مشتاق احمدیوسفی کے’’خاکم بَدہن‘‘ میں شامل انشائیوں کااُسلوبیاتی و تکنیکی جائزہ
ڈاکٹرروبینہ شاہین    ڈاکٹرعبدالمتین خان

ABSTRACT
Urdu Inshaia is a new genre in Urdu literature. According to the researchers "khakam badahan" the book of Mushtaq Ahmad yousafi contains six Inshaias. The writer himself called his book the collection of khaka's and essays. The researcher have analyzed the Inshaia's of this book in the context of the art of Inshaia's . The theme and thought of these Inshaia's chand Tasveer e butan, sabghay and son's , High focal club, hill station,hue mar kay hum jo ruswa. The researchers have analyzed the different characters of his Inshaias and his literary style in full detail .

           ’’خاکم بَدہن‘‘کوخُودمشتاق احمدیوسفی نے’’مضامین‘‘ اور’’خاکوں‘‘کامجموعہ کہاہے،جواوّلاً:۱۹۷۱ء میں شائع ہوا،اِس میں ’’دستِ زلیخا‘‘کے عنوان سے دیباچہ بھی شامل ہے،جواپنے وجود،ہیئت اورساخت میں انشائیہ کے مخصوص مزاج پرپُورااُترتا ہے، لہٰذا اِسے بھی انشائیہ تصوّرکیاجائے، مزیدبرآں دو’’خاکے‘‘بھی اِس کاحصّہ ہیں، یوں مجموعی طورپراِس میں’’چھے‘‘ انشائیے اور ’’دو‘‘خاکے شامل ہیں:
۱۔دستِ زلیخا(دیباچہ) ۲۔صبغے اینڈسنز(خاکہ) ۳۔سیزر،ماتاہری اورمرزا
۴۔پروفیسر(خاکہ)               ۳۔ہوئے مَرکے ہم جورُسوا        ۴۔ہل اسٹیشن
۵۔بائی فوکل کلب                ۶۔چندتصویرِبُتاں۔
’’دستِ زلیخا‘‘(دیباچہ):
مشتاق احمدیوسفی نے’’خاکم بَدہن‘‘کے دیباچے’’دستِ زلیخا‘‘کی ابتداء بابائے انگریزی ڈاکٹرسمویل جانسن کے اس پُر مزاح فقرے سے کی ہے:
’’جوشخص رُوپے کے لالچ کے سواکسی اورجذبے کے تحت کتاب لکھتاہے،اُس سے بڑااحمق رُوئے زمین پرکوئی نہیں۔۔۔‘‘۔(۱)
مشتاق احمدیوسفی نے’’چراغ تلے‘‘کی طرح’’خاکم بَدہن‘‘کایہ دیباچہ بھی خُودہی تحریرکیاہے،اُن کے نزدیک خُوددیباچہ لکھنے والابھی خُودکُشی کرنے والے کی طرح فائدہ میں رہتاہے کہ ہرچیزکاانتخاب مرضی اورخواہش کے مطابق کرسکتاہے۔اِس دیباچہ میں مشتاق احمدیوسفی نے اپنانظریۂ فن،مزاح کامقصد،کتاب لکھنے سے چَھپنے تک کے تمام مراحل اورایک کامیاب ظرافت نگار کے فرائضِ منصبی بہ حسن وخُوبی بیان کیے ہیں،اُن کے نزدیک مزاح نگارکا کمال یہ ہوتاہے :
’’آگ بھی لگے اورکوئی اُنگلی نہ اُٹھاسکے کہ یہ دُھواں ساکہاں سے اُٹھتا ہے۔‘‘(۲)
اورمشتاق احمدیوسفی کے نزدیک ایسامعیاراپنانے کے لیے مزاح نگارکادُنیااوراہلِ دُنیاسے’’رَج‘‘کے پیارکرناشرطِ اوّلین ہے،اورجب ہم اُن کے اِس نظریے کی روشنی میں خوداُن کے فن کاجائزہ لیتے ہیں توواضح ہوجاتا ہے کہ اُس نے اپنایہ نظریہ سب سے پہلے اپنے آپ پرآزمایاہے،جس میں وہ پُوری طرح کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ مشتاق احمدیوسفی نے اِس دیباچے میں یورپین مفکّرین کے اقوال اورفارسی واُردواشعارومصرعوں سے تزئین کاری کی ہے،اورایک دفعہ پھر’’طنزومزاح‘‘کے باب میں اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے رقم طرازہیں:
’’لیکن مزاح نگارکے لیے نصیحت،فضیحت اورفہمائش حرام ہیں،وہ اپنے اورتلخ حقائق کے درمیان ایک قدِآدم دیوارقہقہہ کھڑی کرلیتاہے،وہ اپنارُوئے خنداں سورج مکھی پھول کی مانندہمیشہ سرچشمۂ نورکی جانب رکھتاہے،اورجب اُس کاسورج ڈُوب جاتاہے،تواپنارُخ اُس سمت کر لیتاہے،جِدھرسے وہ پھر طلوع ہوگا۔۔۔حس مزاح ہی دراصل انسان کی چَھٹی حِس ہے۔۔۔‘‘(۳)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس’’دیباچے‘‘میں طنزومزاح کے متعلق تفصیل سے اپنی آراء کے اظہارکے ساتھ طنز ومزاح سے مغربی اورمشرقی اقوام کے مزاجوں کاموازنہ کرکے کچھ یوں متضادکیفیّت دریافت کرلی ہے:
’’انگریزصرف اُن چیزوں پرہنستے ہیں جواُن کی سمجھ میں نہیں آتی،پنچ کے لطیفے،موسم،عورت، تجریدی آرٹ۔اِس کے برعکس ہم لوگ اُن چیزوں پرہنستے ہیں جواب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں،مثلاًانگریز، عشقیہ شاعری،رُوپیہ کمانے کی ترکیبیں،بنیادی جمہوریّت۔۔ ۔‘‘۔(۴)
مشتاق احمدیوسفی نے دیباچہ میں اُردو کے بعض الفاظ کی صحیح ادائیگی اورتلفّظ واملاکی بحث کوبھی دِل چسپ اندازمیں بیان کیا ہے،اوراُس کی آڑ میں اپنے دوست وکرم فرماپاکستان کے معروف محقّق شان الحق حقّی کابھی مختصراً خاکہ ُاڑایاہے،جس کی وجہ سے یہ دیباچہ گوناگوں خصوصیات اوردِل چسپی کاحامل بن گیاہے۔
انشائیہ’’سیزر،ماتاہری اورمرزا‘‘:
’’خاکم بَدہن‘‘میں شامل دُوسراانشائیہ’’سیزر،ماتاہری اورمرزا‘‘کے عنوان سے ہے،اِس انشائیہ میں مرزا عبدالودودبیگ کی شخصیّت کے علاوہ سیزرنامی کتّاااورماتاہری نامی کُتیاکے گردخیالات کاتانابانابُناگیاہے،اِس انشائیہ میں ہمارے معاشرے اورسماج کے کئی برائیوں کو’’طنز‘‘کانشانہ بنایاگیاہے۔
کتّوں پرپطرس بخاری نے ایسا جان داراورشان دارمضمون لکھاہے کہ اِس موضوع پرمزیدہاتھ ڈالنے کے لیے بڑے دِل گُردے کی ضرورت تھی،بلکہ خُودمشتاق احمدیوسفی کے بقول کتّوں کی تخلیق کی توسب سے بڑی وجہ ہی یہ نظرآتی ہے کہ پطرس بخاری اُن پرمضمون لکھے،لیکن مشتاق احمدیوسفی کے اِس انشائیہ کامطالعہ کرنے کے بعداُس کوداد دئیے بغیرنہیں رہاجاتا،پطرس بخاری نے اپنے مضمون میں زیادہ ترزوراِس مخلوق کی شاعرحضرات سے شباہتیں تلاش کرنے پرصَرف کیاتھا،لیکن اِس انشائیہ میں مشتاق احمدیوسفی نے کتّوں کی نسلوں،لوگوں کاکتّے پالنے کاشوق،کتّوں کی حرکات وسکنات اورپھرمرزاعبدالودودبیگ کے مشورے اورسب سے بڑھ کرخُود مصنف کے دِل چسپ وخُوش گوارتبصراتی اندازنے اِس انشائیہ کوچارچاندلگادیے ہیں،نیزمشتاق احمدیوسفی کے اِس انشائیہ میں پطرس بخاری کے مضمون سے سرقے یاکسی دُوسرے حوالے سے اشتراک کاشائبہ تک موجودنہیں ہے۔
پطرس بخاری کاکتّوں کومحض گلیوں اوربازاروں میں دیکھنے کاتجربہ تھا،اِس لیے جگ بیتی یازیادہ سے زیادہ سرِراہ ’’ملاقاتوں‘‘کاحال بیان کیاہے،لیکن مشتاق احمدیوسفی کایہ تجربہ نہ صرف ذاتی ہے،بلکہ مذکورہ مخلوق یعنی کتّوں کے بارے میں ان کی معلومات بھی بڑی متنوع ہیں،اِس لیے اِس انشائیہ کارنگ چوکھاہوگیاہے۔یہ انشائیہ جانوروں کی وفاداری اورانسانوں کی بے حسی کا بھی بڑاجان دارمُرقّع ہے،خصوصاًاِس کااختتام نوعِ انسانی کے لیے تازیانہ ہے کہ یہاں بھی کتّاداستان’’باغ وبہار‘‘کے کردارخواجہ سگ پرست کے کتّے کی طرح انسان سے کچھ زیادہ ہی وفادار نظرآتا ہے۔
ڈکٹرمحمدطاہراِس انشائیہ کافنّی وفکری جائزہ لیتے ہوئے اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اِس انشائیہ کی خصوصیّت یہ ہے کہ اِس میں’’سانحاتی مزاح‘‘کارنگ اورحربہ بہت تیز،شوخ اورعروج پرہے،وہ مزیدکچھ یوں رقم طرازہیں:
’’اِس طرح(سانحاتی مزاح)کے فن سے’’چراغ تلے‘‘کے انشائیے مبرّاہیں،اِس میں یوسفی نے کتّوں کے متعلّق معلومات،اُن کے نام اورنسل کابھی ذکرکیاہے۔۔۔‘‘۔(۵)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں کتّے کی دُم کی افادیّت اورعلامتی اندازمیں دورِجدیدکے انسان کی اندرونی غلاظت اورمُنافقت پریوں چوٹ کی ہے:
’’غورکروتودُم دارجانوروں میں کتّاہی تنہاایساجانورہے،جواپنی دُم کوبطورِآلۂ اظہارِخلوص و خُوش نودی استعمال کرتاہے،ورنہ باقی ماندہ گنوارجانورتواپنی پُونچھ سے صرف مکھیاں اڑاتے ہیں،دُنبہ یہ بھی نہیں کر سکتا،اُس کی دُم صرف کھانے کے کام آتی ہے،البتہ بیل کی دُم سے ’’ایکسی لیٹر‘‘کاکام لیاجاتاہے۔۔۔ ایک فرانسیسی ادیبہ کیاخُوب کہہ گئی ہے کہ میں آدمیوں کوجتنے قریب سے دیکھتی ہوں،اتنے ہی کتّے اچھے لگتے ہیں۔۔۔‘‘۔(۶)
اُردوکے بیشترمزاح نگاروں نے کتّے کی ذات کوتختۂ مشق بنایاہے،لیکن مشتاق احمدیوسفی کااختصاص یہ ہے کہ اُنھوں نے اِس سے مضحک پہلوبرآمدکرنے کے علاوہ اُس کی رفاقت،اُس کی ہم نشینی اوروفاداری کوبڑے لطیف پیرائے میں بیان کیاہے۔اِس انشائیہ کی صفت یہ ہے کہ ہم’’سیزر‘‘نامی کتّے سے اِس قدرمانوس ہوجاتے ہیں کہ اُس کی موت پریہ گمان ہوتاہے گویاگھرکاکوئی فرد مر گیاہو۔سیزر اپنی وفاداریوں کی وجہ سے ہم سے ہم دَردی حاصل کرتا ہے،تیرہ ماہ کی سن سے وہ گھرکے اندرایک فردکی حیثیّت سے زندگی بسرکرتاہے،اورعمرکے آخری ایّام میں جب اُس کی بصارت کم زورہوجاتی ہے،تووہ سڑک پرپھینکی گئی گیندلانے جاتاہے،اورکارکے نیچے آکرموت کی آغوش میں چلاجاتا ہے،اُس کی زندگی کاآخری لمحہ بھی وفاداری کرتے اورتابع داری دکھاتاگزرتاہے،کتّے کی موت کا جس اندازسے بیان ہواہے،اُس کے اختتام پر سوگواری کی کیفیّت چھاجاتی ہے:
’’اُس کاآب ودانہ اُٹھ چُکاتھا،اوروہ رُخصت ہورہاتھا،اِس ہمّت،اِس حوصلے،اِس سکون کے ساتھ جو صرف جانوروں کامقدّرہے،بغیرکراہے،بغیرتڑپے،بغیرہراساں ہوئے،بس بے نورنظریں جمائے دیکھے چلاجارہاتھا۔۔۔‘‘۔(۷)
مشتاق احمدیوسفی کواِس فن میں بڑاملکہ حاصل ہے کہ وہ قاری کوہنساتے ہنساتے ایسے موڑپرلائیں جواُس کے لیے اذیّت ناک بن جائے،مشتاق احمدیوسفی کے فن کی اِسی خُوبی کے پیشِ نظر نورالحسن نقوی یوں لکھتے ہیں:
’’یوسفی کی تحریروں کامطالعہ کرنے والاپڑھتے پڑھتے سوچنے لگتاہے،اورہنستے ہنستے اچانک چُپ ہوجاتاہے،اکثراُس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔‘‘۔(۸)
مشتاق احمدیوسفی کاایک پسندیدہ موضوع ہماری معاشرتی زندگی سے روزبروزمشرقی اقدارکی رُخصتی اور پامالی اوراُن کی جگہ انتہائی سُرعت سے مغربی تہذیب وتمدّن کاسرایت کرناہے،اِس ضمن میں جیساذکر،جیسی وضاحت اورجیسی بحث مشتاق احمدیوسفی نے کی ہے،اُردوادب میں بہت کم ادیبوں نے کی ہے،شکر ہے کہ وہ شگفتہ نگارہیں، ورنہ خُدانے انھیں جتناپُرزوراندازِ تحریرعطاکیاہے، اگروہ اِن مسائل کومزاح کی آمیزش کے بغیرپیش کرتے تونہ جانے کیاہنگامہ بپاکرتے،خیرہنگامہ تواب بھی بپاکررکھاہے،کیوں کہ ہنسی کی آخری حدتوآنسوہی ہیں۔یوں جس نے بھی دُنیااوراہلِ دُنیاسے رج کے پیارکیاہو،اُس کااتناشدیدرویّہ اپنالیناسمجھ میں آتاہے،اُردوادب میں روایات اوراقدارکے زوال کااتناشدیدماتم شایدہی کسی دُوسرے ادیب نے کیاہو،مغرب میں کتّوں کی پرورش کا رُجحان عام اورانگریزی تہذیب کی نشانی ہے،اور وہاں اس کے بڑے بڑے کلب اورتربیّتی مراکزہیں۔اب ہمارے یہاں اِسے نو دولتیہ طبقے میں ایک فیشن تصوّرکیاجاتاہے۔ اِس انشائیہ میں ہماری اِس مغرب زَدگی پرمشتاق احمدیوسفی کی نا پسندیدگی اُن کے لہجے کی شدّت سے یوں محسوس کی جاسکتی ہے:
’’مسٹرایس۔کے۔ڈین(نام ہی سے انگریزیّت اورمغربیّت مترشّح ہوتی ہے،اصل نام شیخ خیرالدّین ہے)اپنے نج کے بزرگوں کواپنے لائق نہیں سمجھتے،مگراپنے اصیل کتّے کاشجرۂ نسب پندرھویں پشت تک فَرفَرسُناتے،اوراُس کے آباواجدادپراِس طرح فخرکرتے گویااُن کا خالص خُون اُن کی ناچیزرَگوں میں دوڑرہاہے۔۔۔‘‘۔(۹)
مشتاق احمدیوسفی نے جدیدیّت کے جنون میں اقداراورتہذیب وروایات کی انتہائی بے رحمی سے خُون کرنے کے ساتھ انسانیّت اورخُونی رشتوں کی تقدّس کی پامالی اوربے وُقعتی کی طرف بھی اشارے کیے ہیں،یہاں مسٹرایس۔کے۔ڈین مغربیّت کی اندھی تقلیدمیں اپنے ناناجان قبلہ کے ساتھ یوں سلوک کرتے ہیں:
’’گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اپنے کنبے اورکتیاسمیت کارسے مری جانے لگے تواُن کے نانا جان قبلہ نے اچھاخاصاہنگامہ کھڑاکردیا،بس اُڑگئے کہ میں اس’’نجس کتّی‘‘کے ساتھ کار میں سفر نہیں کر سکتا،لہٰذا بیرسٹرصاحب اُن(نانا)کوہمارے ہاں چھوڑگئے۔۔۔‘‘۔(۱۰)
مشتاق احمدیوسفی کے دیگرتخلیقات کی طرح اِس انشائیہ میں بھی’’ناسٹل جیا‘‘کارجحان ملتاہے،جواُن کا پسندیدہ موضوع ہے،اوراُن کے بیشترکرداربھی اِسی نفسیاتی مرض میں مبتلاہیں۔اِس انشائیہ میں اس کیفیّت کااظہار یوں ملتاہے:
’’کوئی بیس اُدھرجب آتش جوان بلکہ نوجوان تھا،اُس نے نیلی آنکھوں،بھری بھری ٹانگوں اور’’بلونڈ‘‘ بالوں والی میم کوباغ میں اپنے جیبی سائزکے’’پومرینین‘‘کتّے کوبھینچ بھینچ کرپیار کرتے دیکھاتھا۔۔۔ ہائے! وہ بھی کیازمانہ تھاجب ہرچیزجوان تھی،ہرچیزحسین تھی،ہرچیز پہ ٹوٹ کے پیارآتاتھا،کیسے مہکتے دِن تھے وہ بھی۔۔۔‘‘۔(۱۱)
کتّاپالتے ہوئے خُود،اہلِ خانہ،پڑوسی،اہلِ محلہ اورعام راہ گیروں سے روزانہ کچھ نہ کچھ گلے شکوے و شکایات اورآہ وفریاد سننے کوضرورملتاہے،بلکہ بسااوقات توبات گالی گلوچ اورلڑائی تک جاپہنچتی ہے،کیوں کہ کتّے کے بھونکنے سے کسی کی نیندمیں خلل واقع ہوجاتی ہے،توکسی کوکاٹ کرزخمی کرلیتاہے،کسی کامحض پائنچہ پھاڑنے پہ اکتفاکر لیتاہے،کسی کے بچے کوحراساں وخوف زَدہ کردیتاہے، کسی کوگھرکے سامنے گزرنے ہی نہیں دیتا،کسی کے گھرمیں گھس کراُس کی مُرغیوں کوہڑپ کرلیتاہے،توکسی کے چمن کاستیاناس کردیتا ہے۔اِس ضمن میں خوداہلِ خانہ پرجوکچھ گزرا،اُس کاحال مشتاق احمدیوسفی یوں بیان کرتے ہیں:
’’پہلی رات(کتّا)خُودسویانہ دُوسروں کوسونے دیا،رات بھرایک سانس میں منہ زبانی بھونکتا رہا۔دُوسری رات بھی وحشت کایہی عالم رہا،البتہ چوبیس گھنٹے کی تربیّت سے اتنافرق ضرور پڑاکہ فجرکے وقت جن اراکینِ خاندان کی آنکھ لگ گئی تھی،اُن کے مُنہ چاٹ چاٹ کرخوابِ غفلت سے بیدارکیا۔تیسرے رتجگے سے پہلے ہم نے اُسے ایک سونے کی گولی دی،کوئی آفاقہ نہیں ہوا۔چوتھی رات دودیں،مگرصاحب!کیامجال جوذراچُپکاہوجائے،زچ ہوکر مرزاسے رجوع کیاتوکہنے لگے،میری مانو!آج اُسے کچھ نہ دو، خُودتین گولیاں کھالو،ہم نے ایسا ہی کیا،اُس رات وہ بالکل نہیں بھونکا۔۔۔‘‘۔(۱۲)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں اسلوبیاتی تکنیک کے لحاظ سے مزاح کے حربے’’مزاحیہ صورتِ واقعہ‘‘ سے کام لیا ہے،وہ پروفیسرعبدالقدّوس اورکتّے کے باہمی لڑائی کے احوال یوں بیان کرتے ہیں:
’’چارپانچ دن پہلے بھی ایسی ہی گتھم گتھاہوچکی تھی کہ کبھی کتّااُن کے اُوپراورکبھی۔اورکبھی وہ کتّے کے نیچے۔لہٰذاہم نے بوگن ولیاکی کانٹے دارٹہنی توڑکرقمچی بنائی اوراِس بدتمیزکوسڑاک سڑاک مارنے کو دوڑے،مگرپروفیسرموصوف جہاں کے تہاں ہاتھ جوڑکرکھڑے ہوگئے، کہنے لگے لِلہ!یہ نہ کروں،ابھی تو میرے پچھلے نیل نہیں مٹے۔۔۔‘‘۔(۱۳)
مشتاق احمدیوسفی کایہ انشائیہ جتنے پُرلطف اندازمیں شروع ہوتاہے،اتنے ہی اندوہ ناک انجام پراختتام پذیربھی ہوتاہے۔ ’’طربیہ‘‘اندازسے شروع ہوکر’’المیہ‘‘پرختم ہونے والے اِس انشائیہ کوہم’’خاکم بَدہن‘‘کامنتخب اور نمائندہ انشائیہ کہہ سکتے ہیں۔ طنزو مزاح کے علاوہ’’طربیہ والمیہ‘‘عناصرکی مددسے اُس کاخمیرتیارکیاگیاہے۔
انشائیہ’’بارے آلوکاکچھ بیان ہوجائے‘‘:
’’خاکم بَدہن‘‘کے تیسرے انشائیہ کاعنوان’’بارے آلوکاکچھ بیان ہوجائے‘‘ہے،یہ مشتاق احمدیوسفی کا دِل چسپ انشائیہ ہے جو’’آلو‘‘کے بارے میں ہے۔آلوجوایک عام سی ترکاری ہے،اِس سے زیادہ اِس عام موضوع پر زیادہ سے زیادہ یہ لکھاجاسکتاہے کہ یہ ایک سبزی ہے جوزیرِزمین پرورش پاتی ہے،اورباہرآنے پراہلِ زمین کی پرورش کاسبب بنتی ہے،لیکن مشتاق احمدیوسفی کاکمال یہ ہے کہ اِس قدرمعمولی اورسپاٹ موضوع پرایک جان دارانشائیہ تحریرکیا ہے۔اِس انشائیہ کے ایک ایک صفحہ بلکہ ایک ایک سطرپر پھلجھڑیاں بہارکے سبزے کی طرح پھیلی ہوئی ہیں،آلوجیسی پھیکی سبزی پرایساچٹخارے دارانشائیہ،اورپھراِس یک رنگے بلکہ بے رنگے موضوع کوایسے ایسے ڈھنگ سے باندھنے کے لیے بڑی ذہانت اورریاضت کی ضرورت ہے۔
یہ انشائیہ مشتاق احمدیوسفی کے دِل پسنداورمعروف کردارمرزاعبدالودودبیگ کی پسندوناپسندکی نہایت ماہرانہ عکاسی ہے کہ جب وہ اُس کی مخالفت پراُترتے ہیں تواس کی مذّمت میں دلائل کے انبارلگادیتے ہیں،اپنے اِس خیال کی تائیدمیں جب اُسی’’آلو‘‘ کی’’ہجو‘‘بیان کرتے ہیں،تواُسے مختلف النوع بیماریوں کاموجب ثابت کر دیتے ہیں،نیزمشرق اورمغرب کی خواتین کی اسمارٹنس کے سارے فرق کوبھی اِسی آلوسے یوں منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’آلوکھانے سے آدمی آلوجیساہوجاتاہے،کوئی انگریزعورت جسے اپنا’’فِگر‘‘اور’’مستقبل‘‘ ذرابھی عزیز ہے،آلوکوچھوتی تک نہیں،سامنے سوئمنگ پول میں پیرلٹکائے یہ میم جومصرکا بازارکھولے بیٹھی ہے،اُسے تم آلوکی ایک ہوئی بھی کھلادو،توبندہ اِسی حوض میں ڈوب مَرنے کوتیارہے۔۔۔یورپ میں جولڑکی دُورسے سترہ برس کی معلوم ہوتی ہے،وہ قریب پہنچ کر ستّربرس کی نکلتی ہے،اورہمارے ہاں جوخاتون دُورسے ستّر برس کی دکھلائی پڑتی ہے،وہ نزدیک آنے پرسترہ برس کی نکلتی ہے۔۔۔‘‘۔(۱۴)
لیکن مرزاعبدالودودبیگ جب’’آلو‘‘کی تعریف،مدح سرائی،سڈول پن اورافادیّت میں رطب السان ہوتے ہیں تویہاں تک فتویٰ دیتے ہیں کہ آلوکوقومی غذاقراردیناچاہیے:
’’خُداجانے حکومت آلوکوبزورِقانون قومی غذابنانے سے کیوں ڈرتی ہے۔سستااتناکہ آج تک کسی سیٹھ کواُس میں ملاوٹ کرنے کاخیال نہیں آیا۔اسکینڈل کی طرح لذیذاورزُودہضم، وٹامن سے بھرپور،خُوش ذائقہ،صوفیانہ رنگ،چھلکازنانہ لباس کی طرح،یعنی برائے نام۔۔۔‘‘۔(۱۵)
مرزاعبدالودودبیگ محض آلوکی قصیدہ گوئی پرہی اکتفانہیں کرتے،بلکہ اُس کی کاشت کاایساجنون سرمیں سما جاتاہے کہ اُس کی کاشت پرکمربستہ ہوجاتے ہیں:
’’ایک مردِغیرت مندنے چمن زارکراچی کے دِل یعنی ہاؤسنگ سوسائٹی میں آلوکی کاشت شروع کردی، اگرچہ سرِدست پانچ من امریکی کھادکاانتظام نہ ہوسکا،لیکن مرزاکاجوشِ جنون اُنھیں اس مقام پرپہنچاچکا تھا،جہاں کھادتوکھاد،وہ بغیرزمین کے بھی کاشت کرنے کاجگرا رکھتے تھے۔۔۔‘‘۔(۱۶)
حالاں کہ مرزاعبدلودودبیگ کی صحت اورہمّت کایہ عالم تھاکہ اگرساراکھیت ایئرکنڈیشن کردیاجائے،اور ٹریکٹرمیں ایک راکنگ چیئرڈال دی جائے،تووہ شایددوچارگھنٹوں کے لیے کاشت کاری کاپیشہ اختیارکرسکیں،ستم بالائے ستم یہ کہ اُس کاآلوکی کاشت کے بارے میں معلومات کایہ عالم ہے کہ یہاں تک نہیں جانتے کہ’’آلوبخارے‘‘کی طرح’’آلو‘‘کے بھی بیج ہوتے ہیں،یا’’گلاب‘‘ کی طرح ٹہنی لگائی جاتی ہے،’’پٹ سن‘‘کی طرح پانی کی فصل ہے،یا ’’اخروٹ‘‘کی طرح خشک تر،بلکہ یہ معمہ تک حل نہیں ہوپاتاکہ آلواگرواقعی اُگتے ہیں توڈنٹھل کانشان کیسے مٹایاجاتا ہے،اِسی متضاد اوردِل چسپ صورتِ حال نے اِس انشائیہ میں عجب طرح کی رنگا رنگی پیداکردی ہے۔
اِس انشائیہ میں مشتاق احمدیوسفی نے اُسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے’’سفرنامہ‘‘کی تکنیک سے کام لیتے ہوئے اپنے ایک نئے ایڈونچرکاذکرکیاہے،جس کی جان منٹگمری کاایک ہوٹل ہے،جس کااصل نام کسی کومعلوم نہیں،لیکن ہر کوئی اُسے’’ہوٹل ھٰذا‘‘ہی کہتاہے، اِس ہوٹل میںفقط ایک ہی کمرہ ہے، جس کے اُوپرکوئلے سے’’کمرہ نمبر۱‘‘لکھاگیا ہے، اِس کمرے کے ساتھ اٹییچڈباتھ رُوم کی بجائے اٹیچڈتنورہے، چارپائی صبح سویرے ایک جھٹکے کے ساتھ اُن سے یوں خالی کرائی جاتی ہے:
’’جیسے ہی منٹگمری کاپہلامُرغ پہلی بانگ دیتا،بیراہماری پیٹھ اورچارپائی کے درمیان سے بسترایک ہی جھٹکے میں گھسیٹ لیتا۔اپنے زورِبازواورروزمرّہ کی مشق سے اِس کام میں اتنی صفائی اورمہارت پیدا کرلی تھی کہ ایک دفعہ سرہانے کھڑے ہوکرجوبسترگھسیٹاتوہمارابُنیان تک اُترکربسترکے ساتھ لپٹ کرچلا گیا،اورہم کھری چارپائی پرکیلے کی طرح چھلے ہوئے پڑے رہ گئے۔پھرچارپائی کوپائنتی سے اُٹھاکر ہمیں سرکے بل پھسلاتے ہوئے کہنے لگا: صاب!فرنیچرخالی کرو۔وجہ یہ کہ اِس فرنیچرپرسارے دن’’پروپرائٹر اینڈمنیجرہوٹل ہٰذا‘‘کا دربارلگارہتاہے۔ایک دن ہم نے اِس بے آرامی پرپُرزوراحتجاج کیاتوہوٹل کے قواعدو ضوابط کاپنسل سے لکھاہواایک نسخہ ہمیں دکھایاگیا،جس کے سَروَرق پر’’ضابطہ فوج داری ہوٹل ہٰذا‘‘ تحریرتھا،اِس کی دفعہ:۹ کی رُوسے فجرکی اذان کے بعد’’پسنجر‘‘کوچارپائی پرسونے کاحق نہیں تھا۔البتہ قریب المرگ مریض،زچہ اوریہودونصاریٰ اِس سے مُستثنیٰ تھے،لیکن آگے چل کردفعہ:۲۸(ب)نے اُن سے بھی یہ مُراعات چھین لی تھیں،اُس کی رُوسے زچہ اورقریبُ المرگ مریض کوزچگی اورموت سے تین دِن پہلے تک ہوٹل میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔‘‘۔(۱۷)
اِس انشائیہ میں مشتاق احمدیوسفی کے ذاتی اورمشاہداتی نقطۂ نظرکے متعلّق قاری بدستورمغالطے میں رہتا ہے،کیوں کہ وہ کبھی آلوکی مدح میں مشتاق احمدیوسفی زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں،اورکولمبس کومحض اِس بناپرجہنم میں نہ جانے والوں میں شمارکرتا ہے کہ وہ امریکا دَریافت کرنے میں کامیاب ہواتھا،جس نے بقول مصنف دُنیاکودو نعمتوں’’آلو‘‘اور’’تمباکو‘‘سے روشناس کرایا:
’’اب پیارمیں آتے توآلوکی گدرائی ہوئی گالائیوں پرہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے، صاحب!کولمبس جہنم میں نہیں جائے گا،اُسے واپس امریکابھیج دیاجائے گا۔مہذّب دنیاپر امریکاکے دواحسانات ہیں۔ تمباکو اورآلو۔سوتمباکوکابیڑاتوسرطان نے غرق کردیا،مگرآلوکا مستقبل نہایت شان دارہے،جوملک جتناغریب زدہ ہوگا،اُتناہی آلواورمذہب کاچلن زیادہ ہوگا۔۔۔‘‘۔(۱۸)
اورمشتاق احمدیوسفی جب’’آلو‘‘سے بننے والی ڈشوں کاذکرکرتے ہیں،توقاری کے مُنہ میں پانی آجاتا ہے،اورساتھ ساتھ اُن کے ذخیرۂ الفاظ کی داددیے بغیربھی نہیں رہ سکتا،وہ اِن ڈشوں کے نام یوں گنواتے ہیں:
’’آلومٹر،آلوگوبھی،آلومیتھی،آلوگوشت،آلومچھی،آلوبریانی۔۔۔آلوکوفتہ،آلوبڑیاں،آلوسموسہ،
آلورائتہ،آلوکابھرتا،آلوکیماں۔۔۔آلوکی کھیر۔۔۔پوٹے ٹوکٹلٹ۔۔۔‘‘۔(۱۹)
’’آلو مسلّم،آلو دونیم،آلو سوختہ و کوفتہ،آلو چھلکے دار،آلو بریاں،آلو نیم بریاں،بلکہ کہیں کہیں بالکل عُریاں۔‘‘۔(۲۰)
مشتاق احمدیوسفی کے اِس انشائیہ میں بھی’’ناسٹل جیائی‘‘کیفیّت کااظہارہواہے،اوریہ کیفیّت اُس وقت دیکھنے کوملتی ہے جب مرزاعبدالودودبیگ کسی کوآلوکھاتے دیکھ کراپنے بچپن کی زندگی کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں، جہاں اسے اپنے گرد آلود بال، شرارت سے روشن آنکھیں،اپنابٹنوں سے بے نیازکُرتا،اپنے بچپنے کی غلیل،پتنگ، پتنگ اُڑانے والی اُنگلی پرڈورکی خُون آلودلکیراور ویسی ہی بہت سی یادیں اورباتیں ذہن میں یادوں کے دریچے کھول جاتی ہیں،لیکن یہ ماضی تمنّائی کی کیفیّت مہلک نہیں ہے،ناسٹل جیاکے مرض کے متعلّق مشتاق احمدیوسفی کے نظریے میں شدّت کی جگہ اعتدال نظرآتاہے:
’’آج بھی کسی بچے کے ہاتھ میں بھوبل کاسنکاہواآلونظرآجائے تواُس کی مانوس مہک سے بچپن کاایک واقعہ ذہن میں تازہ ہوجاتاہے،میںٹکٹکی باندھ کراُسے دیکھتاہوں،اُس سے پھوٹتی ہوئی سوندھی بھاپ کے پرے ایک بھولی بسری صورت اُبھرتی ہے،گردآلودبالوں کے پیچھے شرارت سے روشن آنکھیں۔کُرتہ بٹنوں سے بے نیاز۔گلے میں غلیل۔ناخن دانتوں سے کترے ہوئے۔پتنگ اُڑانے والی اُنگلی پرڈورکی خُون آلودلکیر۔بیری سَمے ہولے ہولے اپنی کینچلیاں اتارتاچلاجاتاہے،اورمیں ننگے پاؤں تتلیوں کے پیچھے دوڑتا، رنگ برنگے بادلوں میں ریزگاری کے پہاڑ،پریوں اورآگ اُگلتے اژدہوں کوبنتے بگڑتے دیکھتاکھڑارہ جاتاہوں۔۔۔‘‘۔(۲۱)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں’’آلو‘‘کے متعلّق اپنے مشاہدات کوزیادہ ترعبدالودودبیگ کی زبانی اورتوسّط سے بیان کیے ہیں،البتہ ابتداسے آخر تک،بلکہ اختتام کے بعدبھی قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنادُشوارہوتا ہے کہ یہ انشائیہ’’آلو‘‘کی’’مدح‘‘ میں تحریرکیاگیا ہے،یااُس کی’’ہجو‘‘میں لکھاگیاہے،البتہ مشتاق احمدیوسفی کے زورِ بیان کی قوّت کایہ جادُوہے کہ جب وہ اُس کی تعریف کرتے ہیں،توقاری اُن کاہم نوابن جاتاہے،اورجب اُس کی برائیاں بیان کرتے ہیں،توبھی قاری اُن کاہم خیال ہوجاتاہے۔
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں اسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے سفرنامہ،صورتِ واقعہ،رعایتِ لفظی، مبالغہ، تحریف، مشاہداتی انداز،مکالمہ نگاری،ذہنی آوارہ حرامی،موضوع پرسرسری لیکن نئے زاویے سے روشنی ڈالنے کا رُجحان،مزاحیہ کرداراورطنز و مزاح کے دیگراہم تکنیک اورحربوں کواستعمال کیاہے،جس کے باعث یہ انشائیہ شروع سے آخرتک دِل چسپی کاحامل بن گیاہے۔
انشائیہ’’ہوئے مَرکے ہم جورُسوا‘‘:
’’خاکم بَدہن‘‘کاچوتھاانشائیہ’’ہوئے مَرکے ہم جورُسوا‘‘کے نام سے ہے،مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ کے لیے یہ عنوان مرزاغالبؔ کے اِس شعرسے اَخذکیاہے:
؎          ہوئے مَرکے ہم جو رُسوا،ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ  کبھی  جنازہ  اُٹھتا،  نہ  کہیں  مزار  ہوتا(۲۲)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں ایک غریب آدمی کی موت اورتدفین کے وقت غیرشرعی رسومات اور تدفین میں شامل لوگوں کے بے تکے کلمات سے مزاح پیداکیاہے۔مشتاق احمدیوسفی کے اِس انشائیہ کومرزافرحت اللہ بیگ کے معروف مضمون’’مُردہ بدستِ زندہ‘‘کی ترقّی یافتہ شکل کہہ سکتے ہیں،لیکن مرزافرحت اللہ بیگ کے اِس مضمون سے مشتاق احمد یوسفی کایہ انشائیہ زیادہ دِل چسپ اوربہتراِس معنوں میں ہے کہ اِس میں سرسری اور سپاٹ اندازمیں تبصرہ نہیں کیاگیاہے۔مرزافرحت اللہ بیگ کامضمو ن سامنے کے مناظرتک محدودہے،جب کہ مشتاق احمد یوسفی ہمیشہ کی طرح ہربات میں بال کی کھال نکالتے قاری کونہال کرتے چلے جاتے ہیں۔ اِس انشائیہ میں مرزا عبدالودودبیگ اپنی تمام ترحشر سامانیوں کے ساتھ برسرِپیکارنظرآتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ موت اور کفن ودفن جیسے گمبھیر موضوع میں قدم قدم پرقاری کے لیے ہنسی روکنامشکل ہوجاتا ہے۔مرزافرحت اللہ بیگ کے ہاں بات ہم دردی سے شروع ہوکردِل چسپی پرمُنتج ہوجاتی ہے، جب کہ مشتاق احمدیوسفی حیرت سے آغازکرکے ہنسی کے فوارے تک جا پہنچتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کاالمیہ ہے کہ تعزیّت پرآنے والے لوگ تعزیّت کے سواباقی سب کچھ کرتے ہیں۔ عرض یہ کہ اِس موضوع پرجتنے بھی امکانی گوشے اورتفصیلی نکتے ممکن تھے،مشتاق احمدیوسفی نے اِس ضمن میں کوئی کسر اُٹھانہیں رکھی،اورمزاح ایسامنجھاہواہے کہ ہرجگہ تجہیزوتکفین اورسوگواریّت پرچھایاہواہے۔مرزافرحت اللہ بیگ کے ہاں بات شگفتہ طبعی سے آگے بڑھ بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ تبسّم زیرِلب کی نوبت آجاتی ہے،جب کہ مشتاق احمد یوسفی کے ہاں قدم قدم پرقہقہہ دِل وجان لپٹ جاتاہے۔
مشرق میں عجیب وغریب بات ہے کہ کسی کے انتقال کے بعدلوگ اُس کے گناہوں کارجسٹر بندکردیتے ہیں،اوراُس کی ذات سے ایسی صفات منسوب کرنے لگتے ہیں،جن کادُورسے بھی اُن کاکوئی واسطہ نہ رہاہو، تاہم اِس انشائیہ میں مشتاق احمدیوسفی نے مرحوم کے گُناہوں کے دفترکوبندنہیں کیاہے،بلکہ اُس کواورزیادہ مبالغے سے پیش کیا ہے،مثلاًمرحوم کی بیوی کایہ بیان کس قدر دِل چسپ اورمبالغہ آمیزہے:
’’ممدوحہ نے مشہورکررکھاتھاکہ(خدااُن کی رُوح کونہ شرمائے)مرحوم شروع سے ہی ایسے ظالم تھے کہ ولیمہ کاکھانابھی مجھ نئی نویلی دلہن سے پکوایا۔۔۔‘‘۔(۲۳)
عصرِحاضرمیں تہذیب وتمدّن کے معیاربدل رہے ہیں،مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید،تعلیم کے غلط مفہوم اورآدمیّت کی صحیح پہچان کے فقدان نے ہمیں کہیں کاکہیں کردیاہے،بلکہ کہیں کانہیں رکھا۔ہمارے آداب بدل رہے ہیں،اخلاقی قدریں مسخ ہورہی ہیں، اپنی موت آپ مَررہی ہیں،اوراگریہی حال رہاتومشتاق احمدیوسفی کے مطابق آخراُس کاانجام یوں ہوگا:
’’جس طرح آج کل کسی کی عمریاتنخواہ دریافت کرنابُری بات سمجھی جاتی ہے،اِسی طرح،بالکل اِسی طرح بیس سال بعدکسی کی ولدیّت پُوچھنابداخلاقی سمجھی جائے گی۔۔۔‘‘۔(۲۴)
اِس انشائیہ میں مرزاعبدالودودبیگ کی موجودگی اورقدم قدم پربے موقع وبے محل تبصرہ نے اِس کوپُرلطف بنادیاہے۔اِس انشائیہ میں طنزومزاح کاخُوب صورت امتزاج دیکھنے کوملتاہے۔اُن لوگوں کوطنزکانشانہ بنایاگیاہے جو لوگ چہلم کے موقع پرپیٹ بھرکر کھاناکھاتے ہیں،اوربے وقت بے معنی اورمہمل گفت گوسے بازنہیں آتے ہیں،اور اِس موقع پر خوامخواہ مرحوم کی اچھائیاں تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
مشتاق احمدیوسفی کویہ ہنرآتاہے کہ کسی عیادت،تعزیّت اوردیگرسنجیدہ مقامات بلکہ یہاں تک کہ جنازہ اور میّت کی موجودگی میں بھی قاری کوہنسنے اورقہقہہ لگانے پرمجبورکرسکتے ہیں،یہاں اس نے مرحوم کابھی مضحکہ اڑایا ہے جو بے مقصدوصیّت کرکے نئی پریشانیاں پیداکرجاتے ہیں،
’’مرحوم ومغفورشدومدسے وصیّت فرماگئے تھے کہ میری مٹی بغدادلے جائی جائے۔۔۔یہ مرحوم کی سراسرزیادتی تھی کہ اُنھوں نے خُودتوتادمِ مرگ میونسپل حدودسے قدم باہرنہیں نکالا،حدیہ کہ پاسپورٹ تک نہیں بنوایا۔۔۔‘‘۔(۲۵)
ہماری نئی اورنوجوان نسل اپنی مشرقی رسم وروایات سے روزبروزدُوراورناآشناہوتی جارہی ہے۔یہاں کے آداب،اُٹھنے بیٹھنے کے طورطریقوں،میل ملاپ اورعیادت وتعزیّت کے مخصوص انداز،ایسے مواقعوں کے لیے لباس اورایسی محفلوں کے آدابِ گفت گوسے بالکل بے خبرلگتے ہیں،اوراپنی اِن ہی حرکتوں کی وجہ سے جنازہ،تکفین وتدفین اورتعزیّت کی مجلسوں میں بری نظرسے دیکھے جاتے ہیں:
’’دونوجوان ستارکے غلاف جیسی پتلونیں چڑھائے چہک رہے تھے،پہلے’’ٹیڈی بوائے‘‘ کی پیلی قمیص پر لڑکیوں کی ایسی واہیات تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ نظرپڑتے ہی ثقہ آدمی لاحول پڑھنے لگتے تھے،اورہم نے دیکھاکہ ہرثقہ آدمی باربارلاحول پڑرہاہے۔دُوسرے نوجوان کومرحوم کی بے وقت موت سے واقعی دِلی صدمہ پہنچاتھا،کیوں کہ اُس کاسارا’’ویک اینڈ ‘‘چوپٹ ہوگیاتھا۔۔۔‘‘۔(۲۶)
مشتاق احمدیوسفی اپنی تحریروں میں صرف’’طنز‘‘کے نشترہی نہیں چلاتے اورنہ فقط’’مزاح‘‘کے پھول ہی کھلاتے ہیں بلکہ وہ اپنے قارئین کوغوروفکرپربھی آمادہ کرتے ہیں۔اُن کی تخلیقات نہ صرف فکرانگیزہیں بلکہ اُن کے مطالعے سے یہ اندازہ بھی لگایاجاسکتا ہے کہ خُودفن کارنے بڑے غوروفکرسے کام لیاہے،اُن کے ہاں اس غوروفکرکا حاصل بسا اوقات محض ایک جملے میں سامنے آتاہے،اور ایسے موقعوں پروہ اُسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے عموماً’’قولِ محال‘‘ یا’’صنعتِ تجنیس‘‘سے ایسانکھارپیداکردیتے ہیں جوبعض فن کارپُورے پُورے انشائیہ میں بھی پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں،اوریہ چیزایک عمرکی ریاضت،غیرمعمولی فنّی پختگی،گہرے مشاہدات،شدید ذاتی تجربات،کلاسیکی ادب کے وسیع اورگہرے مطالعے،ذہنِ رسا،مسلسل غورفکراورزبان وبیان پربے پناہ قُدرت وقابوکے بعدہاتھ آتی ہے، دریاکو کوزے میں بندکردیناآسان بھی کب تھا،اِس ضمن میں یہاں ایک مثال پیش ہے:
’’پڑوسیوں کاکہناہے کہ بیاہتابیوی کے لیے ایک انگوٹھی بھی چھوڑی ہے،اگراُس کانگینہ اصلی ہوتا توکسی طرح بیس ہزارسے کم کی نہیں تھی۔۔۔‘‘۔(۲۷)
مشتاق احمدیوسفی کے اُسلوب کایہ خاص فنّی تکنیکی کمال اورحربہ ہے کہ وہ’’اعداد‘‘سے بھی اکثرمضحکہ خیز صورتِ حال پیدا کر لیتے ہیں۔اُس نے اِس انشائیہ میں بھی اُس نے میاں بیوی کے ہمیشہ ایک دُوسرے سے مُنہ پھیریں اور کشیدہ تعلّقات کواُردواعداد کے’’۲‘‘اور’’۶‘‘سے یوں مماثلت دی ہے:
’’بیوی سے اُن کی کبھی نہیں بنی،بھری جوانی میں بھی میاں بیوی’’۶۲‘‘کے ہندسے کی طرح ایک دُوسرے سے مُنہ پھیرے رہے،اورجب تک جیے،ایک دُوسرے کے اعصاب پرسوار رہے۔۔۔‘‘۔(۲۸)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں اسلوبیاتی تکنیک کے لحاظ سے مزاح کے حربے’’رعایتِ لفظی‘‘سے بھی کام لیاہے، وہ یہاں رعایتِ لفظی سے یوں کام لیتے ہیں:
’’مرحوم نے پانچ سال قبل دونوں بیویوں کوتیسرے سہرے کی بہاریں دکھائی تھیں،اوریہ اُن کے مَرنے کے نہیں،ڈُوب مَرنے کے دِن تھے۔۔۔‘‘۔(۲۹)
یہاں لفظ’’مَرنے‘‘اور’’ڈُوب مَرنے‘‘میں ایک خاص لفظی رعایت ہے،جسے صرف ذوقِ سلیم،باذوق اور مزاحیہ حربوں سے پوری واقفیّت رکھنے والاطبقہ ہی محسوس کرکے ان سے محظوظ ہوسکتاہے۔اِس انشائیہ کے بارے میں ڈاکٹرمحمدطاہراپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’یوسفی کایہ انشائیہ دِل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بعض ایسی بُرائیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے،جو ہمارے معاشرے میں غلط طورپررائج ہوکرجڑپکڑتی جارہی ہے۔۔۔‘‘۔(۳۰)
انشائیہ’’ہل اسٹیشن‘‘:
’’خاکم بَدہن‘‘کاپانچواں انشائیہ’’ہل اسٹیشن‘‘ہے،جس میں مشتاق احمدیوسفی نے دوستوں کے ہم راہ ایک پہاڑی سفر ’’سیرِکوئٹہ‘‘کی رودادکوپیش کیاہے،یہ دورہ مرزاعبدالودودبیگ کی زبردست خواہش وحسرت کے نتیجے میں وقوع پذیرہوتاہے،جس کا یہ نظریہ ہے:
’’جووقت پہاڑپرگزرے،عمرسے منہانہیں کیاجاتا۔۔۔‘‘۔(۳۱)
مرزاعبدالودودبیگ پہاڑی علاقوں کی صحت بخش فضاکے بارے میں رطب السان ہے کہ وہاں صحت و تن دُرستی کایہ عالم بیان کرتے ہیں کہ کسی ہسپتال کاافتتاح کرناپڑجائے تومریض دُوسرے شہروں سے دَرآمدکرنے پڑتے ہیں،جنھیں رسمِ افتتاح تک بیماررکھنے کے لیے بڑے بڑے ماہرڈاکٹروں کوتعیّنات کرناپڑتاہے۔
اِس سفرکی دِل چسپی کااندازہ اِس اَمرسے لگایاجاسکتاہے کہ اِس سفرمیں عبدالودود بیگ اور پروفیسر عبدالقدّوس کے علاوہ ایک تیسراکردارفرغام الاسلام صدیقی ایم ۔اے،ایل۔ایل۔بی سینئیرایڈووکیٹ المعروف ’’ضرغوص‘‘بھی مصنف کے ہم رکاب ہوتا ہے۔جہاں تک عبدالودودبیگ کاتعلّق ہے تووہ حسبِ معمول کہیں بھی نچلے نہیں بیٹھتے،اورانشائیہ کی سطرسطرمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔دُوسرے نمبرپروفیسر عبدالقدّوس ہیں،جن کامیونسپل کمیٹی کے حدودسے باہرقدم پڑجائے توخُودکو ’’غریبُ الوطن‘‘ محسوس کرنے لگتے تھے، جوکراچی میں ساون بھادوں کی کمی پُوری کرنے کے لیے رات کوغُسل خانے کانل کھول کر سوتے ہیں،تاکہ خواب میں ’’ٹپ ٹپ‘‘ کی آوازآتی رہے،لیکن اِس کے باوجود وہ اِس سیرِکوئٹہ پرجانے کے لیے محض اِس لیے تیار ہوئے تھے:
’’ایک دوست اُن کے لیے پیرس سے سمورکے دستانے تحفتاًلائے تھے،جنھیں پہننے کے چاؤ میں وہ جلداَزجلدکسی ہل اسٹیشن جاناچاہتے ہیں،کیوں کی کراچی میں تولوگ دسمبرمیں بھی ململ کے کُرتے پہن کرآئس کریم کھانے نکلتے ہیں۔۔۔‘‘۔(۳۲)
جہاں تک فرغام الاسلام کے کردارکاتعلّق ہے،تواُن کے احتیاط کایہ عالم ہے کہ اُنھیں اگر’’کراچی‘‘سے ’’کابل‘‘بھی جانا ہوتومحلّے کے چوراہے ہی سے درّہ خیبرکاراستہ پُوچھنے لگتے ہیں،مزید تعارف کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی یہ مختصرسی رائے ہی کافی ہے:
’’اکثرناواقف اعتراض کربیٹھتے ہیں،بھلایہ(ضرغوص) بھی کوئی نام ہوا،لیکن ایک دفعہ اُنھیں دیکھ لیں تو کہتے ہیں،ٹھیک ہی ہے۔۔۔‘‘۔(۳۳)
اِس انشائیہ میںضرغوص اور پروفیسرعبدالقدّوس کے کردارایک دُوسرے کی ضدکہے جاسکتے ہیں،کیوں کہ ایک نئے خیالات کادِل دادہ تودُوسراپرانی قدروں کاامین ہے،عبدالقدّوس کی شخصیّت پر قدامتی رنگ اِس قدر چڑھاہواہے کہ بقول مصنف:
’’آخرکس باپ کے بیٹے ہیں،اُن کے والدِبزرگوارمَرتے مَرگئے،مگرفرنگی کی ریل میں نہیں بیٹھے،اورآخر دَم تک اِس عقیدے پربڑے استقلال سے قائم رہے کہ دُوسرے قصبوں میں چانداتنابڑاہوہی نہیں سکتا، جتناکہ چاکسو میں۔۔۔‘‘۔(۳۴)
مشتاق احمدیوسفی کے اِس اقتباس سے بظاہرمعلوم ہوتاہے کہ وہ اُن لوگوں کامذاق اڑاتے ہیں،جوپُرانے خیالات کی زنجیروں میں قیداورتنگ نظری کاشکارہیں،لیکن قاری اُس وقت چونک پڑتاہے،جب ضرغوص کے متعلّق وہ یوں لکھتے ہیں:
’’بڑے وضع دارآدمی ہیں،اوراُس قبیلے سے ہیں جوپھانسی کے تختے پرچھڑنے سے پہلے اپنی ٹائی کی گرہ دُرست کرناضروری سمجھتاہے۔۔۔‘‘۔(۳۵)
مشتاق احمدیوسفی درحقیقت اُن لوگوں کامضحکہ اُڑاتے ہیں،جوقدامتی رنگ یاجدیدیّت کالباس اپنانے میں حدسے تجاوز کرتے ہیں۔وہ انتہاپسندانہ رَوش کے برخلاف اعتدال اورمیانہ رَوی کے قائل ہیں،اورغلط کام خواہ وہ کسی سے سرزَدہو،اُس کی پردہ پوشی کے بجائے اُسے زمانے پرآشکاراکرتے ہیں۔اُن کی فکرکی بنیادخُوش گمانی کے بجائے حقائق پرہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جانب بابربادشاہ کے کارناموں پرفخرکرتے ہیں،تووہی واجدعلی شاہ کی تعیش پسندی پرطنزکے تیربھی چلاتے ہیں،اِس ضمن میں ذیل کا اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ہماری قوم کاایک فردظہیرالدّین بابرکہ جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے یہ کوہ ودمن،یہ دشت وجبل کبھی گونجے تھے،دوقوی الجثہ مغل سپاہیوں کوبغل میں دباکرقلعے کی فصیل پربے تکان دوڑتاتھا۔۔۔مگرہماری تاریخ بابرپرختم نہیں ہوتی سرکار!آپ یہ کیسے بھول گئے کہ واجدعلی شاہ تاج دارِ اَودھ جب زینے پر لڑکھڑاتے ہوئے چڑھتے توسہارے کی لیے(اُس زمانے میں لکڑی کے ریلنگ ایجادنہیں ہوئی تھی)ہر سیڑھی پر،جی ہاں!ہرسیڑھی پردونوں طرف نوخیز کنیزیں رہتی تھیں،مُغلوں کی تلوارکی طرح خمیدہ وبے نیام۔۔۔‘‘۔(۳۶)
یہ سفرنامہ’’چھے‘‘ابواب پرمحیط ہونے کے باوجودبے حددِل چسپ اورپُرمزاح ہے۔پہاڑی زندگی،کوہ پیمائی،قدرتی مناظراورفطری نظاروں کی تصویرکشی کرتے ہوئے مشتاق احمدیوسفی کانوک قلم اُن تلخ حقائق کوآشکارا کرنے لگتاہے،جوہماری زندگی اورمعاشرے کاحصّہ ہیں،اورجن کامشاہدہ ہم روزانہ کی زندگی میں کرتے ہیں،ذیل کااقتباس ملاحظہ کریں:
’’اُنھیں سڑکوں پراپنے گُل دان میں برگداُگانے والے انٹلکچوئل کسی خُوب صُورت لڑکی کو شرف زوجیّت بخشنے کی گھات میں لگے رہتے ہیں۔اِدھرخُوب صورت لڑکی چراغِ رُخِ زیبا لیے اِس تلاش میں سرگرداں کہ جلداَزجلدکسی بوڑھے لکھ پتی کی بیوہ بن جائے۔یہ سوئمبر،یہ سہاگ رُت ہرہل اسٹیشن پرہرسال منائی جاتی ہے۔۔۔‘‘۔(۳۷)
مشتاق احمدیوسفی کاتحریرکردہ یہ انشائیہ بہت دِل چسپ ہے۔مرزاعبدالودودبیگ،پروفیسرعبدالقدّوس، فرغام الاسلام اور مصنف اِن چہاردرویشوں کی باہمی صُحبت اورسفرکی یہ داستان بڑی ہی دِل چسپ ہے۔دورانِ سفر کے مناظراوراُن پرتبصرے خاصے کی چیزیں ہیں،نیزحصولِ رہائش کامرحلہ اوربھی لُطف آفریں ہے،کیوں کہ پروفیسر صاحب کاخیال ہے کہ بندہ کسی ایسے ہوٹل میں ٹھہرنے کاروادارنہیں،جہاں کے بیرے مسافروں سے زیادہ اسمارٹ ہوں۔سفرکی اِس داستان کوپروفیسرکی خُودداری،ضرغوص کی وضع داری،مرزاکی عیاری اورمصنف کی ہوش یاری نے شاہکاربنادیاہے۔
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں اسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے سفرنامہ کی تکنیک سے پھرپوراستفادہ کیا ہے، بلکہ یوں کہنا ہی دُرست ہے کہ اُس نے یہ انشائیہ ’’سفرنامہ‘‘ہی کی تکنیک میں تحریرکیاہے۔اِس کااندازبھی غیررسمی ہے۔ معلومات کی بجائے محض مشاہدات کے بیان پراکتفاکیاگیاہے۔ذہنی آوارہ حرامی کامظاہرہ کرتے ہوئے کئی موقعوں پراپنے موضوع کے مدارمیں رہتے ہوئے بھی کئی دُوردرازکے دائروں کاچکّرکاٹ کرواپس اپنے موضوع کے مدارمیں داخل ہوئے ہیں۔اِس کے علاوہ مزاحیہ حربوں میں صُورتِ واقعہ،مزاحیہ کرداروں،رعایتِ لفظی مبالغہ اور موازنہ کے حربوں سے بھی مزاح پیداکرکے انشائیہ کے فضاکوشروع سے آخرتک قاری کے لیے جاذبِ نظربنادیا ہے۔یہاں مصنف کی منظرنگاری اوررنگین بیانی کی بھی داددینی پڑتی ہیں۔اِن تمام عناصرکی آمیزش سے یہ انشائیہ دیر تک قاری کے دِل ودماغ میں محفوظ رہتاہے۔
انشائیہ’’بائی فوکل کلب‘‘:
’’خاکم بَدہن‘‘کاچَھٹاانشائیہ’’بائی فوکل کلب‘‘ہے،اِس انشائیہ میں مشتاق احمدیوسفی نے اپنی ہی خراب صحت اورمستقل علالت کوموضوع بناکرخُوداپنامضحکہ اُڑایاہے۔اِس انشائیہ میں بھی مرزاعبدالودودبیگ کاکردارموجود ہے،جواپنی حرکتوں اورغلط مشوروں سے قارئین کومستقل دِل چسپی اورتفریح کاسامان بہم پہنچاتارہتاہے۔
یہ انشائیہ دَراصل مشتاق احمدیوسفی کی اپنی’’علاج بیتی‘‘ہے،جس میں ہمارے ہاں کے حکیموں،ڈاکٹروں، حاذقوں،طبیبوں اوریوگیوں وغیرہ کابڑادِل کش مرقّع پیش کیاگیاہے،اُن کے ڈگریوں،تجربات کی نوعیّت، مریضوں سے برتاؤ،خاص قسم کے مزاج، دِل ہلادینے والی فیسیں اورعلاج وپرہیزکے بندھے ٹکے طریقہ ہائے کارکا خُوب مضحکہ اُڑایاہے۔یہ انشائیہ بھی مرزاعبدالودودبیگ کے مشوروں ہی سے آگے بڑھتاہے جومصنف کے جُملہ امراض کا واحدحل’’بائی فوکل‘‘اور’’قوالی‘‘کوقراردیتے ہیں،اوربچارامصنف مشتاق احمدیوسفی اپنی نظرکے متعلّق تو پہلے ہی سے یہ وضاحت کر دیتے ہیں:
’’عینک ہمارے لیے نئی چیزنہیں،اِس لیے کہ پانچویں جماعت میں قدم رکھنے سے پہلے ہماری عینک کانمبر ’۷‘ہوگیاتھا۔۔۔(بچپن میں)اندھابھینساکھیلتے وقت بچے ہماری آنکھوں پرپٹّی نہیں باندھتے تھے(بلکہ صرف عینک ہی اُتاردیناکافی سمجھتے تھے)ہماراعقیدہ تھاکہ اللہ تعالیٰ نے ناک صرف اِس لیے بنائی ہے کہ عینک ٹک سکے،اورجوبچارے عینک سے محروم ہیں،اُن کی ناک محض زکام کے لیے ہے۔‘‘(۳۸)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں عینک لگانے والوں کی مجبوریوں،ضرورتوں،مقاصداورعینک لگانے والوں سے بغیر عینک کے سرزَدہونے والی حماقتوں کابڑی عمدگی سے یوں نقشہ کھینچاہے:
’’ایک سانحہ ہوتوبیان کریں،پرسوں رات دعوتِ ولیمہ میں جس چیزکوڈونگاسمجھ کرہم نے جھپاجھپ اُس میں سے پلاؤ کی ساری بوٹیاں گرالیں،وہ ایک مولوی صاحب کی پلیٹ نکلی،جوخُوداُس وقت زَردے کی کشتی پربُری نظرڈال رہے تھے۔یاکل رات گھپ اندھیرے سینماہال میں انٹروَل(جسے مرزاوقفۂ تاک جھانک کہتے ہیں)کے بعدشانے پر ہاتھ رکھے، جس سیٹ تک پہنچنے کی کوشش کی، وہ سیٹ ہماری نہیں نکلی،اورنہ ہی وہ شانہ ہماری اہلیہ کا۔۔۔‘‘(۳۹)
آخرموضع چاکسو(خُوردوکلاں)میں نیم بزرگوں کی ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی جاتی ہے،توہفتوں تک یہ تذبذب رہی کہ اِس انجمن کانام کیارکھاجائے۔پروفیسرعبدالقدّوس نے اِس کے لیے’’انجمن افسردہ دلانِ چاکسورجسٹرڈ‘‘نام تجویزکیا،جسے فوراً اِس بناپرمستردکردیاگیاکہ اگرممبری کادارومدارمحض’’افسردہ دِلی‘‘پررکھاگیاتو چاکسوکے تمام شاعرمع غیرمطبوعہ دِیوان اِس انجمن میں گھس آئیں گے۔آخربڑی بحث مباحثے اورغوروفکرکے بعد اِس غولِ کہولاں کانام’’بائی فوکل کلب‘‘رکھاگیا،اوراِس کی ممبرشپ کا معیارنظرکی کم زوری کے ساتھ السر،بدنظری، گاف اور نئی نسل سے بے زاری،رقیق القلبی اورآسودہ حالی ٹھہرتاہے۔مصنف متذکّرہ سات صفات میں سے آخر الذّکریعنی آسودہ حالی کے علاوہ باقی چھے صفات پربخوبی اُترتاتھا،جس کی وجہ سے اُسے اِس کلب کابلا مقابلہ’’سیکرٹری جنرل‘‘منتخب کردیاجاتاہے۔
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں ایک مذہبی قوالی کاایک چشم دیدواقعہ بیان کیاہے،جس میں حال آنے اوراودھم چوکڑی مچانے کی کیفیّت کوبڑے دِل چسپ اندازمیں یوں پیش کیاگیاہے:
’’چاربجے جب سب کی جیبیں خالی ہوگئیں توبیشترکوحال آگیا،اورایسی دھمال مچی کہ تکیے کے گنبدکی ساری چمگادڑیں اڑگئیں۔کسی کے پاؤں کی ضربِ مستانہ سے حضرت کے خلیفہ کی گھڑی کاشیشہ چُورچُور ہوگیا،اوراب وہ بھی اپنی دستارِخلافت،جبہ،بائی فوکل اورچاندی کے بٹن اُتارکرمیدان میں کودپڑے، صرف انگوٹھی اورموزے نہیں اتارے،سووہ بھی بحالتِ مستی کسی نے اُتارلیے۔نوٹوں کی چھاربندہوئی اوراب ہربیت پرجزاک اللہ،جزاک اللہ کا غلغلہ بلندہونے لگا،اِس بھاگ بھری نے جودیکھاکہ بندوں نے اپناہاتھ کھنچ کراب معاملہ اللہ کے سپردکردیاہے توجھٹ آخری گلوری کلّے میں دباکے کہروے پرمحفل ختم کردی۔۔۔‘‘۔(۴۰)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں ادھیڑعمراوربُوڑھے لوگوں کی حرکات،اُن کے چونچلوں اورچسکوں کا بڑے چٹخارے لے لے ذکرکیاہے۔یہ انشائیہ بھی طنزومزاح کے خُوش نمارنگوں سے مزیّن ہے جس میں اسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے ذہنی آوارہ حرامی، غیررسمی اندازِ بیان اورانکشافِ ذات کے عناصرنے اُنھیں مکمل طوپرانشائیہ کے رنگ میں رنگ دیاہے۔نیزمزاح کے حربوں میں صُورتِ واقعہ،مبالغہ،بریکٹ کے استعمال،موازنہ،مکالمہ،منظر نگاری اورتشبیہات کے استعمال سے یہ انشائیہ اپناوحدتِ تاثرقائم رکھنے میں کامیاب ہواہے۔
انشائیہ’’چندتصویرِبُتاں‘‘:
’’خاکم بَدہن‘‘کاساتواں اورآخری انشائیہ’’چندتصویرِبُتاں‘‘ہے،مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ کا عنوان بھی مرزا غالبؔ کے اِس شعرسے اَخذکیاہے:
؎          چند تصویرِ بُتاں،کچھ حسینوں کے خطوط
بعد مَرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا(۴۱)
اِس انشائیہ میں مشتاق احمدیوسفی نے اپنے فوٹوگرافی کے شوقِ منفعل کی داستان بیان کی ہے،جس میں وہ حاجیوں کے پاسپورٹ سائزفوٹواورتاریخی کھنڈروں کی تصویریں بنانے سے لے کر’’سکینڈل سوپ‘‘کے لیے ماڈل گرل کی سیکسی تصاویربنانے تک کی کہانی مزے لے لے کرسناتے ہیں،جس میں انھیں کبھی نچلے نہ بیٹھنے والے شریر بچوں سے واسطہ پڑتاہے،توکہیں ماڈل کے طورپر سیامی بلی موجودہوتی ہے،جس کے مُنہ پرفرمائشی مسکراہٹ لانے کے لیے پلاسٹک کاچوہاسامنے رکھا جاتاہے۔
سب سے دِل چسپ ماڈل شیخ محمدشمس الحق کے ماموں جان قبلہ ہے،جوچاکسوخُوردسے یہاں آکرحج کے لیے اپنے پاسپورٹ فوٹوکھنچواکرمصنف کوشریکِ ثواب کرنے تشریف لے آئے ہیں،اورمصنف کی رہ نمائی کے لیے اپنے تایاابّامرحوم کی شیشم کی فریم والی مٹی مٹائی تصویرجیب میں ڈال کرآئے ہیں۔اُن کاخیال تھاکہ وہ ایک گلاب کے پھول کوسُونگھتے ہوئی حج کے لیے پاسپورٹ سائزتصویراُتروائیں گے،اورنشست پرمحض اِس وجہ سے نہیں بیٹھتے تھے کہ بھلایہ کیسے ہوسکتاہے کہ آپ(فوٹوگرافر)کھڑے رہیں،اور میں بیٹھ جاؤں،مشتاق احمدیوسفی نے اِس منظرکی یوں تصویرکشی کی ہے:
’’ہم نے کہا!اب تھوڑاریلکس(Relax )کیجیے،بولے!کہاں کروں؟،میرامطلب ہے بدن ذراڈھیلا چھوڑدیجیے،اوریہ بھول جائیے کہ آپ کیمرے کے سامنے بیٹھے ہیں۔بولے!اچھایہ بات ہے،فوراً بندھی ہوئی مٹھیاں کھول دیں،آنکھیں جھپکائیں اورپھیپھڑوں کواپنا قدرتی فعل پھرشروع کرنے کی اجازت دی۔ہم نے اِس’’نیچرل پوز‘‘سے فائدہ اُٹھانے کی غرض سے دوڑدوڑکرہرچیزکوآخری’’ٹچ‘‘ دیا،جس میں یہ بندھاٹکافقرہ بھی شامل تھا، اِدھردیکھیے،میری طرف،ذرامسکرایئے!بٹن دَباکرہم ’’شکریہ‘‘کہنے والے تھے کہ یہ دیکھ کر ایرانی قالین پیروں تلے سے نکل گیاکہ وہ ہمارے کہنے سے پہلے ہی خُداجانے کب سے ریلکس کرنے کی عرض سے اپنی بتیسی ہاتھ میں لیے ہنسے چلے جارہے تھے،ہم نے کہا صاحب !اب نہ ہنسیے،بولے!توپھرآپ سامنے سے ہٹ جایئے۔۔۔‘‘۔(۴۲)
کہیں ہمسایوں اوراہلِ محلہ کے لخت ہائے جگرنومولودان کی تصویرکشی کی ہے،اوراِس ضمن میں والدین کے طرح طرح کی فرمائشیں بھی ہیں،جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ تصویرصاف ہو،بچہ خُوب صُورت اورصحت مندنظر آئے، نیزتصویرسے بچے کی ذہانت بھی نمایاں ہو،اورسب سے مشکل فرمائش یہ ہے کہ نومولودکی شکل وصُورت اپنے خاندان اوروالدین سے حیران کن حدتک ملتی جلتی ہونی چاہیے۔فوٹوگرافرنے آخراِن چونچلوں اورفرمائشوں سے تھک ہار اور تنگ آکرایک دِن برسبیلِ تذکرہ اپنے ہم زادمرزاعبدالودودبیگ سے اپنی اِس اُلجھن اوربے بسی کارونا رویا،تواُس نے اِس ضمن میں اپنا طریقۂ واردات یوں سمجھایا:
’’تمھاری طرح ہمسایوں کے لخت ہائے جگرکی تصویریں کھنچتے کھینچتے اپنابھی بھرکس نکل گیا تھا،پھرمیں نے تویہ کیاکہ ایک پھول دارفراک خریدی،اوراُس میں ایک نوزائیدہ بچے کی تصویرکھینچی،اوراُس کی تین درجن کاپیاں بناکراپنے پاس رکھ لیں۔اب جوکوئی اپنے نومولود کی تصویرکی فرمائش کرتاہے تویہ شرط لگادیتا ہوں کہ اچھی تصویردَرکارہے تویہ خُوب صُورت پھل دارفراک پہناکرکھنچواؤ۔پھرکیمرے میںفلم ڈالے بغیربٹن دباتاہوں،اوردوتین دِن کا بھلاوادے کراِسی اُم التصاویرکی ایک کاپی پکڑادیتاہوں۔ہرباپ کو اِس میں اپنی شباہت نظرآتی ہے۔۔۔‘‘۔(۴۳)
توکہیں آغاتلمیذالرحمٰن چاکسوی کوایکسڈنٹ شُدہ کارکی ایسے زاویہ سے فوٹو گرافی دَرکارہے،جس سے اُن کی بے گُناہی اور مخالف گاڑی کاقصوربھی ثابت ہوجائے،حالاں کہ واردات کانقشہ کچھ یوں تھا:
’’ٹکرہونے سے ایک دوسیکنڈپہلے ہی وہ کارسے کودکرغریب خانے کی سمت روانہ ہوگئے تھے،تاکہ چالان ہوتے ہی اپنی صفائی میں بطورِدلیل نمبر۲حادثہ کافوٹومع فوٹوگرافرپیش کر سکیں۔دلیل نمبر۱یہ تھی کہ جس لمحے کارٹرام سے ٹکرائی،وہ کارمیں موجودہی نہیں تھے ۔۔۔ ہانپتے کانپتے موقعۂ واردات پرپہنچے،دیکھا کہ آغاکی کارکابمپرٹرام کے بمپرپرچڑھاہواہے، اگلاحصّہ ہوامیں معلّق ہے،اورایک لونڈاپہیّا گھماگھماکر دُوسرے سے کہہ رہاہے،ابے فضلو! اِس کے توپہیّے بھی ہیں۔آغاکااصرارتھاکہ تصویریں ایسے زاویے سے لی جائیں،جس سے ثابت ہوکہ پہلے مشتعل ٹرام نے کارکے ٹکرماری،اُس کے بعدکارٹکرائی،وہ بھی حفاظتِ خُود اختیاری میں۔۔۔حادثے کوفلماتے وقت ہم اِس نتیجے پرپہنچے کہ اِس پیش بندی کی چنداں ضرورت نہ تھی،اِس لیے کہ جس زاویے سے مضروبہ ملزمہ پرچڑھی تھی اورجس پینترے سے آغانے ٹرام اورقانون سے ٹکرلی تھی،اُسے دیکھتے ہوئے اُن کاچالان اقدامِ خُودکشی میں بھلے ہی ہوجائے،ٹرام کو نقصان پہنچانے کاسوال پیدانہیں ہوتاتھا۔۔۔‘‘۔ (۴۴)
یہاں سیٹھ عبدالغفورابراہیم حاجی محمداسمٰعیل یونس چھابڑی والاکے عقدِ ثانی پرتصویرکاری کامسئلہ نہایت دِل چسپ لیکن انتہائی مشکل بھی ہے،کیوں کہ ایک طرف سیٹھ صاحب کیمرہ میں سے خُودکوملاحظہ کرناچاہتے تھے کہ وہ کیسے لگ رہے ہیں اوردُوسری طرف اُن کایہ منشا بھی ہے کہ دُلہن صرف اُس لمحے نقاب اُلٹے گی جب کیمرے کابٹن دبانا مقصودہوگا،اوربٹن دباتے ہوئے بھی اُن کی یہ شرط ہے کہ فوٹوگرافرعینک اُتارلے،جس کے باعث فوٹوگرافرکواُس کی یہ نئی نویلی دُلہن نظرہی نہ آئے:
’’ہمارا’’ریڈی‘‘کہناتھاکہ تپائی سے پھرزقندلگاکرہم سے لپٹ گئے،یااللہ خیر!اب کیالفڑا ہے سیٹھ؟، معلوم ہوااب کی دفعہ وہ بچشمِ خُودیہ دیکھناچاہتے تھے کہ وہ کیمرے میں کیسے لگ رہے ہیں۔۔۔جوہدایات سیٹھ صاحب بزبان گجراتی یااشاروں سے دیتے رہے،اُن کامنشا کم ازکم ہمارے فہمِ ناقص میں یہ آیاکہ دُلہن صرف اُس لمحے نقاب اُلٹے جب ہم بٹن دبائیں،اورجب ہم بٹن دبائیں توعینک اُتاردیں،اُن کا بس چلتاتوکیمرے کابھی ’’لینس‘‘ اُترواکرتصویرکھنچواتے۔۔۔‘‘۔(۴۵)
ایک اسٹیج ڈرامے’’اکبرِاعظم‘‘کی عکس بندی کامعاملہ اِس سے بھی زیادہ پُرلطف وپُرفن ہے،جس کی تصویریں مصنف نے کھنچوانے کے بعدجب صاف کرکے اداکاروں اوراداکاراؤں کودکھائیں تواپنی اپنی تصاویردیکھ کراُن کے بارے میں تمام لوگوں نے یوں تبصرہ کیا:
’’ظلِ سبحانی نے فرمایا،ہم نے انارکلی کواُس کی بے راہ رَوی پرڈانٹتے وقت آنکھ نہیں ماری تھی۔شہزادہ سلیم اپنافوٹوملاحظہ فرماکرکہنے لگے کہ یہ تونگٹیوہے۔شیخ ابوالفضل نے کہا!نور جہان،بیوۂ شیرافگن،تصویرمیں سرتاپامَردافگن نظرآتی ہے۔راجہ مان سنگھ کڑک کربولے کہ ہمارے آبِ رواں کے انگرکھے میںٹوڈرمل کی پسلیاں کیسے نظرآرہی ہیں؟۔مُلّادوپیازہ نے پُوچھایہ میرے ہاتھ میں دس اُنگلیاں کیوں لگادیں آپ نے؟۔ہم نے کہا!آپ ہل جوگئے تھے۔بولے بالکل غلط،خُودآپ کاہاتھ ہل رہاتھا،بلکہ میں نے ہاتھ سے آپ کواشارہ بھی کیا تھاکہ کیمرہ مضبوطی سے پکڑیے۔انارکلی کی والدہ کہ بڑے کلّے ٹھلّے کی عورت ہیں،تنک کر بولیں،اللہ نہ کرے،میری چاندسی بنّوایسی ہو۔۔۔مختصریہ کہ ہرشخص شاکی،ہرشخص خفا۔اکبرِ اعظم کے نورتن تونورتن،خواجہ سراتک ہمارے خُون کے پیاسے ہورہے تھے۔‘‘۔(۴۶)
غرض یہ کہ پورے کاپوراانشائیہ طنزومزاح کاجان دارمُرقّع ہے،اِس لیے یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ مشتاق احمدیوسفی نے کتاب کے دیباچے میں مزاح نگاری کاجوکڑامعیارقائم کیاتھا’’خاکم بَدہن‘‘ کی صُورت میں اس کابڑا شان دارعملی نمونہ فراہم کیاہے،اِس ضمن میں ڈاکٹرمحمدطاہریوں رقم طرازہیں:
’’یہ دِل چسپ بات ہے کہ یوسفی کے پہلے مجموعے(چراغ تلے)کاآخری انشائیہ اور دُوسرے مجموعے (خاکم بَدہن)کے آخری انشائیہ کے عنوانات غالبؔ کے مصرعوں سے ماخوذہیں۔پہلے میں تجریدی آرٹس کوموضوع بنایاگیاہے،دُوسرے(چندتصویرِبُتاں) میں فوٹوگرافی کے فن میں درک نہ ہونے کے باعث مصنف کادُوسرے شناساؤں سے تعلّقات خراب ہونے کی حکایت کولُطف لے لے کربیان کیاگیا ہے۔یوسفی نے اِس انشائیے کوبھی طنزومزاح کے رنگ سے خُوش نمابنانے کی کوشش کی ہے،لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے ہیں،اِس میں روانی،فطری پن اوربے ساختگی کاوہ احساس بھی نہیں،جواِس مجموعہ کے دُوسرے انشائیوں میں دیکھنے کوملتاہے۔فنّی نقطۂ نظرسے یوسفی کی گرفت کہیں کہیں ڈھیلی پڑگئی ہے، اِس کے مقابلے میں’’کاغذی ہے پیراہن‘‘میں زیادہ برجستگی اورشگفتگی موجود ہے۔۔۔‘‘۔(۴۷)
مشتاق احمدیوسفی نے اِس انشائیہ میں اسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے مزاحیہ صُورتِ واقعہ،رعایتِ لفظی،موازنہ، مبالغہ اورمزاحیہ کرداروں سے کام لیاہے۔اِس انشائیہ کی فضاپرمجموعی طورپر’’مزاح‘‘کارنگ چھایاہواہے۔انشائیہ نگاری کے تکنیک میں موضوع پر نئے اندازسے روشنی ڈالنے،اندازِبیان کی تازگی،غیررسمی انداز،بات سے بات نکالتے ہوئے ذہنی آوارہ حرامی،مشاہدات کی گہرائی اورانکشافِ ذات کے نتیجے میں شگفتہ اورکامیاب انشائیہ کہلانے کامستحق ہے۔
مشتاق احمدیوسفی نے اپنے انشائیوں میں اسلوبیاتی تکنیکی لحاظ سے اُن تمام نشتروں سے کام لیاہے جن سے جدیدانگریزی اوردیگر بدیسی مزاح نگاروں نے کام لے کراپنی تخلیقات میں کشش اوردِل فریبی پیداکرلی ہے۔ مشتاق احمدیوسفی نے مزاحیہ کرداروں، موازنہ،مبالغہ،لفظی ابہام گوئی،تحریف،تقلیب،بذلہ سنجی،تکرارلفظی،رعایتِ لفظی،قولِ محال،تجنیس، بریکٹ ،اعدادوعلامات اور تشبیہ وغیرہ تمام مزاحیہ حربوں سے لیس ہوکرطنزومزاح کے میدان میں قدم رکھاہے،جس کے سبب اُن کے قاری کے لیے ہنسنے کے علاوہ کوئی راہِ فرارہوتی ہی نہیں ہے۔
موضوعات کے انتخاب میں طنزومزاح نگارکوجس قدرآزادی حاصل ہوتی ہے ایسی آزادی شایدہی کسی اور فن کارکوحاصل ہو،اُس کے لیے معاشرے کاہرعنوان اورہررُخ اہمیت رکھتاہے۔کسی عام فردکے لیے کوئی ایک شئے خواہ کتنی ہی اہمیّت کاحامل یا قابلِ نظراندازہو،لیکن طنزومزاح نگارکواپنے ماحول کی ہرشئے خیال آرائی اورخامہ فرسائی کی دعوت دیتی ہے،اُن کے لیے موضوعات سے زیادہ اہمیّت اِس بات کی ہے کہ موضوعات کے تعلّق سے اُس کا زاویۂ نظراوراندازِفکرکیاہے،اگراُس کارویّہ صحت منداورصالح ہو توموضوع اُبھرآئے گا،اوراُس کافن نکھرتارہے گا، قارئین متاثرہوں گے،جس کے باعث مقصدیّت کی تکمیل ہوگی،یہی طنزومزاح نگارکی کامیابی اوراُس کے ُاسلوبیاتی تکنیک کامعراج ہے۔
’’خاص‘‘موضوعات پرلکھناآسان ہے،لیکن ’’عام‘‘موضوعات کوخاص بنانے کے لیے مصنف کی شخصیّت میں گہرائی، نظرمیں بصیرت،کائناتی صداقتوں کی تلاش اورمشابہتیں دیکھنے والی نگاہ درکارہے۔مشتاق احمدیوسفی کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے یہ تمام صفات دویعت کی ہیں،یہ اُن کاخاصہ ہے کہ اُنھوں نے عام،فرسودہ،متروک اورنظر انداز شُدہ موضوعات پرخامہ فرسائی کرتے ہوئے بھی اپنے اُسلوبیاتی فنّی پُختگی کے باعث اُن میں ایسی جان ڈال دی ہے کہ قاری کی توجّہ فوراًاپنی طرف مبذول کردیتے ہیں۔
مشتاق احمدیوسفی کے انشائیوں کے موضوعات بہت عام،بے حدگھریلواورانتہائی معاشرتی ہیں۔اُس نے تیمارداری، تعزیّت،حکیم،ڈاکٹر،کھانے پینے کے عادات،موسم،لباس ظاہری آداب واخلاق،گھریلوملازمین،کرائے کے مکان،پڑوسی،مغرب پرستی،نت نئے فیشن،برخودغلط افراد،تخلیق کار،نقّاد،شعرا،خُودساختہ انیٹلکچول،مولوی،توہّم پرستی،پھوہڑبیوی اورزن مُریدشوہرعرض تمام عام معاشرتی موضوعات پراپنے انشائیوں میں خامہ فرسائی کرکے ناہم وارحقائق سے پردہ کُشائی کی ہے۔اُس نے اُسلوبیاتی لحاظ سے تمام ممکنہ تکنیک کے استعمال سے اِن عام موضوعات غیرمعمولی بناکرپیش کیاہے۔
مشتاق احمدیوسفی کی انشائیہ نگاری میں انکشافِ حقیقت سے انکشافِ ذات کاسفرہے۔بلاشُبہ اُن کے انشائیوں کے موضوعات پامال اورنہایت معمولی ہیں،لیکن وہ اِن معمولی موضوعات کوغیرمعمولی بناکرصرف پیش ہی نہیں کرتے بلکہ اپنی فنّی وفکری پُختگی اوراُسلوبیاتی تکنیکی جدّتوں سے وہ اپنے قاری کواپناہم نوابھی بنالیتے ہیں،یہ ایک نہایت مشکل مرحلہ ہے کہ قاری اپنے زاویۂ نظر سے دَست بردارہوکرلکھاری کے نئے زاویۂ فکرکامویدبن جائے،اور یہاں مشتاق احمدیوسفی پُوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔قاری انشائیہ پڑھ کراُن کاہم خیال وہم نوابن کر ہی کتاب بندکردیتاہے۔
اِس بات کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ مشتاق احمدیوسفی کازندگی کاتصوّراورزمانے کامطالعہ اورمشاہدہ گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے۔اُنھوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کاباریک بینی کے ساتھ جائزہ لیاہے۔اُنھوں نے اپنے انشائیوں میں ادبی،معاشی، سیاسی،معاشرتی اورتہذیبی موضوعات پراُنھوں نے دِل کھول کرلکھاہے۔اُن کے ہاں کہیں طنزہے توکہیں مزاح اورکہیں ان دونوں کا امتزاج ہے،لیکن جہاں’’طنز‘‘کاپلّہ بھاری ہے وہاں نہ ناصحانہ اندازہے اورنہ ہی تلخی محسوس ہوتی ہے،اِسی طرح جہاں صرف’’مزاح‘‘ ہے یامزاح کاپلّہ بھاری ہے وہاں سطحیّت یا پکڑپن کااحساس نہیں ہوتابلکہ ہرجگہ تہذیبی قدروں کے رچاؤکے باعث ایک شائستگی،ایک متانت،ایک رکھ رکھاؤ اورایک خُوش سلیقی ملے گی۔اِس کے باعث اُن کے انشائیوں میں ایک طرح داری بھی پیداہوتی ہے، عالمانہ انداز،باغ وبہاراُسلوب،شعروادب کی کلاسیکی اورمؤقرروایات سے جوعصرِحاضرکے کسی بھی طنزوزاح نگار کے مقابلے میں مشتاق احمدیوسفی کے ہاں بہت زیادہ ہے۔
مشتاق احمدیوسفی کے انشائیوں سے پوری طرح لُطف اندوزہونے کے لیے اعلیٰ ادبی ذوق،اساتذہ کے شعری اورنثری سرمائے پرگہری نظر،وسیع مطالعہ اورلُغت سے کماحقہ واقفیّت اَزحدضروری ہے۔اِس خصوص میں کسی خاص مثال کی ضرورت اِس لیے نہیں کہ اُن کے ہرانشائیہ میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔اُن کے ہاں وہ مخصوص مقامیّت بھی نہیں ہے جوغیرمقامی قارئین کے لیے جہاں تہاں مبہم بلکہ بے معنی ہوتی ہے،اُن کے ہاں جوبعض علاقوں کے نام مل بھی جاتے ہیں ان کی حیثیّت حوالوں کی سی ہے،یہ چیزاُن کے مزاح کے کینوس کوزیادہ کُشادہ ،ہمہ گیر اور مقبولیّت کے دائرہ کوزیادہ وسیع بنادیتی ہے،اپنے غیرمعمولی اعلیٰ اوراُونچے معیارکوبرقرار رکھتے ہوئے مختلف شہروں کے بارے میں مزاح کے پھول کے ساتھ ساتھ طنزکے انتہائی نوکیلے تیربھی برسادیے ہیں۔
انشائیہ نگارکوبات کرنے کافن آناضروری ہے،بات میں بات پیداکرنی آجائے تب بات بن جاتی ہے۔ مشتاق احمدیوسفی کوبات کرنے کافن آتاہے،وہ بات میں بات نکالتے ہوئے ذہنی آوارہ حرامی کامظاہرہ کرتے رہتے ہیں،ایسے میں وہ اپنے موضوع سے غیرمحسوس اندازمیں دورجاکردُوسرے موضوعات کے مدارمیں داخل ہوکرکچھ چکّر کاٹ لینے کے بعدواپس اُسی طرح ایک غیر محسوس اندازسے اپنے موضوع کے مدارمیں داخل ہوجاتے ہیں۔ اُن کے ہاں انتشارِذہنی اورپراگندہ خیالی نہیں ہے،اُن کی ساری باتیں باہم مربوط اورتسلسل لیے ہوتی ہیں،یوں محسوس ہی نہیں ہوتاکہ وہ حشووزوائدسے کام لے رہے ہیں۔بات میں بات پیدا کرنے کی وجہ سے اُن کے بعض انشائیے طویل اور کچھ تو بے حدہی طویل ہیں،لیکن آمد،سلجھے ہوئے اندازاورشگفتہ مزاج کی وجہ سے وہ قارئین کی توجہ سمیٹنے اور حاصل کرتے ہی رہتے ہیں،اُن کے ہاں طوالت بارِخاطرنہیں ہوتی اورساری باتیں دل موہ لیتی ہیں۔
مشتاق احمدیوسفی نے اپنے انشائیوں میں ادب ومعاشرت کے ساتھ’’سیاست‘‘کوبھی اپناموضوع بنایا ہے، یہاں ان کے ہاں ایسی گہرائی اورمعنویّت ہے کہ قاری اُن کے سیاسی شعور،سوچ بوجھ اورفکرکی بلاخیزی کاقائل ہوہی جاتاہے،وہ اِس اندازسے بات کرتے ہیں کہ گویامقصودیہ تھاہی نہیں،بس برسبیلِ تذکرہ کہہ رہے ہیں۔اِس اُسلوبیاتی تکنیک کواختیارکرنے کے لیے نہ جانے اُنھیں کتنے جتن کرنے پڑے ہوں گے،اُن کے مزاح سے پھرپور لُطف اندوزہونے کے لیے وطنِ عزیزکی سیاسی تاریخ اورروزِاوّل سے تا حال سیاسی نشیب وفرازاورپس منظرسے گہری واقفیّت ضروری ہے۔
مشتاق احمدیوسفی اپنے انشائیوں میں’’طنز‘‘کے تیرکچھ زیادہ تیز نہیں ہیں،لیکن’’مزاح‘‘کے پھول خُوب کھلے ہوئے ہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بنیادی طورپر’’مزاح نگار‘‘ہیں،اُن کامسلک انسان ا ورانسانیّت سے رَج کر محبت کرناہے،تاہم ایسابھی نہیں ہے کہ اُن کادِل اِردگردکی معاشرتی ناسوروں پرکڑتانہیں،ایک بصیرت آفروزلکھاری کی طرح وہ یہ سب ناہم واریاں محسوس کرکے ڈھکے چُھپے اندازمیں ان پر’’طنز‘‘کے تیربھی چلاتے ہیں،لیکن اُن کے ہاں’’طنز‘‘اور’’مزاح‘‘کے امتزاج سے قارئین کوغوروفکرکی دعوت بھی مل جاتی ہے۔اُن کے انشائیوں سے یوں بھی لُطف اندوزہوں گے لیکن ذراغوروفکرسے کام لیں تومزاح کی تہیں کھلتی جائیں گی اور ایک نئی چاشنی اور کیفیّت کا احساس ہوگا۔اُن کے انشائیے نہ صرف یہ کہ فکرانگیزہیں بلکہ اُن کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ فن کار نے خُودبھی غوروفکرسے کام لیاہے،چناں چہ اُن کے بیشترانشائیے طویل سہی،لیکن جہاں زبان اُن کے غور و فکرکا حاصل ہے،وہاں وہ بڑی سے بڑی بات محض چندالفاظ یاایک جملے میں بیان کردیتے ہیں،کہیں’’قولِ محال‘‘کی شکل میں توکبھی’’صنعتِ تجنیس‘‘سے نکھار پیداکرتے ہیں۔طنزومزاح کے نام پرلطیفے پیش کرنااوربات ہے اوریوں ایک آدھ جُملے میں طنزومزاح کو نچوڑدینا اوربات ہے،یہ چیزایک عمرکی ریاضت،غیرمعمولی پختگی،گہرے مشاہدات، شدیدتجربات،کلاسیکی ادب کے مطالعے، ذہنِ رسا، مسلسل غوروفکر،زبان وبیان پربے پناہ قُدرت وقابواورتمام اُسلوبیاتی تکنیک سے بھرپُور استفادے کے بعدہی ہاتھ آتی ہے۔

ڈاکٹرروبینہ شاہین۔شعبۂ اُردو۔جامعۂ پشاور
ڈاکٹرعبدالمتین خان۔شعبۂ اُردو۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں

 

حوالہ جات
۱۔        مشتاق احمدیوسفی۔ خاکم بَدہن،  مکتبۂ دانیال کراچی:۲۰۱۳ء   ص:۰۷
۲۔        ایضاً       ص:۰۹   ۳۔ ایضاً    ص:۰۸   ۴۔ ایضاً    ص:۱۰
۵۔       محمدطاہرڈاکٹر۔ مشتاق احمدیوسفی کی ادبی خدمات، شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ:۲۰۰۳ء   ص:۱۱۷
۶۔        مشتاق احمدیوسفی۔ خاکم بَدہن، مکتبۂ دانیال کراچی:۲۰۱۳ء   ص:۲۶
۷۔       ایضاً                                       ص:۵۳
۸۔       نورالحسن نقوی۔ مشتاق احمدیوسفی کافن،  رِسالہ’’فنون‘‘لاہور:دسمبر:۱۹۸۸ء  ص:۵۶
۹۔        مشتاق احمدیوسفی۔  خاکم بَدہن،  مکتبۂ دانیال کراچی:۲۰۱۳ء  ص:۳۷
۱۰۔       ایضاً       ص:۴۱    ۱۱۔  ایضاً    ص:۳۶   ۱۲۔ ایضاً   ص:۴۳           ۱۳۔ایضاً   ص:۴۷
۱۴۔      ایضاً       ص:۶۳   ۱۵۔ایضاً   ص:۶۸   ۱۶۔ایضاً   ص:۷۲           ۱۷۔ایضاً   ص:۶۱
۱۸۔      ایضاً       ص:۶۷   ۱۹۔ ایضاً   ص:۶۲   ۲۰۔ایضاً  ص:۷۴           ۲۱۔ایضاً   ص:۶۸
۲۲۔       مرزاغالبؔ۔ دیوانِ غالبؔ،  کشمیرکتاب گھرلاہور:۱۹۸۱ء  ص:۲۳
۲۳۔      مشتاق احمدیوسفی ۔خاکم بَدہن،  مکتبۂ دانیال کراچی:۲۰۱۳ء  ص:۱۰۷
۲۴۔      ایضاً       ص:۱۰۵  ۲۵۔ایضاً  ص:۱۱۵   ۲۶۔ ایضاً  ص:۱۰۷           ۲۷۔ ایضاً ص:۱۱۸
۲۸۔      ایضاً       ص:۱۰۷۔۱۰۶       ۲۹۔ایضاً   ص:۱۰۶
۳۰۔      محمدطاہرڈاکٹر۔  مشتاق احمدیوسفی کی ادبی خدمات، شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ:۲۰۰۳ء  ص:۱۲۱
۳۱۔مشتاق احمدیوسفی۔  خاکم بدَہن، مکتبۂ دانیال کراچی:۲۰۱۳ء  ص:۱۲۰
۳۲۔      ایضاً       ص:۱۲۴  ۳۳۔ ایضاً  ص:۱۲۴  ۳۴۔ ایضاً  ص:۱۲۳           ۳۵۔ایضاً  ص:۱۲۴
۳۶۔      ایضاً       ص:۱۳۱   ۳۷۔ ایضاً  ص:۱۴۱   ۳۸۔ایضاً  ص:۱۵۶۔۱۵۵
۳۹۔      ایضاً       ص:۱۵۹  ۴۰۔ ایضاً  ص:۱۵۴۔۱۵۳
۴۱۔      مرزاغالبؔ ۔  دیوانِ غالبؔ،  کشمیرکتاب گھر:۱۹۸۱ء  ص:۱۵
۴۲۔مشتاق احمدیوسفی۔ خاکم بَد ہن، مکتبۂ دانیال کراچی:۲۰۱۳ء  ص:۱۷۶
۴۳۔      ایضاً       ص:۱۸۰             ۴۴۔ ایضاً  ص:۱۸۲۔۱۸۱
۴۵۔      ایضاً       ص:۱۸۴            ۴۶۔ ایضاً  ص:۱۸۹  ۴۷۔ایضاً           ص:۱۲۴

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com