انتظار حسین کے افسانوں کا اندرونی سفر
ڈاکٹر روبینہ شاہین شہلا داؤد

ABSTRACT
Nostalgia and History have penetrated in the fiction of Intezar Husain to such extantthat these have become part And parcel of his style and techneque.He has utilized has Technique to his perfection and has linked with ancient past. In it is invalded his personal experiences and psyclogiecal Motion as well. Migration and rien are his first reflection experiment, which has inspired Intezar Husain mentally and practically .

            بلاشبہ انتظار حسین کے افسانوں میں جو کہانی بیان ہوئی ہے۔وہ صدیوں کا سفر کرتی ہوئی انسانی ذہن اور اجتماعی لاشعور کے رشتے کو جوڑتی ہے۔ یہ ذہنی سفر بھی ہے ،اور اس میں تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ وہ تخیل جس نے انتظار حسین کے افسانے کو صدیوں کی تاریخی سفر کا ترجمان بنا دیا ہے۔ انھوں نے بلاشبہ ذاتی تجربوں کو علامتوں کے ذریعے پیش کیا ہے۔لیکن ان کا انداز بہت واضح اور بعض اوقات بیانیہ ہو جاتا ہے۔جو کہانی کا تقاضا ہے۔ اس کے لیے وہ عموماً ایسی فضا سامنے لاتے ہیں۔جہاں زندگی کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔اور زندگی کے یہ مناظر کبھی آہستہ آہستہ اور کبھی تیزی سے دھندلے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ان کی کہانیوں کے کچھ کردار جو ماضی اور حال کے درمیان کڑی کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔مگر یہی کردار اپنے دھندلے ، دھیمے سروں میں حال کو ماضی سے ملا دیتے ہیں۔ انتظار حسین خود کہتے ہیں:
" مجھے ماضی اور حاضر میں اتنی تقسیم نظر نہیں آتی ، میں تو ایک زمانے میں زندہ ہوں ، معلوم نہیں  اس میں ماضی کتنا ہے اور حاضر کتنا۔ یہاں ایک بات مجھے لارنس کی یاد آئی ہے۔جو اْس نے پرندوں کے حوالے سے کہی ہے۔کہ جن پرندوں کی آوازیں میرے حافظے میں بسی ہوئی ہیں۔اور میرے تصور میں سمائی ہوئی ہیں۔ وہ کہیں بہت دور ماضی سے  بول رہے ہیں۔"( 1)
چونکہ کہانیاں ہر شخص کو بلکہ ہر لکھائی کو ورثے میں ملتی ہیں۔ چنانچہ انتظار حسین نے اپنی کہانیوں میں اپنی دھرتی کو بھی پیش کیا ہے۔اس لئے کہ ان کو یہ کہانیاں اسی دھرتی سے ملی ہیں۔ اور کہانیوں کی اْس عظیم روایت سے بھی استفادہ کیا ہے۔جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ روایت قصوں کہانیوں ، روایتوں ، کتھاؤں اور داستانوں کی ہے۔جو عرب و عجم میں پھیلی ہوئی ہے۔ چنانچہ اس میں کتھا ، کہانی اور جاتکوں کا قدیم ہندی خزانہ بھی شامل ہے۔اور قصص الانبیا ءکی وراثت بھی۔
انتظار حسین کے افسانوں میں یہ مختلف رنگ اپنی تمام گہرائی اور گیرائی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی جڑیں اگر ایک طرف تو ہندوستان کی دھرتی میں پیوست محسوس کرتے ہیں۔تو دوسری طرف ایک وسیع اجتماعی لاشعور کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ا پنی کہانیوں میں ایک طرف تو اسلامی عقائد اور طرز ِ احساس سے بھرپور تمثیلوں اور حکایتوں کو بیان کیا ہے۔تو دوسری طرف کتھاؤں ،جاتکوں ،لوک کتھاؤں ،داستانوں اورپرندوں و جانوروں کی کہانیوں کابھی ایک ضخیم اورنادر خزانہ جمع کیاہے۔
ان کے ساتھ ساتھ دوسری طرف انھوں نے اپنے عہد کے انسان کو بھی ان ساری داستانوں میں اپنے ساتھ رکھا ہے۔ اور جدید عہد کے مسائل کو قدیم عہد کے انسانی محسوسات کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ انھوں نے ماضی بعید کی اس تکنیک کو بطوراسلوب اختیار کیا ۔جو آگے چل کر خاص انہی سے وابستہ ہوگیا۔ چنانچہ جب بعد کے افسانہ نگاروں نے انتظار حسین کے اپنائے اس تکنیک کو اپنے طورپر افسانے میں برتا ،تو اسے تکنیک کے بجائے اسلوب ہی کا نام دیا۔
یہ انتظار حسین کا کمال ہی ہے کہ روایتی اسلوب کو بالا رادہ تکنیک کے طور پر برتا۔اور کچھ ایسے کمال کے ساتھ کہ تکنیک معدوم ہو کر اسلوب بن گئی۔ انھوں نے یہ تکنیک یا اسلوب بالخصوص ماضی بعید کے ساتھ گوندھ کر استعمال کی ہے۔ انھوں نے ماضی کو محض تاریخی واقعات کا مجموعہ نہیں سمجھا۔بلکہ اس ماضی کی سحر انگیزی کو ایک حسّاس ادیب اور لکھاری کے طور پر محسوس کیا۔ چنانچہ ناصر کاظمی نے کہا:
" مورخ اور ادیب میں یہی تو فرق ہے۔کہ وہ ماضی کو ماضی میں رکھ کر دیکھتا ہے اور ادیب اْسے حاضر میں پیوست کرکے دیکھتا ہے۔ مورخ کے لیے واقعہ محض واقعہ ہے۔ اْس کے گرد منڈلاتی ہوئی کہانیاں اور توہمات اْس کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ ادیب ایک واقعہ کو واقعہ پر ختم نہیں سمجھتا۔ اس سے جو کہانیاں پیدا ہوئیں۔ جو قصے چلے ، جن توہمات نے جنم لیا ، جو تاریخیں مبارک اور نجس بنیں۔ ان سب کو واقعہ کا حصہ سمجھتا ہے۔۔۔  ہم معرکۂ ستاون پر کیا غور کرتے ہیں۔اپنی کھوئی روح کو ٹٹولتے ہیں۔"(2)
انھوں نے ایک کہانی کار کے طور پر متنوع موضوعات پر لکھا ہے۔ " زرد کتا" اور " آخری آدمی " تخلیق کرنے والا انتظار حسین ایک ایسا فنکار ہے۔ جنہوں نے موضوعات کے تنوع کے ساتھ اسلوب کے رخ بدلے ہیں۔ان کی پہچان بن جانے والے ان دونوں افسانوں سے ہٹ کر " شہر افسوس " اور " ہندوستان سے ایک خط " میں وہ ایک اور جہت میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔
انتظار حسین کے ہاں چھوٹے بڑے بہت سے افسانے مختلف تجربوں اور اور مختلف اسالیب کے حامل نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں بچپن کی محبتوں سے گندھا " دیولا" اور " پٹ بیجنا" جیسی کہانیاں بھی ہیں۔ اور " گلی کوچے " میں " عقیلہ خالہ " جیسی کہانیاں بھی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھیں۔ تو پاکستان کی سیاسی اورسماجی پس منظر میں لکھی گئی کہانیاں بھی نظر آتی ہیں۔ جو کسی قومی واردات میں استعاروں کی بجائے عام انسانی رویوں ، برتاؤ اور ردعمل کا مطالعہ کرتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی ساری ہی کہانیوں میں زیر سطح ایک لہر ایسی ضرور موجود رہتی ہے۔جو انتظارحسین کے مرکزی مسئلے اور ان کی سوچ سے کہانی کو مربوط کر دیتی ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی مرکز سے یہ رابطہ متنوع مضوعات اور اسالیب کی رنگا رنگی کے باعث ایک تہہ دار شخصیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یہ ایسی شخصیت ہے جو اپنی سوچ کی ہر تہہ میں اور شخصیت کی ہر سطح پر عمل اور ردعمل کی ایک کیفیت سے گزرتی ہے۔ اس کو محسوس کرتی ہے ، اور اپنی اصل سے اس کو مربوط کرکے دکھاتی ہے۔
انھوں نے اپنے مخصوص اسلوب کے باعث مختلف مقامات پر ان میں سے کئی سطحوں کوابھارا ہے۔ اور ان سب کو انھوں نے ایک ہی لینڈ سکیپ میں سمونے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس کوشش کے پیچھے ایک گہری نفسیاتی ضرورت اور ایک ہمہ گیر تجربہ موجود ہوتا ہے۔ ان کے ہاں تجربے اور نفسیاتی واردات کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے۔یہ ان مختلف النوع افسانوں کا مطالعہ بتائے گا۔
ان کے تجربوں میں تو مر کزی تجربہ ایک سطح سے دوسری سطح تک جانے کا تجربہ ہے۔جسے عرف عام میں ہجرت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ان کا انفرادی تجربہ بھی ہے ،اور اجتماعی سطح پر بھی موجود ہے۔ جو کبھی تو مکہ سے مدینہ ، کبھی کربلا کی طرف ہجرت ہے۔اور کبھی یہ ہجرت ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کی ہجرت ہے۔ جو ان کو اپنی تاریخ کے اس اجتماعی احساس کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ چنانچہ نفسیاتی طور پر یہ تجربہ کبھی "زرد کتا " میں ترک کی طر ف سے دنیا کی طرف ہجرت واقع ہوتی ہے۔اور کبھی آدمی کا بندر ، مکھی یا دوسرے جانوروں کی جون میں بدلنے کی صورت میں۔کیونکہ اس کے معنی بھی وجود کی ایک سطح سے دوسری سطح تک ہجرت کرانے کا ہے۔ ایک جنم سے دوسرے جنم کے معنی بھی ایک کائناتی ہجرت ہے۔ رام لعل کہتے ہیں:
" انتظار حسین کی کہانیاں تہذیبی بازیافت کی علامتی کہانیاں ہیں، اگرچہ ان کی تمام افسانہ نگاری مختلف قسم کے تجربات اور سیاسی و نظریاتی بیانات سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ جسے ملک کی تقسیم سے الگ کرکے دیکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ "(3)
اگر رام لعل کی اس بات کو صحیح مان بھی لیا جائے، تو انھوں نے تقسیم اور دوسرے معنوں میں ہجرت کے عمل کو سیاسی نظر سے دیکھا اور پیش کیا بھی۔تو انھوں نے اس سارے عمل کو اسلامی بلکہ خالص اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا۔ اور اسی بناء پر اس کو دوسری ہجرت کا نام دیا۔ لیکن اْن کے نزدیک یہ ہجرت بھی دو طرح کی تھی۔ ایک طرف تو وہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ تھے۔جنہوں نے واقعی ہجرت کی تھی۔ اور دوسری طرف ہندوستان کے وہ ہزاروں لوگ تھے۔جو ہندوستان یا پاکستان میں رہ گئے تھے۔اور جنہوں نے ذہنی ہجرت کی تھی۔ انھوں نے بھی فسادات کے اثرات (Impact )کو پوری طرح سے محسوس کیا تھا۔
مسلمانوں کی عظمت کا پر شکوہ دور انہدام پذیر ہوا تھا۔ ان کے ان تمام افسانوں میں صرف فسادات کا کرب نہیں ،بلکہ ہجرت کا دکھ ہے۔ کیونکہ ہجرت کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔اور یہ نسل در نسل صدیوں تک اپنے اثرات دکھاتے ہیں۔ اس کا اثر انسان کے باطن پر پڑتا ہے۔ وہ اپنی جڑوں سے کٹ جاتا ہے۔ شاید اسی لیے انتظار حسین کے ہاں جہاں بھی ہجرت کا ذکر آیا ہے۔ان کو اپنے اجتماعی لاشعور میں موجود پہلی ہجرتوں کے دکھ بھی یا دآتے ہیں۔ شہزاد منظر اس صورتحال کے بارے میں لکھتے ہیں:
"پاکستان کے افسانوں اور ناولوں میں ہجرت کے کرب کا اظہاران ادیبوں نے کیا جو ہجرت کر کے نئے ملک پاکستان آئے تھے۔۔۔۔انھوں نے ہجرت تو کی مگر اپنی یادوں میں آبائی وطن کو بسائے رکھا۔یہ بات خاص طور پر ہندوستان سے آئے ہوئے ادیبوں کی تحریروں میں پائی جاتی ہے۔یہ کرب اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب انھیں اور ان کی طرح دوسرے لوگوں کو ان کی امیدوں اور خوابوں کی سرزمین پاکستان میں اپنی حیثیت کا احساس ہوتا ہے"(4)
انھوں نے سرحد پار کی گلی کوچوں ، بازاروں ، پرانے راستوں کو مکے ،مدینے کی گلیوں ، بغداد کے بازاروں اور بندرا بن کے جنگلات میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی کی فضاؤں کے ساتھ حال کے واقعات کو کچھ اس طرح جوڑا ہے۔کہ ماضی اور حال ایک ہو گئے ہیں۔ فوزیہ اسلم کہتی ہیں:
" انتظار حسین کے افسانے تقسیم ملک ، ہجرت ، تہذیبی ، بحران ، ثقافتی انتشار اور اخلاقی اقدار کے زوال کا نوحہ ہیں۔ خود بھی ہجرت کے کرب سے گزرے۔ جب دنیا 47تک شاہی جبر و ستم ، بورڑوا انقلاب ، متحدہ یاست کے نشیب و فراز ، عملی جنگوں اور ایشیا اور افریقہ کی غلامی کی ٹوٹی زنجیروں کو دیکھ کر ایسے مقام پر پہنچتی ہے۔ جہاں لسانی تعصبات و اختلاف کو جواز بنا کر تقسیم ہند کے لیے فضا ہموار کرکے بٹوارہ کیا گیا، انتظارحسین کے افسانے وطن کی جدائی ، ہجرت ، ماضی ، گم شدہ معاشرے کے تہذیبی و جذباتی رشتوں کی شکست کی ایک ایسی کہانی بن جاتے ہیں۔جس میں جڑوں کی تلاش ایک گنجلک اور پیچیدہ مسئلہ بن جاتی ہے۔"(5)
"قیوما کی دکان " جوان کا پہلا افسانہ بھی ہے۔"خرید و حلوہ بیسن کا " ، " اجودھیا" "رہ گیا شوق منزل مقصود" ، " سانجھ بھئی چوندیس" اور " محل والے " ایسے احساسات پر مبنی افسانے ہیں۔ ایسے افسانے جن میں حال کا درد بھی ہے۔ اور ماضی کی بازگشت بھی۔ ان افسانوں میں ماضی حال کی تصویر بن کر سامنے آتا ہے۔
" اجودھیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔ آدمی کی روح تو اجودھیا ہوتی ہے۔ اس کی رونق تو دوسرے کے ہاتھ ہے۔ اور یہ دوسرے  ہاتھ وفا نہیں کرتے۔"(6)
وہ اپنی ذات کی گم شدہ اس کڑی کو ماضی میں تلاش کرتے ہیں۔کیونکہ معاشرے کی تصویر اْس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی۔جب تک کہ ماضی کے یہ کٹے ہوئے حصے تخیل کے راستے واپس لا کر نہ جوڑے جائیں۔ اس ماضی میں تاریخ ، مذہب ،نسلی اثرات ، دیومالا ، حکایتیں ، داستانیں اور عقائد و توہمات سب شامل ہیں۔ ماضی کی تلاش اور جڑوں کی بازیافت کا یہ پیچیدہ سوال اپنے جواب کی تلاش میں کبھی اسلامی حکایات کے خزانے تلاش کرتا ہے۔کبھی گوتم بدھ کے ساتھ گھنے جنگلوں کی گھپاؤں میں بھٹکتا ہے۔ کبھی ہندو رشیوں اور منیوں کے ساتھ جنگل جنگل پھرتا ہے ، کبھی مندروں میں گھنٹیاں بجاتا ہے، کبھی مسجدوں میں سربسجود ہوتا ہے۔ کبھی چرچ میں شمعیں روشن کرتا ہے۔ غرض ایک رنگا رنگی ہے۔
ہجرت کے ساتھ سفر کا استعارہ ان کے افسانوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ ہجرت اور سفر لازم و ملزوم ہیں۔ " شہر افسوس " ، " پرچھائی " ، "" کٹا ہوا ڈبہ " جس کی اہم مثالیں ہیں۔ ہجرت کا کرب یہاں داستانوی اسلوب میں ہے۔
ماضی میں کھو جانے کا یہ احساس کسی قدر رومان انگیز بھی ہے۔ کہ وہاں اسطورہ اور دیومالا کی بڑی رنگین دھند میں لپٹی ہوئی اور دوری کا احسا س لیے بڑی خوبصورت دنیا ہوتی ہے۔ انتظار حسین نے ماضی میں کھو جانے والے اس فرد کو رومانیت اور  ناسٹلجیا کے ملاپ سے تلاش کرنے کی سعی کی۔ ڈاکٹر عالم خان کہتے ہیں:
"اردو افسانے میں رومانوی طرز احساس پہلے بھی تھا۔لیکن وہ دکھ سکھ اور رفاقتیں قربتوں کی جلو میں پروان چڑھتی تھیں۔اور ایک ہی ماحول کی بْو باس میں پرورش پاتی تھیں۔لیکن تقسیم کے بعد جدائی کا تجربہ ایک اجتماعی آشوب میں تبدیل ہوگیا۔اور رومانی طرز احساس انفرادی کرب کی سرحد یں عبور کرکے اجتماعی تجربے میں ڈھل گیا۔"(7)
یہ اجتماعی تجربہ کا احساس تو پہلے سے موجود تھا۔ رام سیتا کا بن باس لینا ،پانڈوؤں کا جنگل اور بیابان کی راہ لینا اور وہاں نیا شہر بسا لینا۔ آخر میں پھر سفر اور جنگل کی طرف مراجعت ، بدھ کا جنگل کی طرف ہجرت کر جانا، آدمؑ کا آسمانوں سے زمین کی طرف ہجرت، نوحؑ کی کشتی میں اپنی بستی چھوڑ کر انجانے پانیوں کا سفر ، مکہ چھوڑ کر مدینے کی گلیاں آباد کرنا، کربلا کی طرف سفر ، اور مصنف کی اپنی ہجرت جس کے پس منظر میں یہ سارے ہجرت جھلملاتے ہیں۔ یہ ساری یادیں ایک اجتماعی تہذیب اور اجتماعی شخصیت کی تلاش کا عمل ہے :
" وہ بستی کتنی اجاڑ نظر آتی ہے۔ وہ بستی جہاں خلقت ٹوٹتی تھی جو کبھی قوموں کی سرتاج اور شہروں کی ملکہ تھی۔ اس کا سہاگ لٹ گیا، وہ تابعداد بن گئی ،وہ راتوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے۔ اس کے رخساروں پر گنگا بہتی ہے۔ اب اس کے رفیق کہاں جو اس کے آنسو پونچھیں۔ اس کے دوستوں نے اس سے دغا کی۔ اس کے یاروں نے اس سے دھوکہ کیا۔"(8)
یہی وہ لاشعوری محبت ہے۔جو اپنے وطن سے ہوتی ہے۔اور صدیوں کے سفر کے بعد بھی زندہ و تابندہ رہتی ہے۔ انتظار حسین کے افسانوی نثر میں داستانی رنگ کی یہ موجودگی ماضی کا قصہ بیان کرنے کا رویہ ہے۔ انھوں نے داستانی زبان کے ساتھ تہذیبی اور مذہبی اساطیر اور لوک تلمیحات کا بھی استعمال کیا ہے۔ وہ اپنے عہد کے مسائل کو تاریخی اور تہذیبی اسطور ہ سے ہم آہنگ کرکے کہانی کی بنت کاری کرتے ہیں۔ اس عمل سے جہاں ان کا یکتا اسلوب الگ سے اپنی شناخت کراتا ہے۔ وہیں اس عہد کی کہانی کو پہلی کہانی سے جدا رنگ میں بھی پیش کرتا ہے۔
60 ء کی دہائی میں جب اردو میں باقاعدہ طور پر علامتی افسانہ لکھا جانے لگا۔تب علامات کو زیادہ بہتر صورت اور تفہیم کے ایک بہتر اوزار کے طورپر اساطیر کا سہارا لینا پڑا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی افسانے میں اساطیری بیان اور واقعات موجود ہیں۔انور سجاد،سہیل احمد خاں،عزیز احمد اور خود قراۃلعین کے ہاں اس کی واضح علامتیں موجود ہیں۔ اور اس کے لیے کسی مخصوص اسطورہ کا نہیں بلکہ عالمی سطح پرموجود اساطیری واقعات کا استعمال کیا گیا ہے۔ مگر علامات کے لیے اساطیری بیانیہ بہت مناسب ہے۔ چنانچہ انتظار حسین کے لیے افسانے تمام تر دیو مالاؤں کے واقعات ، کردار اور بیان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ان کے ایسے اکثر افسانے آزاد تلازمہ خیال کی بھی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے اساطیر سازی کے عمل میں ایک طرف تو پہلے سے موجود اساطیر سے فائدہ اٹھا یا ہے۔اور ان کو اپنے افسانوں میں استعمال کیاہے۔ اور دوسری طرف الہامی کتابوں ، مقدس شخصیات اور ان سے تعلق رکھنے والی تاریخی اور نیم تاریخی واقعات ، صوفیاء کے ملفوظات کو بھی اپنے افسانوں میں اسطورسازی کے لیے استعما ل کیا ہے۔۔
اگرچہ انہی افسانوں کے باعث انتظارحسین پر ماضی پرست ، داستان گو اور ناسٹلجک ہونے کے بھپتیاں بھی کسی گئیں۔ مگر دراصل یہ ماضی کے پردے میں حال اور مستقبل کے ساتھ مکالمہ کرتے افسانے ہیں۔ وہ تاریخ اور وقت کو ایک خاص تصور کے اندر دیکھتا ہے۔ وہ خود کو کئی زمینوں اور زمانوں کا باسی قرار دے کر ان کے ساتھ رشتہ قائم کرتا ہے۔ تبھی تو ان تمام افسانوں میں کربلا، مدینہ ، جاتک دور اور مہابھارت گھل مل گئے ہیں۔وہ خود کہتے ہیں:
"کربلا تو میرے خمیر میں ہے۔ میرے اندرتو کربلا مچی ہوئی ہے۔اور جس سرزمین پر میں نے پرورش پائی ہے۔ اور جہاں میں پیدا ہوا ہوں ،وہاں مہابھارت پل رہی ہے، اور بڑھ رہی ہے۔ میں تو اس سرزمین پر پلا بڑھا ہوں جہا ں رامائن تھی ، مہابھارت تھی ، جہان رام لیلا ہوتی تھی، جنم اشٹمی منائی جاتی تھی ، میں اپنے بچپن کے تجربوں کو اپنی نسلوں کے تجربے کو کہاں لے جاؤں۔"(9)
روحانی تنزل ، مجموعی بے سکونی ،اپنی پہچان کھو دینا ، ذات کی تلاش ،جتماعی لاشعور سے جڑے رہنے کا احساس انتظار حسین کی ان کہانیوں کا بنیادی موضوع ہے۔ اس کے لیے انھوں نے کہیں بہت واضح اور کہیں پوشیدہ اور علامتی انداز میں اور جزوی طور پر اساطیری حوالوں اور واقعات کے ذریعے ان کی تفہیم کی کوشش کی ہے۔ اور روحانی زوال کی یہ کہانیاں بیان کرتے کرتے انتظار حسین زمینی اور زمانی پابندیوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ یہاں وہ تصور وقت ٹوٹ جاتا ہے۔جو عام بیانیہ کہانیوں کوکسی خاص زمانے اور کسی خاص مقام کا پابند بنا دیتا ہے۔اس لیے انتظار حسین کی یہ کہانیاں ہر زمانے اور ہر زمین کے لیے ہیں۔ یوں ان میں وہ ابدی حقائق بیان ہوئے ہیں۔جو ان کو ایک خاص تاثیر عطا کر دیتی ہیں۔ لیکن بہرحال ان کہانیوں کا ایک خاص معاشرتی سیاق و سباق بھی ہے۔جس کے بغیر ان کی معنویت یہ نہ ہوتی جو ابھی ہے۔ ساری دنیا کے تمدن میں علم الاساطیر اور دیو مالا میں ایک قسم کی یکسانی پائی جاتی ہے۔ دراصل یہ وہ روایتیں ہیں۔ جو مذہب اور اساطیر کے پراسرار عقائد اور توہمات کی تاویل کرتی ہیں۔ چونکہ اساطیر کی حیثیت عالمگیر ہے۔ اور یہ انسانی سوچ کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ اس لیے اجتماعی لا شعور ہر جگہ کارفرما ہوتا ہے۔ یہ عبادت بھی (Archetype )کی مثال ہے۔ چنانچہ نخس تمثال یا آرکی ٹائپ کی مثال یہاں بھی بابلی بادشاہ گل گامش اور اس کا وزیر " ان کدو"  ہے۔جو جب تک گل کامش کے ساتھ بغل گیر نہیں ہو جاتا۔وہ اپنے ظلم و ستم سے باز نہیں آتا۔ جب " ان کدو" گل گامش کا تابع بن کر اس کا دست راست بن جاتا ہے۔ تو دو متضاد شخصیتوں کا یہ ملاپ بہت مفید ثابت ہو جاتا ہے۔اور وہ ہر مہم میں کامیابیاں سمیٹنے لگتے ہیں۔ ان ہی مہمات کے دوران جب " ان کدو " کی موت واقع ہو جاتی ہے۔تو گل گامش کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اور موت کے خوف سے وہ قریب قریب دیوانہ ہو جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے فن کو ان تمام سرچشموں سے سیراب کیا ہے۔جو تہذیبی روایات کے سرچشمے ہیں۔ یعنی یادیں ، خواب ، انبیاء کے قصے ، دیومالا ، توہمات ، ایک قوم کا بحیثیت مجموعی مزاج اور اس کا کردار و شخصیت۔
وہ اپنے شعور و احساس کے ذریعے اچانک ایک نئی دنیا کی بازیافت کر لیتے ہیں۔ زمینی ، تہذیبی اور معاشرتی رشتوں کے کھو جانے اور ان سے بچھڑ جانے کا دکھ بھی یہاں نظر آتا ہے۔ اور ان ساری چیزوں کو چھوڑ دینے کی وجہ سے معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل ہوتا ہے۔ وہ تاریخ کا ایک ایسا عمل ہوتا ہے۔جو اس سے پہلے بھی کہیں نہ کہیں ہو چکا ہوتا ہے۔اور اب گویا اس واقعے کی صورت میں یہاں دہرایا جارہا ہوتا ہے۔ اس کو انتظار حسین نے بہت سارے افسانوں میں انہی تاریخی اور اساطیری واقعات کے امتزاج کے ساتھ دہرایا ہے۔
انتظار حسین نے ان واقعات کا صرف خارجی سطح پر مشاہدہ نہیں کیا۔بلکہ ان کے باطن اور داخل میں اتر کر وجود کے پورے منظر نامے کو اپنے مشاہدے کا حصہ بنایا ہے۔ اخلاقی و روحانی زوال ، داخلی رشتوں کے بھید اور اس سارے عمل میں انسانی محسوسات کو انھوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ گوپی چند نارنگ کہتے ہیں:
" اب انتظار حسین علامتوں ، تمثیلوں حکایتوں اور اساطیری حوالوں سے اپنے کرداروں کی تعمیر و تشکیل میں مدد لینے لگتے ہیں۔اور اب جتنی اہمیت فضا سازی کی ہے۔ اتنی ہی اہمیت کردار نگاری کی بھی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انتظار حسین کے فن میں کشف کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جیسے حقیقت اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہو۔ یا وجود کے اسرار ایک کے بعد ایک بے نقاب ہو رہے ہوں۔اس نوع کی ماورائی اور متصوفانہ فضا انتظار حسین کے فن کی ایک نئی جہت کی نشاندہی کرتی ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے وہ اب سرئیلی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔"(10)
اور اس سب کے لیے انتظار حسین نے جب اساطیری انداز اختیار کیا ،تو دنیا بھر سے انھوں نے ہر تہذیب سے استفادہ کیا ہے۔ مگر ہندو اورمسلم دیومالا ، روایات اور واقعات کو زیادہ مرکز نگاہ اس لیے بنایا ہے۔کہ ان دونوں تہذیبوں میں کہانی پن کی کشش نے ان کو اپنی طرف کھینچا۔ پھر دودسری بات وہ بھی ہے۔جس کے بارے میں پہلے بتایا  جا چکا ہے۔کہ انھوں نے ان دونوں تہذیبوں کو زیادہ اس لیے بھی برتا کہ ان سے خارجی اور باطنی سطح پر زیادہ آگاہ اور متعلق تھے۔ ان کہانیوں میں یہ مختلف اورمتفرق رنگ اس لیے بھی نظر آتے ہیں۔کہ اساطیری کہانیوں کے اس پس منظر نے ان کو زمینی اور زمانی پابندیوں سے آزاد کردیا ہے۔ یہاں وقت اور مخصوص قومیت یا عقیدے کا وہ عام تصور ٹوٹ جاتا ہے۔جو عام بیانیہ کہانیوں کو کس خاص زمین اور زمان کا پابند بنا دیتی ہے۔ چناکہ ان کہانیوں میں ایسی کوئی پابندی نہیں ،اس لیے یہ ہر زمین اور ہر زمانے کی کہانیاں بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ یہ ابدی حقائق کی کہانیاں ہیں۔ لیکن ان کا ایک خاص معاشرتی اور سماجی پس منظر بھی ہے۔جن کے بغیر شاید یہ بے اثر ہو کر رہ جاتیں۔ ان کے اسطورہ کے بیان کا جو انداز ہے وہ سماجی ، اخلاقی ، روحانی اور شخصی و انفرادی مسائل کے تفہیم کا وسیلہ ہے۔اس لیے اظہار کا ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے۔
ان کہانیوں میں موجود اساطیری معنویت فرد کے اظہار کا وسیلہ بن گئی ہے۔اور یہ انتظار حسین کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے اساطیر کی ایک بالکل نئی اور زیادہ بامعنی توضیح پیش کی ہے۔ اب یہ کہانیاں محض اساطیر الاولین نہیں بلکہ ہمارے اور آنے والے عہد کی بھی ترجمانی بھی کرتی ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے کبھی تو بائبل کی فضا سے تعلق جوڑا ہے۔کبھی پرانوں اور ویدوں کی فضا میں جا نکلتے ہیں۔اور قرآن اور اسلامی تاریخ سے انمول موتی چنتے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس روش کے بارے میں گوپی چند نارنگ کی یہ رائے بڑی اہم ہے :
"انتظار حسین نے بقائے انسانی کی تمام اساطیری اور روایتوں کو جدید فکر سے آمیز کرکے ان کی یکسر نئی تعبیر کی ہے۔ اور یہ بنیادی سوا ل اٹھایا ہے۔کہ زمین و زماں کے جبر کا مقابلہ کرنے کے تمام روحانی وسیلے کھو دینے کے بعد آج کے پر آشوب دور میں نسل انسانی کا مستقبل کا ہے۔اور طوفان بلا میں گھری ہوئی یہ کشتی کنارے لگے گی بھی کہ نہیں۔"(11)
بلاشبہ ان کی ایسی کہانیوں میں اساطیری زمانے کو اپنے کے ساتھ ملانے کی بڑی کامیاب کوششیں نظر آتی ہیں۔یہ قدیم لاشعور کی اس قوت کا کرشمہ ہے۔جو ہمارے لاشعور میں موجود ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی ظاہر ہو کر اپنے رنگ دکھاتا ہے۔ انھوں نے قدیم کی تاریخ کو اسطوری رنگ میں جدید زندگی کے ساتھ ملا کر جو رنگ دیا ہے وہ ایک زندہ منظر بن گیا ہے۔تجرید اور تجسیم کا ایک حسین و دلکش امتزاج ہے۔

ڈاکٹر روبینہ شاہین۔ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
شہلا داؤد۔ پی ایچ ڈی، اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

حوالہ جات 
1۔       انتظار حسین : مکالمہ انتظار حسین ، سہیل احمد : گم شدہ پرندوں کی آوازیں : ص: 15 ، جدید اردو ادب : سنگ میل پبلی کیشنز لاہور : 1974
2 ۔       انتظار حسین ، ناصر کاظمی مکالمہ : خیال کا الاؤ : خیال : لاہور سن ستاون اپریل 1983
3۔       رام لعل:اردو افسانے کی نئی تخلیقی فضا: ص:46:سیمانت پرکاش پبلشر:دریا گنج نئی دہلی:1985
4۔        شہزاد منطر :پاکستان میں اردو افسانے  کے پچاس سال:ص:27:پاکستان سٹڈی سنٹر:جامعہ کراچی:اگست 1997
5۔       فوزیہ اسلم ڈاکٹر:اردو افسانے  میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات:ص:311:عفیف آفس پرنٹرز دہلی، 2009
6۔       انتظار حسین:اجودھیا مشمولہ جنم کہانیاں:ص56:سنگ میل پبلشرز:لاہور:1987
7۔       محمد عالم خان ڈاکٹر:اردو افسانے میں رومانی رحجانات:ص:221:علم و عرفان پبلشرز:لاہور
8۔       انتظار حسین :گلی کوچے :شاہین  پبلشرز:ص:67:لاہور:1952
9۔       ایضاً:ادبی مکالمے مشمولہ انتظار حسین ایک دبستان:مرتبہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم:ایجوکیشنل بکس:دہلی:1996
10۔     گوپی چند نارنگ ڈاکٹر:انتظار حسین کا فن مشمولہ اردو افسانہ روایت اور مسائل:ص:528:سنگ میل پبلی  کیشنز: لاہور:2002
11۔     ایضاً: نیا افسانہ،علامتِ ،تمثیل اور کہانی کا جوہر:مشمولہ نیا اردو افسانہ،انتخاب،تجزیے اور مباحث:ص:90:اردو اکادمی:دہلی:1998

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com