داستان کی اہمیت ’’ باغ و بہار‘‘ کی روشنی میں
صبا علی

ABSTRACT
Urdu literature is mainly consists of poetry than prose .The prose in Urdu languge is mainly related to ancient form of long stories called dastan. These long stories have complicated plots that deal with magical and supernatural creatures and ancidents. Dastan mainly focuses on folklore, myth and classical literary subjects.This was specifically common in Urdu literature. Typologically dastan is closer to eastern genres of literature such as Punjabi qissa, Persian Masnawi, Sindhi waqayati bait, etc .
قصہ کہنا اور قصہ سننا انسان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہ اور بات کہ آج کی تیز رفتارزندگی اس کی مہلت ہی نہیں دیتی۔کسی زمانے میں دن بھر کا تھکا ہارا انسان رات کو دوستوں کے حلقے میں بیٹھتا اور اپنی کہتا،دوسروں کی سُنتا ،جسے جو یاد ہوتا وہ سناتااور کوشش کرتا کہ توجہ کا مرکز بنا رہے۔ اس طرح قصے نے جنم لیا۔داستان طرازی کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنی پرانی خود انسان کی کہانی ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے ادب میں داستانوں کے نمونے ملتے ہیں۔بر صغیر میں داستان کی مقبولیت کی ایک وجہ فورٹ ولیم کالج کا قیام ہے ۔ جہاں کلاسیکی زبانوں سے اردو زبان میں سادہ اور با محاورہ ترجمے کروائے گئے تھے۔دوسری وجہ مسلمان سیاسی میدان میں بازی ہار رہے تھے۔ ان کی شکست سے پیدا شدہ نا خوشگوار صورت حال نے انھیں داستان کی دنیا میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔بقول ڈاکٹر گیان چند:
’’ چیمبر آف انڈیا کے ایک مضمون نگار کے مطابق قصے وہیں زیادہ ترقی کرتے ہیں جہاں لوگ زیادہ کاہل ہوتے ہیں۔ یونان میں قصے اس وقت لکھے گئے جب وہ روم کے زیرِنگیں ہوگیا۔روم کا افسانوی ادب اس وقت وجود میں آیا جب آمرشہنشاہوں نے فرد کی آزادی سلب کر لی۔ انیسویں صدی کی دلی اور لکھنؤ میں کاہلی کا قحط نہ تھا۔  (۱)
اس وقت تک قصے کی کو کھ سے داستان جنم لے چُکی تھی اور اس کی حیثیت شُجاعی رومان کی تھی اور اس میں واقعی افیون کی ترنگ پوشیدہ تھی۔ بادشاہ ، شہزادے، وزیر ،امیر، نواب ، سلطنت کے عہدیدار سبھی داستان کی زلف گیر ہ گیر کے اسیر تھے۔ راتوں کو دیر تک داستان سُنتے ،ہیرو کی فتح و کامیابی پر عش عش کرتے ۔بقول ڈاکٹر سُنبل نگار:
’’ بادشاہ سلامت شاید یہ تصور کر لیتے کہ ان کا کوئی جان نثار ان کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لئے بہادری کے جوہر دکھا رہا ہے۔ سپہ سالار اس ہیرو کی جگہ خیالوں میں خود کو مہمات سر کرتے دیکھتا۔اسی طرح خیالوں کی دُنیا میں پرواز کرتے کرتے خواب کی دنیا میں جا پہنچتے ۔ عجب نہیں کہ سپنوں میں بھی یہی دل خوش کرنے والے  منظر نظر آتے ہوں ۔ غرض حقیقت کی سفاک دنیا سے فرارکے بعد داستان  ایک اچھی جائے پناہ تھی ۔ چنانچہ داستان ترقی کرتی رہی اور اس نے ایک باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کر لی۔‘‘  (۲)
بعض لوگوں نے داستانوں کو ’’ دفتر بے معنی‘‘ کہا، بعض نے  ’’ بے عمل سوسائٹی کی پیداوار‘‘  قرار دیا، بعض نے انہیں ’’ تعیش پسندی‘‘ کم ہمتی ، بزدلی اور فراریت کی آئینہ دار بتایا۔ بعض نے کہا کہ ’’ یہ ایسے ماحول کی پیداوار ہے جو ہماری تاریخ اور ہمارے تمدن اور اخلاق کی روایات پر بد نما داغ ہے اور اس زندگی کی مُصور ہے جس کا سرے سے وجود نہیں ، جس میں صرف جن ، دیوؤں  ما فوق الفطرت عناصر ، پریوں اور سحر و طلسمات کے کرشمے موجود ہیں۔ ان اعتراضات کے بارے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کہتے ہیں کہ:
’’ اگر داستانی ادب ایسا ہی مردود و مطعون ہوتا تو دنیا کی مختلف زبانوں کے عظیم شہ پارے تنقیدی تاریخ میں ادب عالیہ قرار نہ پاتے کیوں کہ تمام عالمگیر ادب فوق الفطرت عناصرسے بھرا ہوا ہے۔‘‘ (۳)
یہ درست ہے کہ داستان اس دور کی پیداوار ہے جب امرا عیش پرستی کا شکار تھے۔ دعوتوں ،شراب کباب اور رقص و سُرور کا اہتمام خصوصیت سے ہو تا تھا،لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ داستان بے عملی کی تلقین کرتی ہے۔ قطعاً درست نہیں ہے۔ داستانیں عمل اور زندگی سے بھر پور ہیں ۔ان میں ہر طرف زندگی کی لہر جاری و ساری ہے۔ کہیں ٹھہراؤ نہیں ، کم ہمتی ، بزدلی اور پاس کا گزر نہیں ،مسلسل عمل ہے، مہمات ہیں ، خیر وشر کے معرکے ہیں ، جستجو ہے اور یہ ساری چیزیں دلوں میں عمل کی اُمنگ پیدا کرتی ہے۔یورپ جس سے آج کا مشرق ماڈرلزم کے بارے میں فیض حاصل کر رہا ہے میں بھی کلاسیکی ادب کا مطالعہ ناگزیر خیال کیا جاتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری:
’’ یونان کے قدیم رومانوں میں جن کی ابتداء پہلی صدی عیسوی میں مجہول الماخذ مواد سے ہوئی ہے وہی تمام باتیں ملتی ہیں لو بعد کے رومانوں یا اردو داستانوں میں پائی جاتی ہیں۔‘‘ (۴)
مزید آگے لکھتے ہیں کہ قرون وسطی کے مغربی یورپ میں رومان ایک ایسے قصے کو کہتے ہیں جس میں طبقۂ اعلیٰ کی معاشرت پیش کی جاتی تھی۔ شجاعانہ کارناموں کا ذکر ہوتا تھااور عجیب و غریب واقعات و واردات کی مددسے سامعین کی دلچسپی قائم رکھی جاتی تھی۔۔۔۔ بہت سی باتوں میں اردو داستان یورپ کے قدیم رومانوں سے بہت قریب ہے۔یورپ کے کلاسیکی ادب کے مطالعے میں قدیم رومان بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ظاہر ہے یورپ کے علماء کو علم ہے کہ زبان و ادب کی ابتداء اور اس کے ارتقائی منازل سے و اقفیت کے بغیرآگے نہیں بڑھایا جا سکتا  لہٰذا اس کی تدریس ضروری ہے تو جس سو سائٹی سے ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی اور ماڈرلزم کا سبق حاصل کیا اس کی پیروی اگر ادب کے معاملے میں بھی کریں تو کیا حرج ہے۔ بقول ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش:
’’ داستان کی بدولت اردو نثر کو پایہ اعتبار ملا۔ وہ بہ یک جہت  بادشاہوں کی بارگاہوں ، امراء کی مجلسوں اور عوام کے اجتماعوں کی روح رواں بن گئی۔اس نے اردو نثر کو فکر و ذہن نہیں دیا بلکہ قلب و نظر اور جذب و تا ثیر بخشی۔ شاعری کے بعد ادبیت کا  سب سے بڑامخزن یہی داستانیں ہیں۔‘‘  (۵)
اس طرح یہ داستان ہی ہے جس کے ذریعے ادب کا طالب علم اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثے سے مکمل آگاہی حاصل کر سکتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر ایم سلطان بخش :
’’ اگر آج یہ داستانیں موجود نہ ہوتیں ، تو دور حاضر کی علمی و سائنسی ترقی کے باوجود ہماری تمدن زندگی کی عمر کی کئی صدیاں کم ہو جاتیں ۔پاک وہند کی قدیم تہذیب و ثقافت کا ساراقابل اعتماد مواد انہیں داستانوں میں ملتا ہے۔‘‘ (۶)
لہٰذا ماضی سے یعنی ادب کی تاریخ سے آگاہی از بس ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ داستان زبان کی لسانی تاریخ کے سلسلے میں نہایت اہم دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ علامات و استعارات ، تلمیحات ، کنایات، علمی و فنی اصطلاحات ، مترادفات، کے نازک فرق اور اختلاف یہ تمام چیزیں بڑی حد تک داستانوں ہی کی مر ہون منت ہیں۔اس طرح زبان و اسلوب سے مکمل آگاہی بھی داستان کے مطالعے سے حاصل ہو سکتی ہے عرض زبان و ادب کی تاریخ میں کلاسیکی ادب کا مطالعہ از بس ضروری ہے ۔ بقول ڈاکٹر ممتاز منگلوری:
’’ داستانوں نے اردو میں زبان و بیان کی وسعتیں پیدا کیں اسلوب کے لئے نئی راہیں نکالیں اور ایک ہی بات کو مختلف انداز میں بیان کرنے کے مختلف ڈھنگ پیدا کیے۔ زندگی اور تجربات اور تخیلات کے وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی تصویروں میں رنگ بھرتے ہوئے مناسبت کے لئے زبان و بیان کے جو نئے نئے نمونے اور اعلیٰ نمونے اردو نثر کو ملے ان کے لئے اردو زبان داستانوں کی مر ہون منت ہے۔ داستانوں میں حسن اور دلچسپی کا عنصر بھی ایسا ہے جس سے صرف ِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (۷)
اس طرح مادی دنیا کے تلخ حقائق کا انسان سامنا کرتا رہااور روح کی تسکین کا سامان نہ کرے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسانی اعصاب چٹخ جاتے ہیں اور شخصیت کی عمارت ڈھا جاتی ہے،ایسے میں داستان پڑھنے سے انسان گویا کسی دوسری خواب آور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور وہاں کی دلچسپیوں میں اپنی جسمانی تھکن ،پریشانیوں ، الجھنوں اور مشکلوں کو وقتی طور پر بھول جاتا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند کے بقول:
’’ داستانیں ہمیں اس سہانی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں ظالم حقیقتوں کا گزر نہیں۔ یہ احمقوں کی بہشت سہی، کبھی کبھار عاقلوں کے دوزخ سے نکل کر خیالی بہشت میں چہل قدمی کرنا خود فریبی سہی، لیکن اس مستانہ لڑ کھڑاہٹ کے بیان میں ایک جاذبیت ہوتی ہے۔‘‘  (۸)
غالب نے اسی بات کو یو ں بیان کیا ہے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال  اچھا  ہے   (۹)
داستانوں کی افادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں ہماری گزشتہ سو سائٹی کی معاشرت کے بھر پور نقشے موجود ہیں۔ دلی اور لکھنوء کی معاشرت کی تصویریں ان صفحات میں اتنی روشن اور نمایاں ہیں کہ شاید ہی کوئی تاریخ مد مقابل بن سکے اور صرف معاشرت ہی نہیں بلکہ عقائد و روایات اور انداز فکر کی بھی پوری پوری عکاسی کی گئی ہے۔ ’’ باغ و بہا ر‘‘ میں میر امن نے چین ، ایران اور عجم کے نام پر در اصل ہندوستانی تہذیب کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس داستان کے آئینہ میں دہلوی معاشرت کے مصنف کے عہد کا عکس واضح دیکھا جا سکتا ہے۔بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
’’ باغ و بہار میں دلی کی تہذیب بول رہی ہے۔‘‘ (۱۰)
اس سلسلے میں سب سے پہلے ’’ باغ و بہار ‘‘ کے کرداروں پر نظر پڑتی ہے یہ کردار شام، یمن ،چین ،دمشق ، ایران اور روم میں گھومتے ہیں۔ مگر ان کے آداب ، رُسوم ،روایات اور انداز گفتگو سبھی پر ہندوستانی بلکہ دلی کی تہذیب کی چھاپ لگی نظر آتی ہے۔ مختلف النوع کرداروں کی تصویر کشی میں تمام رنگ ہی ہم عصر معاشرہ اور تمدن سے لیے گئے ہیں۔ ’’ باغ وبہار‘‘ میں میر امن نے جن دعوتوں کی منظر نگاری کی ہے ان سے یہ رنگ اور بھی غالب ہو جاتا ہے اس میں جن محافل و تقریبات کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ان میں شرفائے دلّی کے اخلاق و کردار کے مرقعے ملتے ہیں۔ دلّی کی معاشرت ، خوشحال ، خوش پوش اور خوش وقت معاشرت تھی۔ تکلف و اہتمام اور آرائش اس معاشرے کے تہذیبی امتیاز میں شامل تھا۔شاہی درباروں اور نوابوں کی حویلیوں میں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ اس لئے ’’باغ و بہار‘‘ کی مخافل میں ہمیں اس زمانے کے شاہی ٹھاٹھ ملتے ہیں۔ ساز وسامان کی کثرت کا تصور دلانے کے لئے اور ایون نعمت کی رنگا رنگی دکھانے کے لئے مصنف نے بعض اوقات مختلف موسموں کے پھل ایک ہی جگہ جمع کر دیے ہیں۔ اس داستان میں کم از کم پچاس کھانوں کے نام گنوائے بغیر دعوت روکھی پھیکی اور بے مزہ سمجھی جاتی ہے۔ بقول میر امن:
’’ چار مشقاب، ایک میں یخنی پلاؤ ، دوسری میں قورمہ ،تیسری میں متنجن پلاؤ اور چوتھی میں کو کو پلاؤ ،اور ایک قاب زردے کی، اور کئی طرح کے قلپے ، دو پیازہ نرگس۔۔۔۔۔ مربہ ، اچار دان ، دہی کی قلفیان ۔‘‘(۱۱)
’’باغ وبہار‘‘ میں اس عہد کے عقائد و میلانات کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔عوام کے افکار توہمات ، ذہنی رجحانات و جذباتی کیفیات سب کچھ موجود ہے۔ بقول ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش:
’’ باغ و بہارایک تہذیب کی آواز بھی ہے اور اپنے عہد کے ذہنی رجحانات کی عکاسی بھی۔‘‘ (۱۲)
اسلامی ہند میں لڑکی کی شادی کے موقع پر زنان خانے میں مسّرت و شادمانی کے اظہار کے لئے جو اہتمام کیا جاتاتھا۔ میر امن نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔
’’ اتفاقاًجس دن وزیر کو محبوس خانے میں بھیجا ، وہ لڑکی اپنی ہم جولیوں میں بیٹھی تھی اور خوشی سے گڑیا کا بیاہ رچایا تھااور ڈھولک پکھاوج لئے ہوئے رت جگے کی تیاری کر رہی تھی۔‘‘ ( ۱۳)
اس داستان میں صرف اونچے طبقے کی مجلسی زندگی کی عکاسی نہیں کی گئی بلکہ ہمیں ڈھیر وں معلومات حا صل ہو تی ہیں مثلاً خدمت گاروں کی قسمیں اور چوروں کی قسمیں وغیرہ ۔ اس دور کے لوگوں کے کرداراور ان کی اجتماعی زندگی کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اس معاشرے اور اس طرز زندگی کا عکس جو محمد شاہی عہد کے امرا نے اختیار کیا ہوا تھا ،اس داستان میں ہمیں جا بجا ملتا ہے ، امرا زادیاں بھی مردوں کی طرح حمام میں نہاتی تھیں ، لہٰذا یہ کوئی فرضی قصہ نہیں بلکہ تاریخی حقیقتوں پر مبنی داستان ہے۔ میر امن کے بقول:
’’ اتفاقاً وہ بی بی ، نیک بخت ،ایک دن حمام کو گئی تھی۔ جب دیوان خانے میں آئی ، کوئی مرد پر نظرنہ پڑا ۔ اس نے برقع اُتارا۔‘‘( ۱۴)
’’ باغ وبہار‘‘ کے اسلوب کے حوالے سے بڑے بڑے ناقدین اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں سادہ اور اپنے عہد کی مروجہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ چند مترو کا ت چھوڑتے ہوئے باقی تمام زبان آج کی معلوم ہوتی ہے۔’’ باغ و بہار ‘‘ کی یہ خصوصیت ہے کہ دو سو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی اسے آسانی کے ساتھ سمجھا اور لطف اُ ٹھا یا جا سکتا ہے۔ پرو فیسر حمید احمد خان کے بقول:
’’باغ و بہار پاکیزہ اور شفاف اردو کا اُبلتا ہوا چشمہ ہے۔‘‘ (۱۵)
’’باغ وبہار ‘‘ میں میر امن نے ’’ ٹھیٹھ ہندوستانی ‘‘ انداز گفتگو اختیار کیا ہے ، اور عام بول چا ل کے بہت سے الفاظ زیر تحریر لائے ہیں۔ وہ بول چال کے اس حد تک قائل معلوم ہوتے ہیں کہ بعض اوقات املا بھی عوامی تلفظ کی خاطر بدل دیتے ہیں ’’ باغ وبہار‘‘ ایک اسلوب کی نمائندہ ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس اسلوب کی کوئی تقلید نہ کر سکا۔ اپنے اسلوب کے باعث یہ ہمیشہ پُر بہار رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس داستان سے اردو ادب میں نثر کا خلا پُر ہوگیا۔ اور شاعری سے ہٹ کر نثر نگاری کے رجحانات میں اضافہ ہوا۔ فارسی اور عربی کی چھاپ کو ختم کر کے میر امن نے خالصتاً اردو زبان کو فروغ دی۔ بقول ڈاکٹر انور سدید:
’’ میر امن نے دلّی کے تہذیبی نقوش اس داستان میں پوری شان سے منعکس کیے ہے،ان کی زبان سادگی ، سلاست اور متناسب الفاظ کا مرقع ہے۔ بول چال کی عام زبان نے میر امن کی نثر کو اس عہد کا نمائندہ بنا دیا ہے۔‘‘  (۱۶)
’’باغ و بہار‘‘ کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ناول اور داستان کی درمیانی اور بہت اہم کڑی ہے۔کسی داستان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے اسے تین پہلوؤں سے دیکھنا چاہیے۔اوّل قصہ پن، دوئم طوالت، سو ئم انشاپردازی  ’’باغ و بہار ‘‘ کا قصہ اتنا دلچسپ اور پر ا ثر ہے کہ قاری کو خوب مزہ آتا ہے اور وہ شروع سے آخر تک قصے میں محو رہتا ہے۔ طوالت میں اگر تسلسل نہ ہو تو قصہ بھونڈا اور بے معنی لگتا ہے۔ ’’باغ وبہار‘‘ کے واقعات اور کرداروں کے درمیان میر امن نے ایسا ربط اور تسلسل قائم کیا ہے۔ کہ قاری اسے شروع کردے تو ختم کر کے چھوڑتا ہے۔ اس میں میر امن کی انشاپردازی کے جو ہر بھی خوب نظر آتے ہیں۔ فنی خصوصیات کے اعتبار سے ’’باغ وبہار‘‘ اردو کی نہایت کامیاب داستان ہے اس نے داستان نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں مدد دی اور اس کے بعد متعدد داستانیں منظر عام پرآئیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اردو کی تمام داستانوں میں خواہ وہ ’’باغ وبہار ‘‘ سے پہلے کی ہوں یابعد کی جو مقبولیت ’’ باغ وبہار‘‘ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور داستان کے حصے میں نہیں آئی۔ بقول کلیم الدین احمد:
ــ’’ باغ وبہار ‘‘ میں وہ حسن وہ بزرگی ہے جو ’’ آرئش محفل‘‘  میں نہیں اس کی انشا پردازی اس کی بقا کی ذمہ دار ہے۔ اس میں جو زبان  بول چال میں استعمال ہو تی ہے۔ اس کا اوج کمال ہے۔‘‘(۱۷)
داستانوں میں ناولوں اور افسانوں کے بر عکس جنوں ،دیوؤں، پریوں اور سحر و روحانیت کے فوق الفطرت کرشموں اور کارناموں کا اتنا ذکر ہوتا ہے کہ حقیقت اور صداقت کی فضاء پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک قصہ گو کی حیثیت سے میر امن کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے داستان کی غیر فطری فضا میں رہ کر بھی جو کردار اور واقعات ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔ وہ زندگی سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں ۔ حقیقی زندگی کی یہ جھلک یوں تو ’’باغ و بہار ‘‘ کے سبھی خاص خاص کرداروں میں موجود ہے مگر پہلے درویش کی بہن، دمشق کی شہزادی ، زیرباد کے راجہ کی لڑکی اور آخری داستان میں آنے والی کٹنی انسانی زندگی کے قریبی کردار ہیں۔ ’’ باغ و بہار‘‘ میں دلچسپی کی ایک وجہ حسن و عشق کا مقامی تصور ہے ، حسن و عشق کے لفظ کو بھی میر امن نے سامنے رکھا ہے اور متعدد جگہوں پر اس کا اظہار کر کے داستان میں دلکشی ا و رغنائیت پیدا کی ہے۔ حُسن و عشق کا ذکر کرتے ہوئے ان کے قلم میں شگفتگی اور روانی آجاتی ہے۔ حسن و عشق کا ذکر کرتے ہوئے بعض جگہ خاصی بے باکی کا مظاہرہ کیا گیاہے۔ اور سستے مذاق کی تسکین بھی کرنا چاہی ہے لیکن یہ سب کچھ مذاق زمانہ کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ عامیانہ پن میں انہوں نے دوسرے قصہ گو کے مقابلے میں اعتدال سے کام لیا ہے۔میر امن نے ’’ باغ و بہار ‘‘ میں دہلوی معاشرت اور تہذیب کی مرقع کشی اس خوبصورتی او ر فنکاری سے کی ہے کہ اس کے آئینے میں مصنف کے عہد کا عکس صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ دلّی کے در ودیوار اور اس کے اشخاص و افراد کی چلتی پھرتی بلکہ بولتی چالتی تصویر یں نظر آتی ہیں ۔ اس داستان میں میر امن نے جن تقریبات ، رسم و رواج ، میلے ٹھیلے، تکلف و اہتمام اور لباس کا ذکر کیا ہے وہ خا لصتاً ہندوستانی ہے۔ سلطان دمشق کی بیٹی کا ذکر میر امن نے کچھ یوں کیا ہے۔
’’ ایک دم کے بعد وہ پری دروازے سے جسے چودھویں رات کا چاند، بناؤ کیے ، گلے میں پشواز ،بادلے کی سنجاف کی موتیوں کادر دامن ٹکا ہوا سر سے پاؤں تک موتیوں میں جڑی روش پر  آکر کھڑی ہوئی۔‘‘ (۱۸)
لباس کے ساتھ یہ آنچل پلو لہر گو کھرو بھی ہندوستانی ہیں ۔ چنانچہ یہ سلطان دمشق کی بیٹی نہیں سلطان دہلی کی بیٹی معلوم ہوتی ہے۔ العرض ’’ باغ و بہار ‘‘ کی یہ عصری تصویر کاری اسے ایک تاریخی حیثیت عطا کرتی ہے۔ ’’ باغ و بہار‘‘ کا مصنف مغلیہ سلطنت کی بزم وآخر دیکھ چکا تھا۔ اس نے ’’ باغ و بہار‘‘ میں شوکت مغلیہ کی آئینہ داری ، لباس، طعام ، خدام ، فرش وفروش ،سامان آرائش وغیرہ کی ایک طویل فہرست اس طرح پیش کی ہے کہ اس سے دلّی کی شاہی تہذیب کی پوری تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔اور اگر ہر نوع کی تفصیلات اکٹھی کی جائیں تو ایک معلومات فزا انسائیکلوپیڈیا تیار ہو سکتا ہے۔ مختلف قسم کے کھانے ،طرح طرح کے ملبوسات ،سواری کے جانوروں کی آرائش، باجوں کے نام ، راگوں کی اقسام ، مطربوں کے فرقے، آتش بازی کی قسیمں ، ظروف کی تفصیلات ، ملازموں کے درجات غرضیکہ کتنی اصطلاحیں ہیں جو اس قصے میں بھری پڑی ہیں۔ پوری داستان میں دہلوی تہذیب و معاشرت کی تصویر یں گردش کر رہی ہیں۔ ان تمام خصوصیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ’’ باغ و بہار‘‘ اردو نثر کی وہ پہلی کتاب ہے ،جس نے زندگی کی سچی تصویر کشی کی اور اردو ادب میں ایک روشن اور توانا مثال قائم کی۔ اس خصوصیت نے باغ و بہار کو قبول عام کا مرتبہ بخشا۔ داستانوں کی ان ہی خصوصیات کے بارے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کہتے ہیں کہ:
’’ داستانیں ہمارے سامنے قدیم دور کے ماحول ، معاشرت ، رسوم ورواج عقائد و نظریات اور طور طریقوں کے خوشنما اور حسین و جمیل مرقعے پیش کرتی  ہے۔ داستان کے صفحات میں ہمیں وہ نقشے اور تصویریں ملتی ہیں ۔ جو تاریخ کے ابواب میں نا پید ہوتے ہیں۔ یوں علمی معلوماتی اور تاریخی اعتبار سے بھی داستانوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (۱۹)
بہر حال داستان کی افادیت و اہمیت مسلم ہے۔ادب کے طلبہ کے لئے داستان کو نظر انداز کرنا یا اس کی اہمیت کو گھٹانا ممکن ہی نہیں ۔ جس طرح تہذیب انسانی کی تاریخ میں ’’ پتھر کے زمانے‘‘  کا ذکر ناگزیر ہے۔ اسی طرح تاریخ ادب داستانوں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔

صبا علی۔ ۔پی ایچ۔ڈی اسکالر ،شعبہ اردو ، جامعہ پشاور
حوالہ جات
۱۔        گیان چند، ڈاکٹر ،  ’’اردو کی نثر ی داستانیں ‘‘   انجمن ترقی اردو، کراچی ، ۱۹۶۹ ، ص ۵۱۵
۲۔         سُنبل نگار ، ڈاکٹر ، ’’ اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ دارالنوادر  اردو بازار غزنی سٹریٹ لاہور، ۲۰۰۳ ، ص ۵۱
۳۔       رفیع الدین ہاشمی ، ڈاکٹر ،  ’’ سرور اور فسانہ عجائب ‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور  ،  ۱۹۷۹ ، ص ۲۷
۴۔       سہیل بخاری ، ڈاکٹر ، ’’ اردو داستان ‘‘   ،  مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد  ،  ۱۹۸۷،  ص ۴۷
۵۔       ایم سلطانہ بخش ، ڈاکٹر، ’’ داستانیں اور مزاج ‘‘  مغربی پاکستان اردو  اکیڈمی لاہور ، ۱۹۹۳ ، ص، ۱۸۸
۶۔        ایم سلطانہ بخش ، ڈاکٹر، ’’داستان کی تدریس‘‘،  مشمولہ  ’’تدریس ادب‘‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  اسلام آباد۲۰۰۴  ،ص  ۲۰۳
۷۔       ممتاز منگلوری،  ڈاکٹر  ،  مرتبہ  ،  ’’باغ و بہار ‘‘ از میر امن دہلوی  ، مکتبہ خیابان ادب ۳۹  چیمبرنس روڈ لاہور، طبع  اول ۱۹۶۶ ، ص ۱۶
۸۔       گیان چند ، ڈاکٹر ، ’’ اردو کی نثری داستانیں ‘‘ ، انجمن ترقی اردو کراچی ، ۱۹۶۹، ص ۶۶، ۶۷
۹۔        بحوالہ غالب، ’’داستان کیا ہے ‘‘ مشمولہ ’’ فن داستان گوئی ‘‘ از کلیم الدین احمد، دائرہ ادب بانکی پور پٹنہ ، ص ۱۷
۱۰۔       عبداللہ ، سید ، ڈاکٹر ، ’’ میر امن سے عبدالحق تک‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور ،  ۱۹۶۵ ، ص ،۲۰
۱۱۔       میر امن دہلوی ، ’’ باغ و بہار ‘‘  پا پو لر پبلشنگ ہاؤس لاہور ،  ۲۰۰۵،  ص  ۸۲
۱۲۔       ایم سلطانہ بخش ، ڈاکٹر ، ’’داستانیں اور مزاح ‘‘ مغربی پاکستان اردو  اکیڈمی لاہور ، ۱۹۹۳ ، ص ،۹۶
۱۳۔      میر امن دہلوی  ،  ’’ باغ و بہار ‘‘  پا پو لر پبلشنگ ہاؤس لاہور  ،  ۲۰۰۵،  ص ۱۱۴
۱۴۔      ایضاً   ،   ص   ۱۳۹
۱۵۔      بحوالہ  ،  حمید احمد خان ، پرو فیسر  ،  مشمولہ  ،  ’’ اردو ادب کی مختصرترین تاریخ ‘‘  از  سلیم اختر ، ڈاکٹر  ،  سنگ میل پبلی کیشنز  لاہور، اکتیسواں  ایڈیشن ، ۲۰۱۵  ص ،  ۳۱۸
۱۶۔       انور سدید ، ڈاکٹر ، ’’ا ردو ادب کی مختصر تاریخ ‘‘،  عزیز بُک ڈپو لاہور،  ۲۰۰۶  ،ص  ،  ۲۲۸
۱۷۔      کلیم الدین احمد،  ’’فن داستان گوئی‘‘  دائرہ ادب بانکی پو ر پٹنہ ،ص ۱۵۷
۱۸۔      میر امن دہلوی  ــــــــ’’ باغ و بہار ‘‘ پاپولر پبلشنگ ہاؤس  لاہور ،   ۲۰۰۵،  ص  ،  ۵۶
۱۹۔       رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر ،   ’’ اصناف ادب ‘‘   سنگ میل پبل کیشنز ، لاہور،  ۱۹۹۸ ،  ص  ،  ۱۱۵

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com