’ غبارِخاطر ‘مولانا ابوالکلام آزاد کا اک شاہکار
احمد ولی

ABSTRACT
Ghubar e Khatir is a collection of letters written by Maulana Abul kalam Azad. These letters were written during the three years of detention in the fort of Ahmad Nagar,India. He penned out these letters in Jail and later on these were published after his death. In this research article the researcher has discussed the grand style of Maulana in the context of Ghubar e Khatir and his thoughts and personality in the light of these letters .
کسی زبان میں ایسے صاحب ِطرز مشکل ہی سے پیدا ہو تے ہیں جو اپنی طرزِ نگارش کا پر چم اس انداز سے بلند کریں کہ ادب کو  طرّئہ امتیازسمجھے اور لو گ اس کے سایہ میں شگفتگی وتوانائی کی نہریں محسوس کر سکیں،طرزِبیان کے ساتھ واقعیت وبلند خیال بھی دل و ماغ کو متا ثر کر ے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ مولا نا ابو الکلام آزاددنیائے ادب میں اردو کو کچھ ایسی چیز دے سکے۔جو ان کا تحفہ سمجھا جائے ،یااوروں کی طرح آئے اور کارواں کے ساتھ بغیر اپنے کو نمایاں کر کے چلے گئے۔ایسا نہیں ہے پہلی ہی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم ایک ایسی طرزِ نگارش اردو کو وہ دے گئے ہیں جس میں زندگی،زور اورسیلابی کیفیت رواں دواں ہے جس کو ان کی بلند پا یہ شخصیت،تبحر علمی،غیر معمولی حافظہ اور حسن و قبح کا امتیاز مل جل کر طرزِ تحریر کو وہ انفرادیت عطاء کرتے ہیں جو کسی اور کے یہاں مشکل سے ملتی ہے۔
دورِ جدید سے اب تک جو اہلِ قلم اپنی طرزِ نگارش کے لیے مشہو ر ہیں ان میں آزاد، شبلی،حالی،مہدی افادی،حسن نظامی، نیاز فتح پوری،سجاد انصاری،مجنون گور کھپوری،اور ایسے ہی دو چار نا م اور یاد آئیں گے۔بظاہر یہ تعداد اچھی خاصی ہو جاتی ہے مگر ذرا سخت گیری سے کام لیا جا ئے تو یہ فہرست ایک چوتھائی مشکل سے باقی رہ جاتی ہے یعنی اگر اس نظر سے د یکھا جائے کہ اس میں سے کتنے ادیب ایسے ہیں جو صر ف طرزِنگارش کے بل بوتے پر میدانِ ادب میں زیادہ دنو ں تک کھڑے رہ سکتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ گنے چُنے اہل قلم باقی رہ جاتے ہیں۔ان چند رہنے والوں میں ہم ابوالکلام آزاد کو پاتے ہیں۔
’’مولانا ابوالکلام آزاد ان برگزیدہ نفوس میں سے ہیں جن کو ندرتِ ذوق و فکر اور قدرتی بخشائش کی فراوانی نے صفِ عام سے الگ اور مستثنی قراردے دیا ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس ذہانت و ذکاوت کا سحر قلم اور آتش بیان صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے‘‘(۱)
مولاناابوالکلام آزاد کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں مکاتیبِ ابولکلام آزاد،نقشِ آزاد، تبرکاتِ آزاد، کاروانِ خیال اور غبارِ خاطر شامل ہیں ۔ ان سب میں سب سے زیادہ شہرت ’غبارِ خاطر‘ کے حصے میں آئی۔ ۸ اگست ۱۹۴۲ کو انڈین نیشنل کانگرس کا خاص اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا ۔جہاں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ انگریز اس ملک کے نظم و نسق سے فوراًــ دستبردار ہو کر یہاں سے سدھاریں اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑیں۔اس لیے اس کے بعد جو تحریک شروع ہوئی اس کا نام ’ہندوستان چھوڑدو تحریک‘ پڑگیا۔ اس زمانے میں مولانا ابولکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ ۸ اگست کی شب کو دیر تک یہ جلسہ ہوتا رہا جس میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اسی رات کے آخری حصے میں یعنی ۹ اگست کی علی الصبح حکومت وقت نے تمام سرکردہ رہنماؤں کو ستے میں بستروں سے اٹھا کر حراست میں لے لیا اور ملک کے مختلف مقامات پر نظر بند کردیا۔ مولانا آزاد اور ان کے بعض رفقاء احمد نگر کے قلعے میں رکھے گئے۔ مولانا آزاد کا یہ سلسلہ قید وبند کوئی تین برس تک رہا۔ اولاً اپریل ۱۹۴۵ء میں وہ احمد نگر سے نانکوڑا جیل منتقل کردیے گئے اور یہیں سے بالآخر ۱۵ جون ۱۹۴۵ء کو رہا ہوئے۔ اسی نظر بندی کا ثمرہ یہ کتاب’غبارِ خاطر‘ ہے۔(۲)
’غبارِ خاطر‘ نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کے نام مولانا ابوالکلام آزاد کے مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ اس کا شماراگر چہ مولانا آزاد کی اول درجہ کی تصنیفات میں نہیں ہوتا اور علمی اعتبار سے  ترجمان القرآن اور تذکرہ کا ہم پلہ نہیں لیکن ادبی اعتبار سے ’غبارِ خاطر‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ مولانا کی کسی تصنیف کو حاصل نہیں ہوسکی بلکہ اردو کی پوری تاریخ تصنیف وتالیف میں کوئی کتاب ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جسے’غبار خاطر‘ جیسی مقبولیت حاصل ہوئی ہو۔
اس کا پہلا ایڈیشن ۵ ہزار کی تعداد میں’ حالی پبلیشنگ ہاؤس دہلی‘ نے مئی ۱۹۴۶ء میں شائع کیا تھا۔ پورا ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایڈیشن ختم ہوگیا۔ دوسرے ہفتے میں کتاب کمیاب ہوگئی لیکن ملک کے اندر مانگ بدستور باقی تھی۔ اگست میں اس کا دوسرا ایڈیشن بازار میں آگیا۔ انہی ایام میں ایک ایڈیشن غیر قانونی طور پر حیدر آباد دکن میں شائع کردیا گیا لیکن ایڈیشن بھی چند ماہ کے اندر ختم ہوگیا۔ ’غبار خاطر‘ کا تیسرا ایڈیشن ایک خط کے اضافے کے ساتھ مکتبہ احرار لاہور نے شائع کیا۔ تقسیم ملک کے بعد پاک وہند سے اس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
پاک وہند جیسے کم تعلیم یافتہ ممالک میں جہاں کسی کتاب کا ایک ہزار ایڈیشن میں کئی برسوں میں نکلتا ہو کسی کتاب کا چند ماہ کے اندر تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں نکل جانا کتاب کی مقبولیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
’غبارخاطر‘کی رائلٹی کے طور پر ’حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی‘ کی طرف سے تیرہ ہزار تین سو پینتیس روپے پانچ آنے تین پائی مولانا کو ادا کیے گئے تھے۔ پہلا ایڈیشن(۳۰x ۳۰) سائز،۳۴۰ صفحات اور طویل، مختصر کل ۲۳ مکتوبات پر مشتمل تھا۔
ایک خط گرفتاری سے قبل کا ہے جو کلکتہ سے بمبئی جاتے ہوئے دورانِ سفر میں تحریر کیا تھا۔
انیس مکتوبات۱۰ اگست۱۹۴۲ء اور جون۱۹۴۳ء کی درمیانی مدت کے قلعہ احمد نگر کی اسارت کے زمانے کے ہیں۔دو مختصر اور ایک کسی قدر مفصل یعنی تین خط رہائی کے بعد کے ہیں۔(۳)
’غبارخاطر‘ مولانا ابوالکلام آزاد کی آخری تصنیف ہے اور اس کے بعد سیاست کی مصروفیت نے انہیں فرصت نہ دی کہ قلم کی جولانیاں دکھاتے۔ مولانا آزاد کے یہ خطوط اپنی نوعیت میں عام خطوط سے جداگانہ ہیں۔ یہ ان خطوط کی طرح نہیں ہیں جو مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان روزمرہ کی علمی ، نجی، کاروباری، ادبی سرگرمیوں یا ضرورتوں کے پیش نظر لکھے جاتے ہیں۔ مولانا آزاد کو خوب معلوم تھا کہ وہ قید وبند میں جو خطوط لکھ رہے تھے وہ مکتوب الیہ تک نہیں پہنچ سکتے لیکن دنیا کے ہنگاموں سے الگ ہوجانے کے بعد ان کے دل ودماغ میں جو تاثرات پیدا ہوتے ہیں ان کو ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے اور اس کے علاوہ قید کے حالات بھی سپرد قلم کرنے کے لائق تھے۔ مولانا نے اس فرصت کے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے دوست کی مخاطبت کو بہانہ بنا کر اپنے تاثرات ،جذبات و احساسات کو کاغذ پر منتقل کیا اور یہ مجموعہ(غبارِخاطر) اس صورتِ حال کا نتیجہ ہے۔ مولانا آزاد کی خط وکتابت ہندوستان اور دنیا کے بڑے بڑے لوگوں سے تھی۔ مولانا کے ایک اہم دوست اور ہندوستان کی ایک بڑی شخصیت حبیب الرحمان شروانی کی ذات بھی تھی اور ’غبارخاطر‘ انہی کی مخاطبت میں لکھی گئی مشہورِ زمانہ تصنیف ہے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اس حوالے سے کچھ یوں رقمطراز ہیں۔
’’ غبارِ خاطر اردو کی کیا دنیا کی بہترین نثری کتابوں میں شمار ہونے کے لائق کتاب ہے۔ ادبِ عالیہ اگر کسی کتاب کو کہا جاسکتا ہے یا فرانسیسی اصطلاح میں جسےHigh Literature کہا جاسکتا ہے تو اردو میں یہ کتاب ہے یا مختار مسعود کی’آواز دوست‘اور ممتاز مفتی کی ’لبیک‘ یہ تین وہ کتابیں ہیں جو ادب کی ساری تعریفوں کو توڑ کر امر بن جاتی ہیں۔(۴)
عرش ملیانی ان خطوط کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ یہ خطوط مولانا کے قول کے مطابق محص دل بہلاوا تھے نہ کہ مکتوب الیہ کو بھیجنے کے لیے تھے نہ شائع کرنے کے لیے لیکن مولانا جب قید فرنگ سے آزاد ہوئے اور ان خطوط کا علم ان کے سیکرٹری اجمل خان صاحب کو ہوا تو انہوں نے مولانا کو ان کی اشاعت پر مجبور کردیا۔اصل میں یہ خطوط نہیں ایک طرح کے مضامین  ہیں جس میں زندگی کے نفسیات ہیں۔ معمولی باتوں سے بڑے بڑے کلیے اخذ کیے گئے ہیں۔ الہلال، البلاغ اورتذکرے والے ابوالکلام آزاد کی انانیت نہیں، ان تحریروں میں سال خوردہ کی زندگی کے تجربے اور مزاج کا ٹھہراؤ ہے۔‘‘(۵)
’غبارخاطر‘ کے بارے میں ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں۔
’’ غبارِ خاطر ابو الکلام کی ضعیفی کی آواز ہے مگر احباب اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں، اس میں ابوالکلام کے متعلق تو بہت کچھ ہے مگر خود ابوالکلام اس میں کم سے کم ہیں۔ کون سا ابوالکلام؟ وہ تذکرہ، الہلال والا ابوالکلام جو پہلے خود سے پردہ  اُٹھانے کا روادار نہ ہوا تھا بلکہ اپنی خودی کی عظمت اسی میں سمجھتا تھا کہ اس کی شخصیت کا مسور رنگ اور بھی مستور رہے۔  پھر بھی غبارِ خاطر اپنی جگہ ایک اہم شاہکار ہے کیونکہ اس سے اس کے مصنف کے ذہنی ونفسی ارتقاء کا نقطہ انتہائی کا حال اچھی طرح معلوم ہوا۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس مین مصنف نے اپنی سیرت کا فلم اس طرح دکھایا کہ اس کی ابتداء وانتہا اور  زندگی کی ارتقائی فضا بھی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔‘‘(۶)
’غبارخاطر‘ کے مقدمے کے سلسلے میں ابوسلمان شاہ جہان پوری نے انتہائی دلچسپ بات کی ہے۔
’غبارخاطر کے مکاتیب کی طرح اس کا مقدمہ بھی شائقین ادب کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ مقدمہ پڑھتے ہوئے ابوالکلام آزاد کے قلم کا دھوکہ ہوتا ہے۔ پورا مقدمہ اس مخصوص طرزِ نگارش میں لکھا گیا جو غبارِ خاطر کی سب سے بڑی ادبی خصوصیت سمجھی گئی ہے لیکن چونکہ مقدمہ کا ایک موضوع حضرت مولانا کی ذات ہے اور اس میں مولانا کے علم وفضل کے متعلق اشارات اور ان کی مختلف حیثیتوں کا ذکر عقیدت مندانہ انداز بیان میں کیا گیا ہے اس لیے یقین کرنا پڑتا ہے ہ یہ واقعی اجمل خان صاحب کے قلم سے ہے۔۔۔۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد مختلف علوم وفنون میں اپنے مقام کی انفرادیت اور تحریر و انشاء کی گونا گوں خصوصیات سے خوب واقف تھے۔ اس میں نہ مبالغہ ہے نہ اپنے متعلق محض خوش فہمی، نہ کوئی بات خلاف واقعہ ہے بلکہ ان کی شخصیت اور ان کے علم وفضل کا وہ اظہر واقعی ہے جس کا مخالف وموافق علماء وفضلا نے اعتراف کیا ہے۔ باایں حقیقت وحالات اگر مولانا آزاد ’غبارخاطر‘ کے مقدمہ میں اپنے متعلق ایک خاص انداز تحریر اختیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے شخص کا نام ڈال دیتے ہیں اس لیے کہ تقاضا یہی تھا اور جس کے مستعار قلم سے اپنے متعلق کچھ لکھتے ہیں ، وہ تمام باتیں اس شخص کا نام ڈال دیتے ہیں اس لیے کہ تقاضا یہی تھا اور جس کے مستعار قلم سے اپنے متعلق کچھ لکھتے ہیں، وہ تمام باتیں اس شخص کے جذبات اور اس کی عقیدت مندیوں کے عین مطابق ہوں تو یہ کیوں تعجب خیز ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔
بہرحال اس میں نہ تو کوئی حیرت میں ڈالنے ولی چیز ہے نہ اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش ہے۔ یہ مقدمہ علاؤ الدین خالد صاحب کی فرمائش پر لکھا گیا تھا۔ ابتداء میں ’غبارخاطر‘ پر مقدمہ لکھنے کا خیال مولانا کو نہ تھا لیکن جب خالد صاحب نے ایسی تحریر کے لیے اصرار کیا جس میں ’غبارخاطر‘ کے اسلوب نگارش اور اس کی علمی و ادبی حیثیت پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ مولانا نے ان کی نیازمندانہ عرض وگزارش  اور اصرار سے مجبور ہو کر قلم اٹھایا لیکن مقدمے کے انداز بیان وساخت کے پیش نظر اجمل خان کے نام ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد چونکہ ایک بہت بڑے عالم وفاضل آدمی تھے اس لیے انہوں نے اپنی مخاطبت کے لیے بھی ایک ایسے آدمی کا انتخاب کیا جو ان کے احساسات وجذبات کو سمجھ سکے۔ ان کے حلقہ احباب میں صرف ایک ہستی ایسی تھی جو علم کی مختلف اصناف میں یکساں طور پر دلچسپی لے سکتی تھی اور یہ نواب صدر یار جنگ بہادر مو لانا حبیب الرحمن شروانی کی ذات تھی۔ انہوں نے عالم خیال میں ان کو مخاطب تصور کرلیا اور پھر جو کچھ بھی ان کے خیال میں آتا گیا، اسے بے تکلف قلم کے حوالے کرتا رہا۔ ان ہی مضامین یا خطوط کا مجموعہ’غبارخاطر‘ ہے۔
نواب صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمن شروانی۵ جنوری ۱۸۶۷ء کو بھیکم پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان یہاں انیسویں صدی کے اوائل میں آکر آباد ہوا تھا۔ اور ان کے آباؤااجداد یہاں کے رئیس تھے۔ شروانی خاندان بہت مشہور ہے اور اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ہندوستان کے اسلامی عہد میں ا س خاندان کے متعدد افراد بڑے صاحب اثر و نفوذ گزرے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی مرتبہ حکومت وقت کے ردوبدل میں ان کی حیثیت بادشاہ گر کی ہوگئی۔ ان کے اس عہد کے کارنامے تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔
مولانا حبیب الرحمن خان کی تعلیم وتربیت اپنے تا یا صاحب کی نگرانی میں ہوئی۔ ان کی علوم عربیہ وفارسیہ کی متعدد شاخوں میں تعلیم مختلف اساتذہ کی رہنمائی میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے انگریزی کی طرف توجہ کی اور اس میں بقدر ضرورت خاصی استعداد پیدا کرلی۔
مولانا حبیب الرحمن کی تعلیم وتربیت جس نہج اور معیار پر ہوئی تھی اس نے بہت جلد انہیں ملک کے علمی حلقوں میں متعارف کرادیا۔ ان کا مزاج خاص علمی تھا۔ انہوں نے اپنے ذاتی شوق سے زرِ کثیر خرچ کرکے حبیب گنج میں ایسا نادرا ور قیمتی کتاب خانہ جمع کیا جس کی شہرت ملک کے باہر پہنچی۔ ان کے علم وفضل کو دیکھتے ہوئے اصحاب حجاز نے انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کا صدر مقرر کردیا۔ یہیں سے ان کی شہرت دکن پہنچی، جس پر آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خان بہادر نظام دکن نے انہیں اپنی ریاست کے امور مذہبی کا صدر الصدور بنا کر جون ۱۹۱۸ء میں حیدر آباد بلوالیا۔ حیدر آباد میں ۲۸ اگست ۱۹۱۹ء کو عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی اور مولاناحبیب الرحمن خان شروانی اس کے پہلے شیخ (وائس چانسلر) مقرر ہوئے۔ اسی سال اپنے عہدے کی مناسبت سے انہیں اعلیٰ حضرت نطام کی طرف سے’ صدر یار جنگ‘ خطاب عطاء ہوا۔ حیدر آباد میں ان کا قیام اپریل۱۹۳۰ء تک رہا۔
ملک کے اس وقت کے سیاسی حالات کے پیش نظر کسی شخص کا سیاست سے بالکل بے تعلق رہنا ممکن نہ تھا تاہم نواب صاحب نے ایسی کوئی عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور حیدر آبادسے واپسی پر تمام توجہ تعلیمی اور علمی اداروں کے فروغ وترقی پر مبذول کردی۔ یہ شاعر اور مصنف بھی تھے۔ حسرتؔ تخلص تھا اور شاعری میں امیر مینائی کے شاگرد تھے۔۔۔۔۔ اردو کاروان حسرت اور فارسی مین بوستان حسرت اور بھی متعدد کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ بھی’مقالات شروانی‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔
ان کا انتقال بروز جمعۃ المبارک۱۱  اگست۱۹۵۰ء کو علی گڑھ سے تقریباً ۲۵ میل کے فاصلہ پر بھموری میں ہوا  اور اپنے موروثی قبرستان میں آسودہ خواب ابدی ہیں۔(۷)
نواب صدریار جنگ سے مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلقات۱۹۰۶ء میں قائم ہوئے اور جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان تعلقات میں خلوص اور پختگی اور ایک دوسرے کے مقام شناسی کا جذبہ پیدا ہوتا گیا۔ انہی تعلقات کا ایک باب’غبارخاطر‘ ہے۔
موضوع اور مطالب کے لحاظ سے’غبارخاطر‘ کے مکاتیب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۔        وہ مکاتیب جو کسی علمی، ادبی مسئلہ یافلسفیانہ مباحث سے تعلق رکھتے ہیں۔
۲۔        وہ مکاتیب جو مولانا آزاد کی ذات اور ان کی گردوپیش سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ کس قسم کے مکاتیب زیادہ اہم ہیں۔ پہلی قسم کے مکاتیب اگر علمی موضوعات اور فلسفیانہ مباحث سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں بھی مولانا کی انفرادیت، انانیت،ذوق ورجحان طبع، عقائد ونظریات، اخلاق وعادات اور ان کی نفسیات کے بارے میں بیش قیمت معلومات ملتی ہیں۔ دوسری قسم کے مکاتیب میں مولانا مرحوم نے اپنی گرفتاری، قلعہ احمد نگر کی زندگی، وہاں کے حالات، اپنی ابتدائی زندگی، تعلیم وتربیت، خاندان،تعلیمی اور گھر کا ماحول، افکار وعقائد اور ذوق معمولات روزمرہ، پر اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
’غبارخاطر‘ ’خطوط‘ مضامین یا انشائیے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہیں۔
’’ یہ سوال بار بار دہرایا گیا ہے اور واقعی یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ ان خطوط کو کس خانے میں رکھا جائے۔ ’غبارخاطر‘ میں بعض خطوط ایسے ہیں جو کسی سنجیدہ انداز میں لکھے گئے جیسے موسیقی کے بارے میں خط، باغبانی کے بارے میں خط، ان میں بلاشبہ مضمون کی شان پائی جاتی ہے۔ بعض ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے جیسے چڑیا چڑے کی کہانی والا خط، یہاں انشائیہ کا انداز غالب ہے۔ اس لیے بعض اہل نظر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مولانا نے مضمون لکھے، انشائیے تحریر کئے اور انہیں خط کی شکل دینے کے لیے ہر خط کے شروع میں ’صدیق مکرم‘ کا القاب ٹانک دیا، آخر میں دستخط فرمادیے ابوالکلام آزاد اور یہ خط بن گئے۔
خط وہ ہوتا ہے جس میں خط لکھنے والا بھی نظر آئے اور وہ بھی جسے خط لکھا جاراہا ہے۔ جیسے غالبؔ کے خطوط۔ مولانا کے خط یک طرفہ ہیں۔ مطلب یہ کہ بس وہ اپنی بات کہے جارہے ہیں۔ ان خامیوں کے باوجود’غبارخاطر‘ کو خطوط کا مجموعہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کیونکہ بیشتر جگہ خط نگاری کی فضاء قائم ہے۔‘‘(۸)
’غبارخاطر‘ کا سب سے اہم حوالہ اس کا اسلوب ہے۔ اسی چیز سے متاثر ہوکر مولانا حسرت موہانی چلا اُٹھے تھے کہ
؎          جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر     
نظم حسرتؔ میں بھی مزہ نہ رہا(۹)
اور سجاد انصاری نے مولانا کی نثر نگاری کے متعلق رائے دی کہ:
’’ میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوچکا ہوتا تو ابوالکلام کی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی یا اقبال کی نظم۔۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد حقیقی معنوں میں فوق البشر ہیں۔‘‘(۱۰)
غبارِخاطر مولانا کی آخری تصنیف ہے ۔ اس کے بعد سیاست کی مصروفیت نے اُنہیں قلم کی جولانیاں دکھانے کی فرصت نہ دی۔ غبارِخاطر کے خطوط عام طرز کے خطوط سے جُداگانہ ہیں۔ خطوط شخصیت کے اظہار کا بہترین وسیلہ ہے۔ مولانا ابولکلام کی زندگی کے بارے میں ایسی باتیں غبارِخاطر میں ملتی ہیں کہ اگر مولانا وہاں نہ لکھتے تو شاید یہ باتیں کسی طرح ہم تک نہ پہنچتیں۔ جیسا کہ اک خط سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا کا خاندان قدامت پرستی اور تقلید کی چاردیواری میں گھرا ہوا تھا۔ ان خطوط سے مولانا کی سحر انگیزی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان خطوں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا بے حد کم آمیز تھے۔ بھیڑ ہمیشہ اُنہیں ناگوار گزری اور بچپن سے ہی وہ تنہا نشینی کے عادی تھے۔ 
ان خطوط کے مطالعہ سے مولانا کی سب سے اہم خصوصیت کا پتہ چلتا ہے وہ ان کا مضبوط حافظہ ہے۔ پوری پوری عبارتیں انہیں یاد ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی یاد رہتا ہے کہ یہ عبارت کس صفحے پر ہے ۔ جب غبارِخاطر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہو تی کہ انہیں عربی،فارسی اور اردو کے کتنے اشعار یاد تھے ۔ دقیق اور رنگین عبارت کا بہترین نمونہ ’غبارِخاطر‘ ہے جس میں عربی و فارسی کے مشکل الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سلیقہ اور شائستگی کی بات ہے وہ اردو میںثقیل اور گِراں معلوم نہیں ہوتے بلکہ ان سے علمی وجاہت ،بیان کی شوکت اور طرزکی متانت کا اظہار ہوتا ہے۔ مولانا کی اسی جادو بیانی سے متاثر ہو کر رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؔ نے کہا تھاکہ
ــ’’ میں نے لیڈری ابولکلام آزاد کی نثر اور اقبال کی شاعری سے سیکھی‘‘  (۱۱)
غبارِ خاطر کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرزِ تحریر ہے۔ تخلیقی نثر کا یہ شاہکار صدہوں تک جمال پرستوں کو انبساط وسرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراجِ تحسین وصول کرتا رہے گا۔
احمد ولی، اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

حوالہ جات
 ۱ ۔        ابو سلمان شاہجہانپوری ۔ مولاناابولکلام آزاد ایک شخصیت ایک مطالعہ، سندھ ساگراکیڈمی لاہور ۱۹۶۷، ص ۲۰۲
۲۔        مالک رام۔  مقدمہ غبارخاطر ،  مکتبہ جمال لاہور۔  ۲۰۱۰ء  ص ۱۲
۳۔       ابو سلمان شاہجہانپوری ۔  مکاتیب ابولکلام آزاد،   اردو  اکیڈمی سندھ کراچی   ۱۹۶۸ء  ص۱۱
۴۔       ظہور احمد اعوان ،ڈاکٹر۔  رنگِ لہو،  لطیف برادرز،پشاور ۔  ۲۰۱۳ ء  ص ۸۴
۵۔       عرش ملیانی۔  جدید ہندوستان کے معمار ابولکلام آزاد، پبلی کیشنز ڈویژن حکومت ہند ۔  ص ۱۱۴
۶۔        سید عبداللہ،ڈاکٹر ۔  وجہی سے عبدالحق تک ،  سنگِ میل لاہور۔  ۲۰۰۲ء  ص۲۳۰
۷۔       مالک رام۔  مقدمہ غبارخاطر،  مکتبہ جمال لاہور۔  ۲۰۱۰ء  ص۱۲
۸۔       سنبل نگار،ڈاکٹر۔  اردو نثر کا تنقیدی جائزہ،  دارالنور لاہور۔ ۲۰۰۳ء  ص ۲۵۔۲۲۴
۹۔        حسرت موہانی۔  دیوانِ حسرت ،  خیام پبلیشرز لاہور ۔ ۱۹۹۸ء  ص۸۹
۱۰۔       ابو سلمان شاہجہانپوری ۔ مولاناابولکلام آزاد ایک شخصیت ایک مطالعہ، سندھ ساگراکیڈمی لاہور ۱۹۶۷ ،ص۲۲۵
۱۱۔       ابو سلمان شاہجہانپوری ۔ مولاناابولکلام آزاد ایک شخصیت ایک مطالعہ، سندھ ساگراکیڈمی لاہور ۱۹۶۷، ص۲۱۴

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com