اردو کے نامور ہم عصر ظریفان فن کے کلام کا تقابلی جائزہ
ڈاکٹر عرفان اللہ خٹک

ABSTRACT
Professional rivalry is common factor amongst contemporary's poets whether it's classic or modern. This practice attracts researchers to conduct comparative studies on the subject. The article aims at studying the positive aspects of eminent humorous poets. Humor is the tendency of particular cognitive experiences to provoke laughter and provide amusement. Humor has always been regarded as the Cinderella of literature and the essence of human life. People of all ages and cultures respond to humor. Most people are able to experience humor-be amused, smile or laugh at something funny-and thus are considered to have a sense of humor. In Urdu literature the tradition of Urdu humor is fairly old .Here an attempt is made to bring out the salient features of famous humorist poets .

           اْردو شاعری میں ہم عصر شعراء   کے درمیان معاصرانہ چشمک ایک عام سی بات ہے۔ یہ میرؔ وسوداؔ کا دور ہو یا آتشؔ و ناسخؔ کا عہد، غالب و مومن  ہوں یا جرات  و انشاءؔ سب کے درمیان کسی نہ کسی موقع پر چشمک رہی۔ میر وسودا ہجویات تک پہنچے تو آتش و ناسخ کے درمیان پھبتیوں کی جنگ ہوئی۔ ایک طرف تلامذہ آتشؔ اْن کے مرصّع سازی کے گن گاتے تو ناسخؔ کے شاگرد زبان دانی پر فخر کرتے۔ غالبؔ اور ذوقؔ کا شاعرانہ تصادم بھی ڈھکا چھپا نہیں بعینہ جراتؔ ، انشاءؔ اور مصحفیؔ ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ غرض یہ روایت شروع سے جاری و ساری ہے جس سے تقابلی جائزے وجود میں آتے ہیں۔کوئی انیسؔ و دبیرؔکا موازنہ کررہا ہے تو کوئی سحرالبیان و گلزار نسیم کا ،کسی نے سوداؔ اور ذوقؔ کے قصائد پر فیصلہ سْنا دیا تو کسی صاحبِ ذوق نقادنے میرؔ و غالبؔ کا مقابلہ کروا ڈالا۔ مطلب یہ کہ سنجیدہ شاعری میں مواز نے کی روایت قدیم ہے لیکن طنز و مزاح یہ روایت تقریباً ناپید ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اکبر الہ آبادی کہ مزاحیہ شاعری کا سرخیل تصور کیا جاتا ہے لیکن اس دور میں اْس کے قدکاٹھ کا کوئی دوسرا مزاح نگار موجود ہی نہ تھا کہ تقابلی جائزے کی ضرورت پڑتی۔ اکبرؔکے بعد جن شعراء نے طنز و مزاح میں نام کمایا ان میں سید محمدجعفری، سید ضمیرجعفری ، نذیر احمد شیخ ، مرزا محمود سرحدی،دلاور فگار سنگ میل کی حیثیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ہم عصر شعراء نے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا بلکہ ایک کو خراج عقیدت پیش کرکے ایک روشن روایت کی بنیاد رکھی۔ذیل میں نہ صرف ان ہم عصر شعراء کے کلام کا فکری، فنی اور موضوعاتی نقطہ نظر سے موازنہ کریں گے لیکن یہ موازنہ ذرامختلف طرح کا موازنہ ہے، اتنا مختلف کہ موازنہ ہے ہی نہیں۔ ۔ مزاحیہ شاعری نے نابغہء روزگار شخص کے ذریعے جو اعتبار و کمال حاصل کیا ہے۔ وہ اس سے پہلے کبھی حاصل نہ ہوا تھا۔ ان کی شاعری کا خمیر ان عناصر سے اْٹھا ہے جن سے دیگر شعراء کا خمیر بیٹھ گیا ہے۔ ان کے ہاں شائستگی ، ادبیت شعری چاشنی اور طنز کی زیریں لہر اس خوبی اور تناسب سے رچی بسی نظر آتی ہیں کہ اس کی تقلید ناممکن ہے۔"اِن ظریفان فن نے " مذاقیہ شاعری" کو نہ صرف مزاحیہ شاعری بنا یا بلکہ مزاحیہ شاعری کو پھکڑپن اور لغویات سے نکال کر جھاڑا، پونچھا اور اس کو نیا رنگ دے کراْردو کی کلاسیک شاعری میں لاکھڑا کیا۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ یہ اس صف میں کھڑی رہتی ہے یا کہیں اور متمکن ہونا چاہتی ہے۔دورانِ موازنہ یہ کوشش کی جائے گی کہ ان شعراء کے کلام سے سماعتوں کو گدگداؤ جن میں موضوعات کی یکسانیت کے باوجود ان کی جولانئی طبع اپنا اپنا رنگ الگ دکھا رہی ہے۔سید ضمیر جعفری ایک درویش صفت انسان تھے۔ اس لیے نفرت یا معاصرانہ چشمک سے میلوں دْور تھے۔ نذیر احمد شیخ کو نظم "واہ رے شیخ نذیر" میں خراج تحسین پیش کیا اور فرمایا:
شاعر خوش افکار مگر شہرت ہوس سے دور
اپنی  شیریں  میں گم  ایک لڈو موتی چور
خوشبو گوشہ گیر
واہ رے شیخ نذیر (۱)
اسی طرح شیخ نذیر نے سید ضمیرجعفری کا منظوم تعارف "حدیث دوست" میں کچھ یوں کیا:
خاندانی  سیّدوں کی آل ہیں میجر ضمیر
آپ اپنے وقت کے ملا نصیر الدین ہیں
شعر خوانی میں ترنم کا عجب انداز ہے
آپ کے طرفہ سْخن پر ہر سخن کا خاتمہ
ان سے جو مخصوص ہے اس طرز فن کا خاتمہ
اور اپنی شاعری کا کوئی مطلب ہو نہ ہو
شاعران شوخ گو اب رہ گئے ہیں صرف دو
نیک ہیں، خوش بخت ہیں خوشحال ہیں میجر ضمیر
شعر شکر آفریں ، چٹکلے نمکین ہیں
لے میں کافی نغمگی ہے گونجتی آواز ہے
آپ پڑھ لیں تو سمجھ لو انجمن کا خاتمہ
دل پسند اشعار کی ٹکسال ہیں میجر ضمیر
''من تْرا حاجی بگویم تو مرا ملْاّ بگو
ایک میں ہوں دوسرے چونچال ہیں میجر ضمیر (۲)
سیدضمیرجعفری اور سید محمد جعفری، دونوں میں نام کی اشتراکیت میں معمولی تبدیلی کے علاوہ کئی باتیں مشترک تھیں۔ دونوں مزاح نگار شاعر ہیں۔ دونوں ترنم ماب، دونوں کا لحن ترنم اور تحت الّفظ کے درمیان کی کوئی چیز تھی۔ دونوں کے ناموں میں بھی تخمی قربت داری ان مشترک قدروں کے باعث بڑے دلچسپ مغالطے پیدا ہوتے تھے۔ ضمیر جعفری سے سید محمد جعفری کی نظموں کی فرمائش اکثر ہوتی رہتی تھی۔ افسوس کہ اب یہ دنوں ہی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ لیکن دونوں نے مزاحیہ شاعری کا جو سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ زندہ اور پائندہ ہے اگر ضمیر جعفری کا کلام ایک انبساط دائمی ہے تو سید محمد جعفری کی "شوخی تحریر" بھی ماند پڑنے والی چیز نہیں۔ سب سے پہلے ہم واقعاتی مزاح یا صورت واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ واقعاتی مزاح کے حوالے سے نذیر احمد شیخ کا مزاحیہ کلیات "واہ رے شیخ نذیر" کا جائزہ لیں تو وہاں اْن کی مشہور زمانہ "آندھی"، "وبال ظرافت" اور "یار کا بستر" ہمارے لطیف احساس کو محظوظ کراتی ہیں۔ اْن کی نظم "یار کا بستر" جو "غالب" کی زمین میں ہے ،سے چند اشعارملاحظہ ہوں:
جب بہ تقریب سفر یار نے بستر باندھا
یک شلوار کے دو بن گئے جڑواں تھیلے
اس کو بنڈل کہو پیکج کہو گٹھڑ کہہ لو
تو وہ بستر بھی عجب فتنۂ محشر باندھا
جن میں سرکار نے راشن کوئی من بھرباندھا
جس نے بستر کہا بہتان سرا سر باندھا (۳)
سید محمد جعفری کے ہاں یہ مزاح کا حربہ ملاحظہ ہو جس میں وہ پکار اگ گانے والوں کی کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں:
زندگی اس وقت ہوتی ہے مغنی پر وبال
ٹھمر یوں اور دادرے کا جب آتا ہے اْبال
ہونٹ کانپیں سْرخ آنکھیں اور گلا پھولا ہوا
کھیلتا ہے جب دْرت میں گنجفہ باز خیال
سننے والے کند اوزاروں سے ہوتے ہیں حلال
اور طبلچی زندگی اور موت میں جھولا ہوا (۴)
نذیر احمد شیخ اور سید محمد جعفری کی مندرجہ بالا مثالیں مشاہدے کی گہرائی، جزئیات نگاری اور ظریفانہ عناصر سے مزین ہیں۔ اب ذرا سید ضمیر جعفری کے ہاں واقعاتی مزاح ملاحظہ ہوجس میں وہ مزاح نرالی سج دھج سے جلوہ گر ہے۔ ضمیر  بھی        سید محمد جعفری کی طرح اپنی نظم "کل شب جہاں میں تھا" میں قوالوں کی نقل و حرکت بیان کرتے ہیں:
ساز سے آواز بڑھ جائے تو پسپائی کریں
راگنی بجھنے لگے تو روشن آرائی کریں
نغمہ پیرائی میں جب پروازِ بالائی کریں
حرکتیں ایسی کریں جیسے کہ سودائی کریں
فلسفہ تھا سرنگوں، مفہوم خستہ حال تھا
شعر بچ نکلا تو یہ اقبال کا اقبال تھا(۵)
ظرافت کے ساتھ طنز کے نشتر کو بھی مزاح گو شعراء نے اصلاح معاشرہ کے لیے برتا ہے۔ طنز اور ظرافت کو اصطلاحِ ادب  میں خطرناک اور مہک حربہ گنا جاتا ہے۔ اس کا درست استعمال کمال اْستادی کا تقاضا کرتا ہے ورنہ ذراسی لغزش سے مزاح نگار خود شکار ہوجاتا ہے۔ مزاحیہ شاعروں کے راستے میں ایک سخت مقام آجاتا ہے بہت جلد اْنہیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں قاری اور سامع میں مزاح کی لطافت کا احساس بہت کم ہے لیکن طنز پرواہ واہ ہوتی ہے لہٰذا وہ فن کو چھوڑ کر واہ واہ کی جانب چل پڑتے ہیں۔ مثلاً  جدید طنزیہ شاعری کے امام انور مسعود بڑے طمطراق سے آیا تھا خالص مزاح کا پٹارا ساتھ لایا تھا لیکن جلد ہی واہ واہ نے اپنا جادو جگایاور وہ طنز کی جانب چل پڑا۔محمود سرحدی کے مزاح کو سیاست کھا گئی، دلاور فگار لفظوں کے بھنور میں ڈوب گیا لیکن اس کے باوجود بھی ان  شعراء کاطنز اتنالطیف ہوتا ہے کہ چھبتا نہیں۔پہلے نذیر احمد شیخ کے کلام سے طنز کا نشتر تلاش کرتے ہیں تو اْن کی نظم "بلیک مارکیٹنگ" پر نظر پڑتی ہے جس میں طنز کی شدت اور کاٹ نمایاں ہے۔
یہ مرچیں ہیں جنہیں گیرونے اپنا رنگ بخشا ہے
یہ ہلدی ہے،زرد مٹی ہے فقط پسوائی جاتی ہے
نہ چکنائی نہ بالائی یہ خالص دودھ ہے بھائی
کہ جس کو دیکھ کر اب بھینس بھی شرمائی جاتی ہے(۶)
سید محمد جعفری کا طنز ملاحظہ ہو جس میں وہ "ملاوٹ" کے حوالے سے نذیر شیخ کے ہمنوا بنتے ہیں۔
اس ملاوٹ کا نتیجہ یہ عیاں ہو جائے گا
گھی جو خالص ہو نصیب دشمناں ہو جائے گا(۷)
سید ضمیر جعفری کے طنز کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ طنز میں بھی شگفتگی کا عنصر غالب ہے۔
نظر کی عیب جوئی دل کی ویرانی نہیں جاتی
مسلمانوں کے سر پر خواہ ٹوپی ہو نہ ہو لیکن
خدا وندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
یہ دو صدیوں کی عادت ہے بہ آسانی نہیں جاتی
مسلمانوں کے سر سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
کہ  پیدا  ہوگئے  ہیں  اور  حیرانی  نہیں  جاتی (۸)
پروفیسر صدیق کلیم ان تینوں مزاح نگاروں کی دانست لکھتے ہیں:
"نذیر احمد شیخ کے ہاں خالص مزاح کی مثالیں ملتی ہیں۔ طبیعت کی شادابی اور شگفتگی اْبھر اْبھر کر تفنن طبع کا سنجیدہ مذاق پیش کرتی ہے۔ سید محمد جعفری کے ہاں مزاح اور نکتہ سنجی ملے گی جبکہ سید ضمی?رجعفری کو مزاحیہ شاعری کی زبان پر قدرت کامل حاصل ہے۔ ان کی شاعری عوامی ماحول کی شاعری ہے"۔ (۹)
مزاح کے ذیل میں تحریف نگاری ایک توانا حربہ ہے۔ تینوں مزاح نگاروں نے اس حربے کو استعمال کرتے ہوئے خوبصورت تحریفات سے دامنِ ادب کو گلنار کیا ہے۔ نذیر احمد شیخ نے سب سے زیادہ تحریفات لکھیں ہیں جو نہ صرف مقدار میں زیادہ ہیں بلکہ معیاری بھی ہیں۔ ان تحریفات کو اْنہوں نے تقلیدِ معکوس کا نام دیا ہے۔ اقبالؔ کی غزل:
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا کی نذیر احمد شیخ نے تحریف کی ،چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ اْن کی نظم سے "آتشزدگی" سے جس میں سردی کی رات ہے شوہر لحاف میں لپٹا خواب گاہ میں آگ کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو سوتی بیوی کو متوجہ کرنے پر محترمہ سے یوں جواب پاتا ہے۔
جلے گھر تو جلنے دے میرا دل کیوں جلاتا ہے
مجھے فکر مکاں کیوں ہوں مکاں تیرا ہے یا میرا
ارے توبہ ترے سیگرٹ نے بستر پھونک ڈالا ہے
ذرا ہٹ تو کہ میں دیکھوں دھواں تیرا ہے یامیر(۱۰)
 ضمیر نے بھی تحریف نگاری کی اس روایت کو نبھاتے ہوئے اسی شہرہ آفاق غزل کی تحریف کی، ملاحظہ ہو:
وہ شوخ اس زاویے سے مسند آراء  ہے سر محفل
پیامی ڈھونڈ کر لایا ہے جوگورِ غریباں سے
نہیں کھلتا کہ ظالم مہرباں تیرا ہے یا میرا(۱۱)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ اِن کی تحریفیں فکر و فن کی کتنی خوبصورت امتزاج ہیں۔ طنز و ظرافت اور ندرت ادانے اس کی دلکشی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس میں تغزل بھی ہے اور روانی بھی ۔
پیروڈی کے بعد تضمین نگاری کا مختصر مگر جامع جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔تضمین مزاح کا ایک موثر حربہ ہے اگر چہ اس کی روایت قدیم ہے لیکن ظریفانہ شاعری میں اکبرؔ نے اس کی بنیاد رکھی۔ تضمین کی یہ خوبی ہے کہ اصل شعر کے ساتھ مل کر ایک نئی شکل اختیار کرے۔ سب سے پہلے احمد شیخ کو لیتے ہیں۔ نذیر احمد شیخ نے یہ حربہ بہت کم استعمال کیا ہے اور صرف 10 مقامات پر یہ حربہ استعمال کیا۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
یا الہٰی وہ محلہ دے مجھے اب تو جہاں
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور کوئی پاسباں نہ ہو(۱۲)
ضمیر جعفری نے اپنے مزاحیہ سرمایے میں تضمین کا حربہ 55 مقامات پر استعمال کیا ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:
مکیں گم شدہ ہیں مکان لڑ رہے ہیں
خود اپنی صفوں میں جواں لڑ رہے ہیں
زمیں چپ مگر آسماں لڑ رہے ہیں
کہاں لڑنے والے کہاں لڑ رہے ہیں

                     فسادات کی سْرخیاں اور بھی ہیں
"مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں"(۱۳)
سید محمد جعفری کے ہاں 200 جگہوں پر تضمینات کا استعمال ہوا ہے۔ یہ تضمینات محض مقدار ہیں میں نہیں بلکہ فنی اعتبار سے ان کا استعمال نہایت برجستہ، برمحل، بے ساختہ اور فطری ہے۔ محمد جعفری اگر چہ صحافتی مقاصد کے لیے یہ حربہ استعمال کرتے لیکن اس میں ادبی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔آپ صحافتی تقاضوں کے باعث صرف فرد یا قطعے لکھتے اور موضوع کا حق ادا کرتے۔
کتنا اچھا فیصلہ کرتا رہا کشمیر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا(۱۴)
یہاں تک تو ان شعراء  کا فکری اور فنی جائزہ تھا اب ذرا موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
موضوعاتی لحاظ سے بھی ان شعراء کے کلام میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بس میں سفر کیا اور ایک ہی جیسی صورتحال سے دوچا ر ہوئے۔ اب یہ بس چاہے کراچی کی ہو یا واہ کینٹ کی جس میں نذیر احمد شیخ سوار ہے اور لوگوں کے ہجوم، دھکم پیل، چیخ و پکار اور بس کی خستہ خالی نے اس سفر کو المناک بنا دیا ہے۔ نذیر  شیخ کی نظم "زمیندار بس" ملاحظہ ہو:
نہ بیٹھا نہ ڈھب سے کھڑا ہے مْسافر
مسافر کے اْوپر پڑا ہے مسافر
کشا کش نفس در نفس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے (۱۵)

سید محمد  جعفری نے "بس کا سفر" میں اپنے تجربات اور مشاہدات یوں بیان کیے:
کوئی بیٹھا ہوا تھا سیٹ پر اور کوئی کندھوں پر
یہ وقتِ آزمائش تھا خدا کے نیک بندوں پر
نہ تھا معلوم جب شامل ہوا تھا بس کے مْجرے میں
کہ مجھ جیسے بہت سے بند ہوں گے ایک حْجرے میں
بسوں میں مجھ کو ایسے قدر والوں سے پڑا پالا
اْٹھی کھجلی تو اپنے ساتھ ساتھی کو کھجا ڈالا(۱۶)
اب ذرا  ضمیرجعفری کی نظم " سفر ہو رہا ہے" ملاحظہ ہو جس میں جزئیات نگاری بھی ہے اور ایک خاص لطافت بھی۔
گریباں پسینے میں تر ہورہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہاہے
جو دیوار تھی اس میں در ہورہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے(۱۷)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ جہاں موضوع ایک ہے وہاں کیفیات بھی کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ مجموعی طور پر ان کا کلام وحدت تاثر کا مظہر ہے۔فکاہیہ شاعری میں مغرب پر طنز کا موضوع اکبر سے شروع ہوتا ہے اور حال میں بھی اس کی اندھی تقلید سے بچنے کی تلقین ہے۔ اس کی خاطر ہم اسلامی روایات پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنی روشن تہذیب سے کنارہ کش ہو کر اپنا تشخص پا مال کرتے ہیں۔ سید محمد جعفری نے اس مغربی تہذیب کا خاکہ ان الفاظ میں اْڑایا۔نظم کا نام ہے۔ "کھڑا ڈنر" جس میں مغربی طرز پر "سٹیڈنگ کھانے کا مذاق اْڑایا گیا ہے"
کھڑاڈنر ہے غریب الدیار کھاتے ہیں
اور اپنی میز پر ہو کر سوار کھاتے ہیں

                     بنے ہوئے شتر بے مہار کھاتے ہیں
کچھ ایسی شان سے جیسے اْدھار کھاتے ہیں (۱۸)
ضمیر نے بھی "کھڑا ڈنر" کے عنوان سے نظم لکھی اور اس قسم کی دعوتوں میں افراتفری و بدانتظامی کی مذمت کی۔
بْفے  دعوت  پہ  بلوایا  گیا  ہوں
نہ آئی  پر نہ  آئی  میری  باری
کبابوں کی رکابی ڈھونڈے کو
برائے  قتلِ  قتلہ  ہائے  ماہی
ضیافت کے بہانے درحقیقت
پلیٹیں  دے  کے  بہلا  یاگیا  ہوں
پلاؤ  تک   بہت   آیا   گیا   ہوں
کئی میلوں سے دوڑایا گیا ہوں
چھری کانٹے سے لڑوایا گیا ہوں
مشقت  کے  لیے  لایا گیا ہوں(۱۹)
سید ضمیرجعفری اور سید محمد جعفری نے بعض دوسرے موضوعات مثلاً مردم شماری، دو عیدیں، وبائے الائمنٹ پر یکساں  مؤ قف پیش کیا۔ ضمیر نے "وبائے الاٹمنٹ" میں تقسیم کے بعد الاٹمنٹ کے مسائل کے موضوع سخن ان الفاظ میں بنایا:
ہر سمت ہے بلند صدائے الائمنٹ
ہائے الائمنٹ تو وائے الائمنٹ
دْنیا ہے اور دینِ دلائے الائمنٹ
اب لوگ جی رہے ہیں برائے الائمنٹ
بندوں کا اب خدا ہے خدائے الائمنٹ (۲۰)
سید محمد جعفری نے اس پر صرف ایک شعر لکھا:
الاٹمنٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں
نہ ہے زمین نہ مکاں، لاالہ الا اللہ(۲۱)
دو عیدوں کا مسئلہ پوری قوم کے لیے دردِ سر بناہوا ہے۔ "رویت ہلال کمیٹی" چاند کی طرح صرف عید بقرِ عید پر اپنا دیدار کراکے اور قوم کو مخمصے میں ڈال کر رفوچکر ہوجاتی ہے۔ اس جھگڑے کو ضمیرجعفری نے "دو عیدیں" کے عْنوان سے لکھا:
مولوی صاحب کھڑے ہو کر کسی مینار پر
اپنی چشمِ سْرمگیں کی کوشش بسیار سے
چاند پیدا کر ہی لیتے تھے بہ جہدِ جستجو
ابر کے گھمسان ، گہرے بادلوں کے غار سے(۲۲)

دو عیدوں کے عنوان سے تقریباً تمام شعراء نے لکھا۔ مرزا محمود سرحدی نے لکھا:
ہماری عید ہے ہم ہر طرح منائیں گے
ہمارا شیخ کے فتوے پہ اعتبار نہیں
ہمارے ڈپٹی کمشنر نے چاند دیکھا ہے
ہمیں یقین ہے وہ غیر ذمے دار نہیں(۲۳)
اب ذرا سید محمد جعفری کے ہاں معاملہ دیکھیں:
ڈپٹی کمشنروں کو نظر آگیا ہلال
شوال اْن کے گھر میں گھس آیا بصد جلال
رمضانیوں کے گھر میں ہوئی زندگی وبال
اور سب کے گھر میں بٹنے لگی جوتیوں میں دال(۲۴)
 "مردم شماری" کا موضوع ملاحظہ ہو۔  محمد جعفری مردم شماری کے موجودہ طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہے چمن میں آج کل مردم شماری کی بہار
اس لیے حیوان ناطق ہو رہے ہیں اب شمار
                      سینس گھوڑوں گدھوں کا ہو چکا ہے پہلی بار
رہ نہ جائے تو کہیں اے مردِ عاقل ہوشیار(۲۵)
مردم شماری کسی خاص مقصد کے لیے نہیں بلکہ صاحبان اقتدار جب چاہیں تو قومی فریضہ سر انجام دیں۔اس لیے آپ لکھتے ہیں:
وزارت کے لیے مردم شناسی شرطِ اوّل تھی
مگر حضرت نے پوری قوم کی مردم شماری کی
نہیں ہے ساتھیوں سے مشورہ تو اس کا کیا شکوہ
کہ خود بھی کچھ نہیں معلوم حد ہے راز داری کی (۲۶)
مردم شماری کا موضوع مرزا محمود سرحدی کے ہاں ملاحظہ ہوں:
کیا بتائیں ہم کہ یہ کتنا مبارک کام ہے
یہ بھی دیکھا ہے کہ بیٹا باپ کا ہم نام ہے
شام اس کی صبح ہے اور صبح اس کی شام ہے
بار ہا سوچا ہے یہ کیا گردش ایام ہے(۲۷)
سید ضمیر جعفری اور نذیر احمد شیخ میں بھی درج بالا موضوعات کے علاوہ مشترک موضوعات موجود ہیں مثلاً نذیر احمد شیخ ریل کا سفر کرتے ہیں تو "ریلوے جنکشن" تک پہنچتے ہیں۔
دل پہ اک بوجھ ہے اسباب قلی کے سر پر
ہر نظر و مضطر و بیتاب قلی کے سر پر
لاکھ محتاط ہیں کس کس کی بچائیں ٹکر
ناگہاں آپ بْت کافر سے جوکھائیں ٹکر
سیم وزر زیور و کم خواب قلی کے سر پر
اور قلی پینترا ہر آن بدل جاتا ہے
کبھی آگے بھی دائیں بھی بائیں ٹکر
شیخ صاحب کا تو ایمان بدل جاتاہے(۲۸)
نذیر احمد شیخ جنکشن پر رْک جاتے ہیں لیکن شاعر خوش الحان ضمیرٹرین کے اندر داخل ہو کر مشاہدہ کی نگاہ سے ادھر اْدھر بکھرے مناظر نمایاں کر رہے ہیں:
وہ اک دانائے کْل لوگوں میں گھل مل کے بیٹھے ہیں
رضائی میں جو یوں بیٹھے ہیں گویا سِل کے بیٹھے ہیں
کس اطمینان سے لالہ سمندر خان سوتے ہیں
لپٹا کر ساتھ اپنے اپنا کل سامان سوتے ہیں
کسی نے یوں گھریلو گفتگو پر زور ڈالا ہے
کہ جیسے اگلے سٹیشن پر رشتہ ہونے والا ہے(۲۹)

نذیر احمد شیخ نے کراچی کی ایک بوڑھی میم کی کہانی سنائی اور وہ پھر اپنے مخصوص شوخ اندازِ بیان سے:
کراچی میں رہتی ہے اک میم بوڑھی
مجھے اپنے قصبے سناتی ہے اکثر
لگی کہنے افسوس سے کل بیچاری
کیوں کیا زمانے کا ہے حال ابتر
کٹا دفترِ حْسن سے نام میرا
نہیں اب میں ممبر کسی انجمن کی
مجھے ایسی تدبیر مسٹر بتاؤ
کہ ہو جائے صورت کوئی آمدن  کی(۳۰)
اور ضمیرجعفری میم سے متاثر ہوئے تو "مسز ولیم" جیسا کردار تراشا
وہ آنکھیں بحراطلانتک کے نیلے پانیوں جیسی
بدن یونانیوں جیسا ، نظر مصرانیوں جیسی
فرنگ وایشیا میں بانکپن مشہور تھا اْس کا
دِلوں میں آگ سلگانے کا فن مشہور تھا اْس کا
محلے بھر کی افواہوں کا ٹیلی فون تھی یارو
مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو(۳۱)
ضیاء الحق قاسمی نے مزاح کے اْن تمام موضوعات اور حربوں کو برتا جس کو ضمیر صاحب نے ہاتھ لگایا۔
طعن ہو، بہتان ہو ،الزام ہو ،دْشنام ہو
کوئی صورت ہو مگر مشہور ہونا چاہیے(۳۲)
اسی زمین میں ضیاء الحق قاسمی کا قطعہ ملاحظہ ہو:
صدر کا پورا علاقہ صاف ہونا چاہیے
ہر گلی کوچے سے بھی انصاف ہونا چاہیے
صدر کے پورے علاقے میں ہے اب تک گندگی
انتخاب ِصدر تو شفاف ہونا چاہیے(۳۳)
شہنشائے ظرافت دلاور فگار اور بابائے ظرافت سید ضمیرجعفری میں بھی بہت سے موضوعات مشترک ہیں۔ غالب ؔکا مصرعہ ہے۔قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔سید محمد جعفری نے اس کی تضمین کی تو یہ صورت بنی:
ایبسٹریکٹ آرٹ بہر طور نمایاں نکلا
’’قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا ‘‘(۳۴)
سید ضمیرجعفری نے لکھا:
ایک عطّار کو سْونگھا تو غزلخواں نکلا
’’قیس تصویر کے پردے میں بھی عْریاں نکلا‘‘(۳۵)
شہر میں ٹیلی فون کا نیا کال سسٹم جاری ہوا تو چند روز خاصے لطائف ہوئے۔ ضمیرجعفری نے نمبر ملایا تو
میں نے گھر کو جو گھمایا کوئی دفتر بولا
خاص نمبر سے کوئی عام سخنور بولا
یوں خواتین کا مردانِ خدا ہو جانا
پھر گھمایا تو وہی قند مکرّر بولا
اپنی سلمیٰ کو بلا یا تھا سکندر بولا
"باور آیاہمیں پانی کا ہواہوجانا" (۳۶)
لیکن جب اسی ٹیلیفون پر ادغام اصوات کی صورتحال پیدا ہوگئی تو دلاور فگار نے لکھا:
جب فون پر کہا کہ بہن بھائی سے ملو
آیا جواب انڈہ اٹھارہ روپے کلو
شادی کا فون پر جو دیا یار کو پیام
آیا جواب قبر کا کر لیجیے انتظام(۳۷)
اسی مختصر سے جائزہ سے معلوم ہوا کہ اْردو کی فکاہیہ شاعری میں موازنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ دلاور فگار ہے یا سید محمد جعفری، مرزا محمود سرحدی ہے ضیاء الحق قاسمی  ہے یا سید ضمیر جعفری ،اْردو کی فکاہیہ شاعری میں ہر ایک کا الگ مقام و مرتبہ ہے۔ البتہ موازنے سے ایک اچھی بات سامنے آئی کہ اْردو کے یہ ظریف نگاران نہ صرف ظرافت سے محبت کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے  کو خراج تحسین پیش کرکے ایک روشن روایت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان ظریفان ِ فن کے فکاہیہ کلام میں قوس قزح کے  رنگ، پھولوں کی خوشبوں کی مہک، کو نپلوں کے پھوٹنے اور کھلنے تک کیفیات ،مزاح اور بذلہ سنجی کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں۔ان کی فکاہیہ شاعری زندگی کے تجربات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔یہ حالاتِ زمانہ کو احساسات اور جذبوں میں ڈھال کر قہقہوں کے گلشن زار میں پہنچا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان اللہ خٹک اسسٹنٹ پروفیسر ڈگری کالج بنوں

حوالہ جات
۱۔        سید ضمیر جعفری "نشاطِ تماشا"سنگِ میل پبلشرز لاہور1994ص 431
۲۔.       ایضاً ص455
۳۔       انور مسعود،" شاخ تبسم" محوّلہ بالا  ص 58
۴۔       سید محمد جعفری،" شوخیِ تحریر"  سنگِ میل پبلیکشنز لاہور 1993ص 158
۵۔       سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا         ص 157
۶۔        نذیر احمد شیخ "واہ رے نذیر شیخ" ص 35
۷۔       سید محمد جعفری "شوخی تحریر" محوّلہ بالاص 85
۸۔       سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا         ص 67
۹۔        پروفیسر صدیق کلیم "تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند "دسویں جلد 1972ص 429
۱۰۔       نذیر احمد شیخ "واہ رے نذیر شیخ" ص 55
۱۱۔       سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا         ص87
۱۲۔       نذیر احمد شیخ ،"واہ رے نذیر شیخ" محوّلہ بالاص 56
۱۳۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا، ص 641
۱۴۔      سید محمد جعفری" شوخی تحریر " محوّلہ بالاص 61
۱۵۔      نذیر احمد شیخ،" واہ رے نذیر شیخ" محوّلہ بالا ص 99
۱۶۔       سید محمد جعفری ،"شوخی تحریر" محوّلہ بالا         ص 85
۱۷۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا،ص 144
۱۸۔      سید محمد جعفری "شوخی تحریر" محوّلہ بالاص 155
۱۹۔       سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا " محوّلہ بالاص 76
۲۰۔      ایضاً،ص 63
۲۱۔       سید محمد جعفری "شوخی تحریر " محوّلہ بالا۔ص 64
۲۲۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا ،ص 910
۲۳۔      سید یونس شاہ "مرزا محمود سرحدی شخصیت اور فن " محوّلہ بالاص 148
۲۴۔      سید محمد جعفری "شوخی تحریر " محوّلہ بالاص 112
۲۵۔      ایضاً ص 138
۲۶۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا ص 829
۲۷۔      سید یونس شاہ "مرزا محمود سرحدی شخصیت اور فن            " محوّلہ بالاص 149
۲۸۔      عطاء  اللہ عالی"  موازنہ ء ضمیر نذیر " محوّلہ بالاص 28
۲۹۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالاص 641
۳۰۔      عطاء  اللہ عالی"  موازنہ ء ضمیر نذیر " محوّلہ بالاص 31
۳۱۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا " محوّلہ بالاص 202
۳۲۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا  " محوّلہ بالاص 92
۳۳۔      ضیاء  الحق قاسمی ماہنامہ "ظرافت " کراچی 1998ص 27
۳۴۔      سید محمد جعفری "شوخی تحریر "  محوّلہ بالاص 145
۳۵۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالا ص 65
۳۶۔      سید ضمیر جعفری "نشاط تماشا" محوّلہ بالاص 169
۳۷       دلاور فگار ماہنامہ "ظرافت " کراچی 1998 ص34

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com