اقبال کا نظریۂ ادب و فنونِ لطیفہ (نثریہ و نظمیہ آثار کی روشنی میں)
ابرار خٹک

ABSTRACT
Iqbal's concept of literature and art is based on his dynamic concept of "Khudi".He considered that poet or an artist should be visionary in all forms of thoughts. He makes a nation strong;philosophically, psychologically, emotionally, socially and physicbally.if he gives concept of struggle to solve and face all kinds of problems and challenges (self, social and economical, etc) he is doing great job, otherwise he makes distruction.literature and art is not a source of fun and joy. If any poet or an artist makes it a source of fun and joy,he is a magician .literature and poetry should be a source of struggle and movement for a nation's heart. In this research paper the scholar has explained Iqbal's concept of literature and Art on the basis of his prose and Persian, Urdu poetry .

              علامہ اقبال ادب و فنون لطیفہ میں فن برائے فن کی بجائے فن برائے زندگی کے قائل ہیں،اوریہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس نے اقبال کو عالمی ادب میں عظیم ترین مقام کا حامل بنایا ہے۔ اس سے پہلے کہ درج بالا عنوانات کے حوالے سے علامہ اقبال کا ادب وفنون لطیفہ کے حوالے سے تنقیدی و توضیحی مطالعہ پیش کیا جائے ,ہم ان کے ایک مضمون ’’جناب رسالت مآب ﷺکا ادبی تبصرہ‘‘سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں، جس میں انھوں نے ادب اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے اپنے نظریے کا اظہار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’وہ شاعری دراصل ساحری ہے اور اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کی مشکلات و امتحانات میں دلفریبی کی شان پیدا کرنے کی بجائے وہ فرسودگی وانحطاط کو صحت اور قوّت کی تصویر بناکر دکھادے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اسکا تو فرض ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھادیاگیا ہے اُس میں اوروں کو بھی شریک کرے نہ کہ اُٹھائی گیرہ بن کر جورہی سہی پونجی ان کے پاس ہے اس کو بھی ہتھیالے ۔‘(۱)
اقبال نے ایسے شعرا کی مزمت کی ہے جو قوم میں جزبے کی بجائے نیند پیدا کرتا ہے، دیباچۂ مرقع ِ چغتائی میں لکھتے ہیں:
’’ کسی زوال پذیر آرٹسٹ کی تخلیقی تحریک، اگر اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے نغمے یا تصویر سے لوگوں کے دل لبھاسکے، قوم کیلئے نسبت اٹیلایا چنگیز خان کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہوسکتی ہے۔‘‘(۲)
اقبال نے ادب کے حوالے سے اپنے افکار کا اظہار مثنوی اسرارخودی کے بابِ ہشتم ’’درحقیقت شعرواصلاح ِادبیاتِ اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہاں ادب کے حوالے سے اُن کا نظریہ اپنے بنیادی مفاہیم کے ساتھ آشکارہوجاتاہے۔ اس باب کے پہلے بند میں علامہ اقبال نے شعروشاعری کی حقیقت واضح کی ہے اور ضمناً حقیقی شاعری کی خوبیاں بیان کی ہیں۔دوسرے بند میں اس قوم کی بدبختی کا ماتم کیا ہے جس کے شعرا قوم کو زندگی کے حقائق سے فرار کی تلقین کرتے ہیں اور ضمناً ایسے شعرا کے معائب بھی واضح کیے ہیں۔تیسرے بند میں مسلمانوں سے خطاب کیا ہے کہ جھوٹے شاعروں نے پوری قوم کو دُنیا میں ذلیل و خوار کردیا ہے اس لیے ان کے کلام سے اجتناب کیا جائے۔(۳)  علامہ اقبال پہلے بند میں شاعر کا مقام واضح کرتے ہیں۔
؎          سینۂ شاعر تجلّی زارِ حسن            خینرد از سینائے او انوارِ حسن
ازنگاہش خوب گردد خوب تر       فطرت از افسونِ او محبوب تر
از دمش بلبل نوا آموخت است      غازہ اش رخسارِ گل افروخت است
سوزِ او اندر دل ِ پروانہ ہا              عشق را رنگیں ازو افسانہ ہا
بحرو بر پوشیدہ در آب و گلش         صد جہانِ تازہ مضمر در دلش
فکرِ او باماہ وانجم ہمنشیں             زشت رانا آشنا ‘خوب آفریں(۴)
اقبال نے شاعری کو صداقت و حسن کا پرتو قرار دیا ہے، جس میں شاعر اپنا سوز شامل کرتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے ایسے شعراکی مذمّت کی ہے جو اپنی بیمار زدہ شاعری کے ذریعے پوری قوم کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری قوم کو جگانے کی بجائے افیون کا کام کرتی ہے جس سے پوری قوم غفلت و جہالت کے نشے میں مست ہوجاتی ہے۔
وائے قوم کز اجل گیرد برات       شاعر ش و ا بوسد از ذوق ِحیات
خوش نما ید ز شت را آئینہ اش        درجگرصد نشتراز نوشینہ اش
سست اعصابِ تو از افیونِ او         زندگانی قیمتِ مضمون او
می رباید ذوق عنائی زسرو جرّہ شاہیں از دم ِسروش تدرو(۵)
اقبال ایسی شاعری سے قوم کو بچنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے قوم کا تشخص مٹ جاتاہے، اور برائیاں عام ہوجاتی ہیں۔
شیونش ازجانِ تو سرمایہ برد         لطفِ خواب از دیدئہ ہمسایہ برد
وائے بر عشقے کہ نارِ او فسرد         در حرم زائید و در بتخانہ مرُد (۶)
اس کے بعد اقبال ہمیں بیمار شاعری سے چشم پوشی اور صحرائے عر ب کے گراں قدر ادب کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو جزبہ، حرکت اور زندگی کی حرارت سے لبریز ہے۔ جبکہ ہندوستانی ادب خودی کو تباہ کرنے والا ہے ۔
فکر صالح در ادب می بایدت        رجعتے سوئے عرب می بایدت
دل بہ سلمانے عرب باید سپرد      تادمد صبح ِحجاز از شام کرد
قرن ہا بر لالہ پا کو بیدئہ             عارض از شبنم چوگل شوئیدئہ
خویش را بردیگ ِسوزاں ہم بزن    غوطہ اندر چشمۂ زم زم بزن        
تاشوی در خور دِ پیکار ِ حیات          جسم و جانت سوز دار تارِ حیات(۷)
ان تمام اشعار کا مقصد تعمیری ادب کا ارتقا ہے تاکہ تخریبی ادب کی وجہ سے اُمت مسلمہ مزید زوال سے دو چارہ نہ ہوجائے،تاہم جدید عالمی تناظر میں ایسا ادب آج  تمام انسانیت کی بھی حقیقی ضرورت ہے۔ دراصل اقبال مقصدی و تعمیری ادب سے زندگی میں انقلاب لانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق:
’’ فن یا آرٹ کے متعلق اقبال کی رائے یہ ہے کہ اسے بہر طور، با مقصد ہونا چاہیے یا مقصد سے مراد یہ ہے کہ وہ زندگی کے اعلیٰ نصب العین کے حصول میں معاون و مددگار ہو، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ اس کا سوز وساز قوت کا مظہر، خودی کا محافظ اور زندگی کا نقیب ہو۔ ادب برائے ادب کے نظریہ کے لیے اقبال کے تصور فن میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ فنون ِ لطیفہ کو تفننِ طبع یا محض دل بہلانے کا مشغلہ نہیں، بلکہ زندگی کی تعمیر، تطہیر اور تزئین کا نہایت ہی موثر اور معتبر وسیلہ سمجھتے ہیں، ان کی نظر میں شاعری، انسان کے ہاتھوں کاکھلونا نہیں، بلکہ ایک ایسا آلہ ہے جو کارزارِ حیات میں علم و حکمت سے زیادہ کارگرہے‘‘(۸)
اقبال نے فنون لطیفہ میں شاعری کے علاوہ اس کی دوسری شاخوں کے متعلق بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ علامہ اُس میں بھی شاعری کی طرح مقاصد کامتلاشی ہے۔
’’اقبال نے فنون لطیفہ کے دوسرے شعبوں یعنی موسیقی و مصوّری اور تمثیل و فنِ تعمیر وغیرہ کے متعلق بھی متعدد مقامات میں اظہار خیال کیا ہے اور یہ اظہار خیال فن اور تخلیق کے بارے میں ان ہی تصوّرات کا حامل ہے جن کا ذکر شاعری کے حوالے سے اوپر آچکا ہے، البتہ اس اظہارخیال میں جوبات بہت نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ کہ شاعری کے بعد انھوں نے سب سے زیادہ اثروتاثر فن تعمیر کا قبول کیا ہے۔ اس اثروتاثیر کاا صل محرک، ملتِ اسلامیہ کی محبت اور اس کی اقدار کے تحفّط کا وہی پاکیزہ جذبہ ہے جو اُن کی شاعری اور فلسفہ ٔحیات میں جاری و ساری نظر آتا ہے۔‘‘)۹(
مسجد قوت الاسلام، مسجد قرطبہ اس جذے کی عکاسی کرتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پیرس کی مسجد کے لیے اقبال کے دل میں کوئی جذبہ نہیں ۔مثنوی بندگی نامہ میں اقبال نے غلام مسلمانوں کے فنون لطیفہ سے بحث کی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ مردان آزاد کے فن تعمیر کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔
اقبال غلام اقوام کی موسیقی پر موت کی پرچھائیوں کا ذکر کرتے ہیں جس میں حرکت و سوز مفقود ہے۔ علامہ ایک صحت مند اور توانا تصور اس قوم کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ روحِ خودی سے سیراب ہوکر پوری قوم میں تڑپ و حرکت پیدا ہوجائے۔
مرگ ہا اندر فنونِ بندگی            من چہ گو ئم ازفسونِ بندگی
نغمہ ٔ او خالی از نارِ حیات   ہمچو سیل افتد بدیوار حیات
چوں دلِ او تیرہ سیما ئے غلام        پست چون طبعش نواہائے غلام
ازدلِ افسردۂ او سوز رفت           ذوقِ فردا لذّتِ امروز رفت
من نمی گویم کہ آہنگش خطاست                بیوہ زن را ایں چنیں شیون رواست   (۱۰)
اقبال پھر موسیقی، نغمہ میں عشق وسوز کو لازمی گردانتے ہیں، اس لیے وہ غلام قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ جس نغمے میں سوزوعشق نہیں وہ انقلاب پیدانہیں کرسکتا۔
نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست       سوزِاو از آتش افسردہ ایست
رازِ معنی مرشدِ رومی کشود           فکرمن بر آستائش در سجود
’’معنی آں باشد کہ بستاند ترا         بے نیازاز نقش گرداندترا
معنی اں نبود کہ کوروکرکند         مرد را برنقش عاشق تر کند
مطرب ِما جلوئہ معنی ندید دل بصورت بست واز معنی رسید
نغمہ می باید جنون پروردہ ٔ آتشی در خون دل پر وردہ ٔ
از نم ِاو شعلہ پروردن تو اں          خامشی را جزو او کردن تو ان
می شناسی؟ درسروداست آن مقام   ’کاندرو‘بے حرف‘ می روید کلام
نغمۂ روشن چراغِ فطرت است      معنی ٔاو نقشبندِ صورت است(۱۱)
اقبال غلام قوم کی ایسی مصوی کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں جو دراصل زندگی آموز نہیں بلکہ زندگی گریز ہوتی ہے۔ فنکار موت کو ہر طرف پیش کرتے ہیں، قنوطیت تراشتے ہیں جبکہ لوگوں کے اندر ہمت ،بہادری اورفطرت و خود شناسی کا جوہر پیدا نہیں کرسکتے۔ اقبال غلامی کی زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غلام قومیں توانائی سے محروم ہوجاتی ہیں۔
اقبال اس طرح غلام قوم کے مذہب کا حال بھی بیان کرتے ہیں، اور آخر میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دراصل ان کے اندر خودی نہیں ہے اگر یہ اپنی خودی فنون لطیفہ میں زندہ کرلیں تو اسطرح اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں،مگر اس کے لیے خودشناسی کے عمل سے گزرنا ضروری ہے۔
اقبال نے آخر میں فن تعمیر پر روشنی ڈالی ہے اور اس حوالے سے مسلمانوں کی اس عظمت و بلندی کا ذکر کیا ہے جو انھوں نے فن تعمیر کے حوالے سے ماضی میں حاصل کی تھی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ فن تعمیر اس لیے عظمت و بلندی کا سزاوار ہے کہ اس میں مسلمانوں نے سوزِعشق کا استعمال کیا۔ اس بند میں علامہ مکمل طور پر اپنا تصور فن آشکار کرتے ہیں، جو دراصل پوری بندگی نامہ کا احاطہ کرتا ہے۔
خویش راازخود بروں آوردہ اند       ایں چنین خودرا تماشا کردہ اند
تاج محل کا ذکر یوں کرتے ہیں:
یک نظر آن گوہرنابے نگر          تاج را در زیرِ مہتابے نگر
مرمرش زآب ِرواں گردندہ تر     یک دم آنجا از ابد پائندہ تر
عشق ِمردان پاک ورنگین چون بہشت   می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت
عشق مردان نقدِ خوبان راعیار      حسن راہم پردہ درہم پردہ دار(۱۲)
آخر میں علامہ تمام بحث کا نچوڑ نکالتے ہیں۔ مثنوی بندگی نامہ میں اقبال نے غلام قوم کی شاعری سے لے کر مصوّری، نقاشی اور تعمیر فن تک پر بحث ،جرح و تنقید کی ہے، تاہم یہاں انھوں نے ان تمام فنون میں کامیابی وکامرانی پیدا کرنے کے لیے عشق و محبت کو اہم ترین قراردیا ہے کہ اس کے بغیر نہ غلامی سے چھٹکارا پایا جاسکتاہے اور نہ ہی فن ذوقِ حیات سے لبریز ہوسکتا ہے۔ عشق ومحبت تمام حیات کا حلیہ تبدیل کردیتی ہے۔ غلام قوم کا مذہب ہوکہ فنون لطیفہ؛ غرض سب کچھ عشق کی بدولت بدل جاتاہے اور دراصل ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فنون لطیفہ میں بھی اقبال عشق کو بنیاد قرار دیتے ہیں کہ اس کے بغیر زندگی حرارت، حرکت اور سوز سے لبریز نہیں ہوسکتی۔
از محبت جزبہ ہاگردد بلند ارج می گیرد ازو ناارجمند
بے محبت زندگی ماتم ہمہ                      کاروبارش زشت و نامحکم ہمہ
عشق صیقل می زند فرہنگ را                   جوہر آئینہ بخشد سنگ را
اہل دل راسینہ ٔ سینا دہد                        باہنرمنداں  یدِ بیضادہد
پیشِ او ہرممکن وموجود مات                   جملہ عالم تلخ و اوشاخ ِنبات
گرمیِ افکارِ مااز نارِاوست           آفریدن‘ جان دمیدن کارِ اوست
عشق مورو مرغ و آدم را بس است             عشق تنہا ہر دو عالم رابس است
دلبر ی بے قاہری جادوگری است             دلبری باقاہری پیغمبری است
ہر دو  را درکار ہا آمیخت عشق!                  عالمی در عالمی انگیخت عشق!(۱۳)
غرض ہم سمجھ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال فنون لطیفہ کو عشق سے مالامال کرنے کے قائل ہیں۔ بغیر عشق کے کسی بھی فن میں عظمت و بلندی و آزادی پیدا نہیں ہوسکتی۔
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چنگ ہو یاحرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود(۱۴)
ڈاکٹر یوسف حسین خان کا ایک اقتباس نقل کرکے اس باب کوختم کرتے ہیں، جس کو دراصل اقبال کے فنون لطیفہ کے متعلق افکارو نظریے کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے:
 ’’سوال یہ ہے کہ اقبال کے آرٹ کا کیا تصور ہے جیسے اُس نے صوت و لحن کی ہمہ آہنگی سے ظاہر کیا۔ اُس نے اپنے اس تصور کے متعلق مختلف جگہ اشارے کیے ہیں۔ وہ آرٹ کو زندگی کا خادم خیال کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک حقیقی شاعر وہ ہے جو اپنی شخصیت (یہی نظریہ دوسرے فنون کے متعلق بھی ہے) کی قوت اور عشق کی بدولت اپنے دل و دماغ پر ایسی کیفیت طاری کرے جس کے اظہار پر وہ مجبور ہوجائے۔ یہی کیفیت آرٹ کی جان ہے۔ اس میں جلالی اور جمالی دونوں عنصر پہلو بہ پہلو ہونے چاہیں۔‘‘(۱۵)
اقبال اس فن کو عظیم الشان سمجھتے ہیں جس میں فنکار کا خون جگر شامل ہو۔خونِ جگر دراصل خلوص شعر ہے[۱۶] اقبال کا فن یا فنون لطیفہ کے متعلق نظریہ خون جگر، محبت اور مسلسل جدو جہد پرمبنی ہے اور اقبال کے خیال میں وہی فن ابدی ہے جس میں خون جگر ہو،خون جگر کے بغیر کوئی بھی فن درجہ کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔
قطرئہ خونِ جگر سل کو بناتاہے دل                        خونِ جگر سے صدا سوز و سرو ر وسرود(۱۷)
رنگ ہو یا خِشت و سنگ ، چنگ ہو یاحرف و صوت           معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
درج بالاشعر میں اقبال نے مصوری، سنگ تراشی، تماثیل سازی ،موسیقی اور شاعری کو انتہائی مختصر مگر جامع اندازمیں جمع کیا ہے۔ اور ان کی بنیادیں خون جگر، محنت، جدوجہد سے وابستہ قراردی ہیں۔
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر(۱۸)
اقبال ہر فن میں کمال کو خون جگر سے وابسطہ کرتے ہیں، جو فن اس عظم نعمت سے عاری ہوگا وہ نہ تو ذات کیلئے فائدہ مند ہوسکتا ہے اور نہ ہی انسانیت اور زندگی کے لیے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مندرجہ بالا اشعار کے متعلق لکھتے ہیں:
’’تیسرے بند کے دو اشعار (نمبر۲،۳) اور نظم کا سب سے آخری شعر، اسی سلسلۂ خیال کی کڑیاں ہیں، جس میں اقبال نے در حقیقت اپنے نظریۂ فن کی اہم ترین خصوصیات بیان کی ہیں اور وہ یہ ہے کہ فنِ مصوی ہویا سنگ تراشی، تعمیر، موسیقی، نغمہ اورشاعری ،محنت ِ پیہم کے بغیر اس میں پختگی پیدا نہیں ہوسکتی ، اور نہ اُسے بقا حاصل ہوسکتی ہے۔ کسی بھی فنی نقش میں رنگِ ثبات و دوام پیدا کرنے کے لیے بقول لیرؔ ’’بڑی خوش سلیقی سے خون جگر کرنا پڑتا ہے۔‘‘(۱۹)
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اقبال فنون لطیفہ میں عظمت و بلندی پیدا کرنے کا درس دیتے ہیں جو صرف اور صرف خونِ جگرہی سے ممکن ہے۔ اگر اُس میں سعیِ پیہم، جدو جہد، محنت اور عشق و جنون کا عنصرشا مل نہ ہو تو فن میں کمال نہیں آسکتا۔ یہی اقبال کا نظریۂ فن ہے جو وہ تمام فنون لطیفہ کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارا ادب، مصوّری، شاعری ،موسیقی و سنگ تراشی وغیرہ اسی وجہ سے اپنا معیار ان معنوں میں کھو چکے ہیں کہ اس کے ذریعے ایسی نسل تیار نہیں ہورہی جو اسلام کا منشا ہے۔ یہ قوم کو زہر اورنشے کا ٹیکہ لگا کر سُلارہی ہے۔ مسلمان اگر عروج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں زوال سے نکالنا ہوگا اورزوال سے نکلنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو قوم کی رگوں کو حیات سے نوازے ۔ اسطرح مصوّری، موسیقی، سنگ تراشی و دیگرفنون کو اعلیٰ مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہوئے مسلم تشخص ابھارا جائے۔ اور اس کے ذریعے مسلمانوں میں وہ خوبیاں دوبارہ بیدار کی جائیں جن کی بنیاد پر انھوں نے پوری دُنیا کو اپنا گرویدہ اور زیر اثر بنایا تھا، اور صرف زمین ہی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں تھی، بلکہ علم ، سیاست، معاشرت، تہذیب و ثقافت ،سائنس و ٹیکنالوجی غرض تمام شعبوں میں مسلمان انسانا نِ عالم واقوامِ عالم کیلئے راہنمائی کا نمونہ تھے۔ ہمیں اس کے لیے اپنے اندر عشق اور خودی کا حقیقی جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام                     جس کو کیا ہوکسی مردِ خدانے تمام
مردِ خدا کا عمل ،عشق سے صاحب فروغ         عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام(۲۰)
اقبال نے ’’ضربِ کلیم‘‘ میں’’ حصۂ ادبیات و فنون لطیفہ‘‘میں ادب وفنونِ لطیفہ کے حوالے سے اپنے افکار کی تشریح و توضیح بیان کردی ہے، جس میں وہ نہ صرف ادب برائے زندگی کی حقیت واضح کرتے ہیں بلکہ تمام ادب بشمول فنون لطیفہ کو خودی کے تابع رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
سرودو شعر و سیاست، کتاب و دین وہنر         گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
ضمیرِ بندۂ خاکی سے ہے نمودان کی              بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات        نہ کرسکیں تو سراپا فسون و افسانہ
ہوئی ہے زیر ِفلک اُمتوں کی رسوائی             خودی سے جب ادب و دین ہوئے ہیں بیگانہ(۲۱)
اقبال دراصل زندگی اور آرٹ کو لازم و ملزوم گرادنتے ہیں،آرٹ زندگی کی تربیت کرتا ہے۔ آرٹ اگر خودی سے ہم آہنگ ہو تو زندگی کی اصل شکل ہے پھر یہی آرٹ قوموں کی تاریخ بدل دیتا ہے اور انہیں اقوامِ عالم میں ممتاز مقام آتا ہے، لیکن اگر آرٹ خودی سے بیگانہ ہو تو اقوام کی تاریخ اُلٹ کر رکھ دیتا ہے اور انہیں ذلّت و پستی سے ہمکنار کرکے نشان عبرت بنادیتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ایک اور مقطعہ میں شعراء و اہل نظر (فنون لطیفہ) پر یہ حقیقت و اشگاف الفاظ میں واضح کردی کہ فن گو گہری نظر در کار ہے جو حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے زندگی کی رگوں میں اُتر جائے نہ کہ سطحی انداز اپنا کر وقتی تفریح کا سامان بن جائے۔             
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن                     جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظرکیا
مقصود ہنر سوزِ حیات ابدی ہے                 یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا
جس سے یہ دل دریا متلاطم نہیں ہوتا           اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
شاعر کی نواہو کہ مُغَنّی کا نفس ہو               جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دُنیا میں اُبھرتی نہیں قومیں            جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ گہر کیا(۲۲)
اقبال ادب و فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے کو خودی کے بغیر سطحی وبے مقصد گردانتے ہیں۔ جو فن خودی کی حفاظت نہ کرسکے وہ اقوام و انسانیت کیلئے زہر قاتل ہے۔ خصوصاً مسلمانانِ عالم کے لیے اُس سے زیادہ خطرناک چیز کوئی نہیں۔  اقبال بر صغیر پاک و ہند کے شعرا، مصوروں اور دوسرے فنون سے وابستہ افراد سے اسی لیے نالاں ہیں کہ یہ لوگ زندگی میں حرکت کی بجائے سکون پیدا کرتے ہیں۔ یہ خودی گریز ادب تخلیق کرکے قوم کو سُلادیتے ہیں، ان کے فن میں زندگی کی حرارت نہیں بلکہ مستی و بیہوشی کا زہر ہے۔
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر وافسانہ نویس
آہ بیچارے کے اعصاب پہ عورت ہے سوار(۲۳)
اسرار خودی سے لیکر ضرب کلیم تک ،علامہ اقبال فنکاروں (خصوصاً شعرا )کو ہند کی زندگی گریز شاعری سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شاعری زندگی کو حرارت، جوش، جذبے اور حرکت سے بیگانہ کرتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں عرب شاعری انسان میں زندگی اور حرکت کی لہردوڑادیتی ہے۔ ہم نے اقبال کے ایک مضمون‘‘حضرت رسالت مآب ﷺ کا ادبی تبصرہ‘‘ میں اقبال کا فلسفۂ شاعری بیان کردیا تھا۔ وہاں اقبال نے خصوصاً ایک عرب شاعر عنترہ کا ذکر کیا ہے، جس کا یہ شعر کہ
ولقد ابیت علی الطّوی واظلع          حتّٰی انال بہٖ کریم الماکل
ترجمہ:’’میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہوسکوں۔‘‘
حضورﷺ اس شعر سے اتنے متاثر ہوئے کہ عنترہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔(۲۳)
اقبال بھی مسلمان شعراء کو عرب شاعری کے ڈگر پر چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔تاکہ یہ شاعری زندگی میں حرکت و حرارت پیدا کرے۔
ہے شعرِ عجم گرچہ طربناک و دلآویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مُرغِ سحر خیز(۲۴)
مشرق کے نیستاں میں ہے محتاجِ نفس نے
شاعر! تیرے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے
تاثیرِ غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے(۲۵)
اقبال دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ خودی کی موت نے مشرق کی آغوش کو رازدانوں سے خالی کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ فنون لطیفہ ان افراد سے خالی ہیں جو قوم کو خودی سے مالامال کردے اور ان کو ذوقِ حیات سے آشنا کردے۔
خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا
ہم ابتدامیں اشارہ کرچکے ہیں کہ علامہ اقبال فن برائے فن کے قائل نہ تھے، اسی طرح وہ علم برائے علم کے بھی قائل نہ تھے۔ وہ فنون لطیفہ کو بھی فن برائے زندگی کا درس دیتے ہیں۔ مصورّی ہو کہ نقاشی، تعمیرات ہوں کہ شعروشاعری ،اس میں خلوص و محبت کی دولت ہونی چاہیے۔ علامہ اقبال اُس فن کو  بھی پسند نہیں کرتے، جس میں ذوق وخون جگر نہ ہو، بلکہ ریاکاری کا مجسمہ ہو۔ حصۂ ادب و فنون لطیفہ میں پیرس کی مسجد اور مسجد قوت الاسلام دونوں کا ذکر آیا ہے۔ پیرس کی مسجد فرانسیسیوں نے مسلمانوں کو اپنا ہمدرد بنانے کیلئے تعمیر کی تھی، علامہ اُس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں وہ مسجد ’’قوت الاسلام‘‘کو پسند کرتے ہیں ۔مسجد قوت الاسلام مسلمانوں کی سطوت و شان شوکت کی یادگار ہے۔ اس لیے اقبال اُسے پسند کرتے ہیں، لیکن مسجد ِپیرس کو وہ دوسری نظر سے دیکھتے ہیں ،کیونکہ اس کی تعمیر میں خودی واخلاص کا عنصر نہیں تھا ،وہ کہتے ہیں:
میری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے                            کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے فرنگی کرشمہ بازوں نے                     تنِ حرم میں چھپا دی ہے،روح ِ بت خانہ
یہ بُت کدہ انہی غارت گروں کی ہے تعمیر                  دمشق ہاتھ سے جن کے ہواہے ویرانہ(۲۶)
جبکہ اس کے مقابلے میں مسجد’’ قوت الاسلام ‘‘اُن کے سامنے عظمت و بلندی کا مینار ہے اور اقبال اس کے سامنے اپنی شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ہے تیری شان کے شایاں اُسی مومن کی نماز                جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بودونبود
اب کہاں مرے نفس میں وہ حرارت و گداز                بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃو درود
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی نہ شکوہ                   کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود(۲۷)
اقبال اہلِ ہنر کو خودی کی تلقین کرتے ہیں تاکہ ان کے فن میں سوز آئے اور یوں اُن کو وہ مقام ملے کہ انس و جن بھی اُن کی رہنما ئی میں آئے، ایسے شخص کا فن یقیناً عظمت و بلندی کا تاج پہن کر پوری رعایا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیگا گویا اُسے پیغمبر کا درجہ مل جائیگا۔
تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکروفکر                      تیری خودی کا حضور عالمِ شعروسرود
روح اگر ہے تری رنج غلامی سے آزاد           تیرے ہُنر کا جہاں دیرو طواف و سجود
اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو                          تیری سپہ انس و جن، تو ہے امیرِجنود(۲۸)
اقبال ہر فنکار کو بار بار خودی کی تعلیم دیتے ہیں کہ اس کے بغیر تیرے فن میں عظمت اور بلندی اور بلند مقاصد آفرینی پیدا نہیں ہوسکتی۔
حریم تیرا، خودی غیر کی ! معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات!
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے!
رہا نہ تو ،تونہ سوز خودی نہ سازحیات(۲۹)
فن مصوّری مسلمانان ہند پر تنقید کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ ہم نے اپنی عظیم روایات وفنون کی اصل روح چھوڑدی ہے، اہل مغرب کے نقال بن گئے ہیں ،ایسا فن ہمیں مادہ پرستی میں دھکیل کر سوز حیات سے محروم کرتا ہے۔
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد                    کھوبیٹھے ہیں مشرق کا سروردِ ازلی بھی
معلوم ہیں اے مرد ہُنر تیرے کمالات                    صنعت تجھے آتی ہے پُرانی بھی ،نئی بھی
فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے                آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی(۳۰)
اقبال موسیقی پر بھی اس حوالے سے تنقید کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایسی موسیقی پیدا کی جائے جو روح کو سوز حیات سے ہمنار کرکے حرکت و جبروت پیدا کردے۔
وہ نغمہ سردیِ خونِ غزل سرا کی دلیل                      کہ جس کو سُن کے تیرا چہرہ تاب ناک نہیں
نوا کو کرتا ہے موجِ نفس سے زہرآلود                       وہ نے نواز کہ جسکا ضمیرپاک نہیں
پھر امیں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں               کسی چمن میں گریبانِ لالہ چاک نہیں(۳۱)
شاعری کی اصل کو واضح کرتے ہوئے علامہ اقبال شعراکو درس دیتے ہیں کہ جو شعر حیات ابدی پیدا کرے اس کا مرتبہ نغمۂ جبریل و بانگ سرافیل جیسا ہے۔
میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن
یہ نکتہ ہے، تاریخ اُمم جس کی ہے تفصیل
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ ٔجبریل ہے یا بانگِ سرافیل(۳۲)
اسی طرح اقبال رقص یورپ کو ناپسند کرتے ہیں، جس سے جسمانی لذّت کا جذبہ ابھرتا ہے، اس کے مقابلے میں دوسرا رقص اسلامی خودی و سوزحیات ہے،جس سے درویشی و شہنشاہی پیدا ہوتی ہے۔
چھوڑ یورپ کے رقص ِبدن کے خم و پیچ
روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم الٰہی
صلہ اُس رقص کا ہے تشنگی ِکام و دہن
صِلہ اس رقص کا درویشی و شہنشاہی(۳۳)
غرض ادب و فنون لطیفہ کے حوالے سے اقبال کا نظریہ یہی ہے کہ تمام فنون لطیفہ اور اس کے فنکاروں کا خودی کی دولت سے مالامال ہونا ضروری ہے کیونکہ اسطرح سوزحیات پیدا ہوتا ہے، جو قوموں کو عمل پر ابھارتا ہے اور یہ کام فنکار کرتے ہیں۔ جو فنکار سوزِحیات اور خودی سے عاری ہونگے وہ قوم کو زہر کا انجکشن لگاکر غفلت و سستی ،کہالت و عیش پرستی کا شکار بنادیتا ہے جبکہ اسکے مقابلے میں خودی سے مالامال فن و فنکار قوموں کو عروج سے ہمکنار کرتا ہے ۔ اسی لیے بہترین شاعرجنت میں اور بدترین شاعر دوزخ میں قوم کا سردار ہوتا ہے ۔ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم کی یہ رائے صائب ہے کہ :
’’اقبال نے فنون لطیفہ کیساتھ انسان کے تمام دیگر مشاغل کو بھی شامل کرکے سب کے متعلق ایک ہی مختصر فتویٰ دیا ہے کہ اگر ان سے انسان کے نفس کی تمام قوتوں میں اضافہ ہوتو یہ سب عین حیات ہیں اور ادب، دین وسیاست اگر انسان کو تخریب و پستی کی طرف لائیں، تو سب ڈھکو سلارہ جاتے ہیں اور اُمتیں اس سے ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔‘‘(۳۴)
الغرض اقبال فنون لطیفہ کو انسانی سماج میں ایک اہم فیکٹر گردانتے ہیں ۔ان کے خیال میں صحت مندانہ بنیادوں پر تخلیق کئے فنون جو حیات آور عناصر کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہوں کسی قوم کی ترقی کے لیے بڑے کا رآمد ثابت ہوتے ہیں ۔بلکہ قوموں کی زندگی کا دارومدار ہی اس بات پر ہوتاہے کہ ان کے فنون کی کیفیت کیاہے ؟ کیا ان کے تخلیق کردہ فن پارے زندگی کے ساتھ آنکھیں چار کرسکتے ہیں یا اس سے آنکھیں چرانے کی کوشش میں لگے ہیں ۔؟یہی وجہ ہے کہ جب کوئی غیر حیات آور نظریہ فن کا خوبصورت لبادہ اوڑھ کر آتاہے تو اس سے اکثر ترقی یافتہ معاشرے بھی تنزل کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اور تنزل کے شکار معاشرے مزید قعرِ ذلت و گمنامی کی طرف دھکیلے جاتے ہیں اس کے برعکس زندگی سے آنکھیں چار کر سکنے والا فن ہی خودی سے ناآشنا قوموں کو خودی کے زیور سے آشنا کرکے قوم کو زندگی کے عملی میدانِ جنگ میں قدم رکھنے کے قابل بناتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال کے خیال میں ایسے ہی شاعروں یا فن کاروں کے دلوں میں قومیں جنم لیتی ہیں ۔لہٰذا اقبال کے نزدیک اگر فنون حیات آور اقدار کے حامل ہیں ۔ان میں زندگی کے مسائل کی تفہیم اور ان کے حل کا مادہ موجود ہے ۔وہ زیورِ خودی سے آراستہ ہیں ۔اور انہیں خونِ جگر سے سینچا گیاہے ، تو ایسے ہی فنون پیغمبری کا جزوگردانے جاسکتے ہیں اور امت مسلمہ کے فنکاروں کو اپنے فنون کی بنیاد انہی خطوط پر استوار کر لینی چاہیے ۔
ابرار خٹک ،اسسٹنٹ پروفیسر ، گورنمنٹ کالج نوشہرہ

حوالہ جات
۱۔        علامہ اقبال، ’’جنابِ رسالت مآبﷺ کا ادبی تبصرہ‘‘مشمولہ مقا لاتِ اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی ،آئینۂ ادب،لاہور،طبع ِ اول ۱۹۶۳ء،ص۱۸۸
۲۔        محمد فرمان،اقبال اور آرٹ،مشمولہ مطالعۂ اقبال (مجموعہ مقالات)مرتبہ ڈاکٹر گوہر نوشاہی ،بزمِ اقبال ،لاہور،طبع ِ دوم۱۹۸۳ء،ص۲۶۷
۳۔       پروفیسر یوسف سلیم چشتی،شرح اسرار خودی، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور ،تاریخ ندار، ص ۳۶۵
۴۔       علامہ اقبال،کلیات ِاقبال فارسی ،شیخ غلام علی اینڈ سنز،لاہور۔۱۹۷۳ء ص ۳۵
۵۔       ایضاً ص ۳۶
۶۔        ایضاًص ۳۸
۷۔       ایضاًص ۳۸،۳۹
۸۔       ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اقبال سب کے لیے، ابو قار پبلی کیشنز ،لاہور، طبع اوّل ۲۰۰۲ء، ص ۲۳۴
۹۔        ایضاً ص ۲۵۵
۱۰۔       کلیات اقبال(فارسی) ص ۵۷۵
۱۱۔       ایضاً  ص۵۷۶،۵۷۷
۱۲۔       ایضاًص۵۸۵،۵۸۶
۱۳۔      ایضاً ص۵۸۶،۵۸۷
۱۴۔      کلیات اقبال (اردو) اقبال اکیڈمی ،لاہور طبع ششم ۲۰۰۴ء، ص ۴۲۱
۱۵۔      یوسف حسین خاں،روحِ اقبال ،القمر پبلی کیشن،لاہور،طبع اول۱۹۹۶ء، ص ۱۸          
۱۶۔       ایضاً ص ۲۹
۱۷۔      کلیات اقبال، (اردو) ص ۴۲۸
۱۸۔      ایضاًص ۴۲۱
۱۹۔       ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ،اقبال کی طویل نظمیں ،سنگ میل پبلشرز، لاہور، طبع اول ۱۹۹۸ء، ص ۱۷۲
۲۰۔      کلیات اقبال (اردو)ص ۴۲۵
۲۱۔       کلیاتِ اقبال (اردو) ص۶۱۲
۲۲۔      کلیات اقبال (اردو )۶۳۵
۲۳۔      کلیات اقبال (اردو )۶۳۹
۲۴۔      مقالات اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی، ص ۱۸۸، ۱۸۹
۲۵۔      کلیات اقبال (اردو )۶۳۸
۲۶۔      کلیات اقبال (اردو )۶۳۹
۲۷۔      کلیات اقبال (اردو )۶۱۳
۲۸۔      کلیات اقبال (اردو)ص ۶۱۵
۲۹۔      کلیاتِ اقبال (اردو)ص ۶۱۷
۳۰۔      کلیات اقبال (اردو) ص۶۲۴
۳۱۔      کلیات اقبال (اردو) ص ۶۱۸
۳۲۔      کلیات اقبال (اردو) ص ۶۳۶
۳۳۔      کلیات اقبال( اردو )ص ۶۴۳
۳۴۔      کلیاتِ اقبال (اردو) ص ۶۴۴

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com