رحیم گل کی ناول نگاری
ظہور عالم

ABSTRACT
Rahim Gul is a famous fiction writer and critic. He wrote several novels for example Wo Ajnabi Apna, Peyyas Ka Darya, Zehr Ka Darya, Dastan Chor Aye, Tun Tara Ra, Jannat Ki Talash, Wadi e Guman mein, Khad o Khal, Portrait,Tarannum , Sarhadi Uqab. He was honored with Adam Jee Adabi Award on his book "Dastan Chor Aye". In this research article the researcher has analyzed his novels in the back ground of the Art of novel. He has also shed light on the theme of his novels in full detail .

           خیبر پختونخوا کی سرزمین ہر لحاظ سے زرخیز ہے۔اس دھرتی نے اگر فنِ حرب میں کمال رکھنے والوں کو جنم دیا تومہمان نوازی کی لازوال داستانیں رقم کر نے والوں کو بھی پیدا کیا ،ایک طرف تہذیب و تمدن کے چشمے اس کی کوکھ سے پھوٹے تو دوسری طرف ادب کو جلا دینے والے ادیب اس کی گود میں پلے بڑھے۔یہاں کے شاعروں اور ادیبوں نے نہ صرف پشتو بلکہ اْردو ادب میں بھی اپنی الگ پہچان بنائی۔ خصوصاََاْردو ادب میں ان کا فن قابل ِ تقلید رہا ہے اورآج تک لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں۔خیبر پختونخوا نے فارغ بخاری،طاہر فاروقی،خاطر غزنوی،ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،احمد فراز،غلام محمد قاصراور مقبول عامر وغیرہ جیسے ادبا،ناقدین اور قادرالکلام شعرا کو جنم دیا۔اْردو ادب سے شناسائی رکھنے والے احباب ان اسما ء کی قدرومنزلت سے خوب واقف ہوں گے۔اسی سلسلے میں ایک نام ’’رحیم گل ‘‘کا آتا ہے ،جو اپنی رومان پسند ی کی وجہ سے اْردو ادب میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔رحیم گل کوہاٹ کے علاقے ’’شکردرہ ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک رومان پسند اورمحبت کرنے والے انسان تھے۔انہوں نے پوری زندگی محبت کا درس دیا ہے کہتے ہیں کہ،
’’میرے نزدیک محبت ایک نیکی ہے۔عورت سے محبت ،مرد سے محبت،بچے سے محبت،جانور سے محبت اور پھولوں سے محبت۔یہی میری سرشت ہے اور میں اسی سرشت کے ساتھ زندہ رہناپسند کرتاہوں۔‘‘(۱)
انہوں نے ساری زندگی محبتوں کے دیئے جلائے رکھے۔پنی سوانح عمری میں اپنی دس محبوباو?ں رام پیاری،فیروزہ،زرینہ، تن تارارا،مس سارا، گیتا، فہمیدہ، شمسہ، سلطانہ اور راشدہ(دوسری بیوی) کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔وہ محبت کو زندگی کے لئے ضروری گردانتے ہیں چاہے وہ کسی سے بھی ہو بس محبت ہو۔لکھتے ہیں کہ،
’’آدمی کو آدمی سے محبت کرنے کا حق ہے۔محبت کو کسی ذات ،کسی شخصیت اور کسی قبیلے کے لیے محدود اور مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔محبت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔محبت اپنی زبان ہوتی ہے،اپنی پہچان ہوتی ہے۔‘‘(۲)
رحیم گل کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ ’’ کالی لڑکی سے ہوا‘‘۔یہ افسانہ ایک فوجی اخبار میں چھپا تھاجس کے مدیر’’کیپٹن آغا بابر ‘‘تھے۔ انہوں نے رحیم گل کی ستائش کی اور خط میں لکھا کہ،
’’اگر یہ نقش اول ہے تو نقش ثانی خدا جانے کیا ہوگا۔اگر آپ نے افسانوی مشق ترک کر دی تو یہ اْردو ادب پر ظلم عظیم ہوگا۔‘‘(۳)
نثر لکھنے میں ان کو کمال حاصل تھا۔’’صریر ِ خامہ نوائے سروش ‘‘ کے مصداق ان کا ساحر قلم ان کے ہاتھ میں آکر خود ہی الفاظ کے لڑیاں پروتا۔ بہترین نثر لکھنے کی وجہ سے وہ ’’پاک ٹی ہاوس لاہور‘‘میں نثری شاعر کے نام سے مشہور تھے۔اس بارے میں ڈاکٹر اجمل بصر یوں رقم طراز ہیں،
’’رحیم گل نثر میں بے انتہا مہارت رکھتے تھے۔لاہور کے کافی ہاوس(پاک ٹی ہاوس) میں نثری شاعر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔‘‘(۴)
انہوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اپنی ذہانت، ادب فہمی اور فنکاری کی دھاک جمائی۔انہوں نے ناول،افسانے ، ڈرامے،خاکے اور فلمی کہانیاں لکھیں لیکن ناول سے ان کو خصوصی شغف تھا۔روسی ناول نگاروں کو شوق سے پڑھتے تھے خصوصاََ ’’پشکن ‘‘ سے بہت متاثر تھے۔ان کی اپنی شہرت ان کے تخلیق کردہ ناولوں کی وجہ سے ہے۔انہوں نے کل چھ ناول لکھے ہیں،تن تارارا،پیاس کا دریا ،زہر کا دریا۔وہ اجنبی اپنا،جنت کی تلاش،وادی ٔ  گماں میں۔
رحیم گل کا پہلا ناول ’’تن تارارا‘‘ ہے جو پہلی بار ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا۔اس ناول کے اب تک بارہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔جنگ عظیم میں رحیم گل نے ایک ’’ناگا‘‘(ناگا ہل کی رہنے والی )لڑکی کی عزت بچائی اس کے ساتھ ایک دوسری لڑکی تھی جس کا نام ’’تن تارارا ‘‘ تھا۔وہ رحیم گل پر فریفتہ ہوئی یعنی ان سنگلاخ پہاڑوں میں بھی رحیم گل کے لیے محبت کے چشمے پھوٹ پڑے۔جب رحیم گل کا تبادلہ وہاں سے ہوا تو اس لڑکی نے خودکشی کرلی جس کا رحیم گل کو بہت رنج ہوا۔لکھتے ہیں،
’’جانے وہ کونسی ساعت سعید تھی ،جب ایک معصوم چہرہ میرے تصور میں ابھرا۔اس کی روشن پیشانی پر جیتا جیتا خون چمک رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔’’میں ہوں شہید محبت۔شہید وفا۔ میرا نام تن تارارا ہے!‘‘ میں نے اسی لمحے اس الہامی تصور سے وعدہ کیا۔۔۔ تجھے زندہ جاوید کردوں گا۔ساری دنیا کو بتا دوں گا کہ ناگاہل کی ایک آوارہ پری پہلی لڑکی تھی، جس نے میری خاطراپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی تھی!‘‘(۵)
ناول کا موضوع محبت ہے۔رحیم گل نے محبت کے لافانی جذبے کو موضوع بنایا او راسے امر کر دیا۔رحیم گل نے اس ناول میں تمام جذبوں ،روایات و اقدار کو پس پشت ڈال کر محبت کو فوقیت دی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار تن تارارا اور اسد ہیں۔ناول میں مصنف کا قلم فراٹے بھرتا دکھائی دیتا ہے۔کمال مہارت کے ساتھ جملوں کی بندش،الفاظ کا برمحل استعمال ،تخیل کی بلند پروازی ،کرداروں کے مکالمے اپنی مثال آپ ہیں۔ناول چونکہ رومانی ہے اس لیے محبت کو بیان کرنے میں مصنف نے اپنی پوری توانائی صرف کی ہے۔لکھتے ہیں :
’’ہائے!  دنیا میں محبت سے زیادہ شہ زور چیز کوئی نہیں۔۔۔۔ دریاؤں کو بند باندھ کرروکا جا سکتاہے۔سمندروں کا احاطہ ہو سکتاہے۔سر بفلک چوٹیوں کو سر کیا جاسکتاہے۔ مگر محبت کے سرکش گھوڑے کو آج تک کوئی لگام نہ لگا سکا۔‘‘(۶)
محبت کے ساتھ ساتھ ناول میں دوسرے موضوعات پر بھی بحث کی گئی ہے جس میں تہذیب ،ثقافت اور جنگ کی بر بادیاں۔ناول کے شروع میں تین کردار سامنے آتے ہیں جو ہندوستان میں آباد تین بڑے مذاہب کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔’’بلونت سنگھ‘‘،’’کمل رام‘‘اور ’’مہر دین‘‘۔یہ تینوں کردار علامتی کردار ہیں۔ان کرداروں کے ذریعے مصنف نے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح ہندوستان کے سکھ،ہندو اور مسلمان انگریزوں کے آلۂ  کار بنے رہے اور کس سادہ لوحی کے ساتھ پرائی جنگ میں اپنی جانیں گنواتے رہے۔ناول میں اس کی طرف خوبصورت اشارہ کیا گیا ہے:
’’تم لوگ جنگ کے مقصد کو نہیں جانتے مگر لڑنے آئے ہو۔تم ہندوستانی لوگ نہ ملک کے لیے لڑتے ہو ،نہ ملت کے لیے۔صرف پچّیس روپے کے عوض فوجی وردی پہن کر ہماری گولی کا نشانہ بنتے ہو۔‘‘(۷)
رحیم گل کا دوسرا ناول ’’پیاس کا دریا‘‘ ایک جنسی ناول ہے۔یہ ناول دو سال کے وقفے کے بعد ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا ہے۔اس ناول میں بھی دیگر ناولوں کی طرح محبت کو موضوع بنایا گیاہے۔یہ ایک کرداری ناول ہے اور اس میں کرداروں کے دونوں اقسام موجود ہیں یعنی متحرک اور سپاٹ کردار۔اس ناول میں بھی کردار حقیقت پر مبنی ہیں۔ان کرداروں کا ذکر رحیم گل نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ناول کا مرکزی کردار ’’ندیم‘‘رحیم گل کا اپنا کردار ہے۔’’شمسہ ‘‘ کا کردار بھی حقیقی کردار ہے اس کا ذکر رحیم گل کی آپ بیتی میں ملتا ہے۔یہ لڑکی رحیم گل کی کتابیں پڑھتی ہے۔پھر دونوں کی خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور یہ رابطہ محبت پر منتج ہو جاتاہے۔
ناول میں ندیم ایک لکھاری ہے جو افسانے لکھتاہے شمسہ اس کے افسانے پڑھ کر اس پر عاشق ہوجاتی ہے اور یوں دونوں کا آپس میں رابطہ شروع ہو جاتاہے۔ندیم اس سے ملنے کراچی جاتاہے، دونوں پیار محبت کے دعوے اور عہد و پیماں کر لیتے ہیں۔ ندیم کچھ عرصہ کراچی میں رہ کر واپس لاہور آتاہے ،جہاں ریڈیو اسٹیشن میں ان کی ملازمت ہوتی ہے۔ریڈیو اسٹیشن میں ایک نئی لڑکی آتی ہے جس کا نام ’’ناہید ‘‘ ہے۔ندیم اس پر عاشق ہوجاتاہے اور یوں دونوں کی محبت پروان چڑھتی ہے۔ندیم یہاں بور ہوجا تاہے اور پھر شمسہ کی طرف لوٹتا ہے۔وہاں جا کر وہ شمسہ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ لیتاہے تو واپس لاہور آجاتاہے۔اب یہاں آئے روز اس کی صحت گرتی جاتی ہے۔صحت بنانے کے لیے وہ’’ مری ‘‘کا رخ کرتاہے۔مری جا کر وہ ’’نعیمہ‘‘ سے محبت کرنے لگتاہے۔مری میں اچانک اس کی ملاقات ناہید سے ہوتی ہے جو اس کے ناجائز بچے کی ماں بنی ہوتی ہے۔یہاں رحیم گل بڑے عجیب انداز سے معاشرے کی اس غلاظت کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ بات بالکل ہمارے سماج پہ صادق آتی ہے کہ اکثر پیار کے چند لمحوں کا ثمر کوڑے دانوں یا گلی محلوں کی گندی نالیوں میں پڑا ملتاہے۔وہ مرد اور عورت کے جنسی تعلقات بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ فعل دو جسموں کی شراکت سے ہوتاہے لیکن سزا صرف عورت کو ملتی ہے، سماج کی طرف سے بھی اور فطرت کی طرف سے بھی۔
’’عورت اور مرد جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ان کے تعلقات بوسے سے تجاوز کر جاتے ہیں تو فطرت صنف نازک کے کمزور کندھوں پر سارا بوجھ لاد دیتی ہے۔‘‘(۸)
ندیم ناہید سے شادی کر لیتاہے اور نعیمہ اور شمسہ کو چھوڑ دیتاہے۔یوں اس ناول کی کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔وہ کبھی ایک عورت کو اپناتا ہے تو کبھی دوسری کو لیکن ہر ایک کو چاہنے کا انداز مختلف ،جذبات مختلف ،خیالات مختلف۔لکھتے ہیں،
’’شمسہ!
ناہید!!
اور نمو!!!
پہلی روحانی تقاضا بن کر میری زندگی میں آئی۔
دوسری جنسی احتیاج بن کر مجھ پر چھا گئی۔
تیسری معصومیتوں کی مالا بن کر میرے گلے سے لپٹ گئی۔‘‘(۹)
            ناول میں جنس اور محبت کے انوکھے تجربے کو پیش کیا گیا ہے جب کہ ہمارے معاشرے کے مردوں کی حقیقت سے پردہ اْٹھایا گیا ہے۔جب ندیم کراچی میں شمسہ کو نیوی آفیسر کے ساتھ دیکھ لیتا ہے تو اْسے غصہ آتا ہے اور وہ اسے چھوڑکر واپس آجاتا ہے،لیکن خود وہ شمسہ سے بھی محبت کا دعویٰ کرتاہے اور ناہید کے ساتھ بھی بلکہ ناہید کے ساتھ تو جنسی تعلق بھی رکھتاہے۔ محبت اور جنس کے ملے جلے کیفیات پر رحیم گل نے اپنے مخصوص اسلوب ِ نگارش میں معنی خیز باتیں تحریر کی ہیں جو ان کے لیے قال نہیں ،حال ہیں۔پہلے وہ محبت کا داعی اور پرچارک نظر آتا ہے ،
’’آہ۔۔۔۔۔۔۔یہ نیلا آسمان کتنا پھیلا ہوا ہے لیکن محبت تو اس سے بھی وسیع تر چیز ہے۔آسمان تو زمین کے ساتھ مل کر اپنی محدودیت کا احساس پیدا کر دیتاہے،لیکن محبت کے آسمان کا کوئی افق نہیں ہے۔وہ لامحدود ہے،بے کنارہے۔وہ کہیں نہیں ڈوبتا۔کہیں ختم نہیں ہوتا۔وہ پھیلتا جاتاہے۔۔۔۔تاحد نظر۔۔۔۔۔اس سے بھی آگے۔۔۔۔۔جنت کے مکینوں سے بھی بہت آگے۔۔۔۔اور آگے۔۔۔۔بہت اوپرخدا کے نور میں ضم ہوجاتاہے۔محبت نو ر ہے۔نور خدا ہے اور خدا محبت ہے۔‘‘(۱۰)
لیکن آخر میں پیار اور محبت کے تمام تر تجربوں سے گزر کر اس کو رد کرنے لگتاہے۔یہ تمام باتیں سراب دکھائی دینے لگتی ہیں۔کہتاہے کہ،
’’پیار ایک جذباتی غرض ہوتی ہے جو پوری ہونے کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔‘‘(۱۱)
ایک اور جگہ کہتاہے کہ،
’’ہم نے محبت کا نام محبت کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ہم جنسی ملاپ کی نارسائی کوپیار کیوں کہتے ہیں۔ہم صاف تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ محبت ایک فریب ہے دھوکہ ہے۔ہم عورت سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ہمیں جب تک وہ میسر نہیں آتا ہم محبت کہہ کر اس کے لیے تڑپتے ہیں۔اس کے لیے پریشان ہوتے ہیں مگر جب وہ ہمیں ملتی ہے،ہم اْسے حاصل کر لیتے ہیں تو تب یہ راز فاش ہوتا ہے کہ ہمیں محبت نہیں ،محبت کے روپ میں دراصل ایک عورت کا جسم ملا ہے۔‘‘(۱۲)
رحیم گل کا تیسر ا ناول’’زہر کا دریا‘‘ ۱۹۷۶ء کو شائع ہوا ہے۔یہ ناول کمرۂ عدالت سے شروع ہو کر کمرۂ عدالت میں ہی اپنے انجام تک پہنچتاہے۔چونکہ یہ چند دنوں میں لکھا گیا ہے اس لئے ایک کمزور ناول ہے۔رحیم گل نے یہ ناول ایک واقعہ سے متاثر ہو کر لکھاتھا۔لکھتے ہیں،
 ’’مجھے اپنا ایک گمشدہ مسودہ ملا ،جو کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک واقعہ سے متاثر ہو کر لکھاتھا۔‘‘(۱۳)
زہر کا دریا کا مرکزی کردار’’عدیم ‘‘ہے جو ایک امیر باپ کا بیٹاہے۔عدیم کے گھر میں ایک لڑکی کام کرتی ہے’’سرْتل‘‘۔سرْتل غریب باپ کی باحیا اور عزت دار بیٹی ہے جس کے ماتھے کا جھومر اس کی دوشیزگی اور جس کا غرور اس کی نسوانی عزت ہے۔عدیم کا باپ سرتل کی عزت لوٹ لیتاہے۔عدیم کو پتہ چلتا ہے تو اپنے باپ کو قتل کر دیتا ہے اور خود کو عدالت میں پیش کردیتا ہے۔عدالت میں سر تل جرم اپنے سر لینے کی کوشش کرتی ہے تو عدالت دونوں کو بری کرتی ہے۔سرتل عدیم کے باپ کے ناجائز بچے کو جنم دے دیتی ہے اور خود فو ت ہو جاتی ہے۔ عدیم ا س بچے کی پرورش کر تاہے اورسرتل کی محبت کا دم بھرتاہے۔تیس سال بعد بچہ جوان ہو جاتاہے تو عدیم ایک دفعہ پھر خود کو عدالت میں پیش کرتاہے۔اب کے بار ’’مالی کاکا‘‘ انکشاف کرتا ہے کہ اس بد کاری کے نتیجہ میں پید اہونے والا بچہ خود عدالت کی کرسی پر بیٹھا جج یعنی ’’امجد‘‘ ہے۔امجد یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔وہ سوچ بیچار کے بعد خود کشی کا ارادہ کرتاہے۔اس کی بیوی اس کو سمجھاکر اْسے روکتی ہے۔امجد اْس کی بات مان لیتا ہے اور نوکری سے استعفیٰ دے کر خود عدیم کا کیس لڑتاہے۔امجد یہ کیس جیت جاتاہے جو سچائی کی جیت ہوتی ہے۔
ناول میں زندگی ،موت،محبت اور فرض شناسی کو موضوع بنایا گیا ہے خصوصاََ زندگی اور موت کی کشمکش پر بات ہوتی ہے۔ بعض لوگ مرنا نہیں چاہتے ،بعض جینا نہیں چاہتے،کسی کے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، کسی کے پاس سب کچھ ہوتا ہے زندگی نہیں ہوتی، یوں دنیا میں زندگی اور موت کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔رحیم گل لکھتے ہیں کہ،
’’زندگی ہے کہ روز مجروح ہوتی ہے اور دوسری صبح تازہ دم ہوکر سامنے آجاتی ہے اور موت کو للکارتی ہے۔میں کسی دن تمہیں زیر کردوں گی،تم پر ضرور فتح حاصل کروں گی!’’زہر کا دریا‘‘کی کہانی یہی ہے۔!!‘‘(۱۴)
اس کے علاوہ معاشرے میں غریبوں کے ساتھ ذیادتی ،ان کے عزتوں کے ساتھ کھلواڑ یہ سب ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے ہیں جس پر اکثر ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے۔رحیم گل اس بارے میں لکھتے ہیں کہ،
’’ایک بے بس کنواری لڑکی کی عزت لٹ گئی۔ایک ایسی چیز لٹ گئی جو کبھی واپس نہیں آتی۔ہیرے جواہرات چوری ہوجاتے ہیں۔دکانیں اور بنک لٹ جاتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کی واپسی کا امکان ہوتاہے۔سرسراتے نوٹوں کی جگہ نئے نوٹ چھپ کر آسکتے ہیں۔چمکتے دمکتے بے جان ہیرے کی جگہ دوسرا ہیرا خریدا جا سکتاہے لیکن روئے زمین پر عورت کی عصمت ہی ایک چیز ہے جو ایک بار لٹ جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لٹ جاتی ہے۔‘‘(۱۵)
رحیم گل کا چوتھا ناول ’’وہ اجنبی اپنا‘‘ ۷۷۹۱ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ ناول بھی دوسرے ناولوں کی طرح محبت کے موضوع پر لکھا گیا ہے۔یہ بھی کرداری ناول ہے اور سارے واقعات کرداروں کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ناول کی کہانی ڈرامائی انداز کی ہے۔جمال جو ایک بزنس مین ہے او ر خیام آنکھوں کا ڈاکٹر۔جمال کی بیوی سلمیٰ او ر خیام کی بیوی نگہت ہے۔دونوں جوڑوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ان کی ٹرین کو حادثہ پیش آتا ہے جس سے کہانی ایک نیا رخ لیتی ہے۔جمال نے اپنی بیوی کو نہیں دیکھا اور خیام نے اپنی بیوی کو، اس طرح سلمیٰ نے اپنے شوہر کو نہیں دیکھا اور نگہت نے اپنے شوہر کویوں وہ ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں۔
حادثے کے بعد جب سلمیٰ خیام کو شادی کے لباس میں زخمی حالت میں دیکھ لیتی ہے تو اْسے اپنا شوہر سمجھ لیتی ہے اور جمال نگہت کو شادی کے جوڑے میں دیکھ کر اْسے اپنی بیوی سمجھ لیتاہے۔ڈاکٹر خیام سرپر چوٹ کی وجہ کچھ نہیں دیکھ پاتا اور یہی حال نگہت کا بھی تھا۔خیام سلمیٰ کو نگہت کہہ کر پکارتا ہے تو سلمیٰ کو شک ہو جاتاہے لیکن وہ کچھ نہیں کہتی۔ خیام ٹھیک ہو کر سلمیٰ کو دیکھتاہے تو اْسے وہ احساس نہیں ہوتا جو اسے سوچنے سے ہوتاتھا۔یہ آپس میں خالہ زاد تھے اور بچپن سے دونوں میں محبت تھی۔یہ دونوں بچپن میں ایک نغمہ گاتے تھے جو بعد میں دونوں کے ملن کو سبب بنتا ہے۔
جمال کاروباری آدمی ہے نگہت کی خوبصورتی کو دیکھ کر بدل جاتا ہے اور اْسے حاصل کرنے کے لیے پوری جتن شروع کر دیتا ہے۔وہ نگہت کی آنکھوں کے آپریشن سے پہلے فیس سرجری کر کے خیام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ادھر خیام کے ڈر سے سلمیٰ اس کے گھر سے بھاگ جاتی ہے بلکہ وہ اْسے بھگا دیتاہے۔وہ کام کی تلاش میں جمال کے گھر آجاتی ہے۔یہاں آکر اْسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ جمال ہی اْس کا شوہر ہے لیکن اس کا بھیانک چہرہ دیکھ کر وہ چپ رہتی ہے۔
خیام نگہت کی آنکھوں کا آپریشن کرتاہے۔نگہت کو دیکھ کر خیام کے دل میں ہلچل ہو تی ہے اور’’ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق نگہت کے دل میں بھی جذبات ابھرنے لگتے ہیں۔ادھر جمال نگہت کو اپنانے کے لیے ہرحد پا ر کرنے کو تیار تھا۔ سلمیٰ نے نگہت کو سب کچھ بتادیا اور نگہت نے خود بھی خیام کے منہ سے بچپن کا گیت سنا جو وہ دونوں مل کر گاتے تھے۔نگہت خیام کے گھر چلی گئی اور سلمیٰ عروسی لباس پہن کر جمال کے کمر ے میں بیٹھ گئی۔جمال نے جب سلمیٰ کو دیکھاتو اس کے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔وہ سیدھا خیام کو قتل کرنے واسطے خیام کے گھر چلا گیا۔ جمال نے جونہی خیام کو مارنے کے لیے پستول اٹھائی پیچھے سے سلمیٰ نے اْسے گولی ماری اور یوں دیگر ناولوں کی طرح اس ناول میں بھی سچی محبت جیت جاتی ہے۔اس ناول میں جمال کا کردار سرمایہ داروں کا نمائندہ کردار ہے جو اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی کرتے ہیں۔ان کے لیے محبت،پیار،عشق کوئی معنی نہیں رکھتے۔وہ نگہت کو کہتاہے کہ،
’’دنیامیں جذباتی بے وقوفوں کی کوئی کمی نہیں ،خصوصاََ عورتیں تو بالکل نہیں جانتیں کہ زندگی کے لیے کیا چیز اہم ہوتی ہے اور زندہ رہنے کے اصول کیا ہیں۔۔۔۔۔؟
’’بتا دیجئے لگے ہاتھوں۔‘‘
’’پہلا اصول یہ کہ،دولت حاصل کرو‘‘
’’جائز یا ناجائز۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جیسے بھی ملے‘‘وہ ہنس پڑا۔
’’دوسرا اصول۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’خوبصورت عورت کا حصول۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’دولت سے یا محبت سے؟‘‘
’’جیسے بھی ملے۔۔۔۔حاصل کرو جنگ اور محبت میں سب جائز ،تم نے تاریخ نہیں پڑھی۔اقتدار کے لیے بادشاہوں نے بیٹے ،بھائی اور باپ تک کو پاؤں تلے روند ڈالا۔۔۔۔اور عورت کے لیے تاج و تخت ٹھکرا دیئے۔‘‘(۱۶)
ناول پر عموماََ فلمی دنیا کا گمان ہوتاہے اور کہیں کہیں ناول کے پلاٹ میں جھول دکھائی دیتاہے۔ بعض واقعات قاری کو ناگوار گزرتے ہیں لیکن فن کار کی فنکاری قاری کو اپنی گرفت میں لیتی ہے جس کی وجہ سے ثقالت نہیں ہوتی۔
۱۹۸۱ء  میں شائع ہونے والا’’جنت کی تلاش‘‘ رحیم گل کا پانچواں ناول ہے۔اس ناول میں رحیم گل نے اپنے قلم کا پورا زور صرف کیاہے۔مصنف نے اپنی ساری علمیت، ذکاوت، ذہانت، ادب فہمی،مطالعہ،تجربات،احساسات،کو نچوڑکر جنت کی تلاش میں گھلادیاہے۔یہ ناول ان کا نمائندہ ناول ہے بلکہ ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بنا۔ مستنصر حسین تارڑ جنت کی تلاش کے بارے میں کہتے ہیں کہ،
’’جنت کی تلاش ایک بڑا ناول ہے اور رحیم گل اس میں ایک قادر الکلام مصنف کی طرح ابھرتا ہے‘‘(۱۷)
یہ ناول انہوں نے چھ سال میں مکمل کیا اور انہی چھ سالوں کو وہ زندگی کا حاصل کہتے ہیں۔اس ناول میں رحیم گل نے سفرنامے کی ایک نئی تکنیک دریافت کی ہے،احمد ندیم قاسمی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ،
’’رحیم گل نے جنت کی تلاش میں سفرنامے کی ایک نئی صنف دریافت کرائی ہے۔‘‘(۱۸)
جنت کی تلاش بھی دوسرے ناولوں کی طرح رومانی ناول ہے لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ رحیم گل نے ایک نئے انداز ،نئے زاویے اور انوکھے تجربے کے ساتھ محبت کو پیش کیا ہے۔اس ناول میں شریر وں کا ملن ہے لیکن روحیں ایک دوسرے سے کوسوں دور۔ایک کردار زمین کا ہے تو آسمان کا۔اس ناول کے کردار جدید معاشرے کی نوجوان نسل (جو تذبذب کا شکار ہے )کی نمائندگی کرتے ہیں۔ناول میں تین مرکزی کرداروں کی ایک مثلث ہے۔بقول مرزا ادیب،
’’جنت کی تلاش مثلث ہے وسیم ،امتل اور عاطف کی۔وسیم اور امتل بڑے جاندار کردار ہیں زندگی آمیز ،زندگی افروز،مگر اس کے مقابلے میں عاطف ایک بے جان کردار ہے۔‘‘(۱۹)
’’امتل‘‘ ناول کی ہیروین اوروسیم ناول کا ہیرو ہے۔ عاطف امتل کا بھائی ہے اور ان دونوں کے درمیان ’’کٹالیسٹ ‘‘کا کام کرتاہے۔امتلکسی صورت بھی دنیا کو خاطر میں نہیں لاتی۔اس کے اقوال و افعال سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ خوش رہنے کے لیے وہ دنیا میں ہر ایک تجربہ کرچکی ہے چاہے جنس کا ہو یا محبت کا، سیاحت کا ہو یا گھر میں رہنے کا، لیکن اْسے کہیں چھین نصیب نہیں ہوا۔دو دفعہ خودکشی کی ناکام کوشش اس کے نفسیاتی خلفشار کی غمازی کرتی ہے۔وہ ایک بے پناہ پیار کرنے والے بھائی اور حد سے زیادہ محبت کرنے والے وسیم کی صحبت میں رہتی ہے لیکن پھر بھی ہر چیز سے مایوس نظر آتی ہے۔
ناول کا موضوع جدید دور کا ذہنی انتشار اور بے سمتی ہے۔جس طرح ہماری جدید نسل ایک منزل ِ بے نشاں کے جانب رواں دواں ہے اس کی بہترین عکاسی رحیم گل نے اس ناول میں کی ہے۔احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ،
’’جنت کی تلاش اْردو زبان کا پہلا ناول ہے جس میں وہ گہری اور گمبھیر الجھنیں موضوع بنی ہیں جنہوں نے صدیوں سے بڑے بڑے حکیموں ،داناؤں اور دانشوروں کو جستجوئے مسلسل میں مبتلا رکھا ہے۔‘‘(۲۰)
سہیل احمد اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’جنت کی تلاش کا موضوع جدید عہد کے یہی نئے کردار ہیں جو افراتفری کے اس ماحول میں ذہنی سکون کی تلاش میں کسی گم شدہ جنت کی بازیافت کررہے ہیں۔یہ وہی کردار ہیں جنہوں نے اپنے گرد کئی فصیلیں کھڑی کر رکھی ہیں۔زنجیروں سے خود کو مقید کر رکھا ہے۔وہ سینکڑوں بت تراش کر بھی محصور ہونے کا ماتم کر رہے ہیں۔‘‘ (۲۱)
جب کہ رحیم گل خود اس بارے میں لکھتا ہے کہ یہ ایک بے چین روح کا سفر ہے جو عرفان کے لیے بھٹک رہی ہے۔
’’جنت کی تلاش ایک بے چھین روح کا سفر ہے‘‘(۲۲)
’’ساحر‘‘ کی طرح رحیم گل نے اس ناول میں وہ سب کچھ لوٹا دیا ہے جو اس کو زندگی اور سماج سے ملا ہے۔ اس ناول میں وہ تمام تر خیالات ،تجربات و مشاہدات جگہ جگہ نظر آتے ہیں جو رحیم گل نے اپنی زندگی میں حاصل کیے ہیں۔وسیم کا کردار خود رحیم گل کی غمازی کرتاہے۔ناول میں وہ تمام ناشنیدہ اور نارسیدہ خیالات بیان ہوئے ہیں جو ہر ذی شعور انسان کے من میں ہوتے ہیں۔رحیم گل نے اس کو امتل کے کردار کی توسط سے بیا ن کیا ہے۔ڈاکٹر ممتاز احمد خان جنت کی تلاش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ،
’’ناول جنت کی تلاش در حقیقت سچائی کی تلاش کا ناول ہے جس کا اظہار امتل کے ذریعے ہو ا ہے۔‘‘(۲۳)
مکالموں نے ناول میں بلاکی کشش پیدا کی ہے۔وسیم اور امتل کے مکالموں کے ذریعے ناول نگار نے فلسفہ، سائنس، معیشت، معاشرت، طبقاتی کشمکش، موت، زندگی، سرمایہ داری، غرض ہر ایک موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ناول کے آخر میں امتل زندگی کی طرف لوٹ آتی ہے۔یہ اس با ت کا واضح اشارہ ہے کہ انسان نے بہر صورت زندگی اور زندگی کے ان تمام عوامل کا سامنا کرنا ہے جو انسان کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔انسان نے ان سب کو شکست دے کے جینا ہے۔امتل آخر میں کہتی ہیں،
’’وسیم صاحب ،آج میں زندگی کو پالیاہے۔۔۔۔!!میں جان گئی ہوں کہ میں آپ سے محبت کر سکتی ہوں۔۔۔۔آیئے واپس چلیں ،غار کی طرف نہیں،ہجوم کی طرف۔ میں ایک انسان کو جنم دینا چاہتی ہوں۔شائد وہ عرفان جو مجھے نہیں ملا ،وہی لے کر آرہا ہو۔۔۔۔۔!!‘‘(۲۴)
جنت کی تلاش اْردو کے ان چند ناولوں میں سے ہے جن کو ہم اْردو ادب کے نمائند ہ ناول کہہ سکتے ہیں۔ڈاکٹر اجمل بصر اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جنت کی تلاش اپنی اثر افرینی ،منظر نگاری اور فنی تکمیل کے باعث اْردو کا منفرد ناول مانا جاتاہے۔‘‘(۲۵)
رحیم گل کا چھٹا ناول ’’واددیٔ گماں میں ‘‘ ۱۹۸۴ء  میں شائع ہوا ہے۔یہ ایک فینٹسائی ناول ہے۔جو ایک ایسے سیارے کے بارے میں ہے جہاں ہماری کرہ سے دس ہزار سال آگے کی زندگی ہے۔وہاں نہ نفرت ہے نہ محبت،نہ غم نہ دکھ نہ موت،بس خوشی ہی خوشی۔اس ناول میں رحیم گل نے اپنے تخیل کے زور پہ ایک ایسی دنیا آباد کی ہے جو ’’آئیڈیل ‘‘ہے۔ جہاں انسان صرف انسان ہے کو ئی ذات نہیں ،کو ئی طبقہ نہیں،کو ئی امیر نہیں ،کوئی غریب نہیں،سب کے سب برابر۔ناول کا مرکزی کردار’’ چنگیز ‘‘ شاعر ہے۔ ثمرین اس ناول کی ہیروئن ہے۔چنگیز اپنے دوستوں،زرین،ڈاکٹر ضیاء اور انجینئر رضاء کے ساتھ سیر کے لیے گیا ہے اس دن ثمرین ان کے ساتھ نہیں ہوتی۔چنگیز اس کے بارے میں سوچ رہا ہوتاہے کہ ایک اْڑن طشتری آ کر ان چاروں کو ایک عجیب و غریب سیارے پر لے جاتی ہے۔چنگیز کے علاوہ باقی تین اس سیارے کے لوگوں اور ماحول سے مرعوب ہو کر وہاں رہنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں اور قطرۂ حیات پی کر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔چنگیز بھی قطرہ ٔحیات پی لیتاہے لیکن وہ کسی صورت وہاں رہنے کو تیار نہیں۔چنگیز کو اْس پورے نظام پر اعتراض ہے کہ یہ کیسی دنیا ہے ؟یہ کیسی زندگی ہے؟زندگی کا مزہ تو رنگارنگی میں ہے جبکہ یہاں یک رنگی ہے۔زندگی کا مزہ کوشش اور محنت میں ہے جب کہ یہاں ہر کام خود بہ خود ہو تا ہے۔خوشی کا مزہ تو اس وقت ہوتاہے جب آدمی نے غم کا ذائقہ چکھا ہو۔باون سال اس سیارے پر گزارنے کے بعد چنگیز واپس اپنی زمین پہ آجاتاہے اور باقی کے تین کردار وہاں رہ جاتے ہیں۔
ناول کی پوری فضا ماورائی قسم کی ہے بلکہ اس میں داستانوی عناصر دکھائی دیتے ہیں۔ایک مرد کا عورت کے ساتھ پچاس سال تک جنسی عمل ،انسان کا ہمیشہ جوان رہنا،غم نہ ہو نا ،دکھ نہ ہونا یہ ماورائی باتیں ہیں۔اس لیے نوید اے شیخ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ایک تصوراتی ناول ہے:
’’ وادیٔ گماں میں ،ایک تخیلی اور تصوراتی ناول ہے۔اس کے مصنف کے اندر حیات انسانی کا جو آئیڈیل پوشیدہ ہے ایک طرح سے یہ ناول اس کا منظر نامہ ہے۔‘‘(۲۶)
ناول میں ادب سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی چنگیز کے روپ میں کی گئی ہے جو کسی بھی چکا چوند سے متاثر نہیں ہوتے۔وہ زندگی کو اپنی اصلی حالت اور شکل میں دیکھناپسند کرتے ہیں۔حالا نکہ ڈاکٹر اور انجینئر سب وہاں کی زندگی سے متاثر ہو کر رہنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن چنگیز جو شاعر ہے واپس اپنی زمین پر لوٹ آتاہے۔ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک ادیب کے لیے اس کا وطن،اس کی مٹی ،اس کی دھرتی سب کچھ ہوتی ہے۔چنگیز کو اس کی دوست زریں زمین پر واپس جانے سے منع کرتی ہے تو چنگیز اس کو جواب دیتاہے:
’’زمین بری ہے ،بہت بری ہے میں مانتاہوں ، مگر میں اس لیے زمین پر رہنا پسند کروں گا کہ زمین واقعی بری ہے۔۔۔۔۔میرا عقید ہ ہے برائی کا سامنا کرو،برائی سے لڑو،کیوں کہ برائی سے بھاگنابرائی کی فتح ہے۔میں یہ بھی مانتاہوں کہ زمین پر نفرتیں ہیں،زمین پر دھوکے ہیں،زمین پر تضادات ہیں۔۔۔۔۔۔مگر میں اس لیے نفرتوں میں زندہ رہنا چاہتاہوں کہ نفرتوں کا مقابلہ کروں۔میں ان تضادات کو مٹانا چاہتا ہوں۔زریں ! میں ان تضادات سے بھاگنا نہیں چاہتا۔میں نہیں چاہتا کہ زمین پر تاریکیوں کا راج ہو جائے۔‘‘(۲۷)
رحیم گل کے ناولوں کی اہمیت اور قدر ومنزلت اْردو ادب میں کسی سے پوشیدہ نہیں۔تن تارارا کے بارہ ایڈیشن ،جنت کی تلاش کے چھ ایڈیشن اور باقی ناولوں کے دو دو ایڈیشن اس بات کا ثبوت ہے کہ رحیم گل کا اْردو ناول کی دنیا میں ایک الگ مقام ہے۔’’تن تارارا‘‘ سے ناول کی دنیامیں ان کا سفر شروع ہوکر’’ وادیٔ گماں میں‘‘ پرختم ہو جاتاہے۔اْردو ناول کے ارتقا میں رحیم گل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے ناول پیا س کے دریا کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں کہہ سکتا ہوں کہ جناب مرزا ادیب صاحب صحرا نورد کے خطوط لکھ سکتے ہیں،لیکن اگر وہ  ’’پیاس کا دریا لکھنا چاہتے تو ناکام رہتے کیوں کہ جو مواقع مجھے میسر رہے ہیں مرزا کے مقدر میں بھی نہیں تھے۔کیوں کہ جنسی تجربوں اور مشاہدوں کے مقابلتاََ میرے پاس انبار لگے ہوئے تھے۔جناب احمد ندیم قاسمی بھی یہ کام نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ وہ بے حد شریف النفس آدمی ہیں۔ کم از کم جنسی بالغ نظری میں میری عمر شاید ان سے بڑی ہوگی۔ہاں’’ منٹو‘‘مرحوم اگر زندہ ہوتے تو یہ کام کر سکتے تھے لیکن ناول لکھنے کے لیے جس استقلال ،برداشت اور طویل انتظار کی ضرورت ہوتی ہے وہ منٹو مرحوم میں نہیں تھی،لہٰذا میں سمجھتاہوں کہ ’’پیاس کا دریا‘‘ جیسا ناول لکھنا میرے لیے مقدر ہو چکا تھا۔بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ میرا حق تھا۔‘‘(۲۸)
یہاں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ رحیم گل کو خود اپنی حیثیت کا اندازہ تھا کہ میں جو تخلیق کر رہا ہوں کیا ہے اور کس پائے کا ہے۔اعتبار ساجد ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ،
’’ رحیم گل اپنی ذات میں ایک فرد نہیں انجمن تھا۔‘‘(۲۹)
یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ ایک شخص نہیں ایک انجمن تھے۔ان کا انداز نہایت دلبرانہ ہے ،جنس پر انہوں نے لکھا لیکن اس انداز سے کہ مقدمے نہ چلے ،محبت کی لیکن صحرانوردی نہیں کی نہ ہی سادھو بنا۔وہ خود انسان ہیں اور انسان کو انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات ان کی تحریروں میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ان کے ناولوں میں انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات کو پیش کیا ہے۔ان کے ناولوں میں کئی ایک خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ اْردو ادب کی دنیا میں اپنا مقام بناتے ہیں۔خصوصاََ جنت کی تلاش ایسا فن پارہ ہے جو جدت کاحامل ہے۔ یہ اْردو ادب کے چند ناولوں میں جگہ بنانے والا ناول ہے۔ان کے ناولوں کاموضوع انسان ، محبت،فلسفہ،سائنس، معاشرت،سماج، معیشت، طبقاتی کشمکش، زندگی اورموت وغیرہ ہیں۔ غرض رحیم گل نے جو محسوس کیا اپنے ناولوں میں بیان کیا۔انہوں نے اپنے ناولوں کو نئی طرز دی۔ بیانیہ انداز اور سفرنامے کی تکنیک میں ان کا ثانی نہیں۔الفاظ کا بر محل استعمال کرتے ہیں۔انگریزی ،پشتو،ہندی،فارسی جہاں جس زبان کا لفظ اچھا لگا لکھ دیا۔فن میں کسی کی تقلید نہیں کی بلکہ خود اپنی ذہنی اختراع اور ذہنی رسائی پر ناول تخلیق کئے۔اْردو ناول کی تاریخ مرتب کرتے وقت کسی صورت بھی رحیم گل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکیوں کہ اْردو ناول کو بڑھاوا دینے میں ان کے ناولوں کا ایک اہم کردار ہے۔المختصر رحیم گل کے ناول اْردو ناول کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے جو آنے والوں کے لیے رہبری کا کام کرتے رہیں گے۔

ظہور عالم، ایم فل ریسرچ اسکالر شعبہ اردو، جامعہ پشاور

حوالہ جات
۱۔        رحیم گل ،داستاں چھوڑ آئے،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص:۹
۲۔        تن تارارا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۱۵۷
۳۔       داستاں چھوڑ آئے،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۲۴۷
۴۔       اجمل بصر ،ڈاکٹر،کوہاٹ میں اردو نثر کا ارتقا،مشمولہ،خیابان،ادبی و تحقیقی مجلہ شعبۂ اْردو، جامعہ پشاور،بہار ۲۰۱۲ء، ص ۱۳۵
۵۔       داستاں چھوڑ آئے،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۲۹۴
۶۔        تن تارارا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۸۵
۷۔       تن تارارا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۱۴
8،۸۔    پیاس کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۲۸۹
۹۔        پیاس کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۲۸۱
۱۰۔       پیاس کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۳۷
۱۱۔       پیاس کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۳۲۲
۱۲۔       پیاس کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۱۸۳
۱۳۔      زہر کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۱۰
۱۴۔      زہر کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۱۱۔۱۰
۱۵۔      زہر کا دریا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۳۳
۱۶۔       وہ اجنبی اپنا ،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۹۴
۱۷۔      مستنصر حسین تارڑ،بحوالہ افتخارالدین،ا?حوال و آثار،مقالہ برائے ایم فل،علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی،اسلام ا?باد،غیر مطبوعہ،ص ۶۸
۱۸۔      احمد ندیم قاسمی ،دیباچہ : جنت کی تلاش ،رابعہ بک ہاوس،لاہور، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰
۱۹۔       مرزا دیب،ازکار و افکار ،مکتبہ میری لائبریری،لاہور، ۱۹۸۸ء،ص ۴۱۱
۲۰۔      احمد ندیم قاسمی ، جنت کی تلاش ،رابعہ بک ہاوس،لاہور، ۲۰۰۹ء،ص ۷
۲۱۔       سہیل احمد،عہد جدیدکے کچھ نئے مباحث اور’’جنت کی تلاش‘‘،مشمولہ،خیابان،تحقیقی و تنقیدی مجلہ،شعبہ اْردو جامعہ پشاور،شمارہ بہار ۲۰۰۷ء،ص ۵۶
۲۲۔      جنت کی تلاش،رابعہ بک ہاوس،لاہور، ۲۰۰۹ء، ص ۵
۲۳۔      ممتاز احمد خان ،ڈاکٹر،اْردو ناول کے ہمہ گیر سروکارفکشن ہاوس،لاہور، ۲۰۱۲ء،ص ۱۳۴
۲۴۔      جنت کی تلاش،رابعہ بک ہاوس،لاہور، ۲۰۰۹ء، ص ۴۴۰
۲۵۔      اجمل بصر ،ڈاکٹر،کوہاٹ میں اْردو نثر کا ارتقا،مشمولہ خیابان،تحقیقی و تنقید ی مجلہ شعبہ اْردو جامعہ پشاور،شمارہ بہار ۲۰۱۲ء، ص ۱۳۵
۲۶۔      نوید اے شیخ،وادیٔ گماں میں،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۸
۲۷۔      وادیٔ گماں میں،رابعہ بک ہاوس ،لاہور،س۔ن ،ص ۹۴
۲۸۔      پیاس کا دریا،رابعہ بک ہاوس ،لاہور،س۔ن ،ص ۶
۲۹۔      اعتبار ساجد،پھول ملبہ اور معمار، تن تارارا،رابعہ بک ہاوس،لاہور،س۔ن،ص ۷

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com