ڈاکٹر اظہارؔ کی شاعری پرعالمی دہشت گردی کے اثرات(تحقیقی جائزہ)
فضل کبیر

ABSTRACT
Terrorism has become a major and highly destructive fact in the recent years. It is a gravest problem that Pakistan is facing now a days.  Many families in Pakistani society have been plundered in the past few years. That is the reason that the poets of today and especially from Khyber Pukhtunkhwa take influence from this worst and insecure situation. In this research paper the researcher has analyzed the poetry of Izhar ullah Izhar in the context of the cuurrent flow ofTerrorism in Pakistan ..

           خیبر پختون خوا میں جدید اردو غزل کو جن شاعروں نے اپنا خون جگر دے کر سیراب کیا ہے۔ ان شاعروں میں ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ بھی ہے۔
کسی بھی تخلیق کار کے تخلیقی رویوں کو پرکھنے کے لیے اْن کی شخصیت کے مختلف زاویوں سے واقفیت ضروری ہے۔ کیوں کہ شخصیت اور فن دو  جڑواں شہر ہیں۔ جو اپنی اپنی ذات میں مکمل اکائی کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر لمحہ درلمحہ عکس انداز ہوتے ہیں۔ ایک کی تفہیم دوسرے کی تفہیم کا راستہ ہموار کرنے میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک کے ذریعے دوسرے تک سفر کرنے میں پتھریلی رستے اور دشوار گزرار گاٹیاں بریشم کی طرح نرم پڑ جاتی ہیں۔ راقم الحروف کے اس دعویٰ کی اثبات کے لیے میراجی کی رائے درج ہے:
’’ جب تک ہم کسی مصنف کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے متعلق معلومات حاصل نہ کرلیں، ہم اس کی ادبی شخصیت یا کلام کے بارے میں کچھ کہ نہیں سکتے۔ کیوں کہ ہر مصنف یا شاعر کی تخلیقات خواہ اس کا فنی اْصول داخلی ہو یا خارجی، اس کی اپنی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہیں۔‘‘(۱)
اظہارؔ کی شاعری پڑھتے ہوئے دل ودماغ میں ایک لہر سی اْٹھ گئی کہ سچی اور اوریجنل شاعری کسی بھی تخلیق کار کی ذہنی اور جذباتی مرقع ہوتی ہے۔ اْس کی شاعری میں اْس کی شخصیت کہیں تجریدی اور کہیں تجسیمی صورت میں اپنے ہونے کا یقین دلاتی ہے۔ اظہارؔ کی شاعری کی فکری اور جذباتی سوتے ان کی شخصیت کی سرزمین سے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید دور کا انسان مسائل کے گھمبیر تاؤں میں اتنا گھر چکا ہے کہ روحانی اور اخلاقی اقدار کا پاس رکھنا ان کے بس کا روگ نہیں لیکن اس دور نا ہنجار میں اْن کی شخصیت غنیمت سے کم نہیں۔ روایت اور اخلاق سے مضبوطی کے ساتھ جڑی یہ شخصیت مخلص، شریف، نرم مزاج، خوش گفتار،حسن و آشتی پسند اور خوش کردار انسان ہے۔
مادیت، علم ودانش اور فلسفیانہ سوالات اْٹھانے اور اس کی تلاش وجستجو میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے اس دور میں بھی اپنے دور کے مسائل کو جتنی شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اتنی ہی خوب صورتی سے انھیں فن کا حسین لبادہ اوڑھا کر شاعری کا روپ دیتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کے مسائل ومصائب کا ادراک اگر شاعرو ادیب کو نہ ہو تو پھر معاشرے میں ادیب کی ضرورت چہ معنی دارد۔ اسی حساسیت کی بنیاد پر تو ادیب وشاعر معاشرے میں انفرادیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ اظہار ؔ کے ہاں اجتماعی زندگی کے مسائل اور مصائب اتنی شدت کے ساتھ ملتے ہیں جتنی شدت کے ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اْس کی شاعری میں بدلتے ادوار کے سارے موضوعات نظر آرہے ہیں۔
لیکن اظہارؔ کی شاعری کے سارے موضوعات پر بات کرنا اور ان کا تحقیقی وتنقیدی احاطہ کرنا وقت طلب کام بھی ہے اور اس مقالے کی حد سے تجاوز کی ایک صورت بھی ، چناں چہ بحث کو اظہارؔ کی شاعری عالمی دہشت گردی کے اثرات تک محدود کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے کوئی بھی معنی ہو دنیا کے کسی بھی خطے میں جنم لے چکی ہو، کسی بھی قوم اور مذہب کے افراد سے اسے وابستہ کیا گیا ہو یقیناً معاشرے کے حق میں کبھی مفید اور بہتر ثابت نہیں ہوئی ہے بلکہ انسانوں کے مابین منافرت، رد عمل اور تصادم کا باعث بنتی آرہی ہے۔ اس کا نتیجہ ایک طرف بے حسی اور حیوانیت ہے تو دوسری طرف بے بسی ، محرومی اور احساس کمتری ہے۔ اظہارؔ اپنے معروضی حالات سے بے خبر تخلیق کار نہیں ہے اس کی تخلیق کی آنکھ کے سامنے ماضی ، حال اور مستقبل اکائی کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور ادوار کی بے رحمی زمانے کی بر بریت ، عہد کی دہشت گردی انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ براہِ راست دہشت گردی اور اس کے اسباب کو شاعری میں زیر بحث نہیں لاتا۔ بلکہ الہامی تاثرات کی مدد سے اس کے مظاہر اور عواقب بے نقاب کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’تجربے‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے۔
ہم نے سایوں کا تعاقب نہیں چھوڑا اب تک
کتنے اس راہ میں سچائی کے سورج ڈوبے
کس اذیت سے گزرتا ہے سفر لمحوں کا
وقت کے ہاتھ میں چمکی ہے عدو کی تلوار
کتنی آنکھوں کے دیئے بجھ گئے ہنستے روتے
کتنی معصوم تمناؤں کے پیکر ٹوٹے(۲) 
دہشت گردی کے اثرات اور تباہیاں اظہار کے یہاں صرف موضوعاتی سطح پر شاعری اور تخلیق کا حصہ نہیں بنتے بلکہ اظہار ہنرورانہ سچائی کے ساتھ ان اثرات کو الفاظ کے بطن اور مصرعوں کے رگ وپے میں منتقل کرتی ہے۔ پھر وہ ابتری اور شکستگی الفاظ وتراکیب علامتوں اور تشبیہات میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ لفظ ٹوٹ رہے ہوتے ہیں معنی کا وجود بکھر رہا ہوتا ہے اور یقیناً یہ حوالہ عملی دہشت گردی کے وجود کو کہیں زاویوں سے بے حجاب کررہا ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہار ؔ کا فکر وفن معروض کے درد انگیز ہنگاموں سے فاصلے سے نہیں رہنا چاہتا۔ دہشت گردی کا آسیب جب ضمیر انسانی کا رَس نچوڑ دیتا ہے۔ پھر سماعتیں دھیمی پڑ جاتی ہیں اور بصارتیں دھند لاجاتی ہیں ایسے میں اظہارؔ کی نگاہ حالات کا جائزہ لیتی ہے اور جب اسے منزل کے راستوں کی واضح تصویر نظر نہیں آتی تو حیرت میں ڈوبے الفاظ کا سہارا لے کر ’’پڑاؤ‘‘ نامی نظم تخلیق کرتی ہے۔ جسے اس مرحلے پر بطور نمونہ پیش کرنا موضوع کو آگے لے جانے میں معاون ہوگا۔
بستیاں جب کبھی سیلاب کی زد پہ ہوں تو پھر
راکھ کی گود میں پلتی ہے کہاں چنگاری
خواب بننے سے بھی بیزار ہوئی آنکھیں
جیسے دم توڑ گئی کوئی بقا کی خواہش
جیسے تاروں کے نشیمن میں ہے ماتم برپا
کون سا حادثہ ہستی کا فراموش کریں
کون سے درد کو بہلایں گے اس سینے میں
ہم نے آغوش کشائی کا ہنر بھی سیکھا
ہاں مگر پھول کی خوشبو پہ زوال آتا ہے
مرحلہ اپنے تعین کا جب آیا کوئی
روشنی کاٹ گئی راستہ بینائی کا(۳)
سیلاب زدہ بستیاں، راکھ کی گود میں چنگاری کا پلنا، بقا کی خواہش کا دم توڑنا، ستاروں کے نشیمن میں برپا ماتم ، پھول کے خوشبو پہ زوال اور تعین کے مرحلے پہ روشنی کا بینائی کے راستے میں مزاحم ہونا یہ تمام تصویریں دہشت گردی کی پیداوار تصویریں ہیں، جنھیں ہنری ضبط نے وجود ضرور دیا ہے لیکن اس وجود میں وہ  اضطراب سطح پر زلزلے برپا کرتا محسوس ہوتا ہے گو اظہارؔ کے یہاں دہشت گردی کے خلاف مزاحمت فرقہ بندی کی سوچ سے الگ نظر آتا ہے اور کسی بگاڑ کے عمل سے بغل گیر ہوتا نظر نہیں آتا ، تا ہم جس خطے پروہ سانس لے رہا ہے وہاں وہ ان رویوں کی بیخ کنی کا خواب بھی دیکھتا ہے اور تعبیر بھی پانے کی کوشش کرتاہے وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دفاعی صلاحیتوں اور فرد یا قوم کی قوتوں کو ایک نکتے پر پوری بصیرت کے ساتھ یک جا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے زور کو پوری شدت کے ساتھ توڑا جائے اور ان کے فساد پرور منصوبوں کو پسپا کیا جاسکے۔ اس کی ’’تنبیہ‘‘ نامی نظم دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہروں کو رزقِ خاک بناتے ہوئے کہتی ہے:
زنگ آلود ہو تلوار تو رفتہ رفتہ
آگہی نیند کی آغوش میں لے جاتی ہے
زندگی ایسے مراحل سے بھی گزری ہے جہاں
اک صدی ایک ہی لمحے میں گزر جاتی ہے
ہاں مگر یوں بھی ہے جب ایک گھڑی کی لغزش
پشت در پشت غلامی کی سزا دیتی ہے
ان گنت نسلوں کو چنواتی ہے دیواروں میں
اور پھر جس کا مداوا نہیں ہونے پاتا
چشم بینا سے کہو، ہر گھڑی بیدارر ہے(۴)
اظہارؔ کے تمام شعری مجموعوں میں عالمی دہشت گردی اور مقامی جبر استبداد کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کا سلسلہ پوری تابانی کے ساتھ جاری وساری نظر آتا ہے اگر اس کی نظمیں تو اتر اور تفصیل کے ساتھ اس مزاحمتی مجاہدے میں اپنا کردار ادا کررہی ہے تو اس کی غزلیں بھی اپنی ساخت اور ہیئت کے مطابق اس موضوع کو برتنے سے انحراف نہیں کرتیں۔ اس سے قطع نظر کہ اظہارؔ کی شاعری میں عالمی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کی کیا تخلیقی تصویر بنتی ہے۔ اس موڑ پر چند متفرق مثالیں پیش کیے جارہے ہیں تا کہ یہ داستان شاعر کے اپنے لفظوں میں تکمیل پذیر ہوسکے۔
ایک ہنگامہ ہے لیکن روبرو کوئی نہیں
دل دھڑکتا جا ئے ہے اور آرزو کوئی نہیں(۵)
نہیں معلوم کیا اس شہر میں بحران آتا ہے
ہوا چلتی  ہے بستی میں تو اک طوفان آتا ہے
پرندے چھپتے پھر تے ہیں درندے تک ہراساں ہیں
یہ آوازہ ہے جنگل میں کوئی انسان آتا ہے
خود آگہی کے  سفر کا ملال اب بھی ہے
متاع جاں کسی مفلس کا جاں اب بھی ہے
سحر ہوتی ہے تو کیا تیرگی نہیں جاتی
ہر ایک لب پہ بقا کا سوال اب بھی ہے (۷)

اتنی فرصت بھی نہیں ہے کہ ذرا یہ سوچیں
قمقمے شہر میں روشن ہیں کہ گھر جلتے ہیں(۸)
اجنبی دیس سے گمنام پرندے آکر
اپنے اشجار کو بے برگ وثمر کرتے رہے(۹)
جس کا خیمہ جلا دیاتو نے
اس کے سر پر تو آسماں بھی نہ تھا
ڈر جاتا ہوں اب تازہ ہواؤں میں نکل کر
بے روح میرے شہر کا ماحول رہا ہے(۱۱)
اس کے پس منظر میں کوئی حادثہ موجود ہے
چھوڑتا کوئی بھی اپنے گھر کو دانستہ نہیں(۱۲)
لوگ اس ظلم کو برداشت کریں گے کب تک
ایک دن ترکِ اطاعت بھی تو کرسکتے ہیں(۱۳)
اے خدا تیری مدد پر ہے بھروسہ لیکن
کوئی منظر تو دکھا جشن ابا بیل کے بعد(۱۴)
جل گئے سب خواب خاکستر ہوئی تعبیر بھی
مجھ سے اب آنکھیں چرائی ہیں میری تصویر بھی
آنے والے موسموں کو کون سا سوغات دوں
آنکھ سے آنسو گر اہے ہاتھ سے زنجیر بھی(۱۵)
اظہارؔ کے محولہ بالا اشعار عہد کی بین الاقوامی دہشت گردی کا راستہ روکنے کے لیے زندگی کے محاذ پر سینہ سپر کھڑے ہیں۔ فسادات کی نشان دہی بھی کرا رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کا وسیلہ بھی۔ درد کی تصویر سے منسلک حادثے بھی شمار کرتے ہیں اور ان حوادث کو معدوم کرنے کی بصیرت بھی پیدا کرتا ہے۔ عالمی دہشت گردی نے انسانی معاشرے میں جو نہ ختم ہونے والی بے حِسی پیدا کی ہے۔ اظہارؔ کی شاعری اس بے حسی کا نقشہ ابھار کر اس کے حصار کو توڑنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے اور وہ ولولہ بھی پیدا کرتی ہے جو ہر عہد میں انسان اور انسانیت کو زندگی کی امیداور مقاصد سے وابستگی کا پیغام دیتی ہے۔ اظہارؔ معروضی حالات کے دور اہے پر کھڑے ہو کر تاریخ کے سینے میں جھانکتے ہیں اور بڑی حکمت سے ان اندیشوں کو ماضی کے مرحلے میں داخل ہونے سے روکنے کی سعی کرتے  ہیں جن کی وجہ سے حال کا سینہ داغ داغ اور گریباں تار تار ہے۔
مختصر یہ کہ اظہارؔ سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ایسی وارداتیں بیان کرتے ہیں جو خود اْن پر گزری ہوں۔محبت کا تجربہ سب سے بڑی خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔ اظہارؔ کے یہاں بھی اظہار کا بے باک لہجہ، اْس کی خود اعتمادی کی دین ہے۔اظہارؔ سچے تجربوں اور زندہ جذبوں کے مالک ہیں۔ اپنے دل کی بات کہہ دینے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔ اور اس پر مستزاد فنِ شعر پر گرفت بھی رکھتے ہیں۔اْن کی غزل میں عشق کی مختلف کیفیات ملتی ہیں اور یہ کیفیتیں روایتی عشق سے آگے کا سفر ہے اور یہ سفر برائے بیت نہیں۔ جیسا کہ اکثر شاعروں کے ہاں ہم محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ یہ حقیقی زندگی سے بہت قریب لگتا ہے۔کومل اور سجل جذبوں کے حامل اس شاعر کے لہجے کی سچائی ایک ایسی حقیقی دکھ اور سچے کرب کی غماز ہے جو کسی الم ناک تجربے کے نتیجے میں وجود پزیر ہوئی ہو۔اظہارؔ کی غزل کی کمال خوبی یہ ہے کہ اْنھوں نے اپنے تجربات وحوادث سے جو کچھ بھی حاصل کیا، کمال فن کے ساتھ شاعری کی زبان میں کہہ دیا ہے۔

فضل کبیر، لیکچرار گورنمنٹ جہانزیب کالج، سوات
حوالہ جات
۱۔         میراجی مشرق ومغرب کے نغمے، ص
۲۔        ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، لمس کا خواب زندہ رہنے دے، ص ۱۵۱
۳۔       ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، لمس کا خواب زندہ رہنے دے، ص ۹۱
۴۔       ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، لمس کا خواب زندہ رہنے دے، ص ۹۵
۵۔       ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، گرفت، ص ۱۰۰
۶۔        ایضاً  ص ۱۰۵          ۷۔ ایضاً  ص ۱۲۱        ۸۔ ایضاً  ص ۱۳۵       ۹۔ ایضاً  ص ۹۰
۱۰۔       ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، دھنک تیرے بدن کی، ص ۳۳
۱۱۔       ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، دھنک تیرے بدن کی، ص ۴۳
۱۲۔       ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، دھنک تیرے بدن کی، ص ۸۸
۱۳۔      ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ،صدا مہکی ہے آنچل کی، ص ۱۲
۱۴۔      ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، صدا مہکی ہے آنچل کی، ص ۱۳۹
۱۵۔      ڈاکٹر اظہار اللہ اظہارؔ ، محبت گنگناتی ہے، ص ۱۱

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com