اقبال  وجودی فکر کے حصا ر میں (ایک تحقیقی جائزہ)
واجد علی

ABSTRACT
Wahdat ul wajood or sufi doctrine of the unity of existence means that only wajood or existence is Allah and everything else is dependent upon him or that he exists in everything and this whole universe is a mirror of him.wahdat ul shahood is opposite of the above doctrine and they say that Allah and his creation are separate from each other and can not be merged with each other. Iqbal's poetry was greatly influenced by the doctrine of Sufism. In this research paper the writer has shown the glimpses of wahdat ul shahood in the poetry of Iqbal .

           مولانا رومی کے بعد جس شخصیت نے شیخ محمداقبال کو جس نے بہت متاثر کیا وہ ہے شیخ اکبر محی الدین ابن ِ عربی۔شیخ  ابن عربی کے  متعلق  ابو  طالب انصاری لکھتے ہیں :
"ابوبکر محی الدین بن علی عربی مشہور صوفی اور نظریہ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلغ اور عالم تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ تمام کائنات اور مافیہا ذات خداوندی کی مظہر ہیں۔ لہٰذا تمام مذاہب بھی اپنی اصل میں برابر ہیں۔ اپنے اپنے زمانے میں ابن تیمیہ، تفتا زانی اور مجدد الف ثانی ان کے شدید نکتہ چینوں میں سے تھے جبکہ سیوطی فیروز آبادی اور عبدالرزاق کاشانی ان کے حامیوں میں سے تھے۔
ابن عربی کی پیدائش اندلس کے شہر مرسیہ میں 28 جولائی 1165ء میں ہوئی۔ صغر سنی ہی میں اشبیلیہ چلے گئے اور 30 برس تک وہیں رہے۔ 28 برس کی عمر میں ممالک شرقیہ کی سیاحت کو نکلے۔ جہاں جہاں جاتے لوگ ان کے شایان شان استقبال کرتے۔ بالآخر وہ دمشق میں مقیم ہو گئے اور یہیں اکتوبر 1240ء میں انتقال ہوا۔ فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ ان کی نہایت ہی مشہور کتابیں ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف محاضرات الابرار، کتاب الاخلاق، السفرہ علی حضرت البررہ، مجموع الرسائل الالٰہیہ، مواقع النجوم ومطالعہ اہل الاسرار والعلوم ہیں۔"(۱)
اقبال اور اس کے کلام پر ابِن عربی کے کیا اثرات مرتب ہوئے ، اس کے متعلق لکھنے سے پہلے ہم ابنِ عربی  کے فلسفہ وحدت الوجود کی تعریف کرتے ہیں۔وحدت الوجود  جِسے ہمہ اوست کا نظریہ بھی کہتے ہیں ، تصوف کا بنیادی  عقیدہ یا تصور ہے ، جِسے محی الدین ابنِ عربی نے فروغ دیا ہے اور ایک منظم فلسفے کی شکل میں پیش کیا ہے۔
فلسفۂ وحدت الوجود کی معانی بیان کرتے ہوئے عبدالسلام رامپوری اپنے مضمون"ابنِ عربی کا نظریۂ وحدت الوجود" میں لکھتے ہیں :
"’وحدت الوجود‘کے مطابق حقیقی معنی میں صرف اللہ ہی موجود ہے (لاموجود الا اللہ) خارج میں یعنی کائنات کا وجود حقیقی نہیں بلکہ ظلی ہے جو بظاہر موجود و مشہود ہے مگر اس پر وجود کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ وجود صرف ذاتِ واجب میں منحصر ہے۔
وحدت الوجود کے معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہستی یعنی واجب الوجود حقیقی معنوں میں موجود ہے اور یہ کائنات اس کی ذات و صفات کا مظہر ہے اور اس کا وجود مستقل بالذات اور حقیقی نہیں بلکہ عطائے خداوندی ہے۔ بالفاظِ دیگر کائنات اپنے وجود اور اپنی بقا کے لیے ہر آن خدا کی محتاج ہے۔"(۲)
فلسفہ وحدت الوجود کے حوالے میں عالمِ اسلام میں بہت سا بحث و مباحثہ ہوا ہے۔ذیل میں ابنِ عربی کی کتاب"فتوحاتِ مکیّہ" سے اْن کا عقیدہ  پیش کیا جاتا ہے :
شیخِ اکبر امام محی الدین ابنِ عربی (م ۸۳۶ھ/ ۴۲۱) فتوحاتِ مکیّہ میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ کمزور، مسکین، اللہ کا فقیر بندہ جو اس کتاب (فتوحاتِ مکیّہ) کا مصنف ہے تم لوگوں کو اپنے نفس پر گواہ بناتا ہے کہ وہ قول و عمل سے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خدائے واحد ہے۔ اس کی الوہیت اورخدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ بیوی بچے سے منزہ و پاک ہے۔ وہ ایسا مالک ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایسا بادشاہ ہے جس کا کوئی وزیر نہیں۔ ایسا صانع اور بنانے والا ہے جس کے ساتھ کوئی دوسرا انتظام و تدبیر کرنے والا نہیں۔ وہ موجود بذاتہ ہے۔ اسے کسی مؤجد کی ضرورت نہیں جو اسے وجود بخشے بلکہ اس کے ماسوا ہر موجود اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔ پورا عالم اسی کے ذریعے موجود ہے۔ صرف تنہا وہی ہے جس کی یہ صفت ہے کہ وہ موجود لنفسہ ہے۔ نہ تو اس کے وجود کی ابتدا ہے اور نہ ہی اس کی بقا کی انتہا۔ وہ وجودِ مطلق اور غیر مقید ہے۔"(۳)
"وحدت وجود"تصوف میں انتہائی بنیادی مفاہیم میں سے ہے اور ابن عربی کے مکتب میں اسے "اصل الاصول"شمار کیا گیا ہے اس کے مطابق،وجود ایک واحد اور ازلی حقیقت ہے یہ واحد وجود خدا کے علاوہ نہیں ہے ۔عالم وجود ،کوئی آزاد و حقیقی وجود نہیں رکھتا ہے ۔حقیقی وجود ایک چیز کے علاوہ نہیں ہے ۔اور جو کچھ وجود کی صورت میں ہمیں دکھائی  دیتاہے ،وہ اس واحدحقیقت کے مختلف مظاہرہیں جو اسی الہی وجود سے مربوط ہیں۔
اس بناپر،ایک خالق کے نام سے اور دوسرا مخلوق کے نام سے الگ الگ دو وجود کا قائل ہو نا ممکن نہیں ہے ،اس طرح صرف ایک حقیقی وجود کا قائل ہو نا ضروری ہے ،کہ وہ وجود حق کبھی خلق کے درجہ پر نازل ہو کر عین خلق بن جاتا ہے .اس کے متعلق ایک جگہ پرابن عربی لکھتا  ہے  :
"فما وصفنا بوصف الاکنا نحن ذلک الوصف،فوجودنا وجود ،ونحن مفتقر الیہ من حیث وجودنا ،وہو مفتقر الینا من حیث ظہور لنفسہ۔" (۴)
ترجمہ:    "ہم جو کچھ اس کے بارے میں کہیں گے ،حقیقت میں ہم نے اپنی توصیف کی ہے اور اپنے بارے میں کہاہے ،کیونکہ ہماری ہستی اس کی ہستی ہے ،ہمیں ہونے کے لیے اس کی ضرورت ہے اور اسے ظاہر ہو نے کے لیے ہماری ضرورت ہے۔"
اس کی نظر میں خدا اور خلق ایک چیز ہے کہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں ،کیونکہ دونوں ایک ہی حقیقت کی صورت ہیں ،لہٰذا خلق،حق کے اسمااور صفات کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے ۔منتہی ہستی کی خدا سے نسبت ایک حقیقی نسبت ہے اورہستی کی خلق سے نسبت ایک مجازی نسبت ہے ۔اور" فتوحات مکیہ "میں"حیرت"کے بارے میں کہتا ہے  :
"اہل اللہ اور اہل نظر کے در میان فرق یہ ہے کہ صاحب عقل کہتا ہے:
وفی کل شی لہ آیۃ       تدل علی انہ  واحد
لیکن صاحب تجلی کہتا ہے :
وفی کل شی لہ آیۃ        تدل علی انہ عینہ
پس وجود کی وادی میں خدا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور خدا کو خود اس کے علاوہ کوئی شخص یا چیز نہیں پہچانتا،اور اس حقیقت واحد کا  ناظر وہ ہے کہ جس نے ابویزید کے مانند"انا اللہ‘‘کہا ہے ،اور اس کے علاوہ متقدمین میں سے وہ ہے  جس نے "سبحانی"کہا ہے " (۵)
ابن عربی کی وحدت وجود کے بارے میں فتوحات میں درج واضح ترین عبارت،جس پر کافی لوگوں نے تنقید کی ہے  مندرجہ  ذیل عبارت ہے۔
"فسبحان من اظہر الاشیاء وھوعینھا"یعنی پاک و منزہ ہے وہ جس نے اشیاء کو ظاہر کیا ہے اور وہ عین وہی اشیاء ہیں۔
فما نظرت عینی الی غیر وجھہ                 وماسمعت اذنی خلاف کلامہ
فکل وجود کان فیہ وجودہ              وکل شخیص لم یزل فی منامہ
یعنی میری آنکھ نے اس کے چہرے کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ہے اور کان نے اس کے کلام کے علاوہ کوئی کلام نہیں سنا ہے.پس ہر چیز کا وجود اسی میں ہے اور ہر کوئی اس کی آرام گاہ سے الگ نہیں ہے."
جب تک ہم اقبال کا وحدت الوجود کے متعلق سوچ اور رائے معلوم نہیں کر لیتے اْس وقت تک اقبال کا تصوف کے حوالے سے فکر و خیال معلوم کرنا لا یعنی ہے۔تصوف کا نام سنتے ہی ہمارے دل و دماغ میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود ہی کے فلسفے آجاتے ہیں ،اور اصل تعلیماتِ تصوف جو دراصل تزکیہ نفس اور محبت خدا اور رسول ؐ کی دعوت پر مبنی ہے ، پس ِمنظر میں چلی جاتی ہیں ۔صوفیاء حضرات عام طور پر اس عقیدے پر عمل پیرا ہیں۔بعض اہل ِ علم حضرات  کے مطابق فلسفہ وحدت الوجود کی جنم بھومی اور قدیم سر چشمہ ہندوستان ہے۔اور یہیں سے یہ نظریہ مختلف اطراف و اکناف میں پھیل گیا۔اقبال کی ابتدائی نظموں میں ہمیں وحدۃ الوجود اور ابن عربی کی جھلک نظر آتی ہے۔
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گو یا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں میں (۷)
کائنات و موجودات میں  موجودِ حقیقی   صرف اللہ ہے  اور اْس ذات باری کے سوا  جو کچھ ہے وہ اْسی ذات کا عکس ہے۔چنانچہ اقبال کے ہاں  اس عقیدے کی شدت  بعض  جگہوں پر  بہت واضح نظر آتی ہے۔
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے
انسان ِ کامل یا مردِ مومن کی تلاش ،حصول ابن ِ عربی اور اقبال کا مقصود ہے۔ اور اِ سی نکتے نے اقبال کو ابنِ عربی سے متاثر کیا تھا۔اس اثر پذیری  کے حوالے سے پروفیسر محمد فرمان لکھتے ہیں :
" رومی کے بعد دوسرا مشہورصوفی شیخ محی الدین ابن ِ عربی ہے جس کے نظریات انسان ِ کامل سے متعلق نہایت مشہور اور قابل ِ مطالعہ ہیں۔ابنِ عربی کے نزدیک انسان ِ کامل حقیقتاً ذات ِ واحد کا چھوٹے پیمانے پر نمونہ ہے  کیونکہ اس میں خدا کے جملہ اسمائے حسنیٰ کا ظہور ہے۔سوائے وصل الٰہی کاملیت ناممکن ہے۔علامہ اقبال کو رومی کے ہاں  عشق اور ابن ِعربی کے ہاں انسانی عظمت کا تصور پسند ہے اور ابنِ عربی کے مسئلہ وجود پر اْنھوں نے کڑی تنقید روا رکھی ہے لیکن جہاں تک اْن کے افکار سے متاثر ہونے کا تعلق ہے اْن سے استفادہ ضرور کیا  ہے۔" (۹)
1922 ء کے بعد کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کہیں کہیں نظریہ ٔوحدت الوجودکی پرچھائیاں موجود ہیں۔گلشن راز کے نام سے جو مثنوی اقبال نے لکھی اْس میں تصوف کے حوالے سے کئی سوالات کے جوابات بھی دیے گئے ہیں اور یہ کتاب تصوف کی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ اقبال شروع  میں وحدت الوجود کے قائل تھے اور ابتدائی شاعری میں یہ رنگ بڑی حد تک واضح نظر آتی ہے۔درمیان میں اقبال کو ابن عربی کا نظریہ اور شنکر اچاریہ کا عقیدہ ایک جیسا معلوم ہو ا تو اقبال نے ابن ِ عربی اور شنکر اچاریہ کی سخت مخالفت کی۔آخری دور میں اقبال کو ابن ِ عربی اور شنکر اچاریہ کے مابین فرق معلوم ہو ا، چنانچہ ابن ِ عربی کو قبول کیا۔
بعض لوگ اس قسم کے غور و فکر کو غلط سمجھتے ہیں لیکن محققانہ نظر رکھنے والے اسی طرح کرتے ہیں وہ کسی خاص فلسفے اور کسی خاص شخصیت کی پیروی اس طرح نہیں کرتے کہ حق کو بھی اْن پر قربان کر دے۔چنانچہ جستجو و تلاش کے دوران  اْن کو جو بھی ٹھیک اور صحیح بات نظر آئی اْن کو قبول کیا اور غلط بات کو پھینک دیا۔یہی وجہ ہے کہ اقبال کو جہاں تک ابن ِ عربی کے اندر وہ بات نظر آئی جو ایک مردِ کامل اور مردِ مومن کے لیے ضروری ہیں اْنہی کی وجہ سے وہ ابن ِ عربی کے مقلداور مداح ہو گئے اور جہاں اْسے اْس نظریے میں نقص نظر آیا ، اسے ترک کردیا۔اقبال اپنے اس مجموعہ اضداد ہونے اور بحرِ خیالات کے تعمق کی وضاحت کرتے ہیں۔
مجموعہ اضداد ہے، اقبال نہیں ہے
دل دفتر حکمت ہے، طبیعت خفقانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ 'اقبال' کو دیکھوں
کی اس کی جدائی بہت اشک فشانی
اقبال بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے (۱۰)
اقبال عظمتِ آدم کے اظہار کا  قائل  ہے ،  جب انھوں نے ابن عربی کے ہاں  اس مضمون کو دیکھا  تو یہ چیز بھی  ابن ِ عربی کی  تاثیر  کی وجہ بنی۔محمد اشفاق چغتائی  اقبال  کا ابن ِ عربی  سے متاثر ہونے   اور اْن کے خیالات  سے استفادہ  کرنے کے بارے میں اپنے دلائل بیان کرتے ہیں :
"شیخ اکبر محی الدین  ابن ِ عربی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف" فصوص الحکم " کے ایک باب میں خلیفۃ اللہ کا سبب اور نائب حق کی صفات کو بیان کیا ہے۔تخلیقِ آدم کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حق تعالی نے اپنی جلوہ فرمائی کے لیے آئینہ کائنات کو سنوارا۔یہ آئینہ عالم ہر طرح سے دْرست تھا مگر آدم کے بغیر یہ ایک ایسے آئینے کی طرح تھا  جو صیقل شدہ نہ ہو۔اقبال کے بارے میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ وہ شیخ ابن ِ عربی سے متاثر نہ تھے اور اْنھوں نے کہاتھا کہ"جہاں تک مجھے علم ہے فصوص الحکم میں سوائے الحاد اور زندقہ کے اور کچھ نہیں ہے۔" لیکن یہ بات غلط  فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ اقبال کے ذہنی ارتقا کے سفر کو بتمام و کمال سامنے نہیں رکھا جاتا۔فصوص الحکم کے بارے میں  اقبال کی یہ رائے  1915 ء میں تھی ،جب انھوں نے ابنِ تیمیہ کی تصانیف کا مطالعہ کیا اور شیخ ا کبر کی فصوص الحکم کے بارے میں ان کی یہ رائے درحقیقت ابن تیمیہ کی رائے ہے۔بعد میں جب اقبال نے خود فصوص الحکم کامطالعہ کیا تو وہ شیخ اکبر کی جلالتِ شان کے قائل ہوگئے اور اِ ن کے بعد کے کلام زبور عجم،جاوید نامہ میں شیخ ِ اکبرکے افکار سے بھر پور  استفادہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔شیخ ِ اکبر کی اتباع میں اقبال یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آدم تسخیر ِ کائنات کی استعداد کو عملاًظاہر نہیں کرتا تو وہ خلافت ِ الہٰیہ کے مقام ِ رفیع پر فائز نہیں ہو سکتا۔"(۱۱)
اس فلسفے میں ایک زبردست کشش تھی جس نے عوام و خواص کو اپنی طرف کھنچنا شروع کر دیااور آج تک اس فلسفے کے اثرات پوری طرح موجود ہیں۔ اس فلسفے کا کمزور پہلو یہ ہے کہ یہ انسان میں کسل ، بیزاری اور بے عملی پیدا کر دیتی ہے ، بلکہ ان مذکورہ چیزوں کی طرف رغبت دلاتی ہیں ، جس کے نتیجے میں رہبانیت پیدا ہوتی ہے جو اسلامی فکر سے ٹھکراتا ہے۔اقبال کا کہنایہ ہے کہ وحدت اور کثرت کی بحث سے اسلام کو کوئی سروکار نہیں کیونکہ اسلام کی روح توحید  ہے اور توحید کی ضد کثرت نہیں ہے۔توحید اور وحدت الوجود کے درمیان اقبال یوں فرق واضح کرتے ہیں:
" اصل بات یہ ہے کہ صوفیا ء کو توحید اور وحدۃ الوجود کا مفہوم سمجھنے میں سخت غلطی ہوتی ہے۔یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں بلکہ مقدم الذکر کا مفہوم خالص مذہبی اور مؤخر الذکر کا مفہوم فلسفیانہ ہے۔توحید کے مقابلے میں  یا اْس کی ضد کثرت نہیں ، جیسا کہ صوفیاء نے تصور کر لیا ہے بلکہ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجودیا زمانۂ حال کے فلسفۂ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا وہ مؤحد تصور کیے گئے حالانکہ اْن کے ثابت کردہ مسئلے کا تعلق مذہب سے نہ تھابلکہ نظام ِ عالم کی حقیقت سے تھا۔اسلام کی تعلیم نہایت صاف اور روشن ہے یعنی عبادت کے قابل  صرف ایک ذات ہے باقی جو کچھ کثرت ، نظامِ عالم میں نظر آتی ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے گو علمی اور فلسفیانہ اعتبار سے  اس کی ْکنہ اور حقیقت ایک ہی ہوچونکہ صوفیانے فلسفے اور مذہب کے دو مختلف مسائل یعنی توحید اور وحدت الوجود کو ایک ہی مسئلہ سمجھ لیا۔ا س واسطے اْن کو یہ فکر ہوئی کہ توحید ثابت کرنے کاکوئی طریقہ ہونا چاہیے جو عقل و ادراک کے قوانین سے تعلق رکھتا ہو۔اس غرض کے لیے حالتِ سْکر ممد و معاون ہوئی اور یہ اصل ہے مسئلہ حال و مقامات کی۔ مجھے حالتِ سْکر  کی واقعیت سے انکار نہیں صرف اس بات سے انکار ہے کہ جس غرض کے لیے یہ پیدا کی جاتی ہے ، وہ غرض اس سے مطلق پوری نہیں ہوتی۔اس سے زیادہ سے زیادہ صاحب ِ حال کو ایک علمی مسئلے کی تصدیق ہوئی نہ مذہبی مسئلے کی۔صوفیانے وحدت الوجود کی کیفیت کو محض ایک قیام لکھا ہے۔(شیخ ابنِ عربی کے نزدیک ایک انتہائی مقام ہے اور اس سے آگے عدم محض) لیکن یہ سوال کسی دل میں نہیں پیدا ہوا کہ آیا یہ مقام حقیقتِ نفس الامری کی وضاحت کرتا ہے؟اگر کثرت حقیقت نفس الامری ہے تو کیفیت وحدت الوجود صاحب حال پر وارد ہوتی ہے محض دھوکہ ہے اور مذہبی و فلسفیانہ اعتبار سے کوئی وقعت نہیں رکھتی اور اگرکیفیت وحدت الوجود محض ایک مقام ہے اور کسی حقیقت الامری کا انکشاف اس سے نہیں ہوتا تو پھر اس کو معقول طور سے ثابت کرنا فضول ہے جیسا کہ محی الدین ابنِ عربی اور دیگر صوفیا ءنے کیا ہے نہ اس کے محض مقام ہونے سے روحانی زندگی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ قرآن کی تعلیم کی رو سے وجود فی التجارح کو ذات باری سے نسبت اتحاد کی نہیں بلکہ مخلوقیت ہے۔" (۱۲) 
علامہ اقبال موجودہ تصوف کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور اِ س کی وجہ یہ تھی کہ اس میں نوافلاطونیت در آئی تھی اور اصل تصو ف جو معرفت ِ الٰہی ، حبِ الہٰی یا وصلِ الہی کا ذریعہ تھا جِسے ہم بالفاظِ دیگر اسلامی تصوف کہیں دور چلا گیا تھا۔ اس حوالے سے میکش اکبر آبادی لکھتے ہیں:
"اقبال نے تو آغاز ِ کار میں یہ کہا تھا کہ"تصوف نو افلاطونیت سے متاثر ہے ۔اور ابن عربی اور شنکر اچاریہ متحد الخیال ہیں۔"جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ وحدت الوجود کے سلسلے میں ان تینوں مکاتب کو متحد الخیال سمجھتے تھے، مگر بعد ازاں جب اْنھیں محسوس ہوا کہ شنکر کا فلسفہ نفی خودی پر منتج ہوتا ہے جب کہ شیخ اکبر عالم کو فریبِ نظر نہیں سمجھتا بلکہ اْسے مظہرِ حق قرار دیتے ہیں تو وحدت الوجود کے خلاف اْن کے ردِ عمل میں تبدیلی آگئی۔" (۱۳)
اقبال نے اپنے خطبوں، اشعاراور تحریروں میں جگہ جگہ ابنِ عربی سے متاثر ہونے کااظہار کیا  ہے۔1930ء  میں اِلہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہو رہا تھا تو آپ نے خطبہ صدارت میں جو الفاظ کہے تھے وہ یہ تھے کہ " مذہب ِ اسلام کی رو سے خدا اور کائنات ، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کْل کے مختلف اجزا ہیں "۔ان اثرات کے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں۔
" ایک زمانہ تھا جب اقبال بھی صوفیوں کے تصور ِ وحدت الوجود سے متاثر تھے اور انسانی روح کے فراق زدہ  ہونے پر اعتقاد رکھتے تھے مگر بعد میں رفتہ رفتہ اْن کا عقیدہ جاتا رہا اور خودی کی تنظیم میں مادیت کے مستقل وجودکی اہمیت کو تسلیم کرنے لگ گئے۔تاہم بعد میں اْن کے اشعار میں صوفیوں کے احساسِ جدائی کا تصور کہیں کہیں نظر آجاتا ہے۔"  (۱۴)
مختلف اجزا مل کر کل اور کْلیات بناتے ہیں۔اس نظریے میں ایک منطق بھی تھی اور ایسی کشش کہ بہت سے لوگ اس کی طرف کھنچتے چلے گئے۔اقبال نے اپنے استاد مولوی میر حسن سے ابتدا میں تصو ف کے حولے سے کچھ کتابیں پڑھیں۔ کالج کے دور میں پروفیسر آرنلڈ جو فلسفہ قدیم و جدیدکے ایک بڑے ماہر تھے اور تصو ف سے بھی گہری آگہی رکھتے تھے۔اقبال نے اْن سے اس معاملے میں اکتساب ِ فیض کیا۔پی ایچ۔ڈی کے مقالے کے لیے اقبال نے"  ایرانی مابعد الطبیعات کا ارتقا"  کا موضوع چْن لیا تو اْنھوں نے تفصیل سے تصوف کا مطالعہ کیا ۔اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقبال کے فکر و خیال اور کلام پر تصوف اور خاص طور پر وحدت الوجود کے اثرات پڑنے لگے ۔چند اشعار  عرض ہیں جن میں وحدت الوجود کا عقیدہ ظاہر نظر آتا ہے۔
؎ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی  (۱۵)
؎کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
  ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ(۱۶)
؎ جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ  دل کے مکینوں میں
؎ چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی نازآفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں (۱۷)
؎  تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ کہ سحر میں وہ
چشمِ نظارہ میں نہ ہو تو سْرمہ امتیاز دے (۱۸)
؎ کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے(۱۹)
؎  محفل قدرت ہے ایک دریائے بے پایانِ حْسن
آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حْسن (۲۰)
سید عابد علی عابد وحدت الوجود کے متعلق شنکر اچاریہ اور ابنِ عربی میں زیادہ فرق نہیں دیکھتے اور یہی وجہ اْن کے خیال میں اقبال کی طرف سے ابنِ عربی کی تردید کی شکل میں واضح ہوتی ہیں ، ہاں ابن ِ عربی سے اثر قبول کرنے کا بھی ذکر کیا ہے :
"شنکر اچاریہ کی مایہ اور ابن ِ عربی کی فریبِ شہود میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔و یدانت میں وجود ِ حقیقی ایک ہی ہے۔اس کے سوا تمام مظاہر و اشیاء وہی ہیں لیکن ذاتِ حق میں علمائے متحقق ہونے کی وجہ سے وہ حقیقت ِ کبرٰی کا جزو لازم ہیں۔اس حقیقت کو استعارے میں بیان کرنے کے لیے صوفیوں نے ذرہ اور خورشید کا ،قطرہ اور دریا کا سہارا لیا  ہے۔دریا قطروں کی کْلیت کا نام ہے۔ذرات خود مستنیر نہیں ، نور خورشید سے روشن ہیں۔علامہ مرحوم کے خیال میں ابنِ عربی کے اس نظریے نے تصوف کو بہت متاثر کیا ہے اوراسی نظریے کی بدولت طامات کا وہ انبار تیار ہوا ہے جس کے متعلق صوفیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تواجد و حال کے اقوال پر مبنی ہے۔وحدت الوجود کے نظریے کے مطابق مخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔اس نظریے کے خلاف رد ِ عمل کے طور پر وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا گیا اور یہ دعو یٰ کیا گیا  کہ مخلوق غیر اللہ ہیں۔خالق اور ہے مخلوق اور ہے۔دونوں کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔مصور کی ذات اپنی تخلیقات یا اپنے نقوش سے بالکل علیحدہ اور ماوراہے۔علامہ نے ایران کے مابعد الطبیعات اور اپنے خطبات میں ابن عربی سے استفادہ بھی کیا ہے اور اْن کے خیالات کی تردید بھی کی ہے۔"   (۲۱)
علامہ اقبال کے سارے تفکرات اور فلسفہ ہائے حیات کا نچوڑ  اورلب ِ لباب یہ ہے کہ انسان کو اْس مرد ِ کامل  یا انسانِ کامل کا نقشہ دکھا کرخوشحالی اور باطنی سکون کا رستہ دکھا دیں ۔اْس کے متعلق اقبال جہاں ، جس کے پاس مواد نظر آیا اقبال نے ایک محقق کی حیثیت سے اْسے پوری طرح استفادہ کیا۔علامہ اقبال نے ابنِ عربی سے کس طرح اثرات قبول کیے اور کن چیزوں کی وجہ سے یہ اثرات مرتب ہوئے ، اْن کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نکلسن  لکھتے ہیں :
"ابن ِ عربی کا نظریہ ’’وحدت الوجود ‘‘ اسی فضا میں پروان چڑھا  جس میں ارسطو کے خیالات تیزی سے پھیل رہے تھے لہٰذا اس میں عقلی اور فلسفیانہ پہلو مذہبی پہلو کے مقابلے میں بہت توانا ہے۔تاہم ابنِ عربی نے " انسانِ کامل"  کے تصور کو بڑی اہمیت بخشی اور رسول اکرم ﷺ کی ذات ہی کو انسانِ کامل کے روپ میں دیکھا ہے۔اس معاملے میں اقبال کا مؤقف بھی وہی ہے جو ابنِ عربی کا تھا۔ بے شک ’’انسان ِ کامل ‘‘ کے تصور کی حد تک اقبال نے حلاج اور ابن ِعربی سے اثرات قبول کیے ہیں لیکن جہاں تک رسول اکرمﷺکو " انسان کامل" کے روپ میں دیکھنے کا سوا ل ہے ،یہ بات اقبال کے ایمان کا بھی حصہ تھی جیسے ابنِ عربی کے ایمان کا۔گو دونوں نے ایک ہی مسلک کا اظہار کیا ہے،تاہم دونوں کو اِ س سلسلے میں ساری روشنی " اندر "  ہی سے مہیا  ہوئی ہے۔" (۲۲)
تصوف اور صوفیا حضرات جو انسان کو معبود ِ برحق سے ملانے کی جدوجہد اور کوشش کر رہے تھے ، اقبال کو اِ ن سے حد درجہ محبت و عقیدت تھی۔ اس محبت کا اظہار اقبال نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔پروفیسر محمد فرمان صاحب اِن کا ذکر  کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"اْنھوں نے 1933ء میں جو مکتوب سید مہر علی شاہ صاحب چشتی گولڑوی کی خدمت میں ارسال کیا ہے۔ اس سے اْن کی عظمت ِ فکر و نظر کے علاوہ اقبال کا وہ طبعی رجحان بھی واضح ہوتا ہے جس کے ذریعے اْنھوں نے اپنے فکر کی عمارت کی تعمیر میں مدد لی ہے اور صوفیا ئے کرام کے مشاہدات کو دورِ جدید کی عقلیات پر فوقیت دی ہے۔بہر حال جناب کی وسعت ِ خیال پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ چند سطور لکھنے کی جرات کرتا ہوں کہ اِس وقت ہندوستان بھر میں اور کوئی دروازہ نہیں جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے۔ میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانی پر ایک تقریر کی تھی جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر اْدھر جانے کا مقصد ہے اور اِ س سفر میں حضرت محی الدین ابنِ عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے۔"اس عریضے میں اقبال نے حقیقت ِزمان کے متعلق شیخ اکبر کے نظریات معلوم کرنے چاہے تھے اور اس کے علاوہ اس مسئلے کے متعلق دوسرے بزرگوں کے ارشادات کے نشان بھی طلب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔" (۲۳)
علامہ مرحوم اگر چہ اپنے فلسفہ خودی کی بنا پر فلسفہ وحدت الوجود سے زیادہ فلسفہ وحدت الشہود کے قائل ہیں  لیکن ان کے کلام میں جا بجا ایسی نشانیاں بھی ملتی ہیں کہ اقبال پر ابن ِ عربی کے اثرات کافی حد تک تھے ،جناب محمد سہیل عمر صاحب اپنے مقالہ"ابنِ  عربی اور اقبال " میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
"ابن ِعربی کو کسی ایک خانے میں بند کرنا ممکن نہیں۔تصوف کی تاریخ میں اْن کو ایک الگ اور منفرد مقام حاصل ہے۔گزشتہ سات سو سال میں ملت اسلامیہ کی روحانی و فکری زندگی اور عقلی سرگرمیوں پر جتنا گہرا اور دور رس اثر اْن کا رہا ہے ویسا کسی اور شخصیت کا نہیں رہا۔ یہ اہمیت اور معنویت انھیں تاریخ  اسلام کا قطبی تارہ بنا دیتی ہے ۔کوئی اْن کی جانب چلے یا اْن کی مخالف سمت کا تعین انہی کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔مسلمان مفکرین اور صوفیا میں مولانا روم  کے علاوہ ابنِ عربی وہ شخصیت ہیں جن کی طرف علامہ بالواسطہ ہی سہی ہمیشہ کھنچے ہوئے محسوس پاتے جاتے ہیں۔ہاں شیخ اکبر کے مکتبِ فکر کے بارے میں علامہ کی آرا میں زندگی کے مختلف تغیرات ضرور پائے جاتے ہیں۔شیخ اکبر کی تعلیمات کے بارے میں  علامہ کا رد عمل مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے اور کشش و گریز کے رویے کا آئینہ ہے۔" (۲۴)
جس زمانے میں اقبال نے فصوص الحکم اور فلسفہ وحدت الوجود  کے حوالے سے اپنے بعض اعتراضات کا ذکر کیا  تو لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ اقبال تصوف کے مخالف ہیں۔اس کے جواب میں اقبال نے اپنا نقطہ یوں واضح کیا :
"فلسفیانہ اور مؤرخانہ اعتبار سے مجھے بعض ایسے مسائل سے اختلاف ہے جو حقیقت میں فلسفے کے مسائل ہیں  مگر جن کو عام طور پر تصو ف کے مسائل سمجھا جاتا ہے۔تصوف کے مسائل سے مجھے کیونکر اختلاف ہو سکتاہے۔کوئی مسلماں جو اِن لوگوں کوبرا سمجھے جن کا نصب العین محبت رسول اللہ ﷺہے ، اور جو اِس ذریعے سے ذات ِ باری سے تعلق  پیداکرکے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔اگر میں تمام صوفیا کا مخالف ہوتاتو مثنوی میں   اْن کی حکایات و معقولات کا استدلال نہ کرتا۔" (۲۵)
1920ء  کے بعد اقبال پر ابن عربی کے اثرات بہت کم ہو رہے تھے اور اقبال فلسفہ خودی کی وجہ سے ابنِ عربی کی بجائے مجدد الف ثانی اور رومی کی طرف زیادہ ملتفت تھے۔لیکن اس کے باوجود اقبال کی فکر جب انتہائی بلندی پر  تھی ، ضربِ کلیم میں "  تقدیر " کے نام سے ابلیس و یزداں میں جو مکالمہ کرایا اور یزدان کی زباں سے ابلیس پر جو تنقید و تنقیص کی ہے وہ ابن ِ عربی ہی سے ماخوذ ہے۔
اقبال کے آخری دور میں یعنی 1935ء میں بھی ایک ایسا واقعی  پیش آیا کہ اقبال نے  شیخ اکبر محی الدین  ابنِ عربی کی حمایت میں قلم اْٹھایا تھا۔شاہد حسین رزاقی اس کے متعلق رقمطراز ہیں :
"1935ء میں جب ملت ِ اسلامیہ کے نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے قادیا نیت پر چند ایک مضامین تحریر کیے  تو پنڈت جوہر لال نہرو نے اپنی " ہندوانہ ذہنیت "سے مجبور ہو کر " قادیانیت " کی حمایت میں ایک مضمون تحریر کیا۔اقبال نے اْس کے جواب میں ایک طویل مضمون بعنوان پنڈت جواہر لال نہرو کے سوالات کا جواب"تحریر کیا۔اقبال نے اس مضمون میں قادیانیوں اور اْن کے ہمنواؤں کی طرف سے شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی کے بعض " شخصیات " کی اپنے مذموم مقاصد " قادیانی نبوت" کی خاطر غلط اور مذموم تعبیر کرنے کی کوشش کانہایت عمدگی سے جواب دیتے  ہوئے شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی کا نہایت خوبصورتی سے دفاع کیا۔"(۲۶)
وحدت الوجود اور ابن ِ عربی کے حوالے سے اقبال کی حیات کا مطالعہ کرنے سے درج ذیل تلخیص نکل آتی ہے۔
1۔       اقبال ابتدا سے  1905و تا 1908 ء تک وحدت الوجود کے مداح رہے اور اپنی فکر میں اْن سے اخذ و استفادہ کرتے رہے۔
2۔       سفر یورپ کے بعد اقبال وحد ت الوجود کے مخالف ہو گئے۔یہ سلسلہ 1919 ء یا 1920ء تک جاری رہا۔یہاں تک کہ زندقیت جیسے الفاظ استعمال کیے۔
3۔       1920ء کے بعد اقبال کا رویہ وحدت الوجود کے متعلق تبدیل ہوگیا اور کئی بڑے نامور علمائے وقت سے اِس حوالے سے مثبت مکاتبت کی۔
4۔       اقبال نے شارحین ِ ابنِ عربی سے بھی کافی حد تک فیض اْٹھایا۔مختصر یہ کہ آخری دور میں اقبال وحدت الوجود  اور ابنِ عربی سے متعلق معتدل ہو گئے تھے۔1935ء میں آپ نے قادیانیوں کی طرف سے ابنِ عربی کی روحانی تجربات کو غلط رنگ دیکر کر اپنی قادیا نیت ثابت کرنی چاہی تو آپ نے اس تحریری جنگ میں ابنِ عربی کو زبردست خراجِ تحسین کرتے ہوئے قادیانیوں کی تحاریر کی سخت گرفت کرتے ہوئے شیخ اکبر کے نظریات ، مکاشفات اور روحانی تجربات کا انتہائی کامیاب دفاع کیا۔ڈاکٹر سہیل عمر لکھتے ہیں:
"علامہ اقبال کی سوانح کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بچپن سے ابنِ عربی سے شناسائی ہو گئی تھی۔اور ابن ِعربی کی تعلیمات سے انھیں تمام عمر دلچسپ رہی لیکن ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ اْنھوں نے کسی مستند عالم یا عارف اور اْن کی تعلیمات کی شارح سے کبھی باقاعدہ درس لیا ہو اور پھرابن عربی کے فوراً بعد آنے والے شارحین  اور مفسرین سے استفادہ کیا ہو جب کہ شناورانِ اقلیم عرفان کے لیے یہ دونوں وسائل از حد ضروری ہیں"(۲۷)
ڈاکٹر موصوف نے ایک اور با ت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقبال نے ابن عربی کی تالیفات و تصانیف کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا اور اس کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ اقبال کے ہاں ابنِ عربی کے اکثر حوالے بالواسطہ ملتے ہیں اور بلا واسطہ حوالے بہت کم ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں:
" اقبال کی تحریروں میں ابنِ عربی کی تالیفات کے بلا واسطی حوالے بہت کم ملتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابنِ عربی کے بارے میں علامہ کے موقف و آرا کا تعین بالعموم شیخ اکبر کی تصانیف کے براہِ راست مطالعہ   سے نہیں ہوا۔"(۲۸)
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین صاحب نے تصوف کے وہ مدارج بیان کئے ہیں ، جو وحدت الوجود کے نظریے سے شروع ہو کر اقبال کی خودی پر ختم ہو جاتے ہیں :
"صوفیا نے نظریہ وحدت الوجود کی رو سے معرفت خداوندی کے لیے یہ تلقین کی کہ انسان اپنی خودی کو ذات ِ خداوندی میں فنا کر دے لیکن اس کے بر خلاف علامہ اقبال نے یہ تعلیم  دی کہ ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ پر عمل پیرا ہو کر اپنی خودی کا صحیح احساس اور اس کی کما حقہ معرفت حاصل کر لے۔اس حصول کے بعد خدا کی معرفت  حاصل کرے۔اْن کے نزدیک خدا کی معرفت" خودی کی معرفت " پر موقوف ہے۔گویا خودی کی معرفت کے بغیر " خدا کی معرفت " ممکن نہیں۔ اِس صورتحال وحدت الوجود کے مبلغ اعظم شیخ محی الدین ابنِ عربی کے ہاں اگر ساری  تعلیمات کی بْنیاد "  وحدت الوجود "تھی اور اس لیے خدا کی معرفت اس بات پر مبنی قرار دی گئی تھی کہ انسان اپنی خودی کو فنا  کرکے ذات ِ خداوندی میں گم ہو جائے تو خودی کے پیغمبر علامہ اقبال کی ساری تعلیمات کی بنیاد " خودی  قرار پائی۔اور اِس لیے خدا کی معرفت اس امر موقوف ہوئی کہ انسان اپنی خودی کا صحیح احساس کرے ، خودی کو قائم رکھے اور مستحکم  بنائے۔اْن کے ہاں اِ س طرح " خودی" اور "خدا" ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں۔اس طرح اقبال  نے وحدت الوجود کے جامد و ساکن نظریے کے ردِ عمل طور پر عالم ِ اسلام میں ایک حرکی اور عملی نظریہ پیش کر کے تاریخِ تصوفِ اسلام میں ایک جدید اور پْر عظمت  باب کا اضافہ کیا۔اور مسلمانوں پر وہ احسانِ عظیم کیا ، جس کے بار ِ منت سے وہ تا قیامت سبکدوش نہ ہو سکیں گے۔ان سے قبل صوفیائے کبار میں جنید بغدای ، مولانارومی اور مجدد الف ثانی نے  خودی کے اِس سر بستہ راز اور زندہ حقیقت کی ایک جھلک ضرور دیکھی تھی اور اْنھوں نے علی الترتیب اپنے اعمال ، کلام اور مکاتیب میں مختلف پیرایہ میں اِس کا اظہار بھی کیا تھا ، لیکن قدرت کاملہ نے ا س نظریہ کی تکمیل در حقیقت علامہ اقبال کے لیے اْٹھا رکھی تھی۔ وہ عالم اسلام میں  " مسیحا" بن کر آئے اور مردہ قوم میں جان بخشی۔اْنھوں نے اپنی بصیرت اور فکر کی گہرائی سے نظریہ خودی کو اِ س طریقے سے پیش کیا کہ اِس کے اثر سے صدیوں کی ایک خوابیدہ قوم جاگ اْٹھی۔گویا " برہمن زادہ " کی بانگ درا نے صور اسرافیل کا کام کیا۔مردے جی اْٹھے ،جان میں جان آئی۔" (۲۹)
چونکہ ابتدائی طور پر اقبال و حدت الوجود اور شیخ اکبر ابن عربی سے متاثر رہے اور اقبال کے ابتدائی کلام میں  ان تخیلات کو دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن کلام ِ اقبال میں بعض جگہ دیکھا جائے اور غور و فکر کیا جائے تو اقبال کے دور ِاخیر میں  بھی وجودی فکر نظر آتی ہے۔اْن کے بہت سے تصوراتِ حیات پر ابن ِ عربی کے تفکرات کا پرتو دیکھا جا سکتا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو لوگ وحدت الوجود کو کلیۃً ضلالت قرار دیتے ہیں ، وہ درست نہیں ،ہاں کچھ باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔علامہ محمد اقبال کے فکر و فن پرابن عربی کے اثرات کے متعلق ڈاکٹر  محمد نفیس حسن لکھتے ہیں :
’’اقبال کے فکر و مطالعہ سے یہ حقیقت آشکار اہوتی ہے کہ ابن عربی اقبال کے فکر و شعور کی خشت ِ اولین ضرور  رہے ہیں لیکن فکری ارتقاء کے سفر میں  بالآخر ابنِ عربی کی رہبری بہت جلد منقطع ہو جاتی ہے۔ابنِ عربی کے بعض فلسفیانہ افکار سے اقبال کی فکری ہم آہنگی کا بھی احساس ہوتا ہے مثلاً تصورِ دوزخ و بہشت، جبر وقدر ، عظمت ِانسانی، حقیقت ِ قلب و نظر وغیرہ تصورات میں فکر ِ اقبال میں ابن عربی کے بعض تصورات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ابن عربی اور اقبال بہشت و دوزخ کو مقامات نہیں ، بلکہ روح اور دماغ کی کیفیات خیال کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا کے مروج تصوف میں شیخ محی الدین ابن عربی کو وحدت الوجود کا مفسر ِ اولین کہا گیا ہے۔‘‘(۳۰)
تقدیر ، مسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے اقبال اور ابن عربی کے افکار میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔اْس سلسلے  میں اقبال کی نظم "تقدیر"( ابلیس و یزداں) شیخ اکبر ہی کے خیالات کی ترجمانی کر رہا ہے۔اقبال کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جو باطنی قدرت عطا فرمائی ہے اس کے ظہور کا نام تقدیر ہے۔ یہ تقدیر اْن کے  ہاں مخفی ہے۔حریت کے حوالے سے بھی اقبال اور ابن عربی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔اور اقبال اپنی نظم میں یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ ابلیس کو آزادی تھی ،اطاعت یامعصیت کی۔تو اْس نے آزادی کے ساتھ معصیت اختیار کی، اْس پر اِس حوالے سے کوئی جبر  روا نہیں کیا گیا۔اس آزادی کا اظہار ان اشعار میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے
کہتا ہے، تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود(۳۱)
اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روحانیت اور مادیت کی بنیاد تجربے پر ہے لیکن تجربیت کے طریقے اور طرزو انداز  میں فرق ہے۔
علم کا مقصود  ہے پاکیٔ  عقل و خرد
علم ہے جو پائے راہِ،فقر ہے دانائے راہ(۳۲)
الغرض افکار ِ اقبال نے ابنِ عربی کے تفکرات کا اثر بڑی حد تک قبول کیا۔
واجد علی۔پی ایچ۔ڈی اسکالر ،شعبہ اردو ، جامعہ پشاور

حوالہ جات
 ۱۔ابو طالب انصاری،ڈاکٹر،اجالے ماضی کے، تحریم پرنٹر تھانہ روڈ بھیونڈی ،اشاعت  2006ء ،ص72۔
 ۲۔رامپوری، عبداسلام، ابنِ عربی کا نظریۂ وحدت الوجود، بحوالہ، نذرِ ذاکر، مجلسِ ذاکر، نئی دہلی، انڈیا، 1968ء، ص 10،11
۳۔ ابنِ عربی محی الدین، فتوحاتِ مکیہ (عربی)، بیروت، ص۔310-311
۴۔ محی الد ین ابن عربی ،فصوص الحکم،ص167.
 ۵۔ابنِ عربی محی الدین، فتوحاتِ مکیہ (عربی)، بیروت،
 ۶۔ ابنِ عربی محی الدین، فتوحاتِ مکیہ (عربی)، بیروت، ج2،ص359
 ۷۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال، نیشنل بک فاؤندیشن اسلام آباد،اشاعت مارچ 2015ء ،ص132
۸۔ محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص110
۹۔ محمد فرمان،پروفیسر۔اقبال اور تصوف ،بزم َ اقبال کلب روڈ لاہور۔سن اشاعت 1952،ص96،97
 ۱۰۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص91
 ۱۱۔محمد اشفاق چغتائی ،فقر غیور ،نستعلیق مطبوعات،اردو بازار لاہور ،سن اشاعت 2007،ص81،82
 ۱۲۔ماخوذ حیات ِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں  ،
۱۳۔ مکیش اکبر آبادی، نقد ِ اقبال ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ،اشاعت 1964،ص 78
 ۱۴۔سید عبد اللہ ،داکٹر ، مسائل اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان۔طبع 1974 ص 133
۱۵۔ محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص128
 ۱۶۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص124
 ۱۷۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص129
۱۸۔ محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص88
۱۹۔ محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص110
 ۲۰۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص119
 ۲۱۔سید  عابد علی عابد ،سید ،تلمیحاتِ اقبال ، اقبال اکادمی  پاکستان، اشاعت 1957،ص 150،151
 22۔R.A Nicholson, A Literacy history of the Arab Patric Gardiner Schopenhauer edition 1963.P.219
 ۲۳۔محمد فرمان،پروفیسر ،اقبال اور تصوف ،بزم َ اقبال کلب روڈ لاہور ،سن اشاعت 1958ء ،ص34،35
 ۲۴۔محمد سہیل عمر ، ڈاکٹر ، ابن عربی اور اقبال ، ماہنامہ سیارہ لاہور دسمبر 1995 ،ص36
 ۲۵۔محمد اقبال ،مقالات اقبال ،(مرتبہ سید عبدالواحد معین)  شیخ محمد اشرف ، لاہور ، اشاعت 1963 ،ص 164
26. Muhammad Iqbal, Discourses of Iqbal, edited by Shahid Hussain Razzaqi, Iqbal academy Pakistan 2003,.P#238
 ۲۷۔محمد سہیل عمر ، ڈاکٹر ، ابن عربی اور اقبال ، ماہنامہ سیارہ لاہور،  دسمبر 1995 ،ص36
 ۲۸۔ایضاً۔ص36
 ۲۹۔ابو سعید نور الدین ، ڈاکٹراسلامی تصوف اور اقبال۔اقبال اکادمی لاہور پاکستان۔اشاعت1959 ،ص264،65
۳۰۔ محمد نفیس حسن ، ڈاکٹر ، فکر اقبال کے مشرقی مصادر ، فائن آرٹس ایجنسیز لال کنواں دہلی، سن اشاعت 2000ء ،ص 77،79
 ۳۱۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص528
 ۳۲۔محمداقبال،علامہ،کلیاتِ اقبال،ص401

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com