اردوشاعری میں تلمیحات احادیث(آب زمزم اورآب کوثر)اساتذہ دہلی کے تناظرمیں

ڈاکٹرفوزیہ بتول           ڈاکٹرمحمدریاض خان الازہری

ABSTRACT
Talmih, an allusion, is a brief  reference to a person.place,thing or idea of historical, cultural, literary or political  significance .Urdu elassical poets have used verey many allusions from the associating languages of Urdu like Arabic persian etc. in order to give a deeper meaning to their poetical thoughts.Terefore,there is,an abundant use of allusions from Qur,an, Hadith, and Arabic, persian and Hindu mythology, events,places and persons in Urdu poetry, The poets have beautifully designed the words of the Holy prophet (s.a.w.s) in such a way that they go hand-in-hand each making the other strong. Aab e Zam Zam ,a miraculously generated source of water from Allah,has been reported to be a Shiffa by the Messenger of Allah (s.a.w.s). Aab e Kausar is an abundant good which has been generated by Allah to his Messenger.Both of the sacred words have widely been used as allusion in Urdu poetry. This article studies the use of Talmeehats based upon Aab e Zam Zam and Aab e Kausar from the Hadiths of Hazart Muhammad (s.a.w.s) in the poetry of Urdu classical poets .
اردوادب میں علم بدیع کی روایت قدیم ہے اگرچہ سہولت کے لئے بیان،بدیع اورمعانی کوعلیحدہ علیحدہ موضوع بحث بنایاجاتاہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فصاحت وبلاغت ،بیان وبدیع اورمعانی آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے سے کلیتاً الگ کرنا ناممکن ہے بلکہ کسی ایسے شعرکی تلاش مشکل ہے جوصرف فصیح ہواوراس میں بیان وبدیع کی خوبیاں نہ ہوں یاکوئی ایساشعرجوبیان وبدیع پرمبنی ہو لیکن فصاحت سے خالی ہو۔
سب سے پہلے عبداللہ بن معتزعباسی(م۲۹۶ھ۔۹۰۸ء)نے کلام میں صنائع کاپتہ چلایاان کے فوائداورنام مقررکیے اور علم کانام علم بدیع رکھا۔انہوں نے ۲۷۴ھ میں علم بدیع پرعربی زبان میں ایک مستقل کتاب البدیع لکھی۔اس میں انواع بدیع کے جمع کرنے میں کافی عرق ریزی سے کام لیاگیا۔تلمیح بروزن تفعیل لمح سے نکلاہے جس کے معنی آنکھ چراکردیکھنے یااچنتی نگاہ ڈالنے کے ہیں۔کسی مشہورقصے،مسٗلے،قرآنی آیت ، حدیث ،مثل یاعلمی اصطلاح کی طرف اشارہ کرناتلمیح کہلاتاہے۔مولاناشمس قیس تلمیح کی تعریف یوں کرتے ہیں:
ـتلمیح آنست کہ الفاظ اندک برمعانی بسیاردلالت کندولمع جستن برقباشدولمحہ بودوچوں شاعرکناں سازدکہ الفاظ اندکبرمعانی بسیار دلالت کندہ آں راتلمیح خواند۔وایں صنعت بہ نزدیک بلغاپسندیدہ ترازاطناب است ومعانی بلاغت آنست کہ آنچہ درضمیرباشد،بہ لفظی سندکہ بے آنکہ بہ تمام معنی آں اخلالے راہ یابدبیانکندودرآنچہ بہ بسط سخن احاج افتدازادرحاجت درنگزارند۔واہل نقدگفتہ اندبلاغت لفظ نیکوست باصحت معانی۔وفصاحت پاکیزگی سخن استازدشواری بلاغت درسہ نوع سخن پیداشدایجازومساوات وبسط  (۱)
شاعراپنی طویل بات یاواقعہ کوایک دولفظوں میں بتاتاہے بشرطیکہ وہ واقعہ کافی مشہورہوچکاہو،خواہ خلاف عقل ہو،توہماتی ہو، طلسماتی ہویافرضی ہو۔ایسابھی ہوتاہے کہ بعض تاریخی واقعات میں زیب داستان کے لئے بہت سے اضافے کرلئے جاتے ہیں ۔ایسی صورت میں واقعات کاتجزیہ کرنا ہے۔ لیکن ان واقعات کے لئے ضروری ہے کہ یہ عام فہم اوردائمی شہرت کے حامل ہوں۔اسی طرح وہ تمام لغت،محاورے ، ضرب الامثال اورکہاوتیں تلمیح میں آتی ہیں جن سے کوئی قصہ یاکہانی وابستہ ہے اورلوگ ان قصوں سے واقف ہیں۔
نجم الغنی تلمیح کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
تلمیح بتقدیم لام ہے میم پر،کسی چیزکی طرف نظرکرنے کوکہتے ہیں۔پس یہ معانی خاص ہیں کہ شے ملیح کالاناعام ہے،کسی شعریاقصے  یامثل کی طرف نظرکرنے سے۔۔۔یہ صنف اس طرح ہوتی ہے کہ شاعراپنے کلام میں کسی مشہورواقعے یاقصے مثل یااصطلاح نجوم وغیرہ کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرئے،جس کے بغیرمعلوم ہوئے اوربے سمجھے کلام کامطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے۔ غزل کی ایک اہم خصوصیت مختصرہوناہے اورتلمیح کے استعمال سے غزل میں ایجازکارنگ آتاہے۔تلمیح سارے شعرکی جان ہے۔ اس سے بات مختصراورموثرہوجاتی ہے۔ بعض نقادوں نے تلمیح کامفہوم کھانے میں نمک ڈالنایاسرسری نگاہ ڈالنایاچمکنابیان کیاہے۔ تلمیح کی مختلف تعریفیں ہیں۔سب میں مشترک یہ ہے کہ یہ ایک منفردلفظ ہوتاہے۔تلمیحی شعرپرایک نظرڈالنے سے اس لفظ کی چمک آنکھوں کوخیرہ کردیتی ہے۔ان تلمیحات کی متعدداقسام ہیں احادیث پرمبنی تلمیحات کی اہمیت مسلم ہے،جوایسے واقعات،شخصیات مقامات اوراقوال پرمشتمل ہوں جوحدیث کی تعریف میں آتے ہوں۔
آب زمزم
۱۔        کھاری پانی،ملماپانی(ازدالقاموس)
۲۔        کعبہ کے کنویں کاپانی،اگرچہ یہ پانی ململاہے،مگراس کاپینانجات کاوسیلہ تصورکیاجاتاہے(۲)۔ ازروئے حدیث یہ کل امراض کے واسطے آب شفاہے،مشہورہے کہ آدمی جس چیزکی نیت کرکے اس پانی کوپیتاہے اسی کامزہ اس  کوملتاہے بعضوں نے شہدکامزہ پایاہے بعضوں نے دودھ کاذائقہ لیاہے اس کے علاوہ یہ پانی غذاکاکام بھی دیتاہے(۳)
حدیث مبارک میں ہے:
ترجمہ:    رسول کریم ﷺنے ارشادفرمایازمزم کاپانی ہراس کام کے لئے ہے جس کی نیت کرکے استعمال کیاجائے۔اگرتواس کوشفاکی نیت سے پیے گاتواللہ تعالیٰ تجھے شفادے گا۔اگرتواس کوخوراک کی جگہ استعمال کرے گاتواللہ تعالیٰ تجھے سیرکردے گااوراگرتواللہ تعالی سے پناہ لینے  لئے پیے گاتواللہ تعالیٰ تجھے پناہ دے گااوراگرتواس کوپیاس بجھانے کی نیت سے پیے گاتواللہ تعالیٰ تیری پیاس  بجھادے گا(۴)
زمزم کے لغوی معنی مستندنہیں،چندارباب دانش کے نزدیک اس کامطلب ہے ٹھہراہوااورکچھ ماہرین لسانیات کے نزدیک یہ عربی لفظ زمزمہ سے نکلاہے جس کامطلب ہے چھوٹے چھوٹے کھونٹ میں پانی پینا،یااوک سے پانی پینا۔ زمزم کاپانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت حاجرہ علیہاالسلام کے شیرخواربیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالیٰ نے تقریباًچارہزارسال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب وگیاہ ریگستان میں جاری کیاجوآج تک جاری ہے۔ چاہ زمزم مسجدحرام میں خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریبااکیس میٹرکے فاصلے پرتہہ خانے میں واقع ہے۔ یہ کنواں وقت کے ساتھ سوکھ گیاتھا۔نبی کریم ﷺکے داداعبدالمطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایاجوآج تک جاری وساری ہے۔آب زمزم کاسب سے بڑادہانہ حجراسودکے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفاومروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتاہے۔۱۹۵۳ء تک تمام کنووں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتاتھامگراب مسجدحرام کے اندراورباہرمختلف مقامات پرآب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔آب زمزم کاپانی مسجدنبوی میں بھی عام ملتاہے اورحجاج کرام یہ پانی دنیابھرمیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
عبدالمطلب کے زمانے میں چاہ زمزم کی کھدائی کے بعدسے لے کراب تک اس کنویں کی لمبائی،چوڑائی اورگہرائی میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ یعنی یہ آج تک ۱۸فٹ لمبا،۱۴فٹ چوڑاورتقریباً۵فٹ گہراہے۔مکہ کاشہرجس وادی میں ہے وہ چاروں طرف سے گرینائٹ چٹانوں والے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔حرم مکی یعنی مسجدحرام وادی میں سب سے نچلے مقام پرہے۔خانہ کعبہ اور مسجدالحرام سمیت پوراشہر مکہ،ریت اورگادکی تہہ پرواقع ہے،جس کی گہرائی ۵۰فٹ سے ۱۰۰فٹ تک ہے اورجس کے نیچے آتشی چٹانوں کی ایک تہہ پھیلی ہوئی ہے۔ چاہ زمزم بھی ریت،گادکی اسی تہہ پرواقع ہے اوراس میں پانی کی سطح،اطراف کی زمین سے ۴۰تا۵۰فٹ گہرائی پرہے۔
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
زمزم پانیوں کاسرداراورسب سے زیادہ شرف وقدروالاہے،لوگوں کے نفوس کوسب سے زیادہ اچھااورمرغوب اوربہت ہی قیمتی ہے جوکہ جبریل علیہ السلام کے کھودے ہوئے چشمہ اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے اسماعیل علیہ السلام کی تشنگی دورکرنے والاپانی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامشہورواقعہ موجودہے کہ جب ابوذرغفاری کعبہ کے پردوں کے پیچھے چالیس دن رات تک مقیم رہے اوران کاکھاناصرف زمزم تھاآپ ﷺنے پوچھا:تم کب سے یہاں مقیم ہو؟توابوذررضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ تیس دن رات سے یہیں مقیم ہوں،تونبی کریم ﷺنے فرمایاتیرے کھانے کاانتظام کون کرتاتھا؟وہ کہنے لگے کہ میرے پاس توصرف زمزم ہی تھااس سے میں اتناموٹاہوگیاکہ میرے پیٹ کے تمام کس بل نکل گئے اورمیری ساری بھوک اورکمزوری جاتی رہی ، نبی کریم ﷺفرمانے لگے بلاشبہ زمزم بابرکت اورکھانے والے کے لئے کھانے کی حیثیت رکھتاہے(۵)اورایک روایت میں یہ الفاظ زائدہیں کہ یہ بیمارکی بیماری کی شفاہے(۶)
آب زمزم ایک زندہ جاویدمعجزہ:
حقیقت یہ ہے کہ آب زمزم اللہ تعالیٰ کاایک زندہ جاویدمعجزہ ہے اوراس پر جتنی بھی تحقیق کی جائے کم ہے کیونکہ ہرمرتبہ انسان پرنئے رازآشکارہوتے ہیں اورمزیدروشن پہلوانسان کی عقل کوذخیرہ کرتے ہیں جن میں سے چندایک درج ذیل ہیں:
۱۔        آب زمزم کاکنواں آج تک خشک نہیں ہوااوراس نے ہمیشہ لاکھوں حجاج کرام اورزائرین کی پیاس بھجائی ہے۔
۲۔        اس میں موجودنمکیات کی مقدارہمیشہ یکساں رہتی ہے۔
۳۔       اس کے ذائقے میں آج تک کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی بلکہ روزاول سے آج تک اس کاوہی ذائقہ ہے۔
۴۔       آب زمزم کی شفابخشی کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ اپنے اورغیرسبھی اس کے معترف ہے۔
۵۔       آب زمزم وسیع پیمانے پرمکہ اورگردونواح میں استعمال کیاجاتاہے بلکہ رمضان میں تومسجدنبوی میں بھی آب زمزم مہیاکیاجاتاہے اس کے علاوہ دنیابھرسے آنے والے زائرین حج اورعمرہ کے وقت اپنے ساتھ چھوٹے بڑے لاکھوں کین بھرلے جاتے ہیں۔
۶۔        آب زمزم اپنی اصلی حالت میں فراہم کیاجاتاہے اوراس میں کلورین سمیت کسی بھی قسم کے جراثیم کش کیمیکل کی آمیزش نہیں کی جاتی لیکن اس کے باوجودیہ پینے کے لئے سب سے بہترین مشروب ہے۔
۷۔       دوسرے کنووں میں کائی جم جاتی ہے اوردیگرنباتاتی اورحیاتیاتی افزائش ہوتی ہے انواع واقسام کی جڑی بوٹیاں اورپودے اگ آتے ہیں یاکئی قسم کے حشرات بستے ہیں جس سے پانی کارنگ اورذائقہ متاثرہوتاہے مگرآب زمزم دنیاکاواحدپانی ہے جوکہ کسی بھی قسم کی بناتاتی یاحیاتیاتی افزائش اورآلائش سے پاک صاف ہے۔
۸۔       ہزاروں برس پہلے نوزائیدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑیاں رگڑنے سے جاری ہونے والایہ چشمہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی پیاس بجھانے کے باوجودآج بھی پہلے دن کی طرح پینے والوں کوحیات بخشتاہے یہ اللہ تعالی کی ایک ایسی نعمت ہے جس پرمکہ مکرمہ اوراہل مکہ ہمیشہ بجاطورپرنازاں وساداں رہیں گے۔ زمزم کاپانی متبرک ہے شاعری میں چاہ زمزم دوپہلووں سے آیاہے ایک روحانی پہلواوردوسرادنیاوی پہلو،اگرچہ دونوں پہلووں میں اس کے مقدس ہونے کااقرارہے۔
عشق مجازی میں محبوب کی ٹھوڑی کوچاہ زمزم سے تشبیہ دی گئی ہے۔اردوشاعری میں بھی یہ تلمیح مستعمل رہی ہے:
وہ حرم سمجھا جومے خانے سے محرم ہوگیا
خم ہراک اس کی نظرمیں چاہ زمزم ہوگیا(۷)
صورت کعبہ دکھاتے ہیں جوطاق ابرو
چاہ زمزم وہ زنخداں کاکنواں ہوتاہے(۸)
ترے عاشق کویوں ہے خوش گوارآب دم خنجر
مسلماں کولگے جس طرح شیریں آب زمزم کا(۹)
ذوق ؔ نے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح مسلمانوں کوآب زمزم شیریں لگتاہے بالکل اسی طرح مجھے اپنے معشوق کے خنجرکی آب خوش گوار لگتی ہے۔ایک عاشق کے لئے معشوق کے ہاتھوں جان قربان کرناسب سے بڑی سعادت ہے:
رات پی زم زم پہ ملے اورصبح دم
دھوئے دھبے جامہ احرام کے(۱۰)
غالب نے کہاہے کہ رات کوہم نے شراب نوشی توکی لیکن چاہ زمزم کے متبرک پانی نے شراب کے اثرات بھی مٹادئیے۔ اگرچہ میرا دامن بہت سے گناہوں سے آلودہ ہے مگربظاہرمسلمان ہوں اورکوئی بھی ایسی چیزجومیری ظاہرداری پراثراندازہواس کو جلد دور کرنے کی کوشش کرتاہوں:
زم زم ہی پہ چھوڑو،مجھے کیاطوف حرم سے؟
آلودہ بہ مے،جامہ احرام بہت ہے(۱۱)
غالب کاکہناہے کہ میراجامہ احرام گناہوں سے اس قدرآلودہ ہے کہ میں اس کوزم زم سے پاک کرنے بیٹھوں تواک عمردرکار ہوگی مجھ جیسے گناہ گارکاطواف حرم سے کیاکام؟یہ توان کونصیب ہوجن کاباطن پاک ہے۔
آب کوثر
آب کوثر(ف،ع)اسم مذکر ہے۔
اس نہرکاٹھنڈامیٹھاصاف پانی جوبہشت میں واقع ہے منتخب اللغات میں لکھاہے کہ کوثراس نہرکانام ہے جوبہشت سے آکرحوض کوثر میں گرتی ہے،وہ حوض بہشت کے باہرواقع ہے(۱۲)
بہشت میں جس نہرکانام کوثرہے اس کے پانی کوآب کوثراورشراب طہورکہاجاتاہے اس کاذکرقرآن کریم کی سورت کوثرمیں ہے اللہ نے سورۃ الدہرمیں اس کوشرباًطہوراًکہاہے جس کے معنی پاک شراب کے ہیں۔ دراصل یہ مثال عیش مسرت کے لئے دی گئی ہے اس نہرکاپانی حضرت محمدﷺجنت میں تقسیم فرمائیں گے اس لئے آپ ﷺکوساقی کوثرکہاجاتاہے ۔قرآن مجیدمیں اس شراب کی ایک یہ خوبی بتائی گئی ہے کہ یہ دل کوکھول دے گی۔
وسقاھم ربھم شراباًطھوراً(۱۳)
ترجمہ:    اوران کے رب نے شراب پلائی جودل کودھوگئی۔
انااعطینک الکوثر۔فصل لربک والنحر۔ان شانئک ھوالابتر(۱۴)
ترجمہ:    بیشک ہم نے آپ ﷺکوکوثرعطاکیا۔پس اپنے رب کے لئے نمازپڑھیں اورقربانی دیں بے شک آپ ﷺکادشمن ہی نامراد ہے۔
حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺنے واقعہ معراج کاذکرسناتے ہوئے کوثرکابھی ذکران الفاظ میں کیا:
حدثناادم قال حد ثناشیبان، قال حدثناقتادۃ عن انس ، قال لماعرج بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الی السماء قال اتیت علی نہرحافتاہ قباب اللولوء مجوافاً فقلت ماھذایاجبرئیل قال ھذاالکوثر(۱۵)
ترجمہ:    ہم سے آدم بن ابی اباس نے بیان کیا ہم سے شیبان بن عبدالرحمان نے کہاکہ ہم سے قتادہ نے اورانہوں نے سیدناانس سے سنا
انہوں نے کہاکہ حضرت محمدﷺنے معراج کے قصے میں فرمایاکہ میں ایک نہرپرپہنچااس کے دونوں کناروں پرخولدارموتیوں کے  ڈیرے لگے تھے میں نے جبرائیل سے پوچھایہ نہرکیسی ہے انہوں نے کہایہ کوثرہے جواللہ تعالیٰ نے آپ کودی ہے۔ علامہ قاضی آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کوثرکثرت سے ماخوذہے اس کامعنی ہے کسی چیزکااتناکثیرہوناتاکہ اس کااندازہ نہ لگایاجاسکے(۱۶)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جوچیزتعدادمیں،قدروقیمت میں اوراپنی اہمیت کے لحاظ سے بہت زیادہ ہواسے کوثرکہتے ہیں(۱۷)
سورۃ الکوثرکی تفسیریوں بیان کی گئی ہے:
کوثرکثیرسے مشتق ہے جس میں بہت مبالغہ پایاجاتاہے کوثربروزن فوعل ہے لفظ کثرت توخودہی فراوانی افرونی کے معنی کے لئے  ہے جب بروزن مبالغہ استعمال کیاجائے تواس کے معنی کثرت سے بالائے کثرت اورفروانی اوربیش ازفراوانی برافزونی ٹھہرے ۔ اہل لغت نے اس کامعنی جزکثیرلکھاہے اوربہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثربہشت میں ایک نہرکانام ہے جوآپ ﷺ کو عطاکی گئی۔
چنانچہ سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواونگھ آگئی توتبسم فرمایااورتبسم کی وجہ بتائی کی ابھی ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی پھریہی سورت کوثرپڑھی اورفرمایاجانتے ہوکہ کوثرکیاچیزہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاکہ اللہ اوراس کارسول ﷺبہترجانتے ہیں آپ ﷺنے فرمایاکہ وہ ایک نہرہے جواللہ تعالیٰ نے مجھے بہشت میں دی ہے(۱۸)
اسی طرح تفسیرابن کثیرمیں سورۃ الکوثرکی تفسیرمیں لکھاہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺپرغنودگی سی چھاگئی پھردفعتاًسراٹھاکرمسکرائے اور لوگوں کے سوال پرفرمایاکہ مجھ پرایک سورت اتری ہے ،تلاوت کے بعدآپ ﷺنے فرمایاجانتے ہوکوثرکیاہے؟ لوگوں نے کہاکہ اللہ اور اس کارسول ﷺہی بہترجانتے ہیں،توآپ ﷺ نے فرمایاکہ میرے رب نے مجھے ایک جنتی نہرعطافرمائی ہے،جس پر بہت بھلائی ہے ،میری امت قیامت والے دن آئے گی،اس کے برتن ستاروں کی گنتی کے برابرہوں گے(۱۹)
قیامت کے دن جب ہرشخص پیاس سے بے قرارہوکرالعطش العطش پکاررہاہوگاآپ ﷺاس حوض پربیٹھ کراہل ایمان کوپانی پلائیں گے اورجس خوش قسمت کواس حوض کوثرکاپانی میسرآجائے گااسے قیامت کاسارادن پھرپیاس نہیں لگے گی(۲۰)
نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ شب معراج میں جب میں جنت میں داخل ہواتومیں نے وہاں ایک نہردیکھی اس کے دونوں کناروں پرموتیوں کے خیمے نصب تھے میں نے جب ا س کے پانی میں ہاتھ ماراتواس سے خالص کستوری کی ایک مہک اٹھنے لگی، اس کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام سے پوچھاتوانہوں نے جواب دیا:ھذا الکوثرالذی اعطاہ اللہ(یہ نہرکوثرہے جواللہ نے آ پ کوعطاکی ہے(۲۱)
علمائے تفسیرنے الکوثرکی تفسیرمیں متعدداقوال ذکرکئے ہیں(۲۲)
۱۔        کوثرسے مرادجنت کی وہ نہرہے جس سے جنت کی ساری نہریں نکلتی ہیں جواللہ نے اپنے حبیب محمدرسول اللہ ﷺکوعطافرمادی ہیں ایک حدیث میں کوثرکابیان یوں فرمایاگیاہے:
عن ابی عمرقال قال رسول اللہ الکوثرنہرفی الجنۃ خافتاہ من ذہب مجرا علی الدرروالیاقوت تراللہ اطیب من المسک وماء ہ احلی من العسل وابیض من الثلج
ترجمہ:    یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ کوثرجنت کی ایک نہرہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں موتیوں اوریاقوت کافرش بچھا ہوا ہے اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودارہے اس کاپانی شہدسے زیادہ میٹھااوربرف سے زیادہ شفاف ہے۔
۲۔        حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے الکوثرکی تفسیربیان کی ہے الخیرالکثیریعنی خیرکثیر،حضرت سعیدبن جبیرنے عرض کیاکہ لوگ تو کہتے ہیں کوثرجنت کی ایک نہرکانام ہے توآپ ﷺنے فرمایاوہ بھی اس خیرکثیرمیں سے ایک ہے ھومن الخیرالکثیر۔علامہ اسماعیل حقی الکوثرکے بارے میں متعدداقوال نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:
ولاظھران جمیع نعم اللہ داخلہ فی الکوثرظاہرۃ وباطنۃ فمن الظاہرخیرات الدنیاولآخرۃ ومن الباطنۃ العلوم الدنیۃ الحاصلۃ بالفیض الالھی بغیر الکساب۔
ترجمہ:    یعنی ظاہریہ ہے کہ اللہ کی ساری ظاہروباطنی نعمتیں کوثرمیں داخل ہیں ظاہرنعمتوں سے مرادنیاوآخرت کی بھلائیاں ہیں اورباطنی نعمتوں سے مرادعلوم الدنیہ ہیں جوبغیرکسب کے محض فیضان الٰہی سے حاصل ہوتے ہیں۔
۳۔       علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اسی سے ملتی جلتی تشریح کی ہے جبکہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کوثرسے مرادخیرکثیرہے اوردنیوی واخروی نعمتیں جن میں فضیلتیں اورفضائل سب شامل ہیں اس میں اس امرکی طرف بھی اشارہ ہے کہ احادیث میں کوثرکامعنی نہربیایاگیاہے یہ بطورتمثیل ہے۔
آب کوثر،صفا،شفاف اورمتبرک ہونے سے کنایہ ہے اردوشاعری میں اس کاموازنہ پاک چیزوں سے کیاجاتاہے اس تلمیح سے ایک روحانی کیفیت پیداہوتی ہے عشق حقیقی کے بیان کے لئے بھی اس تلمیح کواستعمال کیاگیاہے۔ ساقی کوثرکے ساتھ شراب اوراس کے تلازمہ بھی آتے ہیں مثلاً جام،خمار،ساغر،ساقی،شیشہ اورمستی وغیرہ،غزل گوشعراء نے خود کوساقی کوثرکاغلام اورمداح قراردیاہے۔سوداؔ،خودکوساقی کوثرکاغلام اورمداح کہتاہے اوراس دنیاکی نیک بختی پرانہی کے واسطے سے سکون واطمینان رکھتے ہیں:
کہتاہے تواے سودا غلام ساقی کوثر
جودولت دین ودنیاکی تجھے حاصل ہے شیشے میں(۲۳)
دین اوردنیامیں صنعت تضادہے شیشے اورساقی میں نسبت ہے:
منہ سے لگاہواہے اگرجام مے توکیا
دل سے ہے یادساقی کوثرلگی ہوئی(۲۴)
ذوقؔکاکہناہے کہ اگرہم جام مے پی بھی رہے ہیں تویہ محض دکھاوے کے لئے ہے ہماری باطنی کیفیت تویہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی یاد نے ہمارے دل میں ڈیراڈال رکھاہے اوریہ کبھی بھی ہمارے دل سے جدانہیں ہوتی۔جام مے ،ساقی ،منہ سے لگنے میں صنعت مراعاۃ النظیر ہے:
فردوس میں ذکراس لب شیریں کاگرآوے
پانی دہن چشمہ کوثرمیں بھرآوے(۲۵)
ذوق نے مبالغے سے لب شریں کی صنعت بیان کی ہے صنعت کنایہ بھی موجودہے کہ معشوق کے خوبصورت لب کاکوئی جواب نہیں۔
غالب ساقی کوثرکے واسطے شراب پینے کوگناہ سے دورجاناسمجھاہے:
کل کے لئے کرآج نہ خست شراب میں
یہ سوئے ظن ہے،ساقی کوثرکے باب میں(۲۶)
کل کے دومعنی ہیں ایک گزراہوادن اوردوسرایوم قیامت۔یہاں یہی مرادہے کہ ساقی آج مجھے اس لئے شراب نہیں دے رہا کہ دنیا میں شراب پینے والے کوآخرت میں نہ ملے گی تویہ خام خیالی ہے کیونکہ یہ خیال ساقی کوثررسول کریم ﷺ کی فیاضی کے باب میں سراسرسوء ظن پرمبنی ہے بھلایہ کیونکرہوسکتاہے کہ بروزقیامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلاموں کواپنے فیض سے محروم رکھیں۔
غالب نے خودکوغلام ساقی کوثرکہاہے:
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیاہے
غلام ساقی کوثرہوں مجھ کوغم کیاہے(۲۷)
غالب نے اپنے ایک خط میں بھی ساقی کوثرکاذکرکیاہے لکھتے ہیں:
میرمہدی صبح کاوقت ہے جاڑاخوب پڑرہاہے انگیٹھی سامنے رکھی ہوئی ہے دوحرف لکھتاہوں۔ہاتھ تاپتاجاتاہوں آگ میں گرمی سہی،مگروہ آتش سیال کہاں کہ جب دوجرئے پی لئے فوراً رگ وپے میں دوڑگئی۔دل تواناہوگیا۔نفس ناطقہ کوتواجذبہم پہنچا۔ساقی
کوثرکابندہ اور تشنہ لب،ہائے غضب !ہائے غضب(۲۸)
غالب کواپنے زمانے کے ان واعظوں اورناصحوں سے اختلاف ہے جوجنت میں داخلہ کالالچ دے کرنیکی کی راہ پرچلنے کامشورہ دیتے ہیں وہ اس بحث میں اپناوقت بربادنہیں کرناچاہتے:
درگرم روی سایہ وسرچشمہ نہ جوئیم
باماسخن ازطوبیٰ وکوثرنتواں گفت(۲۹)
غالب کاخیال ہے کہ ان کاوجودخودبہشت ہے اوراس سے کوثرکی لذتیں حاصل کی جاسکتی ہیں:
خلدرانہادم من ،لطف کوثرازمن جوی
کعبہ راسوادم من شورزمزم ازمن پرس(۳۰)
غالب نے واعظوں اورزاہدوں پرطنزبھی منفرداندازمیں کیاہے اورشراب طہورکوتلمیح کوواعظ پرطنز کے لئے استعمال کیاہے:
واعظ نہ تم پیونہ کسی کوپیلاسکو
کیابات ہے تمہاری شراب طہورکی(۳۱)
دوسرے مصرعے میں طنزپوشیدہ ہے بظاہرتوشراب طہورکی تحسین ہے مگردرپردہ اس کی مذمت کررہے ہیں کہ ایسی شراب کی تم کیا تعریف کررہے ہوکہ تم اس کوپی سکتے ہواورنہ ہی پلاسکتے ہوصرف بہلاسکتے ہو۔غالب کاخیال ہے کہ حضوری مقام حاصل کرنے کے لئے ایک راستہ طے کرناپڑتاہے عارف کے نزدیک اس راستے میں موجودایک چشمہ ہے:
غرور لفط ساقی نشہ بیباکی مستاں
نم دامان عصیاں ہے،طراوت موج کوثرکی(۳۲)
تانام مے وساقی کوثربزبان رفت
صدرہ،لبم،ازمہرببوسیدزبان را(۳۳)
بہت سہی غم گیتی،شراب کم کیاہے؟
غلام ساقی کوثرہوں،مجھ کوغم کیاہے(۳۴)
غالب اپنے ناشاددل کوتسلی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے اگرچہ دنیاکی زندگی میں بہت دکھ اٹھائے ہیں مگرمجھے یہ تسلی ہے کہ میں ساقی کوثرکاغلام ہوں اورمیں کبھی محروم  رحمت نہیں ہوں گا۔لہذامجھے ان غموں کانعم البدل مل جائے گا۔مومن نے عشق حقیقی کے بیان کے لئے حوض کوثرکاذکرکیاہے ان کاکہناہے کہ:
روز محشرآپ کے اس تشنہ دیدارکا
حلق تشنہ ترنہ ہو اورحوض کوثرخشک ہو(۳۵)
تراورخشک میں صنعت تضادہے اورمبالغے کے ساتھ اپنے عشق کی شدت کابیان کیاگیاہے۔
ڈاکٹرفوزیہ بتول،ہزارہ یونیورسٹی
ڈاکٹرمحمدریاض خان الازہری، ہزارہ یونیورسٹی

حوالہ جات
۱۔        عبدالمقیط شاکر،اقبال اورحدیث کراچی،مکتبہ علیمی،ص۲۴۷،سن اشاعت۲۰۱۳ء
۲۔        فرہنگ آصفیہ،ج۱،ص۸۰
۳۔       ایضاً:ج۱،ص۸۱
۴۔       سیدقاسم محموداسلامی انسائیکلوپیڈیا،شاہکاربک فاونڈیشن کراچی،سن اشاعت۱۹۸۴ء
۵۔       صحیح مسلم،امام مسلم،حدیث نمبر۲۴۷۳
۶۔        مسندالبزار،حدیث نمبر۱۱۷۱/معجم طبرانی الصغیر،حدیث نمبر۲۹۵
۷۔       ناسخ،ج۲،ص۲۸
۸۔       آتش،ص۲۳۵
۹۔        ذوق،ج۱،ص۳۷
۱۰۔       غالب،ص۳۳۵
۱۱۔       ایضاً:ص۳۲۷
۱۲۔       فرہنگ آصفیہ،ج۱،ص۱۸۱
۱۳۔      سورۃ الدہر:۷۶
۱۴۔      سورۃ الکوثر:۱۔۳
۱۵۔      صحیح البخاری،ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل البخاری،ج۲،ص۱۱۳۶
۱۶۔       ضیاء القرآن،پیرمحمدکرم شاہ الازہری،ضیاء القرآن پبلی کیشنز،ج۵،ص۳۴۸
۱۷۔      ایضاً
۱۸۔      صحیح مسلم،امام مسلم،کتاب الصلوٰۃ،ج۱،ص۴۰۰
۱۹۔       تفسیرابن کثیر،علامہ ابن کثیر،ص۵۸۷
۲۰۔      ضیاء القرآن،پیرمحمدکرم شاہ الازہری،ج۵،ص۳۴۷
۲۱۔       تیسرالقرآن،عبدالرحمان کیلانی،مکتبہ الاسلان لاہور،ص۶۹۹
۲۲۔      ضیاء القرآن،پیرمحمدکرم شاہ الازہری،ج۵،ص۳۴۸
۲۳۔      سوداؔ،ج۱،ص۳۳۲
۲۴۔      ذوق،ص۲۳۳
۲۵۔      ایضاً:ص۲۲۸
۲۶۔      غالب،ص۲۳۵
۲۷۔      ایضاً:ص۳۳۸
۲۸۔      اردوئے معلی،۱۷۷،خطوط،۲۰۹،مشمولہ دیوان غالب مرتبہ امتیازعلی خان عرشی،مجلس ترقی ادب ،ص۲۴۰
۲۹۔      غالب،ص۱۱۴        ۳۰۔ ایضاً:ص۲۷۹    ۳۱۔ ایضاً:ص۳۲۴           ۳۲۔ ایضاً:ص۸۳
۳۳۔      ایضاً:ص۱۸۳         ۳۴۔ ایضاً:ص۳۳۸   ۳۵۔ مومن ،ص۱۳۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com