اردو میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا ارتقائی سفر
ڈاکٹر سلمان علی وہاب اعجاز

ABSTRACT
For the first time in 20th century modern computer technology has been used in Urdu in the field of publishing. Which, to a great extent, influenced the Urdu language and it brought revolutionary changes in publishing and journalism. In 21st century, due to the popularity of Unicode Urdu it also played a great role in the progres and developments of Urdu Language. In This reseach article a brief overview has been given of the mutual journey of Urdu and modern technology .

           کمپیوٹر کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابتداء میں کمپیوٹر کا استعمال دفاعی امور، خلابازی  اور بڑے بڑے کاروباری اداروں کے لیے کیا جاتا رہا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد کے لیے بھی اس کا استعمال عام ہوتا چلا گیا۔اس طرح انفرادی طور پر دنیا کے بہت سے اداروں نے مختلف مقاصد کے لیے کمپیوٹر کا استعمال شروع کیا۔ اردو کمپیوٹنگ کاآغازصحافتی اداروں کی جانب سے کیا گیا تاکہ اخبارات و رسائل کی کتابت میں سامنے آنے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں احمد مرزا جمیل اور جنگ گروپ کی کوششوں سے پہلا اردو فانٹ تیار کرنے میں کامیابی ملی۔ 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والی ان کوششوں کے متعلق محمد اکبر سجاد لکھتے ہیں:
’’پاکستان میں کمپیوٹر پر اْردو پراسیسر(لفظ کار) تیار کرنے کی کوششوں کاآغاز اسّی(80) کی دہائی میں ہوا تھا۔ مونوٹائپ اور لائنو ٹائپ کمپنیوں نے ان کوششوں کا آغاز اس سے پہلے کر دیا تھا لیکن نتیجہ 1980ء میں برآمد ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ احمد مرزا جمیل نے مونوٹائپ کمپنی سے اردو کے لیے سافٹ وئیر کی تیاری کی بات کی تو انہوں نے پہلے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ایک ناکام تجربہ شمار ہوگااور اس پر آنے والی لاگت بھی ضائع ہو جائے گی مگر احمد مرزا جمیل کے اصرار پر کہ اگر ایسا ہوا تو اس کے تمام اخراجات وہ خود ادا کریں گے، مونوٹائپ نے اْردو لفظ کار کی تیاری کی حامی بھرلی۔ تیاری کے بعد اس کوشش کو آگے بڑھانے کے لیے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی نے اپنے دفاتر میں پہلاکمپیوٹر نصب کیا جس نے کئی دہائیوں کی تاریخ بدلی اور کاتبوں کی جگہ آہستہ آہستہ کمپیوٹر نے لے لی۔ یوں اْردو طباعت کا شعبہ انسانی سے مشینی دور میں داخل ہوگیا۔ اس کمپیوٹر کی قیمت جو جنگ نے اسّی کی دہائی میں نصب کیا ، اس وقت تقریباً 50 لاکھ روپے تھی۔ اس کی پہلی نمائش 1980ء میں سائینٹفک سوسائٹی پاکستان کی اْردو سائنس کانفرنس ، منعقدہ اردو سائنس کالج کراچی میں ہوئی۔‘‘( ۱)
احمد جمیل مرزا کا تیار کردہ فانٹ اردو کا پہلا خوبصورت ترین اور بہترین نستعلیق فانٹ تھا۔ جس کا نام انہوں نے اپنے والد نور احمد کے نام سے نوری نستعلیق رکھا۔ بعد میں آنے والے اردو ورڈ پروسیسرز (لفظ کار)میں بھی احمد جمیل مرزا ہی کے بنائے گئے ترسیموں کو استعمال کیا گیا۔ان کی خدمات کے صلے میں 1982ء میں حکومت پاکستان نے موصوف کو تمغائے پاکستان سے نوازا۔مرزا جمیل احمد کے بارے میں مشتاق احمد قریشی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اللہ بھلا کرے احمد مرزا جمیل کا اور ان کے ساتھیوں کا، جنہوں نے شب و روز کی محنت ِشاقہ سے اردو نستعلیق کو مشینی اردو بنا کر عالمی صف ِاول کی زبان میں کھڑا کردیا۔ ان کے اس کام میں ان کے والد جناب نور احمد دہلوی کا بھی حصہ ہے جو دہلی کے ایک بڑے نامور فنکار خطاط تھے۔ احمد جمیل مرزا جو اپنے والد کے فن کی باریکیوں اور تمام رموز سے خوب آشنا تھے خط‘ جوڑ‘ دائروں سے پوری طرح شناسا اور مہارت سے انہیں استعمال کرنے سے واقف تھے۔ انہوں نے کچھ اہل ہنر افراد کو شامل کرکے اس مشکل کام کو آسان کردیا۔ اس سلسلے میں اگر جنگ کے جناب میر خلیل الرحمن کا نام نہ لیا جائے تو زیادتی ہوگی۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ایک کثیر سرمایہ کاری نے جہاں ان کے اخبار کو سب سے پہلے اردو نستعلیق پر کمپیوٹر کے ذریعے استعمال کرنے کا اعزاز بخشا وہیں احمد جمیل مرزا کو ان کی ایجاد اردو نستعلیق کے باعث عالمی شہرت کا حامل بنادیا۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ برف زدہ اردو کو جو برف کی طرح آہستہ آہستہ پگھلتی جارہی تھی‘ ختم ہورہی تھی‘ کو برق دم کردیا۔ ایک دم اس میں بجلی بھردی اور برقی اردو بنادیا۔ چونکہ کمپیوٹر بجلی سے ہی چلتا ہے اور اب جدید اردو بجلی کی مرہون منت ہوگئی ہے۔‘‘( ۲)
اس کے بعد ’’نوائے وقت ‘‘ گروپ نے بھی ہاتھ کی کتابت کو کمپیوٹرمیں منتقل کردیا۔ ان کا تیارکردہ نظام لائنو ٹائپ کمپنی نے تیار کیا۔ کتابت کی خوبصورتی کے حوالے سے مونو ٹائپ کا تیار کردہ نوری نستعلیق فانٹ لائنو ٹائپ کی نسبت زیادہ خوبصورت تھااور یہی فانٹ کمپیوٹر کے زمانے میں اردو کتابت کے لیے معیار ٹھہرا۔ابتدائی کوششیں  دراصل بڑے بڑے اشاعتی اداروں کی جانب سے تھیں جنہوں نے خطیر سرمایے سے یہ کام سرانجام دیا۔ لیکن اس کے بعد کمپیوٹرکا استعمال ذاتی مقاصد کے لیے بھی شروع ہوا اور ذاتی کمپیوٹر کو بھی اردو میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی تاکہ عام صارف بھی اردو کمپیوٹر کو استعمال میں لاتے ہوئے مختلف امور سرانجام دے سکیں۔
اس سلسلے میں( 1983 تا 1985 ) طاہر مفتی کی جانب سے کوششوں کا آغاز ہوا نہوں نے اس دور میں مختلف ذاتی کمپیوٹر وں پر تجربات کیے جن میں ایچ پی اور ایپل ٹو شامل تھے۔ انہوں اپنے دیگر دوستوں کی مدد سے نہ صرف کمپیوٹر کے قالب کو اردو میں ڈھالنے کی کوشش کی بلکہ اردو لفظ کار کی تیاری، نستعلیق فانٹ کی تیاری کے علاوہ اردو کوائفیہ جات کی تیاری کے بھی عملی تجربے کیے۔ ( ۳)
جون1984ء میں سعید کریم نے ایک منی اردو کمپیوٹر سافٹ وئیرتیار کیا جس کو انگریزی کے ساتھ اردو نسخ میں بھی لکھنے کا اہتمام موجود تھا۔ اسی طرح جون 1985 میں امریکی ریاست مشی گن میں پاکستانی نژاد طالب علم تمیز انصاری نے اردو حروف تہجی کے لیے ایک کمپیوٹر سافٹ وئیر تیار کیا جس میں نسخ میں عبارت کو مزید واضح اور خوبصورت بنایا گیا۔ستمبر 1985 میں فضل الرحمن علی نے بھی ایک لفظی عمل کار سافٹ وئیر(ورڈ پروسیسر) تیار کیا۔1978 میں اسلام آباد کے بریگیڈیر حسین نے بھی اردو کمپیوٹر سافٹ وئیر کی تیاری پر کام شروع کیا جس کو ان کے بیٹے نے آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اسی دور میں سی سی سمنز نے بھی اردو کمپیوٹرنظام تیار کرنے کا تجزیہ کیا جو نسخ اور نستعلیق کے درمیانی رسم الخط پر مشتمل تھا اور جس کا مقصد ایک سستا کمپیوٹر نظام تیار کرنا تھا جن سے عام اور چھوٹے پبلشر حضرات فائدہ اٹھا سکیں۔ساتھ ہی جاپان میں اس سلسلے  میں پیش رفت ہوئی اور آسو کایو نامی نظام تیار کیا گیا جس پر اردو میں لکھنا ممکن تھا امریکہ میں بھی خوشنویس کے نام سے ایک ذاتی کمپیوٹر سافٹ وئیر تیار ہوا۔اسی طرح بزنس سنٹر انٹرنیشنل نے اردو نستعلیق ، پشتو ، سندھی ، گجراتی کو ذاتی کمپیوٹر پر ڈھالنے کی کوشش کی اور ’’خطاط‘‘ نامی سافٹ وئیر ایجاد کیا۔ جس میں خط فاتح نامی فانٹ استعمال کیا گیا۔( ۴)
1989کے آغاز میں’’انعام علوی کمپیوٹرز‘‘نیاردو کے مکمل اور جامع’’سرخاب نظامِ کتابت‘‘ کا اعلان کیا۔تین سال کی محنت کے بعد انہوں نے ایک مکمل سافٹ وئیر تیار کیا جو کہ اس دور میں طباعت کی تمام ضروریات پوری کرنے کے قابل تھا۔
اسی طرح 1989ء  میں شاہکار کمپیوٹر لاہور کی جانب سے ’’شاہکار اردو پبلشنگ سسٹم‘‘ متعارف کرایا گیا۔اس کے بعد 1989ء  میں ہی  پاکستان ڈیٹا مینجمنٹ سروس کی جانب سے ’’نستعلیق نظامی ‘‘لفظ کارسافٹ وئیرتیار کیا گیا۔ مذکورہ اداروں کی جانب سے ان سافٹ وئیر ز کی قیمت لاکھوں میں رکھی گئی جو کہ اس وقت عام صارف کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہاں پبلشنگ اور پریس جیسے منافع بخش کاروبار کیحامل ادارے ان سے استفادہ ضرور حاصل کر سکتے تھے۔۔ اس دور میں ’’صدف‘‘ ڈیٹا بیس کے نام سے بھی ایک سافٹ وئیر تیار کیا گیا۔
90ء  کی دہائی میں گرافیکل انٹرفیس کو مقبولیت حاصل ہوئی۔اس لیے ونڈوز پر چلنے والے جدید اردو ورڈپروسیسر(لفظ کار) کی ضرورت کو محسوس کیا جانے لگا جو کہ اس وقت کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔
اس سلسلے میں ہندوستان کی ایک سافٹ وئیر کمپنی کانسپٹ سافٹ وئیر پرائیوٹ لمیٹڈ (Concept Sofware Pvt Ltd )نے باقاعدہ کام شروع کیا۔ جس کی سربراہی راریندر سنگھ اور وجے گپتا کررہے تھے۔ اس کمپنی کو برطانیہ کی ایک کمپنی Multilingual Solutions کا بھی اشتراک حاصل تھا۔ اس ادارے نے مونوٹائپ اور احمد مرزا جمیل کے تیار کردہ نوری نستعلیق کو استعمال میں لاتے ہوئے 1994ء میں ’’ان پیج‘‘ نامی ورڈ پروسیسر(لفظ کار) تیار کیا۔ اس سافٹ وئیر میں نوری نستعلیق کے علاوہ چالیس مزید اردو فانٹس کا اضافہ کیا گیا۔ اس سافٹ وئیر نے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک اردو کتابت کے میدان میں اردو دان طبقے اور صحافت کا بڑا ساتھ دیا۔ بعد میں اس سافٹ وئیر کے حقوق پاکستان کی ایک کمپنی ایکسس سافٹ میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ Axis Softmedia Pvt Ltdنے خرید لیے۔ مگر آج بھی لاکھوں کی تعداد میں صارفین اس سافٹ وئیر کو غیر قانونی طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس سافٹ وئیر نے اْردو انٹرنیٹ کے میدان میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور انٹرنیٹ پر پہلی مرتبہ تصویری سائٹس بنانے کی راہ اس کی بدولت ہموار ہوئی۔
مگر کچھ احباب ان پیج پر سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہم نستعلیق اوپن ٹائپ کے میدان میں عربی اور فارسی سے بہت پیچھے رہ گئے۔یعنی شروع میں ان پیج کو قبلہ مان کر یونی کوڈ کی طرف کا سفر سست رفتاررہا۔ مگر ان تمام اعتراضات کے باوجود ان پیج کا اردو کمپیوٹنگ میں کردار کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
1991ء میں سید عماد الدین قادری اور ان کے رفقاء نے پہلے اردو لائبریری کمپیوٹر نظام’’کتاب نویس‘‘ پر کام شروع کیا اور ایک بہترین لائبریری کوائفیہ کی تیاری کو ممکن بنایا جس میں اردو زبان میں کتابوں کا اندراج ممکن تھا۔
1993ء میں UNDPکے تعاون سے پاکستان میں اسلام آباد سے پہلی بار انٹرنیٹ کا آغاز ہوا۔یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے جس کا مقصد ترقیاتی کاموں کے لیے ترقی پذیر ممالک میں مالی امداد مہیا کرنا ہے۔ UNDPکے تعاون سے عمران نیٹ نامی ایک کمپنی نے ای میل (برقی خط) سروس کا آغاز کیا۔ اس سروس کی مدد سے مختلف نیوز گروپس تک بھی رسائی ممکن تھی۔ بعد میں اس سلسلے کو دوسرے شہروں میں پھیلانے کی بھی کوشش کی گئی۔ 95۔1994ء میں ڈی جی کام (Digicom )نامی ایک کمپنی نے کراچی سے پہلی باقاعدہ آئی ایس پی کی ابتداء کی۔ ساتھ ہی ساتھ 1996ء میں پی ٹی سی ایل کی جانب سے بھی انٹرنیٹ سروس کا آغاز کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر چھوٹے شہروں تک اس کا دائرہ کار بڑھانے کا منصوبہ بھی زیرِ غوررہا۔2000ء میں پورے پاکستان کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے شہروں کو انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کر دی گئی۔ ابتداء میں یہ صرف ڈائل اپ(dail up ) کی سہولت تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس سلسلے کو مزید بہتر بنایا گیا۔ اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے آخری سالوں میں پاکستان میں براڈ بینڈ کی سہولت ہر عام و خاص کو مہیا کردی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ وائرلس انٹرنیٹ اور موبائل انٹرنیٹ کے نظام کو بھی مزید معیاری اور باکفایت بنا دیا گیا۔ آج پاکستان میں کم سے کم دو کروڑافراد انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں۔
انٹرنیٹ پر پہلی مرتبہ اردو کا استعمال ایک نیوز گروپ(News Group ) کی صورت میں10 مئی 1994ء کو سید ظفر کاظمی کی جانب سے کیا گیا۔ انہوں نے(ALUP )کے نام سے ایک نیوز گروپ ترتیب دیا۔ جس کا مکمل نام(Alt , Languaege Urdu Poetry ) تھا۔ اس نیوز گروپ میں اس دور کے انٹرنیٹ صارفین اپنے پسندیدہ کلام کو رومن رسم الخط میں پوسٹ کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ اس دور میں صرف نیوز گروپس اور ای میل تک ہی رسائی ممکن تھی۔
The first step in introducing the Internet as a new medium for Urdu, was made on May 10 1994, by Syed Zafar Kazmi when he started a newsgroup for Urdu poetry. The newsgroup was called alt.language.urdu.poetry (ALUP).  For some years this was the only place where Urdu lovers had a platform to discuss Urdu literature.Urdu sites were to come later. (۵)
اس کے بعد انٹرنیٹ پر اردو کی کچھ ذاتی نوعیت کی ویب سائٹس منظر عام پر آئیں جس میں زیادہ تر رومن اردو کا استعمال کیا جاتا رہا۔ اْس دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اْردو کمپیوٹر کے لیے قابل فہم یعنی مشین ریڈ ایبل (machine readable )زبان نہیں تھی۔ ان پیج کی حد تک ہی کمپیوٹر اس زبان کو سمجھ سکتا تھا۔ اس سافٹ وئیر میں لکھا جانے والا متن کسی دوسرے سافٹ وئیر یا انٹرنیٹ میں کسی صفحے کے بنانے کے لیے چسپاں کرنے کی کوشش کرتے تو وہاں سوائے عجیب و غریب نشانات کے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا۔ جب 1995ء کے بعد باقاعدہ آئی ایس پی کے ذریعے سے انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہوئی تو اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ ان پیج میں لکھی گئی تحریر کی تصویر لے کر اس کو ویب پیج میں چسپاں کردی جائے۔ یوں اردو متن تو پڑھا جاسکتا تھا مگر اس صفحے کی تحریر کو کاپی کرنا اور اس میں تلاش کرنا ناممکن عمل ٹھہرا۔
اردو سافٹ وئیر کی طرح اردو انٹرنیٹ میں بھی اوّلیت اردو کے صحافتی اداروں کو حاصل رہی۔ 1997ءمیں جنگ گروپ کی جانب سے اْردو کی پہلی صحافتی ویب سائٹ (jang.com.pk )کا آغاز کر دیا گیا (۶ )یہ ویب سائٹ نہ صرف اردو کی پہلی صحافتی ویب سائٹ ٹھہری بلکہ اس کو اردو کی پہلی باقاعدہ ویب سائٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس ویب سائٹ پر مواد تصویری شکل میں میسر تھا۔ جنگ کے ساتھ ساتھ نوائے وقت اور دوسرے اخبارات نے بھی اپنی ویب سائٹس کا آغاز کر دیا۔ جس کو روزانہ کی بنیاد پر تازہ ترین اخبار کی اشاعت کے ساتھ ہی اپ ڈیٹ(تازہ کاری) کر دیا جاتا تھا۔
اردو کی پہلی غیر اخباری، تعلیمی ، تفریحی ، ادبی میگزین سائٹ ہونے کا اعزاز اْردوستان ڈاٹ کام (Urdustan.com ) کو حاصل ہے۔ جس کو اگست 1998ء میں کاشف ہْدیٰ کی جانب سے منظر عام پر لایا گیا۔ اس کے بعد اس دور کی سب سے مقبول اور سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹ اردو پوائنٹ (Urdpoint.com ) کا آغاز علی چوہدری کی جانب سے کیا گیا۔ یہ ایک مکمل میگزین سائٹ تھی جس پر زیادہ تر مواد تصویری شکل میں موجود تھا یہاں صارفین کو زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق مضامین ، تبصرے اورآراء میسر تھیں۔ جن میں مذہب ، حالات حاضرہ ، شعر و ادب شامل ہیں۔ اس ویب سائٹ کو روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ(تازہ کاری) کیا جاتا رہا۔ مقبولیت کے لحاظ سے اس ویب سائٹ کو حد درجہ قبول عام حاصل ہوا۔ اور آج بھی یہ صارفین کی پسندیدہ ویب سائٹس میں شمار کی جاتی ہے۔ اس بارے میں زینت لاکھانی اور کاشف ہدیٰ اپنے مشترکہ مضمون میں کچھ یوں تحریر کرتے ہیں:
"The honor of being the oldest Urdu website around goes to Urdustan.com which was launched in August 1998. However, UrduPoint.com is the most popular website in terms of traffic. While some news sites such as the Jang and Nawa-i-Waqt may get more traffic than UrduPoint.com, UrduPoint is a 'live' website while Urdu newspapers are merely publishing replicas of their paper editions." (۷ )
اس کے بعد القمر آن لائن(alqamaronline.com ) ، پہچان ڈاٹ کام(Pehchaan.com ) جیسی ویب سایٹس کا آغاز ہوا۔ اردوستان ڈاٹ کام کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس ویب سائٹ کے منتظمین نے اس دور میں یاہو(yahoo ) کے طرز پر یوہو نامی اردو ویب ڈائریکٹری کا بھی آغاز کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب صارفین کی تعداد بڑھنے لگی تو اردو ویب کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ یوں مختلف موضوعات پر نئی نئی ویب سائٹس کا اضافہ ہونے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ جیو سٹیز(geocites ) کی جانب سے مفت ویب سپیس ملنے کے سبب اردو کی ہزاروں ذاتی ویب سائٹس بھی منظر عام پر آئیں۔ جن میں سے کچھ کی نوعیت تصویری تھی اور کچھ رومن اردو رسم الخط میں ترتیب دی گئیں تھیں۔
1999ء میں تفسیر احمد نے کراچی یونیورسٹی کی طالبہ صدف علوی کے ساتھ مل کر اردو مشینی ترجمے کا پہلا سافٹ وئیر تیار کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جس میں انھیں کامیابی نصیب ہوئی۔
اردو کا پہلا ادبی تصویری جریدہ جدید ادب کے نام سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ظہور پذیر ہوا۔ جس کو 1999ءمیں شائع کیا گیا۔ اس کی ویب سائٹ پر مواد تصویری شکل میں موجود تھا۔اس سلسلے میں کاشف ہدیٰ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
"While the first literary magazine in the Urdu language to put its entire contents online was jadeed Adab (www.jadeedadab.com). (۸)
کمپیوٹر  انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ماہرین کو اس بات پر مجبور کیا کہ اردو کی تحریری ویب سائٹس کو رواج دیا جائے جس کو اردو انکوڈنگ (Encoding )میں تحریر کیا جاسکے اور اس میں تلاش اور مواد کی نقل کا پہلو بھی نمایاں ہو۔ اور یہ اردو دوسرے سافٹ وئیر میں بھی نافذ العمل ہو سکے۔
انٹرنیٹ کے حوالے سے اس قسم کی پہلی باقاعدہ کوشش97۔1998 میں ہوئی جب پہلی مرتبہ شہباز چوہدری نے اردو ٹرو ٹائپ فانٹ کے ذریعے سے ویب سائٹ کی تیاری کی تجویز پیش کی۔ جس کے بعد عمیر خان نے اردو ویب (urduweb.com )کے نام سے اردو کی ویب سائٹ تیار کی جس میں مواد نہ صرف تحریری شکل میں موجود تھا بلکہ صارفین کو اردو لکھنے اور ای میل بھیجنے کے لیے اردو سافٹ وئیر بھی میسر تھے۔ (۹ )
کچھ عرصہ بعد نسیم امجد نے اردو "نگار" نامی ایک سافٹ وئیر تیار کیا جس کی مدد سے اردو تحریری ویب سائٹ تیار کی جاسکتی تھی۔ ساتھ ہی 1998ء میں جرمنی کے علی حسن شاہ نے عربی کے خط نسخ کو استعمال کرتے ہوئے اردو تحریری ویب سائٹ بنانے کا تجربہ کیا۔ جو کہ براہ راست اردو تحریر میں کھلنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس کے لیے الگ سے کوئی فانٹ یا پلگ ان(Plug in ) ڈاون لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی( ۱۰)۔۔اسی دور میں شہزادہ عاشق علی نے یو ٹرانس(U-TRANS ) نامی سافٹ وئیر اور بہت سے فانٹ بنائے۔( ۱۱)
Urdu 98کے  نام سے نستعلیق نما فانٹ پاک ڈیٹامینجمنٹ سروسز (Pakistan Data Management Services (PDMS ) کی جانب سے منظر عام پر آیا۔ انہوں نے چند اہم سافٹ وئیر بھی تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔ان کے تیارکردہ اردو فانٹ سسٹم نے اس وقت کے آپریٹنگ سسٹم کے تمام سافٹ وئیرز میں اردو لکھنے کے عمل کو بھی ممکن بنایا۔ مگر اس کمپنی کے سافٹ وئیر مہنگے ہونے کی وجہ سے عام صارف کے لیے مفید ثابت نہ ہوسکے۔پہلا تحریری ادبی جریدہ آج میگزین کو قرار دیا جاتا ہے۔ پاک ڈیٹا کی جانب سے Urdu98فانٹ  ، رقعہ ، اردو ای میل ،اردو کمپیوٹر نظام ،اردو ماہر ،نظامی نستعلیق  نامی سافٹ وئیر تیار کیے گئے۔ (۱۲ )
روزنامہ جنگ کی جانب سے بھی ابتدائی طور پر پاک ڈیٹامینجمنٹ سروسز کا تیارہ کردہ فانٹ استعمال کرتے ہوئے ویب سائٹ بنانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ جس میں تلاش کا عمل بھی ممکن ہو سکے۔
حکومتِ ہند کی جانب سے قائم کردہ ادارے "سی ڈیک" کی جانب سے اردو زبان کے لیے ایک الگ انکوڈنگ سسٹم(Encoding system ) (معیار بندی )"پاسکی "کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اس سسٹم کے تحت ایک سافٹ وئیر ’’ناشر‘‘ تیارکیا گیا جبکہ مشینی ترجمے کی کوششوں کا بھی آغاز ہوا۔ لیکن اس ان کوڈنگ سسٹم کے بین الاقوامی سطح پر بطور معیار تسلیم نہ ہونے کی بنا پر اس کی افادیت بھی ان پیج سے آگے نہ بڑھ سکی۔
مگر ان تمام انفرادی کوششوں کے باوجود مشکل یہ تھی کہ اس دور میں کسی ایک خاص انکوڈنگ سسٹم پر اتفاق رائے ممکن نہ  ہوسکا تھا۔ تمام اردو سافٹ وئیر پر استعمال ہونے والی تحریری اردو کا اپنا الگ الگ کوڈنگ سسٹم تھا۔  اور بین الاقوامی طور پر یہ دوسرے تلاش کار یا سافٹ وئیر کے لیے قابل فہم نہیں تھا۔ جہاں تک تلاش کرنے کا حوالہ ہے تو صرف اسی ویب سائٹ میں تلاش ممکن تھی جس پر اس کو استعمال کیا جاتا تھا ،باقی بڑے بڑے تلاش کار ویب سائٹس گوگل(google ) ، یاہو(yahoo ) کے ڈیٹا بیس(کوائفیہ) انجن اس کو ڈنگ کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اس مقصد کے لیے اردو زبان کی معیار بندی وقت کی اہم ضرورت تھی۔ کیونکہ اس کی بدولت اردو کو ہر قسم کی مشین کے لیے قابلِ فہم بنایا جاسکتاتھا۔
اردو کو تحریری شکل میں رواج دینے میں سب سے اہم کردار مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد(ا دارۂ فروغ قومی زبان) کا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کے شعبۂ اطلاعیات نے 1998ء میں اردو ضابطہ تختی کے تحت پہلی مرتبہ اردو ان کوڈنگ(Encoding ) کا اجرا کیا جس کی بدولت چند بڑے پروجیکٹ مثلاً نادرا کے ڈیٹا بیس (کوائفیہ) میں اردو لکھنا ممکن ہو سکا۔ مقتدرہ کے اسی معیار کو جولائی 2000 ء میں تمام بڑی کمپنیوں مائیکروسافٹ (Mircrosoft )، گوگل(google ) ، ایپل(Apple ) اور موبائل کمپنیوں نے معیار کے طور پر قبول کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی NLTکو یونی کوڈ 3.1،4.0کا حصہ بنا دیاگیا۔ اس طرح سے پوری دنیا کے کمپیوٹرز کے لیے اردو ایک قابل فہم زبان بن گئی۔ یہ ایک ایسا انقلابی قدم تھا جس کی وجہ سے اردو میں سافٹ وئیر کی لوکلائیزیشن(مقامیانے) کا آغاز ہواجبکہ انٹرنیٹ کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی مرتبہ اردو تحریری سائٹس کا آغاز ہوااور اردو زبان اب تمام بڑے تلاش کار ویب سائٹس کے لیے قابل فہم زبان بن گئی۔ اور اس میں مواد کی تلاش کا عمل ممکن بنایا جاسکا۔ اس کے ساتھ ساتھ مائیکروسافٹ کے ورڈپروسیرز(لفظ کار) اور دوسرے اہم سافٹ وئیرز میں اردو کی لکھائی ممکن ہو پائی۔بعد میں مقتدرہ قومی زبان نے یونی کوڈ فانٹ پاکستانی نستعلیق کا اجراء کیا۔ مقتدرہ قومی زبان نے اردو کمپیوٹنگ کے دوسرے شعبوں میں بھی کئی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عطش درانی لکھتے ہیں:
’’اردو اطلاعیات کے شعبے نے بھی یہی کیا۔ اردو کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان بنانے کے لیے ان دس برسوں میں بنیادی معیار وضع کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ بس یوں سمجھ لیں ایک انقلاب بویا۔ اب موبائل فون ، ایس ایم ایس ، ای میل ، ویب سائٹس سب کچھ اردو میں آرہا ہے۔ ایک تحریک ہے جو اپنے ثمرات پیش کررہی ہے۔‘‘(۱۳ )
جولائی 2001ء میں فاسٹ یونیورسٹی لاہورمیں ڈاکٹر سرمد حسین اور ان کے ساتھ طلباء کی کوششوں سے مرکز ِتحقیقاتِ اردو (CRULP )کی بنیاد رکھی گئی۔ اس ادارے نے نہ صرف یونی کوڈ فانٹس کی تیاری کے عمل کوآگے بڑھایا بلکہ پہلا صوتیاتی اردو تختہ (کی بورڈ) بھی اس ادارے کی طرف سے منظر عام پر لایا گیا۔ نفیس نستعلیق ، نفیس ویب نسخ اور دوسرے کئی فانٹس کے ساتھ ساتھ اردو کی آن لائن لغت، 144000اردو الفاظ و کلمات کی فہرست اس ادارے کے کارہائے نمایاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دریچہ پراجیکٹ کے ذریعے بچوں کو اپنی زبان میں کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا سہرا بھی اس ادارے کے سر جاتا ہے۔اس ادارے نے 2010ء  میں اردو ریڈر بھی تیارکیا جس کے ذریعے سے یونی کوڈ اردو میں لکھی گئی ویب سائیٹ کو باآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ الفاظ کو آواز میں تبدیل کرنا کا پہلا تجربہ تھا جو اس ادارے کی کوششوں سے ممکن ہو پایا۔( ۱۴)
‘‘Center for Research in Urdu Language Processing is providing platform for the concerned researchers to put their efforts together for advancement in Urdu language computation and standards development."   (۱۵)
بعد میں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے سنٹر فار لینگوئج انجینئرنگ (CLE )رکھا گیا۔ اس ادارے نے آواز کو الفاظ میں تبدیل کرنے اور اردو کی آوازوں کی پہچان(سپیچ ریکڈنائزشن سسٹم) کی تیاری کے سلسلے میں بھی بہت زیادہ کام کیا۔ اور اس سلسلے میں ان کی کاوشیں ابھی بھی جاری ہیں۔
            اردو کی پہلی مکمل تحریری یونی کوڈ میں ترتیب دی گئی ویب سائٹ" بی بی سی اردو ڈاٹ کام"bbcurdu.com ۲۰۰۲ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ پہلی مکمل ویب سائٹ تھی جس کے لیے ایشیاٹائپ نسخ کے نام سے اپنا فانٹ تیار کیا گیا تھا۔ یہ فانٹ آج بھی بہت سے اداروں اور عام صارفین کی جانب سے انٹرنیٹ پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ابتداء میں اس فانٹ نے اردو انٹرنیٹ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس ویب سائٹ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ باقاعدہ کسی ادارے کی جانب سے بلاگ(blog ) کا آغاز بھی پہلی مرتبہ بی بی سی نے کیا۔ بی بی سی کی اردو ویب سائٹ حد درجہ مقبول ہوئی۔ یہاں تک کہ اپنے ابتدائی سال میں یہ اردو کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس میں شمار ہونے لگی۔( ۱۶)
ستمبر 2002ء میں اردو کی پہلی برقی کتاب ’’دریا دریا وادی وادی ‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اس کتاب کے مصنف عبید اللہ کیہر تھے۔( ۱۷)
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں اردو میں بلاگنگ کی ابتداء ہوئی۔ عمیرنامی ایک کنیڈین پاکستانی نے پہلا اردو بلاگ تخلیق کیا۔ جس کے بعد آہستہ آہستہ اردو بلاگنگ(bloging ) کے لیے راہیں ہموار ہوتی گئیں۔( ۱۹)
۴ فروری 2004ء میں اردو سے محبت کرنے والے چند رضاکاروں نے اردو کمپیوٹنگ کے نام سے ایک یاہوگروپ(yahoo group ) ترتیب دیا۔ اس گروپ کے رضاکاروں میں کاشف ہدا، اکبر چوہدری ، اعجاز عبید ، شارق مستقیم ،نسیم امجد شامل تھے۔ نسیم امجد نے کاتب اور نگار جیسے پروگرام بنائے۔ بعد میں "نگار" یونی کوڈ ہو گیااکبر چوہدرری نے سب سے پہلے فائر فاکس(firefox ) کا اردو ترجمہ کیا، جو شاید کسی بھی سافٹ ویر کومقامیانے کی پہلی کوشش تھی۔ شارق مستقیم نے پہلی مرتبہ ان پیج سے یونی کوڈمیں تحریر کو بدلنے کا سافٹ وئیر تیار کیا، جو کہ ایک انقلابی قدم تھا۔ اس سے اردو ان پیج میں لکھے گئے ایک بڑے مواد کو یونی کوڈ میں تبدیل کرکے انٹرنیٹ پر تحریری شکل میں پیش کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔( ۲۰)
مارچ 2004ء میں" اردو وِکی پیڈیا" کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے اس ادارے کی انگریزی ویب سائٹ معلومات اور مواد کے لحاظ سے دنیا کے بہترین ذریعوں میں شمار کی جاتی تھی۔ یہ اردو کا پہلا آزاد المعارف انسائیکلو پیڈیا تھا۔ بعد میں اس ادارے کی جانب نے وکی بکس اور وکی لغت کے پراجیکٹس کابھی آغاز ہوا۔ اس ادارے سے جڑے ہوئے رضاکاروں کی ٹیم نے اپنی کوششوں سے مضامین کی تعداد کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جون2005ء میں اردو سے محبت کرنے والے چند بلاگرز کی کوششوں سے اردو ویب ڈاٹ آرگ کاآغاز کیا گیا۔(Urduweb.org )جس کے پہلے مرحلے میں محمد زکریا کی جانب سے "اردو سیارہ" کے نام سے اردو بلاگرز کے بلاگز کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں  قدیر رانا کی طرف سے اردو میں ترجمہ شدہ ایک پی ایچ پی فورم (چوپال) کو ترتیب دیا گیا۔ جس کا مقصد ایک ایسی کمیونٹی ترتیب دینا تھا جس میں رضاکارانہ طور پر اردو کی ترقی و ترویج کو انٹرنیٹ پر ممکن بنایا جائے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ سائٹ کے منتظم نبیل نقوی اور زکریا نے اس سلسلے میں بہت محنت کی۔ نبیل نقوی نے اردو ایڈیٹرکو پی ایچ پی کیساتھ جوڑ کر صارف کی اردو لکھنے میں حائل مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں اس سائٹ کی جانب سے ایک ویب لائبریری کا بھی آغاز کیا گیا۔ جس میں رضاکار منتظمین نے اردو کتب کو برقیانے کا کام سرانجام دیا۔ اس ویب سائٹ کے منتظمین اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں نے جو کام سرانجام دیا وہ اداروں کا کام تھا جو ان افراد نے اپنی کوششوں کے باعث ممکن بنایا۔ 2005ءکے بعد اس فورم سے منسلک افراد نے انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والے کئی ایپلی کیشنز اور سافٹ وئیرز کو آسان اردو میں مقامیانے کا فریضہ سرانجام دی۔ پہلی مرتبہ ایک بڑے پیمانے پر یہاں سے ہی فانٹ سازی کے عمل کو آگے بڑھایا گیا۔( ۲۱)
2005ء کے بعد بے شمار اردو فانٹ منظر عام پر آئے خاص طور سے نستعلیق فانٹ کے لیے کوششیں تیز تر کر دی گئیں۔ پہلے مقتدرہ سے وابستہ محسن حجازی کا "پاکستانی نستعلیق" مقتدرہ کی جانب سے صارفین کی سہولت کے لیے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد علوی نستعلیق ، جمیل نوری نستعلیق کشیدہ اور فیض نستعلیق جیسے فانٹ منظر عام پر آئے۔ ان تمام فانٹس نے انٹرنیٹ پر نوری نستعلیق کی کمی کو پوراکرنے میں اہم کردار اداکیا۔جناب شاکر القادری کی جانب سے اردو ویب ڈاٹ آرگ کی طرز پر ایک ایسے ہی پلیٹ فارم القلم کا آغاز کیا گیا جس نے فانٹ سازی اورسافٹ وئیر ایپلی کیشنز کے مقامیانے کے عمل کو مزید تیز کر دیا۔ تاج نستعلق ایک اوپن سورس نستعلق فانٹ کی تیاری اسی ادارے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اسی دور میں مقتدرہ قومی زبان کی جانب سے مائیکروسافٹ ونڈوز وسٹا اور مائیکروسافٹ آفس کے تراجم کے مواجہہ پیک بھی منظر عام پر آئے۔2005ء کے بعد جامعات کی سطح پر بھی اردو کمپیوٹنگ اور مشینی ترجمے کے سلسلے میں بہت زیادہ کام ہوا۔ اس سلسلے میں شعبۂ کمپیوٹر سائنس جامعہ پشاور کی طرف سے اردو کمپیوٹنگ کے شعبے میں ایم ایس کی سطح کے ریسرچ مقالے تحریر کیے گئے اور مشینی ترجمے کے طریقہ کار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسی شعبے کے ایک ہونہار طالب علم جمیل خان نے ایک ایسا نستعلیق فانٹ تیار کیا جس میں ان پیج کی خامیوں کو دور کرکے اسے عربی ، پشتو ، فارسی کے لیے بیک وقت قابل عمل بنایا گیا۔ 2005ء کے بعد بڑی تعداد میں اردو بلاگز(blogs ) منظر عام پرآئے۔ ساتھ ہی پی ایچ پی فورمز کا اجراء اور آن لائن لائبریریوں کی آمد سے مواد کو بہتر سے بہتر بنانے اور معلومات تک اپنی زبان میں رسائی کا عمل مزید تیز ترہوتا چلا گیا۔گوگل(Google ) کی جانب سے ٹرانسلیشن کنٹرول (Translational Control )اور ٹرانسلیشن اے پی آئی مہیا کیے جانے کے بعد صارفین کے لیے ٹائپ کرتے وقت رومن اردو کو تحریری اردو میں تبدیل کرنا ممکن ہو گیا۔ 2010ء میں گوگل ترجمے میں اردو کی شمولیت انٹرنیٹ پر اس کی موجودگی کا ایک بڑا اعتراف ہے۔
2007 ء کے بعد سمارٹ فون کی مقبولیت کی وجہ سینکڑوں کی تعداد میں اردو کے موبائل ایپ بھی تیار کیے گئے جن کی تیاری کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اردو اور نستعلیق کے بنیادی تعلق کو سمجھتے ہوئے مائیکروسافٹ کی جانب سے اردو ٹائپ نستعلیق اور گوگل کی طرف سے نوٹو نستعلیق کی تیاری سے مختلف لفظ کار سافٹ وئیر پر اردو کو اپنے اصل رسم الخط میں لکھنے میں مزید آسانیا ں پیداہوئیں۔ 2015ء میں ایپل کی جانب سے بھی اپنے نئے آپریٹنگ سسٹم  iOS 9.0 بیٹا ورڑن میں نستعلیق اردو سپورٹ کو شامل کیا گیا۔( ۲۲)
2011ء میں م بلال کی جانب سے پاک اردو انسٹالر کی تیاری ایک اہم سنگ میل تصور کی جاتی ہے۔ جس کی بدولت صرف ایک فائل(مسل) نصب کرنے سے اردو یونی کوڈ سپورٹ کسی بھی کمپیوٹر پر نصب کرنا ممکن ہوئی۔
2012ء میں دنیا کی مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹس ٹویٹر اور گوگل پلس کا اردو میں ترجمہ کیا گیا اور بالاخر2013 کے آخر میں فیس بک کا اردو ترجمہ مکمل ہوا اور دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو کو بھی فیس بک میں شامل کر لیاگیا۔2015 میں واٹس ایپ نے بھی خود کو اردو میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔
اس پورے سفر کا جائزہ لیا جائے تو پندرہ سولہ سال کے عرصے میں اردو کمپیوٹنگ نشیب و فراز کے عمل سے گزرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مگر چونکہ اس زبان میں مقابلہ اور زندہ رہنے کی حددرجہ صلاحیت موجود ہے اس لیے آج کے دور میں اردو زبان ایک حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ اردو کمپیوٹنگ کا مستقبل روشن تر ہے۔ آج کی دنیا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا ہے اور آج اردو زبان ان تمام چیلنجز پر پورا اْتر رہی ہے۔ اس پورے سفر میں نہ صرف مختلف اداروں نے اپنی توانائیاں صرف کی ہیں بلکہ انفرادی طور پر اردو کے چاہنے والے اردو دان طبقے نے بھی دن رات ایک کرکے اردو کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے میں اپنا کردار نبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر سلمان علی۔ پروفیسر ، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
وہاب اعجاز۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

 

حوالہ جات
۱۔        " پاک نستعلیق فانٹ: ایک تکنیکی جائزہ" محمد اکبر سجاد۔ مشمولہ ماہنامہ اخبارِاردواسلام آباد جولائی 2009ء ص:28
۲ ۔        http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=388434#   مورخہ۔ 2011۔ ۲۔۵
۳۔       "اردو کمپیوٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحقیق و ترقی " تحریر۔ طاہر مفتی۔ ترجمہ امجد مسعود۔۔۔ مشمولہ۔ اردو اطلاعیات جلد دوم۔ مرتب ڈاکٹر عطش درانی    ص:46
۴۔       "اردو کمپیوٹر کی ایجاد چند ابتدائی کوششیں"۔محمد اسلام نشر۔ مشمولہ اخبارِ اردو ، کمپیوٹر نمبر1990ءمقتدرہ قومی زبان  ، ص: 47
6.         Urdu on the Web has developed a presence of its own at long last. By Kashif Hoda and Zainab Lakhani   SPIDER [www.spider.tm] June 2004
7.        http://www.facebook.com/pages/Jang-Group-Online-Properties /123406197671677?sk=info   Dated: : 2011 ۔۵۔۱۲
8.        Urdu on the Web has developed a presence of its own at long last. By Kashif Hoda and Zainab Lakhani   SPIDER [www.spider.tm] June 2004
9.           کاشف ہدا کامضمون:An Overview of Urdu on the Webمورخہ:2011۔۵۔۲۲ URL:http://www.urdustudies.com/pdf/20/25ResourcesHoda.pdf
۱۰۔       ایضاً
۱۱۔       ایضاً
۱۲۔       اردو ویب آرگ کے دھاگے اردو کمپیوٹنگ کی تاریخ سے ماخوذ
۱۳۔      http://www.pakdata.com/aaj / مورخہ : 2011۔ ۵۔۱۱
۱۴۔      " اردو اطلاعیات۔۔۔۔ لسانی ترقی کا مستقبل"۔ ڈاکٹر عطش درانی  مشمولہ  اخبار اردو اسلام آباد۔ جولائی 2009ء  ص: ۷
۱۵۔      http://www.riazshahid.com/2010/01/21 ۔۔۔ مورخہ : 2015۔5۔20
۱۶۔       http://www.crulp.org/information/information.htm مورخہ 2011۔۵۔14
۱۷۔      http://news.bbc.co.uk/2/hi/technology/2831075.stmمورخہ : 2011۔۴۔۹
۱۸۔      "کمپیوٹر سی ڈی پر اردو کی پہلی کتاب"۔ عقیل عباس جعفری۔ مشمولہ۔ اردو اطلاعیات جلد دوم۔ مرتب ڈاکٹر عطش درانی ص:92
19۔       http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2010/03/100308 _blogs_pakistan_zs.shtml مورخہ : 2011۔۵۔23
۲۰۔      اردو ویب آرگ کے دھاگے اردو کمپیوٹنگ کی تاریخ سے ماخوذ
۲۱۔       اردو ویب آرگ کے مختلف دھاگوں سے ماخوذ
22.      http://bilaunwan.wpurdu.com/urdu-nastaleeq-font-ios ۔ 2015۔6۔12

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com