عبداللہ حسین کے ناول ’’نادار لوگ‘‘ کے تین منفی کردار
محمد عثمان

ABSTRACT
The greatness of a novel could also be measured through the characters which a novelist creates in his story. This is a point of discussion in literary critical circles that characters are more important than Plot or plot is more important. It is fact that the great stories of the world are the porter of immortal characters . ٰIt is human nature, that he intends to the positive characters of the story rather than negative. But some times in a story the negative characters becomes more important as compared to the positive characters or the hero of the novel. In this research paper the researcher has critically analyzed three negative characters of ''Naadar Log'(by Abdullah Hussain (
انسانی زندگی ہمہ جہت پہلوؤں سے عبارت ہے۔اس میں پیش آنے والے نشیب و فراز کا تدریجی ارتقا انسان کے مزاج پر دورس اثرات مرتب کرتا ہے۔زندگی کے اس اُتار چڑھاؤ کو ادبی سطح پرناول میں بخوبی پیش کیا گیا ہے۔ناول کا فریضہ زندگی کے گوناگوں موضوعات کا احاطہ کر کے ایک فلسفۂ حیات مرتب کرنا ہے۔اس فلسفے کی بنیادی اکائی عموماً افرادِ قصہ کے ذہنی میلانات سے جنم لیتی ہے۔جسے عرف ِعام میں ’’کردار‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ناول کا قصہ کرداروں کے توسط سے پروان چڑھتا ہے تا کہ قاری اُن کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی وساطت سے کسی نتیجہ تک رسائی حاصل کر سکے۔حقیقی معنوں میں ناولاتی کردار وہی ہوتے ہیں جن میں زمینی حقائق سموئے ہوئے نظر آئیں۔اُن کے مزاج اور ماحول میں ہم آہنگی ہونی چاہیے جو انھیں انسانی سطح پر لانے میں ممدومعاون ثابت ہو۔اس ضمن میں ڈاکٹر اسلم آزاد اور ڈاکٹر فقیر حسین کچھ یوں رطب اللسان ہیں:
’’ارضی واقعات سے متعلق واقعات کی پیشکش کے لیے ’’افراد‘‘ کی ضرورت ہے ہی۔فرضی واقعات بھی افراد کے بغیر پیش نہیں کیے جاسکتے۔ناول نگار اپنے قصے میں واقعات کا جو ماحول بیان کرتا ہے‘ اس کے کردار بھی اسی ماحول سے ماخوذ ہوتے ہیں‘‘(۱)
اس رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاہے قصہ حقیقت پر مبنی ہو یا مافوق الفطرت عناصر پر کردار ہر حال میں کہانی کا حصہ ہوں گے۔ناول کا منظرنامہ جدید تقاضوں اور رویوں کا ترجمان ہے۔اس لیے اس کے کینوس پر نمودار ہونے والے کرداروں کا تعلق حقیقی دنیا سے ہوتا ہے۔ناول میں حقیقی عُنصر اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ اس صنعتی اور مشینی دور میں انسان جن مسائل کا شکار ہے اُس کی مکمل صورت اپنی معنوی جہتوں کے ساتھ سامنے آسکے۔عموماً ناول نگار ناول کے اشخاص پر خود خامہ فرسائی کر کے اُن کا تعارف کراتا ہے لیکن ناول کے بدلتے ہوئے اسالیب میں اب بیانیہ کی ذمہ داری خود کرداروں کے حصّے میں آچکی ہے۔جہاں کردار خود نمودار ہو کر اپنے لاشعوری افعال کا ذکر کرتا ہے وہاں قاری کے لیے دلچسپی کا سامان دستیاب ہو جاتا ہے کیونکہ قصے کا تمام مواد قارئین کی عملی زندگی سے ماخوذ ہوتا ہے۔اعلیٰ کردار نگاری کا تمام دارومدار ناول نگار کی فنکاری پر منحصر ہے۔اسی لیے ڈاکٹر سلام سندیلوی ناول نگار کی کردار نگاری کے متعلق لکھتے ہیں:
’’وہ مختلف کرداروں کو ہمارے سامنے پیش کرے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ان کا نقشہ پھر جائے اور ہم ان کی شکل وصورت اور گفتاروکردار کو بھی نہ بھول سکیں۔بعض ناول نگار ایسی تصویر کھنچنے کے لیے رسمی طور پر ایک ایک جزو کا ذکر کرتے ہیں۔مگر یہ تجربہ بالکل ناکام رہا ہے۔ایک ماہر فنکار یہ جانتا ہے کہ کن جزئیات کا ذکر کرنا چاہیے اور کن کو ترک کر دینا چاہیے،تاکہ ناظرین خود اپنی قوتِ تخیل سے اس خلا کو پرُ کر لیں‘‘(۲)
ناول میں چونکہ پوری زندگی پیش کی جاتی ہے۔لہٰذا زندگی سے اُبھرنے والے کرداروں کے مختلف روپ اس میں جلوہ گر ہ ہوتے ہیں۔کرداروں کے یہ روپ مثبت اور منفی زاویوں سے تشکیل پاتے ہیں جس میں زیادہ تر عمل دخل ماحولیاتی عنصر کا ہوتا ہے۔اگر بعض کردار ناول میں اپنا مثبت پہلو پیش کرتے ہیں تو اس کے پس منظر میں ناول نگار کسی مخصوص طبقے کی نمائندگی کرنا چاہتا ہے۔اس کے بر عکس منفی کرداروں کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ان کے اس منفی روپ کی وجہ سے زندگی کی ناہمواریوں اور معاشرے میں موجود غیر معتدل رویوں کی عکاسی بڑے مؤثر انداز میں کی جاسکتی ہے منفی کرداروں کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ کہانی کو ایک طرح کا تحرک فراہم کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے بسا اوقات سماج کی صحت مند اقدار اور تخریبی عناصر باہم متصادم ہو کر منطقی نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔اُردو ادب کے ناولاتی کرداروں کی یہ منفی سطح ڈپٹی نذیر احمد،منشی پریم چند،مرزا ہادی رسواؔ،عزیز احمد۔کرشن چندر،عصمت چغتائی،قرۃالعین حیدر،خدیجہ مستوراور شوکت صدیقی کے ہاں اپنے مخصوص انداز میں جلوہ گر ہے۔
ان تمام ناول نگاروں سے قطع نظر ناول کا ایک بڑا نام عبداللہ حسین کاہے۔جن کے ناولوں کا پس منظر ہجرت سے اُبھرتا ہوئے پاکستانی معاشرے اور سماج تک پھیلا ہوا ہے۔عبداللہ حسین کے قلم کی جڑیں اپنی دھرتی کی کوکھ سے پیوست ہیں۔اسی لیے ان کے ناولوں میں پاکستانی معاشرہ جیتا جاگتا موجود ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جتنے مسائل نے جنم لیا اُن کا بھرپور احاطہ عبداللہ حسین کی کہانیوں کا موضوع ہے۔
’’اُداس نسلیں‘‘ کے بعد اُن کا دوسرا ضخیم ناول ’’نادار لوگ‘‘ ہے۔یہ ناول ۱۹۹۶؁ء میں منظرِعام پر آیالیکن بدقسمتی سے یہ ناقدین کی عدم توجہ کا شکار رہا ہے۔ناقدین کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے اس کی معنویت کھل کر سامنے نہ آسکی۔حتیٰ کی موضوع اور کرداری لحاظ سے بھی اس میں کافی تنوع موجود ہے ۔اس ناول کے تمام کردار اپنے عہد کے نمائندہ کردار ہیں۔ان میں مثبت بھی ہیں اور منفی رنگ روپ رکھنے والے جاگیردار،سیاسی نمائندے اور عام افراد بھی۔اس مضمون میں ’’نادار لوگ‘‘کے تین منفی کرداروں کا تجزیہ مقصود ہے۔جو اپنے اپنے طبقے کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔عبداللہ حسین نے ان منفی کرداروں کے ذریعے استحصالی قوتوں کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح یہ اپنا شیطانی جال بچھا کر معاشرے اور سماج کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔
ناول کاسب سے اہم منفی کردار جہانگیر اعوان کا ہے۔یہ کردار اپنی معاملہ فہمی،سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کے ساتھ ہمارے سامنے آتاہے۔جہانگیراعوان اپنے وقت کے جاگیردارانہ نظام کا نمائندہ ہے۔اس کا دادا جہان خان صوبیدار میجر ریٹائرڈتھا جبکہ اس کا باپ عالم جہان انگریز سرکار کا ہم رکاب تھا۔جس نے سامراجی قوت کو جنگ کے لیے اپنے گاؤں کے متعدد جوان فراہم کیے ۔اس کے بدلے گورے عالم جہان پر کافی مہربان تھے۔عالم جہان نے اس چاپلوسی سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھا کر اپنے کاروباراور مزارعوں کی آبادی کو کافی وسعت دی۔تعلیمی افادیت کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے بیٹے جہانگیر اعوان کوجدید تعلیم سے آراستہ کرنا چاہا۔اگرچہ جہانگیر اعوان سینئر کیمبرج کے آخری مرحلے میں ناکام رہامگر باپ دادا کے مقابلے میں اسے اپنی ذاتی صلاحیتوں کا بھرپور علم ہے۔جس میں زیاد ہ تر ہاتھ ان موروثی عناصر کا ہے جو اُسے باپ دادا سے وراثت میں ملے۔
جہانگیر زیرک اور دانا سیاست دان کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں اپنی دھاک بٹھا دیتا ہے۔وہ پٹواری کے دفتر اور ضلع کچہری میں یوں گھومتا پھرتا ہے جیسے یہ اُس کے وضع کردہ ادارے ہوں۔ان تمام متحرک سرگرمیوں کے تحت وہ ایم۔ایل۔اے بن جاتا ہے۔
’’جہانگیراعوان کے دل میں ان دونوں جگہوں کا کوئی خوف نہ تھا‘نہ ہی اُسے وہاں گھوم پھر کر لوگوں کے کام کروانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔افسر مال سے لے کرقانون گو،محکمہ انہارمیںضلع دار اور کچہری میں تحصیل دار سے کر مجسٹریٹوں تک اُس کی شنوائی تھی۔اس طرح اُس کا اثر رسوخ جہان آبادکی حدود سے نکل کر دوسرے گاؤں اورقصبوں تک پھیل گیا تھا۔ان معاملات میں داخل ہوکراُسے سیاست کا چسکا بھی لگ چکا تھا۔مقامی سیاست میں تین برس گزانے کے بعد وہ آخر صوبائی الیکشنوں کے موقع پر مسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔جاٹ برادری اور اپنے تعلقات کی بناء پر اس نے مہم سر کی اور حلقے سے صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا۔اب ملک جہانگیر اعوان ایم۔ایل۔اے علاقے کی بااثر شخصیتوں میں شمار ہوتا تھا‘‘(۳)
سیاسی اور معاشرتی سطح پر اپنا وقار قائم کرنے کے لیے وہ کئی منفی طریقے اختیار کرتا ہے۔تقسیم کے وقت اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق جہانگیراعوان بھی غیروں کی املاک پر قابض ہوجاتا ہے۔اس سرمایہ دارانہ سوچ کے تحت وہ اپنے خاندان کے لیے کئی ایسے مفید اقدامات اُٹھاتا ہے جس سے علاقے میں اُس کا اثرورسوخ کافی بڑھ جاتا ہے۔ ناول کا یہ اقتباس اُس کی شخصیت کے منفی زاویوں کے لیے ناقابلِ تردیدثبوت فراہم کرتا ہے:
’’ملک جہانگیر نے سن سینتالیس کے بٹوارے کے ساتھ ہی اپنے لیے دو فائدہ مند کام کئے۔ایک تو اس نے ملک فلک شیر ری ہیبلی ٹیشن کمشنر کی مدد سے سکھوں کے چھوڑے ہوئے چھوٹے بڑے رقبوں پر قبضہ حاصل کرلیا۔علاوہ اس کے مقامی مہاجنوں کے کوچ سے پیشتر اُن کے پاس گروی شدہ اراضیوں کے کاغذات اونی پونی قیمت ادا کر کے ہتھیا لیے اور کچھ دیگر افسران کی معاونت سے کچھ دھونس دھاندلی کے ذریعے ،رجسٹریاں کرا کے اُنہیں اپنی قانونی ملکیت کی حیثیت دلوالی۔اس طرح وہ اپنی زمینداری کوآٹھ سے دس‘اور دس سے اُنیس مربعوں تک پھیلانے میں کامیاب ہو گیا۔دوسرے اس نے لوئر باریدوآب کا پانی رکنے کے ساتھ ہی حکومت سے قرضے حاصل کر کے ٹیوب ویل لگوائے اور ٹریکٹر خرید کر مشینی کاشت شروع کردی تھی۔گاؤں کے باہر اُس نے اپنے لیے ایک وسیع وعریض پکا ڈیرہ تعمیر کروالیا تھا،جہان وہ اب جم کر بیٹھ گیا اور اپنے ’’علاقے‘‘ کی نگہداشت کرنے لگا تھا‘‘(۴)
عبداللہ حسین نے انتہائی فنی چابکدستی کے ساتھ جہانگیر اعوان کا کردار پیش کیا ہے۔اس کردار کی تعمیری جہتیں اس کے مکالموں اور ماہرانہ گفتگو سے کھل کر سامنے آتی ہیں۔جہانگیر اعوان باہر کی دنیا سے مکمل طور پر آگاہ رہتا ہے۔جب اعجاز اور کنیز کے تعلقات اُستوار ہوتے ہیں اور بعد میں بشیر آرائیں کنیز کو نکال کر لے جاتا ہے ۔ان تمام حالات پر اُس کی کڑی نظررہتی ہے۔وہ اپنے ماتحت مزارعوں اور مزدوروں پر قا بو پانے کے لیے مختلف پینترے بدلتا ہے۔اُس کی لگائی ہوئی مل میں جب مزدور اپنے حقوق کے لیے سر اُٹھاتے ہیں تو وہ مزدور یونین کے خیرخواہ اعجاز کے ساتھ مراسم بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تا کہ اعجاز کے ذریعے وہ ان مزدوروں پر قابو پا سکے۔اعجازاُس کی مقدور بھرمدد کرتا ہے مگر مل کے ایک حادثے کی وجہ سے اعجاز جہانگیر اعوان کا مزید ساتھ دینے سے دست بردار ہو جاتا ہے۔اس کے بعد جہانگیر اعجاز پر اوچھا وار کرکے اُس کی کماد کی فصل تباہ کردیتا ہے۔جس کا اعجاز پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا۔لہٰذاجب اعجاز عملی سیاست میں قدم رکھتا ہے اور مزدور یونین کی خیرخواہی کی بدولت عوام میں اُس کی حیثیت مستحکم ہونے لگتی ہے تو جہانگیر وقت کے تقاضوں کے تحت اعجاز سے دوبارہ مراسم باندھنے لگتا ہے:
’’جہانگیر اب خاص طورپر اُس کی سیاسی حیثیت کے پیشِ نظر اعجاز کے ساتھ برابری کے درجے پہ سلوک کرنے لگا تھا۔ پھاگن میں جہانگیر کے بھتیجے کا بیاہ تھا۔جس میں شرکت کے لیے اُس نے اعجاز کو بمعہ’’لفٹنٹ ملک سرفرازاعوان‘‘ و ا ہل وعیال دعوت نامہ بھیجا تھا‘‘(۵)
اسی طرح بعد کے واقعات میں جہانگیر اعجاز سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
’’ہم سب کو تمہارے اوپر فخر ہے۔تم نے خوب دنیا کمائی ہے۔مجھے کہنے کی کیا ضرورت ہے‘سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے سرفرازقابل نکلا‘فوج کا افسر ہو گیا ہے۔سچی بات ہے‘اللہ نے چاچے یعقوب کے خاندان کوبڑے رنگ لگائے ہیں۔اور دوسال میں تیرے اپنے دونوں جوان ہو کر تیرے بازو بن جائیں گے۔کھانے کو بڑا کچھ ہے۔اور آدمی کو کیا چاہیے‘‘(۶)
یہی مصلحت پسندانہ روش جہانگیر کو ماہر سیا ست دان کے روپ میں ظاہر کرتی ہے۔اُسے جب پتہ چلتا ہے کہ اعجاز کی نئی پارٹی عوامی سطح پر ذہنوں میں نفوذ کر چکی ہے اور کمی کمین اُس کے مقابلے کے لیے میدان میں اُتر آئیں ہیں تووہ اعجاز کے سیاسی قد کاٹھ سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اُس سے مدد طلب کرتاہے۔اُسے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اب حالات پلٹا کھا چکے ہیں۔اس لیے وہ اعجاز سے کہتا ہے کہ:
’’دو پھیرے میرے حلقے میں بھی لگا سکتے ہو۔تم جہاں مرضی ہو جاکر اپنی پارٹی کے حق میں تقریریں کرو‘ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔مگرمیرے حلقے آکر میری طرف داری کرو۔‘‘(۷)
اس تمام سیاسی داؤپیچ کے بعداعجازکی پارٹی برسرِاقتدارآجاتی ہے اوراُن کے منتخب کردہ نمائندگان اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ان تمام حالات و واقعات کے نتیجہ میں جہانگیر اعجاز کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔وہ وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اعجاز کی اُس وقت دل کھول کرمدد کرتا ہے جب اُسے ازمیر گھی پرائیویٹ لمیٹڈ کے خلاف ڈاکٹر احسان سے ثبوت چاہیے ہوتا ہے۔جب جہانگیر عمر کے لحاظ سے کمزور ہو جاتا ہے،اس کے اپنے پرائے سب اُسے چھوڑ دیتے ہیں تواس بے مروتی کو دیکھ کرجہانگیر اپنے بیٹے عالمگیر کی تمام ذمہ داری اعجاز کو سونپ دیتا ہے ۔یہ حفاظتی قلعہ اُسے صرف اور صرف اعجاز کے کنبے کی صورت میں نظر آتا ہے:
’’میرے اور کوئی سگے رشتہ دار نہیں ہیں‘جو تھے وہ دشمن بن چکے ہیں خیر‘ چھوڑو ان باتوں کو۔مقصد میرا بات کرنے کایہ ہے کہ عالمگیر اب اکیلا ہے۔ہماری قوم برادری میں اب تم ہی ہو‘یا سرفراز ہے۔تو نے دنیا کے کاموں میں تجربہ حاصل کیا ہے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالا ہے تجھے کامیابی ہوئی ہے ۔سرفراز نے بھی میدان مارا ہے۔انشاء اللہ ایک دن حکومت کا ستون بنے گا۔میں چاہتا ہوں عالمگیرکو تم اپنے سایے میں رکھو۔‘‘(۸)
اگر مجموعی لحاظ سے جہانگیر اعوان کے کردار کو دیکھا جائے تو ابتداء میں اُس کی شخصیت جاندارکردارکی حامل ہے۔وہ حالات کے مطابق ہر لمحہ خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔جہانگیر اپنے نفع و نقصان پر کڑی نظر رکھتا ہے۔اعجاز کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اپنی سیاسی بصیرت کو کام میں لاتا ہے کیونکہ اُسے سیاست میں کافی درک ہے۔جس کا اندازہ ناول کے اس اقتباس سے ہوتا ہے جب وہ اعجاز سے کہتا ہے:
’’بھولے بادشاہ!‘‘جہانگیر کہنیاں میز پر رکھ کر آگے جھکا اور اعجاز کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔’’آج میں تجھے سیاست ایک دو سبق دیتا ہوں۔سن‘آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھاگنے دوڑنے‘جلسے جلوس‘کرنے‘اشتہار بانٹنے اور نعرے لگانے سے زندگی کا کھیل بدل جاتا ہے۔سیاست کے دو سبق ذہن نشین کرو پہلا سبق مشہور کہاوت کے مطابق یہ کہ اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں مت ڈالو۔مطلب یہ کہ کچھ بھائی برادری سرکار کے ساتھ رکھو،کچھ اپوزیشن کے ساتھ،تا کہ جس کسی کا راج ہو،حکومت اپنے ہی ہاتھوں میں رہے۔دوسری بات۔’’جہانگیر ہاتھ پھیلا کر انگوٹھا دو انگلیوں پر ملنے لگا’’یہ ہے؟‘‘ وہ بولا ‘ پھر ہاتھ پہلو میں لے جاکر کرتے کی جیب کو تھپتھپایا ’’اور یہ۔‘‘(۹)
اس اقتباس سے عیاں ہوتاہے کہ جہانگیرکے کردار کے مختلف روپ مختلف اوقات میں ظاہر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ کردار اپنے عہد کے سیاسی نشیب و فراز کا نمائندہ کردار ہے۔اس کردارکے توسط سے عبداللہ حسین نے مارشل لاء کا نفاذ،جاگیرداروں کی عیارانہ سازشیں،سیاست دانوں کے منافقانہ رویے غرض تمام استحصالی نظام کو پیش کیا ہے۔اس کردار کے متضاد رویے ناول کی کہانی کو بڑھاوا دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آخر میں جہانگیر اعوان اپنے بیٹے کی نگرانی اعجاز کو سونپ دیتا ہے تویہ بھی اس کردار کی انفرادی خوبی ہے کہ وہ آخر میں بھی اپنی دور اندیشی کا ثبوت فراہم کررہا ہے اور مستقبل پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عبداللہ حسین نے کئی ایسے مناظرناول میں پیش کیے ہیں جس سے لگتا ہے کہ جہانگیر ،اعجاز اور سرفراز کورشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ناول کا دوسرا منفی کردار ’’بشیر احمد‘‘ ہے۔جس کے مثبت روپ کو ابتداء میں معاشرہ قبول نہیں کرتا۔اس لیے مجبوراًبشیراحمد اپنے لیے منفی راستے کا انتخاب کرتا ہے۔بشیر احمد بھٹہ مزدوروں کا خیر خواہ تب بنتا ہے جب اُسے سکول کی نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے سکول کے ناقص انتظام کی قلعی کھولی تھی۔اس واقعہ کے بعد اس نے اپنی تمام توجہ بھٹہ مزدوروں کی زندگی پر صرف کی۔جس سے اُسے یہ اندازہ ہوا کہ اگر یہ لوگ اکٹھے ہو جائیں تو سماجی سطح پر کافی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے مگر یونین کے کرتا دھرتا اکثر اپنے مفاد کے لیے ان لوگوں کا استعمال کرتے ہیں۔یہ ساری باتیں بشیر کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔اس لیے وہ بھٹہ مزدور کنیز کو ملک حمید کے بھٹے سے نکال کر غائب ہو جاتا ہے۔
بشیر احمد سے قاری کی ملاقات اعجاز کی وساطت تب ہوتی ہے جب اعجاز کو پیپلز فیڈریشن طلب کرتی ہے۔اعجاز کے ساتھ قاری بھی چونک پڑتا ہے کہ بشیر آرائیں جو جلسے میں ہونے والی تقریر کے دو بول ادانہیں کرسکتا تھا اب ’’بی۔اے چودھری‘‘ بن گیا ہے۔دورانِ گفتگو اعجاز کی حیرت کو اُس وقت دھچکا لگتا ہے جب بشیر احمد کے دفتر سے کنیز برآمد ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعدپیپلز لیبر فیڈریشن کی انتظامی ذمہ داری بشیر احمد کے پاس ہوتی ہے۔وہ اعجاز کو یونین کے عہدے سے ہٹا کر ابلاغِ عامہ سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اعجاز نے مختار ڈوگر کے جلسے میں کافی صاف گوئی سے اپنی پارٹی کو تنقید کا ہدف بنایا تھا۔اعجاز کے نزدیک یہ تقریر ٹھیک تھی مگر بشیر احمد اپنے سیاسی انداز میں اعجاز سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
’’  ’’لیکن وہ تب کی بات تھی،اور یہ اب کی بات ہے۔اُس وقت پارٹی اقتدار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔اب پارٹی حکومت میں ہے یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ان دو مواقع کی ضروریات مختلف ہیں۔اس بات کی سمجھ تمھارے جیسے انقلابیوں کو نہیں آتی‘‘( ۱۰)
بشیر احمد مزید اعجاز کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے کہتا ہے:
’’تم نے عوام کے نعرے کو،جس کے بل پر قوم ہمارے ساتھ چلی ہے‘بے عزت کیا ہے۔تم نے جمہوریت کی جڑ  پر وار کیا ہے۔زبان کے ساتھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی ہے جو سب سے بڑی قوت ہے‘اور سب سے بڑی شرارت کی جڑ بھی ہو سکتی ہے‘‘(۱۱)
ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بشیر احمد موقع پرست اور مفاد پرست ہے۔اس کا تعلق بھی نادار لوگوں کے طبقے سے تھا مگر جب اسے مثبت طریقوں سے اپنا حق نہیں ملتاتو وہ بھی ملکی سیاست میں شامل ہو کرمنافقانہ روش اختیار کر لیتا ہے۔بشیر احمد کا کردار ان افراد کا نمائندہ ہے جو اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔وہ بھٹہ مزدور کنیز کو بھی صرف اپنے ذاتی فائدے کے لیے بھگا کر لے جاتا ہے کیونکہ مزدوروں میں وہ واحد عورت تھی جس میں حق گوئی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔بشیر احمد کنیز کی اس صلاحیت سے بر وقت فائدہ اُٹھا کر اُسے اپنی سرگرمیوں کا حصّہ بنا لیتا ہے۔اُس کے اس منفی انداز کے متعلق حنا جمشید تحریر کرتی ہیں:
’’غریبوں کے لیے آواز اُٹھانے والا پُرجوش بشیر احمد جو آخر کار معاشرے میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لینے کے لیے ایک منفی کردار کا روپ اختیار کر جاتا ہے‘‘(۱۲)
ناول کا تیسرا منفی کردار ازمیر گھی لمیٹڈ کا مالک ’’حاجی کریم بخش‘‘ کا ہے۔اس کردار کا سارا کچا چٹا اُس وقت سامنے آتا ہے جب اُس کی انڈسٹری کے تیار کردہ گھی کے استعمال سے متعدد لوگ معدے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔یہ وہی نادار لوگ ہیں جن کا استحصال مختلف صورتوں میں ہو رہا ہے۔عبداللہ حسین نے اس استحصال زدہ معاشرے کو پیش کرنے کے لیے کئی ایسے کردار تخلیق ہیں جو اپنی اپنی بساط کے مطابق عوام کی سادہ لوحی کا ناجائز فائدہ اُٹھارہے ہیں۔جہانگیر اعوان ،بشیر احمد اور حاجی کریم بخش ملکی وسائل پر قابض ہو کراپنا گھناؤنا روپ ظاہر کرتے رہتے ہیں۔عاصم بٹ عبداللہ حسین کے ان کرداروں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عبداللہ حسین نے ناول میں استحصالی قوتوں کو مختلف صورتوں میں پیش کیا ہے۔وہ کبھی جاگیرداروں کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیں تو کبھی سیاست دانوں اور کبھی سفاک پولیس کی صورت میں۔ہر صورت میں ان کا شکار غریب اور نادار لوگ ہیں‘‘(۱۳)
حاجی کریم بخش بھی ان استحصالی قوتوں کا نمائندہ ہے جو اپنے مفاد ات کی فکر میں ہے۔اُس کی انڈسٹری گھی بنانے کے مراحل میں ہمیشہ ایسی کوتاہی برتتی ہے جس کا سارا اثر عوام کی صحت پر پڑتاہے۔اعجاز اس کے متعلق حاجی کریم بخش کو اپنی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق آگاہ کرتا ہے۔
 ’’ہماری انویسٹی گیشن کے مطابق ‘  ‘‘ اعجاز نے جملہ جاری رکھتے ہوئے کہا،  ’’آپ پراسیس کے اندرایک دو ضروری عوامل کو گول کرجاتے ہیں۔مثلاً پوسٹ نیوٹرالائزیشن نہیں کرتے،کیونکہ اس سے آپ کا دو فیصد راسیس لاس ہو جاتاہے۔رینسڈنی اَور پراوکسائیڈ ویلیو کے کنٹرول میں ویکیوم سٹیم ڈسہیلیشن کرنی پڑتی ہے وہ آپ نہیں کرتے‘جس سے آپ کی سٹیم کا خرچہ بچ جاتا ہے۔پھر نِکّل کو صاف کرنے کے لئے سٹرک ایسڈ استعمال کرنا پڑتا ہے جو ایک قیمتی کیمیکل ۔وہ آپ بچا جاتے ہیں۔‘‘(۱۴)
یہ باتیں سننے کے بعد بھی حاجی کریم بخش بالکل نہیں گھبراتا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں اُس کا وقار کافی بلندہے۔علاوہ ازیں عبداللہ حسین نے اس کردار کو اس ڈھب سے پیش کیا ہے کہ اُس کے ظاہری رنگ روپ سے ا ُ س پر پاکدامن اور شریف  النفس انسان کا گمان ہوتا ہے۔اس حلیے سے قاری کو کافی حیرت ہوتی ہے کہ ایسا کردار کم از کم ایسی کریہہ حرکتوں کا مرتکب نہیں ہوسکتا ۔ اس بات کی دلالت کے لیے یہ ا قتباس کافی ہے:
’’اُن کے چہرے پہ کتری ہوئی سفید ڈاڑھی تھی اور سر پہ موٹی مشین پھرے ہوئے سفید بال تھے۔جن کے اندر کھوپڑی کی گلابی جلد دکھائی دے رہی تھی۔وہ ستر کے پیٹے کے صحتمند آدمی تھے۔اُنہوں نے سفید ململ کا کرتا اور لٹھے کی شلوار پہن رکھی تھی اور ایک ہاتھ میں تسبیح تھی جسے وہ باتیں کرنے کے دوران اُنگلیوں میں مستقل پھیرے جاتے ہیں‘‘(۱۵)
اعجاز،حاجی کریم بخش کو معاملے کی نزاکت سے آگاہ کرتا ہے کہ معاملہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ تک پہنچ گیا ہے۔انڈسٹری کا ناقص گھی لوگوں کی صحت پر کافی اثرانداز ہو رہا ہے:
’’ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق اِن سب بیمار ہونے والوں میں ایک قدرِمشترک ثابت ہوئی ہے‘اور وہ آپ کے گھی کا استعمال ہے۔ہم نے از خود دکان سے آپ کا گھی خرید کر انالسس کیاہے‘اور ساتھ ہی انڈی پنڈنٹ لیبارٹریوں سے بھی کروایاہے۔سب رپورٹیں ایک دوسری کے مطابق آئی ہیں۔اُن سے ظاہر ہوا ہے کہ آپ کا گھی ناقص ہے۔‘‘  ‘‘( ۱۶)
لیکن وہ اعجاز کی ان باتوں کو کوئی خاص توجہ نہیں دیتا اور پورے اعتماد کے ساتھ اعجاز کو انڈسٹرئیلائزیشن کی افادیت جتانے لگتا ہے۔آخر میں وہ دو ٹوک الفاظ میں اپنے ماتحت لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اعجاز کے ساتھ اس قضیے پر تصفیہ کر لیں:
’’بھٔی آپ لوگ ، ‘‘ وہ اب سیدھے صاف الفاظ میں اپنے بیٹے سے مخاطب ہوا‘  ’’ان صاحب سے معاملہ طے کر لیں‘ ‘‘ پھر وہ دوبارہ اعجاز کی جانب متوجہ ہوا‘  ’’ہماری معیشت میں آپ سب کا حصّہ ہے۔سب مل جل کر کام کریں گے تو کچھ ہوگا‘ورنہ ترقی کا عمل رُک جائے گا۔آپ منیجنگ ڈائیرکٹر صاحب سے میٹنگ کر کے معاملہ طے کر لیں‘‘(۱۷)
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اعجاز کو بھاری رشوت سے ٹرخاکر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا یہ گھناؤنا کاروبار جاری رکھنا چاہتا ہے۔وہ تمام بیماریوں کی جڑ کو ملکی آب و ہوا پر محمول کردیتا ہے۔حاجی کریم بخش کا اصل چہرہ ہمارے سامنے تب آتا ہے جب وہ اعجاز سے واضح الفاظ میں کہتا ہے:
’’ارے اس ملک میں سب کچھ چلتا ہے بھئی۔آپ ہماری منیجمنٹ کے ساتھ معاملہ طے کر لیں۔میری پوچھتے ہیں تو آپ کو سچی بات بتاؤں؟‘‘ ’’جی،‘‘اعجاز نے کہا۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میرے دل میں صرف ایک ہی خواہش ہے‘ کہ خداوند تعالیٰ مجھے مد ینے میں موت نصیب کرے۔‘‘ اعجاز اچنبھے کی حالت میں بیٹھا دیر تک حاجی کریم بخش کا منہ دیکھتا رہا۔‘‘(۱۸)
یہاں تک آتے آتے اعجاز اور قاری اچنبھے کے حصار سے نکل جاتے ہیں۔حاجی کریم بخش ایک ایسا کردار ہے جو ظاہری حلیے کی آڑ میں اپنی کریہہ حرکتوں سے استحصالی نظام کو مزید مستحکم بنانے کی کاشش کر رہا ہے۔اس کی ان منفی سرگرمیوں کا سلسلہ صرف انڈسٹری تک موقوف نہیں۔جب اعجاز اور بدیع الزمان اس کی انڈسٹری کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہیں تو حاجی کریم بخش ،جج محمد حسین تارڑ کو خرید کر مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں کرالیتا ہے۔ان تمام واقعات سے عبداللہ حسین نے پاکستانی عدلیہ کی جانب داری اور صحافتی اقدار کی شکست و ریخت کا بھی بخوبی محاکمہ کیا ہے۔
مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو عبداللہ حسین کے یہ تینوں منفی کرداراپنے اپنے طبقوں کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔جہانگیر اعوان بھٹہ مزدوروں کی زندگیوں کا سودا کر کے گاؤں میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیتا ہے۔بشیر احمد کا منفی روپ معاشرے کی ناانصافی کی بنا پر ظاہر ہوتا ہے۔جبکہ حاجی کریم بخش اُس دور کا نمائندہ کردار ہے جب ایوب خان پاکستان میں انڈسٹرئیلائزیشن کو فروغ دے رہا تھا ۔ایسے میں مادیت پرست طبقہ ان تمام ذرائع پر قابض ہو کر عوام کی اُمنگوں کا گلا گھونٹنے لگتا ہے۔ ملکی فضا کو ناخوشگوارحالات سے دوچار کرنے کے لیے ایسے متعدد کردارآج بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں ۔عبداللہ حسین نے ایک مخصوص عہد میں کہانی کا سفر جاری رکھ کر ان کرداروں کے منفی نتائج کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ عبداللہ حسین کی اعلیٰ کردار نگاری کا کمال ہے کہ اُنہوں نے کہانی کے ایک بڑے موضوع کے پہلو بہ پہلو ان کرداری محرکات کوبھی پیش کیا ہے۔
محمد عثمان ایم فل ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ پشاور

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        ڈاکٹراسلم آزاد،ڈاکٹر فقیر حسین،بک ٹاک،لاہور،۲۰۱۴،ص۱۶
۲۔        سلام سندیلوی،ڈاکٹر،ادب کا تنقیدی مطالعہ،مکتبٔہ میری لائبریری،لاہور،۱۹۸۶،ص۹۱
۳۔       عبداللہ حسین،نادار لوگ،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸،ص۱۶۴
۴۔       ایضاً،ص۱۶۵         ۵۔ایضاً،ص۳۱۳      ۶۔ایضاً،ص۳۸۰           ۷۔ایضاً،ص۳۸۱
۸۔       ایضاً،ص۵۹۹         ۹۔ایضاً،ص۱۷۱       ۱۰۔ایضاً،ص۴۹۲           ۱۱۔ایضاً،ص۴۹۲
۱۲۔       حنا جمشید،عبداللہ حسین کے نادار لوگ،مشمولہ،انگارے عبداللہ حسین نمبر،مرتبین،سید عامر سہیل،وبدالعزیزملک،محمد داؤد راحت،شمارہ جولائی تا اکتوبر،۲۰۱۵،ص،۴۲۶،۴۲۷
۱۳۔      محمد عاصم بٹ،عبدللہ حسین فن اور شخصیت،اکادمی ادبیات،اسلام آ باد،۲۰۰۸،ص۱۰۱
۱۴۔      عبداللہ حسین،نادار لوگ،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸،ص۵۵۰
۱۵۔      ایضاً،ص۵۴۷،۵۴۸  ۱۶۔ایضاً،ص۵۴۹     ۱۷۔ایضاً،ص۵۵۱           ۱۸۔ایضاً،ص۵۵۲

 

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com