مجید امجد کی شاعری کی مختلف جہات
صدیق خان

ABSTRACT
Majeed Amjad was an acclaimed Urdu poet. Among some critics he was regarded a most valuable poet as compared to his contemporary poets even Faiz Ahmad Faiz. His poetry is capable of philosophical depth and sensitivity. That is the reason that his poetry needs certain attention of the critics. In this research paper the researcher has explained some new philosophical dimensions of his poetry. He has given examples from his verses supporting his ideas about Majeed Amjad's poetry .

           سر زمین جھنگ نے کئی شعرا کو جنم دیا ہے۔۔ ان ہی میں ایک بہت بڑا نام مجید امجد کا ہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے کثیر المطالعہ انسان تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں ہو چکا تھا لیکن ان کی شاعری کو عروج گزشتہ نصف صدی گزرنے اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد حاصل ہوا۔ ان کا کلام مختلف رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتا رہا اور قبول عام حاصل کرتا رہا۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوا اور دوسرے مجموعے کو ترتیب دے چکے تھے۔ ان کی وفات کے بعد کئی مجموعے شائع ہوئے۔لیکن ‘‘شبِ رفتہ’’ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی تحقیق کاوش کی بدولت ترتیب وتدوین کے تحت ان کی کلیات منظرِ عام آئی۔۔ اس طرح ان کے کلام کا بڑا حصہ محفوظ ہے۔مجید امجد اردو کے عہد ساز اور صاحب اسلوب نظم گو کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اردو غزل جیسی طاقت ور صنف سخن کی موجودگی میں نظم گوئی کے میدان میں قدم جمانا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا بلاشبہ مجید امجد ہی کا کارنامہ تھا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جدید اردو نظم گوئی کے بنیاد گذاروں میں مجید امجد کا نام بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شعری روایت سے منسلک رہتے ہوئے جدید تقاضوں کا خیال بھی رکھا اور ایسی تازہ شاعری کی جو اردو ادب کا بیش بہا اثاثہ بن گئی ہے۔ آنے والے زمانوں میں مجید امجد کے بغیر اردو شاعری کی تاریخ کسی صورت مکمل تصور نہیں کی جا سکے گی۔
مجید امجد بڑے قد کاٹھ کے شاعر تھے لیکن تاحین حیات تقریباً گمنام رہے۔ وہ بھی میرا جی، فیض احمد فیض اور ن م راشد کی طرح اسلوب کی تازگی اور نْدرت کے ساتھ شعری دنیا میں وارد ہوئے تھے لیکن ایک تو ان کا تعلق لاہور یا دہلی ایسے کسی بڑے تہذیبی مرکز سے نہ تھا۔ دوسرے، وہ تنہائی پسند تھے۔ تیسرے، اپنی انفرادیت اور جدت کا شعور رکھتے ہوئے بھی اپنا کلام کسی ادبی جریدے کو نہ بھیجتے جب تک کوئی اْن سے ان کا کلام شائع کرنے کا تقاضا نہ کرتا۔ چوتھے، انہوں نے نہ خود کوئی ادبی حلقہ بنایا اور نہ کسی پلیٹ فارم کو اپنی پہچان بنایا۔ پانچویں، معاش کی بقدرِ ضرورت فکر کی، باقی وقت مطالعہ اور فکر شعر کی نذر ہو جاتا۔ چنانچہ زمانے نے انہیں پہچاننے میں بہت دیر کر دی۔ لیکن جوہر قابل رکھتے تھے اس لئے زیادہ دیر ادب شناسوں کی نظروں سے دور نہ رہے۔ ان کی قدر شناسی بعد از مرگ ہی شروع ہوئی۔ اہل ادب نے ان کے کلام کو مرتب و مدون کرنے کی بھی فکر کی اور ان کے محاسن شعری پر بھی توجہ دی۔
جب مجید امجد کا شعری سفر شروع ہوا اس وقت پابند شاعری کا رواج تھا، جسے علامہ اقبال اپنی بے پناہ تخلیقی قوت سے عروج پر لے گئے تھے۔ لیکن اقبال کے بعد کی نسل اظہار کے نئے سانچوں کی تلاش میں تھی۔ اس کی ایک وجہ تو مغربی ادب کے اثرات تھے، دوسرے ہندوستان کے مخصوص حالات۔ اس عالم میں تصدق حسین خالد، میرا جی، ن م راشد اور فیض احمد فیض نے اردو نظم کو نئی ہئیتوں اور نئے موضوعات سے آشنا کیا۔ اسی دور میں ترقی پسند تحریک کا بھی آغاز ہو گیا تھا جس نے غزل کو فرسودہ صنف قرار دے کر نظم پر توجہ دی اور ادب کو انقلاب لانے کے لئے وسیلہ بنانے پر زور دیا، جو لوگ ادبی اقدار کو مقصدیت کی بھینٹ چڑھانے پر تیار نہ ہوئے وہ ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ کی صورت میں اکٹھے ہو گئے۔ حلقے کے شعراء کا رجحان خارجیت کی نسبت داخلیت کی طرف زیادہ تھا۔ اس حوالے سے میرا جی اور راشد ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
مجید امجد نے ایک تو کلاسیکی اردو شاعری کا گہرا مطالعہ کیا دوسرے، جدید انگریزی شاعری سے اپنی تخلیقی قوت کو جلا بخشی۔ ادبی ہنگاموں سے ذرا فاصلے پر رہتے ہوئے اپنی الگ راہ نکالی۔ قدرت بیان فراواں تھی اس لئے لفظ اور خیال کو یوں آمیخت کیا کہ فن کو معجزہ بنا دیا۔ ابتداء میں نظم کے ساتھ ساتھ غزل بھی کہی، اس حوالے سے تخلیقی وفور کا یہ عالم تھا کہ روزانہ ایک غزل کہہ لیتے، لیکن ان کی پہچان کا بڑا ذریعہ نظم بنی۔ لیکن ابتداء میں مجید امجد کی شاعری کی لطافتوں اور نزاکتوں کو صرف تین نقاد ہی پہچان پائے:
خلیل الرحمن اعظمی، ڈاکٹر سید عبداللہ اور مظفر علی سید۔
مجید امجد کی نظم میں ‘‘زندگی کی درپیش صورت حال’’ حزن سے عبارت ہے۔ جعفر طاہر کی اس رائے میں صداقت موجود ہے کہ:
’’اردو میں ان (مجید امجد) کی طرح حزن و ملال(Melancholy )کی سچی شاعری کسی نے نہیں کی۔‘‘ (۱)
مگر اس حزن کے جس سبب کی نشان دہی ڈاکٹر محمد صادق نے کی ہے، وہ خاصی مضحکہ خیز ہے۔ ان کے مطابق :
’’بیوی سے جدائی کا المیہ، مجید امجد کی نظموں میں دکھ کو جنم دیتا ہے۔‘‘ (۲)
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بیوی سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ کسی قدر آسودہ ہو گئے ہوں ! (تاہم واضح رہے کہ امجد بیوی سے علیحدہ ضرور ہوئے تھے، اسے طلاق نہیں دی تھی) خیر، یہ ایک جملہ معترضہ ہے۔ مجید امجد کے نظمیہ متن میں حزن ایک جاری و ساری کیفیت ہے۔ اس نوع کی کیفیت کو کسی ایک واقعے سے منسوب کرنا اگر ایک طرف واقعے کے نفسیاتی عواقب سے عدم آگاہی کا اعلامیہ ہے تو دوسری طرف تخلیقی عمل کے وسیع تر محرکات سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ حزن زندگی کی درپیش صورت حال کا تجربہ کرنے اور اسے بھگتنے کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس صورت حال کے دو پہلو مجید امجد کی توجہ کا بطور خاص مرکز بنے ہیں۔
مجید امجد دیکھتے ہیں کہ ہر وجود خود کو باقی رکھنے کی خواہش میں مبتلا ہے۔ پنچھی ہو، اندھی بھکارن ہو، طوائف ہو، کیچڑ میں پڑا کیڑا ہو، گداگر ہو، بادشاہ ہو یا خود شاعر، سب کو ایک ہی صورت حال درپیش ہے جہد حیات! اسے جب مجید امجد کا قلم گرفت میں لیتا ہے تو یہ ناقابل فراموش مصرعے تخلیق ہوتے ہیں۔
یہ پھیلا پھیلا، میلا میلا دامن
یہ کاسہ، یہ گلوئے شور انگیز
میرا دفتر، مری مسلیں، مری میز
کہ جس کی رو میں بہتا جا رہا ہے
گداگر کا کدو بھی جام جم بھی
کلہاڑی بھی، درانتی بھی، قلم بھی
(۳)(طلوع فرض)
’’قیصر یت‘‘ ۱۹۳۹ء میں لکھی گئی مجید امجد کی وہ نظم ہے جس کی بناء پر بعض لوگوں نے انھیں کمیونسٹ بھی کہا۔اس نظم کو دراصل مجید امجد کی اس فکری عمارت کی بنیاد کہا جاسکتا ہے جس سے کنواں جیسی نظمیں تخلیق پاتی ہیں۔یہ نظم اپنے زمانے کی وہ تصویر بناتی ہوئی نظر آتی ہے جس کے منظر نامے پر سامراجی قوتوں کی اصل صورت واضح نظر آتی ہے۔
اس سپاہی کا وہ اکلوتا یتیم
آنکھ گریاں، روح لرزاں، دل دو نیم
بادشہ کے محل کی چوکھٹ کے پاس
لے کے آیا بھیک کے ٹکڑے کی آس
اس کے ننگے تن پر کوڑے ماکر
پہرے واروں نے کہا دھتکار کر
کیا ترے مرنے کی باری آگئی
دیکھ وہ شہ کی سواری آگئی(۴)
’’مشرق ومغرب‘‘ ۱۹۵۱ء میں لکھی گئی نظم ہے۔اس کا موضوع بھی وہی سماجی اور معاشی ناہمواری ہے۔جودنیا بھر میں بلاتفریق ملک وملت میں پھیلی ہوئی ہے۔جس کا محیط اس قدر لامحدود ہے کہ مشرق ومغرب کی تمیزہی باقی نہیں رہی۔اس نظم میں مجید امجد کے لب ولہجے میں ان کے عمومی مزاج کے برعکس ایک طرح کی تندی موجود ہے۔جب اس دنیا جو انبار سیم وزر کا منظر پیش کررہی ہے ،کانوحہ لکھتے ہیں تو ہمیں اس نظم کا حرف حرف،لفظ لفظ اور سطرسطرچیختی ہوئی نظر آتی ہے۔
نہ خواب مشرق
نہ سحر مغرب
بس اک پھکتی گداز مٹی
کی چادرسبز،جس کے دامن
میں کل تھے انبان گندم وجو
اور آج انبار سیم وآہن              (مشرق ومغرب’’ ،شب رفتہ ک بعد) (۵)
زمان ومکان کی حدوں سے ماوار،جبر زدہ ماحول سے خوف زدہ انسان ایک طرف تو دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے تو دوسری طرف شہر ودشت میں پھیلی ہوئی حرص کی لڑائیاں ہیں۔خنجر کی زہریلی نوکیں انسانیت کے سینے میں پیو ست ہورہی ہیں۔لہٰذا ایک حساس شاعر کی طرح مجید امجد بھی ان تمام حالات وواقعات کا مرقع پیش کرتے ہیں۔
اشعار دیکھے:
جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے میں مدام
سیم وزر کے دیوتاؤں کے سیہ قسمت غلام
جس جگہ اٹھتی ہے یوں مزدور کے دل سے فغان
فیکٹری کی چمنیوں سے جس طرح نکلے دھواں
جس جگہ دہقاں کو رنج محنت و کوشش ملے
اور نوابوں کے کنوں کو حسیں پوشش ملے
تیرے شاعر کو یقیں آتا نہیں، رب العلا!
جس پر تو نازاں ہے اتنا،وہ یہی دنیا ہے کیا!
(‘‘یہی دنیا’’کلیات مجیدامجد)  (۶)
اس نظم سے مجیدامجد کا نام ہٹادیا جائے تو اس پر کسی بھی ترقی پسند شاعر کی تخلیق ہونے کا گمان ہوسکتا ہے۔اس اقتباس میں موجود اشعار کے لب ولہجے ہی میں نہیں بلکہ الفاظ میں بھی سیاسی شعور کی وہی رو موجود ہے۔ جو اْس زمانے کی شاعری کی بنیادی خصوصیت تھی۔ جسے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق ہونے والی شاعری کے مخصوص لب ولہجے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
ان معروضات کا مقصد مجید امجد کو نہ تو ترقی پسند شاعر کے طور پر پیش کرنا ہے اور نہ ان کے سیاسی وعصری شعور کا کسی ترقی پسند شاعر سے موازنہ مقصود ہے۔مدعایہ کہنا ہے کہ مجیدامجد کی شاعری اور ان کے پیرایہ بیان میں بھی اس سیاسی شعور کی کارفرمائی کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے جو ان کے دور کے اجتماعی سیاسی شعور کا حصہ ہے۔مجیدامجد کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی واحد کتاب’’ شب رفتہ’’ میں اس طرح کی متعدد نظمیں موجود ہیں جن میں سماج اور معاش اور طبقاتی رویوں پر مجید امجد کے احساسات منظوم صورت میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔
’’مجید امجد خیال کی وسعت وگہرائی اور ہیئت سازی دونوں لحاظ سے اپنے دور کے شعرا سے ممتاز ومنفرد ہیں۔۔امجد کی صحیح قدر کا تعین اگلی صدی کے لوگ کرسکیں گے۔جس طرح غالب کے عہدکے لوگوں نے ذوق کو غالب پرترجیح دی۔انھیں اپنے دور میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ،لیکن آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ غالب اپنے دور کے عظیم ترین شاعر تھے جس طرح یہ صدی غالب شناسی کی صدی ہے،اگلی صدی مجید امجد کی صدی ہوگی۔‘‘(۷)
مجید امجد کے یہاں تنہائی کے تناظر میں انا کی خود مختاری کا تجربہ شدید کرب سے عبارت ہے۔ یہ کرب اتنا واضح اور اتنا شدید ہے کہ مجید امجد کے ہر قاری کو فی الفور محسوس ہوتا ہے اور پھر ہر قاری نقاد اس کی من مانی توجیہہ بھی کرتا ہے۔ مثلاً انور سدید کا خیال ہے کہ
’’مجید امجد کا غم کسی عالمگیر اندوہ کا حصہ نظر آتا۔‘‘ (۸)
مجید امجد کی شاعری میں غمِ رواں غیر معمولی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے مجید امجد کی تنہائی اور غم کو وجودیت سے جوڑا ہے جبکہ ان کی غزل میں وجودی تجربے یا وجودی فلسفے کے بین نقوش نہیں ملتے۔ مجید امجد کی غزل میں تنہائی اور وجودی تجربے یا فلسفے میں تنہائی کی موجودگی،یہ رائے اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ مجید امجد وجودی شاعری ہیں۔ تنہائی ایک عالمگیر موضوع ہے، وجودیت میں یہ موضوع ایک خاص فلسفیانہ پس منظر میں آتا ہے۔ ان کی غزل میں یہ پس منظر نہیں ملتا۔ بایں ہمہ مجید امجد کی نظم وجودی نقطہ نظر سے معرض بحث میں لائی جا سکتی ہے، اس غرض سے کہ وجودی تنہائی میں فرق کی حدیں کہاں ہیں۔ بہرکیف مجید امجد کے غم کی نوعیت سمجھنے کے لیے یہ اشعار دیکھیے :
غموں کی راکھ سے امجد وہ غم طلوع ہوئے
جنہیں نصیب اک آہ سحر گہی بھی نہ تھی    (۹)
رستوں پر اندھیرے پھیل گئے، اک منزل غم تک شام ہوئی
اے ہم سفرو! کیا فیصلہ ہے، اب چلنا ہے یا ٹھہرنا ہے (۱۰)
جس زمانے میں مجید امجد نے آنکھ کھولی تھی وہ کشمکش کا زمانہ تھا۔ مجید امجد نے ۱۹۱۴ء تا ۱۹۷۴ء کے دوران  دوعالمی جنگیں اور دوملکی جنگیں دیکھیں۔ ۱۹۷۴ء میں تقسیم ہند کے بعد ہونے والی خون ریزی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر انسان مصیبت کی چکی میں پس رہاتھا۔ سیاسی منظرنامے پر ہندو مسلم اور سکھ آپس میں دست وگریباں تھے۔ اس صورت حال میں امجد نے فرار کی راہ نہیں اپنائی بلکہ ان تمام دکھوں کو محسوس کرکے اپنے اندر جذب کرلیا۔ جس میں ان کی ذات کی تنہائی کادکھ بھی شامل ہوا اور ان کی شخصیت اور شاعری پر کافی اثر اندازہوا۔
اسی وجہ سے مجید امجد اپنی ایک نظم میں سماج کو عذاب کہتے ہیں۔
کوئی مٹائے اس کے ماتھے سے یہ دکھوں کا ریکھ!
ہل کوکھینچنے والے جنوروں جیسے اس کے لیکھ
تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں تین بیل ہیں دیکھ(۱۱)
مجید امجد کی زندگی میں اس محرومی کی وجہ سے ایک غیر یقینی کیفیت موجود ہے۔ ان کی نظم" طلوع فرض" میں بھی زندگی کی بے وقعتی ظاہر ہوتی ہے کہتے ہیں۔
نظام زیست کا دریائے خونناب
پسینوں، آنسوؤں کا ایک سیلاب
کہ جس کی رومیں بہتا جارہا ہے
گداگر کاکدو بھی جام جم بھی
کلھاڑی بھی، درانتی بھی، قلم بھی!(۱۲)
مجید امجد کی زندگی میں محرومی کا یہ طوفاں ایک ساحل کی تلاش میں ہے جب یہ ساحل نظر نہیں آتا  تو وہ اس کو اپنے خوابوں میں تخلیق کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ ایک نظم"لاہور میں" مجید امجد اپنے دل پر ایک خاتون کی تصویر بنا کر تڑپ اٹھتا ہے۔ مجید امجد کا دل درد مند محبت کا متلاشی تھا جوان کی ذاتی تنہائی میں کمی لاسکے اور اس کے اس معیارپر اترسکے جسکی اسے تلاش ہے۔ اس لئے وہ اپنی جدت خیال میں ایک بے نام ہستی کا تصور سجالیتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں۔جس کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں ، یہ ہستی صرف مجید امجد کے تصور تک محدود ہے۔ ان کی مشہور نظم "بْندا" میں یہ بے نام ہستی جس کاکوئی وجود نہیں موجود ہے۔
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا میری جاں میں تیرا حلقہ بگوش
کاش میں تیری بن گوش کابندا ہوتا!
تو مجھے  ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہراک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تیری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کاپھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تومجھے ہر گزنہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی(۱۳)
مجید امجد کے تصور میں جنم لینے والی محبت روحانیت پر مبنی ہے۔ اس یگانگت میں اگر چہ مادی پہلو موجود نہیں ہے مگر اس بے نام ہستی سے محبت کی تڑپ مجید امجد کے دل میں شدت اختیار کر جاتی ہے۔
مجید امجد کے تصوریت کے حوالے سے ڈاکٹر محمد اسلم  رقمطراز ہیں:
’’ان کا طریقہ صوفیانہ اور اندازفلسفیانہ ہے۔ (محبت کے تصور سے محبت) یہ یاد مہرباں ہی تھی جوان کوبڑھایے میں سنبھالے ہوئی تھی وہ مرتے دم تک۔۔۔ یارسامنے رکھناچاہتے تھے‘‘(۱۴)
مجید امجد کا اپنے دور سے تعلق رہا مگر اس تعلق کی نو عیت الگ تھی۔ کیونکہ وہ کسی سیاسی نظریے کے تحت اس سے منسلک نہیں رہے۔ وہ اپنے ہی عہد میں مروجہ رجحانات سے کنارہ کش ہو کر زندگی کے تلخ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ جس طرح ڈاکٹر سلیم اختر اقبال کے حوالے سے اردو ادب کی مختصر ترین کتاب" میں لکھا ہے کہ ایک بڑا شاعر جب میلے میں گم ہوجائے تو وہ زندگی کو صحیح طرح سے نہیں پرکھ سکتا۔
مجید امجد نے بھی اپنا تخلیقی سفر آزادانہ طور  پرتخلیق کیا ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر نوازش علی نے ایک مضمون " مجید امجد کا تصور شاعری " میں مجید امجد کا ایک انٹرویو درج کیا ہے۔جس میں وہ کہتے ہیں۔
میں دنیا میں چلتا پھرتاہوں۔ نا کہی نظموں کے یہ پیامی قدم قدم پر میرا راستہ روک لیتے ہیں۔ کتنے پر اسرار سند یسے ہیں جوموڑ موڑ پر مجھے ملتے ہیں۔ ایک ایک احساس شعرونظم کے مہین لبادے اوڑھ لیتا ہے اور اس کے بعد میرے سامنے صفحہ قرطاس پر لفظوں اور لیکروں کا ایک ڈھیر موجود ہوتاہے لوگ انہیں نظمیں کہتے ہیں۔(۱۵)

صدیق خان،پی۔ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو جامعہ پشاور

 

 

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        جعفر طاہر ’’ریزہ درد مجید امجد کی شاعری‘‘ مشمولہ مجید امجد: ایک مطالعہ مرتب حکمت ادیب، جھنگ۱۹۹۷ء، ص ۲۵۱
۲۔        ڈاکٹر محمد صادق ’’مجید امجد کے کلام میں تنوع‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص ۲۴۳
۳۔       کلیات مجید امجد (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) ص ۷۴  الحمدپبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۳ء
۴۔       کلیات مجید امجد (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) ص۸۲ ۲ الحمدپبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۳ء
۵۔       کلیات مجید امجد (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) ص ۲۷۲ الحمدپبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۳ء
۶         کلیات مجید امجد (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) ص ۲۰۲ الحمدپبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۳ء
۷۔       کلیات مجید امجد (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) ص ۲۴۵ الحمدپبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۳ء
۸۔       کلیات مجید امجد (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) ص ۲۴۶ الحمدپبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۳ء
۹۔        انتخاب مجید امجد (مرتبہ، خواجہ محمد زکریا)                   الحمد پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۰۳ء
۱۰۔       انور سدید’’مجید امجد کی غزل‘‘ مجید امجد۔۔۔ ایک مطالعہ (مرتب حکمت ادیب) ص ۶۸۱
۱۱۔       کلیات مجید امجید مرتبہ خواجہ محمد زکریاص ۳۳۶   الحمد پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۰۳ء
۱۲۔       کلیات مجید امجید مرتبہ خواجہ محمد زکریاص ۷۷    الحمد پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۰۳ء
۱۳۔      کلیات مجید امجید مرتبہ خواجہ محمد زکریاص ۴۹               الحمد پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۰۳ء
۱۴۔      ڈاکٹر محمد اسلم ضیاء، جہاں مجید امجد ص ۶۱
۱۵۔      ڈاکٹر نوراش علی مجید امجد کا تصور شاعری مشمولہ القلم جھنگ اکیڈیمی ص ۴۵۲

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com