مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی بازیافت
ڈاکٹر سلمیٰ اسلم

ABSTRACT
In this artical the researcher has explained the concepts of Mustansar Hussain Tarar about history and civilization. He is a unique writer with a multidimentional personality and is known as a travelogue writer, Novelist, Play writer and Short story writer. Alongwith hosting many TV programmes. Mustansar Hussain Tarar has enriched his fictional and nonfictional writting with references from history and civilization. His writtings are valueable both nationally and Internationally with respect to history and civilization. His study of History and Civilization has enlightend his work.This research article discuss on all the mentioned points .

           مستنصر حسین تارڑ ادبی دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وہ ایسے پاکستانی لکھاری ہیں جن کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ ان کی تحریروں کی ادبیت نے اردو ادب کو لطافتوں اور دلآویزیوں کا مرقع بنانے میں بڑی معاونت کی ہے۔ وہ نگری نگری گھومنے والے سفرنامہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار، کہانی نگار، افسانہ نگار اور کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ٹی وی میزبان کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔
تارڑ نے اپنی افسانوی و غیر افسانوی تحریروں میں اپنے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی شعور کا جا بجا اظہار کیا ہے۔ ان کی تحریریں قومی و بین الاقوامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے حوالے سے اہم سرمایہ ہیں۔ تارڑ کی تحریروں میں تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی بازگشت بالواسطہ اور بلاواسطہ سنائی دیتی ہے۔ ان کا تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی مطالعہ ان کی تخلیقی کارگزاریوں کو جِلا بخشتا ہے۔ تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے تناظر میں ان کی تحریریں قارئین کے لئے معلومات کا ذخیرہ ہیں۔ ان کے تصور تاریخ، تہذیب اور کلچر کو سمجھنے کیلئے تاریخ و تہذیب اور ثقافت کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ ’’تاریخ‘‘ کو انگریزی زبان میں ’’History ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں ’’History ‘‘ یا تاریخ کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
اسی طرح اردو لغت میں بھی تاریخ کی تعریف یوں کی جاتی ہے۔
’’تاریخ وہ کتا ب جس میں بادشاہوں اور مشہور آدمیوں کے حالات زندگی درج ہوں۔ کسی ملک یا قوم کے ماضی و حال کا سچا تذکرہ (۲)
ادب میں تاریخی نقطۂ نظر سے مراد ماضی کی حسین یادوں اور دلکش باتوں کے ساتھ ساتھ تخریبی و تعمیری واقعات کو قلم بند کر کے قارئین کو گزرے زمانے سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ ادیب ماضی کے گمشدہ زمانے کو حقیقت سے قدرے مختلف طور پر بیان کرتا ہے۔ اسی طرح اگر تہذیب کی بات کی جائے تو تہذیب کی تعریف و تفہیم کچھ ایسے سامنے آتی ہے۔
’’تہذیب Civilization کا لفظ زیادہ تر ابعاد کا حامل لفظ ہے۔ یہ لفظ عربی زبان سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی آراستگی، صفائی اور درستی کے ہیں جبکہ اصطلاحاً یہ لفظ شائستگی، خوش اخلاقی، اہلیت، لیاقت، آدمیت، تربیت، انسانیت اور شرافت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔‘‘ (۳)
تہذیب میں تصویر و رنگ نمودار ہوتا ہے۔ کوئی بھی تہذیب دراصل انسان کی ذہنی، سماجی، مادی، اخلاقی اور روحانی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ کسی بھی تہذیب کا اندازہ لگانے کے لئے اس ملک میں بسنے والے لوگوں کی روایات، مذہب، زبان، خیالات، قانون اور رسم و رواج کو دیکھا جاتا ہے۔ ادیب کے لب و لہجے میں تہذیب و ثقافت او رتاریخ کی مٹھاس پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ قاری کی دلچسپی کو دوبالا کرتا ہے۔
لفظ کلچر یا ثقافت پر غور کیا جائے تو کلچر بھی معاشرے میں بسنے والے افراد کے طور اطوار اور ان کے خیالات کا عکاس نظر آتا ہے چنانچہ ڈاکٹر جمیل جالبی کلچر پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔
’’کلچر اس کل کا نام ہے جس میں مذہب و عقائد، علوم اور اخلاقیات، معاملات اور معاشرت، فنون اور ہنر، رسم و رواج، افعال ارادی اور قانون، صرف اوقات اور ساری عادتیں شامل ہیں جن کا انسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتا ہے اور جن کے برتنے سے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و مماثلت، وحدت اور یکجہتی پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔ (۴)
اسی طرح انگریزی زبان میں بھی کلچر کی تعریف یوں کی جاتی ہے۔
"The intergrated pattern of human konwledge belief and behavior culture thus defined consists of language, ideas, beliefs, customs, taboos, codes, institutions, tools, techniques, work of art, rituals, ceremonies and other related components and the development of culture depend upon man's capacity to learn and transmit knowledge to succeeding generations" ( (۵
کوئی بھی ادیب اپنی تحریروں کو کامیاب بنانے کیلئے تاریخ، تہذیب اور کلچر کے معنی تہہ تک سمجھ کر معاشرے کی عکاسی کرتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ منزل اس وقت آسان ہوتی ہے جب راستہ معلوم ہو۔ مستنصر حسین تارڑ تاریخ و تہذیب اور ثقافت کے معنوں سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے وہ اپنی تحریروں میں تاریخ و تہذیب اور ثقافت کی کارفرمائی میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں تاریخ و تہذیب اور ثقافت کا تناظر وسیع پھیلائو رکھتا ہے۔ ان کے اس شعور کے حوالے سے محمد ساجد ان کے ناول بہائو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مستنصر حسین تارڑ کے ناول بہائو کو بجا طور پر اردو کا ایک بڑا ناول کہا جا سکتا ہے۔ یہ ناول ایک ایسا شاہکار ہے جو اپنے اندر صدیوں پرانے جہانِ رنگ و بو کو سموئے ہوئے ہے۔ اس ناول میں انسان اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کی موجودگی سے زندگی کے تاروپود کو دوام حاصل ہے۔ انسان کی تہذیب، انسانی کی کہانی ہے اس تہذیب کا ارتقاء آدمی کے دم قدم سے ہے۔ آدمی کی پہلی تہذیب زرعی تہذیب تھی اور انسان کا اول شاہکار مٹی سے ظروف سازی تھی۔
’’پرانی تہذیب کی جگہ نئی تہذیب، کھنڈر کی جگہ عمارت اور پرانی کی جگہ نئی چیز، ان سب کی تخلیقیت آدمی کے ہونے سے وابستہ ہے اور یہی سب مستنصر حسین تارڑ کے ناول کا مرکزی تھیم ہے۔ اس ناول میں حیران کن چیز مستنصر حسین تارڑ کا تخیل ہے جو پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑی کرتا ہے۔ ناول قاری کو، اس تہذیب کا حصہ بنا دیتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو اسی ماحول کا باسی سمجھنے لگتا ہے۔ وہ ان کرداروں کا ساتھی بن جاتا ہے، ان کے دکھ سکھ کا سانجھی اور خوشی و شادمانی کا شراکتی ہوتا ہے‘‘۔ )۶(
مستنصر نے بے شمار تاریخی و تہذیبی حالات و واقعات کو ادب کے پیرائے میں سمویا ہے۔ وہ تاریخ، تہذیب و تمدن، مزاج، سماجی رویوں اور عادات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری اور مصنف کا رشتہ تاریخ و روایت کے ساتھ اُستوار رہتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فکری لیاقتوں سے ثقافتی، تہذیبی و تاریخی واقعات کو احاطۂ تحریر میں لا کر پیش کرتے ہیں۔ مستنصر زبانِ حال سے تاریخِ ماضی بیان کرکے بیش بہا معلومات فراہم کرتے ہیں۔ وہ واقعات جو بڑی بڑی تاریخی کتابوں میں نہیں ملتے تارڑ کسی نہ کسی شکل میں وہ واقعات و حادثات اپنی تحریروں میں پیش کر دیتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ تاریخی و تہذیبی زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ عکس بیان کرتے ہیں۔ جیسے وہ رقمطراز ہیں:
’’اورنگ زیب اپنی بادشاہت سے کبھی لطف اندوز نہ ہوا جیسا کہ جہانگیر ہوا… اپنے کاندھے پر رکھے ہوئے نورجہاں کے ہاتھ کے لمس سے بادشاہت کی… یا جیسے شاہجہاں نے اپنی رعایا کی غربت سے خزانے جمع کر کے یادگاروں کی تعمیر میں لٹائے… بے شک تاج محل بنوایا… لیکن چودہ بچے مسلسل ممتاز محل بے چاری کے پیٹ سے پیدا کر کے بالآخر اسے اسی مشقت اور اذیت کے نتیجے میں موت سے ہمکنار کیا اور پھر نوحہ کناں ہوا۔تاج محل کی تعمیر کے بعد ممتاز محل کے سوگ میں اس نے آگرہ میں ایک ایسا شیش محل بھی تعمیر کروایا جس میں آئینے ہی آئینے تھے… ہزاروں بلکہ لاکھوں آئینے تھے جن میں ان کے نیچے کسی ترک یا قازق حسینہ کے ساتھ ملاپ کرتے ہوئے شاہجہاں اپنے آپ کو دیکھتا تھا اور اس حسینہ کے بدن کو ہر پہلو سے ہزارہا پہلو سے حرکت میں دیکھتا تھا اور پھر بھی ممتاز محل کے سوگ میں رہتا تھا… تو اورنگزیب نے اگرچہ اپنی سلطنت میں سینکڑوں مندر تعمیر کروائے اور ان کے لئے شاہی خزانے سے رقوم سالانہ تفویض کیں لیکن وہ سرخرو نہ ہو سکا… مغل تاریخ کا سب سے بڑا المیہ اور کم سمجھا جانے والا کردار رہا… زندگی بھر دکن اور بنگال میں برسر پیکار رہا اور اپنے باپ دادا کی مانند شہنشاہیت کے لطف نہ لے سکا‘‘۔ )۷(
مستنصر حسین تارڑ ذوقِ مطالعہ کی بدولت تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے معنوں کو صحیح طرح سے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں ادبیت کی چاشنی کے ساتھ ساتھ تاریخ کا حصہ بھی بن جاتی ہیں۔ کسی بھی ادیب کے لئے تاریخ، تہذیب و ثقافت اور معاشرت کی عکاسی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ادیب کو فکری آزادی کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ اپنی کشادہ نظری، فراخ دلی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس بھی خطے میں جاتے ہیں اس معاشرے کے حقائق غیر جانبدارانہ انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ یوں ان کی تحریریں قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ معلومات کا ذخیرہ بھی پیش کرتی ہیں۔ جیسا کہ تحریر کرتے ہیں۔
’’آج کا پرانا ہرات چند قدیم عمارات، کچے مکانات اور غلیظ بازاروں پر مشتمل ہے البتہ شہر کے نواح میں گورنمنٹ کے دفاتر، ایئرپورٹ اور نئی آبادیاں جدید تہذیب کی مظہر ہیں۔ اہل ہرات کو اپنے تیموری عہد سے بے حد لگائو ہے۔ ملکہ گوہر شاد کی خوبصورتی، حسین مرزا اور شاہ رخ کی شجاعت کی داستانیں خراسانی لوک گیتوں میں ڈھل چکی ہیں۔ ہرات کی خوبصورت ترین عمارت مسجد جامع شہر کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ باہر سے مسجد کی وسعت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو اس کے وسیع صحن اور گنبدوں نے ہمیں اس کی عظمت اور خوبصورتی کا احساس دلایا۔ مسجد بالکل ویران پڑی تھی رات کو بارش سے میناروں اور گنبدوں کی دیدہ زیب اینٹوں کی نیلاہٹ اور نمایاں ہو چکی تھی اور تمام عمارت غیر مرئی طور پر شفاف نیلگوں آسمان میں جذب سی ہو گئی تھی۔ اکثر جگہ نیلی اینٹیں اور پتھر اکھڑ چکے تھے جن کی مرمت کا کام جاری تھا۔ مسجد کے برآمدے میں چند ہنرمند کاریگر نئی اینٹوں کی تراش خراش میں مصروف تھے۔ مسجد کی موجودہ صورت 1200 ء میں غیاث الدین غوری کے دور میں ظہور پذیر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان نے یہ مسجد مشہور بزرگ فخر الدین راضی کے لئے تعمیر کروائی۔ راضی کا مزار مسجد سے ملحقہ ان کے حجرے میں واقع ہے  ‘‘ )۸(
مستنصر حسین تارڑ اپنی تحریروں میں تاریخ، تہذیب کی جھلکیاں دکھا کر قارئین کو حقیقی مسرتوں سے ہمکنار بھی کرتے ہیں اور انہیں لطف لینے کا سلیقہ بھی عطا کرتے ہیں۔ وہ اپنے اس انداز سے عام قارئین کو زندگی کے ان گوشوں کا احساس دلاتے ہیں جو تاریخی کتب میں کہیں نہیں پائے جاتے۔ وہ عام فہم انداز میں چھوٹے بڑے اور عام و خاص واقعات کو قارئین کی نذر کر کے تاریخ و تہذیب کی دلفریبیاں سامنے لاتے ہیں۔ مستنصر اپنے مخصوص تاریخی و تہذیبی تصور کے تحت واقعات کا چنائو کر کے یوں معلومات فراہم کرتے ہیں کہ قارئین بوریت کا شکار بھی نہیں ہوتے اور تاریخ بھی ان کی تحریروں میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ ان کی اس نوعیت کی تحریریں قاری کے ذہن کو گرفت میں رکھ کر پیش کی جاتی ہیں جیسا کہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
’’مغرب کی طرف رومانوی کوہِ بابا کی برف پوش چوٹیاں چمک رہی تھیں اتنی نزدیک کہ ہاتھ بڑھائیں تو چھو لیں اتنی عظیم اور خوبصورت، جیسے فن گندھارا کا کوئی مجسمہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی مشرق سے شمال تک ایک ناقابل تسخیر خنک اور بلند سلسلہ، کوہ کی برف پوش دیوار کھڑی تھی۔ اسے افغانوں نے ’’ہندوکش‘‘ کے نام سے پکارا ایک ایسا پہاڑ جو ہندوئوں کے لئے پیامِ اجل تھا۔ ہندوئوں نے اسے صرف ’’کوہِ ہند‘‘ کا  نام دیا اور ایرانیوں کی قدیم زبان میں اسے ’’پارو پانیسادا (Paropanisadae ) کہتے تھے۔وہ پہاڑ جس کی فلک بوس چوٹیاں عقابوں کی بلندیٔ پرواز سے بھی اونچی ہیں اس کی ازلی برفوں میں تاریخ کے کئی باب دفن ہیں۔ زمانہ قدیم میں یونان کی ٹیلا نما پہاڑیاں دیوتائوں کا مسکن سمجھ کر پوجی جاتی تھیں لیکن جب ایک چرواہا کوہِ المپس کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو وہاں نور کے ہالوں کے بجائے پتھروں کے ڈھیر تھے‘‘۔ )۹(
ہر زبان و ادب کی طرح اردو ادب بھی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کا آئینہ ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی تحریریں تاریخ و تہذیب سے محبت کرنے والوں کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں وہ مشرقی تہذیب کی بات کرتے ہیں وہاں وہ مغربی تہذیب سے بھی خوب متاثر نظر آتے ہیں اور ان کا یہ انداز ان کی تحریروں میں ایک نیا رنگ اور نئی گھلاوٹ پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ ایک جہاں بین ادیب ہیں اس لئے وہ لکھتے ہوئے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تہذیبی و تاریخی جہتوں کو پیش کر دیتے ہیں۔ رقمطراز ہیں:
’’یہ ادویات استعمال کرنا چین کی ثقافت کا ایک حصہ ہیں۔ اگر آپ وٹامن کھا سکتے ہیں اپنے بدن کو مضبوط کرنے کے لئے تو یہ بھی زندگی کا ایک بہت لازمی حصہ ہیں۔ ’’آپ کچھ خریدنا پسند کریں گے؟ آپ کی عمر کے لوگ تو بہت اشتیاق سے یہ مرکب خریدتے ہیں‘‘
’’لیکن مجھے تو کچھ تجربہ نہیں‘‘
’’آپ ان سیلز گرل کو بتا دیں کہ آپ کس قسم کے نتائج چاہتے ہیں تو وہ آپ کو مطلوبہ مرکب مہیا کر دیں گی‘‘
میں نے اپنی عمر کو اور اپنی بیگم کی بزرگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ مشورہ ترک کر دیا… ویسے مجھے ان سٹور میں فروخت کی جانے والی ادویات اور عرق جات کی برقی بیداری کا علم بہت دنوں بعد ہانگ چو جا کر ہوا لیکن یہ ایک اور کہانی ہے جو انتظار کر سکتی ہے۔ انتظار کے بعد بھی یہ بیان ہو نہ ہو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔’’وانگ لی۔ کیا ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے؟‘‘
وانگ لی کی منگول آنکھیں تقریباً بند ہو گئیں۔ سرشاری سے
’’کیوں نہیں وہ بہت بہتر ہو جاتا ہے‘‘۔
اب واللہ اعلم یہ ’’وہ ‘‘ کون تھا۔
یہ عجیب بیجنگ تھا جس سے میرا واسطہ پڑا تھا۔ شاید ان قدیم کشتوں کا ہی کرشمہ تھا کہ چین دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا۔‘‘۔ )۱۰(
تاریخ کی بہترین مثالیں مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں عام موجود ہیں لیکن وہ اپنے ناول ’’بہائو‘‘ میں تاریخ سے قبل کے ایک دور کی زرعی بستی کی کہانی بھی بیان کرتے ہیں جہاں ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے شہروں میں کچی بستیاں ہیں۔
وہ اپنے ناول ’’بہائو‘‘ میں دو کرداروں کے ذریعے یوں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ہماری بستی کا کوئی نام کیوں نہیں؟ پا روشی، شاید کہیں اور تھی جہاں بھانت بھانت کے لوگ ہوں۔ اندر کے، باہر کے اور جہاں امن نہ ہو وہاں نام رکھتے ہیں۔ جہاں لوگ بستے نہ ہوں وہ نام رکھتے ہیں ہم تو خود بستی ہیں ہم یہاں نہ ہوں تو وہاں ہوں تو وہاں بستی ہو گی، تو نام کیوں رکھیں…
’’اور یہ بستیاں بڑی کیسے بن جاتی ہیں‘‘
’’انہیں ہم بڑا بناتے ہیں چھوٹی بستیوں والے… ہم نے گھاگھرا کے کنارے پر جو کچھ بنایا انہوں نے اس کی سُن کُن  پا کر وہاں یہی کچھ بڑا کر کے بنا دیا۔ یہ چوکور مہریں… وہ کہاں بناتے تھے؟ ادھر گھاگھرا کی بستیوں کے میرے جیسے وہاں گئے تو ان کو سکھایا… یہ برتن اور کھیتی کرنے کے ڈھنگ ادھر سے گئے۔ بیج یہاں کا تھا پھوٹا وہاں جا کر اور دکھ ان کے سروں پر چھایا بنا… ہران بستیوں والے ہم جیسے نہیں پاروشنی۔ سندھو میں بڑی بڑی کشتیاں تیرتی آتی ہیں بہت دور کی بستیوں سے جدھر سورج ڈوبنے کو جاتا ہے ادھر کے لوگ وہاں آتے ہیں اور موہنجو والے ایسی چیزیں پاس رکھتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے‘‘۔
’’اور اگر ہم نہیں جانتے تو کیا ہے… پاروشنی یکدم بپھر گئی جو کچھ یہاں ہے، ہمارے پانیوں، کھیتوں اور دکھوں میں ان کے سوا میرا جُثہّ تو اور کچھ نہیں مانگتا… میرے گھر میں جو کنواں ہے اس کنویں سے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کہاں ہوں گے سمرو‘‘ ‘‘۔ )۱۱(
مصنف اپنے تخیل کی طاقت سے ایک ایسی بستی کو زندہ کر کے پیش کرتے ہیں جس سے تاریخی تناظر واضح ہو جاتے ہیں۔ ان کی تحریریں تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے وجود کوزندہ کر کے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جیسا کہ وہ رقمطراز ہیں:
’’یہ ہری یوپیا وہی ہے جہاں تم موہنجو سے پہلے جانا چاہتے تھے… پر نہ گئے؟ ہاں… بس یہ جانو کہ یہ دونوں جڑواں ہیں… ایک جیسے ہیں… بس دریائوں کا فرق ہے… میں جب پہلی بار ہری یوپیا میں گیا تو یوں لگا جیسے اپنی پرانی بستی میں جاتا ہوں۔ میں جانتا تھا کہ گھر جو ہیں وہ پہاڑ پاسے کی سیدھ میں ہیں اور لمبائی میں ہیں… ان کی گلیاں چھ چھ گرو ہوں گی۔ درمیان میں بچائو کی عمارت ہو گی۔ چوک میں چوکیدار کا چھپر ہو گا اور گھر کئی کئی کوٹھوں کے ہوں گے جن میں نہانے کے کمرے ہوں گے تالاب ہوں گے اور تندور ہوں گے… اور پکی گلیوں کے بیچ نالیاں اینٹوں سے ڈھکی ہوں گی… تب وہاں کے لوگوں نے پوچھا کہ تم پہلے سے کیسے جانتے ہو تو میں نے کہا کہ میں موہنجو دیکھ چکا ہوں اس لئے… اور انہوں نے بھی یہی کہا کہ موہنجو اور ہری یوپیا ایک ہیں… یہ مہریں برتن او رمٹی کے کھولنے پہلے گھاگھرا سے ادھر آئے اور پھر ادھر سے موہنجو گئے… ہری یوپیا کی بستی کے باہر کنک کوٹنے اور پیسنے والوں کے گھر ہیں… یہ خاص لوگ ہیں جن کو وہ واہیک کہتے ہیں‘‘   )۱۲(
اسی طرح مستنصر حسین تارڑ نے ’’راکھ‘‘ کے موضوع پر ایک ایسا ناول تخلیق کیا جس کا موضوع بظاہر تو تہذیبی اور اخلاقی انحطاط اور قدروں پر مبنی ہے لیکن اس کا زمانہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے سے لے کر موجودہ دور تک پھیلا ہوا ہے جس میں سماجی اور سیاسی تاریخ نمایاں ہے۔ اس ناول میں مصنف نے اہم سیاسی اور سماجی واقعات کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’کرفیو گورکھا پلٹن جو جانے کہاں جاتی ہوئی لاہور آ نکلی تھی اور لاہور کے ہندوئوں کو محمد بن قاسم دکھائی دیتی تھی اور مسلمانوں کے لئے وہ راجہ داہر تھی۔ بوٹ مار آتش زنی، نعرے اور تھری ناٹ تھری بندوقوں کی دل دہلانے والی آوازیں… یہ سٹریٹ تھیڑ شاہد کے آس پاس پرفارم کر رہا تھا لیکن اس کا سب سے بڑا اداکار وہی تھا جو موچی دروازے کے باہراپنے سینے میں خنجر گھونپے ایک نئی دنیا کا نقشہ اپنے ٹھنڈے ہوتے خون کے ساتھ بنائے ہوئے لیٹا تھا… وہ کون تھا… ہندو تھا یا مسلمان یا محض اداکار تھا… اس کا End Result کیا ہوا؟ خاک خاک میں اور… شاہد کے گھر کے اردگرد ہندو لوگوں کی اکثریت تھی۔ گوروارجن نگر، کرشنا گلی اور گاندھی سکوئر ایسے علاقے تھے جن میں ان کی بہوئوں کی ڈولیاں اترتی تھیں جن کے صحنوں میں ان کے بزرگوں کے جنازے اٹھے تھے کہ وہ اتنے ہی لاہوری تھے جتنے کہ وہ … جو ان کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں وہاں سے نکل جانے پر مجبور کرنا چاہتے تھے کیونکہ یہ وہ تھے جن کے گھروں کو جالندھر اور امرتسر میں آگ لگا دی گئی اور ان میں سے کچھ بالکل مخبوط الحواس تھے ان کے قافلے لٹے تھے ان کی بہنوں کو ان کے سامنے ننگا کیا گیا تھا اور وہ اندھے ہو چکے تھے اگرچہ وہ شیکسپیئر کو نہیں جانتے تھے لیکن اندھے ہو جانے کے باوجود یہ ان کے چہروں پہ لکھا تھا کہ مرڈر شل بریڈ مرڈرد جی ہاں قتل، قتل کو جنم دیتا ہے… تاریخ کے اختتام تک‘‘ (۱۳)
المختصر مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں تمدن او رمعاشرت کی عکاسی اپنے دامن میں اساطیر، مذہب، عقائد، توہمات، روایات، تاریخ، فلسفہ، سیاست اور رسم و رواج کے کتنے ہی تمدنی و تہذیبی مناظر و مظاہر آباد کئے ہوئے ہے ۔ ان کی تحریریں ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی پس منظر کی واضح جھلک ہیں جو ان کے نقطۂ نظر اور پختہ شعور کی دلیل ہیں۔

ڈاکٹر سلمیٰ اسلم ۔ہوم اکنامکس کالج ،یونیورسٹی آف پشاور

 

 

 

حواشی
ا۔         www.Google.com.pk             dictionary.reference.com./browse/history
۲۔        فیروز اللغات اردو، (مرتبہ) الحاج مولوی فیروز الدینؒ مرحوم، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، کراچی، راولپنڈی، ص ۔ ۳۶۰ نیا ایڈیشن۔ بارِ اول ۲۰۰۵ء
۳۔       جمیل جالی، ڈاکٹر، پاکستانی کلچر۔ ص ۴۲
۴۔       The new Encyclopedia of Britanica pg 781
۵۔       محمد ساجد، انسانی تہذیب کی کہانی ’’بہائو‘‘ ایک تنقیدی جائزہ ص ۱۵ مشمولہ۔ اخبارِ اردو، قومی زبان اسلام آباد۔ دسمبر ۲۰۱۲ء؁
۶۔        مستنصر حسین تارڑ۔ ’’سنہری اُلو کا شہر‘‘ ص ۱۷
۷۔       مستنصر حسین تارڑ، نکلے تیری تلاش میں، ص ۳۷
۸۔       مستنصر حسین تارڑ، نکلے تیری تلاش میں، ص ۳۴
۹۔        مستنصر حسین تارڑ، پتلی پیکنگ کی، ص ۶۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com