احمد پراچہ کی تخلیقی، تحقیقی و تنقیدی کتب کاتجزیاتی مطالعہ
محمد صاحب خان

ABSTRACT
Ahmad Paracha was a multi-talented author, compiler, researcher and great literary figure. He was a notable figure among the literary people of Khyber Pakhtunkhwa. In spite of shortage of resources, he contributed greatly to literary treasure trove of novel, short stories, research and personality writing in Urdu literature. His literary work proves his to be a great creative writer, critic and brilliant research mind. In addition to that ,his literary work also make him unique with respect of originality, compiling and research area. He has the honour of being the first novelist and historian from kohat. He published first ever journal from kohat under the name ''Nayab" in May 1985. In literary essays he does not unnecessary eulogize or dispraise anyone rather he is sincere to history of literary tradition. Ahmad Paracha truly deserves huge applaud for his literary work in Urdu literature. He is the author of more than two dozen books in spite of financial constraints and it is a big credit .

           احمدپراچہ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہمہ جہت ادیب ، مؤلف ،مصنف اورمحقق تھے وہ خیبر پختونخواکے علمی وادبی حلقوں کے نمایاں فرد تھے وسائل میسر نہ ہوتے ہوئے بھی ناول نویسی ، افسانہ نگاری، تحقیق اور شخصیت نگاری کے ذریعہ اردو ادب کے خزانہ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ جہاں ان کی مطبوعہ کتابوں سے ان کے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی شعور کااندازہ ہوتاہے وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ ادب میں تصنیف وتالیف اور تحقیق وتنقید کی فکری اہمیت اورطرز اظہار کے حوالے سے انفرادیت کے حامل تھے۔
انہیں کوہاٹ کے پہلے ناول نگار اور تاریخ نویس ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کاناول ’’خلش‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۰ء میں طبع ہوا جبکہ کوہاٹ میں سب سے پہلے نثر میں چھپنے والی کتاب بھی یہی ناول ہے ۔ کوہاٹ کی سب سے پہلی تاریخ احمدپراچہ نے لکھی، جو ’’تاریخ کوہاٹ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۹۷ء میں طبع ہوئی۔ کوہاٹ میں سب سے پہلے ادبی رسالہ ’’نایاب‘‘ کے نام سے احمدپراچہ نے مئی ۱۹۸۵ء میں نکالا جس کے مالک ومدیر بھی وہ خود تھے۔
احمدپراچہ نے اردو کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ان کے ناول میں خیبر پختونخوا کاماحول ہنستا بولتا اور سانس لیتا محسوس ہوتا ہے ان کے افسانوں میں متوسط طبقے کے روزو شب گلے ملتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ادبی مضامین میں وہ کسی کا قد گھٹانے یابڑھانے کی بجائے تاریخ ادب کے گیسو سنوارتے نظرآتے ہیں۔ اردوادب کے لئے بلاشبہ احمدپراچہ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ دودرجن سے زائد کتابیں طبع ہو کر منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود اتنی کتابیں شائع کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔
پاکستان کی علمی وادبی تاریخ میں مرکز سے دور چھوٹے شہروں کے جن اہل قلم کو اپنے بل بوتے پر روز وشب کی محنت اور ریاضت سے جو نمایاں مقام ملا ہے ان میں خیبر پختونخوابالخصوص جنوبی اضلاع کے اہم ضلع کوہاٹ کے قلم کا ر احمد پراچہ کانام بھی غیر اہم نہیں۔کوہاٹ کی سرزمین بڑی زرخیز ہے۔ خیبر پختونخوا میں پشاور کے بعد کوہاٹ کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں کے خمیر سے اچھے سخنور، صاحب طرزادیب اور عمیق نظررکھنے والے دانشور پیداہوئے ہیں۔
فارغ بخاری ’’ادبیات سرحد ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’کوہاٹ ابتداء ہی سے علم وادب کاگہوارہ رہا ہے۔ انگریزی تعلیم سے قبل سالہا سال ادھر غزنی سے اٹک تک یہ مقام مذہبی اور دینی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز خیال کیا جاتا ہے۔ صوفیائے کرام، علمائے عظام اور مذہبی پیشواؤں کی خاصی تعداد یہاں موجود تھی اور دور دور سے لوگ علمی تشنگی بجھانے کے لئے یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔ چنانچہ پشتو کے مشہور ادیب اور دینی رہنما حضرت اخون درویزہ پختون خواہ کے محبوب شاعر حضرت رحمان باباؒ اوردوسرے کئی بزرگوں نے کوہاٹ ہی میں تحصیل علم کے مدارج طے کیے اور حضرت حاجی بہادرؒ کامزار آج بھی کوہاٹ میں مرجع خلائق بناہوا ہے۔ یہاں فارسی پشتو اور ہندکو زبانوں کے کئی نامور شعراء گزرے اور اُردو زبان کی خدمت میں یہ خطہ ہمیشہ پیش پیش رہا۔‘‘ (۱)
احمد پراچہ بلامبالغہ انتھک ادیب تھے جس تو اترسے تخلیقی اور تحقیقی کام کیے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ انھوں نے یہ تہیہ کررکھا تھا کہ وہ کوہاٹ کو علم و ادب میں مثالی فروغ دے کر رہیں گے۔ جس انداز سے ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیاہے اس سے کسی بھی حساس شخص کوانکار نہیں ہو سکتا ۔ انھوں نے خود کو صرف اور صرف ادب کے لئے وقف کررکھا تھا۔ اورنہایت محدود وسائل رکھنے کے باوجودادب کے میدان میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہے،ادب سے ان کی والہانہ دلچسپی قابل دید ہے۔ ایوب صابر نے لکھتے ہیں:
’’اگر احمد پراچہ کسی خوشحال گھرانے میں پیدا ہوتے، تویقینا اونچی تعلیم حاصل کی ہوتی کیونکہ دنیاوی چیزوں میں اُسے سب سے زیادہ جو چیز پسند ہے وہ کتاب ہے میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی اچھی کتاب اس کے ہاتھ لگی تو اس کاچہرہ خوشی سے کھل اُٹھا جیسے اُسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔‘‘(۲)
انسانی شخصیت ایک ایسا معمہ ہے جسے سمجھنے کادعویٰ کوئی نہیں کرسکتا۔ انسان کی شخصیت بظاہر یک رنگ دکھائی دیتی ہے۔ مگراس کے ہزار رنگ اور ہزار انداز ہیں۔ کئی جہتیں ہیں کئی پرتیں اور کئی سطحیں ہیں اورکمال یہ ہے کہ ہر سطح دوسری سے جدا اور ہر پرت دوسری سے الگ نظرآتی ہے۔ کسی شخص کوسمجھنے کی کوشش اصل میں پرتوں اور سطحوں کے گورکھ دھندے میں الجھنے کے مترادف ہے۔
’’ایک ادیب کی شخصیت تواور زیادہ پیچیدہ زیادہ مبہم اور زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ ایک ادیب اور ایک عام آدمی میں اتنا ہی فرق ہے۔ جتنا مٹی اورپانی میں ادیب کی ذات میں پانی کی طرح لہریں اُٹھتی ہیں۔ چھینٹے اُٹھتے ہیں اور بھنور پیداہوتے ہیں۔ ادیب حساس، شدت پسند اورمتضاد کیفیات کاشکار نظرآتے ہیں۔ ان کے اندر اُٹھنے والے یہ طوفان اور کشمکش اُنھیں اپنے باطن کے اظہار اور ادب کی تخلیق پر مائل کرتی ہے۔‘‘(۳)
احمدپراچہ خیبر پختونخوا سے باہر بھی اپنی ادبی خدمات کے باوصف شناخت رکھتے تھے۔ مگر یہ عجیب ہے کہ خیبر پختونخوامیں ان کی قلمی مشقت کووہ پذیرائی نہ ملی جس کے وہ مستحق تھے لیکن صلہ وستائش سے بے نیاز ہوکر انھوں نے قرطاس وقلم سے اپنا رشتہ برقرار رکھااور مرتے دم تک ادب کی آبیاری کرتے رہے ۔
احمد پراچہ کی ادب سے وابستگی نصف صدی پر محیط ہے ان کے تخلیقی ادب میں تحقیق وتالیف کے علاوہ ناول اور افسانے بھی شامل ہیں ۔ انھوں نے نثر کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنے تخلیقی جوہر کو نمایاں کیا ہے اس طرح اُنھوں نے ادبی حلقوں میں اپنی شخصیت کو ایک ہمہ جہت تخلیق کار کے طور پر منوایا ہے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ایک ناول نگار کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ زاہدہ بتول ان کے ناول ’’خلش‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’ناول خلش احمدپراچہ کے ادبی مقام کے تعین میں اہم سنگ میل ثابت ہواہے۔اُسے ادبی حلقوں بالخصوص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں کچھ زیادہ پسند کیا گیا ہے۔ لیکن کئی ایک نے اُسے تنقید کانشانہ بھی بنایا ہے۔ 
خلش، تخیلاتی سطح کا ناول ہے۔ اُسے جذباتی رومانی اور عشقیہ ناولوں میں شامل کیا جاسکتاہے۔ اس ناول کاایک پہلو نفسیاتی بھی ہے۔ اس میں نوجوان نسل کے ذہنی انتشار ، جذباتی مسائل اور نفسیاتی اُلجھنوں کوپیش کیا گیا ہے جونوجوان طبقے کو معاشی ناہمواری، غیر صحت مندماحول، سرپرستی کی کمی، قابلیت کی بے قدری وغیرہ کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔یہی اُلجھنیں انسانوں خصوصاًنوجوانوں کومنفی سوچ اور ذہنی گمراہی کی راہ پر ڈالتی ہیں۔ اس کے ساتھ کمزور قوت ارادی کی وجہ سے نوجوان اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اس ناول کے کردار ندیم، نازلی ، دلشاد، نسرین وغیرہ ایسی ہی کیفیات میں مبتلا نظرآتی ہیں‘‘۔(۴)
اُردو ناول کا ۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۶۴ء تک جو پاکستانی دورہے اسی عرصے میں ناول کادامن کوتاہ نہیں رہا۔ اسی دوران اتنے ناول لکھے گئے جتنے کسی اور دور میں نہیں لکھے گئے۔ احمد پراچہ کاناول ’’خلش‘‘ بھی اسی دوران منظرعام پرآیا۔
احمد پراچہ نے خلش کی کہانی کو مختلف واقعات کے موڑ دے کر ڈرامائی صورت کے ساتھ یکجا کرکے آگے بڑھایا ہے جس سے مختلف واقعات ایک دوسرے سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ محبت ، نفرت، ریاکاری،ناکامی، دل شکستگی ان تمام نے بیک وقت رونما ہوکر کہانی میں دلچسپی پیدا کی ہے ۔ جو کہ میری، آپ کی، ہم سب کی کہانی ہے اس کے کردار رومانی ہوتے ہوئے بھی حقیقتوں کے آئینہ دار ہیں۔
ان کرداروں کا جذبہ ہماراہے ان کے خواب ہمارے ہیں۔ احمد پراچہ زخمۂ احساس سے ہمارے دلوں کے تاروں کو چھیڑتے ہیں۔’’خلش‘‘ ایک احساس ہے ایک علامت ہے اور اس کے کردار ندیم، نسرین اورنازلی وغیرہ علامتی کردار ہیں جومعاشرے کے مختلف رویوں ، جبلتوں کی نمائندگی کرتے ہیں وہ سب عاشقی کے سراب کے پیچھے سرگردان ہیں۔ حالانکہ اُن کی بے نام جستجو نے انہیں بے سمتی، اخلاقی پستی اور خود ساختہ پریشانیوں کے گرداب میں پھنسا دیا ہے۔ جغرافیائی اورسیاسی تبدیلیوں نے انسان کو نت نئے مسائل میں اُلجھا کے رکھ دیاہے، جس سے انسانی رویوں میں بھی فرق آیا ہے ان رویوں اور گوناگوں مسائل نے فرد کوجذباتی اوراحساساتی طور پر تنہائی کے گنبد میں بند کرکے رکھ دیاہے۔
فاضل مصنف نے عشقیہ رومانی اور جذباتی رویے کو بڑی عمدگی سے برتا ہے بلکہ منظرنگاری دلنشین بیانیے اورواقعات کی مناسب ترتیب نے قدرے پرانی کہانی کونیا رنگ دیا ہے۔ خلش ایک دلچسپ اورعمدہ ناول ہے جس میں ناول نگار اپنے مخصوص رومانی اور جگمگاتی اندازکے سا تھ نمایاں ہے تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے کہانی میں اپنی روح کاسارا کرب سارا اضطراب اور بے قرار یادوں کادرد بھردیا ہے اور جذبات کے اظہار کے لئے خوبصورت لفظوں اور دلنشین جملوں سے نئی نئی راہیں تراشی ہیں۔
کسی انسان کاسفرصرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ سفرشعور اور لاشعور کا بھی ہوتاہے، جوظاہر اورباطن کے حالات و واقعات کی آمیزش سے وقوع پذیرہوتاہے۔ جس کے اندر حیرت، جستجو، خوف وہراس اورخواب وخیال موجود ہوتے ہیں۔ تب ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا زندگی کی ان ناہمواریوں اور پیچیدہ تجربوں کوانسان کے ذریعے سامنے لانا کافی ہے تجربات ومشاہدات کا یہی سلسلہ قوتِ اظہار میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
افسانے کے لئے ایسے عوامل کی ضرورت پڑتی ہے، جوافسانے یافن کاحصہ بن سکتے ہوں،مگرایک افسانہ نگار کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں درد اورکرب کالاتعلق رویہ ہو اور یہ لاتعلق رویہ یکساں طور پر برقرار رہے۔ اس رویے کی وجہ سے لکھنے والے کے اندر ایک ہلچل اور کشمکش پیداہوتی ہے اوراس ہلچل اورکشمکش کی بناء پر کوئی افسانہ نگار اپنے مخصوص اسلوب اور تکنیک میں سامنے آتاہے۔ اس طرح امکان اوربعید از امکان کے درمیان حیرت انگیز کیفیت کا ’’سحر‘‘ قاری کے محسوسات پر اثرانداز ہوتاہے۔ (۵)
بیسویں صدی نے فکشن کونیا شعور دیااور اُردو فکشن نے خیالی دنیا سے حقیقت نگاری تک کا سفر بہت تیزی کے ساتھ طے کرلیا اور بہترین نثری تخلیقات کے لئے زمین ہموار ہوتی گئی۔
احمد پراچہ شروع ہی سے ترقی پسند اہل قلم کی تحریریں پڑھنے لگے تھے۔ اس طرح اس کے ذہن میں ترقی پسندانہ نظریا ت پنپنے لگے یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ترقی پسند خیالات کی جھلک موجود ہے۔سوتی جاگتی کلیاں ‘‘ میں شامل افسانوں میں اپنی دھرتی کی باس اور اس پر بسنے والوں کی سماجی معاشی اور معاشرتی صورت حال کی عکاسی ملتی ہے۔
احمدپراچہ کوادب سے رشتہ قائم کیے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ جب انکے مطالعے و مشاہدے کے ساتھ ساتھ شعور بھی پختہ ہوتا گیا اور اپنے گرد و پیش کے حالات وواقعا ت سے متاثر ہوئے تو ادبی افسانے بھی لکھنے لگے۔ ان کے افسانے اہم رسائل واخبارات میں چھپنے لگے ۔
اچھالکھنے والا جب اپنے اندر سے مواد پیش کرتاہے تواس کی تکنیک الگ ہوجاتی ہے۔ کوئی تفصیل میں جاتاہے کوئی واقعات کومختصر طریقے سے پیش کرتا ہے۔ کوئی کردار کونمایاں کرتاہے اور کوئی پس منظر کوزیادہ اہمیت دیتا ہے کوئی مرکزی کردار پرزیادہ زور دیتا ہے اور کوئی احوال اور تاثر کوپُراثر بناتاہے۔  (۶)
کسی افسانے کو کامیاب اس وقت قرار دیاجاتاہے جب وہ اپنے زمانے کے تقاضوں اور بدلتے حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہے اور اظہار کے لئے نئے نئے انداز اپنائے کیونکہ افسانے میں اسالیب اور فنی جہتوں کے تجربات ہردور میں ہوتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو افسانہ نگاروں نے فنی ترقی کے سفر میں افسانے کی کئی اقسام متعارف کرائیں۔ ان میں مقصدی افسانے، اصلاحی افسانے، حقیقت نگاری ، واقعہ نگاری اور رومانیت پر مبنی، کرداری اورعلامتی افسانے شامل ہیں۔
احمد پراچہ کا خیال ہے کہ فکشن کے نئے تجربے کابھی حسن ہوتاہے کہ وہ شاعری کی طرح فکشن کوبھی سپاٹ نہ کردے ،لیکن ایسی تجرید جواحساس ومعنی کو ہی دائرہ ابلاغ سے خارج کردے ادب کے کسی زمرے میں شامل نہیں ہوتی انھوں نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’سوتی جاگتی کلیاں ‘‘ میں شامل افسانوں میں انسانی زندگی کو مختلف مثبت و منفی رویوں، تاریک پہلوؤں ،رشک،رقابت، غمی، خوشی، عشق، محبت، ناکامی، کامیابی اور دوسرے جذبات سے متاثر ہوتے دکھایاہے۔ان افسانوں میں کہیں چھوٹے چھوٹے جملوں میں کہیں طویل بیانیہ انداز میں کرداروں کے ذریعے انسانی جذبات کوبیان کیاگیاہے۔ چندمنتخب اقتباسات دیکھیں۔
’’اس نے نہایت لطیف انداز میں کہا۔ مجھے توخاص طور پر گلاب اور چنبیلی کی خوشبو بہت پسند ہے۔ ان پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مجھ پر ایک عجیب ساکیف طاری کردیتی ہے‘‘۔  (۷)
’’وہ اپنا چہرہ ہتھیلیوں میں چھپائے ہوئے سسکیاں لیتے ہوئے رونے لگی تھی بیساکھیاں فرش پر پڑی تھیں وہ گرتے گرتے بچی۔۔۔میرے سہارے میرے سینے پر سر رکھ کر کھڑی تھی‘‘(۸)
’’اگر میں نے زندگی سے سمجھوتہ کر لیا تو یقین کیجئے کہ میں زندہ درگور ہو کر قسطوں میں مرتا رہوں گا‘‘۔ (۹)
’’چوہدری میں زہر پھانک لوں گا لیکن گلنار کا سودا نہیں کروں گا، میں ان لوگوں پر لعنت بھیجتا ہوں ، جوشادی کے نام پر بہنوں اور بیٹیوں کاسودا کرتے ہیں‘‘ (۱۰)
’’ماں!منوں مٹی تلے ابدی نیند جاسوئی۔ ابوگاؤں کی جھیل میں ڈوب مرے۔۔۔بھاوجوں نے جلی کٹی باتوں کی سلاخوں سے اس کاسینہ چھلنی کر دیا۔۔۔۔بالآختر ردعمل کے طور پر اسے اپنے گھر کی دہلیزپھلانگنا پڑی‘‘(۱۱)
’’گویا اس کی سوچ کاا نداز یہ تھاکہ کونسی ماں ہے جو اپنے بچوں ، بھائیوں کواُگلتی ہوئی آگ میں وطن کی حفاظت کے لئے دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے دیکھ کر تڑپ نہیں اُٹھتی۔۔۔‘‘(۱۲)
ہر افسانہ نگار کااسلوب اور انداز بیان دوسرے افسانہ نگاروں سے مختلف اور جداہوتا ہے۔ احمد پراچہ کااسلوب اور انداز بھی مختلف ہے۔ ان کے انداز بیان میں جذباتیت غالب ہے۔ الفاظ و تراکیب کی نشست جملوں میں جذبات کی فراوانی اور بندش کی چستی نے زبان کو خوبصورتی اور اثرعطاکیاہے ایک تمثیل نگار کی طرح احمد پراچہ کے افسانوں کابیانیہ انداز قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ اپنے لب ولہجہ اور لفظوں کی ادائیگی سے کردار اپنی ذہنی کیفیت اور مدعا خود بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے افسانوں کابیشتر حصہ مکالموں پر مشتمل ہوتاہے لیکن اس میں احمد پراچہ کی ہنرمندی کا سلیقہ اور قرینہ شامل ہوتاہے۔
احمد پراچہ کے افسانوں کافنی تجزیہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ ان کے افسانوں کو سخت گیر فنی اصولوں کی روشنی یا معیار پر پرکھنا مشکل ہے۔ ان کے افسانوں میں فن افسانہ کے اجزائے ترکیبی مثلاً واقعہ، پلاٹ، کردار اور دیگر لوازمات تو موجود ہیں۔ لیکن اجزائے ترکیبی برتنے کے جو اُصول ہو سکتے ہیں ان پر یہ افسانے کلی طور پر نہیں اترتے لیکن اس کمی کی وجہ سے احمدپراچہ کے افسانوں کی ادبی حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
احمد پراچہ نے موضوع کی تلاش اور مواد کی فراہمی میں انہماک اور کاوش سے کام لیاہے اورفنی خلوص کے ساتھ صرف اسی زندگی کواپنے افسانوں کا پس منظر بنایا ہے جس کامشاہدہ اور مطالعہ اس نے کیاہے۔ لیکن ان میں بات کو نئے اسلوب اور دلکش انداز میں کہنے کی لگن کی بھی ْکمی نہیں اور وہ اپنی تخلیقات کے مجموعی تاثر کو اہم جانتے ہیں اور معیاری علامتیں انہیں اچھا افسانہ نویس ثابت کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
تحقیق اور تنقید کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جُڑے ہوئے ہیں کہ تحقیق کے بغیر تنقید کا اور تنقید کے بغیر تحقیق کا تصور نہیں کیا جاسکتا ، اور جوتنقید تحقیق کی بنیاد پر کی جائے تواس کامقام ومرتبہ بلند ہوتاہے۔لیکن اُردو کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُردونے تحقیقی اُصولوں پر ترقی نہیں کی اور نہ ہی کسی علمی رویے کو تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا گیا۔ ہماری تحقیق انفرادی کاوشوں اور باریک بینیوں پر مبنی ہے۔ امرواقعہ یہ ہے جوزبان وادب تحقیق کے میدان میں مضبوط اور مسلم ہوگی تواس میں تنقید کی صورت بھی اعلیٰ پائے کی ہوگی۔(۱۳)
تحقیق اورتنقید کو ہم حقائق کے بیان کرنے کانام دیتے ہیں۔ وہ اصل میں کسی فن پارے کی تشریح وتجزیہ ہے۔ تحقیق اور تنقید میں کئی مبحث واسباب کانتیجہ اخذ کیاجاتاہے اوراس میں یکسانیت کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ موضوع کے حق میں یا مخالفت میں صرف دلائل کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچاجاتاہے۔ اس کے بغیر نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا تحقیق وتنقید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لئے تحقیق ضروری ہے لیکن تنقید کی ضرورت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کیونکہ حقائق کی بنیاد تب مضبوط ہوتی ہے۔ جب تنقید میں یقین کاعنصر حقائق کی بنیاد پر مضبوط ہو۔ حقیقت کوفکر کی صورت میں پیش کرنے کے لئے نظریہ کاہونا لازمی ہے، اور یہ دونوں ادبی تنقید کے بنیادی جزو ہیں۔ لہٰذا اعلی ادبی تنقید بہترین تحقیق کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی یوں رقمطراز ہیں:
’’جونقاد تحقیق کو اہمیت نہیں دیتا، وہ ایسی غلطیوں کا شکار ہوجاتا ہے جن سے اس کی تحریر بے وقعت ہو جاتی ہے‘‘۔ (۱۴)
تنقید اصل میں کسی ادب پارے کی خوبیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کانام ہے اورساتھ ہی ادب پارے کے لئے اُصول وضع کرنا اوران اُصولوں کی روشنی میں کسی ادب پارے کامقام ومرتبہ متعین کرنا، اس عمل کی بناء پر صحیح اور غلط میں فرق نمایا ں ہوجاتاہے۔ہرانسان مختلف خیالات رکھتاہے ، ہر انسان کی اپنی سوچ اور اپنی فکر ہوتی ہے اور سوچنے کااپنا انداز ہوتاہے۔احمد پراچہ بھی بہ اقتضائے بشریت اپنے انداز سے سوچتے ہیں۔ کسی بھی ادبی فن پارے کی جانچ پرکھ کی تمیز اور صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ادبی روایت کا شعور بھی رکھتے ہیں۔تحقیق وتالیف اور تاریخ میں نسبتاً زیادہ دلچسپی کامظاہرہ کیا ہے لیکن تنقید میں کم ۔ لہٰذا تنقیدی کام نمایاں طور پر منظرعام پر نہیں آیا۔ تنقیدی نظریات زیادہ ترتحقیق سے جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کی تحقیق میں تنقیدی نظریات کاعنصر پایا جاتاہے۔ 
احمد پراچہ کی تنقیدی تحریروں پر مشتمل کوئی الگ کتاب توچھپی نہیں ہے۔ البتہ اب تک ان کی جو تحقیقی کتابیں چھپی ہیں۔ ان میں سے چند کتب مثلاً کوہاٹ کاذہنی ارتقاء، پروین شاکراحوال وآثار، پاکستانی اُردوادب میں اہل قلم خواتین، سائیں احمد علی کے احوال و آثار۔کی تحریروں کے بین السطور ان کاانداز تحریر اردو تنقیدکے دوسرے نقادوں سے جدا اور مختلف ہے۔ ان کے تنقیدی نقطۂ نظر کااظہار ان کی مذکورہ بالا چار کتب میں ملتاہے۔ لیکن احمد پراچہ اپنی تحریروں میں نقاد سے زیادہ محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے چند ہمعصر اہل قلم میں منفرد محقق ہیں اور سب سے زیادہ کتابیں بھی انہی کی چھپی ہیں۔
چنانچہ احمد پراچہ کی تحریر تنقید اور تحقیق کے معیار پرپورا اُترتی ہے اگرچہ احمد پراچہ کو اس بات کا قطعاً کوئی زعم نہیں کہ وہ اچھے نقاد ہیں یا نہیں ان کا خیال ہے کہ ایک نقاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ نظری تنقید اور علمی تنقید کے حوالے سے مواد رکھتا ہو۔
احمد پراچہ کی تحقیقی وتنقیدی تحریروں کا جائزہ لیاجائے۔ خصوصاً ان کی تحقیقی اور تنقیدی کتب کامطالعہ کیاجائے توان کے ہاں یہ رویے موجود ہیں۔
شعروادب کو جانچنے کے لئے مختلف کسوٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہر فنکار اپنی استعداد کے مطابق ان کو استعمال میں لاتاہے جوتنقید نگار جس علم پر عبور رکھتاہو، وہ اس کی مدد سے ادب کوپرکھتاہے اوراس کامقام ومرتبہ متعین کرتاہے۔ جس کی بناء پر تنقید کے مختلف دبستان وجود میں آتے ہیں۔
احمد پراچہ نے نثری اصناف پر لکھ کراپنے تخلیقی اورمحققانہ جواہر کو نمایاں کیا ہے اور یوں اُنھوں نے ادبی وعلمی حلقوں میں اپنی شخصیت کو ایک ہمہ جہت قلمکار کے طور پرمنوایا ہے۔ اپنی خدا دادصلاحیتوں کی بدولت آج وہ ایک قلمکار کی حیثیت سے پورے ملک میں پہچانے جاتے ہیں۔کوہاٹ کا ذہنی ارتقاء احمد پراچہ کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں میں سب سے اہم کتاب ہے مذکورہ کتاب کی پذیرائی احمد پراچہ کے ادبی مقام کے تعین میں اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اُسے نہ صرف ادبی حلقوں میں پسند کیاگیا، بلکہ مقتدر رسائل اور اخبارات میں اس پر بڑے بھرپور تبصرے بھی چھپے اس پر مستزاد یہ کہ کتاب مذکورہ پر فاضل مصنف کو پاکستان رائٹرز گلڈ کے آدم جی ادبی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔
پروفیسر محمد طہٰ خان’’ کوہاٹ کاذہنی ارتقاء‘‘ پرتنقیدی نظر ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’کوہاٹ کاذہنی ارتقاء درحقیقت خطۂ کوہاٹ کاصرف ذہنی ارتقاء نہیں ہے بلکہ اس کا ارتقائی سلسلہ شاخ درشاخ پھیلا ہوا ہے اور یہ معرکہ آرا کتاب کوہاٹ کے علمی، ادبی ، ثقافتی اور تہذیبی عناصر کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔ بلاشبہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اوراس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس کے مصنف احمد پراچہ نے پوری تحقیقی اور تنقیدی ذمہ داری اور دیانتداری سے کام کیاہے اورجس حدتک انہیں مواد میسر آسکاہے ، اس حدتک اُنھوں نے پوری ادبی شرافت کے ساتھ اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے‘‘۔ (۱۵)
فاضل مؤلف نے کوہاٹ کے شعراء کے سوانحی کوائف زمانی اعتبار سے مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ شعراء کے منتخب اشعار کے نمونے بھی دیئے ہیں۔نثرنویسوں کے نثری فن پاروں پر ہلکے پھلکے تبصرے توشامل کتاب ہیں لیکن اگران فن پاروں سے اقتباسات بھی دیئے ہوتے توبہتر ہوتا لیکن شاید کتاب کی ضخامت میں اضافے کے خوف سے نثری فن پاروں سے اقتباسات نہیں دیئے گئے لیکن اس سے کتاب کی اہمیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
احمد پراچہ نے اپنے موضوع’’ کوہاٹ کاذہنی ارتقاء ‘‘میں ابتداسے لے کر اس کی تکمیل تک جس ذوق وشوق اور تلاش وجستجو سے کام لیا ہے وہ قابل تعریف ہے حالانکہ یہ کتاب ایک محدود علاقے کی ادبی سرگرمیوں کو اُجاگر کرتی ہے لیکن یہ کتاب کوہاٹ سے باہر کے ادبی حلقوں میں بھی پسند کی گئی ہے۔
’’کوہاٹ کاذہنی ارتقاء میں تقریباً ایک سوتیس سے زیادہ اہل قلم کے مختصر خاکے شامل کیے گئے ہیں۔ اور شعراء کانمونہ کلام بھی دیا گیا ہے۔ ان میں بعض اہل قلم بہت معروف ہیں اور بعض کم معروف ہیں۔ اس کی وجہ ان اہل قلم کے کلام یا کام کی ناپختگی یاخامی نہیں بلکہ وہ مسائل ہیں جووہاں کے مقامی اہل قلم کوہمہ وقت درپیش ہیں اوران کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔
احمد پراچہ نے صرف موجود اہل قلم پر ہی قلم نہیں اُٹھایا بلکہ ان اہل قلم پربھی تحقیق کی ہے جنھیں عالم بالا کوسدھارے ہوئے زمانہ گزرگیا ہے، اوردست برد زمانہ نے ان کے نقش پا مٹاڈالے ہیں۔ مگر احمد پراچہ کی ہمت کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔۔۔۔ ان لوگوں پر کام کرنا اور ان کے کوائف اِکٹھے کرنا یقینا جان جوکھوں کاکام ہے، جسے احمد پراچہ نے تن تنہا انجام دیا ہے‘‘۔  (۱۶)
’’ کوہاٹ کاذہنی ارتقاء ‘‘ایک ایسی کتاب ہے جوفاضل مصنف کی مضبوط شناخت ثابت ہوئی ہے۔ یہ کتاب کوہاٹ کی ایک جامع ادبی تاریخ ہے یہ اہم کارنامہ احمد پراچہ نے بڑی عرق ریزی لیکن خوش اسلوبی سے سرانجام دیا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے کچھ اعتراضات بھی اُٹھائے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایوب صابر اپنے اعتراضات کااظہار یوں کرتے ہیں:
’’کوہاٹ کاذہنی ارتقاء میں مصنف سے کچھ فروگزاشتیں ہوئی ہیں۔ وہ اس تذکرے میں ان شاعروں اورادیبوں اور صحافیوں کو بھی گھسیٹ لائے جو بکارِ سرکارملازمت یا کاروبار کے سلسلہ میں وقتاً فوقتاً کوہاٹ آتے رہے ہیں۔ یہاں کی علمی وادبی اور ثقافتی تقریبات میں شامل ہوتے رہے ہیں‘‘۔ (۱۷)
مجمو عی طور پر احمد پراچہ کی یہ کتاب کوہا ٹ کے عہدبہ عہد رونما ہو نے والی تار یخی،علمی،ادبی اور سماجی تغیرات کے گرد گھو متی ہے اور اپنے قار ی کوہر ممکن جزئیات سے آگاہ کر تی ہے لیکن یہ مکمل اورجا مع نہیں ہے اوربعض حوا لو ں سے تشنگی کا احساس ضرور ہوتا ہے مگرپھر بھی اس کتاب کی اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ کوہاٹ کی ادبی تاریخ ہے جس کا اعتر اف احمد پراچہ کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ 
’’ پاکستانی اُردوادب اور اہل قلم خواتین ‘‘ایک تحقیقی اورتنقیدی کتاب ہے۔ اس میں واضح بیانیہ اسلوب بھی ملتا ہے اوررمزیہ اندازلے کر علامات وکنایات کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے اور تخلیقی سرمایہ بھی کچھ ایسا کم نہیں ہے۔
احمد پراچہ کاشمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جن کے ہاں تنقید وتحقیق دونوں کاتوازن اورامتزاج نظرآتاہے۔ جس طرح ان کی تحقیق کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ان کی تنقید بھی کم مرتبہ نہیں۔ وہ ادب کے بارے میں خاص نقطۂ نظررکھتے ہیں اورادب کوخارجی محرکات کاردعمل سمجھتے ہیں۔
پاکستانی اُردو ادب اوراہل قلم خواتین میں صرف خواتین کاتذکرہ کیا گیا ہے اور یہ ایک علاقے تک محدود نہیں ہے۔ ا س میں پورے پاکستان کی اہل قلم خواتین کو شامل کیا گیا ہے ۔احمد پراچہ سخنے چند میں لکھتے ہیں کہ:
’’پاکستان میں ایسی اہل قلم خواتین کی تعداد بے شمار پائی جاتی ہے۔ جنھوں نے شعروادب کی روایت کوآگے بڑھاتے ہوئے اصناف ادب میں بھرپور اضافے کیے ہیں۔
یہاں اگر اہل قلم خواتین کے اس جائزے کی روشنی میں یہ کہا جائے توغلط نہ ہوگا کہ اُردوادب میں ابتداء تاحال جتنے رجحانات رونماہوئے ہیں۔ اہل قلم خواتین نے ان سب کی ترجمانی کی ہے اورفروغ میں نمایا ں حصہ لیا ہے اور جب ہم مجموعی طور پر پاکستانی اُردو ادب اوراہل قلم خواتین کے حوالے سے دیکھتے ہیں توہمیں قطعی مایوسی نہیں ہوتی بلکہ اس بات پر فخر ہوتاہے کہ پاکستانی اُردو ادب میں ہماری اہل قلم خواتین نے معیار اور رفتار کے اعتبارسے آنے والی نسلوں کے لیے ایک وقیع اور بامقصد ادب کی تخلیق میں قومی اورتاریخی فرض احسن طور پر نباہا ہے‘‘۔ (۱۸)
احمد پراچہ نے ادا جعفری کی ہمعصر شاعرات، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، نوشی گیلانی ، فاطمہ حسن ، منصور احمد، شبنم شکیل، یاسمین حمید، شہناز مزمل ،ناصرہ زبیر ی او ر رخسانہ نازی کی شاعری کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ احمد پراچہ نے ان شاعرات کے ساتھ دیگر شاعرات کی شعری خدمات کافرداً فرداً جائزہ لیاہے۔ ان شاعرات کے شعری کارنامے اپنی اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
’’پاکستانی اُردو ادب اوراہل قلم خواتین‘‘ کے شعری حصہ کی طرح اس کے دوسرے حصے نثری ادب پربھی اسی طرح کی محنت کی گئی ہے، جوکہ تحقیقی اور تنقیدی معیار کاعمدہ ثبوت ہے جس کا ہر عنوان مثلاً اُردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ، اُردو ڈرامہ، رپورتاژ ، خواتین کے سفرنامے، تحقیق وتنقید اور اُردو تراجم ، گویا اپنی تفصیل اور جامعیت کے اعتبار سے مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے اور بحیثیت مجموعی احمد پراچہ کی یہ کتاب اپنے موضوع پر اُردو زبان وادب پر مبنی خواتین کے لئے قیمتی تحفہ ہے، جوتحقیق وتنقید کے بہت سے مسائل میں ایک مدت تک آئندہ کام کرنے والوں کی رہنمائی کرتی رہے گی‘‘۔(۱۹)
تقسیم ہند ۱۹۴۷ء کے چند برسوں بعد جو لوگ میدان ادب میں آئے اورقرطاس وقلم سے ناتاجوڑا اوربرسوں کی محنت، ریاضت، ذوق وشوق اورخداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پرادب میں نام کمایا، ان اہل قلم میں احمد پراچہ کانام بھی شامل ہے۔
احمد پراچہ کے قبیلہ کے ایک فرد حاجی ظہور پراچہ لکھتے ہیں کہ:
’’احمد پراچہ کی تمام زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور مطالعے میں گزر رہی ہے ۔ وہ علم وادب کے تخلیقی عمل سے تحقیقی وتنقیدی عمل تک گزشتہ نصف صدی سے پوری کومٹ منٹ کے ساتھ شامل ہیں۔ یہ عرصہ ایک فن کار کی پوری عمر کاعرصہ ہے اور اس خطہ کے عصری، ثقافتی تاریخ کااہم نام ہے۔ جنہوں نے تاریخ اور تحقیق کے علاوہ ادب کے مختلف موضوعات مثلاً تذکرہ، تبصرہ، افسانہ نگار ی ، ناول نویسی اور شخصیت نگاری میں طبع آزمائی کی ہے‘‘(۲۰)
احمد پراچہ کا یہ ایک اعزاز ہے کہ پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کے احوال وآثار پر لکھی گئی یہ پہلی کتاب ہے اوراس حوالے سے بھی یہ پہلی کتاب ہے جس میں پرانے انداز کی تذکرہ نویسی کے بجائے نئے انداز سے تاریخ اور تذکرہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
احمد پراچہ نے پروین شاکر کے فن ، شخصیت، زندگی اورشاعری کے حوالے سے ادیبوں، دانشوروں کے تاثرات اوران کے مقالات کے اقتباسات بھی بطور حوالہ دیئے ہیں۔ لیکن یہ اس طرح کاکام نہیں ہے کہ رسائل واخبارات سے دوسروں کے لکھے ہوئے مضامین اورمقالات اکٹھے کرکے کتاب میں دیئے گئے ہوں
احمدپراچہ نے اس پر تحقیقی وتنقیدی زاویۂ نظر سے کام کیاہے، حرف آغاز میں لکھتے ہیں:
’’زیر نظر کتاب میرا ایک تحقیقی اور تنقیدی مقالہ ہے،جو پروین شاکر کے احوال وآثار اور فکروفن کے مو ضوع پر پھیلا ہوا ہے۔اس موضوع کا انتخاب ذاتی پسند اور ذوق وشوق کے مطا بق میں نے خود کیاہے ۔پورا مقالہ سترہ ابواب میں تقسیم ہے۔سارے ابواب ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں مقالے کے موادکوابواب میں تقسیم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موضو ع کی پوری وضاحت ہو جا ئے۔تحقیقی او رتنقیدی بحثیں معلو ماتی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں اور اس طرح منسلک ہو جائیں کہ قاری کو پورے موضوع کی ارتقائی صورت کا ادراک ہوجائے اور منظروپیش منظر قاری کی نظر میں رہے اس منظروپیش منظرکے تنا ظر میں قاری پروین شاکرکے فکروفن اورشخصیت کو آسانی سے سمجھ سکے‘‘۔(۲۱)
’’اِک نظر ادھر بھی‘‘ مبسوط ومربوط کتاب نہیں ہے۔ یہ پراچہ کے ان ادبی مضامین کامجموعہ ہے جووہ وقتاًفوقتاً لکھتے رہے ہیں اور یہ مختلف رسائل میں چھپتے رہے ہیں ۔
 ’’اک نظر ادھر بھی‘‘ احمد پراچہ کے مضامین کا مجموعہ ہے ان مضامین کو پڑھ کر مصنف کے عمیق مطالعے کی داددینی پڑتی ہے ان مضامین کے اسلوب کے مطابق اگر ان میں سنجیدگی کا عنصر موجود ہے تو ساتھ ساتھ زبان کی تازگی اور ادبی چاشنی کا حسین امتزاج بھی جھلکتا ہے۔ ‘‘ (۲۲)
تخلیقی ادب کی اپنی ایک اہمیت ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں لیکن ادب کی دوسری شاخیں یعنی تحقیقی وتنقیدی کام کو بھی اسی تخلیقی ادب کے پس منظر کی میں دیکھنا چاہیے کہ ان دونوں کا رشتہ اٹوٹ ہے۔
’’اک نظر ادھر بھی‘‘ میں شخصیات کے حوالے سے شامل مضامین سے اسی سوچ اور احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عصری شخصیات پر کتابیں اور مضامین چھاپنے سے زیادہ نابغہ روزگار شخصیات کے احوال وآثار مبسوط ومربوط باقاعدہ تحقیقی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ نئی نسل ایسی شخصیات کے خیال کی رفعت اور قلم کی عظمت سے اسی صورت میں آشنارہ سکتے ہیں‘‘۔ (۲۳)
تاہم احمد پراچہ کے اس کام کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ مختصر یہ کہ احمد پراچہ کی ادبی تحقیقی وتنقیدی کاوشوں میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ موجودہ دور میں جو متعدد رجحانات ومیلانات زندگی کے ہر شعبے میں پیدا ہورہے ہیں۔ اس سے ادب کی ترقی میں اضافے کے واضح امکانات نظرآتے ہیں۔ اس طرح اس دور کے نثری ادب کاسرمایہ تحقیق وتنقید کے نقطۂ نظر سے نہایت اہم ہے۔
احمد پراچہ کے اسلوبِ بیان کودیکھتے ہیں۔ تواحمد پراچہ کی نثر کی اساس تین ہیں۔سادگی ،بے تکلفی اوربے ساختگی۔ ان اوصاف کے مجموعہ کوفطری طرز بیان سے موسوم کیاجاتاہے یعنی ایساطرز بیان جو مصنف اور قاری دونوں کی طبیعت کے لئے مانوس ہو اوراس میں آورد اور بناوٹ کو دخل نہ ہو۔الفاظ کا عوامی لہجہ احمدپراچہ کے اسلوب بیان کا ایک خاصہ ہے۔ ان کی تحریر مؤ ثر بھی ہے اور دلچسپ بھی۔
’’احمدپراچہ کولکھنے پر عبور حاصل ہے۔ وہ ہر مضمون بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ چنانچہ اُنھوں نے تاریخ، ناول، افسانہ تبصرہ اور شخصیت نگاری پر قلم اُٹھایا ہے۔ ان سب موضوعات کے میدان میں اُن کا رہوارِ قلم یکساں پھرتی اور ہمدردی کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتاہے۔ یہ سب ان کی قدرت بیان کا کرشمہ ہے‘‘۔ (۲۴)
احمدپراچہ اپنی تحریروں میں ایک توفارسی اور ہندی الفاظ وصوت کے خوبصورت ملاپ سے حسن پیدا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مضامین اور بیان کی خوبی سے اپنی تحریر کو دلچسپ بنادیتے ہیں۔ انہیں الفاظ کی نشست وبرخاست سے بھی جاذبیت پیداکرنے کاڈھنگ آتاہے۔ ان کی تحریروں میں تنوع ہے۔
احمد پراچہ مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا ہے۔جس میں ناول افسانے اور تحقیقی وتنقیدی کتا بیں شامل ہیں ان کی نگارشات عام فہم اور عام قاری کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہیں اور مو ضوعاتی اور فنی اعتبار سے ادب کے سر مائے میں قابلِ قدر اضافے کا باعث ہیں۔ان کی تخلیقی، تحقیقی وتنقیدی کاوشو ں کی روشنی میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ قلم کا ر کا مطالعہ وسیع ہے۔انھو ں نے اپنی محنت ،ریاضت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پرمیدانِ ادب میں اپنی پہچان بنائی،یہی وجہ ہے کہ ادب شناس اور سنجیدہ حلقوں میں ان کی تحریریں پسند کی جاتی ہیں اور شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

محمد صاحب خان

 

حوالہ جات
۱۔         فارغ بخاری،ادبیات سرحد(نیامکتبہ پشاور ۱۹۵۵ء)ص۱۰۹
۲۔        احمدپراچہ،خلش،دیباچہ ازایوب صابر (پبلک آرٹ پشاور ۱۹۶۰ء)ص۸
۳۔        عفت افضل ، بانوقدسیہ شخصیت اورفن (ادارہ انشاء حیدرآباد ۱۹۹۹ء )ص ۴۳
۴۔       زاہدہ تبول،خلش پر تبصرہ،روزنامہ جدت ادبی ایڈیشن پشاور۔ س ن
۵۔       نورالہدیٰ سید، ’’بارشوں کی آرزو ‘‘ رسالہ ماہ نو لاہور ، جون ۱۹۸۸ء ص۹۴
۶۔        پروفیسر احتشام خسین ،’’اُردو افسانہ ایک گفتگو‘‘مشمولہ اُردو نثر کا فنی ارتقاء،ص ۲۸
۷۔         افسانہ خوشبو،مشمولہ سوتی جاگتی کلیاں، ص ۱۳
۸ ۔       خوشبو کی موت،ص ۱۷
۹  ۔        نیاآدمی،       ص ۲۶
۱۰  ۔       کیچڑ کاپھول،ص ۲۹
۱۱  ۔       پچھتاوا،       ص ۶۱
۱۲  ۔       آواز،      ص ۸۸-۸۶
۱۳۔      نور ینہ تحریم بابر’’اردو تحقیق روایت اور امکانات‘‘مشمولا :رسالہ قومی زبان کراچی۔مارچ ۲۰۰۳،ص ۳۶
۱۴ ۔      ڈاکٹر جمیل جالبی، ’’تنقیدی اور تحقیقی موضوعات پر لکھنے کے اُصول‘‘ مطبوعہ پاکستانی ادب پانچویں جلد  ص ۲۳۷
۱۵ ۔      پروفیسر محمد طہٰ خان،(تبصرہ  )مشمولہ مجلہ فنون لاہور نومبر دسمبر ۱۹۸۷ء ص ۶۴۱
۱۶ ۔       عذراصغر، ’’کوہاٹ کا ذہنی ارتقاء ‘‘ماہنامہ نیرنگ خیال راولپنڈی،ستمبر ۱۹۸۶ء ص ۱۴
۱۷۔      ایوب صابر ، ’’کوہاٹ کا ایک جامع ادبی تذکرہ ‘‘مشمولہ احمدپراچہ فن و شخصیت، (ضیاء پرنٹرز پشاور ۱۹۹۵) ص ۱۹-۲۰
۱۸ ۔      احمدپراچہ (سخنے چند)پاکستانی اردو ادب اور اہل قلم خواتین ، (نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد ۲۰۰۲ء
۱۹۔       ابراہیم ضیاء’’پاکستانی اردو ادب‘‘مطبو عہ تاثیرکوہاٹ ستمبر۲۰۰۷ء
۲۰  ۔      حاجی ظہور پراچہ، (اپنی بات)مشمولہ احمدپراچہ شخصیت وفن (ضیاء پرنٹرز پشاور ۲۰۰۵ء )ص۵
 ۲۱۔       احمد پراچہ ،حرفِ آغاز ، پروین شاکر۔ احوال وآثار(علم وعرفان پبلشرز لاہور۲۰۰۳ء )ص۶
۲۲  ۔  مشرق سروس،کتابوں پر تبصرہ،روزنامہ مشرق پشاور،۶ جون ۲۰۰۶ء
 ۲۳  ۔      علینہ بٹ،(تبصرہ ) ’’اک نظر ادھر بھی‘‘لوح ادب حیدرآباد ، اکتوبر ۲۰۰۴ ء ص ۱۳
۲۴۔      شبیر عاجز ، ’’چھوٹے شہر کا بڑا ادیب‘‘مشمولہ رسالہ شگفتہ لاہور ستمبر،۱۹۷۸ ص ۱۱

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com