سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔۔۔صدیوں کی زنجیر کی روشنی میں
ڈاکٹر ولی محمد

ABSTRACT
Urdu novel "Sadyon Ki Zanjeer"is an important novel in Urdu fiction history of Pakistani literature. The novel was first published in 1988 i.e seventeen years later after the fall of Dhaka. The theme of story is about all the cultural, military and political situations of that time which resulted in the division of country and the born of newly state Bangladesh. In this research article the researchers has analyzed the story of the novel in the political, cultural and military background of that specific times of Pakistani history .
سقوطِ ڈھاکہ کے موضوع پر رضیہ فصیح احمد کا ’’صدیوں کی زنجیر‘‘اہمیت کا حامل ناول ہے ۔اگرچہ کہانی کئی ایک فکری حوالے رکھتی ہے لیکن اس پر حاوی مسٔلہ سقوطِ ڈھاکہ ہی رہتاہے ۔کہانی ان تمام لسانی ، نسلی ، معاشی اور سیاسی عوامل پر اجمالی انداز سے روشنی ڈالتی ہے جس نے پاکستان کوسقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی اور تاریخی سانحے سے دوچار کیا۔
کہانی کے آغاز ہی میں ہمیں اس حبس کے آثار دکھائی دیتے ہیں جس کی روشنی میں بھیانک مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے ۔بنگالی سماج دوواضح دھاروں میں بٹا ہوا ہے ۔جس پر غالب لہر اس نسل کی ہے جو تخلیقِ پاکستان کے بعد پیداہوئی اور جن کی سوچ ان بنگالی نسل پرستوں کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے جن کی سرکردگی اور نمائندگی شیخ مجیب اوران کی جماعت عوامی لیگ کر رہی ہے ۔اس کے ساتھ اسلام پرستوں اور پاکستان پرستوں کی بچی کچی نسل بھی ہے جن کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں اوروہ نسل پرستی کے تحت پروان چڑھنے والی سوچ کو اسلام کے متضادتصورکرتی اور بنگالی نیشنلزم کی مخالفت پر کمر بستہ ہے ۔ناول کے آغاز ہی میں ہمیں ان دونسلوں کی نمائندگی کرنے والے مکان کی ایک ہی چاردیواری کے اندر سانس لیتے ملتے ہیں ۔بینو کا تعلق نئی نوجوان بنگالی قوم پرست نسل سے ہے ، اور اس کی ماں کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے تن من دھن کی قربانیاں دے کر پاکستان کی صورت میں آزاد وطن کے حصول کو ممکن بنایا تھا اس لیے اس کے دل میں پاکستان اور اسلام کے ساتھ محبت ہے۔اور اسی بنیاد پربینوکی ماں بینو کے ساتھ سیاسی اور ثقافتی اختلاف رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ دھرتی سے محبت بینو اور موجود ہ بنگالی نسل نے ہندوؤں سے سیکھی ہے ۔مسلمان دھرتی کو ماتا واتا نہیں مانتا۔(۱)
موجودہ بنگالی نسل کی نسلی اور لسانی احساس کی اس بیداری میں کئی ایک عوامل نے اہم کردار اداکیاہے۔مثلاً ان میں اپنی زبان کے ساتھ، اپنے لوگوں کے ساتھ اور اپنے کلچر کے ساتھ محبت کا وہ فطری جذبہ بھی ہے جو ہر انسان میں قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ہوتاہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ظلم ، نفرت اور تعصب بھرے رویے بھی جس نے بنگالیوں کے دلوں میں نسل پرستی کی انتہا کی صورت میں ردعمل سامنے آیاہے ۔لہٰذا ناول کی روسے ان قام پرستانہ جذبات کی بیداری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگال میں موجود مغربی پاکستانی اور بہاری اپنے آپ کو بنگالیوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بینواپنی ماں پر طنز کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اسے دیس کی مٹی سے گھن آتی ہے ۔وہ بھی بہاریوں کی طرح اپنے آ پ کو بنگالیوں سے بڑا سمجھتی ہے ۔(۲)بنگالیوں کے دل ودماغ میں پیدا ہونے والا یہ تعصب فطری ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تخلیق پاکستان سے لے کر سقوط ڈھاکہ تک مغربی پاکستانیوں اور بالخصوص وہاں موجود طبقہ اشرافیہ نے انہیں انسان کم اور جانور زیادہ سمجھا تھا۔
بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں کے نزدیک بنگال کے لوگ غیر مہذب تھے ناول کے کردار بیگم مرزا کے خیال میں بنگالی عورتوں کو اپنے گھروں میں بلاؤز تک پہننے کی بھی تمیز نہیں ۔گھروں کے سامنے جن تالابوں میں نہاتی ہیں انہی سے گھڑے بھر بھرکر پینے کے لیے لے جاتی ہیں ۔(۳)اس کے خیال میں ہمارے ہاں کی تو مائیاں بھی ان سے زیادہ بن سنور کر رہتی ہیں۔(۴)وہ انہیں دوٹکے کے لوگ کہہ کر پکارتی ہیں ۔(۵)اسی طرح بیگم احسن کو بھی بنگالیوں اور ان کے کلچر سے نفرت ہے اور وہ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں ۔اس کے خیال میں ان کے کھانے بھات، چچیندے ، پل دل کی بھجیا اور پتلی پانی ایسی دال بھلا کب ہم سے کھائی جاسکتی ہے ۔(۶)
پروان چڑھنے والی نئی بنگالی نسل کے دلوں میں پیداہونے والے ان فاصلوں اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والی نفرت اور ثقافتی خلیج کاایک اور اہم زاویہ لسانی بھی ہے ۔بنگالی اپنی زبان کے ساتھ بے حد محبت کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں اردو ان پر ٹھونس دی گئی ہے اور چونکہ مغربی پاکستانی انہیں اور ان کی زبان و ثقافت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے ردعمل میں اردو سے نفرت نے جنم لیا ہے ۔ناول کا ایک کردار میجر ظاہر اس لسانی اورثقافتی حوالوں سے پیداہونے والی نفسیاتی ردعمل پر بات کرتے ہوئے کہتاہے :
’’شروع میں ہندوستانی انگریزوں کی ہر بات کو اچھا سمجھتے تھے اسی طرح ہم بھی مغربی پاکستانیوں کو خود سے برتر جانتے تھے ۔کسی پر رعب ڈالنا ہوتا تو بنگلہ کی بجائے اردو میں بات کرتے مگر گھپلا اس وقت ہواجب ہمیں یہ احساس ہواکہ وہ لوگ بھی خود کو برتر اور ہمیں حقیر سمجھتے ہیں حالاں کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ہم اگر لنگی اور گنجی پہنتے ہیں یا اسٹیل کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جنگلی یا غیر مہذب ہیں ۔بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اب ناز اٹھانے کوتیار نہیں ۔‘‘(۷)
شمس الرحمٰن کا کہنا ہے :
’’میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔گندگی پر پردہ ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہو تا ۔اصل میں ہماری زبان ، ہمارے کلچر اور ہمارے رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔بلکہ اس کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ ہمارے ہاں بے حد سادگی ہے ، دکھاوا بالکل نہیں ہے ۔اس کو جہالت اور لاعلمی سمجھا جاتاہے حالانکہ تعلیم ہمارے ہاں ہمیشہ سے زیادہ تھی اور زیادہ ہے ۔اب لوگ کہنے لگے ہیں کہ جس طرح ہندوستان نے پاکستان کو دل سے نہیں ماناہے اسی طرح مغربی پاکستانیوں نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو دل سے تسلیم نہیں کیاہے ۔ورنہ وہ بنگلہ کو اردو کے ساتھ قومی زبان بنانے میں اتنا نہ ہچکچاتے ۔اس کے علاوہ ہمارا اردو جاننا ضرور ی ہے ،لیکن میں نے کسی مغربی پاکستانی کو بنگلہ سیکھتے نہیں دیکھا۔دوسرے سارے صوبوں کے نام ہیں ۔مثلاً پنجاب، سرحد، بلوچستان ، مگر ہمارے صوبے کا کوئی نام نہیں ہے ۔اگر ہم اسے کوئی نام دینا چاہیں تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتاہے۔‘‘(۸)
لسانی اورثقافتی حوالوں سے لوگوں کے رویے بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ۔مثلاًبنگالی جو کل تک اردو میں بات کرتے تھے اب اپنی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں ۔(۹) اور اس نئی نسل میں ایسے انتہاپسند بھی پیداہوگئے ہیں(مثلاً ناول کا ایک کردارپتل ) جنہوں نے اردو میں بات نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔(۱۰)ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک بنگالی کے بقول اردو کو قرآن کا رسم الخط سمجھاجاتاتھا اور اسے نبی کی بھاشا سمجھاجاتاتھا۔اردومیں لکھا ہوا ایک جملہ مل جاتاتو اسے سر آنکھوں سے لگا کر اونچی جگہ رکھ دیا جاتا مگر اب۔۔۔۔(۱۱) یہ عالم ہے کہ اکرام الحق کی نانی کی اردو کی کتابیں ان کے اپنے پوتوں نے جلا کر راکھ کر ڈالیں۔(۱۲) 
لسانی،تہذیبی اور سیاسی سطح پرپیداہونے والی اس خلیج کا نتیجہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والا ہر مغربی پاکستانی اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگاہے۔ایسے میں ان معتدل مزاج لوگوں کی زندگی کافی اجیرن ہوجاتی ہے جو لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر پیداہونے والی اس خلیج کوختم کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اس نیک کوشش میں اس تمام نفرت اور تعصب کا نشانہ بنتے ہیں ،جو کئی دہائیوں کی غلطیوں کی پیداوارہیں ۔ زری جذبے اور احساس کے اسی جہنم سے گزرتی ہے۔بنگالیوں کی طرف سے اس کے لباس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتاہے اور جلسے میں موجود ایک عورت زری کودیکھ کر کہتی ہے کہ اس صوبے میں شلوار قمیص کو بین کرنا چاہیے۔(۱۳) اس کے خیال میں اس کی زبان ، لباس، قد، رنگ اور بال جو کبھی اس کی خوبیوں میں شمار ہوتے تھے ،اب وہ ہر چیز یہاں کے لوگوں کے لیے قابل نفرت ہے ۔(۱۴)
اس لسانی اور نسلی تفریق کو ہوا دینے میں جس عنصر نے بنیادی کردار اداکیا تھا وہ مغربی پاکستانیوں کاوہ استحصالی رویہ تھا جس نے مشرقی پاکستانیوں میں قومیت کے شدید احساس کو ابھارنے پر مجبور کیاتھا۔یہ استحصالی اور عدم مساوات پر مبنی رویہ صرف معاشی اور سیاسی سطح پر ہی نہیں تھا بلکہ سماجی اور ثقافتی بنیادوں پر بھی تھا جس میں مشرقی پاکستانیوں کی طرف نفرت اور حقارت کے جذبات شامل تھے۔مثلاً قدرت اللہ شہاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ ۱۹۵۰میں جب امریکہ سے حسب معمول سینیٹری کا کچھ سامان آیا تو کیبنٹ کے اجلاس میں ایک بنگالی وزیر نے کہا کہ ہمیں بھی ا س میں سے کچھ دیجیے۔مغربی پاکستان کے وزیروں نے ان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں اس کی کیاضرورت ہے تم کیلوں کے جھنڈ کے پیچھے قضائے حاجت کیاکرو۔(۱۵)حقارت بھرایہ منفی رویہ فوج جیسے قومی ادارے میں بھی کارِ فرما تھا۔بنگالیوں کا یہی احساس تھا جس نے شدید لسانی اور تہذیبی ردعمل کی صورت اختیار کی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ بریگیڈئر موحجمدار نے چٹاگانگ سنٹر میں ٹریننگ ختم کرنے والے سپاہیوں سے کہا:
’’تم خوددار بنگالی سپاہی ہو ۔تم مغربی پاکستان وہاں کے پنجابی افسروں کے بوٹ صاف کرنے نہیں جارہے ، اب وقت آرہاہے کہ وہ تمہارے جوتے پالش کریں گے ۔‘‘(۱۶)
اسی سے ملتی جلتی صورتحال اس زمانے میں بنگال میں تھی جس طرح کہ آج کل خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہے ۔یہ تاثر کسی بھی وقت زور پکڑ کر بچے کچے ملک کی سالمیت خطرے میں ڈال سکتا ہے اور پاکستان کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا سکتاہے ۔پنجاب کا یہ آسیب ۷۱ء میں بنگالیوں کے اعصاب پر سوار تھا۔اور آج کی طرح ۷۱ء میں بھی یہ تاثر بلکہ یقین عام تھا کہ پاکستانی فوج اور سیاست میں پنجابی دوسری قومیتوں کا استحصال کر رہے ہیں ۔فوج جیسے ادارے میں بھی ان کی اکثریت تھی۔اور ملک کی تقدیر کے تمام فیصلے پنجابیوں کے مفاداور منشا کے مطابق حل ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے آج تک یہ تاثر بھی عام رہاہے کہ ہماری فوج کبھی بھی پاکستانی فوج نہیں رہی بلکہ پنجابی فوج رہی ہے۔پنجابیوں کے خلاف نفرت کا شدید جذبہ ناول میں بھی کارفرما ہے ۔اسی وجہ سے ناول نگار نے تاریخی حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ سلہٹ میں پنجابی کو قتل گاہ تک لے جانے کا انعام ایک سو روپے اور مہاجر کو لے جانے کا انعام اسی روپیہ مقررتھا۔(۱۷)پنجابیوں کے خلاف اس نفرت سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ بنگال میں مغربی پاکستان اور بالخصوص پنجاب سے ملک کے اکثریتی صوبے کو شکایتیں تھیں ۔اور ان کی سوچ یہ تھی (اور یہ حقیقت بھی تھی )کہ پنجابی مافیا ہی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک اور اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتاہے۔اور ان کی غربت اور احساس محرومیت کا ذمہ دار پنجاب ہی ہے ۔
بنگالی قومیت کا شدید احساس بید ارکرنے میں کچھ معاشی عوامل بھی کارفرما تھے ۔بلکہ اگر دیکھا جائے تو معاشی مسئلہ شروع ہی سے بنگالی سیاست پر اثرا نداز رہاہے۔۱۹۰۶ء میں تقسیم بنگال کے ردعمل میں مسلم لیگ کا قیام بھی معاشی وجوہات کی بنیاد پروجود میں آیاتھا۔اور اس کا مقصد مشرقی بنگال کومغربی بنگال کے معاشی تسلط سے آزادی دلاناتھا۔بدقسمتی سے مشرقی بنگال شروع ہی سے قدرتی آفات کی زد میں رہاہے ۔سیلاب، طوفان اور سائیکلون کی زد میں آنے والایہ خطہ آن کی آن میں برباد ہوجاتاہے اور معاشی بانجھ پن کا شکاررہتاہے ۔ندیوں ، نالوں اور دریاؤں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوکر دیہاتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔کسی بنگالی شاعر کا بڑا خوبصورت گیت ہے :
ایک کنار ہ پاٹتی ہے ، ایک کنارہ گراتی ہے ، یہ ندی کا کھیل ہے
جو صبح کو امیر ہے وہی شخص شام کو غریب ہے ، یہ ندی کا کھیل ہے ۔(۱۸)
ان قدرتی آفات کا نتیجہ ہے کہ مشرقی پاکستان غربت کی چکی میں پس رہاتھا۔وہاں ہسپتالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابرتھی۔کہاروں کے پاؤں جوتوں سے محروم تھے۔(۱۹)پیٹ پھولے ، سوکھے کے مرض میں مبتلا اور ملیریا کے مارے زرد بچے ، درخت کی چھال جیسی جلد والے بوڑھے اور سدا سے آدھے پیٹ کھانے والی لاغر اور صابر عورتیں ناول میں دکھائی دیتی ہیں ۔(۲۰)سائیکل رکشا چلانے والے غریب لوگ ہیں۔غربت کی انتہا یہ ہے کہ غریب لوگ عصمت فروشی پر مجبور ہیں ۔یہ بات مشہور ہے کہ مشرقی پاکستان میں ایک لڑکی ایک روپے میں ملتی ہے اور مغربی پاکستان سے بہت سے لوگ ویک اینڈ گزارنے محض اس لیے جاتے ہیں ۔(۲۱)
اس کے برعکس تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوگیاہے کہ ان کی غربت کی بنیادی وجہ مغربی پاکستان کی طرف سے ان کا کیاجانے والا استحصال ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ناول کا ایک کردار کہتاہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آرہی ہے ۔(۲۲)مشرقی پاکستان میں یہ تاثر پایاجاتاہے کہ کراچی میں عالی شان محل بن رہے ہیں اور اسلام آباد تو ایسا لگتاہے جیسے باہر کا کوئی شہر ہو۔(۲۳)
تجارتی حلقوں کا موقف بھی یہی تھا کہ مغربی پاکستان میں جتنی ترقی ہوئی ہے ، وہ مشرقی پاکستان کے پیسے سے ہوئی ہے ۔وہ عوامی لیگ کی زیر ِ سر پرستی چھپنے والے لٹریچر کا حوالہ دیتے رہتے کہ مجموعی آمدنی کا ساٹھ فیصد حصہ مشرقی پاکستان سے حاصل ہوتاہے ، مگر اس پر قومی آمدنی کا بیس فیصد حصہ خرچ ہوتاہے۔اس کے برعکس مغربی پاکستان قومی آمدنی کا چالیس فیصد کماتاہے ، مگر کل آمدنی کا پچھتر فیصد کھاجاتاہے۔(۲۴)
طاقت کے نشے میں چور ، عقل سے عاری ، اور سیاسی تدبر سے خالی بیوروکریسی اور فوجی آمریت نے ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی دانشمندانہ قدم نہیں اٹھایا بلکہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے ۔اس سلسلے میں نہ تو معاشی عدم مساوات کو ہنگامی یا مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے عمل کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر کی گئی اور نہ ہی شیخ مجیب کے مبالغہ آمیز پروپیگنڈے کو حقائق بدوش کرنے کے لیے کوئی شعوری کاوش کی گئی ۔حتیٰ کہ ناول نگار کے بقول یہاں تعلیمی دوروں پرآنے والے طالب علم مغربی پاکستان کے بڑے شہروں میں گھوم پھر کرواپس چلے جاتے اور عوامی لیگ کا پروپیگنڈہ مزید ان کے دلوں میں گھر کر لیتا۔ کہانی کے ایک کردار شمس الرحمٰن کے بقول بھی تعلیمی دوروں پر آنے والوں کو کراچی کے صاف ستھرے علاقے ، کارخانے ، اسلام آباداور فیصل آباد وغیرہ دکھائے جاتے ہیں ۔تعلیمی دورے میں یہی دکھایا بھی جانا چاہیے لیکن سماجی اور نفسیاتی ضرورت تھی کہ ان کو ملک کے غربت زدہ علاقے بھی دکھائے جاتے۔اس لیے کہ یہاں آنے والے یہی تاثر لے جاتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں بے حد تعمیر و ترقی ہورہی ہے ۔لوگ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لوگ روٹی کو ترستے ہیں ۔(۲۵)
مشرقی پاکستانیوں کو فوج سے بھی شکایتیں تھیں ۔مثلاً بنگالیوں کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات اور وباؤں کے لیے دنیا بھر کی طرف سے دی جانے والی مدد فوج درمیان میں ہضم کر لیتی ہے ۔(۲۶)لہٰذا ان کا یہ عقیدہ پختہ ہوگیاتھاکہ پہلے مغربی پاکستانیوں نے انہیں لوٹا اور اب جو بچا کچھا رہ گیاہے یہ فوجی لوٹ رہے ہیں۔(۲۷)سیاسی بحران کے دنوں میں بھی فوج نے اپنے رویے کو بدلنے کی کوشش نہیں کی ۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں اگر کوئی بھاگ جاتاہے تو اس کی زمین کو فوج اپنے کسی بھائی بند کے نام الاٹ کر دیتی تھی۔(۲۸)فوج کے اس استحصالی رویے اور اس کے خلاف بنگالیوں کے دل میں ابھرنے والی نفرت کا اظہار مختلف علامتوں کے ذریعے بھی ہوتا رہتاہے ۔مثلاًناول کی رو سے گلیوں اور بازاروں میں ایسے پوسٹر لگائے جاتے ہیں جن میں لوگ ایک بڑے سے گدھ کو ڈنڈا اٹھائے مارنے کے لیے آرہے ہیں۔(۲۹)مغربی پاکستانی فو ج سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مقامی لوگ ان کی طرف سے کیے جانے والے استحصال کو محسوس کرتے ہیں اور اس لیے ان سے نفرت کرتے ہیں۔ایک زخمی فوجی اپنے افسر سے کہتاہے کہ مقامی لوگ ہمیں جونکیں ہی کہتے ہیں ، یعنی ہم ان کے خون پر پل رہے ہیں۔(۳۰)یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی بھی یہ بات محسوس کرتے تھے کہ مشرقی بنگالیوں کے ساتھ ان کا رویہ مبنی بر انصاف نہیں تھا۔اسی طرح آپریشن کے دوران بنگالی عوام کے قتلِ عام سے ان خدشات میں مزید اضافہ ہوااور بھارت کی جارحیت تک فوج بنگالیوں کے دلوں میں اپنا اعتماد بحال نہ کرسکی ۔اگر شیخ مجیب اور بنگالیوں کے بہت سے اقدامات ایسے تھے ، جو فوج کے ساتھ کھلی دشمنی بلکہ اعلانِ جنگ کے مترادف تھے ۔مثلاً جو ٹھیکیدار فوج کو خوراک مہیا کر تے تھے ، ان کوڈرادھمکا کر ایسا کرنے سے روکا گیا۔فوج تک جانے والی خوراک کی گاڑیاں روکی جانے لگیں ۔ملک کے اتنے بڑے اور مسلح ادارے کے خلاف ایسے اقدامات کی صورت میں فوج کی طرف سے ردعمل بھی یقینی تھا۔جو بالآخرفوجی آپریشن سرچ لائٹ کی صورت میں سامنے آیا۔اس لیے کہ اس قسم کے اقدامات ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کے مترادف تھے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ دوران آپریشن اور دورانِ جنگ فوج سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جس نے مشرقی بنگالیوں کے دلوں میں نفرت اور بغاوت کی ایک لہر دوڑادی ۔ناول میں فوج کی طرف سے کی جانے والی ان غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔مثلاً ناول کا ایک کردار میلو جب ایک بے گناہ بہشتی کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں جاسوسی کے شبہ پر قتل ہوتے دیکھتاہے تو وہ قسم کھالیتاہے کہ وہ اب مکتی باہنی میں جاکر اور واپس آکر ان سے لڑے گا ۔اب کسی بھی صورت یہ ملک ایک نہیں رہ سکتا۔(۳۱)اسی طرح زنجیرہ کے واقعے نے مزید ہلچل مچادی ۔ناول کے مطابق کسی دس بارہ سالہ لونڈے کی اطلاع پر کہ یہاں شر پسند چھپے ہوئے ہیں فوج نے زنجیرہ پر توپوں سے حملہ کیا جس میں دس ہزار بے گناہ بچے ، عورتیں اور بوڑھے قتل ہوئے۔(۳۲)صدیق سالک نے بھی اپنی کتاب ویٹنس ٹوسرینڈر میں اس دلخراش واقعے کا ذکر کیاہے ۔ناول نگار کے خیال میں بھی اس قسم کے واقعات نے بنگالیوں کو متحد کرنے اور ایک پچ پر کھڑے ہونے میں مدد دی ۔لہٰذا اس کے بقول فوجی کاروائیوں سے نقصان تو بہت ہوا مگر ایک فائدہ یہ ہو ا کہ اس نے ساری مخالفتوں کو ختم کر کے بنگالیوں کو یکجا کر دیا۔نو مہینے میں تین ملین لوگ مارے گئے ۔اس سے دنیا کی ہمدردی حاصل ہوگئی۔(۳۳)
لاکھوں لوگوں کی جانی ضیاع اور آپس میں دشمنی پیدا ہونے کی بجائے بہتر تھا کہ یہ معاملہ بطریق احسن حل ہوجا تا جب اکٹھا رہنے سے دشمنیاں اور فاصلے بڑھ رہے ہوں اور ایک دوسرے کے زخم کا مداوا کرنے کے لیے رواداری اور برداشت کا سلسلہ ختم ہو جائے تو ایسی صورت میں پاکستانی حکومت کو حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ فیصلہ کرلینا چاہیے تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں ملک کے تمام حصوں کی معاشی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہو گی اور نہ ہی آج کچھ بہتر ہے ۔لیکن بنگال میں فاقوں کی نوبت تھی ۔لیکن ملک کے معاشی حوالوں سے مستحکم صوبوں نے ان کی پیٹ بھرنے کی بجائے ان کے رہے سہے نوالے بھی ان کے منہ سے نوچنے چاہے اور یہ خواب دیکھتی رہے کہ دوقومی نظریہ اور اسلام اور پاکستانیت ان کو ٹوٹنے سے بچا سکتی ہے اور بھی ایسی صورت میں کہ دوقومی نظریہ محض پنجاب کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہو ، اسلام محض زبان اور باتوں کی حد تک ہو یعنی اس کا نام محض ایک فیشن کے طورپر لیا جارہا ہو اور اس سے لوگوں کو دھوکا کیا جا رہاہو اور پاکستانیت فوجی آمریت ، ذاتی مفادات اور نسلی و لسانی تعصب کی بھینٹ چڑھ چکی ہو ایسی صورت میں اتحاد کے خواب دیکھنے اور اسے حقائق کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھ کر جذبے ، جوش اور استبداد سے کام لینے کی بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت تھی ۔ناول کے کردار عبدالرحمٰن کے خیال میں ’’یہ بازو تو دسمبر سے پہلے ہی علیحدہ ہو چکا تھا۔اس کے لیے سیدھا سادہ سرجری کا عمل ہونا چاہیے تھا کہ نہ زخم لگتا ، نہ خون بہتا ۔جب اسے تلوار کی ضرب سے علیحدہ کیا گیا تو چوٹ بھی آئی اور تکلیف بھی ہوئی ‘‘(۳۴)
یہی وجہ تھی کہ فوجی آپریشن کے بعد ہی مختلف ناول کے مختلف کردار یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اب ملک کا ایک رہنا ناممکن ہے ۔ناول نگار کے خیال میں دسمبر سے پہلے فوجی کاروائی کے بعد جس طرح ہر جگہ عدم تعاون شروع ہوا، اس سے آپ کو اندازہ نہیں ہو ا کہ اب ایک پاکستان رہنا مشکل ہے ۔ممکن ہے بھارت درمیان میں نہ آتا تو کئی سال لگ جاتے ۔(۳۵)
فوجی طاقت کے ذریعے پہلے تو جمہوریتیں پروان نہیں چڑھیں اور اس کا اثر اتنا زیادہ تھا یا اس میں اتنے زیادہ گھپلے ہوئے کہ ایوب خان جیسے شخص کے مقابلے میں فاطمہ جناح جیسی شخصیت کو الیکشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی الیکشن میں شیخ مجیب فاطمہ جناح کے بہت بڑے اتحادی تھے ۔پاکستانی تاریخ کا یہ وقوعہ پڑھنے والوں کو خون کے آنسو رلا دیتاہے ۔شیخ مجیب کا فاطمہ جنا ح کا اتحادی بننا کس حقیقت کا اظہار تھاکہ شیخ مجیب قسم کے لوگ فوجی آمریت کے خلاف اور پنجابی سیاسی اور عسکری لابیز کے خلاف سخت نفرت و غصہ رکھتے تھے ۔شخصی اور ادارائی (Institutional )اور نسلی مفادات تھے جو پاکستان کے دشمن تھے ، شیخ مجیب کی بھی غلطیاں تھیں لیکن سارے کیچڑ کو شیخ مجیب کے سر پر اچھالنا اور بھٹو اور یحیی (یعنی فوج ) کو اس سے مبرا قرار دینا اور انہیں گویا فرشتے ثابت کرنے کی کوشش کرنا حقائق کی طرف ہمارا وہی بچگانہ رویہ ہے جس نے کسی زمانے میں پاکستان کو ایک مرتبہ تقسیم کیا اور عنقریب دوبارہ تقسیم کرنے پر تلی ہے ۔خود شیخ مجیب ایوب خان ہی کی غلطیوں کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچ چکے تھے ۔(میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ۔۔از صدیق سالک کی ابتدا ہی شیخ مجیب کے اس اعتراف سے ہوتی ہے )ایوبی غلطیوں کے بعد یحیائی غلطیوں نے گویا متحدہ پاکستان کے تابوت پر آخری کیل ٹونکنے کا کام دیا۔اسی وجہ سے قدرت اللہ شہاب کاکہنا ہے کہ پاکستان ایک خوبصورت گلدان کی طرح ہے اور شیخ مجیب ا س پر ایک منڈلاتی ہوئی مکھی کی طرح ہیں ۔یعنی مسئلہ کوئی نہیں ۔مگر یہ ا س کو ہتھوڑے سے مارنا چاہتے ہیں۔(۳۶)
بنگالیوں کے دلوں میں فوج کے لیے نفرت صرف آپریشن کے آس پاس کے دنوں کی پیداوار نہیں تھی بلکہ کئی ایک سالوں کے مسلسل عمل کا نتیجہ تھی۔یہی وجہ تھی کہ سیاسی عدم استحکام سے پیشتر مغربی پاکستانیوں کے مقتدر حلقوں اور فوج کا رویہ ان کے ساتھ تحقیر آمیزانہ تھا۔اس سلسلے میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں اور بالخصوص آفیسرز کے تحفظات تھے ۔ان کا کہنا تھاکہ مشرقی پاکستان آنے والے فوجی افسروں کا رویہ آزادی سے قبل انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ تحقیرآمیزانہ رویے کے مماثل تھا ۔(۳۷)جسے چند ایک سال سے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہاتھا۔
قومی یکجہتی کونسل کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی تھی ۔دل دل سے کٹ گئے تھے ۔اور خون پہلے سے ایک نہیں تھا ۔اسلام کے جس نعرے پر ملک کا قیام عمل میں آیا تھا وہ جاگیرداروں اور نوابوں اور مذہبی پیشواؤں کے برسرِ اقتدار آنے سے پاش پاش ہو گیا تھا۔حقیقی اسلامی نظام کے عدم نفاذ کے نتیجہ میں دلوں کو جوڑنے والا یہ رشتہ بھی حسین الفاظ کے بے ہنگم اور ’’بے موسم نغمے ‘‘ کے سوا کچھ نہیں تھا۔لہٰذا ناول کے مطابق ایسی صورت میں قومی یکجہتی کی باتیں متروک سکے معلوم ہوتے تھے ۔(۳۸)مشرقی پاکستان کی نئی پود کو قومی یکجہتی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔انہیں یہ باتیں گھسے پٹے لطیفے کی مانند دکھائی دیتی تھیں ۔(۳۹)جولوگ حالات کی نزاکت کوسمجھتے تھے اور جو اس چھلکے کے اندر پوشیدہ محرکات پر نظر رکھتے تھے۔وہ اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے کہ ان خلاؤں کومحض ثقافتی یا لسانی حوالوں سے اختلافات کا مداوا کرنے سے نہیں بھرا جا سکے گا۔تعلیم یافتہ طبقے کا نمائندہ کردار زری اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے ۔اسی وجہ سے وہ اپنے بنگالی شوہر شمس سے کہتی ہے کہ لباس بدلنے کے بعد بھی ہم تم لوگوں کی ہمدرددیاں حاصل نہ کر سکیں گے۔(۴۰)
ناول کے مطابق سقوطِ بنگال کی ایک اہم وجہ سیاسی حوالوں سے عدم بلوغت بھی تھی ۔بدقسمتی سے پاکستان کے قیام سے لے کر ملک کے ٹوٹنے تک کوئی بھی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوئی تھی ۔ملک پہلے بیوروکریسی کے ماتحت رہا اور پھر مارشل لاء کی وجہ سے فوج کے تسلط میں چلاگیا۔نتیجتاً وہ جمہوری عمل پروان نہیں چڑھا جس کے ذریعے مسائل صوبوں اور سیاسی وحدتوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوتے ہیں ۔لہٰذا ۱۹۷۰ء میں جب انتخابات ہورہے تھے تو سیاسی گھٹن انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔فوج پر اعتماد ختم ہو چکا تھا۔طویل دورِ ایوبی کے بعد ملک کی باگ ڈور اب ایک اور فوجی جرنیل کے ہاتھ میں تھی اور اب بھی پاکستانیوں اور بالخصوص مشرقی پاکستانیوں کو فوج کی نیک نیتی پر یقین بالکل نہیں تھا۔عدم اعتماد اور بے یقینی کی فضا میں مخلصانہ کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوتیں ۔اسی طرح ۷۰ ء کے انتخابات تک آتے آتے ان درختوں نے پھل بھی دینا شروع کیا تھا ، جو ہمارے پچھلے تئیس برس کے گناہوں کی پاداش میں اگ آئے تھے ۔یعنی استحصال اور عدم مساوات کے نتیجہ میں پیداہونے والی نفرت ، عداوت اور بد نیتی پر مبنی سوچ نے مشرقی پاکستان میں پوری طرح سے قدم جمالیے تھے ۔اس کی گواہی ۷۰ کے انتخابات کے نتائج ہیں ۔ناول نگار کے بقول
’’ ابتدائی جو ش و خروش میں بہت سے لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہ ہو اکہ ایک صوبے میں بھاری اکثریت سے جیتنا اور دوسرے صوبے میں اس پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہوناکتنے گھمبیر نتائج پیدا کر سکتاہے ۔‘‘(۴۱)
ملک میں مسلسل مارشل لاز کی وجہ سے فوج اپنے آپ کو ملک کے سیاہ و سفید کا واحد مالک سمجھتی تھی ۔غریبوں اور مزدورو ں کے ٹیکسوں اور بنگالی عوام کے بھوک اور افلاس پر پلنے والی یہ قوت اپنے ہی جڑوں کو کاٹنے پر تلی ہوئی تھی۔بنگالی احساسِ قومیت اوربنگالیوں کے ساتھ استحصال کے ردعمل میں پیداہونے والی احساس حریت کو بندوق کی سنگینوں سے دبانا ایک غیر عقلی ، غیر منطقی اور جذباتی فیصلہ تھا۔طاقت کو ہر ایک مسئلے کا ناگزیر حل تصور کرنے والی عسکری سوچ نے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے انہیں اور بھی الجھایا۔طاقت کے ذریعے ہنگامی مسائل پر بے شک قابو پایاجاسکتاہے لیکن ایسے مسائل جن کی جڑیں کئی ایک دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہوں ، وہ بھی جب طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نتیجہ تخریب کے سوا کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔پھر ایسی صورت میں تو طاقت کا استعمال یقیناً نقصان دہ ہوتاہے جب احتجا ج کرنے یا مزاحمت کرنے والی جماعت مبنی بر انصاف مطالبات کے لیے سامنے آرہی ہو۔سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ عوامی لیگ کے مطالبات کیاتھے اور کیا وہ مبنی برانصاف تھے یانہیں ؟اس کے لیے شیخ مجیب کی طرف سے پیش کردہ چھ نکات ہماری توجہ کا مرکز بنے رہیں گے ۔لیکن پہلے کچھ زمینی اور تاریخی حقائق کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔
۱۔مشرقی بنگال متحدہ پاکستان کا سب سے زیادہ اکثریتی آبادی والا حصہ تھا۔۲۔مشرقی پاکستان کی آبادی کل پاکستانی آبادی کا ۵۶فیصد جب کہ مغربی پاکستان کی آبادی ملک کی کل آبادی۴۴فیصد تھی۔۳۔مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فاصلہ بائیس سو کلومیٹر تھا۔۴۔۷۰ کے انتخابات میں عوامی لیگ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی ۔اور جتنی مقبولیت عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں حاصل تھی ، اتنی مقبولیت پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں حاصل نہیں تھی ۔اس کے لیے ہمارے سامنے پیمانہ ۷۰ کے انتخابات ہیں ۔وہ کس حد تک شفاف ہوئے تھے یہ الگ بحث ہے ، لیکن ان کے نتائج کو نظرانداز کرناممکن نہیں ۔ ۵۔ملک کا سب سے زیادہ تعلیمی شرح رکھنے والا صوبہ اور پاکستان کی ۵۶ فیصد آبادی کا نوکریوں اور ملک کی بیوروکریسی اور فوج میں تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔۶۔بھٹو عوامی لیگ کے مقابلے میں کم مینڈیٹ والی پارٹی تھی۔لیکن یحیٰ خان کے ساتھ سازباز کے نتیجے میں اسے غیر معمولی اہمیت ملی اوراس کے مقابلے میں شیخ مجیب کو نظر انداز کیا گیا تھا۔۷۔شیخ مجیب کے چھ نکاتی منصوبے کو کوئی اہمیت نہ دی گئی حالانکہ ایسی صورت میں کہ جب خلیج بڑھ گئی تھی حقیقت پسندی کا تقاضا تھا کہ ان کے چھ نکاتی ایجنڈے کو اہمیت مل جاتی۔ چھ نکات درج ذیل تھے۔
1 .        The constitution should provide for a federation of Pakistan in its true sense on the basis of the Lahore Resolution, and parliamentary form of government with supremacy of legislature directly elected on the basis of universal adult franchise .
2 .        Original Federal government shall deal with only two subjects, viz. Defence and foreign affairs and all other residuary subjects shall vest in the federating states .
3.         Two separate but freely convertible currencies for two wings may be introduced, or one currency for the whole country may be maintained. In this case effective constitutional provisions are to be made to stop flight of capital from East to West Pakistan. Separate banking reserve is to be made and separate fiscal and monetary policy to be adopted for East Pakistan .
4 .        The power of taxation and revenue collection shall vest in the federating units and that the federal center will have no such power. The federation will have a share in the taxes for meeting their required expenditure. The consolidated federal fund shall come out of a levy of certain percentage of all state taxes .
(i)       There shall be two separate accounts for foreign exchange earnings of the two wings .
           (ii)      Earnings of East Pakistan shall be under the control of East Pakistan government and that of West Pakistan under the control of West Pakistan government .
(iii) Foreign exchange requirement of the federal government shall be met by the two wings either equally or in a ratio to be fixed .
           (iv)Indigenous products shall move free of duty between two wings .
           (v) The constitution shall empower the unit governments to establish trade and commercial relations with set up trade missions in and enter into agreements with, foreign countries .
6 .        The setting up of a militia or a para-military force for East Pakistan.( ۴۲)
ان چھ نکات کو غور سے پڑھا جائے تو اس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دورمیں بنگلہ دیش کے حالات جس نہج کے تھے، ان میں اس سے زیادہ مناسب حل اور کوئی بھی نہیں تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مشرقی بنگالیوں کا استحصال اس لیول تک پہنچنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ چھ نکا ت کی صورت پیدا ہوجاتی ۔جب انہیں استحصال در استحصال کا شکار بنایا گیا تو پھر ان مخصوص حالات میں مشرقی پاکستانیوں کے ان اخلاقی بلکہ ہر حوالے سے جائز مطالبات کے سامنے سر جھکانا چاہیے تھا۔ان مخصوص اور سنگین حالات میں جو کام مہذب مغربی پاکستانی نہیں کر سکے تھے وہ ایک غیر مہذب بنگالی نے کر دکھایا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ان تمام تھپیڑوں کاشکار تھا جو مغربی پاکستان کی طرف سے ان کے اپنے بنگالی بھائیوں پر روا رکھے گئے تھے ۔ان نکات میں کوئی تندی اور تیزی نہیں ۔بلکہ سلجھا ہوا دماغ مسائل کی کوکھ تک پہنچ گیاہے اور اس کا تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔شیخ مجیب کی شخصیت کے ساتھ اختلافات بے شک ہوسکتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی پاکستان کاکوئی بھی سیاست دان یا جرنیل ان چھ نکات کا نعم البدل پیش نہ کرسکا۔ان نکات میں مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کا استحصال مجسم ہوکر ہمارے سامنے آیاہے ۔مثلاً وفاقی طرزِ حکومت میں مشرقی بنگال کو اپنا نقصان نظر آرہا تھا۔اس لیے کہ اسی بھیس میں وہ لابی مشرقی پاکستان پر اپنے فیصلے ٹھونس سکتی تھی جس کے متعلق یہ خیال تھاکہ اس کا مقصد محض پنجابیوں کے مفادات کا تحفظ ہے ۔لہٰذا قراردادِ لاہور کے تحت ملک کو پارلیمانی طرزِ حکومت بنانے کی سفارش کی گئی تھی ۔مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان کی سرمایہ دارانہ لابی مسلط تھی اپنے سرمایے کا بہاؤ مغربی پاکستان کی طرف روکنے اور یوں معاشی حوالوں سے مغربی پاکستان کی صورت میں جو جونک ان کے کمزور و لاغر جسم پر مسلط تھی انہیں نکال پھینکنے کے لیے علیحدہ علیحدہ کرنسی یا تین کرنسیاں متعارف کرنے کا فیصلہ بھی ضروری تھا۔تاکہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے سرمائے کی وجہ سے استحصال کے نتیجہ میں مزید غریب نہ بن سکے ۔صرف خارجی معاملات کی وزارت اور دفاع کو فیڈریشن کے حوالے کرنے اور باقی تمام شعبے مشرقی اور مغربی پاکستان کو علیحدہ علیحدہ طورپر دینے کا فیصلہ بھی مناسب تھا۔تاکہ یہ یونٹس آزادانہ فیصلے کر کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا سکیں۔او رمشرقی پاکستان خصوصاً بھارت کے ساتھ تجارت کرسکے ۔اس لیے کہ جغرافیائی طورپر ان کے لیے مناسب ملک بھارت ہی تھا۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ فورس کا قیام بھی وقت کی ضرورت تھا۔اس سے ایک طرف مشرقی پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ممکن تھا۔جو ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بالکل غیر محفوظ تھیں تو دوسری طرف اس منظم فورس کے ذریعے فوج کے اثر و رسوخ اور اس کے ذریعے پنجاب کے اثر و نفوذ کو کم کیا جاسکتا تھا۔پنجاب نے فوج کی آڑ میں اور فوج نے اپنے اور پنجاب کے مفاد کے لیے مشرقی پاکستان کا جواستحصال روارکھا تھااس کے سدباب کے لیے اس قسم کی فورس کا قیام ناگزیر تھا۔یہ مطالبہ بھی کتنا مبنی بر انصاف تھا کہ مغربی پاکستان کے وسائل اور کمائی پر مغربی پاکستان کا حق اور مشرقی پاکستان کی کمائی پر مشرقی پاکستان کا حق ہوگا۔یہ ملک کے ایک غریب اور زیادہ آبادی والے یونٹ کا مطالبہ تھا کہ ہمار اخون مزید مت چوسو اور ہمیں معاشی حوالوں سے اپنی حالت سدھارنے دو۔یہ اس اعتماد کی طرف بھی اشارہ کرتاہے جو مشرقی پاکستان کو اپنے زورِ بازو پر تھا اور اس مطالبے سے اس استحصال کی بو بھی آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کے ساتھ روا رکھا تھا۔یہ مطالبہ ایک آفت زدہ یونٹ کی التجا تھی کہ ہماری غربت کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ تم ہو ۔انہیں اپنے امکانات کابھی احساس تھا کہ تجارت کو فروغ دے کر اپنی حالت سدھاری جاسکتی ہے ۔لیکن بیرونی تجارت کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کر کے پاکستان کے اس موقف کو خدشہ تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک بھارت سے کوئی تجارتی لین دین نہ کیا جائے ۔لیکن ایسی صورت میں شیخ مجیب ایسا کرسکتاتھا۔(۴۳)سوال یہ ذہن میں اٹھتاہے کہ کیا ایک کھوئے ہوئے بھائی کے حصول کے لیے ایک اور بھائی کو گنوادینا ضروری تھا؟وقت نے ثابت کردیا کہ پاکستان کا یہ موقف کہ بھارت کے ساتھ تجارت نہ کی جائے تاکہ یہ مجبور ہوکر کشمیر کو پاکستان کے حوالے کر دے کتنا غلط تھا۔اس پالیسی کے تحت کشمیر آج تک حاصل نہیں ہوسکا۔اس دور اور موجودہ پاکستان کی غیر مطمئن صورتحال کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتاہے کہ عوامی لیگ کے مطالبات کس قدر مناسب تھے۔بلکہ باقی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بھی مناسب یہی ہے کہ شیخ مجیب کے اس چھ نکاتی منصوبے کو راہنما بنا کر ان سے روشنی حاصل کی جائے او راس کی روشنی میں موجودہ پاکستان کو موجودہ سیاسی بحران سے مستقل بنیادوں پر نکالا اور بچایا جاسکے ۔
۸۔اسی طرح کچھ عدم توازن فطری طور پر بھی پیدا ہوجاتا ہے ،اور مخصوص حالات میں وہ بڑابھدا نظر آنے لگتاہے ۔مثلاً فوج میں خدمات کے حوالے سے عدم توازن پاکستان بننے کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا، کہیں پہلے سے موجودتھا۔بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کو جس فوج نے ناکام بنایاتھاا س میں اکثریت پنجابیوں کی تھی ۔اوربعدمیں انڈین برٹش آرمی میں ۱۹۱۱ء تک پنجابائزیشن کا سلسلہ چلا۔لیکن ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک ایسے حالات پیداہوتے چلے گئے کہ دوسری ناہمواریوں کے ساتھ یہ ناہمواری بھی بھدی نظرآنے لگی ۔ان مسائل پر قابو پانے کے لیے بروقت فیصلے نہیں کیے گئے ۔صدر نے فوج میں بنگالیوں کی تعداد بڑھا نے کافیصلہ بھی کیا لیکن ایک تو فیصلہ بہت بعد میں کیاگیا۔دوسری بات یہ کہ اس فیصلے سے بھی عدم ہمواری کا ازالہ ممکن نہیں تھا۔اسی وجہ سے ایسٹ بنگال رجمنٹ کا کمانڈنٹ(کرنل موحجمدار) صدیق سالک سے کہتاہے :
’’بنگالیوں کا کوٹہ دگنا کرنے کا کیا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتے ہو ؟چھوڑو اس کو ۔کیونکہ اگر صدر کے حکم پر سوفیصد عمل ہو جائے تو بھی افواجِ پاکستان میں بنگالیوں کی تعداد بمشکل پندرہ فیصد ہوجائے گی۔حالانکہ وہ قومی آبادی کا ۵۶فیصد ہیں ۔‘‘(۴۴)
اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کی طر ف سے ایسے غلط فیصلے ہوئے، جن کا بروقت کوئی مداوا نہ کیا گیا اور یوں نفرت کے بیج جب پھلے پھولے اور تناوردرختوں میں تبدیل ہوئے تو پھر ان کاکوئی بھی علاج ممکن نہ ہوسکا۔پاکستان کے قیام سے لے کر سقوط تک کوئی ایک اقدام بھی ایسادیکھنے کو نہیں ملتاجسے پاکستانی حکومت کی دانشمندی پر محمول کیا جاسکے۔میکاولی نے خطرات کے ضمن میں بڑے پتے کی بات کہی ہے اس کا خیال ہے کہ خطرات تپ دق کی مانند ہوتے ہیں۔شروع میں تشخیص مشکل مگر علاج آسان ہوتاہے ۔آخر میں تشخیص آسان مگر علاج مشکل ہوجاتاہے ۔خطرات کے وقت سے پیشتر ادراک کے لیے جس دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ہمیں پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں اور انتظامیہ کے ہا ں بہت کم دیکھنے کو ملی ہے ۔سب سے بڑا اور سب سے اہم غلط فیصلہ تو قائداعظم جیسے دانشمند انسان سے ہوا تھا ۔قومیں زبانوں کے ذریعے نہ تو جڑی ہیں اور نہ ہی جڑ سکتی ہیں ۔انسانی تاریخ میں ہم کسی ایک بھی ایسی قوم کی مثال پیش نہیں کرسکتے ،جہاں کسی بیرونی زبان نے مادری زبانوں کی جگہ لی ہو اورمحض زبان کسی قوم کے اتحادکا ذریعہ بنی ہو۔حیرت ہوتی ہے کہ زمینی حقائق کا اتنا گہرا ادراک رکھنے والی شخصیت اتنی بڑی غلطی کیسے کر گئی ہے۔باوجودیکہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی اکثریت تھی اور ان کی مادری زبان بنگالی تھی ، لیکن ان پر اردو مسلط کی گئی۔بنگالی زبان کا رسم الخط ہی ارد ومیں نہیں ہے لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ سول سروسز کے امتحانات اور فوج میں بنگالیوں کی شرح خطرناک حد تک کم ہوگئی ۔ملکی انتظامیہ میں جب یہ مسئلہ خاصاسراٹھانے لگا تو ایوب خان نے بنگالی بیوروکریٹ کی تعدادبھی بڑھائی مگر لوگوں نے کہا یہ حکومت کے منظورِ نظر لوگ بطورِ سجاوٹ رکھے جارہے ہیں ۔(۴۵)
پاکستانی حکومت کا دوسرا اہم او رغلط فیصلہ انتقالِ اقتدارمیں تعطل کا تھا۔الیکشن کے باوجود بھی حکومت عوامی نمائندوں کے حوالے نہیں کی گئی۔(۴۶) اور سیاسی اقتدار میں تعطل نے اس قدر طول پکڑا کہ ۷دسمبر ۱۹۷۰ء کو انتخابات ہوئے تھے اور ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک حکومت اقتدار کی منتقلی میں ناکام رہی ۔چونکہ بنگال کا تمام ووٹ شیخ مجیب کے حصے میں آیاتھا، اوروہ ملک کی بھاری اکثریت کے ساتھ جیت چکے تھے ، اس لیے انتقال کی عدم منتقلی نے بنگالیوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ کردیا۔۳ مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا تو مشرقی پاکستان میں یہ تاثرموجود تھا کہ یحیٰ اور بھٹو نے سازش کر لی ہے ۔قومی اسمبلی کا اجلاس ہر گز نہیں ہو گا۔(۴۷)
ٍ           سقوطِ ڈھاکہ کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی(جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے) کہ پاکستانی حکومت اور بالخصوص فوج اس نازک اور سنگین مسئلے کا حل بھی طاقت کے بے دردانہ اور وحشیانہ استعمال کے ذریعے چاہتی تھی ۔دلوں کے درمیان فاصلے بڑھ جائیں اور کسی علاقے یا ملک کے باسی اپنے آپ کو غیر یا اجنبی محسوس کرنے لگیں تو پھر ایسی صورت میں وحدت کا قیام طاقت کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا۔طاقت کے ذریعے چھوٹے موٹے ،وقتی اور ہنگامی نوعیت کے فتنے دبائے جاسکتے ہیں ۔لیکن سات کروڑ عوام کی امنگوں کو دبایانہیں جاسکتا۔ہمارے لیڈروں کی حماقت دیکھیے کہ جب ۲۵مارچ کو فوجی آپریشن شروع ہوااور شیخ مجیب گرفتار کر لیے گئے تو بھٹو نے ہوائی ائیر پورٹ پر اترتے ہوئے اس خبر کو سن کر کہاتھا ’’شکر ہے پاکستان بچ گیاہے ‘‘(۴۸)ناول کا ایک کرداربھی فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے کہتاہے کہ اگر سیدھی انگلیوں گھی نہ نکلا تو ہم ان سیاہ فام بونوں کو سیدھا کر دیں گے ۔(۴۹)اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھتا چلا گیا۔ناول میں اس بنیادی نکتہ پر بات کی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ناول کے ایک کردارظاہر نے ۲۵مارچ کے بعد اپنے علاقے کو بنگلہ دیش کے علاوہ اور کچھ نہ کہا۔(۵۰)
سقوطِ ڈھاکہ کی ایک اہم وجہ(جیسا کہ کہا گیا ہے) سیاسی افہام وتفہیم کے حوالے سے ناکامی بھی تھا ۔مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے تھالیکن کچھ وجوہات کی بناپرایسا ممکن نہ ہوسکا ۔پہلی وجہ یحیٰ خان اور سیاسی رہنماؤں کے اپنے اپنے ذاتی اور وقتی مفادات تھے ۔ ایسی حالت میں نیک نیتی کا فقدان ہو تاہے اور نتیجتاً عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے ۔ناول میں کئی ایک مقام پر اس خواہش کا اظہار کیا گیاہے کہ سیاسی تصفیہ ہوجاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ناول کے ایک کردار کے بقول ایسی صورت میں نہ تو فوج کی تذلیل نہ ہو تی ۔اور نہ ہی اتنے بے گناہ’’ بہاری اور بنگالی‘‘ کے نام پر مارے جاتے۔(۵۱)حالات خراب ہونے سے پیشتر زری بھی یہ سوچتی ہے کہ اگر عقلمندی سے کام لیا گیا تو مسئلہ حل ہو سکتاہے ۔ورنہ یہاں کی فضا میں بڑی خطرناک بو موجود ہے ۔(۵۲)بدقسمتی سے اس خطرناک بو کو ختم کرنا تو درکنار اسے محسوس تک نہ کیا گیا۔اوروہ حالات پیداہوئے کہ جس پر بعد میں قابو پانا نہ تو فوج کے لیے ممکن رہااور نہ ہی سیاسی قیادت کے لیے ۔
ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ کیا سارے بنگلہ دیشی محض بنگلہ دیش کا قیام چاہتے تھے ، یا وہ ان حالات سے کچھ اور بھی آس لگائے بیٹھے تھے ۔بنگلہ دیشیوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی تھی جو بنگال میں روسی طرز کا سوشلسٹ انقلاب چاہتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ جلسوں میں جب یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ شیخ مجیب کا نعرہ کیا ہے ۔جواب میں آتاسماج تنترا۔(۵۳)یعنی اشتراکی انقلاب ۔ ناول کے کئی ایک کردار ان جذبات اور احساسات کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ناول کا ایک کردار میلوکہتاہے:
 ’’ ہم عوامی لیگ کے انتہاپسندوں میں سے ہیں ۔ہم نے ۱۹۷۰ء میں ایک ریزولیشن میں سائینٹی فک سوشلسٹ انقلاب لانے کا عہد کیا تھا۔اور آہستہ آہستہ شیخ مجیب پر پوری طرح اثر جمالیا تھا۔اب بھی ہم شیخ مجیب کی میانہ روی والوں کی ہر گز نہیں چلنے دیں گے ۔بنگلہ دیش بنا تو اس کا نام سیکولر سوشلسٹ اسٹیٹ آف بنگلہ دیش ہو گااور اس کی حکومت سوشلسٹ انقلاب لانے کی ذمہ دار ہوگی ورنہ ہم اس کا تختہ الٹ دیں گے ۔‘‘(۵۴)
اسی طرح مصطفی جمال حید ر سابق طالب علم لیڈر اپنی تقریر میں کہ رہاتھا:
’’پرانے لیڈر اپنے راستے نہ ہٹنے پائیں ورنہ ہم جیسے جیالے عوام کا کارواں ان کو کوڑے کے ٹین میں پھینک کر آگے بڑھ جائے گا۔جن لیڈروں نے کہاتھاکہ بانس کی لاٹھیاں اپنے پاس رکھو، تاکہ استحصال کرنے والوں کے خلاف استعمال کر سکو، اب اگر وہ عوام کے مطالبات سے پیچھے ہٹے تو یہ لاٹھیاں عوامی لیگ کے ان لیڈروں پر استعمال کی جائیں گی ۔‘‘(۵۵)
یوں عوامی لیگ میں مختلف فکری دھاروں کے لوگ شامل ہو گئے تھے اور انہیں عوامی لیگ سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔چونکہ بنگال میں غربت کی سطح انتہائی پست تھی ، اس لیے وہاں کا دانشوراور تعلیم یافتہ طبقہ اس علاقے کی بقا اور خوشحالی کے لیے اشتراکی انقلاب کو ناگزیر خیال کرنے لگا تھا ۔
مشرقی بنگال میں جو پارٹی سرخ انقلاب کا نعرہ مستقلاً لگاتی چلی آئی تھی وہ مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی تھی ۔لیکن بدقسمتی سے مولانا بھاشانی اور اس کی پارٹی نیپ نے ۱۹۷۰ء  میں عین آخری لمحات میں انتخابات سے بائیکاٹ کیا اس سے بھی عوامی لیگ کو بڑا فائدہ پہنچا۔(۵۶) بائیکاٹ کی وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں سیاسی انتخابات اس غریب ملک کے عوام کے مسائل کا حل نہیں تھے ۔بلکہ ان کے خیال میں ملک کے معاشی اور اقتصادی ڈھانچے میں ایک بہت بڑی اور بنیادی تبدیلی ہی یہاں کے عوام کو خوشحال بناسکتی تھی۔شاید مستقبل کے خطرات کا انہیں علم نہیں تھا یا حالات بعد میں ایسے بنتے چلے گئے جو سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوئے ۔لیکن اس کا ایک بڑانقصان پاکستان کو اس حوالے سے ہوا کہ اس سے شیخ مجیب کے مینڈیٹ میں اضافہ ہوگیا۔یہ سیاسی جماعتوں کا بچگانہ پن ہوتاہے کہ وہ انتخابات سے بائیکاٹ کر لیتے ہیں ۔اس قسم کے بچگانہ پن کا ایک مظاہرہ جماعت اسلامی بھی حال ہی میں کر چکی تھی ۔اور نتیجہ یہ ہواکہ یہ پارٹی آج کل حالتِ نزع میں ہے ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ شیخ مجیب تمام بنگالیوں کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے اگر جماعت اسلامی اور نیپ اس الیکشن سے بائیکاٹ نہ کرتی تو نتیجہ بہت حدتک مختلف ہوتا۔لہٰذا مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی اکثریت میں ان دوپارٹیوں کی غلطیاں اور عوامی لیگ کی وہ کاروائیاں بھی شامل تھیں جنہوں نے جماعت اسلامی ، نیپ پاکستان، ڈیموکریٹک پارٹی اور ان میں سے بالخصوص جماعت اسلامی کے جلسوں میں دنگا فساد کر کے ان جلسوں کو ناکام کرنے اور یوں ان کی قوت توڑنے کی کوشش کی ۔اس طریقۂ کار کے تحت انہوں نے جماعت اسلامی کو بہت نقصان پہنچایا۔(۵۷)اس حوالے سے شیخ مجیب کافی زیرک واقع ہوئے تھے اور یوں ان کے بڑے بڑے حریف سیاسی دنگل میں ان کو چیلنج کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے ۔(۵۸)
۷۱ ء کے سانحے میں بھی پاکستانی حکومت اور فوج کا رویہ روایتی ہی رہاہے ۔وہی روایتی الزام تراشی ۔یہی وجہ تھی کہ یحیٰ خان نے ۲۸مارچ کی تقریر میں شیخ مجیب کو غدار کہا تھا اور اعلان کیا تھاکہ اسے اپنے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔(۵۹)ظاہر ہے کہ مشرقی پاکستان کی اتنی ہر دلعزیز شخصیت جو مشرقی پاکستان میں قابلِ رشک اکثریت کے ساتھ جیت کر آئی ہے ، اس پر غداری کا الزام لگایاجائے گا تو مشرقی پاکستان میں کم ازکم اس کا کچھ اچھا نتیجہ مرتب نہیں ہوگا۔مشرقی پاکستانیوں کو محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر کوئی شخص ان کے حقوق کی بات کرتاہے اور ان کے لیے آواز اٹھاتاہے تو وہ شیخ مجیب الرحمٰن ہے ۔شیخ مجیب الرحمٰن سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں ۔یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے میں شیخ مجیب کی جذباتیت نے بھی اہم کردار اداکیاہے۔اور بعض مقامات پر اس نے شعوری طور پر بھی حالات خراب کرنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن ان سب کے باوجود اس سے نمٹنے کے لیے جس دانشمندی کی ضرورت تھی ، وہ مغربی پاکستانی لیڈروں کے ہاں ناپید تھی ۔
ناول میں ایک دو مقامات پر شیخ مجیب کے حق میں کہا گیاہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شیخ مجیب نے ممکنہ حدتک برداشت سے کام لیاتھا۔مثلاً ۷مارچ کو ہونے والی تقریر سے بنگلہ دیشیوں کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں اور وہ سمجھ رہے تھے کہ آج شیخ مجیب بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیں گے۔رضیہ فصیح احمد کے الفاظ میں
’’ہزاروں لوگوں کو یہی امید تھی کہ آج بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان ہو گا۔مگر پرچم لپٹا رہ گیا۔شیخ مجیب کی تقریر توپ تفنگ نہیں ، پٹاخے کی طرح پھس پھسا کر رہ گئی تھی ۔ان کا حکم تھا اس لیے لوگ بغیر کسی اشتعال اور شرانگیزی کے لوٹ رہے تھے ۔‘‘(۶۰)
لیکن روایتی الزام تراشانہ سوچ شیخ مجیب کو اس کا کوئی کریڈیٹ نہ دے سکی ۔پاکستان کے حق میں ان کے اٹھائے گئے اس اقدام کو بھی سراہنے کی بجائے اسے شیخ کی کمزوری قرار دیا اور اس کی مختلف تاویلات شروع کیں ۔لہٰذا صدیق سالک کے بقول کسی نے اسے یحیٰ کی بروقت مداخلت پر محمول کیا۔کسی نے اسے جنرل راجہ کی دھمکی کا اثر بتایااور کسی نے اس کا سلسلہ فارلینڈ سے ملایا ۔لیکن کسی نے اسے مجیب الرحمٰن کی حب الوطنی کی دلیل نہ سمجھا۔(۶۱)
یہ بات درست کہ شیخ مجیب سیاسی قلابازیاں کھانے میں ماہر تھے ۔وہ کسی بھی وقت بدل سکتے تھے لیکن ان میں لچک بھی تھی ۔اگر ان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ بات چیت ہوتی تو شاید معاملہ اتنا آگے نہ بڑھتا۔ناول کا ایک کردار مولانا اس حقیقت کو محسوس کرتاہے ۔اس موقع کی مناسبت سے مولانا کہتے ہیں :
’’دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا شیخ نے آزادی کا اعلان کیا؟۔اگر ان کے دل میں کھوٹ ہوتی تو ان کو بہت سے مواقع ملے مگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھا یا ۔اب اگر لوگ انہیں مجبور کرتے رہے اور آخر وقت تک مذاکرات ناکام  ہوئے تو اس میں ان کا کیا قصور۔‘‘(۶۲)
سقوطِ ڈھاکہ کی طرف ایک اور اہم فیکٹر نے بھی راہ ہموار کی تھی ۔ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے ناتے ضروری تھا کہ حکومت میں ملازمتوں کی شرح مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ۔اگر زیادہ نہ بھی ہو تو کم ازکم برابر تو ہونی چاہیے ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مشرقی بنگال کی اکثریت کا اس حوالے سے کوئی خیال نہیں رکھا گیابلکہ انہیں ملازمتوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ۔اگر اس دور کے اعداد و شمار پر نظردوڑائی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ملک کے دولخت ہونے کا عمل تو ۷۱ء سے بھی بہت پہلے عمل میں آنا چاہیے تھا۔اس لیے کہ ملازمتوں کی اتنی کم شرح کے ساتھ بنگالیوں کے لیے ناممکن تھا کہ وہ متحدہ پاکستان میں رہتے ۔مریم مستور کے مطابق پاکستان کنسٹیٹونٹ اسمبلی  ڈیبیٹس ۱۹۵۶ء کے مطابق ۱۹۵۵ء میں سول اور فوجی انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پرکام کرنے والے بنگالیوں اور مغربی پاکستانیوں کی ملازمتوں کی شرح کچھ اس طرح تھی ۔سینٹرل سیکرٹریٹ کے اعلیٰ عہدوں میں سے سیکرٹری کے عہدے پر کام کرنے والا کوئی بھی مشرقی پاکستانی نہیں تھا بلکہ ۱۹ سیکرٹریوں میں سے تمام ترکا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔جائنٹ سیکرٹری مشرقی پاکستان تین جبکہ مغربی پاکستان اڑتیس، ڈپٹی سیکرٹری مشرقی پاکستان ۱۰ جبکہ مغربی پاکستان ۱۲۳، انڈر سیکرٹری مشرقی پاکستان اڑتیس جبکہ مغربی پاکستان ۵۱۰تھے۔فوج کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی ۔مغربی پاکستان سے لیفٹننٹ جرنیلوں کی تعداد تین جبکہ مشرقی پاکستان سے کوئی بھی نہیں تھا۔مغربی پاکستان سے میجرجنرل بیس جبکہ مشرقی پاکستان سے ایک بھی نہیں تھا۔بریگیڈئیر مغربی پاکستان سے چونتیس جبکہ مشرقی پاکستان سے صرف ایک ، کرنل مغربی پاکستان سے انچاس جبکہ مشرقی پاکستان سے صرف ایک ،لیفٹننٹ کرنل مغربی پاکستان سے ۱۹۸ جبکہ مشرقی پاکستان سے صرف دو، میجرمغربی پاکستان سے ۵۹۰ جبکہ مشرقی پاکستان سے صرف دس، نیول آفیسرز مغربی پاکستان سے ۵۹۳ جبکہ مشرقی پاکستان سے صرف ۷، ائیر فورس آفیسرز مغربی پاکستان سے ۶۴۰ جبکہ مشرقی پاکستان سے صرف چالیس تھے ۔(۶۳)          ۱۹۶۶ء میں مغربی پاکستان میں گزٹڈ آفیسرز کی تعداد۳۷۰۸ جبکہ مشرقی پاکستان میں ۱۳۳۸ تھی۔اسی طرح نان گزٹڈ آفیسرز کی تعداد مغربی پاکستان میں ۸۲۹۴۴ جبکہ مشرقی پاکستان میں صرف۲۶۳۱۰ تھی۔(۶۴)اور عوامی لیگ اپنے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کے لیے پنجاب اور پنجابیوں کو ذمہ دار قرار دے رہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ:
Awami League was aggressively vocal for the rightful share of East Pakistan within Pakistan. ’Saala Punjabi’ was a word on street in East Pakistan for Punjabies who were alleged to ‘eat’the share of East Pakistanis . ( (۶۵
دفاعی نقطۂ نظر سے بھی مشرقی پاکستانی سرحد کو نظرانداز کر دیا گیا۔فوج کی تمام تر توجہ مغربی پاکستان کی سرحد پر تھی اور ۱۹۶۵ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کی سرحدیں ہندوستان جارحیت کے سامنے مکمل غیر محفوظ تھیں ۔ہندوستان نے اس سے بروقت فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستانیوں کے دلوں میں اپنے لیے سافٹ کارنر پیداکرنے میں کامیاب ہوگئے ۔یہی وجہ تھی کہ ۱۹۵۶ء میں پاک فوج کے کمانڈر ان چیف ایوب خان نے کہاتھا:
"The defence of East Pakistan does not lie in that part of the country. So long as the Western base in not strong, it remains indefensible.”(48) Eventually, in the 1965 war with India, East Pakistan was left defenceless. (۶۶)
ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے اور وہ یہ کہ جو عنصر مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے بڑااورہنگامی محرک بنا وہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ کو اقتدار کی عدم منتقلی تھا۔شیخ مجیب کو اقتدار کی عدم منتقلی اس دور کی حکومت کی سب سے بڑی نااہلی ہے ۔بنگالی پاکستان کی مجموعی آبادی کا ۵۶فیصد تھے ۔لہٰذا عقلی اور منطقی حوالوں سے ۴۴فیصد آبادی کے لیے یہ ناممکن تھاکہ وہ ۵۶فیصد کی آبادی کو گرفت میں لے سکے یا اپنے ماتحت رکھ سکے۔دنیا میں جس نظام کا سکہ پچھلی صدی میں بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگا ہے وہ جمہوریت ہے ۔یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ ملک میں الیکشن کے اس قسم کے نتائج اس وقت سامنے آئے جب ملک فوجی اقتدار کے شکنجے میں ابھی پھنسا ہواتھا اور یہ انتخابات ملک کے پہلے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات تھے ۔اس قسم کا عوامی مینڈیٹ اگر عوامی لیگ کو ۷۰ء کے بعد اس وقت مل جاتا کہ جب ملک میں سیاسی عمل پندرہ بیس سال تک چل چکا ہوتا تو پھر پاکستان کے دولخت ہونے کی نوبت نہ آتی ۔بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ۷۰ء میں فوج انتخابات کے دوران تو غیر جانبدار رہی لیکن انتخابات کے بعد غیر جانبدار نہ رہ سکی ۔اور اس کا جھکاؤ آہستہ آہستہ بھٹو کی طرف ہوتا چلا گیا۔سوچنے کی بات ہے کہ جب ملک کی سب سے بڑی مینڈیٹ (اور وہ بھی محض ایک مخصوص صوبے کی)کو محض ذاتی اقتدار کے لیے نظرانداز کرکے کم مینڈیٹ کو غیر معمولی اہمیت دی جائے گی۔اور ملک کی فضاؤں میں پہلے ہی سے دونوں وحدتوں کے درمیان عدم اعتماد موجود ہو ۔۵۶فیصدی آبادی ملازمتوں سے دور رکھی گئی ہو، جغرافیائی حوالوں سے فاصلے موجودہوں تو پھر کس بنیادپر کہاجاسکتاہے کہ ایسی صورت میں پاکستان متحدہ رہ سکتا تھا۔ جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہوئے جب الیکشن کروائے گئے تو پھر ان کے نتائج کو تسلیم بھی کیاجاناچاہیے تھا۔وہ فیصلہ یہی تھا کہ بنگالی اکثریت نے جس سیاسی قوت پر اعتماد کیاہے اس کا احترام کیاجائے ۔کیا موجودہ پاکستان میں صوبہ پنجاب کی اکثریت نے وفاق میں دو تین مرتبہ حکومت نہیں بنائی ۔لیکن چونکہ اس وقت بنگال کے لیے نیک نیتی کا فقدان تھا اس لیے جب الیکشن کے نتائج کی صورت یہ مسئلہ سامنے آیااور عوامی لیگ ایک بہت بڑی سیاسی قوت کے طورپر ابھری یا دوسرے لفظوں میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کی پاکستان پرحکومت کے امکانات روشن ہوگئے تو برسرِ اقتدار فوجی قیادت کو یہ بڑاناگوار گزرا۔اس بات کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ یحیٰ خان کے ایک معتمد جرنیل نے یحیٰ خان سے کہاتھاکہ آپ بے فکر رہیں ۔ہم ان کالے حرامیوں کو اپنے اوپر ہرگز حکومت نہیں کرنے دیں گے ۔(۶۷)
فوج کا بھیانک چہرہ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں کسی حد تک بے نقاب ہو گیا تھا۔رپورٹ میں جنرل یحیٰ ، جنرل عبد الحمید، لیفٹننٹ جنرل ایس ایس جی ایم ایم پیرزادہ میجر جنرل عمر، لیفٹننٹ جنرل گل حسن ، میجر جنرل مٹھا کے خلاف کورٹ مارشل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ۔اور ان پر یہ الزام لگایا گیاتھاکہ انہوں نے مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب سے غیر قانونی طورپر اقتدار چھینا۔ بعد میں انہی افسران نے بعض سیاسی جماعتوں کواس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ۳ مارچ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیں ۔(۶۸)فوج کا یہ آسیب کچھ اس طرح سے ملکی سیاست پر چھایا ہواتھا کہ کامیاب فوجی آپریشن کے بعدجب حالات کنٹرول میں آگئے تھے ملک کی سیاسی قیادت مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرسکی۔اس لیے کہ اس وقت کی فوجی انتظامیہ اس قسم کے کامیاب مذاکرات کے حق میں بالکل نہیں تھی جس میں صدریحیٰ کی کرسیٔ صدارت پر کوئی آنچ آتی ہو۔اور یحیٰ خان چاہتے تھے کہ اقتدارشیخ مجیب کومنتقل ہو اور اسے صدر رہنے دیاجائے ۔(۶۹)لیکن ایسی صورت بھٹو کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ناول نگارنے اس ضمن میں بنگلہ دیشیوں کی سیاسی محرومیوں کا مؤثر تجزیہ کیا ہے۔ناول کے ایک کردارمولانا کے خیال میں ’’اس طرح انہیں یہ احساس ہوا کہ پہلے انہیں ہندوؤں نے کچلا پھر انگریزوں نے جی بھر کر دبایا۔پاکستان بننے کے بعد اکثریت میں ہونے کی وجہ سے حکومت کرنے کا حق ان کا تھا ۔آپ نے انہیں وہ حق نہ دیا تو انہوں نے دوسرا حق استعمال کیا۔آپ تشدد پر اترا ٓئے ۔حالاں کہ انصاف سے دیکھا جائے تو شروع میں بھی بہت سے بنگالی مسلمان لیڈروں نے آزاد ریاستوں کی طرف داری کی تھی اور دو ریاستوں کے خیال کوآگے بڑھایاتھا۔۱۹۴۰ء کی قردادِ پاکستان کے بعد بھی یہ موضوع اکثر زیرِ بحث رہا۔‘‘(۷۰)
سقوطِ ڈھاکہ کی ایک اور اہم وجہ بھارت کی بروقت اور مؤثر فوجی جارحیت بھی تھی۔جس کے لیے وہ ایک عرصے سے مناسب موقع کے انتظار میں تھا۔وہ ایک طویل عرصے سے پناہ گزینوں کا بہانہ بناکر آپریشن سرچ لائٹ کے خلاف شور مچارہاتھا۔اور عالمی سطح پر مؤثر پروپیگنڈہ میں مصروف تھا۔اسی طرح پاکستانی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے ہندوستانی علما سے فتوے لیے گئے ۔اور ریڈیو پر ان کی تقریریں ریکارڈ کی گئیں جن میں یہ کہا جاتاتھاکہ ’’یہ جہاد نہیں ہے۔بنگلہ دیش کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں اور یہ آزادی ان کا حق ہے ۔‘‘(۷۱)
فوجی آپریشن کے بعد شیخ مجیب نے بھی عسکری قوت کی تنظیم کے حوالے سے سوچنا شروع کیاتھا۔یہی وجہ تھی کہ دورانِ آپریشن ہی اس نے ایم اے جی عثمانی کو جو فوج سے کرنل ریٹائرڈ ہوچکے تھے ، سے مدافعت کے لیے ایک فورس تیار کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔سابق فوجی ، عوامی لیگ کے رضاکار، اور یونیورسٹی کے طالب علم اس میں بھرتی ہوئے ۔اسلحہ خانوں کو لوٹ کر اسلحے کی کمی پوری کی گئی ۔انصار فوج کی ہزاروں رائفلیں ان میں بانٹ دی گئیں ۔کچھ اسلحہ بیرونِ ملک بھارت سے بھی آیا۔(۷۲)
ادھر پاکستانی فوج بھی کچھ تو لسانی بنیادوں پر اور کچھ مستقبل میں بننے والے وزیر اعظم (۷۱ء کے انتخابات میں شیخ مجیب ہی اکثریتی پارٹی تھی ۔اوریوں شیخ مجیب کے اقتدار میں آنے کاامکان تھا)سے کچھ ذاتی فوائد کی آس لگا کر ان کے ساتھ ہمدردیاں رکھتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ فوج کی فولادی تنظیم بھی اندرونی طور پر ہل گئی تھی ۔فوج میں سے کئی ایک عوامی لیگ کی فوجی کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ شرکت کرتے تھے ۔(۷۳)اس کے ساتھ ساتھ آپریشن کو طول دیا گیا اور دو فوجی آپریشنوں کے درمیان سکون کے وقفے کو سیاسی مذاکرات کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔اس کے برعکس بے مقصد اور دھوکہ دینے والے حربے استعمال کیے گئے ۔اور یوں یہ چند مہینے ضائع کیے گئے جس میں بھارت نے مکتی باہینی کو منظم کیا اور انہیں تربیت دی ۔(۷۴)غیر ذمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔اور اسمبلی میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے ، خیبر سے کراچی تک آگ لگانے اور ادھر تم ادھر ہم جیسے جذباتی بیانات سامنے آرہے تھے ۔عسکری قیادت کے لیے بھی ملکی دفاع سے زیادہ اپنی خواہشات کی تسکین ہی بنیادی اہمیت رکھتی تھی ۔لہٰذا یحیٰ خان کے حوالے سے تو خودفوجی قیادت یہ تسلیم کرتی ہے کہ اپنی ایک منظورِ نظر کی خاطر انہوں نے ڈھاکہ جاکر معاملات کو نمٹانے کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ایک پروگرام منسوخ کر دیاتھا۔باقی فوجی جرنیلوں کا بھی یہ حال تھاکہ ۱۱ اور ۱۲ دسمبر کی شب جنگ کے دوران جب گولے اس(ایک فوجی جرنیل) کی فوج پر گر رہے تھے تو اس کے بنکر میں عورتیں موجودتھیں ۔(۷۵)جسٹس حمودالرحمٰن کے بقول جنرل نیازی اپنی جنسی بے راہروی اور مشرقی پاکستان سے پان سمگل کرنے کے لیے بدنام تھا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے ماتحتوں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنے میں ناکام رہا۔(۷۶)۔جرنیل اعظم (جنرل یحیٰ)کا یہ حال تھا کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی رو سے گلبرگ لاہور میں قحبہ خانہ چلانے والی سعیدہ بخاری سے اس کا تعلق تھا۔یہ قحبہ خانہ سینی ٹوریا ہومز کے نام پر چلایاجاتاتھا۔اسی طرح سیالکوٹ میں قحبہ خانہ کی مالک ثمینہ فردوس سے بھی ان کا تعلق بتایاگیاہے ۔گیارہ دسمبر کی رات جب بھارتی فوج پاکستانی پوزیشنوں پر گولہ باری کر رہی تھی بریگیڈئیر ہدایت اللہ نے مقبول پور سیکٹر میں اپنے مورچے میں کچھ عورتوں کی دعوت کی ۔(۷۷) عام فوجیوں کی اخلاقی سطح یہ تھی کہ دورانِ آپریشن بنکوں کو لوٹا گیا اور عورتوں کی عصمت دری کرکے ان کی نسلیں بدلنے کی کوشش کی گئی ۔قومی سانحات اچانک نہیں آتے بلکہ دہائیوں تک کی غلطیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔اور بعض حالات میں خلوص ڈوبتی قوم کی ناؤ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیتی ہے ۔لیکن جب استحصالی قوتیں خود حکمران ہوں یا حکمران ان کے پشت پناہ  ہوں، ہر شخص کی اپنے مفادات پر نظر ہو، تو ایسی صورت میں ان سے خلوص دل اور خلوص نیت کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے ۔ناول سائنسی انداز سے ان تمام مسائل کا احاطہ تو نہیں کرتا اس لیے کہ بعض مقامات پر گنجلک پن کااحساس ضرور ہوتا ہے لیکن ناول نگار کا نقطہ نظر اکثر جذباتی ہی رہتا ہے ا س لیے ناول ’’صدیوں کی زنجیر‘‘ محض پاکستان کے تاریخی واقعات اور خصوصاً سقوطِ ڈھاکہ کے لیے انڈیکیٹرکاکام ضرور سرنجام دیتا ہے۔لیکن ایسابے لاگ تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے جس کی وجہ سے مسائل کی تفہیم بھی ممکن ہوسکے۔اگرچہ مولانا نامی کردار کے ذریعے حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی گئی  ہے،لیکن وہ ناکافی ہے ۔ناول میں دکھائی گئی جنگ کی تصویریں بھی نامکمل ہیں اور جذباتیت سے بھرپور ہیں ۔اسی طرح زری کے کردار کی روشنی میں اس ذہنی کشمکش کو ضرور دکھایا گیاہے جو مشرقی پاکستان میں مقیم مغربی پاکستانیوں کے دلوں اور ذہنوں میں ان مخصوص حالات کی پیداوار ہے ۔لیکن مسائل کا تجزیہ کرنے کے لیے جس ژرف نگاہی کی ضرورت ہوتی ہے وہ صدیوں کی زنجیر میں کسی حد تک کمزور ضرور ہے ۔صرف اتنا ہوا ہے کہ ناول کے قاری کے ذہن میں مختلف واقعا ت اور حالات کا مطالعہ سوالات ضرور اٹھاتا رہتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان واقعات کی چھان پھٹک کی خواہش ضرور بیدار ہوتی ہے ۔تقسیم بنگال کے حوالے سے صدیوں کی زنجیر غیر معمولی کہانی تو نہیں لیکن ایک اچھی کہانی ضرور ہے اس لیے کہ اس کے ذریعے سے اس دور اور اس کے مسائل پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ سوچاجاسکتاہے اور اپنے سیاسی ، فوجی(بالخصوص) اور سویلین اداروں کی غلطیوں اور اس کے نیتجہ میں اس عظیم سانحے کی محرکات کا پتہ چلایا جاسکتا ہے یا کم ازکم دھندلے راستوں کاتعین ممکن ہے جس کے تاریک اور غیر واضح گوشے تحقیق کے ذریعے منور کئے جاسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر ولی محمد لیکچرار شعبہ ٔ اردو جامعہ پشاور

 

حوالہ جات
۱۔        رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ ص،۳۸
۲۔ایضاً،ص،۳۹       ۳۔ایضاً،ص۔۴۰     ۴۔ایضاً،ص،۵۱           ۵۔ایضاً،ص،۴۵
۶۔ایضاً،ص،۴۳      ۷۔ایضاً،ص،۵۶      ۸۔ص،۲۶۱،۲۶۲           ۹۔ایضاً،ص،۴۵
۱۰۔ایضاً،ص،۹۰      ۱۱۔ایضاً،ص،۵۶۰    ۱۲۔ایضاً،ص،۵۷۶           ۱۳۔ایضاً،ص،۷۰
۱۴۔ایضاً،ص،۱۱۵
۱۵۔      حسن نثار،دنیانیوز،https://www.youtube.com/watch?v=J-7j6O_whYA ، تاریخ ، ۸اگست ۲۰۱۶ء
۱۶۔       رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۹۵
۱۷۔ایضاً،ص،۱۹۰    ۱۸۔ایضاً،ص،۲۶۶    ۱۹۔ایضاً،ص،۶۰           ۲۰۔ایضاً،ص،۶۰
۲۱۔ایضاً،ص،۷۳     ۲۲۔ایضاً،ص،۲۶۲   ۲۳۔ایضاً،ص،۵۳
۲۴۔      صدیق سالک ،میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ص،۱۸ (https://archive.org>mainnedhakadobtaydekha )
۲۵۔      رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۲۶۲
۲۶۔ایضاً،ص،۸۷    ۲۷۔ایضاً،ص،۸۸    ۲۸۔ایضاً،ص،۸۶           ۲۹۔ایضاً،ص،۱۰۰
۳۰۔ایضاً،ص،۵۵۹   ۳۱۔ایضاً،ص،۱۴۶    ۳۲۔ایضاً،ص،۱۵۱           ۳۳۔ایضاً،ص،۲۱۱
۳۴۔ایضاً،ص،۶۲۸   ۳۵۔ایضاً،ص،۶۲۸
۳۶۔      حسن نثار،دنیانیوز،https://www.youtube.com/watch?v=J-7j6O_whYA ، تاریخ ، ۸اگست ۲۰۱۶ء
۳۷۔     رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۵۵
۳۸۔ایضاً،ص،۳۶    ۳۹۔ایضاً،ص،۳۷    ۴۰۔ایضاً،ص،۷۰           ۴۱۔ایضاً،ص،۵۴۷
۴۲۔http://pakistanspace.tripod.com/archives/66mujib6point.htm visited on 10 August 2016 11:pm
۴۳۔       طارق اسمٰعیل ساگر ، (مترجم )حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ۔آخری سگنل کی کہانی، ص، ۱۶۶ (pdfbooksfree.pk>hamoodur-rehman )
۴۴۔       صدیق سالک ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ص، ۲۳ (https://archive.org>mainnedhakadobtaydekha )
۴۵۔      رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۱۴۱
۴۶۔ایضاً،ص،۸۵    ۴۷۔ایضاً،ص،۱۰۹    ۴۸۔ایضاً،ص،۱۴۷           ۴۹۔ایضاً،ص،۸۸
۵۰۔ایضاً،ص،۱۵۳    ۵۱۔ایضاً،ص،۵۹۳    ۵۲۔ایضاً،ص،۱۱۵           ۵۳۔ایضاً،ص،۹۶
۵۴۔ایضاً،ص،۶۲۲   ۵۵۔ایضاً،ص،۹۶
۵۶۔طارق اسمٰعیل ساگر ، (مترجم )حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ۔آخری سگنل کی کہانی، ص، ۴۱  (pdfbooksfree.pk>hamoodur-rehman )
۵۷۔ صدیق سالک، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ص، ۲۶ (https://archive.org>mainnedhakadobtaydekha )
۵۸۔ایضاً ،ص،۲۶
۵۹۔      رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۱۴۷
۶۰۔ایضاً،ص،۱۲۶،۱۲۷
۶۱۔صدیق سالک ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ص، ۶۳  (https://archive.org>mainnedhakadobtaydekha )
۶۲۔رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۱۳۹
۶۳۔
Source: Cited in, Ian Talbot, "Punjabization of Pakistan", in Christophe Jaffrelot, (eds) Pakistan: Nationalism without a Nation (Lahore: Vanguard Books, 2002)p.54 (http://irs.org.pk/focus/focus-1-15.pdf (
۶۴.      Rizwan ullah, Bureaucratic Institution,Leadership and Breakup of a state: A Case studyof (East Pakistan(www.pu.edu.pk/images/journal/studies/pdf-filesص،۴۷
۶۵۔https//irs.org.pk/focus-1-15.pdf.page:11
http://irs.org.pk/focus/focus-1-15.pdf.page;11
۶۶۔http://irs.org.pk/focus/focus-1-15.pdf.THE ROAD TO PAKISTAN'S DISMEMBERMENT: 1971 MARYAM MASTOOR .page.12
۶۷۔      صدیق سالک، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا،، ص، ۳۸ (https://archive.org>mainnedhakadobtaydekha )
۶۸۔طارق اسمٰعیل ساگر ، (مترجم )حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ۔آخری سگنل کی کہانی ،ص، ۷،۸(pdfbooksfree.pk>hamoodur-rehman )
۶۹۔ ایضاً،ص،۴۳
۷۰۔ رضیہ فصیح احمد، صدیوں کی زنجیر ،مکتبہ اسلوب کراچی،۱۹۸۸ء۔ص،۱۳۹،۱۴۰
۷۱۔ ایضاً،ص،۵۸۳
۷۲۔صدیق سالک ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا،،ص، ۶۶ (https://archive.org>mainnedhakadobtaydekha
۷۳۔ایضاً،ص،۶۶
۷۴۔طارق اسمٰعیل ساگر ، (مترجم )حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ۔آخری سگنل کی کہانی ،ص، ۲۶ (pdfbooksfree.pk>hamoodur-rehman )
۷۵۔ایضاً ،ص۲۹                ۷۶۔ایضاً ،ص۲۶                 ۷۷۔ایضاً،ص،۲۶

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com