اردو کے فروغ میں امیر خسرو کی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
ندیم حسن

ABSTRACT
Amir Khusro is a prominent figure of urdu and persian language and literature.He was associated with the suffism movement in India.He wrote hundreds of Urdu long essays in Urdu and did new experiments like Rekhta in Urdu poetry which played a pivotal role in urging new possibilities of urdu prose and poetry.In this research paper the scholar has analyzed his work specially his poetry in the background of suffism movement in India .

           برصغیر پا ک وہند میں بادشاہوں کے دربار ادبی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیو ں کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتے تھے ۔مگر ان درباروں تک رسائی عوام کی بجائے چند مقربین اور حاشیہ نشینوں کو میسر تھی ۔جن کی سرپرستی میں شاعر وں اور ادبیوں کا ایک مخصوص حلقہ علم و ادب کی آبیاری میں مصروف رہتا۔ ادب کے اس اشرافیہ دائرے میں رہنے والے ادیب اور شاعر معاشی حوالوں سے فوائد بٹورتے رہتے تھے لیکن ادب کی صحیح معنوں میں آبیاری ان درباروں سے ہٹ کر بھی ہو رہی تھی اور ایسے عوامی دربار موجود تھے ،جہا ں ہر ملک اور ہر خطے کے انسان باآسانی رسائی حاصل کرسکتے تھے ۔ یہ صوفیائے کرام کے آستانے اور خانقاہیں تھیں جہاں سے تما م انسان روحانیت، صبر و سکون ،قنا عت اور توکل کا عملی درس حاصل کرتے رہتے تھے۔ اور جن کی مبلغانہ کوششوں اور کاوشوں کی وجہ سے زبان و ادب کو بھی فروغ مل رہاتھا۔
صوفیا ئے کرام برصغیر پاک وہند کی عوامی فضاؤں میں جہاں زبان کو تنومند بنارہے تھے اور ادب کے پودے کی آبیاری میں مصروف تھے تہاں انہوں روشنی کے پھیلانے کی اہم ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھارکھی تھی۔انہوں نے اپنے خلوص ،حسن اخلاق اور بے لوث خدمت کے ذریعے بر صغیر کی رو حانی فضا میں انقلاب بر پا کردیا ۔ان بزرگو ں نے برصغیر کی علمی، ادبی، تہذیبی اور ثقافتی زندگی کو توہمات سے نکالنے اور زمینی حقائق کے ساتھ آنکھیں چار کرنے کے قابل بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح برصغیرمیں اسلامی تصوف کی عالمگیر تحریک شروع ہوئی اور شعر و ادب ،فلسفہ اور روحانیات کو یہاں ایک ایسی سازگار فضا ہاتھ آئی جس کی بدولت زندگی کو ایک نئے نقطۂ نظر سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔
صوفیا اور درویشوں نے عوام کے دل حسن اخلاق سے جیت لیے۔ لہٰذا شہنشاہوں کے ایوانوں اور درباروں کی نسبت فقیروں کے حجروں میں عوام کی کثیر تعداد ہمہ وقت موجود رہتی تھی جوان کے لئے روحانی فیض کا ذریعہ تھی۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ مبلغانہ مقاصد کے حصول کو فی الفور ممکن بنانے کے لیے ایک ایسی زبان کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا جائے جس میں دربار کے تصنع کے بجائے درویشانہ محبوبیت اور عوامی راغبیت موجود ہو۔ یہی وجہ تھی کہ صوفیا کی نظر ریختہ پر پڑی اور اس میں دوہے اور گیت اوررسالے لکھ کر اس نوزائیدہ عوامی زبان کو فروغ دینے کے امکانات پیدا کر دیے ۔
صوفیا کا پیغام انسانی ہمدردی ، خلوص و محبت کا تھا ۔ وہ انسان کے باطن سے سروکار رکھتے تھے ۔ انہوں نے اپنے خیال کے اظہار کے لئے اس زبان کواپنایا جو عام لوگوں کے فہم ادراک کے قریب تر ہو کیو نکہ لوگوں کو ہم خیال بنانے کے لئے ایک ایسی زبان درکارہوتی ہے جسے سیکھنے کے لیے انہیں دماغی خفت نہ اٹھانی پڑے۔لہٰذا ایسی صورت میں علمی زبان کی بجائے عوامی زبان ہی زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے ۔ـچنانچہ وعظ وتلقین اوررشد وہدایت کے لئے صوفیا نے اپنی علمی فضیلت کو راستے کی دیوار نہ بنا یا اور اس دور کی ٹکسالی زبان کو ذریعہ ابلاغ بنانے کی بجائے عوام سے انہی کی کھردری بولی میں بات چیت کی ۔وہ ملک کے جس حصے میں بھی گئے انھوں نے یہی طریقہ کار اختیار کیا کہ بعض دیسی الفاظ استعمال میں لاکر انہیں فارسی اورعربی سے مخلوط کرنا شروع کردیا۔ ایسی قدیم اردو ستر ہو یں صدی عیسوی تک پورے ملک میں رائج ہوگئی ۔ جس کی ابتدائی نشوو نما میں صو فیا نے حصہ لیاتھا۔(۱)
اگر چہ صوفیا کا مطمح نظر ادب کی تخلیق بالکل نہیں تھا۔وہ عوام سے براہ راست خطاب کیا کرتے تھے۔تاہم یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ صوفیا کی ان کوششوں کی وجہ سے مشترکہ عوامی زبان کے فروغ کیلئے راستہ ہموار ہوتا گیا ۔ انکی نظم ونثر کا مقصد اصلاحی اور تبلیغی تھا اس لئے انہوں نے دقیق مسائل پر بحث و مباحثہ کے بجائے عوام کیلئے ایسی زبان کا انتخاب کیا جوسادہ اور تحریر و تقریر کیلئے موزوں اور پر اثر تھی ۔ ان کی تحریک کے زیراثر نظم ونثر کے جو نمونے سامنے آئے ان پر مقامی اثرات واضح نظر آتے ہیں ۔ یہ بزرگ اس زبان کے بڑے ادیب اور شاعرنہیں تھے ۔ ان کا مقصد زبان کی ترقی نہیں تھا۔ لیکن اس سلسلے میں زبان کو خود بخود فروغ اور ترقی حاصل ہوتی چلی گئی ۔اس میں نئی اصطلاحات شامل ہوئیں۔ بقول ڈاکٹر مولوی عبدالحق:
’’  ہندی یا اس نومولود زبان میں لکھنا اہل علم اپنے لئے باعث عار سمجھتے تھے اور اپنی عالمانہ تصانیف کواس حقیر اور بازاری زبان کے استعمال سے آلودہ کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ یہ صوفی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے جرات کی اور اس قفل کوتوڑا ۔ ۔۔۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگو ں نے بھی جوپہلے ہچکچاتے تھے اس زبان کا استعمال شعر وسخن ،زبان و تعلیم اور علم و حکمت کی اغراض کیلئے شروع کردیا۔یہی وجہ ہے کہ میں ان صوفیائے کرام کواردو کا محسن خیال کرتاہوں‘‘(۲)
اردو کے ابتدائی زمانے میں نئے اسالیب کے فروغ میں صوفیا کاکردار نہایت نمایا ں ہے۔لسانی حوالے سے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو میں مختلف مقامی بولیوں کے ادغام سے ایک وسیع ذخیر ہ الفاظ میسر آیا۔صوفیابرصغیر کے ہر علاقے میں پھیلے ہوئے تھے اس لئے اردو زبان میں ہندوستان کے ہر خطے کے الفاظ غیر محسوس طور پر شامل ہوتے چلے گئے۔یہی وجہ ہے کہ اس زبان کاکوئی ایک مرکز ومآخذ تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔
صوفیا نے ہندوستانی زبانوں کے مزاج کو عربی اور فارسی کے تہذیبی لہجے سے آشنا کیا ۔اس سلسلے میں انہوں نے دخیل الفاظ کے ذریعے اس خدمت کو سرانجام دینے کی کوشش کی اور ثانیاً انہوں نے تراجم کے ذریعے بھی مقامی زبانوں کو علمی اصطلاحات اور تراکیب سے گرانبار بنانے کی کوشش کی۔ صوفیا کی ا س تحریک کی ایک عطایہ بھی ہے کہ اس نے مقامی بولیوں کو عربی رسم الخط میں ڈھالنے اور عوام کو اس سے مانوس بنانے میں بھی اہم کردار اداکیا۔ ایک مشترکہ رسم الخط وجودمیں آیا تو اردو زبان ہندوستان کے گوشے گوشے میں سمجھی ،بولی اورلکھی جانے لگی۔مجموعی اعتبار سے صوفیا کی تحریک اردو کی نشوونماکے زمانے کی ایک اہم تحریک تھی اور اس کی اساس پر اردو زبان نے آنے والی صدیوں میں ارتقاکی کئی ایک منازل طے کیں۔(۳)
صوفیاکی تحریک کا ایک خاص پہلو موسیقی سے رغبت بھی ہے۔ہندوستان کے سلسلہ چشت نے سماع کوبڑی اہمیت دی۔لہٰذا صوفیانے خصوصی طورپر ایسی شاعری تخلیق کی جوباآسانی گائی جاسکے۔ اس عہد میں مقبول ترین صنف سخن ’’دوہاــ‘‘نظر آتی ہے ۔ صوفیانے ’’خیال‘‘،’’شہد ‘‘اور ’’شکوک ‘‘کی حالات کے لئے بھی موزوں الفاظ کے شعری پیکر مہیاکئے اور بعض مخصوص راگوں کو ملحوظ رکھ کر بھی اشعار کہے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتا ہے کہ صوفیا نے بالواسطہ طور پر گیت کے صنف کوفروغ دیا۔ اور فکری سطح پر خدا کی وحدانیت کو اپنا موضوع بنایا، مساوات انسانی اور عالمگیر اخوت کے بنیادی پیغام کو عام کرنے میں ان گیتوں کی کافی اہمیت ہے ۔ان گیتوں نے ہندوستانی سماج کو تہذیبی اور مذہبی دونوں حوالوں سے متاثر کیا اور یوں ہندوستان میں نسلی ، لسانی مذہبی اور تہذیبی اختلافات کو کم کرنے میں مدد ملی ۔
تصوف سے متعلقہ مضامین کی آمیزش نے رومانوی شاعری کے مزاج کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس میں جذباتی لطافت اور تقدس بھرنے کی کوشش کی ۔یوں عوامی شاعری کو انہوں نے تہذیب و شائستگی اور وقار و متانت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔تصوف نے مجاز کو حقیقت کی چاشنی سے روشناس کرایااور تلاشِ حقیقت سے متعلق ادق اور سنجیدہ مسائل کو مجاز کی رنگینی اوردلربائی عطاکرنے کی کوشش کی۔ اس سے قبل شاعری صداقتِ گفتار سے عاری ہوکر رہ گئی تھی ۔ لیکن تصوف نے اس کی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوش کی۔ صوفیانے شاعری کے فکری معیار کو بلند کیا اور اسے ارضیت سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی یوں لوگوں کو شاعری کے ایک نئے ذائقے سے روشنا س ہونے کا موقع ملا۔
’’تصوف اس زمانے کے تمدن میں شعروشاعری کے ہنگامے کا بہت بڑا محرک ہے۔ صوفیا اس عہد اور اس تہذیب کا ذہنی طبقہ ہیں اور تصوف ہی عقل ،علمیت ،تہذیب وا خلاق کا معیار تھا۔تصوف کے لئے ضروری ہوگیاتھا۔ عشق اس لئے عاشقی و معشوقی اس زمانے میں نہ صرف عام ہیں بلکہ عقلی صلاحیت ، اخلاقی بلندی اور تہذیب نفس کی دلیل سمجھے جاتے تھے ۔ بڑے بڑے عالم و فاضل اس درد سے آشناملیں گے یاکم ازکم ظاہر کریں گے کہ اس شدت سے آشنا رہ چکے ہیں۔ تاکہ انکاشمار اونچے اورخدارسیدہ لوگوں میں ہو‘‘(۴)
غرض یہ کہ فقریہ تصوف ہماری شاعری میں جہاں رسمی طورپر آگیاوہاں بھی اس نے بڑے شعراء کوتھوڑی دیر کے لئے عزم و ہمت ،عزت نفس اور بے نیازی کی دولت سے مالامال کیا۔ اورتصوف کے موضوع پر ہزاروں اشعارکا ذخیرہ ادب کوعطاکیا۔اس سلسلے میں جن صوفیا نے تصوف اور شعر و ادب اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ان میں امیر خسرو کا نام اہم ہے ۔
ہندوستان میں فارسی اور ہندی کے اولین شاعر اور موسیقی کے ماہر امیر خسرو کا لقب ابوالحسن اور نام یمین الدولہ تھا۔ عرفیت امیر خسرو ، آپ کے والد امیر سیف الدین ایک ترک سردار تھے ۔ وہ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے تھے۔اور آگرہ میں سکونت اختیار کرلی ۔
امیر خسرو کی والد ہ کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ کچھ عرصے کے بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔ امیر خسرو آٹھ برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کے نانا عماد الملک نے ان کی پرورش کی جوغیاث الدین کے عہدحکومت کے ممتاز اراکین مملکت شمار ہوتے تھے۔نانا کی سرپرستی کے باعث امیر خسرو کا تعلق دربار سے استوار ہوگیا ۔دوسری جانب گھر پر اسی عہدہ کی عمومی زبان ہندی میں گفتگو نے امیر خسرو کی شاعر انہ صلاحیتو ں اور موسیقی میں اختراعات کے ذوق کو جلابخشی۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر :
’’امیر خسرو کے حالات زندگی میں دربار،شاعری ،موسیقی اور تصوف تشکیلی عناصر کی مانندنظر آتے ہیں یعنی یہ چار عناصر ہوں توبنتا ہے امیر خسرو‘‘(۵)
امیرخسرو فارسی نظم ونثر پر دستگاہ کامل رکھتے تھے ۔ عربی ،سنسکرت اور بھاشاسے واقفیت تھی ۔باعمل صوفی تھے۔ موسیقی میں خاص مہارت رکھتے تھے ۔ اسی مہارت کی بنا پر انہیں نائک ـ کے لقب سے نوازا گیا ۔ انہیں فن موسیقی کا امام بھی تسلیم کیاجاتاہے اور شاعری کے وسیلے سے ’’طوطی ہند‘‘بھی قرار دیاجاتاہے۔ رام بابو سکسینہ اردو کا سب سے پہلاشاعرامیرخسرو دہلوی کو قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’زبان اردو کی ترقی کا ابتدائی زمانہ اتنادھندلا نظر آتاہے کہ اس کے خدوخال صاف طور پر نمایاں نہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے پہلا شاعر زبان اردو کا اس دھند لکے میں جوصاف طور پر نمایاں نظر آتاہے وہ حضرت امیرخسرو دہلوی ہیں جن کی شہرت بحیثیت ایک فارسی شاعرکے کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ۔ ان کا لقب اسی شاعری کی مناسبت سے ’’طوطئی ہند ‘‘ہے ۔ انہوں نے سب سے پہلے اردو الفاظ ادبی اغراض کے لیے استعمال کئے اور سب سے پہلے اردو میں شعر کہا۔ سب سے پہلی غزل اردو بھی امیرخسر و ہی کی طرف سے منسوب ہے‘‘(۶)
امیر خسرونے ہندی اور ایرانی موسیقی کی ازسرنوتدوین کی اور اسے اپنی اختراعات اور ایجادات سے مالا مال کیا۔ ان کی نظم و نثر اور تصانیف کی اصل تعداد تاحال معلوم نہیں ۔ مورخ برنی اور سیر الاولیاء کے مصنف اعجاز الحق قدوسی کے مطابق امیر خسرو کی تصانیف سے ایک کتب خانہ ترتیب دیاجاسکتاہے۔ جامی نے امیرخسرو کی تصانیف کی تعداد 99اور امین رازی نے 199بتائی ہیں۔ نواب محمد اسحاق نے 45تصانیف کا پتہ چلایا ہے۔ تاہم ڈاکٹر وحید مرزا ان میں سے 21تصانیف کو امیر خسرو کی قرار دیتے ہیں ۔ اگر چہ امیر خسرو کی تصانیف کی حتمی تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ خسرو زود گو تھے۔
’’ان کے اشعار کی تعداد بھی دولت شاہ کے نزدیک چار پانچ لاکھ کے درمیان ہے لیکن دولت شاہ نے خسرو کے جس بیان کا حوالہ دیاہے وہ خسرو کے محققین کونہ مل سکا۔ البتہ نظم میں خسروکے پانچ دیوان ،نومثنویاں ۔ جن میں خمسہ بھی شامل ہے۔ اور غزلیات کے متفرق مجموعے موجود ہیں‘‘(۷)
امیر خسرو نے خود بھی مختلف مواقع پر اپنی شاعرانہ پرگوئی کا فخریہ ذکر کیاہے۔ تحفتہ الشعرکے دیباچے میں انہوں نے فخریہ لکھاہے کہ کم سنی میں جب کہ میرے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے، اشعار میرے منہ سے موتیوں کی طرح جھڑتے تھے ۔ اسی طرح اپنی زودگوئی سے متعلق بھی اقرار کیاکہ میں شعر اتنی دیر میں کہتاہوں کہ جتنی دیرمیں لفظ بیت زبان سے اداکیاجائے۔
خسرو کو جلال الدین خلجی نے چالیس برس کی عمر میں ’’امیر ‘‘ کے خطاب سے نوازا ۔ آپ مختلف سلاطین ہند کے درباروں سے وابستہ رہے ۔ بادشاہوں کے درباروں سے وابستگی کے دوران  فوجی مہمات اور سفارتی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے ۔اپنی مصروف زندگی میں بھی وہ تصنیفی امور انجام دیتے رہے۔
 "خسرو کو بچپن سے شاعری کا شوق تھا۔ چنانچہ روایت ہے کہ فقط اٹھارہ برس کی عمر سے ہی ان کی شا عری کی شہرت شروع ہوگئی جو وقت اور مہمات کے ساتھ پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی۔ اشعار کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرتی ہے۔ خود خسرو نے اپنے دیوا ن  "غرۃ الکمال ـ"( ۲۹۳ھ)کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے عربی فارسی اور ہندوی میں ایک ایک دیوان مرتب کیا تھا"(۸)
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ امیر خسرو نے اپنے تین دواوین کا فخریہ اسلوب میں ذکر کیاہے ۔ تاہم ان کا ہندی دیوان ناپید ہے ۔ البتہ ان کے نام سے بے شمار کہاوتیں ، دو سخنے ، انمل ، ضرب الامثال ، کہا مکرنیاں ، دو ہے اور متعدد اشعار منسوب ہیں۔ رام بابو سکسینہ کے بقول اردو کی سب سے پہلی غزل کے خالق بھی امیر خسرو ہی تھے۔
’’سب سے پہلی غزل اردو بھی امیر خسرو ہی کی طرف سے منسوب ہے۔مگر اس کی ترکیب اس طرح ہے کہ ایک مصرع فارسی اور ایک اردو ہے اور بحر فارسی ہے اس کے علاوہ اکثر  پہیلیاں ، کہہ مکرنیاں ، انمل ، دو سخنے ، دوہرے وغیرہ جو آج تک مشہور ہیں ان کی طرف منسوب ہیں۔ بعض شعر ایسے بھی ہیں جن میں ٹھیٹھ ہندی الفاظ جو بمشکل اردو کہے جاتے ہیں سنسکرت بحروں میں بندھے ہیں‘‘(۹)
امیر خسروکو اردو غزل کابانی اور پہیلیوں، کہہ مکرنیوں ، دوہروں وغیرہ کا موجد تسلیم کرنے کے باوجود یہ اختلاف سامنے آتاہے کہ ان سے منسوب بہت سے اشعا ر ، اقوال ، ضرب الامثال حقیقت میں ان کی تخلیقات نہیں ، بلکہ محققین کے مطابق ان میں زیادہ تر بعد کے شعرا کی اختراعات ہیں۔ محققین کا یہ ماننا ہے کہ اگر امیر خسرو کے مادری زبان میں کہے تین چار لاکھ اشعار کو نقد کسوٹی پر پرکھا جائے تو صرف چار پانچ سو اشعار ایسے باقی رہ جائیں گے جنہیں امیر خسرو سے منسوب کیا جاسکتاہے۔ پھر اگر ان باقیات کی بھی محققانہ جانچ کی جائے تو تعداد دو سو تک پہنچ پائے گی۔ امیر خسروکی مشہور ترین تخلیق ’’خالق باری ‘‘ تصور کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں رام بابو سکینہ رقم طراز ہیں:
’’امیر خسرو فن موسیقی میں بھی کمال رکھتے تھے ۔ اُنہوں نے سب سے پہلے فارسی بحوراردو میں استعمال کیں۔ اور ان کی کتاب ’’خالق باری‘‘جس کے مطلع کے ابتدائی الفاظ یہی دو لفظ ’’خالق‘‘’’باری‘‘ ہیں اب تک ہمارے یہاں ایک مشہور درسی کتاب سمجھی جاتی ہے۔جس کو بچے شوق سے پڑھتے ہیں‘‘(۱۰)
مگر حافظ محمود شیرانی ’’خالق باری‘‘ کوامیر خسرو کی تصنیف تسلیم نہیں کرتے ۔ حافظ شیرانی کے مطابق یہ ضیاء الدین خسرو کی تحریر کردہ ہے۔ حافظ شیرانی نے اپنی تصنیف ’’پنجاب میں اردو‘‘ میں واضح طور پر خالق باری کو امیر خسرو کی تالیف تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ امیر کی طرف اس تالیف کا انتساب امیر کی ہتک سمجھتے ہیں ۔ تاہم اصغر امرو ہوی نے شیرانی جیسے فاضل کی بعض فروگزاشتوں کی جانب اشارہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اختر شیرانی کا خالق باری کو کسی مجہول ضیاء الدین خسرو سے منسوب کرنا درست نہیں اور خالق باری امیر خسرو کی ہی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی تالیف اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں رؤف پاریکھ کے مقالہ ’’اردو کی ابتدائی لغات او نصاب نامے ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیاہے :
"چونکہ امیر خسرو کی تخلیق سمجھے جانے والے فنون میں الحاق اور غلط انتساب کا عنصر بہت زیادہ ہے اور ان میں ہر دور میں اضافے کئے گئے لہٰذا’’خالق باری‘‘ کو حتمی طور پر امیر خسرو کی تصنیف ٹھہرانے یاکم ازکم اسے بہ تمام و کمال امیر خسرو ہی کے قلم سے نکلا متن سمجھنے کا معاملہ مشکوک ہی رہتاہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اردو کی اولین نصابی کتاب ’’خالق باری ‘‘ کی طرز پر لکھی گئی ایک مثنوی ہے جو اج چند سکندر آبادی نے ۹۶۰ھ میں تالیف کی تھی اور اسے ’’مثلِ خالق باری‘‘ کے نام سے مرتب بھی کیا گیا ہے‘‘(۱۱)
اختر شیرانی کے مطابق ’’خالق باری ‘‘نہ تو خسرو کی تصنیف ہے اور نہ ہی ان کے عہد کے لگ بھگ میں تصنیف کی گئی۔ بلکہ یہ ان کے دور سے بہت بعد میں لکھی گئی۔ اس میں ۲۱۵ اشعار ہیں عربی فارسی الفاظ کے ہندی مرادفات ابیات کی صورت میں بیان کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر وحید مرزا نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں پروفیسر اختر شیرانی سے اختلاف کیاہے ان کا فیصلہ ہے کہ ’’خالق باری ‘‘ یا اس کا زیادہ تر حصہ امیر خسرو کی تصنیف ضرور ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ امتدادِ زمانہ سے اس میں تصرف اور تحریف ہوتا رہاہے۔ اور بعض ہندی الفاظ کی شکل بدل گئی ہوگی۔
خالق باری کی مقبولیت کا یہ عالم تھاکہ بعد میں کئی لوگوں نے اسی نام سے نصاب نامے مرتب کئے۔ اور نہ صرف اردو میں بلکہ کئی دیگر زبانوں اور علاقائی بولیوں مثلاََ پنجابی ، گوجری ، دکنی ، برج ،تلگو وغیرہ کے نصاب بھی اسی کے مرہون منت ہیں ۔ ڈاکٹر سلیم اختر تحریر کرتے ہیں :
’’نصاب ناموں کا یہ سلسلہ لگ بھگ بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہا اور نصاب ناموں میں غالب کا ’’قادرنامہ‘‘بھی شامل ہے۔ایسی ہی ایک اور کتاب ـ’’کتاب الشفاء‘‘میں ایسے اشعار ملتے ہیں :
اگر خون کم ہے بلغم زیادہ
تو کھاگاجر چنے شلجم زیادہ
جو چاہے زخم سے آرام جلدی
تو پھر اس پر لگا تھوڑی سی ہلدی(۱۲)
امیر خسرو سے پانچ دیوان منسوب ہیں۔ لیکن ان کے دیوان ’’غرۃالکمال‘‘ نے خاصی شہرت حاصل کی ۔ اس کا ترجمہ او ر تعارف ابتداََ حبیب الرحمان شیروانی نے کیا ۔ بعد ازاں پروفیسر لطیف اللہ نے اس کا ترجمہ ۲۰۰۴ء کراچی سے طبع کیا ۔ اس کے علاوہ خسرو کی مثنویاں’’قرآن السعدین‘‘ اور’’نہ سپر‘‘نے بھی خاصی مقبولیت پائی۔ ان دونوں مثنویوں میں اُنہوں نے دہلی کی تہذیب اور ثقافت ، ہندؤں کے حسن و جمال، ہندوستان کے پھلوں ، پرندوں ، موسموں او رپان کی تعریف کی ہے۔
صفدر آہ نے لکھاہے کہ خسرو کے موجود ہندی کلام میں صرف دو دو ہے ، ایک غزل اور ایک قطعہ خالص ادبی رنگ کے ہیں۔ ان میں سے ایک قطعہ کو میر تقی میر نے اپنے تذکرہ ’’نکات الشعراء‘‘ میں درج کیا :
زرگر پسرلے چو ماہ پارہ
کچھ گھڑئیے سنواریے پکارا
نقد دل من گرفت و بشکست
پھر کچھ نہ گھڑا نہ کچھ سنوارا(۱۳)
امیر خسرو نے اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاکی وفات پر یہ دوہاکہا۔
گوری سودے سیج پر اورمکھ پہ ڈارے کیس
چل خسرو گھر اپنے سانج بھئی چوندیس۱۴؎
ملاوجہی کی ’’سب رس‘‘ میں بھی امیر خسرو کا یہ شعر درج ہے۔
پنکھا ہوکر میں ڈلی ساتی تیرا چاو
منجہ جلتی جنم گیا تیرے لیکھن باو (۱۵)
خسرو کی غزل اردو ادب کی مشہور ترین غزل ہے ۔ جو ریختہ کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے ۔ اس کی اہمیت پر ڈاکٹر سلیم اختر اظہا ر خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس کا مطالعہ محض لسانیاتی مو شگا فیوں اور حوالہ کے لئے ہی نہیں کیاجا سکتا کیونکہ اس میں غزل کی وہ اسا سی صفت بھی مِلتی ہے جسے’’ تغزل‘‘ سے تعبیر کیا جا تا ہے‘‘(۱۶)
اس غزل کا حوالہ قدیم تذکروں میں نہیں ملتا۔ مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اشپر نگر نے غزل کی طرف توجہ دلائی ۔ انہوں نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ ’’کیا سعدی شیرازی ریختہ گوتھے ؟ ‘‘میں بحر متقار ب میں قلم بند کی گئی یہ غزل مکمل طور پر شائع کی تھی ۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اِس غزل کے مآخذ پرتفصیلی بحث کی ہے ۔
’’تاریخی اعتبار سے امیر خسرو کے ہندوی کلام کا چوتھا اہم مآخذقدرت اللہ قاسم کا تذکرہ مجموعۂ نغز (اختتام : ۱۲۲۱۔۱۸۵۶)ہے ۔ جس میں امیر خسرو کی مشہور غزل : زحال مسکیں مکن تغافل :کے پانچ اشعار درج کئے گئے ہیں ۔ یہ اشعار آب حیات میں بھی ملتے ہیں ۔ اگر چہ آبِ حیات کا متن بعینہ وہی نہیں جس سے ظاہر ہے کہ آزاد کے سامنے اِسی غزل کا کوئی اور مآخذ تھا ۔محمود شیرانی نے مجموعہ نغز مرتب کر کے ۱۹۳۳ء میں شائع کیا۔ جبکہ وہ اپنی کتاب پنجاب میں اردو ۱۹۲۸ء میں شائع کرا چکے تھے اوراس میں اس غزل کے اشعار مجموعہ نغز کے قلمی نسخے ہی سے لئے ہوں گے لیکن اس میں بھی متن بالکل وہی نہیں ۔ گویا کہ شیرانی سامنے بھی اس غزل کا کوئی دوسرا مآخذرہا ہوگا ‘‘(۱۷)
گوپی چندنارنگ نے امیر خسرو کی غزل کا متن بھی پیش کیا۔
ز حال مسکین مکن تغافل دورائے نیناں مِلائے بتیاں
چو تابِ ہجراں ندام ایجاد، نہ لیوگاہے لگائے چھتیاں
یکا یک ازدل دو چشم جادو بصد فریبم ببروتسکیں
کسے پڑی ہے کہ جا سناوے پیارے پی کوہماری بتیاں
نشانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزو صلش چو عمر کو تہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیے کاٹوں اندھیری رتیاں
چو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں ہمہ گریاں بعشق آں مہ
نہ نیند نیناں ، نی انگ چیناں نہ آپ آوے نی بھیجے پتیاں
بحق آں مہ کہ روز محشر بداو مارا فریب خسرو
سیت من کی دورہے راکھوں جو جا ئے پاؤں پیا کی کھیتاں (۱۸)
اِس غزل سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہندی گیت کی روایت کے مطابق اظہار عشق ، عورت کی طرف سے کیا گیا ہے۔ امکان ہے کہ اس عہد کی عشقیہ شاعری کا یہی اسلوب خاص رہا ہو گا ۔ سیرا لاولیا ء میں درج ہے :
’’اسی زمانے میں امیر خسرو نے شعر کہنا شروع کیا۔ وہ جو نظم کہتے سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کرتے ایک روز سلطان المشائخ نے ان سے  فرمایا کہ صفاہانیوں کی طرز پر شعر کہا کرو جو عشق انگیزبھی ہوں اور زلف و خال آمیز بھی۔ اس روز سے امیر خسرونے اپنی شاعری میں زلف اور خال بتاں کی آمیز ش کرکے اور اپنے اشعارکو نئی نئی تشبیہوں اور اشعار سے دل آویز بنا کر انتہائے کمال پر پہنچادیا ‘‘ (۱۹)
امیر خسرو کو اردو کے اولین ریختہ کا موجد قرار دیا جاتاہے ۔ اگرچہ ان کے کلام میں ریختہ کا لفظ موسیقی کی اصطلاح کے طورپراستعمال ہو ا ہے ۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لشکر کی زبان کے لئے اردو کا لفظ مستعمل ہونے سے پہلے اس کے لئے ریختہ کا لفظ یہ مروج تھا اور میر و غالب کے دور تک ریختہ کے نام سے ہی مقبول رہا ۔ امیر خسرو نے ریختہ کو داخلی اور خارجی زاویوں سے متاثر کیا ۔ اور اس کے صوری اورلغوی اثرات کا دائرہ بیسویں صدی تک پھیلا نظر آتا ہے ۔
’’امیر خسرو کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے ہندوستانی تہذیب کے ارضی عناصر کو شاعری میں سمو یا اور فروغ اردو کے ابتدائی دور میں اسے جذباتی سرگرمی ، داخلی توانائی اور جدیدیت عطا کر دی ۔ امیر خسرواردو کی ایک اہم ادبی تحریک کے بانی تھے اورانہوں نے اردو کے پہلے ریختہ کی ترویج میں اولین خدمات سر انجام دیں ۔ ان کی اس عطاپر نسبتاًکم توجہ دی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بالعموم انہیں فارسی کا باکمال شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں اردو چونکہ مقبول نہیں ہوئی تھی اس لئے خود خسرو نے اپنی ان نظموں کو جو انہوں نے روز مرہ کی زبان میں کہیں ’’ہندی‘‘ کہا اور جزوے چند نذرِ دوستاں کرکے ان کی قدرو قیمت کم کردی ‘‘(۲۰)
ا میر خسرو نے اپنے دیوان ، غرۃالکمال کے دیبا چے میں اس کی و ضا حت کر تے ہوئے کہا تھا کہ انہوں اس دیوان میں ہندی کلام ا س لئے شا مل نہیں کیا کہ فارسی زبان کہ لطافت و حلاوت ہندی پیوند کاری کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔تا ہم ضرورت کے تحت بعض جگہوں پر ہندی الفاظ کی پیوند کاری کی ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خسرو کو ہندی زبان سے لگاؤ نہ تھا یاوہ اسے حقیر و کمتر خیال کرتے تھے بلکہ وہ ہندی زبان سے لگاوٹ اور عقیدت کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان کے طیور بھی مجھ سے ہندی میں گفتگو کرتے ہیں۔
اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خسرو کی پیوندکاری دو زبانوں کے امتزاج کا بھی باعث بنی اور دو تہذیبوں کے ادغام میں بھی اس نے بھر پور مدد دی ۔ اور ایک نئی زبان کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ۔ خسرو کی ہندوی نظمیں اس زبان کا بہترین ماخذ قرار پاتی ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت جو زبان رائج تھی وہ موجودہ زبان سے زیادہ غیر مانوس نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں کہ خسرو کی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان اس زمانے میں عوام کی زبان بن چکی تھی اور انصاف یہ ہے کہ وہ اردو زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں تھی۔ رام بابو سکسینہ خسرو کو اردو کا شاعر و ادیب ہی نہیں اردو کا مئو جد بھی قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر غلام حسین ’’اردوئے قدیم" انہیں ہندی کا شاعر تسلیم کرتے ہیں ۔ اِس پس منظر میں اگر مسعود سعد سلمان کو اردو کا اوّلین شاعر تسلیم کرلیا جائے تو خسرو کو ایک ایسا شاعر مانا جائے گا جس نے ابتدائی اردو کو تخلیقی زبان کا درجہ دیا اور اس لڑکھڑاتی ہوئی زبان کو تہذیبی رفعت عطا کردی ۔ اگر چہ اس سے بہت کچھ منسوب ہے مگر بہت کچھ ایسا ہے جو من کو بھا تا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
" بحیثیت شاعر امیر خسرو کی مقبولیت کی انتہا یہ ہے کہ زبان زد عوام ہو کر اشعار گواب ریت کا حصہ بن گئے جس کے نتیجے میں اس سے بہت کچھ منسوب بھی کردیا گیا ۔ چنانچہ بے شمار کہہ مکرنیاں ، انملیاں، پہیلیا ں، دو سخنے، نسبتیں ، ڈھکوسلے ، سخنے ، گیت اور بوجھ پہیلیاں---- کچھ اچھی کچھ بری، کچھ معیاری، کچھ غیر معیاری، کچھ ہزل اور کچھ فحش---- سب کچھ ان سے منسوب ہوکر رہ گیا جس کے نتیجے میں اب خسرو شناسوں کے لئے دودھ اور پانی کو الگ کرنے کے لئے لسا نی ، تاریخی اور تہذیبی امور کی چھان پھٹک لازم ہوگئی ہے ،بعض کو داخلی شہادتوں کی بنا پر مسترد کیا گیا تو بعض کو تاریخی اور لسانی حقائق کی بنیاد پر سا قط الا عتبار قرار دیا گیا ،بہر حال یہ سر درد تو محققین کا ہے۔ لیکن رخصتی کا یہ گیت۔۔۔؛ کا ہے کو بیا ہی بد لیس سن با بل مورے ؛آج بھی مب کہ بھا تا ہے خواہ محققین اس کے بارے میں کچھ ہی کیوں نہ کہیں ۔ یہی عا لم ان کی پہیلیوں و غیرہ کا  بھی ہے جنہیں آج بھی بچے بوڑھے بوجھتے ہیں" (۲۱)
خسرو کی تحریک بنیادی طور پر صو فیا کی تحریک کا ایک حصہ نظر آتی ہے مگر خسرو کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اس دور میں اردو کو ادبی حیثیت میں استعمال کیا۔اور اس کی تخلیقی قوتوں کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوششیں کی تاہم امیر خسرو کے ہا ں صوفیا کی تحریک سے وابستگی کے باوجود ادبی مقاصد،تبلیغی مقاصد کی نسبت زیادہ نظر آتے ہیں ۔ اس لئے امیر خسرو کو ایک الگ اوربا قاعدہ تحریک قرار دیا جا سکتا ہے۔ صوفی شعرا کے ہاں شاعری اخلاقی اور روحانی پیغام کی ترسیل بھی تھی لیکن خسرو کے ہاں شاعری سرمایۂ حیات تھی۔ ڈاکٹر انور سدید خسرو کے ہاں شاعرانہ ذوق پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" اہم بات یہ ہے کہ خسرو شاعری کی تنقید کا بھی رچا ہوا مذاق رکھتے تھے چنانچہ اعلیٰ درجے کی شاعری کے لئے انہوں نے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیں۔
اوّل ۔ شاعر طرز خاص کا موجد ہوتاہے کہ دوسروں کے لئے مشعل راہ بن سکے۔
دوم۔ کلام اساتذہ کے انداز پر ہو نہ کہ مولویوں اور واعظوں کے انداز پر اور کلام تنا قص اور غربت جیسے معائب سے پاک ہو۔
سوم۔ کلام اصل ہوتاکہ سرقے کا گمان نہ پیدا ہوسکے ۔
خسرو نے اپنی شاعری میں ان تینوں شرائط کی پورے کمال فن سے تعمیل کی اور اردو شاعری کو نئی جہتوں سے متاثر کیا" (۲۲)
خسرو کے ہاں اوّلین اہمیت اس پیوند کاری کی نظر آتی ہے جس سے اردو اور فارسی کا اشتراک عمل میں آیا ۔ اس کے لئے ان کا طریقہ کاریہ تھا کہ پہلا مصرعہ فارسی میں اور دوسرا اردو میں لکھتے خسرو کے اس طریقہ کار کو اس قدر اہمیت حاصل ہوئی کہ بعد کے شعرا نے بڑی شدو مد سے اس کی تقلید کی۔ خسرو کا دوسرا منفرداور دلچسپ طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک ہی شعر میں آدھامصرعہ فارسی کا اور آدھا اردو کا استعمال کیا۔
خوار شدم، زارشدم لٹ گیا
درغم ہجر تو کمر ٹوٹہ ہے
یار نہیں دیکھتا ہے سوئے من
بے گنہ ہم ساتھ عجب روٹہ ہے ۲۳؎
خسرو کے اس انداز کی تقلید بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ۔ اس میں شک نہیں کہ خسرو کی اس اختراع اور پیوند کاری میں فارسی الفاظ کی شان و شوکت زیادہ نمایاں ہے ۔ مگر فروغ زبان کے سلسلے میں یہ اوّلین مثالیں قابل قدر ضرور ہیں !ان کی تقلید میں بہت سے فارسی الفاظ گھس گھسا کر اردو کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئے یہاں تک کہ ان کی پرانی صورتوں کو شناخت کرنا ممکن نہیں نظر آتا۔خسرو حیاتیاتی سطح پر تہذیبی اشتراک کی پیداوار تھے ۔اس تہذیبی اشتراک نے خسرو کی شاعری کو دو متوازی جہتیں عطاکی ۔چنانچہ ایران کی آوارہ خرامی اور ہندوستان کی بت پر ستی ہم آہنگ ہو گئے۔غزل کی بیت قبو ل کر نے کے ساتھ ساتھ خسر و نے اس غزل کو گیت اور دوہے کی روح سے بھی ہمکنار کر دیا ۔
’’ان کی تخلیق کاری میں تشبیہہ اور استعارے کو اہمیت حاصل ہے ۔لیکن وہ چیزوں کے حقیقی خدو خال اجاگر کرتے ہیں۔ان کے اسلوب میں شکوہ اور جلال ہے ۔لیکن لہجہ دھیما اور لطیف ہے  چنانچہ خسرو کے مزاج میں ہند ی رچی بسی ہوئی ہے ۔اور اس نے ان کی تحر یک کو اردو زبا ن و ادب کی تحر یک بنا دیا‘‘ (۲۴)
خسرو نے دو زبانوں کے اشتراک سے جو شاعری تخلیق کرنے کی کو شش کی تھی اسے بڑی پذیرائی ملی اور بعد کے شعرانے اس کی تقلید بھی کی۔تاہم خسرو کے ہا ں یہ ا نداز آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا۔لیکن ان کی شاعر ی کا تہذبی پہلو جو ارضی رحجانات کے فروغ کاذریعہ بھی تھا۔ہندوستانی گیتوں کی صورت ڈھل کر سامنے آیا۔ جس کی پیر وی بھگتی تحر یک کے شعر امثلا ًمیرابائی،کبیر اور نانک نے بھی کی اور جدید گیت نگاروں مثلا میراجی ،قیوم نظر ، جمیل الدین عالی اور ناصر شہزاد کے ہاں بھی اسے قبول عام حاصل ہوا۔
خسر ونے فارسی کی آمیزش کے بغیر اردو میں بھی شاعری کی اور ہندوستان کی مقبو ل اصناف دوہا ،گیت،دو سخنے ،کہہ مکر نی اور گیت وغیرہ لکھے۔ان تخلیقات میں خسرو ہندوستان کی دھرتی میں گہرے اترے نظرآتے ہیں۔
خسرو کی شاعری میں محبت کا ہندوستانی انداز غالب ہے۔ وہ عورت کے جذبات کو اظہار کی آزادی عطا کرتے ہیں۔ اور اپنے ارضی میلانات کو تصوف کے پردے میں چھپانے کی کو شش نہیں کی ۔ ان کی شاعری وصل و فراق میں وارفتہ خیالی کو جنم دیتی ہے ۔ اردو شاعری میں عورت کے جذبات کو بیان کرنے کا انداز خسرو کے ہاں منفرد انداز میں ملتا ہے۔ انہوں نے اردو غزل کو ایک انوکھی لے سے متعارف کروایا۔
’’امیر خسرو نے اردو غزل کو گیت کا رس اور نغمگی عطا کی اور گیت کی صنف کودوہے کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا ۔دوہا غزل کے مفرد شعر کی طرح زندگی کی کسی عمومی حقیقت کو ایجاز و اختصارسے پیش کرتا ہے۔ اس کے آخر میں فارسی غزل کی طرح قافیے کا التزام بھی ہوتاہے ۔ اور پورا مضمون دو مصرعوں میں سما جاتاہے۔ امیر خسرو نے غزل کی ہیئت کو دوہے کی زمین قرار دیا اور اس میں ہندی تہذیب اور مزاج کے بیج بو دیے" (۲۵)
امیر خسرو کے دوہوں نے بھگتی تحریک کے شعراکو بالخصوص متاثر کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں ہندی گیتوں کا مزاج رچا بسا تھا۔ مزید یہ کہ ان میں التجا اور دعاکاانداز نمایاں تھا اس دور میں بندے اور آقا کے فراق ووصال کی کیفیت کو یتیم اور پتی کی تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان فروغ پا چکا تھا۔ اور دوہے کی زبان عوامی مزاج کے زیادہ قریب تھی۔ اور دوہے کا اختصار لوگوں کو با لخصوص اپنی طرف متوجہ کر تا اور غنائیت سے مملوضرب المثل کا عمومی انداز فوراًعوام کے دلوں تک رسائی حا صل کرتا اور زبان زد عام ہوتا۔ اس طرح بعد کے شعرانے دو ہے کی صنف سے فائدہ اٹھایااور صو فیا کی تحر یک کے اخلا قی پیغا م کو عوام تک پہنچا نے کا فریضہ سرانجام د یا ۔
ندیم حسن۔ پی ایچ۔ ڈی ، اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        انور سدید، ڈاکٹر ، ارود ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو،کراچی، ۲۰۱۳ء۔ ص ۱۷۱
۲۔         عبدالحق ، مولوی، ڈاکٹر ، اردو کی ابتدائی نشونما میں صوفیائے کرام کا حصّہ ، انجمن ترقی اردو ،کراچی ، ۱۹۵۳ ء۔ ص ۸۲
۳۔        انور سدید ، ڈاکٹر ، اردو ادب کی تحریکیں ،انجمنِ ترقی اردو کراچی، ۲۰۱۳ء ،ص ۱۵۱
۴۔        نور الحسن ہاشمی ، سید ، دلّی کا دبستان شاعری، اردو اکادمی سندھ کراچی، ۱۹۶۶ء، ص ۲۶
۵۔       سلیم ا ختر،ڈاکٹر ،اردو ادب کی مختصر تر ین تا ر یخ ،سنگ میل پبلی کیشنز لا ہو ر،۲۰۱۳ء،ص۴۲
 ۶۔        را م با بو سکسینہ،ڈا کٹر،تا ر یخ ِاد ب اردو ،متر جم مرزا محمد عسکر ی ،سنگِ میل پبلی کیشنزلا ہو ر،۲۰۱۱،ص ۳۶
۷۔       عبد ا لقیو م ،مرتبہ ،تا ر یخ ادب اردو ،پا کستا ن ا یجو کیشنل پبلشر ز لیمیٹڈ،کرا چی،۱۹۶۱، ص ۵۸۳
۸۔       سلیم اختر ڈاکٹر ،اردوادب کی مختصر تر ین تا ریخ ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۷ء،ص۴۳
۹۔        رام بابو سکسینہ ،ڈا کٹر ـ،تا ر یخ ادب اردو ،متر جم مرزا محمد عسکر ی ،سنگ ِمیل بپلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۱ص ۳۶
۱۰۔       ا یضاً ، ص ۳۶
۱۱۔       سلیم اختر،ڈاکٹر ،اردو ادب کی مختصر تر ین تاریخ ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۷ء، ص ۴۳
۱۲۔       ا یضاً ، ص ۴۴
۱۳۔      میر تقی میر،نکا ت الشعر ا ،مرتبہ مو لو ی عبدا لحق ،انجمن تر قی اردو،اورنگ آباد ،۱۹۳۵ء ص۸۵
۱۴۔      امیر خو رد ،سیر الاو لیا ء مترجم اعجا ز الحق قدو سی،اردو سا ئنس بورڈ ،لاہور،۲۰۰۴ء ۔ص۴۷۷
۱۵۔      ملا و جہی ،سب رس ،مرتبہ مو لو ی عبدالحق ، مجلس تر قی اردو ،کرا چی،۱۹۷۷ء ۔ص۷۰
۱۶۔       سلیم اختر ،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر تر ین تا ر یخ ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۷ء،ص۴۴
۱۷۔      گو پی چند نا ر نگ،ڈاکٹر،امیر خسرو کاہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرہ اشپر نگر ،لا ہو ر سنگ ِمیل پبلی کیشنز، ۱۹۹۰ء۔ص۴۶                    ۱۸۔  ا یضاً،ص۴۶
۱۹۔       امیر خو رد،سیر الاولیاء،مترجم اعجازالحق قد و سی ،اردو سا ئنس بورڈ،لاہو ر،۲۰۰۴ء۔ص۴۷۱
۲۰۔      انور سدید ،ڈاکٹر،اردو ادب کی تحر یکیں،انجمنِ ترقی اردو کراچی، ۲۰۱۳ء ،ص۱۳۸
۲۱۔       سلیم اختر،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر تر ین تا ر یخ ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۷ء،ص۴۶
۲۲۔      انور سدید، ڈاکٹر،ارد و ادب کی تحریکیں،انجمنِ ترقی اردو کراچی، ۲۰۱۳ء ،ص ،۱۳۸
۲۳۔      صدیقہ ارمان، ڈاکٹر،ــ"  خسرو اردو کا پہلا شاعر" مشمولہ ماہنامہ افکار،کراچی، دسمبر ۱۹۷۵ء۔ص ۲۰۶
۲۴۔      انور سدید،ڈاکٹر،اردوادب کی تحریکیں،انجمنِ ترقی اردو کراچی، ۲۰۱۳ء ، ص۱۴۱
۲۵۔      ایضاً۱۴۲
۲۶۔      رام بابو سکسینہ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، مترجم مرزامحمدعسکری ،متر جم مرزا محمد عسکر ی ،سنگ ِمیل بپلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۱ء، ص ۳۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com