مقلدِ اقبال۔ذکاء اللہ بسملؔ (زبورِ ہند کے آئینے میں)
اشفاق احمد پروانہ

ABSTRACT
Iqbal was a great poet of Urdu literature. The impacts of his everlasting poetry were very deep on contemporary Urdu poets as well as the later poets. Chaudhry zaka ullah bismil was one of those poets in which poetry we observe the rays of thoughts and literary style of Iqbal. He was born in 1895 A.D. in district Jehlam and wrote Zaboor e hind. In this research paper the researcher has analyzed the poetry of bismil's in the background of impacts of Iqbal's poetry and his universal thoughts .

           علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر اور مفکر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں وہ برصغیر کے محکوم مسلمانوں کے درد مند اور غمگسار ہیں ، وہاں ملت اسلامیہ کے نقیب اور ترجمان بھی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ پوری انسانیت کے شاعر ہیں۔ ان کی علم و حکمت ستاروں سے آگے کا پیغام دیتی ہے۔ وہ کاہلی پر مبنی قناعت پسندی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اقبال کا شمار دنیا کے ایسے اکابر شعراء اور فلسفیوں میں ہوتا ہے جن کا شمار انگلیوں پر کیا جاسکتا ہے۔پروفیسر عبدالجبار شاکر لکھتے ہیں۔
’’ادبیات عالم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بہت کم شخصیات ایسی دکھائی دیتی ہیں جو اپنے علمی کارناموں اور ادبی قدروقیمت کے اعتبار سے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے ہم پلہ یا ہم پایہ ہوں… ‘‘  (۱)
اقبال نہ صرف برصغیر کے محکموم مسلمانوں کے نجات دہندہ ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے لافانی پیغام سے پورے عالم کو متوجہ کیا۔ ان کا ابتدائی کلام بھی روایتی شاعری سے منفرد ہے۔   ؎
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
علامہ اقبال نے اپنے فکر وتدبر اور دور بینی سے شاعری کو پیغمبری کے طور پر استعمال کیا۔ یوں مشرقی شعریات میں ، اردو اور فارسی زبانوں میں ایک تلاطم برپا کیا بقول شخصے وہ اپنے منفرد اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ اقبال کے زمانے میں رنگ اقبال سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ یوں اس زمانے کے اکثر شعراء اُن سے متاثر ہوکر تقلید کرنے لگے۔ اگرچہ اقبال کے اس مخصوص رنگِ میں شعراء کا گویا ہونا، کارِدشوار تھا، تاہم چند شعراء نے اپنی اپنی استعداد اور فطری صلاحیت کے مطابق اقبال سے کسبِ فیض کیا۔ بقول میرؔ   ؎
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اقبال سے متاثر ومقّلد شعراء میں اسد ملتانی، عاصی کرنالی، محمد ایوب اور اکبرمنیر وغیرہ شامل ہیں۔ ذکاء اللہ بسمل ؔ کا شمار بھی اِن متاثرشعراء میں ہوتا ہے، اگرچہ وہ اپنی گوشہ نشینی اور داخلیت پسندی کے باعث اہل علم ودانش کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔ انہوں نے اقبال کے فکر وفن اور علم وحکمت سے اس طرح اکتساب کیا کہ ان کے کلام پر رنگ ِاقبال کاواضح پرتو دکھائی دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقبال کے سامنے کسی کا چراغ نہ جل سکا، اس ضمن میں جاوید اقبال رقم طراز ہیں۔
’’…تن آور درخت کے سائے تلے ایک ننھا سا پودا پروان چڑھتا ہے۔ وہ دراز قد ہوجائے، اپنی صورت نکال لے، تب بھی پودا ہی رہتا ہے ۔ اور بڑے درخت ہی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔  (۲)
چوہدری ذکاء اللہ بسملؔ ۱۸۹۵ء میں کنتریلہ ضلع جہلم میں چوہدری محمد حیات کے گھر پیدا ہوئے۔  ۳؎  چوہدری محمد حیات نے دوشادیاں کی تھیں۔ ذکاء اللہ بسملؔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں۔  ۴؎  پروفیسر انور بیگ اعوان بسملؔ سے متعلق لکھتے ہیں۔
’’آپ ایک خوشحال گھرانہ کے مایہ ناز فرزندہیں۔اعلیٰ تعلیم لاہور میں حاصل کی، فلسفہ میں ایم اے اور قانون میں ایل ایل بی کی ڈگریاں لینے کے بعد، چند برس تک وہیں قیام فرما رہے۔ اور زندگی کے وسیع ترتجرباتی شعبوں سے متعلق رہ کر اپنی شخصیت اور فکر وفن کو جلا بخشی۔ دورانِ تعلیم شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شاگردی کا شرف بھی حاصل کیا۔ تعلیم سے فارغ ہوکر کچھ عرصہ لاہور کے ایک کالج میں لیکچراررہے۔ بعد ازاں اردو کے مشہور ادیب اور شاعر خان احمد حسین خان کے ماہنامہ ’’شباب اردو‘‘ کے عملہِ ادارت میں شرکت کی۔پھر انگریزی روزنامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور کے نائب مدیر رہے۔ آخر کار صحافت سے جی بھر گیا اور وکالت کی ٹھانی ابتداء میں عارضی طور پر جہلم میں پریکٹس کی ، پھر ۱۹۳۱ء میں مستقل طورپر چکوال کو اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا مرکز بنایا…(۵)
ذکاء اللہ بسملؔ ۳۶ سال تک چکوال میں رہے…… ۱۹۶۶ء کو خرابیِ صحت پر جہلم اپنے گاؤں آگئے…… (۶)  دس گیارہ سال تک بیماری اور مفلوج الحالی میں گھر تک محدود رہے۔ اس دوران ان کی دیکھ بھال ان کے بھتیجے اور لے پالک بیٹے کیپٹن منیراخترنے کی۔
’’…… طویل علالت کے بعد ۶،جون ۱۹۷۷ء کو اپنے گاؤں میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں‘‘  (۷)
لوحِ مزار پر بسمل ؔ کا اپنا شعر درج ہے:
بسملؔ جو گیاحشر میں کہنے لگے عاشق
کِس شان سے آیا ہے، طلبگار تو دیکھو
راقم نے اپنے ایم فل کے مقالے میں بسملؔ کے غیر مطبوعہ دیوان ’’زبور ہند‘‘ اورمطبوعہ کلام کی تدوین وترتریب پر کام کیا۔بسملؔ کی گمنامی، پست معیاری نہیں بلکہ داخلیت پسند طبیعت اور صاحبِ اولاد نہ ہونا ہے۔ ان کی حیات میں مختلف رسائل (حقیقت اسلام، شباب اردو، الکوثر)میں ان کا کلام چھپتا رہا۔ ۱۹۳۲ء میں دیال وزیرسنگھ چکوال سے اُن کی نعتیہ کتاب بھی شائع ہوئی۔ دورانِ تحقیق راقم کوبسملؔ کے مزید پانچ قلمے نسخے ، منیر اختر سے دستیاب ہوئے۔ عقیدت وارادت کے حوالے سے ذکاء اللہ بسملؔ عملی زندگی میں بھی اقبال کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ (تعلیمی ،سیاسی اور پیشہ ورانہ طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔)وکالت وشاعری کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں بھی غیر معمولی کردار ادا کرتے رہے۔……’’ ۱۹۳۲ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ ابتدائی دنوں میں جب تحریک کے لئے مشکلات پیدا ہوئیں تو اُن کو حل کرنے میں پیش پیش تھے۔بریفنگ میں شریک ہوئے اور اپنی خدادادذہانت سے چکوال مسلم لیگ کو مستفید فرماتے۔ قائد اعظم کی انگریزی تقریروں کا مترجم بن کر ورکروں کو تقریر کے اسرارورموز بتائے۔ سراپا قوم، وطن اورملت کے وفادار تھے۔‘‘…(۸)
راقم کے پیش نظر، ذکاء اللہ بسملؔ کا قلمی نسخہ (غیر مطبوعہ دیوان) ’’زبورِہند‘‘ کا عکس ہے۔ (اصل مسودہ فیضانی ملی لائبریری ایبٹ آبادمیں محفوظ ہے) یہ قلمی نسخہ ۲۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ خطِ نستعلیق میں بسملؔ کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں ۲۲۷ غزلیات اور ۳۴ قطعات ہیں۔ قدیم دوادین کی طرح حروف ِ تہجی کی ترتیب ہے۔ قومی جوش وجذبہ سے مزین، اس نسخہ پر رنگِ اقبال کی گہری چھاپ کا فنی وفکری جائزہ لے کر تقلید اقبال کے اُن رنگوں کی نشاندہی کی جائے گی جو ’’زبورِ ہند‘‘میں واضح طور پر جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔
بسملؔ کے فکری مزاج، تنقیدی شعوراور تخلیقی میلان کا تجزیہ کیا جائے تو اقبال کی شخصیت اور فن کی گہری چھاپ ان کے لاشعور میں رچی بسی ہے۔ اگرچہ بسمل ، اقبال سے فنی اعتبار سے کم جبکہ فکری لحاظ سے زیادہ متاثردکھائی دیتے ہیں۔ یوں تو اقبال سے ایک زمانہ متاثر ہوا۔ تاہم بحیثیت ِ شاعربسملؔ نے اقبال کے افکار ونظریات کو زیادہ قبول کیا۔ ’’زبورِ ہند‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال کی پیروی کرنے میں فنی وفکری لحاظ سے خاصے کامیاب ہوئے ہیں۔اگرچہ کلام میں وہ گہرائی اور گیرائی نہ سہی، تاہم اقبالی رنگ میں اپنے آپ کو اقبال کے پیشرو سمجھتے ہیں۔اسی لئے قارئین کو ’’زبور عجم‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’زبورہند‘‘ کوبھی پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔   ؎
جن مے کشوں کو خواہشِ اوجِ کمال ہے
 ساقی  پڑھیں  زبورِ   عجم   اور   زبورِ   ہند
’’زبور ہند‘‘ صفحہ ۸۰
ذکاء اللہ بسملؔ پیرویِ اقبال کو قابلِ فخرسمجھتے ہیں۔ وہ اقبال کے مشن کو آگے بڑھانے اور اقبال کی جاں نشینی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اقبال کا حقیقی پیرو خیال کرتے ہیں:
بعد اقبال کے سمجھا نہ کوئی رمزِ حیات
اور سمجھا  کچھ  اسے  کوئی  تو  بسمل  ؔسمجھا
’’زبورِ ہندصفحہ۱۱۰‘‘
اقبال کی زمینوں کو بہت سے شعراء نے استعمال کیا۔ مقلد شعراء میں سے بسملؔ نے بھی اقبال کی بعض زمینوں کو بھرتا ہے۔ اقبال کی مشہورِ زمانہ غزل (مارچ ۱۹۰۷ء)
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عا م دیدارِ یار ہوگا
 سکوت تھا پردہ دار جس کا ،  وہ راز اب آشکار ہوگا 
(بانگ درا صفحہ ۱۵۰)
اِ س زمین میں بسمل کی غزل کے چند اشعار دیکھیئے
خدا سے او صوفیِ خدا جو، لگاؤ تجھ کو ہزار ہوگا
مگر اکارت، اگر نہ تجھ کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
نظامِ نو کے بدلنے والو! ذرا تو سن لو یہ گوش دل سے
اگر ہیں اس میں ہوس کی اینٹیں تو یہ بھی ناپائیدار ہوگا
حریمِ تقدیرِ خاوری سے پیام لائی ہے صبحِ مشرق
کہ سورہا ہے جو گہری نیندیں وہ ایشیا ہوشیار ہوگا
بکھر ہی جائیں گی یہ گھٹائیں غلامیوں کی بفضل ایزد
شعاعِ خورشید حریت سے وطن مرا تابدار ہوگا
غرور جن کوہے لشکروں پر، سنیں کہ ساعت وہ آرہی ہے
نہ ان کے لشکر رہیں گے باقی ، نہ ان کا باقی وقار ہوگا
دوچار ساعت زمانے والے حریفِ بسملؔ ہوئے تو کیا ہے
جو شہسوارِ  زمانہ  ہو گا،  یہی  ترا  خاکسار ہو  گا    
(زبورہند صفحہ ۴۵
بعض ایسی غزلیات بھی ہیں، جو مکمل طور پر اقبال کی زمین میں نہیں، لیکن ردیف اور رنگ وہی ہے۔ ذیل میں ایسی دوغزلوں کے اشعار نقل کیئے جاتے ہیں۔
اب تمنائے مے وساقی نہیں
زندگی کی آرزو باقی نہیں
کیوں نہیں آتا جہاں میں انقلاب
تجھ میں کیا اب زورِ خلّاقی نہیں
دین وایماں سے ہیں ہم تفور
کفرو بے دینی سے ناچاقی نہیں
چل گیا یارانِ مغرب کا فسوں
مشرقی کی بھی اب تو اشراقی نہیں
اِس سے پیچھا چھڑائیں کس طرح
کاوشِ افکار، براقی نہیں
غم کے ہاتھوں فکر لاحق ہوگئی
ورنہ ہم فطرت سے اغراقی نہیں زبور ہند۔ صفحہ۱۳۰

ہر زماں لاالہ الا اللہ
جاوداں لاالہ الا اللہ
ہے عیاں لاالہ الا اللہ
ہے نہاں لاالہ الا اللہ
آسمان و زمیں ہیں جسم حیات
روح وجاں لاالہ الا اللہ
ارض و آفاق و انس و جن محکوم
حکمراں لاالہ الا اللہ

تیغ ایماں ہے مردِ مومن کی
اور فساں لاالہ الا اللہ
دین ودنیا کاجس میں اوج وشباب
وہ جواں لاالہ الا اللہ
بے خطا جس کاتیر ہے بسملؔ
وہ جواں لاالہ الا اللہ   
(زبورِہند،صفحہ۱۹۰)
اقبال کی نظم ’’شکوہ‘‘ نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے دل ہلا کر رکھ دیئے۔ مسدس حالی کے بعد یہ نظم اپنے نقطہِ عروج کو چھو رہی تھی۔ اس نظام کے اثرات جہاں عام معاشرے کے افراد پر مرتسم ہوئے، وہاں شعراء بھی متاثر ہوئے بغیر نہ وہ سکے۔ ذکاء اللہ بسملؔ بھی اقبال کی تقلیدمیں پرشکوہ انداز اختیار کرتے ہیں۔
ہے عبث ناز یہ تجھ کو کہ ہے گلشن تیرا
نہ یہودی ، نہ مسیحی نہ برہمن تیرا
کاہن و صوفی وراہب یہ گروہِ تقدیسی!
تُو سمجھتا ہے امیں جس کو ہے رہزن تیرا
تُو سمجھتا ہے کہ محفوظ ہے دانہ دانہ
دیکھ ادھر! نذرِ کفِ برق ہے خرمن تیرا
تجھ سے بیگانہ مگر، تیرا جہاں زیرِ نظر
ان کی خواہش ہے کہ لُوٹیں یہ نشیمن تیرا
یُوں ہوا پاک زمانے کا حسابِ نغمات
یعنی   بسملؔ   ہی   رہا   ایک  نوازن  تیرا 
(زبورِہند،صفحہ۴)
زبورِ ہند کی غزلیات میں، اقبال کی تتبّع میں تسلسلِ خیال،مکالماتی انداز اور تمثیلی رنگ بھی جھلکتا ہے، بعض غزلیات کاآخری شعر فارسی میں کہا ہے، یعنی ایسے تکنیکی اور ہیئی نمونے بھی ملتے ہیں جو اقبال کے خاص امتیازات میں سے ہیں۔ نمونے کے طور پر اس غزل کے چند شعر دیکھیئے۔
یوں وقفِ انقلاب ہے دنیا کا بندوبست
کہتا ہے کہ اب یہ روس کہ وہ ہے خدا پرست

الزام تھا کہ اس کو خدا پر یقین نہیں
انسانیت سے دور تھی اس کے لئے یہ جست
بولا یہ سن کے شاعرِ ہندی ستم ظریف
آئی خدا کی یاد، ہوئے حوصلے جو پست
گاہے بود کہ مردِ شرانگیزی کنسید
کارے کہ از نکوئیِ نیکاں نکوئی کو تراست
ذکاء اللہ بسملؔ نے تراکیب سازی میں بھی اقبال کی خوشہ چینی کی ہے۔بعض ایسی تراکیب استعمال کی ہیں، جن پر اقبال کی مہر ثبت ہے جو تراکیب ان کی اپنی وضع کردہ ہیں، وہ بھی اقبالی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ ذیل میں’’زبورہند‘‘ کی چند تراکیب ملاحظہ ہوں۔
سرگرمیِ جنون ِ عمل، آزادیِ وطن، چراغ طور، مرغانِ قفس، نیرنگی چرخ کہن، من وتو، گردش پیہم، مفت کش تاثیر،بت خانہ اصنام،ملت بیضا، آشنائے دہر،طلسم سامری، راہ ورسمِ شبیری، خرمنِ دل، شانِ سلطانی، نغمہ ِدل، گدازِ دل، یدِ طولیٰ، غزالِ دستِ پیما، گلِ لالہ وغیرہم ۔  اقبال سے بسملؔ کی عقیدت وارادت کااندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال کے تتبّع میں کتاب کا عنوان ’’زبور ہند‘‘ بھی ’’زبور عجم‘‘ کی اثر پذیری کا غماز ہے۔ اس مخطوطہ میں شامل قطعات میں بھی اقبال کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ چند قطعات ملاحظہ ہوں۔
انسان ہے مدعا کو پانے والا
بے شک ہے وہ زمانہ آنے والا
لیکن مشکل ہیں مدعا کی راہیں
لازم کہ ہو راستہ بتانے والا
_____
اس بات کو مانتے ہیں دانا ، حکماء
مقصد کی بدولت ہے بشر کا رتبا
مقصد سے ہے انکار، حماقت کی دلیل
انسان کی آرزو کا مقصد ہے خدا
_____
صوفی کا حبابِ آرزو ٹوٹ گیا
مُلّا کا طلسمِ جاہدو! ٹوٹ گیا
کتنا دشوار ہے مجاہد ہونا
سنتے ہی’’مجاہد‘‘ کا وضو ٹوٹ گیا
_____
روح کو بیدار کر دیتا ہے عشق
غنچہ کو گلزار کر دیتا ہے عشق
معنیِٔ اسرارجُو کو ہر طرح
معنیِٔ اسرار کر دیتا ہے عشق
_____
اے صاحب عقل وپاسدارِ فرہنگ
قطا مۂ فطرت کے نوالے ہیں ڈھنگ
پہلے ہے سکون اور پھر آندھی ہے
ہاں امن ہے پودا، ثمرِ امن ہے جنگ
_____
رشکِ مہِ بے داغ ہے تیرا یہ بدن
ہے سانس کہ خوشبوئے شمیمِ گلشن
ہیں پھول کی پتی سے بھی نازک ترے ہونٹ
پاکیزہ ہے چاندنی سے بڑھ کو جوبن
ذکاء اللہ بسملؔ نے غزل گوئی کو محض ہجر وصال ، گل وبلبل اور حسن عشق کے نغمے الاپنے تک محدودنہیں رکھا، بلکہ غزل کوذریعہ اظہار سمجھتے ہوئے سیاسی، مذہبی ،اخلاقی اور قومی جذبات کو موضوع بنایا ہے، ان کی غزلیات میں جہاں ملت اسلامیہ کی زبوں حالی اور درماندگی کوبیان کیا ہے، وہاں مسلمانوں کو ان کی بے حسی اور غفلت شعاری سے جھنجھوڑ کر آزادی کا پیغام دیا ہے۔ یوں بسملؔ کی فکری تعمیروتشکیل میں اقبال کے افکار ونظریات کی خوشہ چینی پوری طرح جلوہ گر ہے۔ دراصل ذکاء اللہ بسملؔ ،اقبال کے فن کی پیروی میں اتنے کامیاب نہیں دکھائی دیتے جس قدر وہ فکرِ اقبال سے متاثر ہیں۔تاہم آخر میں ’’زبورِ ہند‘‘ سے چند غزلیات پیش کی جاتی ہیں۔ جو اقبال کی فکر، فن اورطرزِ نگارش کی نشاندہی کرتی ہیں۔
بچشمِ ہوش و عبرت رنگِ دنیا دیکھتے جاؤ
مسافر! باغ وصحرا، زشت وزیبا، دیکھتے جاؤ
ہر اک شے دیکھنے کی ہے تماشا گاہِ عالم میں
سکونِ ساحل و طوفانِ دریا دیکھتے جاؤ
نظر دوڑاؤ ہندو مصر و ایران و مراکش پر
حرم کی عاجزی، جورِ کلیسا، دیکھتے جاؤ
دلِ گلہائے نورس چاک، بلبل کا جگر ٹکڑے
چمن والوں کو مجروحِ تمنا دیکھتے جاؤ
ضیائے شرق پر چھائی ہوئی مغرب کی تاریکی
متاعِ قیس پر شب خونِ لیلیٰ دیکھتے جاؤ
_____
نوجواں! اپنی خودی کی پرورش کر نوجواں!
اس جہاں کا ساز تو تیری خودی کا سازہے
اپنی شخصیت کو دے تابِ محبت، تابِ عزم
تیری ہمت کے لئے قصرِ جہاں درباز ہے
ہے خودی کیا، عشقِ گردوں تاز اور محکم یقیں

ہے خودی تیری اگر، شاہین ہے شہباز ہے
بیخودی بھی ہے خودی کا پہلوئے جمیل
یہ نشیمن ساز وہ مینوگرِ پرواز ہے
محترم رکھ وقت کو، ہاں وقت سے تو منہ نہ پھیر
یہ خودی کے برق ذوقِ ارتقا کا راز ہے
وقت کے اعجاز سے تیری خودی کو ہے ثبات
گو بظاہر وقت بھی اک جلوۂِ طنّازہے
آبِ تیغِ وقت ہے تیرے لئے آبِ حیات
پی کہ تیری زندگی مشتاقِ نَو آغاز ہے
_____
الٰہی کتنی بے چینی ہے، بے قراری ہے
جہاں کا ذرہ ذرہ مضطرِ ناساز گاری ہے
روانی جو انباروں کی کوئی تلوار ہے گویا
کہ جس کی دھار موقوفِ خرامِ لالہ کاری ہے
ہوا ہے آدمی کا خون سستا اس قدر ، یعنی
لہو سے لالہ رنگ اپنے چمن کی کیاری کیاری ہے
ادب مانع ہے مجھ کو ورنہ تجھ سے اے خدا پوچھوں
ذرا کہنا یہی رسم و رہِ پروردگاری ہے
_____
اے انتخابِ فطرت! سوچا کبھی یہ تُو نے
کیا ہے مقام تیرا، اور کیا ہے کام تیرا

انساں ہے نام لیکن، اس میکدے میں اب تک
انسانیت کی مے سے خالی ہے جام تیرا

منزل تری حرم ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں
جاتا ہے بُت کدے کو غافل! خرام تیرا

اشفاق احمد، پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر شعبہ اردو، ہزارہ یونیورسٹی
حوالہ جات
۱۔        داستانِ اقبال، ڈاکٹر صابر کلوروی، نشریات لاہور ۲۰۰۹ء ص۱۔
۲۔        اپنا گریبان چاک، جاوید اقبال، سنگ میل پبلیکیشنر لاہور، ۲۰۰۶ء ص ۸۔
۳۔       مکتوب منیر اختربنام ڈاکٹرمحمود فیضانی، محررہ ۲۰نومبر۱۹۹۴ء
۴۔       انٹرویو از راقم، بمقام رہائش گاہ چوہدری اعجاز احمدایڈوکیٹ۔(بھتیجا، جہلم کالا گجراں)بتاریخ ۷، فروری ۲۰۱۰ء
۵۔       دھنی ادب وثقافت ، پروفیسر انور بیگ اعوان، چکوال، ۱۹۶۶ء ص ۲۰۱۔
۶۔         مکتوب منیراختر بنام ڈاکٹر محمود فیضانی، محررہ ۲۰ نومبر ۱۹۹۴ء
۷۔       ایضاً
۸۔       تاریخِ چکوال، ڈاکٹرلیاقت علی خان،کشمیربک ڈپوچکوال ۱۹۹۲ء ص ۴۳۵۔
۹۔        کلیاتِ اقبال،اقبال۔اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ اشاعت ششم ۲۰۰۴ء۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com