مقالہ لازمی عملی تحقیق پر مبنی جزو ہے؛ اور تین کورسز بین العلومی مطالعے کی تربیت پر مشتمل ہیں۔یہ کورسز تعداد میں گیارہ بنتے ہیں لیکن تحقیقی مقالہ کے علاوہ تمام کورسز اختیاری یا متعلقہ ہیں ہیں جن میں سے کُل ۲۶ میں سے صرف چھے لینے ہو تے ہیں۔ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں بھی ۲ کورسز اور ایک تحقیقی مقالہ عملی تربیت سے متعلق ہیں۔
اردو کی تدریس پر بھی ایک اختیاری کورس پشاور و اسلامیہ کالج کے نصاب میں شامل ہے۔ہزارہ یونیورسٹی میں تدریس اردو کا کورس پی ایچ ڈی لیول پر رکھا گیا ہے ،ایم اے و ایم فل پر نہیں۔
پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے نصاب میں صحافتی تربیت کے لیے’’ اردو میں انٹرویو نگاری‘‘ کا ایک اختیاری کورس شا مل ہے جبکہ ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں’’ علمی و ادبی جرائد‘‘ کا صحافتی کورس شامل ِ نصاب ہے۔
ترجمے کی تربیت پر ایک نظری کورس’’ترجمہ: اصول و مباحث‘‘ جامعہ ہزارہ کے نصاب کا حصہ ہے جبکہ پشاور اور اسلامیہ کالج کے نصاب میں اس موضوع پر کوئی کورس نہیں رکھا گیا۔
اردو کمپیوٹر سافٹ وئر کا کورس بھی پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے جو ایم اے کے نصاب کے ساتھ پیوستہ ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں کمپیوٹر کا کورس شامل نہیں۔
انگریزی زبان وادب پرایم فل میں کوئی کورس نہیں رکھا گیا۔ اگر ایک کورس اس پر شامل کیا جائے تو جدید رجحان سے آگاہی حاصل کرنے میں طلبہ کو آسانی حاصل ہوگی اور وہ موجودہ دور میں ادب کے غالب رجحانات سے واقفیت حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔

تخلیقِ ادب
تدریس
صحافت
عرائض نویسی
ترجمہ کاری
دیگر پیشہ ورانہ کورسز
عام عملی زندگی میں معاون کورسز
پی ایچ ڈی اردو
پشاور یونیورسٹی:
  ۱۔ تحقیق وتدوین،  ۲۔عام لسانیا ت،  ۳۔تقابلی لسانیات،  ۴۔اسلوب کیاہے؟،  ۵۔  مزاح کے نمائندہ اسالیب کا تجزیہ،  ۶۔ فصاحت و بلاغت کا مطالعہ،    
  ۷۔خاکہ نگاری کی تکنیک کا مطالعہ‘‘
  ۸۔ تحقیقی مقالہ(۳۶ کریڈٹ آ ورز)
ہزارہ یونیورسٹی:
  ۱۔ترتیب وتدوینِ متن ،  ۲۔عملی تنقید،
۳۔ تحقیقی مقالہ (۳۶ کریڈٹ آورز)

   ۔۔۔

 

 

تدریسِ اردو

ادبی صحافت

 

 

   ۔۔۔

   ۔۔۔

 

 

   ۔۔۔

   ۔۔۔

 

 

   ۔۔۔

    ۔۔۔

 

 

    ۔۔۔

   ۔۔۔

 

 

   ۔۔۔
تجزیہ:
عملی ادبی تربیت پر مبنی سات کورسز (ایک لازمی، چھے اختیاری)پشاور یونیورسٹی اور ۲کورسز (لازمی)ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں رکھے گئے ہیں۔۳۶ کریڈٹ آورز پر مشتمل تحقیقی مقالہ دونوں جامعات میں لازمی ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی نے تدریسِ اردو کا کورس پی ایچ ڈی میں رکھا ہے جب کہ یہ کورس پشاور یونیورسٹی نے ایم فل کے نصاب میں شامل کیا ہوا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں صحافت پر بھی ایک کورس ’’ادبی صحافت‘‘ موجود ہے۔دیگر پیشہ ورانہ رہنمائی کے پہلووں پر کوئی کورس دونوں جامعات کے نصابات میں نہیں شامل نہیں کیا گیا۔
مجموعی جائزہ:
ذیل میں ہر یونیورسٹی کے نصاب کے معاشی عناصر جدول کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ ان کا جائزہ لینے میں آسانی ہو:

 

     تخلیقِ ادب
  تدریس
  صحافت
  عرائض نویسی
  ترجمہ کاری
  دیگر پیشہ ورانہ کورسز
  عام عملی زندگی میں معاون کورسز
    کُل
 HECکا نصاب برائے بی ایس اردو چار سالہ کورس
          ۱۱  
   ۔۔۔
     ۱
      ۱
     ۱
      ۲
       ۴
    ۱۳
   کُل
          ۱۱
   ۔۔۔
     ۱
      ۱
      ۱
      ۲
        ۴
مجموعی کُل
    ۱۳

 تخلیقِ ادب
  تدریس
  صحافت
  عرائض نویسی
  ترجمہ کاری
  دیگر پیشہ ورانہ کورسز
  عام عملی زندگی میں معاون کورسز
   کُل
پشاور یونیورسٹی
  ایم اے:   ۴  
  ایم فل:    ۱۱
  پی ایچ ڈی:  ۸
    ۔۔۔
      ۱
    ۔۔۔
     ۱
     ۱
     ۱
      ۱
    ۔۔۔
    ۔۔۔
     ۱
   ۔۔۔
   ۔۔۔
  ۱
  ۱
    ۔۔۔
      ۔۔۔
      ۔۔۔
    ۸
    ۱۴
    ۹
   کُل
     ۲۳
    ۱
    ۳
    ۱
    ۱
   ۲
   ۔۔۔
مجموعی کُل
   ۳۱

 

 

            

     تخلیقِ ادب
  تدریس
  صحافت
  عرائض نویسی
  ترجمہ کاری
  دیگر پیشہ ورانہ کورسز
  عام عملی زندگی میں معاون کورسز
   کُل
  اسلامیہ کالج   یونیورسٹی
  ایم اے:             ۲  
  ایم فل:              ۱۱
    ۔۔۔
      ۱
     ۱
     ۱
    ۔۔۔
    ۔۔۔
   ۔۔۔
   ۔۔۔
   ۔۔۔
      ۱
     ۔۔۔
     ۔۔۔
    ۳
    ۱۴
   کُل
               ۱۳
      ۱
     ۲
    ۔۔۔
   ۔۔۔
      ۱
      ۔۔۔
مجموعی کُل
    ۱۷

  تخلیقِ ادب
  تدریس
  صحافت
  عرائض نویسی
  ترجمہ کاری
  دیگر پیشہ ورانہ کورسز
  عام عملی زندگی میں معاون کورسز
    کُل
 شہید بے نظیربھٹو ویمن یونیورسٹی
  ایم اے:        ۴  
   ۔۔۔
     ۱
      ۱
     ۱
      ۱
       ۱
    ۹
   کُل
                 ۴
   ۔۔۔
     ۱
      ۱
      ۱
      ۱
        ۱
مجموعی کُل
    ۹

     تخلیقِ ادب
  تدریس
  صحافت
  عرائض نویسی
  ترجمہ کاری
  دیگر پیشہ ورانہ کورسز
  عام عملی زندگی میں معاون کورسز
    کُل
  ہزارہ 
  یونیورسٹی
  ایم اے:             ۹  
  ایم فل:              ۳
  پی ایچ ڈی:          ۳
    ۔۔۔
    ۔۔۔
      ۱
     ۱
     ۱
    ۔۔۔
    ۔۔۔
    ۔۔۔
    ۔۔۔
     ۱
     ۱
  ۔۔۔
   ۔۔۔
   ۔۔۔
   ۔۔۔
     ۔۔۔
     ۔۔۔
     ۔۔۔
    ۱۱
    ۵
    ۴ 
  کُل
                     ۱۵
      ۱
     ۲
    ۔۔۔
     ۲
   ۔۔۔
    ۔۔۔
مجموعی کُل
    ۲۰
درج بالا شماریات سے واضح ہو تا ہے کہ اردو کے اعلی سطحی نصابات طلبہ کی پیشہ ورانہ رہنمائی کے حوالے سے مضبوط نہیں ہیں۔ ان کورسز میں مرکزی مقصد ادبی تعلیم و تربیت پر مناسب توجہ دی گئی ہے لیکن دوسرے شعبے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ طلبہ کو تدریس، صحافت، عرائض نویسی اورترجمہ کاری میں کسی پیشے کے بارے میں تیار نہیں کیا گیا۔ اس کا لا محالہ نقصان یہ ہو تا ہے کہ فارغ ہونے والا طالب علم معاش کے بارے میں اندھیرے میں ہوتا ہے ۔ پاکستانی منظر نامے میں اسے صرف ایک پیشے کا علم ہو تاہے کہ مجھے معلم بننا ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اس پیشے کے لیے بھی پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔اپنے اختصاص کے مطابق اسے باقی کسی پیشے کے بارے میں علم ہی نہیں ہو تا کہ میں کہاں بہتر خدمات ادا کر سکتاہوں۔
اوپر چارٹوں میں دی گئی معلومات سے لگتا ہے کہ پیشہ ورانہ رہنمائی کے کافی کورسز شاملِ نصاب ہیں۔ لیکن ان عملی کورسز میں سے اکثر ادبی تربیت سے متعلق ہیں ۔ اور جو دیگر پیشوں سے متعلق ہیں ان کی اکثریت اختیاری ہے۔ اور طلبہ کو بہت کم ان کورسز سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ہر سطح پر پیشہ ورانہ رہنمائی کے کورسز میں اضافے کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ ان کورسز کو لازمی کورسز میں جگہ دی جائے تا کہ طلبہ کو واقعی پیشہ ورانہ رہنمائی حاصل ہو اور وہ اعتماد کے ساتھ روز گار مارکیٹ میں اپنی خدمات پیش کرسکیں۔
نتائج:
۱۔        بی ایس اردو کا نصا ب اپنے دامن میں۱۳ عملی کورسز کی شمولیت رکھتا ہے۔ ان میں سے زیادہ سے زیادہ ایک کورس چھوڑا جاسکتا ہے،یعنی ۱۲ پڑھنے ہوتے ہیں۔یہ کورسز ادب ،صحافت، عرضی نویسی، ترجمہ کاری و دیگر مدارج سب کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اس نصاب میں صرف تدریس کو نظر اندازکیا گیا ہے۔ اگر تدریس کا کورس بھی اس نصاب میں شامل کیا جائے تو اس نصاب کی جامعیت میں اضافہ ہو جائے گا اور طلبہ کی اس سطح پر ایک اہم ٖضرورت پوری ہو جائے گی۔
۲۔        پشاور یونیورسٹی ، اسلامیہ کالج یو نیورسٹی اور شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے ایم اے کے نصابا ت تقریبا ایک جیسے ہیں۔ان میں ادب کے علاوہ جو پیشہ ورانہ تربیت کے کورسز رکھے ہیں وہ سب کے سب اختیاری ہیں۔صرف بے نظیر یونیورسٹی میں انگریزی کا کورس لازمی ہے۔
۳۔       ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل غیر ادبی پیشہ ورانہ رہنمائی کے دونوں کورسز بھی اختیاری ہیں۔
۴۔       ایم فل سطح پر پشاور و اسلامیہ کالج کے نصاب میں ادب کے علاوہ تین عملی کورسز شامل ہیں اور سب کے سب اختیاری ہیں۔جب  کہ ہزارہ یونیورسٹی کے نصاب میں اس کے لیے دو کورسز رکھے گئے ہیں جن کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں لازمی ہیں۔
۵۔       پشاور یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے نصاب میں محض ایک اختیاری کورس ادبی صحافت شامل ہے جو بہت کم ہے۔ اس طرح طلبہ کی  پیشہ ورانہ رہنمائی کے حوالے سے یہ نصاب کمزو ر قرار پاتاہے۔
۶۔        ہزارہ یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کے نصاب میں ایک لازمی کورس تدریس اردو پر رکھا ہے۔ یہ کورس مناسب بھی ہے اور لازمی بھی ۔ لیکن اس کورس کو ماسٹر سطح پر رکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتاکیونکہ پی ایچ ڈی تک تو بہت کم طلبہ پہنچ پاتے ہیں اور اکثر طلبہ ماسٹر کے بعد عملی زندگی میں جا شامل ہو تے ہیں۔ اس لیے ہزارہ یونیورسٹی کے اس کورس کو نچلی سطح پر متعارف کرانے سے اس کا افادہ بڑھ سکتا ہے۔
۷۔       تدریسِ اردو کا کورس پشاور یونیورسٹی نے ایم فل کے نصاب میں رکھا ہے ۔ اسے بھی ایم اے یا بی ایس سطح پر رکھنا چاہیے تا کہ ماسٹر / بی ایس کے بعد طلبہ تدریس ِ اردوکے بنیادی اصولوں اور ضروریا ت سے باخبر ہوں اور وہ اعتماد کے ساتھ تدریس کے شعبے میں جانے کے لیے تیار ہوں۔ 
۸۔         ایم فل اور پی ایچ ڈی میں تحقیق لازمی ہے۔ لیکن اردوتحقیق میں تنوع کم ہے۔ صرف خالص ادبی موضوعات پر تحقیق کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ایسے شعبہ جات میں ترجیحی بنیادوں پر تحقیق کی جائے جن کی عملی افایت زیادہ ہو ۔آج کے دور میں کمپیوٹر ،ترجمہ کاری ، انٹرنیٹ کی دنیا سے متعلق تحقیقات اس حوالے سے اہم ہیں ۔
۹۔        اردو میں تحقیق میں ایک نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ مقالات کی اکثریت مشمولاتی جائزے (Content Analysis )کے طریق پر مبنی ہے جس کا تعلق ادب کے معاشرتی اثرات کے جائزے سے نہ ہونے کے برابر ہے۔بیانیہ یا کوئی دوسرا طریقہ استعمال نہیں کیا گیا جس سے ادب کی معاشرتی تاثیر اوراثر پذیری کا جائزہ پیش کیا جاسکے۔اس نکتے پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
۱۰۔       اس مقالے میں پیش کردہ اعداد و شمار سے یہ امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ موجودہ نصابا ت معاشی تربیت کے حوالے سے کمزور ہیں اور تبدیلی کے متقاضی ہیں۔اس لیے ان نصابات کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے۔  

ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو، جامعہ پشاور
ڈاکٹر محمد حامد، صدرِ شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج مانسہرہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        عطش درانی، ڈاکٹر۔’’اردو میں اعلیٰ سطحی تدریس‘‘‘ مشمولہ ’’اخبارِ اردو‘‘ جلد ۲۷، شمارہ ۵۔ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، مئی ۲۰۱۰ء۔ص ۲۱
2.         "Education and the Muslim World-Challenge and Response".  Ed. Niaz Irfan and Zahid A. Valie.   Islamabad: Institute of Policy Studies, 1995. p.11                                                                        
3.         Isani, U.A.G and Virk, M. Latif "Higher Education in Pakistan". Islamabad: National Book Foundation, 2004.  p. 148
4.         ibid  p. 5
5.         M.Latif. "Universties of Pakistan", Universities of Pakistan. Islamabad: University Grants Commission,1998. p. 9
6.         ibid
۷۔       ریاض مجید،ڈاکٹر۔ ’’اردو زبان و ادب کی اعلیٰ تعلیم‘‘مشمولہ ’’مقالات عالمی اردو کانفرنس‘‘ مرتبہ بادشاہ منیر بخاری۔پشاور:شعبۂ اردو، جامعہ پشاور، ۲۰۰۹ء۔ص۱۶۱
۸۔       ایم سلطانہ بخش،ڈاکٹر۔’’اردو میں اصول ِتحقیق ‘‘جلد اول ۔اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان ،۱۹۸۶ء ص۱۰،۱۱
۹۔        محمد زاہد ، ڈاکٹر۔’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اردو کے نصاب کا اجمالی جائزہ‘‘ مشمولہ ’’مقالات عالمی اردوکانفرنس‘‘ مرتبہ بادشاہ منیر بخاری۔پشاور: شعبۂ اردو ،جامعہ پشاور،۲۰۰۹ء۔ ص ۱۸۵
۱۰۔       ’’ایم فل اور پی ایچ ڈی (نیا نصاب)‘‘۔پشاور :شعبۂ اردو، پشاور یونیورسٹی ،س ۔ن
۱۱۔       ’’بی ایس اردو (چار سالہ ) نصاب کی تدوین وترتیب‘‘۔ اسلام آباد : ہائر ایجوکیشن کمیشن ،۲۰۰۹ء
۱۲۔       ’’جدید نصاب برائے ایم اے اردو پشاور یونیورسٹی‘‘۔پشاور: تاج کتب خانہ،س۔ن
۱۳۔      ’’مجوزہ نصاب برائے ایم اے اردو‘‘۔پشاور: شعبۂ اردو،اسلامیہ کالج یونیورسٹی، س۔ن
۱۴۔      نصابات‘‘۔مانسہرہ :شعبۂ اردو، ہزارہ یونیورسٹی ،۲۰۱۲ء
۱۵۔      ’’نصاب برائے شعبۂ اردو۔۲سالہ ماسٹرز ڈگری پروگرام‘‘ ۔پشاور: شعبۂ اردو،شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی، ۲۰۱۱ء
۱۶۔       ’’سلیبس ایم اے اردو ۔گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان‘‘۔ بنوں: ہاشمی بک سنٹر، س۔ن

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com