ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری بطور آزادؔ شناس
ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری        اعجاز احمد

ABSTRACT
Abulkalam azad was a great personality of the freedom movement in India before 1947. He was a distinguished figure in the world of politics and prominent writer in Urdu prose. The personalities like Abulkalam need attention of the critics. In this research paper the researcher has introduced a critic of Abulkalam named Dr Abu Salman Shahjehan Pori. He was born on 30th of January 1940. He wrote several books about the personality and works of Abulkalam. For example, Urdu ka Adeeb e Azam ,ifadat e Azad,Armaghan e Azad,Imamul hind Maulana Azad tamer e afkar,Maulana Azad asaar o afkar, Maulana Abulkalam Azad aik Mutalia, Maulana Abulkalam Azad,Urdu ki Tarraqi may maulana Azad ka Hissa , Maulana Azad and few others. In this research paper the researcher has analyzed the literary works of Maulana Abulkalam Azad .

            ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہا نپوری 30 جنوری۱۹۴۰ء کو شاہجہان پور میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام تصدق حسین خان تھا۔ ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور میں حاصل کی۔مدرسہ سعیدیہ شاہ جہان پوراور مدرسہ شاہی مراد آباد سے حفظ قرآن مجید کی تکمیل کی اور وہیں ابتدائی عربی اور فارسی کے درس لئے ۔آپ شروع  ہی سے اپنے چچا مولانا عبدالہادی خان جو مفتی کفایت اللہ دہلوی کے شاگرد ِرشید تھے ،کی زیر تربیت رہے ۔تقسیم کے بعد ۱۹۵۰ء میں آپ پاکستان آگئے اور اپنی باقی تعلیم جاری  رکھی ۔۱۹۷۰ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔اے(اُردو)اور ۱۹۸۰ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔آپ کا موضوعِ تحقیق’’ تذکرہ خانوادہ ولی اللٰہی ازسر سید احمد خان،ترتیب و تالیف و تدوین‘‘تھا۔لیکن دراصل آپ کے اصل ذوق کی تسکین کا سامان ابو الکلام آزادؔ کے فکرو فن میں موجود تھا اس لئے آپ نے اپنی باقی زندگی ابو الکلامیات اور آزاد شناسی کے سپرد کر دی ۔(۱)
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کااصل موضوع تحقیق مولانا آزادؔ کی شخصیت ،اُن کے افکار اور ان کے علمی اور ادبی کارنامے ہیں۔آپ نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب و سیاست کے نابغہ روزگار شخصیت مولاناابوالکلام آزادؔ(۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء)کی زندگی، فکر، فلسفے ،سیاست اور ادب پراتنا دقیع کام کیا جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے ۔موصوف نے اپنی دیگر ہمہ جہت علمی اور ادبی خدما ت کے ساتھ ساتھ ابولکلامیات کے دائرے میں 150سے زیادہ تصانیف کی تدوین اور تالیف کے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے۔آپ نے پاکستان میں آزاد شناسی کی بنیاد اُس وقت رکھی جب ابوالکلام آزادؔ کے ادبی اور علمی آثار سیاسی تعصب کی دبیز تہوں کے نیچے دب چکے تھے۔ انہوں نے وقت اور حالات کی پرواہ کئے بغیر انتہائی دلیری سے مولانا ابو الکلام آزادؔ کے علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی آثارو نقوش کی ترتیب و تدوین کا اہم کا م شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ڈاکٹر ابو سلمان اپنی زندگی کے اس عظیم مقصد کے بارے میں یوں رقمطراز  ہیں۔
میری پہلی تحریر۱۹۷۵ء روزنامہ امروز ۔کراچی میں شائع ہوئی تھی۔یہ ایک مراسلہ تھا۔اب ۱۹۹۷ء ہے۔بہت سی تالیفات و تصینفات اور بے شمار مضامین اخبارات ورسائل میں شایع ہو چکے ہیں۔لکھنے پڑھنے کے سوانہ کوئی شوق ہے اور نہ کوئی کام آتا ہی ہے۔ میرے کاموں پر بہت تحسین و آفرین ہوئی اور شدید ردعمل بھی ہوا۔لیکن میں نے اپنے کسی ردعمل کا جواب نہیں دیا۔خود ہی سوچاکہ کہیں کسی کے بارے میں کوئی بات خلاف تہذیب یا خلاف واقعہ تو نہیں نکل گئی۔الحمدللہ کہ ایسا کبھی نہیں ہونے پایا۔بعض مضامین و مباحث میں اسلوب بیان کی سختی کو محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے لئے مجبور ہوں کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں۔
مجھے آج تک اپنی تالیفات کو گننے اور مضامین کو شمار کرنے کی فرصت نہیں ملی ۔مجھے یقین ہے کہ میری تمام تالیفات اور مضامین میری اپنی لائبریری میں بھی موجود نہیں کئی برس ہوئے امریکن با یوگرافیکل اانسٹی ٹیوٹ نے اصرار کیااور میرے بعض دوستوں نے بھی مجبور کیا تو اس کے لیے اپنے مختصر حالات مرتب کیے تھے اور ایک کتابیات بھی مرتب کی تھی ۔لیکن پہلے جہاں حالات کی ترسیل کے لئے تقاضاتھا،وہاں اشاعت کے لئے مطالبہ سامنے آیاتو مجھے خاموش ہو جاناپڑا اور اب یہ بھی پتانہیں کہ وہ حالات اور کتابیات کہاں ہیں؟
میرے دل میں آج تک یہ خیال نہیں آیاکہ میں علمی و ادب کی کوئی خدمت انجام دے رہاہوں۔ابتدائی تعلیم و تربیت اور بزرگوں کی صحبت میں مطالعہ و تحریر کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔اس شوق کی تکمیل ہی مقصد زندگی بن گیا ۔اب اسی میں زندگی کا سکون اور ذوق کی تسکین کا سامان پاتا ہوں ۔ اس شوق میں میری زندگی کے چالیس برس معاشی تنگیوں اور پریشانیوں کے باوجود بہت یاد گار گزرے ہیں۔اگر شوق کی اس تکمیل میں کوئی علمی ادبی خدمت بھی انجام پاگئی ہو تو یہ میرے خوش گوار اوقات کا ایک مزید و مفید پہلو ہے میں نے سوچ سمجھ کراپنی دانست میں ہمیشہ صحیح لکھا،لیکن کسی معاملے میں میری رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔ (۲)
۱۹۸۸ء میں جب مولانا ابولکلام آزادؔ کی ولادت کا سات سالہ جشن منایا جارہاتھا تو ہندوستان اور بنگلہ دیش میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر متعدد سمینار منعقدہوئے ، کئی کتابیں شائع ہوئیں اور رسالوں کے خصوصی نمبر نکالے گئے لیکن پاکستان میں اس طرح کے کسی جشن کی توقع نہیں تھی یہاں ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری نے آزاد نیشنل کمیٹی پاکستان اور ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ پاکستان کے زیر اہتمام ایک شاندار اشاعتی منصوبہ تیار کیا اس سلسلے میں جو کتابیں منظر عام پر آئیں وہ کسی صورت بھی معیار اور تعداد کے اعتبار سے ہندوستان اور بنگلہ دیش سے ہونے والے کاموں سے کم نہیں تھی ان کتابوں کو درجہ ذیل چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
۱۔        پہلے حصے میں مولانا آزاد سے متعلق مستقل تصانیف آتی ہیں۔
۲۔        دوسرے حصے میں کسی ایک معروف اہل قلم کے مولانا آزاد پر لکھے مضامین کے مجموعے شامل ہیں۔
۳ ۔       تیسرے حصے میں مولانا آزاد پر لکھے مختلف ادیبوں اور دانشوروں کے مجموعہ ہائے مضامین شامل ہیں۔
۴۔       چوتھے حصے میں مولانا آزاد کی بعض نایا ب اور نادر تصانیف اور تحریروں س کے مجموعے شامل ہیں۔
۵۔       پانچویں حصے میں مولانا آزاد کے خاندان کے احوال و کو ائف پر مشتمل کتابیں شامل ہیں۔
۶۔        چھٹے حصے میں مولانا آزاد کے ممدوحین ،معاصرین اور معاصر تحریکوں سے متعلق مواد شامل ہے۔(۳)
ڈاکٹر ابو سلما ن شاہ جہان پوری کو مولانا آزاد کے حوالے سے سب سے زیادہ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی مقام کا  اندازہ صرف اس مثال سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ معروف ادیب ،خطیب اور شاعر آغاشورش کا شمیری نے اپنی مایہ ناز تصینف ’’  ابوالکلام آزادؒ  ‘‘میں مولاناآزاد کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ڈاکٹر ابو سلمان ہی کی تحقیق کو حتمی مانا ہے ۔
تحریر و نگارش اور مطالعہ کا شوق انھیں ابتدائی زندگی سے اپنے چچا مولانا عبدالہادی خان قیس شاہ جہان پوری کے فیض صحبت و تربیت سے پیداہوگیا تھا۔۱۹۵۷ء سے مضمون نگاری شروع کر دی تھی پہلے ابوسلمان الہندی کے نام سے لکھنا شروع کیا پھر الہندی کا لا حقہ بدل کر اپنے وطن مالوف شاہجہان پور سے نسبت قائم کر لی اور یوں ابوسلمان شاہجہان پوری کے نام سے مشہور ہوئے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنا نام  تصدق حسین خان سے بدل کر ابوسلمان شاہ جہان پوری رکھنے کا دلچسپ واقعہ اپنے شاگرد رشید پروفیسر سید حنیف رسول کو بتایاکہ ان کے پہلے بیٹے کا نام سلما ن ہندی تھالیکن وہ چند ماہ کے بعد ہی فوت ہو گیا اس کی وفات کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا نام بدل کر’’ ابو سلمان الہندی ‘‘کردیالیکن ’’الہندی‘‘پر کسی نے اعتراض کیا اور جب یہ بات مولانا غلام رسول مہرؔ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ’’الہندی‘‘ کو شاہ جہان پوری سے بدلنے کی تجویز دی اور ڈاکٹر صاحب نے اس تبدیلی کو اختیار کیا ۔ (۴)
۱۹۵۷ء سے لیکر آج تک انہوں نے ادب تاریخ مذہب سیاست سوانح،صحافت وغیرہ موضوعات کے ساتھ ساتھ مولانا آزاد اور اُن کے معاصرین اور دوست اہل علم اور دانشوروں کی شخصیات افکار و خدمات سے متعلق متعدد کتابیں شائع کیں۔جو اہل علم کے مطالعہ میں آئیں۔ ان کتابوں میں ان کی وہ تصانیف بھی شامل ہیں جو انہوں نے انتہائی محنت سے تالیف کیں اور ان پر گراں قدر مقدمات و حواشی تحریر کیے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا آزادؔ کی جامع صفات شخصیت اور ان کے افکار اور ادبی خدمات کے کمالات کو ڈاکٹر صاحب نے جس اثر انگیزی کے ساتھ اپنی گرفت میں لیا اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی کاموں میں آزاد شناسوں کے لئے مختلف دائروں اور زاویوں میں نئے نئے پہلوکھل کر سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے مولانا آزادؔ کے علمی اور ادبی آثار پر اپنے تحقیقی منصوبے کا خاکہ کچھ یوں ترتیب دیا۔پہلے مرحلے میں مولانا آزاد کے منتشر اور غیر مطبوعہ آثار و نقوش کی ترتیب اور تالیف شامل ہیں۔دوسرے مرحلے میں مرتب آثار ونقوش پر بحث اور مختلف دائروں میں کام شامل ہے۔تیسرے مرحلے میں مولانا آزاد کے تمام مرتب آثار ونقوش کے تراجم شامل ہیں۔اس سلسلے میں پہلے مرحلے کا کام اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے ۔او ر اس میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے قیمتی وقت صرف ہوا۔اسی کام کو آگے مرحلوں میں بڑھانے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے ابوالکلام آزاد ری سرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان کی بنیاد ڈالی اور دوسرے اور تیسرے مرحلے کا کام جاری ہو چکا ہے۔
مولانا آزاد ؔکے آثار و نقوش میں سب سے اہم کام مکاتیب ابوالکلام آزاد کی چار جلدوں کا ایک نایاب مجموعہ شامل ہے۔اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’مکاتیب ابوالکلام آزاد جلد اول‘‘۲۰۱۴ء میں چپ چکی ہے۔مکاتیب کی چار جلدوں کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب اپنے مقدمے میں یوں رقم طراز ہیں۔
’’مجموعی طور پر تمام مکاتیب کی چار جلدیں بنتی ہیں جن کے مکاتیب کی تعداد تقریباً۱۲۵۰ء تک پہنچتی ہے ۔جن کے مکتوب الیہ تقریباً چار سو تیس ہوں گے۔سلسلے کی پہلی جلدجو۱۹۰۰ئٗ؁ء تا۱۹۲۰ء کے مکاتیب کا مجموعہ ہے،قارئین محترم کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔۵۴۰صفحات کی ضخامت تک جا پہنچی ہے۔پیش نظر منصوبے کی آخری اور چوتھی جلد جو ’’اِفادات‘‘اور’’آثارو نقوش ‘‘کے خطوط پر مشتمل ہو گی۴۰۰صفحات تک پہنچ جائے گی۔(۵)
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کا تحقیقی اور تدوینی کام ہرلحاظ سے مستند اور مثالی و معلوماتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ پر تصنیفات وتالیفات کے علاوہ انہو ں نے پاکستان اور ہندوستان کے بہت سے رسائل اور جرائد میں مختلف عنوانات سے بے شمار مضامین سپردِ قلم کیے۔ مثلاً معارف (اعظم گڑھ)، برہان (دہلی)، اُردو ادب (علی گڑھ و دہلی)، فکرونظر (علی گڑھ)، جامعہ (دہلی)، مدینہ (بجنور)، الجمیعت (دہلی) وغیرہ جبکہ پاکستان میں رسائل وجرائد اُردو نامہ افکار، فکر ونظر، العلم، جنگ، حریت، الرحیم، الولی، مہران، میثاق، محدث، ترجمان الحدیث، ترجمان اسلام، چٹان، الحق، خدام الدین، المنبرودیگرا خبارات و رسائل شامل ہیں۔
ڈاکٹر ابو سلمان شگفتہ صاحب قلم اورشائستہ بیان مصنف ہیں۔الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ اُن کے ذہن میں محفوظ ہے جملوں کا در و بست نہایت عمدہ اور اظہار مدعاکا طریقہ بڑا ہی دلآویز ہے وہ فکر کے لحاظ سے سنجیدہ اہل قلم اور پُختہ ذہن کے مصنف ہیں۔اُن کی تصنیفات آزاد شناسی کے باب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔درجہ ذیل کتابیں ابوالکلامیات کے محققین سے داد وصول کر چکی ہیں۔
۱۔        آثار ونقوش :۔یہ کتاب ڈاکٹر ابوسلمان کا ایک شاندار تحقیقی کارنامہ ہے۔یہ مولاناابولکلام آزاد کے اُن تاریخی وسیاسی خطوط اور احکام و ہدایات کا مجموعہ ہے جو نیشنل آرکائیوزآف انڈیانئی دہلی میں محفوظ ہیں یہ تمام تحریریں مولانا کے زمانہ وزارت کی ہیں۔ جو آئی سی سی آر کی فائلوں اور دیگر ذرائع سے ماخوذ  ہیں۔
۲۔        جامع الشواہد فی د خول غیرالمسلمین فی المساجد:۔اسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے طویل مقدمے کے ساتھ۱۹۹۷ء میں شائع کیا ۔یہ کتاب سب سے پہلے ۱۹۱۹ء میں شائع ہوئی جس میں مولانا آزادؔنے شرعی دلائل سے ثابت کیاتھا کہ غیرمسلموں کا مسجدوں میں داخل ہونا اور وہاں منعقد ہونے والی مجلسوں میں شمولیت کرنا جائز ہے۔
۳۔       انڈیاونسزفریڈم:۔یہ مولانا آزادکی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے ایک طویل مقدمے کے ساتھ اسے شائع کیا اور ساتھ ہی وہ تیس صفحات بھی شامل کر دیئے جن کے متعلق فیصلہ ہواتھا کہ انہیں مولانا آزادکی وفات کے تیس سال بعد شائع کیا جائے۔
۴۔       مولانا ابولکلام آزاداور ان کے چند بزرگ دوست اور عقیدت مند:۔
۵۔       کلیات آزاد:۔
۶۔        ابوالنصرآہ کا کلام
۷۔       مولاناابوالکلام آزاد ایک نابغہ ٔروزگار شخصیت:۔
۸۔       ابوالکلامؒو عبدالماجد۔۔۔۔ادبی معرکہ
۹۔        اردو کا ادیب اعظم
۱۰۔       ارمغان آزادؒ(ابتدائی دور کے مضامین و کلام)
۱۱۔       اِفادات آزادؒ(مذہبی و ادبی سوالات کے جوابات)
۱۲۔       امام الہند مولانا آزادؒ،تعمیرافکار
۱۳۔      پیغام کلکتہ ۱۹۲۱ء کی عکسی اشاعت
۱۴۔      لسان الصدق کلکتہ ۱۹۰۳ء کی عکسی اشاعت
۱۵۔      مولانا ابواکلام آزادؔ آثار و افکار
۱۶۔       مولانا ابواکلام آزادؔ اور ان کے معاصرین
۱۷۔      مولانا ابوالکلام آزادؔایک مطالعہ
۱۸۔      مولانا ابوالکلام آزادؔ کی صحافت
۱۹۔       مولانا ابوالکلام آزادؔ شخصیت ،سیرت اور کارنامے
۲۰۔      ہندوستان میں ابن تیمیہؒ
۲۱۔       اُردو کی ترقی میں مولانا آزادؔکا حصہ
۲۲۔      مولاناآزاد ؔایک سیاسی مطالعہ
۲۳۔      انجمن خدام کعبہ(تاریخ و مقاصد و خدمات )
۲۴۔      شیخ الہند مولانا محمود حسن
ان مطبوعات میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی تیاری میں یا نظر ثانی یا تزئین و تدوین و تبویب یا پیش لفظ یا تعارف و تبصرہ وغیرہا  میں ڈاکٹر صاحب نے کوئی عمل انجام نہ دیا ہو۔مولانا ابوالکلام آزادکے حوالے سے محترم ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان نپوری کی انفرادی علمی و تحقیقی کاموں کی نوعیت اور اہمیت کا اعتراف ابو الکلامیات کے محققین برملا کر چکے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کی ان کا وشوں کی بدولت ملک اور بیرون ملک آزاد شناسوں کے لئے ٓتحقیق کی نئی راہیں کھل رہی
ہیں۔ بقولـ پروفیسر سید حنیف رسول :
مولانا ابو الکلام آزاد کے علمی ہیکل کی شان دار تعمیرکی آرزومولاناغلام رسول مہرؔ کے حریم دل میں مچلتی رہی اور’’یہ رتبہ بلندملا جس کو مل گیا‘‘کے مصداق خدا نے اس عظیم کا م کی انجام دہی کے لئے دور افتادہ مقام پر اجنبی شہر اور غیر ملک میں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کو چُن لیا،اور انھیں مولاناغلام رسول مہرکی رہنمائی اور شورش کاشمیری کے جوش نے اس راہ پر ڈال دیا ،جس کے پاکستان میں ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔یوں انھوں نے اپنے ذاتی اور محدودو سائل سے حضرت مولانا کے سیاسی ،مذہبی، ادبی اور صحافتی آثار کی حفاظت ،ترتیب اور تحقیق کے عظیم الشان کاموں کی بنیاد رکھی ۔مولاناابوالکلام آزادؔکی شخصیت ان کے افکار و آثار اور ان کی سیاسی اور ملی خدمات پر ڈاکٹر صاحب کی کاوشوں کی فہرست بہت طولانی ہے۔جس کی اہمیت اور قدرکے اعتراف سے ان کا مبصرصرف نظرنہیں کر سکتا۔ (۶)

ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری۔ ایسو سی ایٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو، جامعہ پشاور
اعجاز احمد۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
حوالہ جات
۱۔        ابو سلما ن شاہ جہان پوری، مکاتیب ابوالکلام آزادؔ،ابوالکلام آزادریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان ،2014
۲۔        خلیق انجم ،پروفیسر اختر الواسع،مولانا ابو الکلام آزادؔ کے محقق ڈاکٹر ابو سلما ن شاہ جہان پوری
۳۔  Dawn,April18,2004’’   Lost to Flood and Fire‘‘ Bahzad Alam Khan

۱۔        خلیق انجم مولانا ابولکلام آزادؔکے محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری،ص۱۳،۱۴
۲۔        خلیق انجم، مولانا ابولکلام آزادؔکے محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری، ص۵۵،۵۶
۳۔       ریاض الرحمن شیروانی’’ مطبوعات آزاد صدی اور ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری‘‘،خلیق انجم مولانا ابولکلام آزادکے محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری،(ص۶۸،۶۹
۴۔        ’’پیش لفظ‘‘ مکاتیب ابوالکلام آزادجلد مرتبہ ابوسلمان شاہ جہان پوری ص۱۲،۱۳
۵۔       ابو سلمان شاہ جہان پوری ،’’مقدمہ ‘‘مکاتیب ابوالکلام آزاد جلد اول،ص۲۶،۲۷

۶۔        پیش لفظ،  مکاتیب ابوالکلام آزادجلد اول ص۱۳
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com