پریم چند کے افسانوں میں مذہب کے استحصالی پہلو کی پیش کش
ڈاکٹر سلمان علی    سفیر اللہ خان

ABSTRACT
Religion plays a pivotal role in the formation of a society. It also strengthens the norms and value system of a society. But It is also a bitter fact of history that religion remained a tool of exploitation due to the theocratic thoughts in society. In this research paper the researcher has analyzed the characters and subject matter of the short stories of Praim Chand through these stories and characters Praim chand has identified all these factors of the society which tends to exploit the poor, simple and uneducated people using the exploited form of the religion .

            احتشام حسین نے اپنے مضمون ’’پریم چند کی ترقی پسندی‘‘ میں پرریم چندکے مذہبی حوالوں سے ترقی پسندانہ سوچ پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’پریم چند مذہب کے مخالف نہیں تھے لیکن فرقہ پرست عناصر کے دشمن تھے۔وہ ان مذہبی رسموں اور اداروں کا مذاق اُڑاتے تھے،جن میں خلوص،سچائی اور روحانیت کی جگہ نمود نمائش اور ریا کاری تھی۔وہ برہمن جو دولت کے لئے اپنا ضمیر ۔۔۔بیچ سکتا تھا،جو اپنے بھوج کے لئے عوام کا خون چوُس سکتا تھا،جو مذہب کے نام پر غریبوں کو لوُٹ سکتا تھا۔جو مذہبی رسمیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی تھیں،پریم چند ان کی مخالفت کی جر ات رکھتے تھے‘۔‘‘ (۱)
             پریم چند اُردو ادب کے وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں میں انسان کے مسائل کو اس کے دور،نفسیات،ضروریات،کمزوریوں،مجبوریوں یعنی مکمل زمینی حقائق کے ساتھ پیش کیا۔آپ نے سماجی،مذہبی،معاشرتی،معاشی اقدار اور ان کے تحفظ اور مثبت طریقے سے اُن کی نشو و نما پر زور دیا۔سیا سی حوالے سے ’’گرم دَل ‘‘ سے تعلق اور انقلاب پسند ہونے کے باوجود آپ کی مذہبی سوچ انتہائی معتدل اور نرم رہی ،جس میں جبر،سنگ دِلی،تشدد،انتہا پسندی یازور زبر دستی کا وجود ہی نہ تھا۔ آپ اجتماعی سوچ رکھنے والے انسان تھے اور فرد کے خیر،بھلائی،نیکی اور فلاح کو مذہب اور مسلک کے حدود وقیود سے ماوراء رکھنے کے حق میں تھے۔
آپ نے اپنے مضامین میں جو آپ نے ’’ مریادہ‘‘ ، ’’جاگرن‘‘ ،’’ ہنس‘‘ اور ’’مادھوری ‘‘میں شائع کئے ، کہیں پر بھی تنگ نظری ،انتہا پسندی کا پرچار یا کسی مذہب کو اچھا اور کسی کو برا نہیں کہابلکہ آپ نے ہر مذہب کے بہترین،لچک دار اور فرد واجتماع کے خیر اور نفع سے متعلق کی گئی کوشش یا پیش کئے گئے خیالات کو سراہا ہے۔کہیں پر بھی ہندومت،عیسائیت یاا سلام کی قید نہیں لگائی۔کیونکہ آپ کاخیال تھا کہ مذہب و مسلک اور گروہ بندی افراد اور اجتماع کی سوچ اور فکر کو محدود رکھتی ہے اور ذہن کو تنگ۔
آپ کا دور ہر حوالے سے برصغیر میں تبدیلی اور انقلاب کا دور تھا۔اس وقت کی مذہبی تحریکوں مثلاًبرہمو سماج ،آریہ سماج،شدھی سنگھٹن اور سیاسی تحریکوں مثلاً تحریک ِخلافت، تحریکِ تقسیمِ بنگال وغیرہ،پہلی جنگ ِعظیم،معاشی تحریکیں مثلاً انقلاب ِروس،کارل مارکس اورڈارون کے نظریات ، فرائڈ کے نفسیاتی تجز یئے اورنظریات،خصوصاََ تحریک ِآزادیِ ہند،اِن سب ملکی اور بین الاقوامی حوالوں نے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ ایسے حالات میں انسان کے داخلی مسائل کا حل اور مذہب کا اعتدال پسندانہ طریقوں سے پیش کرنا ،انتہا پسندانہ اور بنیاد پرستانہ سوچ کے خلاف آواز اُٹھانا، پریم چند جیسے ادیبوں کا کام تھا۔پریم چند کے مذہب کے بارے میں ہنس راج رہبر اپنا اظہار خیال کچھ یوں کرتے ہیں۔
’’پریم چند مذہب کے قائل نہ تھے بلکہ مذہب کو رِیاکاری کا زیور سمجھتے تھے۔‘‘   ۲؎
مذہب کی تشکیل انسان کی خیر، بھلائی اور فلاح کے لئے ہوئی ہے،جس طرح جسمانی ضروریات کے پیش ِنظر غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسانی ذہن اور اس کی نشو نما کے لئے مذہب عقیدے اور قوانین کی تشکیل کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ظاہر کوئی بھی فائدے کی اجتماعی شئے کی تشکیل میں لچک یا سپیس زیادہ ہوتی ہے نا کہ یہ مخصوص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔یہی وجہ کہ کسی بھی مذہب میں انسان کے خلاف یا انسان کے دوسرے انسان کے استحصال کی کوئی بھی شق موجود نہیں بلکہ ہر انسان کو مکمل تحٖفظ حاصل ہے ۔ مذاہب کے قدامت اور بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے اس کے پیش رئوں اور تبلیغ کرنے والوں نے اس کی مقدس کتابوں میں درج شقوں اورقوانین کی تشریحات کو من مانے اور من چاہے طریقوں سے کرکے اُن کو ذاتی نفع اورمفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ۔ یہ استعمال بعض جگہ انتہا پسندانہ حدود کو چھوُ کر استحصال کا باعث بننے لگا۔یہ استحصال فرد کے کمزور مذہبی عقیدے ،کورانہ تقلیداورر توہم پرستی سے مزید مہمیز ہواجس کی وجہ سے فرد ذہنی جمود کا شکار ہو کر مذہب سے بیزار بن گیا ۔یہی وجہ ہے کہ پریم چند افراد وسماج کے لئے سکون و فلاح کے حق میں ہے جس کے لئے آپ نے کسی مذہب کو بطور مثال پیش نہیں کیا ۔
سید مقبول حسین صاحب احمد پوری نے ’’زمانہ‘‘(پریم چند نمبر)اپنے طویل مضمون ’’پریم چند کا اُپدیش‘‘میں تحریر کیا ہے :
’’ان میں مذہبی رواداری بہت زیادہ تھی،ان کی تصانیف میں تعصب کی آلائش سے پاک وصاف ہیں،کم ازکم اس کی جتنی تصایف راقم الحروف کی نظر سے گزری ہیں۔ان میں تعصب،وغیرہ کا کہیں شائبہ نہیں۔۔۔دراصل منشی صاحب ہر مذہب کے پیرو تھے انکاکوئی مذہب نہ تھا۔‘‘   ۳ ؎
پریم چند مذہبی رواداری اور اعتدال پسندی کے علم بردار اور مذہب کے استحصالی رویوں کے خلاف رہے ہیں۔جس دور میں آپ لکھ رہے تھے اس دور میں مذہب کی انتہا پسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی تھی اور مذہب کواستحصالی انداز میں رائج کیا جارہاتھا۔مذہبی تبلیغ اور تشریح کرنے والوں نے مذہب کو ایک ایسی شکل میں پیش کیا کہ کوئی بھی اپنے ساتھ روارکھے جانے والے استحصال کے خلاف بولنے سے قاصرتھا۔دیگر شعبۂ حیات کے ساتھ ساتھ مذہب نے سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔کمزور نظریات کی وجہ سے پروان چڑھنے والی مذہبی توہم پرستی نے ہر فر دکو کسی نہ کسی صورت میں کھل کر یا چھپ کرسیاست میں حصہ لینے پر مجبور کردیا تھا ۔ خصوصاََ بیسویں صدی کے پہلے ربع میں یہ رجحان کافی مریضانہ تھا ۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کے استعمال میں شدت پسندانہ نظریات شامل ہوگئے جس نے اس کی روح کو متاثر کیا ۔پھر مذہب و سیاست ایک دوسرے میں بری طرح مدغم ہو گئے تھے یہاں تک کہ کانگریس(۱۸۸۵ء )اور مسلم لیگ (۱۹۰۶ء ) جیسی جماعتوں کی برصغیر کی سیاسی اُفق پر تشکیل وقیام کا سبب بھی مبیّنہ طور پر یہی مذہبی نظریات ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔
پریم چند، ویکا نندسرسواتی اور آریہ سماج (جو ہندومت کی جدیدیت کی تحریک تھی )سے متاثر تھے ۔آپ اس تحریک کی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے اور ہندومت کو مذہبی طبقے کی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے حدود میں قید سے آزاد کرنا چاہتے تھے لیکن آریہ سماج کے چلانے والوں نے بعد میں جس انداز سے شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکوں کو رنگ دیا تو آپ اس نوعیت کی تحریک کے پرچار سے الگ ہوئے ۔ آپ کا اس تحریک میں شامل ہونے کا مقصد مذہب کو ان تنگ نظروں کے چنگل سے آزاد کرانااور اس کے ذریعے کئے جانے والے استحصال کا خاتمہ کرنا تھا ۔
پریم چند کی مذہب پرستی اور اعتدال پسندی کے متعلق شیو رانی دیوی جی نے اپنی کتاب’’پریم چند: گھر میں ‘‘ میں اپنے اور پریم چند کی گفتگو کا احوال یوں تحریر کیا ہے:
’’ میں بولی:’’تو کیا آپ مسلمانوں کے حمایتی ہیں۔
آپ بولے ۔میں کسی کا حمایتی نہیں ہوں۔نہ ہی کسی کا دشمن ہوں۔
یہ بتایئے آپ رام کو مانتے ہیں یا رحیم کو ؟
آپ بولے ’’ میرے لئے رام ،رحیم،بدھ،عیسیٰ سب ہی عقیدت والے کردار ہیں اور میں ان سب کو مہا انسان سمجھتاہوں۔‘‘
’’آخر آپ ہیں کیا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’آپ بولے ’’میں ایک انسان ہوں اور جو انسانیت کو عزیزرکھتا ہو انسان جیسا کام کرتا ہو میں وہی ہوں اور انھی لوگوں کو چاہتا ہوں۔میرے دوست اگر ہندو ہیں تو میرے مسلمان دوست بھی کم نہیں ہیں اور ان دونوں میں میرے نزدیک کوئی خاص فرق نہیں ہے۔میرے لئے دونوں برابر ہیں۔‘‘  ۴؎
پریم چند نے اپنی دوسری تحریروں کی طرح اپنے افسانوں میں فرد اور اجتماع کے ہاتھوں مذہب کے استحصالی پہلو کو کھل کر پیش کیا ہے۔ آپ کو احساس تھا کہ سماج اور مذہب کی تقسیم نے افراد کے اتفاق وا تحاد اور یک جہتی کو پنپنے نہیں دیا جس اتحاد کی ہندوستانی سماج کو ضرورت ہے۔انہی عناصر کو بطورِ ہتھیاربعض اوقات بیرونی کمپنیوں نے مقامی لوگوں کے خلاف ا ٓزمایاتواکثر اوقات خود مقامی لوگوں نے مذہب اور اعلیٰ طبقے کے ہونے کا فائدہ اُٹھا کر ایک دوسرے کے خلاف کھل کر استعمال کیا ۔ ادنیٰ یا اعلیٰ طبقے کی گروہ بندی ،معاشی اورسماجی سطح پر پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث تھیں لیکن مذہبی طبقے نے ان دونوں گروہوں کو ان کی مذہب کی کورانہ تقلید اور کمزور عقیدے کے سبب خوب استحصال کا نشانہ بنایا۔یہ استحصال شہر کی سطح پر کم تھالیکن گائوں کی سطح پر اس کو کھل کر دیکھا اور محسوس کیاجاسکتا تھا ۔ مذہب اورمذہبی طبقے کی گرفت اور مذہب کا عوامی ذہنیت پر حاوی رہنے کے متعلق ڈاکٹر جعفر رضا نے اپنا اظہارِخیال کچھ اس طرح کیا ہے ۔
’’برہمن کو سماج کا بلند ترین مقام حاصل ہے اور اسے علم وفضل کے علاوہ سلطنت و حکومت کابھی اہم ترین رُکن سمجھا جاتا ہے۔پریم چند کے دور میں برہمن کی سیاسی گرفت کمزور پڑ گئی تھی لیکن سماجی زندگی میں مذہبی سرپرستی کی بناء پر اسے دیوتائوں کا درجہ حاصل تھا اور وہ اپنی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر پس ماندہ اور غریب عوام کے استحصال کاسبب بنتا۔‘‘   ۵؎
پریم چند مذہب کو ایک روحانی عنصر سمجھا اور اس انسان کے لئے فلاح اور سکون کا با عث بھی۔لیکن معاشرے میں ہندو مسلم کی قید اور ہندووں میں طبقاتی اختلاف نے معاشر ے کی جڑیں کھوکھلی کر رکھی تھیں۔مذہب کی جس طریقے سے پیروی کی جا رہی تھی اس میں مجبوری،تنگ نظری اور بنیاد پرستی کی شمولیت نے اس کی اصل روح کو متاثر کیا تھا۔معاشرے پہلے مذہب کی وجہ سے تقسیم اور پھر اسی مذہب کے اندر طبقات میں بٹا ہوا تھا۔یہی وجہ کہ کچھ طبقوں کی مذہب پرستی اور بنیاد پرستی نے ایک بہت بڑے حصے کو اس کی اصل روح سے بے خبر اور دور رکھا اور اس کو اس انداز سے رائج کرنے کی کوشش میں کامیاب رہے جس نے استحصال اور جبر کوجنم دیا جس کے خلاف کسی کو بولنے کا حق اور جرات نہ رہی۔پریم چند اس تقسیم اور طبقاتی حدود قیود کے مخالف رہے اور اس کے خلاف بھرپور انداز میں اپنی تحریرں میں اظہار خیال کیا ہے۔ مذہب کے اس استحصالی پہلو کی عکاسی پریم چند نے اپنے افسانوں میں کی ہے۔آپ کے ان افسانوں میں ’’خونِ سفید‘‘ کا ذکر یہاں کیاجاسکتاہے ۔’یہاں ایک خاندان کے افراد برادری کے ہاتھوں مذہب کے استحصالی انداز سے استعمال کا نشانہ بنے ہیں ۔یہاں چھوت اچھوت کے مسائل ہیں اور برادری کی گرفت سے بننے والے ماحول کا ذکر بھی۔’خونِ سفید ‘‘میں قحط سے پیدا ہونے والی صورتِ حال نے چار سال کے ایک بچے سادھو رائے کو پادری (جو امدادی ادارہ چلاتے تھے اور سادھو پر کافی مہربان تھے )کے ساتھ بھاگ کراس کو غیر شعوری طور پر رشتوں سے انحراف پر مجبور کر دیا تو اس کے اس انحراف سے اس کا اپنا دھرم بھی چھوٹ گیا۔اس قسم کے سیکڑوں، ہزاروں واقعات ہندوستان میں ہوتے تھے جس کی وجہ امدادی اداروں کا سادہ لوح لوگوں کو امداد کے نام پر بے دین کرنا تھا۔ مشنری اداروں میں رہ کر اب چودہ سال بعد جب سادھو رائے واپس اپنے گائوں جانے اوراپنے پریوار سے ملنے کے لئے بے تاب ہے۔اس کے گھر والوں کی سوچتے ہوئے بھی اکثر اُن کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ماں باپ جس قدر بڑے بیٹے کی کمی محسوس کر رہے تھے اسی قدر سادھو بھی خود کو اکیلا محسوس کر رہا ہے۔گھر آکر اس واقعے کو بچپن کی غلطی قرار دے کر اور ماضی کا قصہ سمجھ کر اور سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔اس کے سامنے صرف اپنا خاندان یا پری وار ہے اس لئے اس نے کہا:
’’ماتا جی پتا جی !مجھ بد نصیب سے جو کچھ قصور ہوااُسے معاف کیجیے۔میں نے اپنی نادانی سے خود تکلیفیں اُٹھائیں اور آپ کو بہت دُکھ دیا،لیکن اب مجھے اپنی گود میں لیجئے۔۔۔آج آپ لوگوں کی وجہ سے یہ مبارک دِن دیکھنا نصیب ہوا۔بیگا نوں میں بہت دن کاٹے،بہت دنوں تک اناتھ رہا۔اب مجھے اپنی سیوا میں رکھیئے۔مجھے اپنی اپنی گود میں لیجئے،میں بہت پیار کا بھوکا ہوں۔مدّتوں سے مجھ یہ نعمت نصیب نہیں میسر ہوئی۔وہ نعمت مجھے دیجئے۔‘‘   ۶؎
سادھو نے گھر سے بھاگنے کا ’’قصور ‘‘جو اس نے ’’بچپن‘‘ اور ’’نادانی‘‘ میں کیا۔ آج کے’’مبارک دن‘‘ کے بعد اسے ماں باپ کی ’’گود‘‘ ماں باپ کی ’’سیوا‘‘ کا موقع ملے گا ۔وہ مدتوں سے ’’پیار کا بھوکا ‘‘رہا لیکن آج یہ ’’نعمت‘‘ بھی مل گئی۔ سادھو کے ہاں جن باتوں کی اہمیت ہے اس کے خاندان یا پری وار کے لئے وہ باتیں کہیں زیادہ اہم ہیں لیکن سادھو اور اس کے پری وار کے باہر بھی کچھ لوگ ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے ضروری ہیں ،جن کا اعتماد اور سہارا سادھو اور اس کے خاندان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔یہ برادری ہے۔یہاں برادری وہ مضبوط حوالہ ہے جس کے ساتھ اس دور میں جینا ،مرنا، اچھا ،برا اور بہت سے امکانات وابستہ تھے کیونکہ برادری اِزم نے اس دور میں عموماََ شہر اور خصوصاََ گائوں کے ماحول کومذہب کے مقابلے میں کہیں زیادہ گرفت میں لے لیا تھا بلکہ برادری ازم اور مذہب ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر جعفر رضا ،پریم چند کہانی کا رہنماتحریر کرتے ہیں:
’’گائوں کی زندگی میں۔۔۔ برادری کی ایک پنچایت ہوتی ہے جس کے جلسے عموماََان کی تقریبات کے سلسلے میں منعقد ہوتے ہیں۔برادری کاایک سرپنچ بنتا ہے اور بقیہ برادری اس کی پابند ہوتی ہے۔اگر برادری کا کوئی رکن سرتابی کرے تو اسے طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے اور بعض سنگین صورت ِحال میں اس سے معاشرتی تعلقات ترک کر لئے جاتے ہیں۔‘‘   ۷؎
چودہ سال بعد جب اُسے اپنی بھول ، نادانی اور قصور کا احساس ہو گیا ہے تو کیا ماں باپ ،برادری اُسے خوش آمدید کہے گی؟ پریم چند نے یہاں اس المیے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کے خاندان کے افراد اُس کی آمد سے خوش ہیں لیکن ان کی خوشی مشروط ہے جس کی وجہ سادھو رائے کا مذہب ہے۔وہ اب ہندو نہیں بلکہ ایک عیسائی ہے اور پری وار کا حصہ بننے کے لئے برادری کی اجازت درکار ہے ۔ برادری کے لوگوں میں جگن سنگھ نے سادھو رائے سے پوچھا: 
’’بیٹا تم اتنے دنوں پادریوں کے ساتھ رہے ۔ انہوں نے تمہیں بھی پادری بنا لیا ہو گا ؟۔۔۔ ان کے ہاں دستور ہے۔ ۔۔۔یہ بری کٹھن بات ہے۔۔۔ہندو دھرم میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔یوں تمھارے ماں باپ چاہے تمھیں اپنے گھر میں رکھ لیں۔تم اِن کے لڑکے ہو مگر برادر ی کبھی اس کام میں شریک نہ ہوگی۔‘‘  ۸؎
برادری نے چھوت اچھوت کے مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک مذہبی ،سماجی ،جذباتی اور اخلاقی بحران پیدا کر دیا ۔ پریم چند نے زیر نظر افسانے میں اسی دور کے دیہی نظام زندگی میں برادری اِزم اور مذہب کی معاشرے پر گرفت اورمذہب کو بھی برادری کے زیر اثر دکھایا ہے ۔جادہ رائے کے لئے جگن سنگھ کی بات پریشانی کا سبب اس لئے ہے کہ ایک طرف اس کا وہ بیٹا ہے جس کا چودہ سال تک انتظار کیا گیا اور دوسری طرف برادری ۔سادھو اپنے کئے ہوئے گناہ کی پرایشچت کے لئے تیار تھا لیکن جگن سنگھ نے دھرم کو درمیان میں لاکر ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جس کا ڈھانا یا پار کرنا سادھو جیسوں کا کام نہ تھا۔
پریم چند نے یہاں دیوکی رانی کے ذریعے ماں کی حیثیت سے جبلّت، برادری اور مذہبی نظام سے تصادم کو پیش کیا ہے کہ مامتااور جبلّت کی صحت مند روایت کو برادری یا مذہب سے تصادم اور اس کے نتیجے کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن یہاں اس کی پسپائی کو دکھایا ہے۔ مذہب کورانہ تقلید کے باعث سماج کے زیر اثر رہا ہے اس لئے اس کا راستہ یا دروازہ یعنی Gate wayسماج ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں مذہب میں داخلے کے لئے سماج اور برادری کی اجازت درکار ہے۔
سادھورائے کا اصل مسئلہ مذہب کی بالا دستی اورسماجی اداروں کی گرفت ہے ۔وہ برادری کے مذہبی بنیاد پرستانہ رویئے اور استحصالی پہلو کی وجہ سے نہ تو بیٹے کی حیثیت حاصل کر سکا اور نہ بھائی کی ،نہ معاشرے کے ایک عام فرد کی۔ چودہ سال پہلے معاشی بد حالی و محرومی تھی جس نے اسے خاندان سے جدا کر دیااور آج سماج،برادری اور مذہب کی وجہ سے سماجی و روحانی محرومی کا سامنا ہے۔ پریم چند کے مندرجہ ذیل الفاظ اس خزنیاتی والمیاتی افسانے کا خلاصہ ہے: 
 ’’ سادھو رائے ۔۔۔ماں باپ کے سامنے سر جھکا چل کھڑا ہوا۔ وہیں چلاجہاں سے وہ بیزارہو کر آیا تھا ۔ اُسی دائرے میں جہاں سب بیگانے تھے کوئی اپنا نہ تھا ۔‘‘   ۹؎
یہاں مذہب ، بطور ہتھیار ،استحصال کے لئے استعمال ہوا ہے جس کی زد میں بہن بھائی ، ماں بیٹے ، باپ بیٹے کے روحانی ، جبلّی اور سماجی رشتے بھی آ گئے ۔ جس معاشرے میں مذہب افراد کے ہاتھوں میں ہو ان کی پسند ،ناپسند اور گناہ کے ہونے یا ہونے کے لئے ایک فرد دوسرے فرد کی زبان، ہاں یا نا کا  محتاج ہو وہاں مذہب کا ایک دوسرے کے خلاف اس طرح استعمال کیا جانا عجیب نہیں۔مذہب کی ایسی پیش کش ہمیں افسانہ ’’راہِ نجات‘‘ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ افسانے کے کرداربدھو اور جھینگر دونوں ایسے کردار ہیں جن کی عام لوگو ں کی طرح منفی جذبات ہیں لیکن ان جذبات کا اظہار وہ بڑے بھونڈے اور جاہلانہ طریقے سے کرتے ہیں ۔دونوں ایک دوسرے کے لئے ناقابل برادشت ہوتے ہیں اورہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے کرتے اس نفرت کے پیچھے ان کی امارت کا غرور ہے جو انہیں ایک دوسرے سے نباہ کرنے یا برداشت کرنے سے روکے رکھتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کی خوشحالی کے درپے ہیں۔ ذہنیت ونفسیات دونوں کی پست اور جاہلانہ ہونے کی وجہ سے انا نیت اور فرعونیت ان کی نفسیات کا حصہ اور فطرتِ ثانیہ بن گئی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لئے اِن حالات میں ناقابل ِقبول ہیں اورایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی فہم وسمجھ اور منصوبہ بندی کے ساتھ سامنے آتے ہیں ۔ بدّھو نے جو بھیڑوں کے ذریعے جھینگر کی فصل کو نقصان پہنچا یا تو جھینگر نے بھیڑوں کی خوب ٹھوکائی کی ،کسی کا پیر ٹوٹا کسی کی کمر،لیکن بات یہاں ختم نہ ہوئی۔
بدھو کا ردّعمل اور بدلہ یوں ہے :
’’اگہن کا مہینہ تھا ، کہر اپڑرہا تھا ۔چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی (جھنیگر ) گائوں سے نکلا ہی تھا کہ یکا یک اپنے ایکھ کے کھیت کی طرف آگ کے شعلے دیکھ کر چونک پڑا ۔ دِل دھڑکنے لگا۔ کھیت میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ ۔۔ہتھیار ے نے آگ لگا دی تھی ۔‘‘  ۱۰؎
دونوں حسد کی آگ میں ایک دوسرے کو بلکہ خود کو تباہ کر تے ہوئے پورے گائوں کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں ۔بدھو نے جھینگر کی فصل کو نہیں جلایا بلکہ پورے گائوں کے کھیت جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ پریم چند یہ بتانا چاہتے ہیں کہ منافقت اور حسد وجلن کے پیچھے تباہی کا ایک طوفان ہو تا ہے جو جہاں آتا ہے تو سب کچھ ملیا میٹ کر دیتا ہے ۔ دونوں ایک ایسی داخلی شے کو شکست دینے پر تلے ہیں جو دکھائی نہیں دیتی ۔ بھیڑیں مر رہی ہیں اور کھیت جلتے نظر آر ہے ہیں پھر بھی ان کا بغض ، حسد، عداوت ہے کہ ختم نہیں ہوتی۔
پریم چند نے افسانے میں اس المیے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ نچلا طبقہ استحصالی قوتوں کے ظلم وجبر اور استحصال کا احساس نہیں رکھتا ۔ یہ طبقہ استحصالی قوتوں کو خود ایسے مواقع دیتے ہیں جسے بالواسطہ طور پر ان قوتوں کی حوصلہ افزائی قراردیا جا سکتا ہے ۔ان دونوں کی لڑائی ان کے لئے اور پورے گائوں کے لئے معاشی ، سماجی اور تنظیمی سطح پر کتنی مہلک اور مضر ہے ۔ جھنیگر کے کھیت جلا کر بدھو کو اس کے نقصان کا کتنا احساس ہے ؟ بدھو کھیت جلا کر اور معاملہ کا منہ توڑ جواب دے چکا لیکن جھینگر کی اگلی چال کا انتظار کر رہا ہے اور:

’’جھنیگر نے سوچتے سوچتے قصد کر لیا کہ بدھو کی حالت بھی اپنی ہی سی بنائوں گا۔ اِس کے کارن میرا ستیا ناس ہو گیا اور وہ چین کی بانسری بجارہا ہے ۔ میں بھی اس کا ستیا ناس کر دوں گا۔‘‘  ۱۱؎
یہاں جو ردّعمل ہے وہ افسانے کی فضا اور ماحول کے مطابق اور انسانی نفسیات کی بہترین عکاسی ہے۔دونوں ایک دوسرے کی منافقت سے خوب آگاہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسے وار کی تلاش میں ہیں کہ جس کے بعد دوسرے کو سر اُٹھانے کی ہمت نہ ہو ۔ جھینگر کے نزدیک سب سے مضبوط بنیاداور مہلک ہتھیار دھرم ہے۔ جھینگرنے جس ہتھکنڈے کا انتخاب بدھو کی تباہی کے لئے کیا تھا وہ بالکل درست تھا یعنی مذہب، دھرم،پاپ ۔اپنی بچھیا بدھو کے تبیلے میں باندھنے کے بعد ہری ہر کے ذریعے اس کوزہر دلواکر مار دیا۔ اور مارنے کے لئے وقت اور دن ستیہ نارائن کی کتھا کا چن لیا۔ باقی کا کام ستیہ نرائن کی کتھا میں آنے والے برہمنوں کا تھا ۔برہمنوں کے سامنے بچھیا کی موت کا ڈھندورا پیٹا گیا اور یوں بدھو کے سر گئو ہتھیا کا الزام تھوپ دیا گیا ۔بدھو اور جھینگر دونوں اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا مذہب کے بندھے ٹکے اصولوں پر مریضانہ حد تک بھروسہ تھا۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ہندو سماج کے طاقتور ترین افراد یعنی برہمن کے سامنے جرم ہواتھا جس بغیر پرائشچت کے کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ معاملہ دھرم کا تھا اور دھرم میں کِس کا بس چلتا ہے؟بدھو نے بے گناہی کے لئے ہاتھ پیر مارے لیکن ہو گا وہی جو ’’پنڈت اور برہمن کی زبانی‘‘ اشلو کوں میں یاویداور تنتر میں لکھا ہُوا ہے ۔ ایک برہمن بولا:
’’شاستروں میں اسے مہا پاپ کہا ہے۔گئو کی ہتھیا برہمن کی ہتھیا سے کم نہیں۔‘‘  ۱۲؎
بدھو گئو ہتھیا کے الزام میں اپنا سب کچھ تیرتھ یاتروں میں اور چوری کروا کر گنوا بیٹھا۔جھینگر کے عمل اور اس سے بننے والی فضا سے مجموعی ماحول کاا ندازہ مشکل نہیں کہ اس دور میں مذہب کی معاشرے پر کیسی گرفت تھی؟  مذہبی طبقہ کس قدر مفاد پرست اور موقع پرست تھا؟ اور اس بات کا ادراک عام لوگوں کو کتنا تھا؟یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہندوستان میں مذہب کی کورانہ تقلید اور بنیاد پرستی نے مذہب سے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیاتھا،جس کی وجہ  مذہب کی قدامت بھی قرار دی جا سکتی ہے،دوسری طرف مذہبی پیش رئوں کی نت نئی تشریحات کامذہب کی پیروی کو مشکل بنا دینا بھی۔مذہب اور مسلکی تفریق نے لوگوں کو کنفیوز کرکے توہم پرستی کو فروغ دیا اور مذہبی شخصیات اور مذہبی اداروں کو انتہا درجے کی اہمیت ملی۔ پنڈت، پروہت، برہمن، ملاّ،پادری، مذہب کے ٹھیکیدار بن گئے اور ان کی زبان کی ’’ہاں ،ناں‘‘ سے معاشرے کی مذہبی فضا نشو ونما پانے لگی۔مذہبی پیشوائوں نے مذہب کی اس نوعیت کی بالا دستی اورگرفت کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔اس صورتِ حال کا ادراک کرکے عام لوگوں کی طرف سے اس عنصر کو (مذہبی پیش روئوں کی ازخودتشریحات اور کتاب البطن سے فیصلے کو)ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع ہوا۔
پریم چند جہاں ایک طرف پر وہتوں وپنڈتوں یا برہمنوں کے متنازع کردار اور خود ساختہ دھرم ، آدھرم کے اصولوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ تو اس کا سبب بھی بتاتے ہیں۔ ’’سوا سیر گہیوں ‘‘ کا شنکر اور یہاں بدھو، نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ مذہب سے متعلق مقلدّانہ رویّہ اور مِریضانہ حد تک رجعت پسندی ہے ۔’’نجات ‘‘ کا دُکھی اور ’’زادِراہ‘‘ کی سوشیلہ یہ سب ایک ہی تیر سے شکار ہو تے ہیں ۔ عام لوگوں کے مذہب کے مقلدانہ رویوں، بنیاد پر ستانہ عقائد اور غیر تحقیقی مزاج سے فائدہ اُٹھا کر، پر وہت وپنڈت کا دین ودھرم کواس قدر تنگ دائروں میں لا کر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مستقل ذرائع تلاش کرنا تھا ۔ پنڈت وپر وہت، اشلوکوں اور ویدوں کی اپنی منشاکے مطابق تشریح کر رہے تھے ۔ دین ودھرم کی ناک جب ایسی موم کی ہوا ور اصولوں اور قواعد کی تشریح ،فرمائشی اورمزاج کے مطابق ہو تو معاشرے مجموعی طورپر انحطاط کا شکار ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ان برہمنوں، پروہتوں اور پنڈتوں کے طریقۂ واردات اور نفسیات کی عکاسی یوں کی ہے:
’’وہ (برہمن،پنڈت) عموماً زمیندار طبقے کے اور اپنے مفادات کو مقّدم رکھتا تھا۔ ان ہی اغراض ومقاصد کے پیش نظروہ اشلوکوں کی تشریح کر تا تھا ۔۔۔ مذہب سے عوام کی اندھی عقیدت کا اُس نے خوب خوب فائدہ اُٹھایا۔ لوگوں میں تو ہم پرستی پید ا کی اور ان میں ایسی رسوم رائج کیں جن کے سبب مذہبی ادارے اور اس کی شخصیت کو روز بروز اہمیت حاصل ہو تی گئی جس کی آڑ میں عوامی استحصا ل کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملتے گئے۔‘‘  ۱۳؎
مذہب کے استحصالی پہلو اور مذہبی پیش رئوں کے استحصال سے متعلق افسانہ’’نجات‘‘ ایک بہترین تخلیقی کوشش ہے جس میں پریم چند نے نچلے طبقے کو اپنی تمام تر مجبوریوں اور کمزوریوں اور مذہبی طبقے کو اس کی تمام تر منافقت اور تضادات کے ساتھ پیش کیا ہے۔افسانے کے کردار دُکھی ایک چمار ہے جو سماج کے سب سے نچلے طبقے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کا وجو د پنڈت اور اُس کے پورے طبقے کے لئے پلید ونا پاک ہے لیکن اسی پلید وناک وجود سے مذہبی رسوم کی ادائیگی کے بدلے مزدوری لی جا رہی ہے۔ ’’نجات ‘‘میں دکھی کے وجود سے مزدوری کراکر خراج حاصل کیا جارہا ہے اور ’’دودھ کی قیمت ‘‘کی بھنگن کابیٹا منگل،’’راہِ نجا ت ‘‘کابدھو، ’’سواسیر گیہوں‘‘میں شنکر ،’’زادِراہ ‘‘میں سوشیلا جبکہ ’’مجبوری‘‘ میں کیلاشی ،’’مندر‘‘ میں  سکھیااور’’ٹھاکر کاکنواں‘‘ میں گنگی کاشوہر ایسے کردار ہیں جو مذہب کی بالا دستی ، استحصال اور طبقاتی تفریق اور چھوت اچھوت کی سولی چڑھ گئے۔پھریہی وجہ ہے کہ اشلوکوں اورو یدوں کی وجہ سے ’’سوا سیر گیہوں‘‘کا شنکر پر وہت کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ’’راہِ نجات ‘‘کا بد ھو بر ہمن کا ۔’’زادِراہ ‘‘میں سوشیلا برادری والوں کے سامنے بے بس ہے مجبوری ‘‘میں کیلاشی محلے والیوں کی وجہ سے۔ ’’مندر‘‘ کی سکھیا گائو ں والوں کے ظلم کا شکار ہوئی اور ’’ٹھاکر کا کنواں‘‘میں گنگی ٹھاکر کی وجہ سے بیوہ ہو جاتی ہے اور یہاں ’’نجات ‘‘  میں دُکھی پنڈت گھاسی رام کے سامنے مجبو ر ہے۔ڈاکٹر صغیر افراہیم نے مذہب کی بالا دستی ،اہمیت اور اس کے استحصالی پہلو کے حوالے سے اپنا موقف کچھ یوں پیش کیا ہے:
’’دیہی زندگی میں ۔۔۔  پنڈت اور ساہو کار کی بھی بڑی ا ہمیت ہوتی تھی اسی طرح دیہی معاشرے میں برطانیہ سرکار کے کارندوں ، مذہبی ٹھیکیداروں اور مہاجنوں کی ایسی تثلیث قائم ہوئی جو پورے معاشرے کا نفسیاتی ، تہذہبی اور اقتصادی استحصال کر تی تھی۔ بر س ہا بر س چلنے والی مذہبی رسوم کی ادائیگی پنڈت کے واسطے ہوتی تھی اور مذہب کے تعلق سے وہ سارے امور پرحکم آخر کی حیثیت رکھتا تھا۔ ۱۴؎
مذہبی پیشرو ؤں کی اسی اہمیت کے پیش نظردُکھی کو اس کے بیٹے کی سگائی(منگنی) پنڈت کے در پر لے جاتی ہے تاکہ پنڈت جی شُبھ ساعت نکالے اوربیٹے کے جیون میں منگل ہی منگل(خوشیاں ) ہو ۔بطورِ تحفہ وہ گائے ماتا کے لئے گھا س یا چارہ لے جانے پر ہی اکتفاکر لیتا ہے اور خالی ہاتھ باباجی کے ہاں جانے سے گھبراتا ہے ۔ دُکھی کے اس نذرانے یا تحفے کا پنڈت جی پر خوشگوار اثر نہیں پڑتا اس لئے وہ دُکھی کے وجود سے ’’نذرانہ‘‘ لینے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ ۔اس ’’نذرانے‘‘ کا ذکر پریم چند یوں کرتے ہیں:
’’۔۔۔ذرا جھاڑولے کر دروازہ تو صاف کر دے ۔ یہ بیٹھک بھی کئی دن سے لیپی نہیں گئی اسے بھی گوبر سے لیپ دے۔۔۔ہاں ذرایہ لکڑی بھی چیر دینا، ۔کھلیا ن میں چار کھا نچی بھوساپڑاہے اُسے بھی اُٹھا لانا اور بھوسیلے میں رکھ دینا ۔‘‘  ۱۵؎
پنڈت کے ہاتھوں دکھی کے اس جسمانی استحصال کے پیچھے دُکھی اور اس کے طبقے کی معاشی محرومیا ں ہیں اور مذہبی بنیاد پرستی اور مذہب کی کورانہ تقلید کا عنصر بھی۔دُکھی کے پاس اگر نقد روپیہ ہو تا تو پنڈت کے لئے اس کے پسند کچھ بھی خرید کر اس جھاڑو ،لپائی ،لکڑی چیرنے اور بھوسااُٹھانے سے بچاجا سکتا تھا لیکن دُکھی اور اُس کے طبقے کے آزاد معاشی ذرائع نہ ہونے کے باعث اور مذہبی کم علمی کے سبب اپنا دھرمک فریضہ سمجھ کر خود کو استحصال کے لئے پیش کیاکیونکہ وہ  اپنے علم کے مطابق پنڈت کے مقام و مرتبے سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ اس مشقت اور جان سوز محنت کو کم علمی کی بدولت ثواب و نجات کا ذریعہ سمجھ کر بھی قبول کر لیتا ہے۔
چلم کے لئے آگ مانگنا ،پنڈتانی کا آگ پھینکنا ، پنڈت کا نفرت اور حقارت آمیز رویہ اور سلوک، طبقاتی نفرت کا اظہا ر تھا لیکن دُکھی کی مذہب کی کورانہ تقلید نے اس پہلوکے لئے ثواب و عذاب کا جواز فراہم کیاجودُکھی پریشان یا فکرمند کرانے کی بجائے راحت اور ثواب کا تعین کرتا تھا۔ یہ سب واقعات اور حالات اُس کی مذہبی نفسیا ت (لاعلمی و کورانہ تقلید) کے پس منظر میں تو درست ہے لیکن اسے عرفانِ ذِلّت سے محر ومی ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔اس محرومی کے پیچھے عرفانِ ذات اور احساسِ انسانیت کا وہ نظر یہ قائم تھا جو اعلیٰ طبقات کے رویوں ،سلو ک اور ردعمل نے انھیں(نچلے طبقے)عطاکیا تھا۔اسے عام ،روزمرہ زندگی میں بارہا اونچے طبقے کے لوگوں سے لین دین کا واسطہ پڑا ہو گا جس نے انھیں اعلیٰ طبقے کی ذہنیت اور ان کے سوچ کا کامل تو نہیں لیکن ایک مبہم سا شعور دیا ہو گا۔ یہاں اسے اس انسانیت سوزسلوک یارویے کا تو اسے احساس ہی نہیں، وجہ مذہب اور اپنی خاص ضرورت ہے، اس لئے اس کے خلاف بغاوت یا ردعمل تو دور کی بات وہ ایسی سوچ بھی مذہب کی صریحاََ خلا ف ورزی سمجھ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پنڈتانی کے آگ پھینکنے پر اُس نے کسِی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیابلکہ ا س نا خوشگوارواقعے یا حادثے کے لئے اُلٹا،مذہب کے ہزاروں ،لاکھوں جوازوں میں بر ہمن کے گھر کو نا پاک کرنے کا جواز از خود تلا ش کیا۔ عظیم الشان صدیقی دُکھی کے اس رویے کے با رے میں ر قم طر از ہیں:۔
’’نجا ت کا دکھی ،کیو ں دکھی تھا ؟کیا صرف اسی لئے کہ تو ہما ت کے اندھے کنو یں نے زند گی کے تمام دروازے اس پر بند کر دیئے تھے اور وہ سمجھتا تھا کہ بیٹے کی لگن کے موقع پر پر و ہت کی مو جو دگی ہی اُس کے مستقبل کو روشن کر سکتی ہے؟۔ پسماندہ طبقو ں کی یہی وہ کمز وری تھی جس نے جبر و استحصال کے تما م ہتھیا ر، دھر م کے ٹھیکیداروں کے ہا تھوں میں سو نپ دیئے تھے ۔‘‘    ۱۶؎
دکھی، پنڈت جی کی خدمت اور اس کو خوش کرتے کرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اسے اب بھی یقین ہے کہ پنڈت جی اس کے بیٹے کا شبھ ساعت نکالیں گے کیونکہ وہی بنانے اور بگاڑنے والے ہیں۔دوسری طرف پنڈت جی کا اپنے ججمان سے کیا جانے والا بہترین سلوک ملاحظہ کیجیے۔
’’پنڈت جی نے ایک رسّی نکالی ۔اُس کا پھندا بنا کر مرُدے کے پیر میں ڈالا اور پھندے کو ِکھنچ کر کَس دیا۔ابھی کچھ کچھ اندھیر ا تھا ۔پنڈت جی نے رسّی پکڑکر لا ش کو گھسیٹنا شر وع کیا اور گھسیٹ گائو ں کے با ہر لے گئے۔ ‘‘  ۱۷؎
پنڈت جی نے اشنان کر کے دُرگا کاپاٹ پڑھا اور سر میں گنگا جل چھڑکا اور ادھر دُکھی کی لاش پر سے گیدڑ،کوے اور گدِھ گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ دُکھی کی اس طر ح کی اذیت ناک موت، مذہب کی کو رانہ تقلید اور مر یضانہ حد تک مذہبی احکام کی پیر وی ، وہ بھی ایسے حالات میں جب مذہبی پیشوائوں نے مذہب میں اپنی طر ف سے تر میم و تخفیف کر کے مذہب کے دائروں کو تنگ سے تنگ کر دیا ہو ۔عظیم الشان صدیقی دُکھی کے متعلق تحریر کرتے ہیں: 
’’دُکھی۔۔۔۔اپنے خالق سے اِتنا خوف زدہ نہیں ہے جتنا مذہب کے نا م نہاد ٹھیکیداروں کا تصور اُسے دہشت میں مبتلا رکھتا ہے۔۔۔۔اس طر ح کے استحصال۔۔۔۔اس طرح کے بر تائو کا اس لئے وہ مستحق ہے کیو نکہ اُس نے عقائد کی ڈوردوسر وں کے ہا تھو ں میں سو نپ دی ہے۔ ‘‘  ۱۸؎
افسانہ ’’سوا سیر گیہوں‘‘  میں بھی برہمن کی عیاریوں اور مکاریوں اس کے ترتیب دئے ہوئے عنکبوت اور استحصالی نظام کی بہترین عکاسی کی ہے۔اس افسانے میں نچلے طبقے کے استحصال کے سلسلے میں جس پہلوکا ذکر کیا گیا ہے وہ ہندوستانی زندگی کا خاصہ ولازمہ تھا ۔ ایک مہاجنی نظام اور دوسرا کمزور ونچلے طبقے کا مریضانہ حد تک مذہبی توہم پرستی اور کورانہ تقلید، جو استحصال کا موجب تھا لیکن نچلے طبقے کے لئے روحانی نجات کا ذریعہ تھا۔ یہاں استحصال کرنے والے پیشے کے لحاظ سے مہاجن اوردوسرے پر وہت ، ذات اور طبقے کے لحاظ سے برہمن ہیں ۔
ساہو کار ہندوستانی شہری و دیہاتی زندگی کا اہم پہلوتھے لیکن برطانوی سر مایہ دارانہ نظام نے معاشرے کے دوسرے عوامل پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ان کی نفسیات کو بھی بڑی حد تک متاثر کیا تھا ۔ اب ساہو کاری کا پیشہ بڑی حد تک سماجی وطبقاتی حیثیت سے معاشی فوائد کے حصول کے گِرد گھومنے لگا تھا۔ ان کا ہر قول وفعل ،نفع وفائدہ کی غرض میں لپٹاہوا اور ذات تک سمٹا ہوا تھا۔ معاشی طور پر مجبوروبدحال لوگوں کی مجبوریوں اور بد حالی سے استحصال کی حد تک فائدہ اٹھا لینا ان کا مطمح نظر بن گیا تھا ۔
ان کے طریقہ واردات کو ڈاکٹر تارا چند نے بھی یوں تحریر کیا ہے :
’’ساہو کار اس کی(کا شتکار) جہالت اور ناعاقب اندیشی کا فائدہ اٹھاتے اور اُس کو قرض کی سہولتیں ایسی شرطوں پر دیتے جو اس کو دائمی قرض کے جال میں پھانس لیتی تھیں۔۔۔ اگر کوئی قرض دار غیر معمولی مشقت اور چو کسی سے قرض ادا کرنے اور اپنے کو آزاد کرانے کی کوشِش کر تا تھا تو اس کو ایسا کرنے بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ حساب میں گھپلا یا دستاویزات میں جعل کر دیا جاتاتھاجس کی وجہ سے سود کا بقایا ،قرض دار کی طرف سے اس کی ادائیگی کی بہ نسبت زیادہ تیز رفتار سے بڑھتاتھا ۔ ‘‘   ۱۹؎ 
پر وہت طبقے کا تعلق برہمن طبقے سے تھا جو مذہبی ٹھیکیدار ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو دوسرے طبقات سے اعلیٰ وبر تر خیال کر تاتھا ۔ یوں معاشی بنیادوں پر بنے طبقات اور مذہبی دائرے میں قید فرق وامتیاز نے ان دونو ں کرداروں کو افضلیت بخشی تھی ۔ تشکیل شدہ طبقاتی نظام ، مذہبی بالا دستی اور کورانہ تقلید اوربنیاد پرستی نے انھیں معاشرے کے دوسرے افراد کے معاشی اور مذہبی حوالے سے  استحصال کیکھلی چھٹی دی تھی ۔ ڈاکٹر صغیر افراہم اس کثیرالجہت خصوصیات کے پسِ منظر میں یوں تحریر کرتے ہیں:
  ’’دیہی زندگی میں زمیندار اور اس کے ہر کاروں کے علاوہ پنڈت اور ساہو کار کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔۔۔ بر س ہا بر س چلنے والی مذہبی رسوم کی ادائیگی پنڈت کے واسطے ہوتی تھی اور مذہب کے تعلق سے وہ سارے اَمور پر حکمِ آخر کی حیثیت رکھتا تھا ، مذہب سے عوام ۔۔۔ میں تو ہم پر ستی پیدا کی۔۔۔جس کی آڑ میں عوامی استحصال کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملتے گئے۔‘‘  ۲۰؎
برہمن ،سادھو ہو یا پر وہت یا کِسی دوسرے پیشے سے منسلک ، یہ ذات کے اعلیٰ وبر تر ہونے کے باعث اکثر وبیشتر خود کو پیشہ وروں سے بر تر سمجھتے تھے۔ سماجی حوالے سے بھی بر تر ہونے کی وجہ سے عام لوگ اُنھیں اہمیت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شنکر کے گھر سادھو آگئے تو اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ کسی کھانے کی شے کی پیشکش کا تھا ۔      خود کھانے کے معاملے میں کافی مستغنی تھے اور چربن نہ ہونے کی صورت میں فاقے پر گزارا تھا مگر یہاں مسئلہ مذہب اور رُوحانیت ،نجات اوربرکت کا تھا ۔ شنکر کی اپنی مالی حیثیت کے پسِ منظر میں سادھو کی خاطر وتواضع کہاں تک کی؟ یہی وہ پہلو ہے جس نے پورے افسانے کو ایک شاہکار بنا دیا ہے۔ شنکر کی استغنا ،مذہبی عقیدت سے دَب گئی ۔ سادھو کو اپنی طرح چربن یا جَو نہیں کھلاسکتے ،اس لئے گندم کے آٹے کی فکر دامن گیر ہوئی اورسوا سیر گیہوں پروہت جی کے ہاں سے اُدھار مِلا جوشنکر کے معاشی استحصال کا سامان بنااور پروہت جی کی آسامیوں میں اضافے کا سبب بھی۔
اور اس دن شنکر کا خون سرد ہو گیا جب پروہت نے کہا: 
’’تیرے یہاں ساڑھے پانچ من گیہوں کب سے باقی پڑے ہیں اور توُ دینے کا نام نہیں لیتا۔ ہضم کر نے کی نیت ہے کیا؟‘‘  ۲۱؎
شنکر کے نام ساڑھے پانچ من گندم کا قرض دراصل کمپنی اور مہاجنی تہذیب کا وہ ہتھکنڈہ ہے جو ساہو کاروں اور مہاجنوں کو کمپنی کے قوانین اور اس سے تشکیل شدہ نفسیات نے عطا کیا تھا ۔ ساہو کاروں اور مہاجنوں کے قرض دینے اور لینے کا یہ طریقہ کا ر ہندوستانی دیہی زندگی کا اہم جز و رہا ۔ پریم چند نے یہاں ان ساہو کار وں اور مہاجنوں کے طریقہ واردات سے پردہ اُٹھایا ہے ۔ ایسے ہی مہاجنوں اور ساہو کاروں سے متعلق جو اپنے سوا سیر گیہوں کو ساڑھے پانچ من بنا سکتے ہیں اور ذات کے لحاظ سے برہمن ہیں ، عظیم الشان صدیقی فرماتے ہیں: 
’’وہ ایسا سامنی پر وہت ہے جس کی مذہب اور سماج پر صدیوں سے اجارہ داری قائم ہے ۔۔۔چھوٹے چارے سے بڑ ا شکار کرنا اور پھر اس کو تھکا تھکا کر اس طرح بے دم کرنے میں مہارت رکھتا ہے کہ شکار خود ہی گردن ڈال دیتا ہے۔‘ ‘  ۲۲؎ 
شنکر اور اس کے طبقے کے بارے میں عظیم الشان صدیقی ر قم طراز ہیں:
’’دوسری طرف وہ سادہ لوح ، ان پڑھ ، روایتی کسان ہے کہ مہمان نوازی جس کی فطرت کا خاصہ ہے اور اس کے لئے نتائج سے بے نیاز ہو کر کِسی حد تک بھی جانے کے لئے تیا رہتا ہے ۔وہ ایسا کمزور بھی ہے جو دوسروں پر بھروسا رکھتا ہے لیکن جس کو اپنے وجود اور اپنی ذات پر کوئی اعتماد نہیں۔۔۔ ہر بات کو بے چوں وچر اتسلیم کر لیتا ہے ۔‘‘  ۲۳؎
شنکر کے پروہت جی سے ساڑھے پانچ من کی وضاحت پر پر وہت جی نے مہلک ترین ہتھیار کا انتخاب کیا:
’’ایک تو قرض و ہ بھی برہمن کا ! بہی میں نام رہے گا تو سیدھے نرک میں جائوں گا۔ ۔۔بولا مہاراج تمہارا جتنا ہو گا یہیں دو ں گا ۔ایشور کے یہاں کیوں دوں ؟ اس جنم میں تو ٹھوکر کھا ہی رہا ہوں اُس جنم کے لئے کیوں کانٹے بوئوں ۔‘‘   ۲۴؎  
بہر حال شنکر خود کو پروہت جی کے بنائے ہوئے نرک سے بچانے کیلئے پر وہت جی کے تارِعنکبوت میں پھنس گیا اور قرض سال میں دینے کا وعدہ کیا ۔نہ دے سکنے کی صورت میں سود کی شرح ساڑھے تین روپے فی سیکٹرہ وغیرہ منظور کر دی ۔شاید، عظیم الشان صدیقی نے شنکر جیسے کر داروں کے متعلق ہی کہا ہے:
’’پریم چند کے افسانے ان حقیقتوں کو بھی واضح کرتے ہیں کہ سماج کا کوئی طبقہ جب صِرف مستقل بنیادوں پر ہر دوسرے طبقوں کو اپنی ہوس اور استحصال کا نشانہ بنانا چاہتا ہے تو وہ نہ صرف آمدنی کے جملہ وسائل پر قابض ہو جاتا ہے بلکہ حیات بخش وسائل سے بھی انھیں محروم کر دیتا ہے اور اِن وسائل کے گر درسم ورواج ، خوف ودہشت ،تو ہمات اور تعصّبات اور مفروضہ عقائد کی دیواریں اتنی بلند کر دیتا ہے کہ مجبور طبقے انھیں پار کرنے کی جرأت نہیں کر پاتے ۔۔۔اور مجبور ومحروم طبقے اس زبوں حالی ۔۔۔اور استحصال کو اپنی روحانی نجات کا ذریعہ بھی تصّور کرنے لگیں۔‘‘  ۲۵؎
ساہو کار کی حیثیت و اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر شکیل احمد تحریر کرتے ہیں:
’’’’ساہوکار‘‘ہندوستان کی دیہی معیشت کا اولین مرکزاورواحد’’بینکر‘‘ ہے۔اُنیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں کے آغاز تک جب ہندوستان میں بینکوں کا چلن صرف بڑے شہروں تک محدود تھا، یہ مہاجن اور ساہوکار ہی دیہی قرضوں کے سب سے بڑے مرکز تھے۔‘‘  ۲۶؎
ان حوالوں سے پرو ہت ، مہاجن اور ساہو کاروں کی حیثیت ، معاشرے پر اِن لوگوں کی گرفت کا بھی بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے۔ کوئی ان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وجہ سب کو معلوم تھی ،پریم چند نے لکھا ہے:
’’مہاجن سے سبھی کاکام پڑتا ہے اُس کے منہ کون لگے ۔‘‘  ۲۷؎
مذہبی انتہا پسندوں اور استحصال پسندوں کے خلاف مظلوم کی مدد کرنے کی ہمت یا آواز اُٹھانے کی جرأت نہ تھی ۔ یہ صورت حال پورے معاشرے کے خیالات وافکار پر مذہب کی مضبوط گرفت ، مذہبی شخصیات اور اداروں کے ہاتھوں عوام کی استحصال کی نشان دہی کرتا ہے ۔ عظیم الشان صدیقی فر ماتے ہیں :
’’ مذہب کے نام پر استحصال پسندی کا یہ دائرہ انسانوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کِسی فرد واحد یا ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ کروڑوں لوگ بھی زندہ یا مُردہ اس درد ناک انجام سے دو چار ہیں جن کی صدیوں پر پھیلی ہوئی ذہنی استحصال زدگی نے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتں اس طرح سلب کر لی ہیں کہ وہ اپنی قوتوں اور ذات کے عرفان سے محروم ہو گئے ہیں ۔‘‘    ۲۸؎
پریم چند کے افسانوں میں مذہب کا بطورذریعہ استحصال ذکر ایک مضبوط حوالہ استحصال ہے لیکن جب مذہب کے ساتھ سماج یا برادری نے فرد کے گرد گھیرا تنگ کر دیا تواس نے مزید تباہی اور بحران پیدا کر لیا۔ اگر چہ ہندوستان میں اس مذہبی انتہا پسندی، توہم پرستی اور مفروضیاتی رویّوں کے سلسلے میں اُنیسویں صدی میں کئی اصلاحی تحریکیں بھی اُٹھیں مگر گائوں کی سطح پر علم وفہم کے نہ ہونے اور نام نہاد مذہب پرستی اور بنیاد پرستی نے ان اصلاحی تحریکوں کے اثرات کو پہنچنے نہیں دیا ۔
مذہب وبرادری سماج کے اہم پہلو ہیں جو بنیادی طور پر انسانیت کی خوشحالی اور مجبور ومقہور لوگوں کے حقوق کے لئے مضبوط ڈھال ہے لیکن پریم چند کے افسانوں میں انھیں زیادہ تر باہمی چپقلش ، عداوت اور حسد کے سلسلے میں ان کا استحصالی پہلو دکھایاگیا ہے ۔
جہاں مخالف کی تباہی وبر بادی اور استحصال کے سارے حربے ختم ہو جاتے تو مذہب وبرادری کا استعمال شروع ہوجا تا ہے جو کمزوروں ، مزدوروں، نچلے طبقے کے لوگوں اور خصوصاً عورتوں اور بیوائوں کے خلاف یہ ذریعہ استحصال پوری طاقت سے آزمایا گیا ہے ۔ ’’زادِراہ‘‘  اسی نوعیت کا ایک بہترین افسانہ ہے جس میں مذہب وبرادری کو مہاجنی ہتھکنڈوں کے ساتھ سیٹھ رام ناتھ کے خاندن کے استحصال کے لئے آزمایا گیا ہے ۔ایک بیوہ کو کس طرح برادر ی کے نام پر لوٹا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ برادری کی مان مریادہ رکھنے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہے۔ سوشیلا سیٹھ رام ناتھ کی بیوہ کے پاس برادری کے لوگ آئے اور کبیر داس کہنے لگے:
’’عزت کے سوا دُنیا میں اور ہے کیا ۔ اس کو نبھانا ، اس کی حفاظت کرنا ہمارا دھرم ہے لیکن چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا چاہیئے۔کتنے روپے ہیں تمہاے پاس بہو؟۔‘‘  ۲۹؎
سوشیلا نے کچھ بھی پا س ہونے سے انکار کیا۔وجہ یہ ہے کہ سیٹھ رام ناتھ کی ساری نقد دولت اس کے علاج پر اُٹھ گئی اور اس حقیقت سے یہ لوگ بھی واقف ہیں ۔ سوشیلا کے رقم کی موجودگی کے بارے میں سیدھے انکار کے سبب دھنی رام نے مکان بیچنے کا فیصلہ کیا اور زیور بھی اونے پونے خود برادری کے لوگوں نے بیچ دی اور خود خرید لی۔۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے دولت کے حصول یا سود وزیاں کے سلسلے میں فرد اور معاشرے کی مجموعی نفسیات کی تشکیل کچھ ایسی کر دی تھی کہ رشتوں کی معنویت اور انسانیت کے تقدس جیسے حوالے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ فرد کی ہر حرکت وفعل کے پس منظر میں سودوزیاں کی فکر اور نفع کمانے کا خیال تھا ۔یہاں برہم بھوج سے کہیں زیادہ ہر ایک کے سیٹھ رام ناتھ کے موجود ہ جائیداد کے حصول کی خواہش ہے۔ جس کے لئے برادری اور مذہب کے نام کو استعمال کیا جارہا ہے ،جو ایسے عوامل و عناصر ہیں جن عناصرکی بالا دستی سے انکار نا ممکن ہے ان صاحبان نے ممکنہ انکار سے بچنے کے لئے طریقۂ واردات یوں ترتیب دیا کہ کسی کو انکار نہ رہا:
’’با ل بچوں کے بھاگ میں لکھا ہو گا تو بھگوان کسی اور حیلے سے دے دیں گے ۔ حیلے روزی، بہانے موت ، بھگوان جس کو پیدا کرتے ہیں اس کے رزق کا انتظام بھی کر دیتے ہیں ۔‘‘  ۳۰؎
اسی طرح دھمکی بھی دی ۔
’’ہم تجھے سمجھا کرہار گئے اگر تو اپنی ہٹ نہیں چھوڑے گی تو ہم بات بھی نہ کریں گے،پھر یہاں تیرا رہنا مشکل ہو جائے گا۔شہر والے تیرے پیچھے پڑجائیں گے۔‘‘   ۳۱؎
بہرحال زیور اور مکان بک جانے بلکہ ’’خریدے جانے ‘‘کے بعد برادری، سیٹھ رام ناتھ سے نام نہاد دوستی کے فرض اور اُس کی روح کو سکون دینے کا بندوبست کرنے لگی ۔ برہم بُھوج کا رُقعہ لکھا جانے لگا تھا اور دوسری طرف سوشیلا اپنے اور بچوں کے مستقبل پر آنسو بہار ہی تھی ۔ دھرم اور برادری سے احتجاج کے باوجود شکست کھاکر وہ نہ لمحۂ حال کو بچا پائی اور نہ مستقبل۔ عظیم الشان صدیقی رقم طراز ہیں :
’’زادِ راہ‘‘ اس حقیقت سے نقاب اٹھاتا ہے جہاں اس کا رقیب ظالم شوہر یا تنہا کوئی مرد نہیں ہے بلکہ پورا سماج اور اس کے رسم ورواج نیز وہ ٹھیکیدار ہیں جو دھرم ، توہمات اور سماج کی آڑ میں مظلومیت سے استفادہ کرنے کو اپنا حق تصو ر کرتے ہیں۔۔۔ بیوہ سو شیلا اور اس کے بے سہارا یتیم بچوں ۔۔۔ کے لئے سماج قوّت بننے کے بجائے استحصال کا ذریعہ بن جا تا ہے ۔ غیر صحت مند سماج میں غریب خاندان کی کسی عورت کے لئے شوہر کی موت صرف جذبات وخواہشات اور کفالت ہی کے لئے جہنّم پیدا نہیں کر تی بلکہ اس کے وسائل او ر تحفظات بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں ۔‘‘   ۳۲؎
پریم چند نے یہا ں مذہبی روایات اور قدروں کو غلط انداز سے پیش کرنے والوں ، مذہب پرستی کا ڈھونگ رچانے اور رشتوں کی معنویت ،دوستی کی آڑمیں لوٹنے والوں اور منافقت سے متعلق بہت سے سوالات اُٹھائے ہیں ۔
سوشیلا کے مسائل یہاں ختم نہ ہوئے ،ایک طرف اس کا مذہبی قدروں اور روایات کے نام پر معاشی استحصال کیا گیا،پھر گھر سے نکال کر سماجی استحصال ہوا تو دوسری طرف برادری کی ناک اور مذہب ہی کے نام پر جنسی استحصال کی کوشش کی گئی اور ان سب کے لئے مذہب کی بالادستی کو استعمال کیاگیا۔ بیوہ اور یتیم بچوں کو مذہب و برادری کا جو حق وہمدردی ملتی ہے، سو شیلا یا ریوتی کے حصے میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں آیا۔ مذہب یا برادری اس کی قوت،ڈھال اور تحفظ کی ضمانت نہ بنی۔ یہاں تک کہ ریوتی کی خودکشی کے لئے دھرم اور برادری بنیاد بنی۔
’’زادِراہ‘‘ یا اس قسم کے دوسرے افسانوں میں پریم چند نے خزنیہ صورتِ حال پیش کر کے بڑے دلچسپ ومنفرد انداز سے استحصالی ہتھکنڈوں اور استحصال پسندوں کے اصل چہرے بے نقاب کیے ہیں ۔ انہوں نے اس استحصالی گروہ کو’’ تیسرا عنصر ‘‘یا’’ تیسری طاقت‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے جو کبھی اکیلے اور کبھی دوسری طاقتوں سے مل کر فرد یا اجتماع کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔’’ تیسری طاقت‘‘ کے باب میں شکیل الر حمن نے افسانہ ’’زادِ راہ‘‘ کی المیاتی صورتِ حال  کے متعلق اظہار خیال یوں کیا ہے :
’’ ’’زادِ راہ‘‘ کا المیہ اس وقت شروع نہیں ہوتا جب سیٹھ رام ناتھ دُنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں بلکہ اس کی ابتدا تو اس وقت ہوتی ہے جب ان کے انتقال کے بعد برادری کے لوگ اُن کے گھر میں قدم رکھتے ہیں ۔ مذہب اور برادری کے نام ، سیٹھ دھنی رام، کبیر داس، بھیم چند جھا برمل اس گھر کو تباہ کر دیتے ہیں، یہ سب تیسری طاقت کے نمائندے ہیں ۔ مکان فروخت ہو جا تا ہے، زیورات چلے جاتے ہیں ۔ بیوہ کو بچوں کے ساتھ گھر چھوڑناپڑتا ہے اور وہ ایک انتہائی اذیّت ناک زندگی بسر کرتی ہے ۔ یہ سب برادری کی اس طاقت کی وجہ سے ہو تا ہے ۔ یہ تیسری طاقت کے سب سے بڑے نمائندے ہیں جو ریوتی جیسی کم سِن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ اس تیسری طاقت سے لڑکر افراد کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘‘   ۳۳؎
’’زادراہ ‘‘میں پریم چند ایک بیوہ اور اس کے خاندان پر برادری کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی کہانی کو فطری اور انسانی نفسیات کو پس منظر میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں مسئلہ مذہب سے متعلق جاہلانہ سوچ یا کورانہ تقلید کا نہیں بلکہ مذہب کی بالا دستی اور مذہب کا برادری کے ہاتھوں فرد یا افراد کے خلاف استحصالی انداز سے استعمال کئے جانے کا ہے جس سے فرد کی آزادی ،خوشحالی، مثبت امکانات اوراس کا سماجی مرتبہ ختم کرکے اس کے حقوق کو غصب کیا جائے۔مذہب ،یہاں ایک بیوہ کے خلاف ،برادری او رباہر کے لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوا ہے تو ’’بدنصیب ماں‘‘ میں اسی مذہب کو اس کے سماجی مقام سے محرومی کے لئے اس کے بیٹوں نے استعمال کیا ہے۔نتیجے کے طور ایک بحران پیدا ہوا ہے جس میں استحصال زدہ کرداروں کی زندگیوں کو نگل لیاگیا ہے۔ موت کے پیش آنے کی وجہ کہیں ذاتی خواہش کا نتیجہ ہے تو کہیں سماج کی پیشکش لیکن استحصال زدہ کرداروں کے لئے موت کا راستہ تمام مسائل اور بحرانوں سے مکتی ہے ۔
’’بدنصیب ماں ‘‘کی پھول متی دراصل زمانے کی منافقت اور قانونِ تغیرّ سے دوچار ہوئی۔ اس اُلٹ پھیر میں مذہب سب سے زیادہ مضبوط عنصر کے طور پر سامنے آیا۔ یہاں سب سے زیادہ دُکھ سماجی مقام سے محرومی ہے نہ کہ گھر پر حاکمیت کے خاتمے کا۔پھو ل متی بیوی،ماں اور ساس کی حیثیت سے ایک خو شگو ار اور نفسیا تی طو ر پر مطمئن زندگی گزار رہی تھی پھو ل متی کی اس حیثیت میں تبدیلی پنڈت اجو دھیا کی وفات کے دن ہی آئی جب وہ ودھواہ (بیوا) ہو گئی،لیکن اس حیثیت کے اظہا ر کو گیا رہ دن کا عرصہ لگا ۔ جب اجودھیا نا تھ کے تیر ھو یں کو بر ہمن بھو ج کے لئے با رہو یں دن سا ما ن لا یا جا نے لگا تھا۔ پہلی بات ،پھو ل متی سے اس گھریلو مذہبی تقریب کے حوالے سے کسِی قسم کے مشو رے کی ضرور ت محسو س نہیں کی گئی ۔جواس کی سما جی حیثیت کے خلا ف پہلی بغا وت تھی تو دوسری طرف یہ اَمور ماں جیسے سما جی ،جذباتی اور روحانی رشتے کے تقدس کے خلاف اور استحصال سے کم نہ تھے ۔یوں یہ مذہب اور مامتا کے جذباتی اور روحانی رشتوں کے درمیان تصادم تھا۔جس میں مذہب اور اس کی بالا دستی کو بنیاد بھی بنایا گیا ہے ۔
یہاں ایک طرف تو رام اور منو کے قوانین کی بات ہے تو دوسری طرف رشتوں سے انحراف بھی دکھایا گیا ہے۔ماں کی حیثیت سے پھول متی اپنے آپ کوبیٹوں سے زیادہ ذمہ دار سمجھتی ہے جب کہ بیٹے اس کی اس حیثیت کو باپ کی موت کے ساتھ ہی چیلنج کر دیتے ہیں۔اس طرح افسا نے میں رشتوں کے تقد س اور معنویت کے متعلق سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اس کے جوابات بھی دورانِ گفتگو دینے کی کوشش کی گئی ہے:۔
’’کامتا ناتھ ۔۔۔بولے اماّں تم خواہ مخواہ بات بڑھاتی ہو۔جس روپے کو تم اپنا سمجھتی ہو وہ تمھارا نہیں ہے۔۔۔ دادا کے مرتے ہی سب کچھ ہمارا ہو گیا۔
اُما:۔اماں قانون تو جانتی نہیں خواہمخواہ الجھتی ہیں۔‘‘ 
’’پھول متی :۔اچھا کیاقانون ہے ذرامیں بھی سنوں۔
اُما:۔قانون یہی ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد ساری جائداد بیٹوں کی ہو جاتی ہے،ماں کا حق صرف گزارہ لینے کا ہے۔
پھول متی:۔کس نے بتایا ہے ایساقانون؟۔
اُما:۔ہمارے شیو ں نے،مہاراج منو نے اور کس نے؟۔‘‘  ۳۴؎ 
بیٹے جس ماں کو چالیس سال میں اس کی مالکن ہونے کو شکست نہ دے سکے اس کی حیثیت کو مذہب نے ایک جھٹکے میں وہ سب کچھ کر دیا ۔یوں پھو ل متی کی کمزوری و استحصال کے پیچھے اور بیٹوں کی جرأت کی پسِ منظر میں منو کے وہ قوانین ہیں جس کی رو سے بیوہ کو شوہر کی جائداد سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ مذہبی قوانین اور اس کے استحصالی پہلو کے خلا ف احتجا ج تو موجود ہے لیکن مذہب کے پیچھے جب سما ج کھڑاہو اور سماج میں برادری یا خود خاندان کے افراد متحرک ہوں تو کسی حد تک بھی جا کر مذہب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بیوہ اور اس کے مسائل سے متعلق پریم چند کا افسانہ ’’مندر‘‘ ایک نظریاتی افسانہ ہے۔ اس کا آغاز جتنا خزنیہ ہے اس سے کہیں زیادہ انجام آلمیہ ہے ۔ پریم چند نے یہاں مذہب کی بالا دستی ار اس کا نام نہاد دھرم پرستوں کے ہاتھوں نچلے طبقے کے خلاف استحصالی نوعیت سے استعمال کو موضوع بنایا ہے لیکن اس کو کئی دیگر زاویوں سے دکھانے کی بھی کوشش کی ہے یہاں صرف مذہب اور مذہب کا بطور ذریعہ استحصال نہیں بلکہ نچلے طبقے کے لئے مذہب کو شجرہ ممنوعہ قرار دیا جانا اور اس کے متعلق مذہبی فرقے کی بالا دستی اوربے حسی کا ذکر بھی ہے۔سکھیا جو نچلے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ پریم چند نے اسے یہاں ایک ماں کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ججمان،ایک سچی دھرمک اور ایک ایسے کردار کے طور پر پیش کیا جس کی بہت سی خواہشات جن کا پورا ہونا اس کے طبقے کے لئے نا ممکن ہے ۔ایک خواہش مذہبی پیشوا ’’ٹھاکر جی ‘‘کو چھوُنے کی خواہش بھی ہے جو حسرت بن جاتی بلکہ اس کی جان لے لیتی ہے ۔جس کا کسی کو افسوس بھی نہیں ہوتا بلکہ رام کے بھگتوں کے نزدیک اس بھرشٹ ،ملیچھ،پلید ،چمارن بیوہ کو قتل کر کے انہوں نے مذہب اور دھرم کے سچے بھگت ہونے کا ثبوت دیا۔سکھیا کی جان کیوں چلی جاتی ہے ؟یا وہ جان کیوں دینا چاہتی ہے ؟۔پریم چند نے اس کے لئے جو توجیہ پیش کی ہے اس کا تعلق جذبات،روحانیت،مامتا،پتی ورتا اور نفسیات یعنی انسان کی بقا کی خواہش سے ہے:
’’تین روز سے سکھیا کے منہ میں نہ اناج کا ایک دانہ گیا اور نہ پانی کا ایک قطرہ۔سامنے پواں پر ماں کاننھا سالال پڑا کراہ رہا تھا۔آج تین روز سے اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔۔۔وہ اپنے د وبچے گنگا کے سپرد کر چکی تھی،شوہر کا پہلے ہی خاتمہ ہو چکا تھا۔اب اس بد نصیب کی زندگی کا سہارا جو کچھ تھا یہی بچہ تھا۔‘‘  ۳۵؎
لیکن اب وہ اپنے آخری سہارے کو بچانے کے لئے (پتی کا انشا) مندر جا کر ٹھاکر جی کی پوجا کرنا چاہتی ہے لیکن مندر کیا پجاری اسے ایسا کرنے نہیں دیتا۔ پجاری کے لہجے میں سکھیا کے لئے جو مرتبہ یاتعظیم ہے وہ اس کے زہریلے و اَمرانہ لہجے اور سوالات سے ظاہر ہو رہی ہے۔ دورانِ گفتگو سکھیا کے سوالات اور جوابات اگرپجاری کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے لیکن ان سوالات کی اہمیت سکھیا کے طبقے کے لئے بہت زیادہ ہے۔نچلے طبقے کے ساتھ اعلیٰ طبقے کا یہ سلوک صرف اُنیسویں یا بیسوی صدی کے ہندوستا ن کا مسئلہ نہ تھا بلکہ یہ سلوک اور یہ رویہ صدیوں سے اس طبقے کے ساتھ برتا جا رہا تھا۔ اعلیٰ طبقہ جہاں حیات بخش وسائل پر قابض تھا تو وہاں اس اعلیٰ طبقے نے نچلے طبقے کے ارد گرد ایسی دیواریں بلند کر رکھی تھیں جن کو ڈھانا یا پار کرنا نچلے طبقے کے بس کی بات نہ تھی۔ صغیر افراہیم نے تحریر کیا ہے:
’’ عہد قدیم سے ہندوستا ن میں ہریجنو ں کی حالت بڑی قا بل رحم رہی ہے ۔ ان کے سا تھ اعلیٰ ذات کے لو گ انتہائی شرمنا ک سلو ک کرتے تھے ۔ وہ نجس محض خیال کئے جا تے تھے ۔ اُن کا چھوا کھا نا پینا پاپ سمجھا جا تا تھا ۔ ا ن کو کھا ناکا بچا جھوٹن دیا جا تھا ۔ گا ئوں کی اصل آبادیو ں سے دور ، الگ ان کی بستیاں ہو تی تھیں  ۔۔۔  ان کا علیحدہ کنو اں ہو تا تھا  ۔۔۔  انسا نی حقوق سے محروم، ہریجنو ں کی جانوں کی بھی کو ئی قدرو قیمت نہ تھی۔ وہ نہ تو تعلیم حا صل کر سکتے تھے ، نہ مذہبی کتابوں کوچھو سکتے تھے ، نہ مندروں میں جا سکتے اور نہ ہی دیگر انسا نوں کے سا تھ اُٹھ بیٹھ سکتے تھے ۔ اُ ن کی اپنی نہ کوئی زمین ہو تی کہ کھیتی کرتے ، نہ کوئی ایسی جگہ جہا ں ذاتی رہا ئش بنا سکتے ۔ تما م دن گھر کے سا رے افراد سے بیگا رلی جا تی تھی اور ۔۔۔  استحصال کیا  جا تا تھا۔‘‘  ۳۶؎
پجاری کا رویہ سکھیا کے لئے حوصلہ شکن ہے لیکن سکھیا اپنی ضرورت اور مقصد کے معاملے میں پر عزم ہے اور شائد اسی عزم نے انھیں آج اپنے طبقے کے صدیوں سے کئے جانے والے استحصال سے متعلق سوالات اُٹھانے کے قابل بنایا۔اس نے نہ جانے کا فیصلہ کیا تو ساتھ ہی پجاری سے کچھ سوال بھی ذہن میں آئے جو اس وقت پوچھ نہ سکی کیونکہ اُسے ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان باتوں ناراض ہو کر پجاری ٹھاکر سے ملنے نہ دے گا۔
’’۔۔۔ٹھاکر جی کیا اُنھیں کے ہیں؟ ہم غریبوں کا ان سے کوئی ناتا نہیں؟یہ لوگ کون ہوتے ہیں روکنے والے؟۔۔۔‘‘ ۳۷؎
پجاری نے سکھیا کو ٹھاکر جی کی پوجا کی اجازت تو نہ دی لیکن جیاون کے لئے ایک روپے کے بدلے تعویذ دیا اور کہا:
’’تیرے لئے اتنی ہی پوجا بہت ہے۔جو بات کہی نہیں ہوئی وہ آج میں کر دوں اور گائوں پر کوئی آفت آ پڑے تو کیا ہو اسے بھی تو سوچ لے۔‘‘   ۳۸؎
پجاری کے دئے ہوئے تعویز سے کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ جیاون کی حالت مزید بگڑ گئی تو سکھیا نے مندر میں پوجا کا فیصلہ کرلیتی ہے لیکن مندر میں بھگوان کے بھگتوں نے اس کی ایک نہ سنی اور دیوانہ وار پیٹنا شروع کیا۔اسی مار پیٹ میں جیائون  سکھیا کے ہاتھوں سے گرا تو اس کا سارا بدن ٹھندا ہو چکا تھا۔پریم چند مذہب کے سلسلے میں ایسا نظریہ رکھتے تھے جس میں برابری،مساوات، فلاحِ انسانیت اور بہبودِبشرکا فلسفہ پوشیدہ رہا۔پریم چند نے سکھیا کی زبانی دھرم سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے ایک طرف اگر وہ ایک ماں کی مامتا کا رد عمل ہیں تو دوسری طرف مذہب پرستوں اور دھرم کے ٹھیکیداروں کی نام نہاد دھرم پرستی پر تنقید بھی۔
’’پاپیو!میرے بچے کی جان لے کر اب دور کیوں کھڑے ہو؟مجھے بھی کیوں نہیں اسی طرح مار ڈالتے ہو؟میرے چھونے سے ٹھاکر جی کو چھوت لگ گئی ہے۔پارس کو چھو کر لوہا سونا ہو جاتا ہے،پارس لوہا نہیں ہو جاتا۔میرے چھونے سے ٹھاکر جی بھرشت ہو جائیں گے۔۔۔ اب ٹھاکر جی چھونے نہ آئوں گی،تالے میں بند کر کے رکھیو۔ پہرا بٹھا دو۔ہائے دِیا تمھیں چھو بھی نہیں گئی۔۔۔ اس پر دھرم کے ٹھیکے دار بنتے ہو۔‘‘  ۳۹؎
پریم چند نے اس افسانے میں اپنے نظریات اور ہندو دھر م کے نام نہاد پیرو کاروں کی دھرم بھگتی کی توضیح پیش کی ہے تو یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھگوان، ماتا،رام،کسی ایک طبقے کی ملکیت نہیں وہ تو تمام دنیا کے بھگوان اور رام ہیں اور یہ کسی کے لئے مخصوص نہیں۔یہی وجہ تھی کہ وہ آریہ سماج سے وابستہ رہے جس کے ذریعے ہندو دھرم کے ان سنگدلانہ اور سفاّکانہ قوانین کا خاتمہ چاہتے تھے جن کا ہندو دھرم سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور جنھوں نے ہندو دھرم کو تنگ نظری اور محدودیت کی نذرکر دیا تھا۔
پریم چند کے نزدیک انسانیت کا تقدّس اور انسان کے مقام سے اعلیٰ کوئی مسئلہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے افسانوں میں کھل کر ان نظریات کا پرچار کیا ہے اور ایسے کاموں ،اعمال اور کرداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کی زندگی کا مطمع نظر انسانیت کی بقا اورا انسان کے مقام و منصب کی حفاظت ہے ۔ ا ٓپ کی انسان دوستی اور تقدسِ انسانیت کے پر چار کے حوالے سے ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنے مضمون ’’حقوقِ انسان کے محافظ:پریم چند‘‘ میں کچھ یوں اظہارِ خیال کیا ہے:
’’ پریم چند ایک دین انسانی کے پیر و اور حد درجہ انسان دوست ادیب تھے ان کا مسلک بہبود ِ بشر تھا۔وہ ہر حال میں حقوقِ انسانی کی حفاطت چاہتے تھے،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ہی اس بات کا احساس کرا دیا تھا کہ ہمارے سماج میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ انسانیت کی راہ کو دشواربناتاہے اوراسکے لئے انہوں نے ہر طرح کے ظلم وستم،استحصال،غیر مساوات ،نسل پرستی اور توہم پرستی کے خلاف آواز بلند کی۔‘‘  (۴۰)
سکھیا کا کردار یہاں ایک ایسا کردار ہے جس کے ذریعے پریم چند نے مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے خلاف کھل کر اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے یہ بھی سوالات اُٹھائے ہیں کہ مذہب کب تک طبقاتی حدود و قیود میں رہے گا ؟۔کب تک سکھیا اور اس کی طبقے کے لوگ جان دیں گے؟ اور بھگوان اور اپنے درمیان اِن ٹھاکروں کو دیوار پائیں گے؟۔انھیں عام لوگوں کی طرح حقوق کب ملیں گے ؟اور کب ان کی قدغنیں ختم ہوں گی اور پابندیوں کا خاتمہ ہو گا؟ پریم چند نے ساری زندگی مذہب اور مسلک کے حدود و قیو د سے ماراء ہو کر ادب میں ایسے موضوعات کی تخلیق کی جس کا کلی طور پر مقصد انسان اور انسان کی بہبود وفلاح ، طبقاتی مساوات،احساسِ انسانیت،تقدس ِانسانیت اور تعظیمِ انسانیت ہی رہا ۔ آپ معاشرے کے مسائل کے خاتمے اور اس کے دیر پا حل کے لئے کسی بھی نوعیت کی گروہ بندی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو ،کے خلاف تھے تاکہ افراد گروہ بندی یا مسلک سے مائورا ہو کر عدل و انصاف کو ممکن بنائیں اور اپنے حقوق کو محفوظ سمجھ کر معاشرے کے بہتر قیام کے لئے بھر پور طریقے سے ایک دوسرے کی مدد کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر سلمان علی ،شعبہ اردو جامعہ پشاور
سفیر اللہ خان پی ایچ ڈی اسکالر شعبۂ اردو جامعہ پشاور

 

حوالہ جات
۱۔        احتشام حسین،پریم چند کی ترقی پسندی۔مشمولہ ۔پریم چند کا تنقیدی مطالعہ۔مرتبہ ،مشرف احمد خان۔پبلشرز،نفیس اکیڈمی کراچی۔سن اشاعت،۱۹۸۶ء۔ ،ص۔۳۲
۲۔        ہنس راج رہبر،پریم چند،پبلشرز۔۔۔۔۔۔ س ا ۔۔۔۔ ص۔۲۸۰
۳۔       آل احمد سرور،تنقیدی ااشارے،پبلشرز۔۔۔۔ س ا ۔۔۔۔۔ص ۔۱۸
۴۔       شیو رانی دیوی ،پریم چند:گھر میں۔پبلشرز ،فضلی سنز پرایئوٹ لیمٹیڈ لاہور،سن اشاعت،۱۹۹۸ء ،ص۔۱۶۴
۵۔       جعفر رضا ڈاکٹر۔ پریم چند:کہانی کا رہنما،پبلشرز۔رام نرائن لال بینی مادھو،اِلہ آباد۔ سن اشاعت ،۱۹۶۹ء، ص۔۲۰۰
۶۔        پریم چند ،’’خون سفید‘‘،کلیات پریم چند(جلد۔۹)۔،قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی ،سن اشاعت،۲۰۰۳ء ،ص۵۰۴
۷۔       جعفر رضا ڈاکٹر۔ پریم چند:کہانی کا رہنما،پبلشرز۔رام نرائن لال بینی مادھو،اِلہ آباد۔ سن اشاعت ،۱۹۶۹ء ۔ص۔۱۹۹
۸۔       پریم چند ،’’خون سفید‘‘،کلیات پریم چند(جلد۔۹)۔،قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی ،سن اشاعت،۲۰۰۳ء ،ص۔۵۰۴
۹۔        پریم چند ،’’خون سفید‘‘،کلیات پریم چند(جلد۔۹)۔  ایضا  ،ص۔۵۰۷
۱۰۔       پریم چند ،’’راہِ نجات‘‘افسانے کا فن اور پریم چند کے افسانے،مر تبہ۔ڈاکٹراحسان الحق،پبلشرز،الوقار پبلیکیشنرز لاہور،سن اشاعت۔۲۰۰۴، ص۔۱۳۵
۱۱۔       پریم چند ،’’راہِ نجات‘‘افسانے کافن اور پریم چند کے افسانے،مر تبہ۔ڈاکٹراحسان الحق۔  ایضاَ،ص۔۱۳۶
۱۲۔       پریم چند ،’’راہِ نجات‘‘افسانے کافن اور پریم چند کے افسانے،مر تبہ۔ڈاکٹراحسان الحق۔ ایضاََ،ص۔۱۴۰
۱۳۔      صغیر افراہیم ڈاکٹر،۔اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل۔ پبلشرز،ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت،۱۹۸۹ء۔، ص۔۴۷
۱۴۔      صغیر افراہیم، ڈاکٹر۔اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل۔  ایضاً ، ص۔۴۶
۱۵۔      پریم چند،’’نجات‘‘،کلیات پریم چند ( جلد۔۱۳) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۔۴۲۲
۱۶۔       عظیم الشان صدیقی۔اردو افسانہ فنی فکری مبا حث ،پبلشرز۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت۲۰۱۰ء۔ ص۔۵۱
۱۷۔      پریم چند،’’نجات‘‘،کلیات پریم چند ( جلد۔۱۳) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۴۲۸
۱۸۔      عظیم الشان صدیقی۔افسانہ نگار پریم چند تنقید و سماجی محاکمہ۔پبلشرزایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی۔سن اشاعت۲۰۰۶ء۔ ص۔۸۲
۱۹۔       تارا چند ڈاکٹر،تاریخ ِتحریک آزادی ہند (جلد سوم)پبلشرزترقی اردو بیورو نئی دہلی ۔۱۹۸۴ء۔ ص ۲۱۷
۲۰۔      صغیر افراہیم ڈاکٹر۔  اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت۔۱۹۸۹ء ،ص۔۴۶
۲۱۔       پریم چند،’’سوا سیر گیہوں‘‘،کلیات پریم چند ( جلد۔۱۱) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۳۸۱
۲۲۔      عظیم الشان صدیقی۔افسانہ نگار پریم چند تنقید و سماجی محاکمہ۔پبلشرزایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی۔سن اشاعت۲۰۰۶ء۔ ص۔۸۱
۲۳۔      عظیم الشان صدیقی۔افسانہ نگار پریم چند تنقید و سماجی محاکمہ۔ ایضاً ۔ ص۔۸۱
۲۴۔      پریم چند،’’سوا سیر گیہوں‘‘،کلیات پریم چند ( جلد۔۱۱) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۳۸۳
۲۵۔      عظیم الشان صدیقی۔اردو افسانہ فنی فکری مبا حث ،پبلشرز۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت۲۰۱۰ء۔ ص۔۵۰
۲۶۔      شکیل احمد ڈاکٹر،اردو افسانے میں سماجی مسائل کی عکاسی۔پبلشرز۔شکیل احمدا عظم گڑھ، سن اشاعت،۱۹۸۴ء۔ ص۳۲۸
۲۷۔      پریم چند،’’سوا سیر گیہوں‘‘،کلیات پریم چند ( جلد۔۱۱) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۳۸۴
۲۸۔      عظیم الشان صدیقی۔افسانہ نگار پریم چند تنقید و سماجی محاکمہ۔پبلشرزایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی۔سن اشاعت۲۰۰۶ء۔ ص۔۸۴
۲۹۔      پریم چند،’’زادِراہ‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۳) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۴۵۵
۳۰۔      پریم چند،’’زادِراہ‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۳)  ایضاًص۔۴۵۹
۳۱۔      پریم چند،’’زادِراہ‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۳)ایضاً،ص۔۴۵۹
۳۲۔      عظیم الشان صدیقی۔اردو افسانہ فنی فکری مبا حث ،پبلشرز۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت۲۰۱۰ء۔ ص۔۱۳۴
۳۳۔      شکیل الرحمٰن ڈاکٹر ۔فکشن کے فن کار :پریم چند،پبلشرز۔ www.shakilurehman.com ۔ ،۶۷
۳۴۔      پریم چند،’’زادِراہ‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۳) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۴۶۰
۳۵۔      پریم چند،’’مندر‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۲) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۱۹۳
۳۶۔      صغیر افراہیم ڈاکٹر،اُردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل،پبلشرز،ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت،۱۹۸۹ء۔، ص۔۵۳
۳۷۔     پریم چند،’’مندر‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۲) پبلشرز،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی،سن اشاعت ،۲۰۰۳ء،ص۔۱۹۶
۳۸۔      پریم چند،’’مندر‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۲)  ایضاً،ص۔۱۹۸
۳۹۔      پریم چند،’’مندر‘‘،کلیات پریم چند ( ۱۲)ایضاً،ص۔۲۰۰
۴۰۔      مشتاق احمد حقوق انساں کے محافظ پریم چند ،مشمولہ منہاجِ پریم چند،ا یجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس علی گڑھ۔سن اشاعت۲۰۱۰۔،ص۱۱۱

 

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com