علامہ اقبال ،فروغ دیدہ امکان، کا شاعر
ڈاکٹر علی کمیل قزلباش

ABSTRACT
 We find two kinds of poets in whichever language we examine: those prone to melancholy, despair, and passivity; as well as those who advocate struggle, forbearance and portend a better future. Iqbal is one of the latter; infact it may be correct to suggest that he is among their best representatives. His poetry underscores human dignity, resolve, equanimity, self consciousness, as well as other themes that negate despondency, and summon one to towards the attainment of the best. Iqbal addresses Man by his true station in his poetry. According to Iqbal, only those who realize this station can rightfully be called Muslims, and further, whose mandatory condition is 'Ishq' or divine love. He is wary of the proverbial 'elder', the preacher', the cleric, the ruler and king. He perceives a brighter tomorrow, and conceives of the Mahdi or Messianic Guide in the same fashion as elaborated by Islam with great clarity. Iqbal moves past other predicted personalities and describes the Guide with all his attributes .

           ہم جہاں ادب کو نظریات، افکار اور مکاتیب میں تقسیم کیا جاتا ہے وہاں شعراء کو بھی نظریاتی اور فکری بلکہ فنی حوالوں سے مختلف طبقوں میں بانٹا جاتاہے۔ لیکن ایک اور اہم حوالے سے جہاں شاعروں کو تقسیم کیا جا سکتا ہے وہ وہی تقسیم ہے جس کی جانب قرآن حکیم کے سورۃ الشعراء میں اشارہ ہوا ہے۔ جس میں ایک گروہ کو بے عمل لوگوں کے طور پر متعارف کیا گیا ہے جو گھاٹیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں جبکہ دوسری جانب ان شعراء کا حوالہ ملتا ہے جو ایمان لائے اور حق بات کہنا جانتے ہیں۔
ہم جس بھی زبان کی شاعری کو دیکھیں وہاں دو طرح کے شاعر ملیں گے ایک وہ جو قنوطیت، مایوسی اور بے عملی کے مبلغ ہیں اور دوسرے وہ جو جدوجہد، عمل، حوصلہ، عزم اورروشن مستقبل کی نوید سنانے والے ہیں۔
اقبال کا تعلق بھی اس دوسرے طبقے کے شعراء سے ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ اس طبقہ کے نمائندہ شعراء میں سے ہیں۔۔انکی شاعری میں انسانی عظمت، عزم، حوصلہ بلندی، وقار، خودی اور کئی دیگر ایسے پہلو نظر آتے ہیں جو انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتے بلکہ حوصلہ دیتے ہوئے خوب سے خوبتر کی تلاش کی جانب مائل کرتے ہیں۔ جسطرح کہ ’’تیساوجے رتن‘‘ اپنی تحریر اقبالؒ اسلامی احیاء کا داعی میں رقم طراز ہیں :
’’اقبالؒ اور انیسویں صدی کے شعراء کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں ہے جنہیں ہمیشہ موت کا خیال پریشان رکھتا ہے‘‘۔  (۱)
’’اقبال کی نظر جہاں ہے وہ کوئی اور جہان ہے۔ انہیں یہ یقین ہے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔وہ انسان کو اسکی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
اگر عنان تو جبریل و حور می گیرند
کرشمہ بر دلشان ریز و دلبرانہ گزر(۲)
            یا پھر یوں گویا ہیں کہ:
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات، ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں(۳)
اقبالؒ نے اپنی شاعری میں انسان کو اسکے اصلی مقام اور مرتبے کے مطابق مخاطب کیا ہے بلکہ انکے کہنے کے مطابق وہ انسان جو اپنی منزلت اور مقام سے آگاہ ہو وہی در اصل مسلمان کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ: ’’پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی‘‘  مسلمانی کیلئے انکے نزد بنیادی شرط عشق ہے وہ مردِ مسلمان کیلئے عشق کو کس حد تک لازمی سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر زندیق(۴)
پس یہ بات ثابت ہے کہ اقبالؒ کا مرد مسلمان وہ مسلمان نہیں جس کا ہمارا معاشرہ خاکہ پیش کرتا ہے۔ اقبالؒ کے نزد اسکا کوئی اور معیار ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانی کی خود حضرت آدم علیہ السلام سے آغاز ہوتی ہے اور اس مرد کامل تک جا پہنچتی ہے۔ جس سے اقبالؒ نے روشن مستقبل کی امید وابستہ کر رکھی ہے۔ اور رومیؒ کے اس نظریے سے متفق نظرآتے ہیں کہ:
ہر کہ عاشق شد جمال ذات را
اوست سید جملہ موجودات را
بلکہ زمین پر نیابت الٰہی کے قائل ہیں اور اس نائب کیلئے ان کے نزد چند معیارات ہیں جنکو اسرار خودی میں بخوبی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں چند اشعار درج کئے جاتے ہیں :
نائب حق در جہان بودن خوش است
بر عناصر حکمران بودن خوش است
نائب حق ہمچو جان عالم است
ہستی او ظل اسم اعظم است
از رموز جزو و کل آگاہ بود
در جہان قائم بامر اللہ بود
خیمہ چون در وسعت عالم زند
این بساط کہنہ را برھم زند(۵)
یہی نیابت الٰہی انکے مرد کامل یا انسان کامل کی خصوصیت ہے جس کی خودی میں رضائے الٰہی پوشیدہ ہے۔ اور اسکی تعریف یوں فرماتے ہیں کہ:
کسی کو دید عالم را امام است
من و تو ناتمامیم او تمام است (۶)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکے اس مرد کامل کو ہم کس حدود میں تلاش کریں وہ اپنی تمام امیدیں جس ہستی سے وابستہ کئے ہوئے ہیں وہ کیسی ہستی ہے اگرچہ مسلمانوں کا زمام اختیارہر عہد میں شیخ و ملا کے ہاتھوں ہی میں رہاہے۔ لیکن اقبالؒ انکے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے اور بڑے واشگاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:  دین ملا فی سبیل اللہ فساد اور ملائے حرم سے مخاطب ہیں کہ:
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام(۷)
یا یوں کہ:
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ ودلق اویسؓ و چادرِ زہرا(۸)
یعنی انکے نزد یہ معیار بوذرؓ ، اویسؓ اور حضرت زہراؑجیسی ہستیوں میں پوشیدہ ہے۔ لیکن (اگرچہ ان ہستیوں سے ہم تا قیامت وابستہ ہیں) آئندہ میں ایسی کونسی ہستی کا امکان ہے جن کی طرف اقبالؒ  ہمیں رجوع کرنے کو کہتے ہیں اور انکی ہمدردی سے ہماری کامرانی کو وابستہ کرتے ہیں۔ اقبالؒ کی شاعری کو اگر کریدا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ اس وابستگی کو کسی امام سے لازمی سمجھتے ہیں اور امام کی تعریف یوں فرماتے ہیں:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے(۹)
یہ بات بھی واضح ہے کہ کلام اقبالؒ قرآن حکیم کی تشریحی شکل ہے اور انہوں نے جو بھی بات کہی ہے وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے قرآنی تعلیمات سے میل کھاتی ہے۔ امامت کے حوالے سے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ:  ہم قیامت کے دن ہر انسان کو اپنے امام کے ساتھ پکاریں گے۔  (قرآن کریم، اسراء، ۷۱)
اور ہم نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ ان لوگوں پر احسان کرتے ہوئے جو زمین میں کمزور بنادیئے گئے ہیں انہیں امام اور زمین کا وارث بنائیں گے۔  (قرآن کریم: قصص، ۵)
اب یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ امام جن سے اقبالؒ روشن مستقبل کی امید وابستہ کئے بیٹھے ہیں کون ہوسکتے ہیں کیونکہ اقبالؒ انکے بارے میں اس قدر پر امید ہیں کہ جس میں ناکامی، مایوسی حتٰی کہ معمولی خدشے تک کی گنجائش نہیں ہے اور کس اعتماد سے فرماتے ہیں کہ:
نوع انسان مزرع و تو حاصلی
کاروان زندگی را منزلی(۱۰)
یہ توقع بے شک سرور کائنات ہی سے ہوسکتی ہے لیکن کاروانِ زندگی کے انجام کی وابستگی ہمارے ذہن کو کسی دوسری ہستی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایسے اوصاف کا مالک جو ایک نجات دہندہ میں ہوتے ہیں۔
اگر ہم تاریخ یا ادیان تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک ایسی ہی ہستی کا تصور ہر مسلک و نظریے میں موجود ملے گا جو آئندہ میں روئے زمین سے فسق و فجور کا خاتمہ کرے۔ زرتشتیوں کے عقیدے کے مطابق ’’جاماسپ نامہ‘‘ میں جاماسپ نے زرتشت سے بیان کیا ہے کہ: ’’تازیوں کی زمین سے ایک شخص خروج کرے گا۔ ایک ایسا مرد جو بڑے سر، بڑے جسم اور پنڈلیوں کا مالک ہوگا۔ اپنے جد کے آئین پر عمل او ر ایک بڑی فوج کے ساتھ ایران کا رخ کرے گا۔ دنیا کو آباد اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیگا۔ (۱۱)تورات کے حوالے سے ملاحظہ ہو کہ ’’مز امیر داؤد‘‘ نامی کتاب کے مزمور نمبر ۳۷میں آیا ہے کہ ’’کیونکہ شریر لوگ نابود ہوجائیں گے اور خدا پر توکل رکھنے والے زمین کے وارث ہونگے۔ ( ۱۲)اسی طرح انجیل، لوقاکے بارہویں باب میں ذکر ہوا ہے کہ:’’اپنی کمر کو باندھے اور چراغ جلائے رکھو اور تم ایسے لوگوں کی طرح ہو جو اپنے آقا کا انتظار کر رہے ہوں تاکہ جس وقت وہ دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً اس کیلئے کھول دو‘‘۔ (۱۳) جبکہ ہندو مذہب کی کتاب ’’وید‘‘ میں آیا ہے کہ دنیا کی خرابی و بربادی کے بعد آخری زمانے میں ایک بادشاہ پیدا ہوگا جو خلائق کا پیشوا ہوگا۔ اس کا نام منصور ہوگا۔ ساری دنیا کو اپنے دین کا پابند بنائے گا۔مومن اور کافر کے درمیان امتیاز قائم کرے گا۔ اور جو اللہ سے چاہے گا ملے گا۔  (۱۴) اسی طرح مغربی مفکرین بھی ایک ایسے نجات دہندہ کی نوید سناتے رہے جن میں جیمز ناہلور، یوحنا ساؤتھ کاٹ، رچرڈ براردز، جان نیکوس ٹام، ہنری جیمز پرنس شامل ہیں۔  جبکہ امریکی ماہر سماجیات برنارڈباربر سے منقول ہے کہ: ’’سرخ فام امریکن قبائلیوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ایک دن نجات دہندہ سرخ فاموں کے آس پاس ظہور کرے گا اور ان لوگوں کو زمینی بہشت میں داخل کردیگا‘‘۔  (۱۵)
ماہر اقتصادیات و اسلام کے عظیم مفکر آیت اللہ سید محمد باقر الصدر شہیدؒ فرماتے ہیں کہ:
’’گو ایک نجات دہندہ کا تصور اسلام سے قدیم تر ہے اور اس کا پھیلاؤ امت مسلمہ سے زیادہ ہے۔ لیکن اسلام نے اسکے خدو خال تفصیل سے متعین کئے ہیں۔  (۱۶) قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ:  اگر تم سچے مومن ہو تو خدا کا بقیہ تمہارے واسطے کہیں اچھا ہے‘‘۔ (قرآن کریم، ھود، ۸۶)  علامہ اقبال کے ہاں بھی اس ہستی کا تصور موجود ہے لیکن ایک مسلمان کی حیثیت سے انکا یہ نجات دہندہ مبہم نہیں بلکہ واضح ہے اور ان کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
گیا دور حدیث لن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی  (۱۷)   
یہاں تک ہم اس نکتے پر پہنچ چکے ہیں کہ اقبالؒ کے اس نجات دہندہ کا نام مہدی ہے اور وہ عظمت، بلندی اور کامرانی کی ہر نوید کو ان ہی کی ذات سے وابستہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان کا تخیل ہی کامرانی کی دلیل ہے۔ ملاحظہ ہو:
مجذوب فرنگی نے بہ انداز فرنگی
مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو
اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار
نومید نہ کر آہوئے مشکین ختن کو    (۱۸)
اب یہاں پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا اقبالؒ جس سے امید فردا وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ وہ مہدی ایک ہی ہستی ہیں یا انکے گنوائے ہوئے خصوصیات کا ہر حامل مہدی ہوسکتا ہے۔ ہم کہیں گے کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ انہی کے منتظر ہیں جس مہدی کی نوید رسول اکرمﷺ نے سنائی ہے کہ:
’’میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں۔ وہ میری امت میں اس وقت مبعوث ہوگا جب امت اختلاف اور لغزشوں کا شکار ہوگی۔ پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیگا۔ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اہل آسمان اور اہل زمین اس سے خوش و راضی ہونگے۔ جبکہ حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺ حضرت مہدی کو یاد کرتے اور فرماتے تھے:  ’’ہاں وہ حق ہے اور فرزندان فاطمہؓ میں سے ہے۔  (۱۹)
ان حدیثوں سے موافقت رکھتے ہوئے اس تصور کا جو کہ اقبال کے دل و ذہن پر حکومت کرنے والے مہدی کا ہے یوں اثبات فرماتے ہیں:
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آکر
جو عہد صحرایوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا            (۲۰)
اقبال کی شاعری میں مہدی کا وہ تصور جسکو اسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اسی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ دیگر متوقع ناموں کو رد کر کے براہِ راست حضرت مہدی ہی کو انکی عظمتوں کی تصویر کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے ، نے جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جسکی نگہ زلزلہ عالم افکار(۲۱)
جیسا کہ تاریخی شواہد اور معصومینؑ کی احادیث سے ظاہر ہے کہ امام مہدی کے ظہور کا زمانہ وہ ہوگا جب فسق و فجور میں اضافہ ہوگا۔ انکے مخلص چاہنے والے پیدا ہونگے اور انکے ظہور کیلئے بنیاد فراہم کریں گے۔ اس لحاظ سے آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ظہور پر ہمر کابی کے پابندر ہیں۔ اس نکتے کو اقبالؒ اس طرح پیش کرتے ہیں:
اگر او را نیابی در طلب خیز
اگر یابی بہ دامانش در آویز(۲۲)
جبکہ انکی طلب اور ظہور کی التجا کرتے ہیں تاکہ تشریف لا کر ظلم و جبر کا خاتمہ فرمائیں اور ایک حکومت الٰہی کا قیام فرمائیں۔ ملاحظہ ہو:
ای سوارِ اشہب دوراں بیا
ای فروغ دیدۂ امکاں بیا
رونق ہنگامہ ی ایجاد شو
در سوادِ دیدہ ھا آباد شو
شورش اقوام را خاموش کن
نغمۂ خود را بہشت گوش کن
خیز و قانون اخوت سازدہ
جام صہبای محبت باز دہ
باز در عالم بیار ایام صلح
جنگجویان را بدہ پیغام صلح
(۲۳)
اور اقبال کے اس شعر پر بات کو پوری کرنے کی کوشش کریں گے کہ:
تو کیستی زکجائی کہ آسمان کبود؟
ہزار دیدہ براہِ تو از ستارہ گشود        (۲۴)

ڈاکٹر علی کمیل قزلباش ۔ اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج،نوشہرہ

 

کتابیات
۱۔        سلیم اختر (ڈاکٹر) اقبالؒ ممدوح عالم، لاہور، بزم اقبالؒ، طبع اول ۱۹۷۸ء، ص،۵۰۹
۲۔        محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (فارسی) لاہور، اسلام آباد، اقبال اکادمی نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۹۰ء۔ص، ۶۰
۳۔       محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (اردو) لاہور، مکتبہ جمال، ۲۰۰۲ء، ص، ۳۷۸
۴۔       ایضاً، ص،۶۹۰
۵۔       محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (فارسی) لاہور، اسلام آباد، اقبال اکادمی نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۹۰ء۔ص،۴۴
۶۔        ایضاً،ص، ۱۰۵
۷۔       محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (اردو) لاہور، مکتبہ جمال، ۲۰۰۲ء، ص، ۵۳۶
۸۔       ایضاً، ص، ۵۷۰
۹۔        ایضاً،ص، ۷۹۷
۱۰۔       محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (فارسی) لاہور، اسلام آباد، اقبال اکادمی نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۹۰ء۔ص،۳۳
۱۱۔       علی نقی، اثباتِ مہدی، لاہور، العارف پبلیکشنز، ص، ۳۹
۱۲۔       ایضاً، ص، ۴۰
۱۳۔      ایضاً، ۱۳
۱۴۔      زیڈ ایچ درانی، فلسفہ ولایت اور اقبالؒ، کوئٹہ، قرآن و عترت ٹرسٹ، طبع اول ۲۰۰۲ء، ص،۱۹۳
۱۵۔      باقر الصدر، سید محمد (آیت اللہ) انتظار امام، پاکستان، جامعہ تعلیمات اسلامی، س۔ن۔ص، ۲۴
۱۶۔       قرآن کریم، سورۃ الھود، آیت، ۸۶
۱۷۔      محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (اردو) لاہور، مکتبہ جمال، ۲۰۰۲ء، ص، ۶۹۲
۱۸۔      ایضاً، ص، ۹۱۱
۱۹۔       زیڈ ایچ درانی، فلسفہ ولایت اور اقبالؒ، کوئٹہ، قرآن و عترت ٹرسٹ، طبع اول ۲۰۰۲ء، ص، ۱۹۷
۲۰۔      محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (اردو) لاہور، مکتبہ جمال، ۲۰۰۲ء، ص، ۲۵۰
۲۱۔       ایضاً، ص، ۸۸۸
۲۲۔      محمد اقبالؒ (علامہ) کلیات اقبالؒ (فارسی) لاہور، اسلام آباد، اقبال اکادمی نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۹۰ء۔ص، ۱۰۶
۲۳۔      ایضاً، ص، ۴۶                    ۲۴۔      ایضاً، ص، ۶۸

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com