تاریخِ تراجم میں اداروں اور کتب کا مختصر جائزہ
ڈاکٹر محمد وسیم انجم
ABSTRACT
Translation is the communication of the meaning of a source-language text by means of an equivalent target-language text. Translational research means different things to different people, but it seems important to almost everyone. Translation is the action of interpretation of the meaning of a text, and subsequent production of an equivalent text, also called a translation, that communicates the same message in another language. Translations not only promote the literature of countries but also introduce its art and culture. Old and modern translations have been flourished and Muslims translators have taken a vital role in it. In the promotion of Urdu language & literature, translators struggle is unpredictable .
اُردو لغات میں ایک زبان سے دوسری زبان میں بیان کو ترجمہ کہتے ہیں اور جو یہ عمل کر رہا ہو اُسے مترجم کہتے ہیں(۱) ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب مغرب سے نثری تراجم میں مظفر علی سید کی ترجمہ سے متعلق فاضلانہ رائے اس طرح تحریر کی ہے:
’’ٹرانسلیشن کا لفظ مغرب کی جدید زبانوں میں لاطینی سے آیا ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں ’پار لے جانا‘۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی خاص مترجم کسی کو پار اتارتا ہے کہ نہیں یہ مفہوم نقل مکانی سے لے کر نقل معانی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح اردو اور فارسی میں ترجمے کا لفظ جس کا اشتقاقی رابطہ ترجمان اور مترجم دونوں سے ہے عربی زبان سے آیا ہے۔ اہلِ لغت اس کے کم سے کم چار معنی درج کرتے ہیں۔ ایک سے دوسری زبان میں نقل کلام، تفسیر و تعبیر دیباچہ اور کسی شخص کا بیان احوال یا تذکرہ شخصی ہے‘‘ (۲)
ترجمہ کے فن پر پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر فاخرہ نورین ترجمے کے پیچیدہ تخلیقی عمل کو مختلف تعریفوں کی روشنی میں پرکھتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ترجمہ ایک زبان کی راکھ سے دوسری زبان کو حیات بخشنے کا عمل ہے‘‘ (۳)
فن ترجمہ کاری پر بہت سے مصنفین اور مرتبین کی بیشتر کتب منظرعام ہو چکی ہیں ۔ ان میں ترجمہ کاری کے فن کے مباحث پر مواد سے اس کی تاریخ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ فن ترجمہ کاری کے مباحث پر ڈاکٹر صوبیہ سلیم اور محمد صفدر رشید کی کتاب ’’فن ترجمہ کاری‘‘ میں ادباء کے مضامین شامل ہیں (۴) اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن چند تبدیلیوں کے ساتھ ڈاکٹر صفدر رشیدنے اپنے اشاعتی ادارے پورپ اکادمی (۵) سے شائع کر دیا ہے جبکہ پہلی اشاعت ادارہ فروغ قومی زبان کی کتاب اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے نیک فعال ہے۔ اگر یہ ادارہ تراجم پر شائع ہونے والے مزید مقالات کو کتابی شکل میں مرتب کر دے تو تحقیق کرنے والے انہیں بڑی قدر کی نظر سے دیکھیں گے ۔فلسفے اور تاریخ کے موضوع پر محققین کی تحقیق اور تحقیقی مقالے پروفیسر میاں محمد شریف کی بنیادی کتاب مسلمانوں کے افکار کا ذکر کرنے سے قاصر رہے۔یہ کتاب فلسفے اور تراجم پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہے جس میں فلسفے اور ترجمے کی تاریخ پر گہری نظر ڈالی گئی ہے ۔ میرے اس تحقیقی مقالے کی آئندہ سطور میں اس کے حوالے ملیں گے۔
دراصل ادب میں تراجم، صدیوں سے ایک زبان سے دوسری زبان میں کلاسیکی تخلیقات کو منتقل کرنے کے لئے ایک بصیرت افروز ذریعہ قرار دیئے گئے ہیں اور ملکی سے غیر ملکی ادب کو تہذیبی اور فنی دونوں طور پر متاثر کیا ہے۔ مسلم فکر کا عروج ایک ایسے دور میں شروع ہوا جو اگرچہ بدیع اور طبع زاد خیالات سے معمور تو تھا لیکن اس پر خصوصیت کے ساتھ سنسکرت، پہلوی، سریانی اور یونانی تصنیفوں کے ترجموں کی مہریں لگی ہوئی تھیں۔ ۷۶۲ء میں پہلے عباسی خلیفہ ا لمنصور نے اپنے نئے دارالخلافہ بغداد کی بنیاد ڈالی ۔ اس نے اپنے اردگرد مختلفدیار و امصار کے علماء و فضلاء جمع کئے اور دوسری زبانوں سے سائنس اور ادبی تصانیف کے ترجموں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی۔ نیز ایسے متعدد علماء جو شاہانہ الطاف و اکرام سے سرفراز تھے، نجی طو رپر بھی ترجمے کا کام کیا کرتے تھے۔ ان میں بیشتر یہود و نصاریٰ اور نو مسلم تھے۔ ایک مترجم عبداﷲ بن المقفع (المتوفی ۷۵۷ء) ۔ یہ زرتشتی نو مسلم تھا۔ اس کا شہرۂ آفاق ترجمہ ’’کلیہ و رمنہ‘‘ ہے جو اخلاقیات پر سنسکرت کے ایک رسالے کے پہلوی ترجمے سے عربی میں منتقل کیا گیا ہے(۶)۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پرانا شکنتلا، کالی داس کا شاہکار صرف سنسکرت زبان اورہندوستان کی ملکیت نہیں بلکہ دنیا کے تمام ادب کا ایک حصہ بن چکا ہے(۷)۔ مگر سنسکرت کا اصل متن اور اس کا فارسی ترجمہ دونوں زمانے کے دست برد کی نذر ہو گئے، لیکن اس رسالہ کے چند اجزاء ’’پنج تنتر‘‘ اور ’’مہابھارت‘‘ میں بالشرح اور مُفصل موجود ہیں۔ یہ رسالہ اپنے عربی ترجمے کی وساطت سے یورپ کی قریب قریب تمام زبانوں میں منتقل ہو چکا ہے(۸)۔ صفدر قریشی کی تحقیق کے مطابق تمام زبانوں کی اصل عربی ہے۔ صفدر قریشی ’وحدت اللسان کا تعارف‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ماہرین لسانیات عربی کو اُم الالسنہ یعنی زبانوں کی ماں کہتے ہیں۔ اس بات کو میں نے اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا ہے ۔ اس سوچ کی تائید کے لیے میں نے علم الاشتقاق (Etymology ) کے وسیلہ کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ علم الاشتقاق علم ِ صرف کی ایک شاخ ہے اس کے ذریعے مختلف زبانوں کے الفاظ کی مختلف زمانوں میں بننے والی شکلوں کی تحقیق کی جاتی ہے۔‘‘ ( ۹)
ترجمے کی وساطت سے ہمیں دُنیا کے تمام مذاہب، رسومات اور ثقافت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ قدیم تہذیب کی زبان کا سراغ پانے، ان کی مٹی کی تختیوں کی تحریروں یا پارچات پر یا غاروں میں مصوروں کے بنائے ہوئے نقوش کے معانی و مطالب کو ڈھالنے میں جس فنی قوت سے ہماری مدد کی اور آشنا کیا ہے ، وہ ترجمہ ہی ہے۔ دوسرا مترجم ایک ہندوستانی سیاح جس نے ’’سدھانت‘‘ جو فلکیات پرتھی اور ریاضی کی ایک کتاب کے ترجموں میں مدد دی تھی۔ دیگر مترجمین میں قابل ذکر نام پر وفیسر میاں محمد شریف نے اپنی کتاب ’’مسلمانوں کے افکار‘‘ میں اس طرح تحریر کیے ہیں(۱۰)
i ۔ جارج یختیشوع۔ یہ المنصور کے دربار کا نسطوری طبیب تھا، جندی شاپور سے آیا تھا (المتوفی ۷۷۱ء)
ii ۔ بختیشوع کے دو بیٹے ۔ بختیشوع دوم (المتوفی ۸۰۱ء) اور جبریل (المتوفی ۸۰۹ء)
iii ۔ بختیشوع کے شاگرد
(الف) عیسیٰ ابن تھاکر بخت۔
(ب) جان بارما سر جویہ (شامی نژاد یہودی طبیب تھا)
(ج) قسطا ابن لوقا (۹۲۳ء)
(د) الحجاج ابن یوسف (۷۸۶ء اور ۸۳۳ء کے مابین) ۔ الحجاج اقلیدس کی مبادیات کا پہلا مترجم ہے اور بطلیموس کی ’’الماجست‘‘ کے اولین مترجموں میں اس کا شمار ہوتا ہے (سب سے پہلا مترجم یحیٰی ابن خالد وزیر خلیفہ ہارون الرشید گزرا ہے) ثاوفیل ابن توما (لاطینی: تھیوفیلس ۷۸۵ء) اس نے ہومر کی ایلیڈ کے چند حصص کا ترجمہ کیا ۔
(و) ابویحیٰی (۷۹۴ء اور ۸۰۶ء کے درمیان) اس نے جالینوس اور بقراط کی بیشتر تصانیف، بطلیموس کی ’’کواڈری پارٹلم‘‘ اور ’’الماجست‘‘ اور ’’اقلیدس کی مبادیات‘‘ کے ترجمے کئے۔
تاہم یہ امر واقعہ ہے کہ یونانی تصانیف کے ان تمام عربی ترجموں میں ایک بھی ترجمہ معیاری نہ تھا۔عربی نہایت وسیع زبان ہے۔ اس کی زمانہ جاہلیت کی شاعری مشہور ہے۔ اس زمانہ میں بڑے بڑے زبان آور خطیب بھی پیدا ہوئے اور زمانہ جاہلیت سے لے کر اسلام کے تقریباً ایک صدی بعد تک کا سارا ادبی سرمایہ قواعد کے بغیر وجود میں آیا۔ بنی اُمیہ کے زمانہ میں جب عجمی اور رومی قومیں مسلمان ہوئیں اور قرآن مجید کی تلاوت میں غلطیاں کرنے لگیں، اُس وقت اُن کی عربی تعلیم کے لئے عربی صرف و نحو مرتب کی گئی تقریباً یہی حال دوسری زبانوں کے قواعد کی تدوین کا بھی ہے۔
۸۳۲ء میں خلیفہ المامون نے بغداد میں بیت الحکمۃ کی بنیاد رکھی اور اس کے ساتھ ایک رصدگاہ، ایک کتب خانہ اور ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا ۔ حتّی کا بیان ہے کہ یہ دانش گاہ بعض اعتبارات سے اسکندریہ کے اس عجائب گھر کے بعد جو تیسری صدی قبل مسیح کے نصف اول میں قائم ہوا تھا، ایک اہم ترین ادارہ ثابت ہوئی۔ اس میں سریانی اور پہلوی زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کئے جاتے تھے۔ سریانی اور پہلوی کتابیں یونانی سنسکرت سے منتقل ہوتی تھیں۔ یحیٰی ابن ماسویہ کو (۷۷۷ء۔۸۵۷ء) جو ایک نسطوری طبیب اور بختیشوع کا شاگرد تھا، بیت الحکمۃ کا صدر مقرر کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے خلیفہ ہارون الرشید کے لئے طب کے بعض اصل نسخوں کے ترجمے کئے تھے لیکن اس ادارے کا اہم ترین کام یحییٰ کے شاگرد حنین ابن اسحاق (لاطینی جون نی ٹی اس) اور اس کے شاگردوں نے انجام دیا۔ حنین ابن اسحاق بھی نسطوری عیسائی تھا۔ وہ ابتداء میں ابن ماسویہ کے پاس دواسازی کا کام کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ فرزندان موسیٰ بن شاکر کی ملازمت میں منسلک ہو کر یونانی بولنے والے علاقوں میں اصل نسخے جمع کرتا رہا۔ پھر وہ بیت الحکمہ اور دارالترجمہ کا نگران مقرر ہوا اور آخر میں خلیفہ المتوکل کا طبیبِ خاص بنا۔ حنین نے غالباً اپنے کئی ہم کاروں کے تعاون سے حسب ذیل کتابوں کے عربی ترجمے کئے جن کا ذکر پروفیسر میاں محمد شریف نے مذکورہ بالا کتاب میں اس طرح کیا ہے(۱۱):
i ۔ کتب اقلیدس (۳۰۰ ق م)
ii ۔ جالینوس ، بقراط، ارشمیدس اور اُپلونیوس کی تصانیف کے بعض حصص۔
iii ۔ افلاطون کی ’’ری پبلک‘‘ اور ’’لاز‘‘ اور ’’طائییوس‘‘۔
iv ۔ ارسطو کی ’’کیٹی گوریز‘‘ فزکس، ماگنا، موریلیا اور مائترولوجی (مؤخر الذکر ایک جعلی کتاب ہے جو ارسطو سے منسوب کر دی گئی ہے)۔
v ۔ تھامسطیوس کی ’’میٹافزکس‘‘ کے باب ۳۰ کی شرح۔
vi ۔ عہدنامۂ قدیم۔
vii ۔ اجینہ کے پال کے (۶۵۰ء) قانون طب کے خلاصے ۔
دُنیا کی کوئی زبان بھی اس اخذ و استفادہ اور لین و دین سے خالی نہیں ہے اور نہ اس کے بغیر کوئی زبان ترقی کر سکتی ہے۔ عربی باوجودیکہ نہایت وسیع زبان ہے۔ مادوں، مصادر اور مشتقات کی کثرت ووسعت میں کم زبانیں اس کا مقابلہ کر سکتی ہیں، مگر اس میں علمی و تمدنی الفاظ کا ذخیرہ نہیں تھا، اس لئے جب دوسری قوموں سے مسلمانوں کا اختلاط اور ان کی علمی و تمدنی ترقی کا آغاز ہوا تو انہوں نے یونانی، پہلوی اور ترکی زبانوں کے سینکڑوں علمی و تمدنی الفاظ و اصطلاحیں بجنسہ یا تھوڑے تغیر کے ساتھ عربی میں منتقل کر لیں بلکہ عربی میں کچھ لاطینی ، اسپینی، اٹالین الفاظ و اصطلاحات بھی پائی جاتی ہیں اور یہ تمام الفاظ اس طرح عربی میں جذب ہو گئے ہیں کہ مبصرین و ماہرین لغت کے علاوہ دوسرے لوگ ان کی اصل کا پتہ بھی نہیں چلا سکتے، ان کو عربی میں معرب اور دخیل کہتے ہیں۔حنین کے بیٹے کی حسب ذیل کتابوں کے عربی ترجمے کا ذکر پروفیسر میاں محمد شریف اس طرح کرتے ہیں:
i ۔ افلاطون کی ’’سوفسط‘‘
ii ۔ ارسطو کی ’’میٹافزکس‘‘، ’’ڈی انی ما‘‘، ’’جنریشن ایٹ ڈی کریش‘‘ اور ’’ہرمینوٹیکا‘‘۔
iii ۔ فرفور یوس، اسکندر متوطن افروڈی سیاس اور امونیوس کی شرحیں(۱۲)۔
اس زمانے کی سب سے زیادہ عالمگیر اور وسیع زبان انگریزی ہے، مگر اس میں جس کثرت سے لاطینی اور یونانی الفاظ ہیں اُن سے اس زبان کے ماہرین پوری طرح واقف ہیں ۔ شاہ معین الدین ندوی کی کتاب ’’ادبی نقوش‘‘ میں تحریر ہے :
’’ مسلمانوں کے عروج کے زمانہ میں اسپین و سِسلی کی درسگاہوں اورجنگ صلیبی کے وسیلہ سے عربی کے جو الفاظ و اصطلاحیں انگریزی اور یورپ کی دوسری زبانوں میں داخل ہوئی تھیں، وہ بجنسہ آج تک موجود ہیں۔ خواجہ کمال الدین مرحوم نے ام الالسنہ میں اس قسم کے الفاظ کی بڑی طویل فہرست دی ہے، گو اس میں جا بجا مبالغہ سے کام لیا گیا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ آج بھی انگریزی میں عربی کی بہت سی علمی اصطلاحات موجود ہیں، الجبرا اور الکحل سے تو ہم آپ سب واقف ہیں۔ مسلمانوں کا زیادہ واسطہ اسپین، پرتگال، سِسلی، اٹلی اور فرانس سے رہا ہے۔ اس لئے ان تمام زبانوں میں بہت سے عربی کے الفاظ ہیں۔ شام کے مشہور فاضل کرد علی نے اپنی کتاب الاسلام و الحصنارۃ العربیۃ میں اس پر ایک مستقل باب لکھا ہے‘‘ (۱۳)
اس تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ دُنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں نے دوسری زبانوں کے وہ الفاظ قبول کئے ہیں جن کا بدل ان میں نہیں تھا، اس کے بغیر کوئی زبان ترقی کر ہی نہیں سکتی۔ابوبشر مطا بن یونس (المتوفی ۹۳۹ء) نے ارسطو کی کیٹی گوریز اور فرفوریوس کی ’’ایساغوجی‘‘ کی شرحیں لکھنے کے علاوہ کتابوں کے عربی ترجمے کئے جن کے بارے میں پروفیسر میاں محمد شریف نے ذیل کتب کا تذکرہ کیا ہے:
i ۔ ارسطو کی انالیٹکا، پوسٹی ریورا، بوطیقا
ii ۔ اسکندر متوطن افروڈی سیاس کی ’’ڈی جنریشن ایٹ ڈی کریش‘‘ کی شرح ۔
iii تھامسطیوس کی ’’میٹافزکس‘‘ کی کتاب ۳۰ کی شرح۔
حنین کے بھتیجے مسمیان جیش اور عیسیٰ ابن یحیٰی اور موسیٰ ابن خالد بھی اس سکول کے ممتاز مترجمین گزرے ہیں(۱۴)۔
ترجمے کا کام یوں بھی بہت کٹھن اور دشوار گزار ہے، مگر فلسفہ کی کتاب کا ترجمہ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے باوجود کہ عربی اور فارسی میں اسلامی فلسفہ کی وجہ سے فلسفیانہ اصطلاحات مل جاتی ہیں، لیکن جدید فلسفہ میں ایسی بہت سی اصطلاحات ہیں جو ارسطو یا افلاطون کے فلسفہ میں نہیں ملتیں(۱۵)۔ تراجم کے مختلف گروہوں کے بارے میں پروفیسر میاں محمد شریف رقمطراز ہیں:
’’حنین نسطوری مترجموں کا سرگروہ تھا اسی طرح ثابت ابن قرہ (۸۳۶ء) بھی صائبی مترجموں کا سرخیل گزرا ہے۔ یہ صائبی مترجمین حسران سے آئے تھے جو علم و فضل کا قدیم مرکز تھا اور فلسفیانہ اور طبی مطالعہ و تحقیق کے لئے مشہور ہو گیا تھا۔ ثابت اور اس کے مقلدوں نے یونان کی ریاضیاتی اور ہیئتی تصانیف کے بیشتر حصوں کو عربی زبان میں منتقل کیا۔ ان کے ترجمے اگلوں کے مقابلے میں بہتر نکلے۔ آخر عمر میں ثابت ابن قرۃ خلیفہ معتفد کا ندیم خاص بن گیا تھا ۔ اس کی ادبی سرگرمیوں کے سلسلے کو اس کے دو بیٹوں ابراہیم اور سنان، دو پوتوں ثابت اور ابراہیم اور دو پرپوتوں اسحاق اور ابوالفرج نے جاری رکھا۔ دسویں صدی کے دوسرے نصف میں یعقوبی مترجموں کا گروہ پیدا ہوا جس میں یحیٰی ابن عدی (المتوفی ۹۷۴ء) اور ابوعلی عیسیٰ ابن زرعہ (۱۰۰۸ء) نے بہت سے متقدم ترجموں پر نظرثانی کی اور ارسطو کی ’’کیٹی گوریز‘‘، ’’سوفسط‘‘، ’’الینک‘‘، ’’پوئٹکس‘‘ اور ’’میٹافزکس‘‘ ،افلاطون کی ’’طائیموس‘‘ اور ’’لاز‘‘ اور اسکندر متوطن افروڈی سیاس کی ’’کیٹی گوریز‘‘ کی شرح اور تھافراسطوس کی ’’مورے لیا‘‘ کی شرح کے جدید ترجمے پیش کئے۔ ابوعلی عیسیٰ ابن زرعہ نے ’’کیٹی گوریز‘‘ نیچرل ہسٹری اور پارٹی بوس انیمے لیم، کے ترجمے کئے ان کے علاوہ جان فلویونوس کی شرح کو بھی عربی زبان میں منتقل کیا ‘‘(۱۶)۔
عباسیوں کے ابتدائی دور میں جب یونانی، سریانی، ایرانی اور ہندی علوم کی فلسفہ، منطق، طب، ریاضی، نجوم اور ہیئت وغیرہ کی کتابوں کا ترجمہ شروع ہوا تو اس کے ساتھ ان علوم کی اصطلاحوں کے ترجمے بھی عربی میں کئے گئے اور بعض اصل زبانوں کی اصطلاحیں بجنسہِ عربی میں شامل کر لی گئیں، چنانچہ فلسفہ و منطق خصوصاً طب میں بکثرت یونانی اصطلاحیں آج تک موجود ہیں پھر جب ان علوم کو مسلمانوں نے ترقی دی اورنئے علوم پیدا کئے، تو ان کے لئے نئی اصطلاحیں بھی وضع کی گئیں۔ پھر فلسفیانہ اور سائنسی کلاسیکی ادب کے عربی ترجموں کا حلقہ اس قدر وسیع ہو گیا تھا کہ قیام بغداد کے اسی (۸۰) سال کے اندر اندر ارسطو کی تصانیف کے بیشتر حصے جن میں مائنرولوجی، میکانکس اور تھیالوجی جیسی جعلی کتابیں بھی شامل تھیں، عربوں کے قبضہ و تحویل میں آ گئے تھے (جہاں تک تھیالوجی کا تعلق ہے، یہ دراصل فلاطونوس کی ایناد کے آخری تین کتابوں، افلاطون اور نو افلاطونیوں کی بعض تصنیفوں، بقراط، جالینوس، اقلیدس، بطلیموس اور ان کے بعد کے مصنفوں اور شارحوں کی اہم تصنیفوں نیز بہت سی فارسی اور ہندوستانی کتابوں کی ملّخَص توضیحات پرمشتمل تھی) یہ سب کچھ دُنیائے اسلام میں اس وقت ہو رہا تھا جب کہ اہل مغرب فکر ِیونان سے قریب قریب ناآشنا تھے۔ بقول حتّی ’’یہاں مشرق میں ہارون الرشید اور المامون یونان و فارس کے فلسفے کی چھان بین کر رہے تھے تو وہاں مغرب میں ان کے ہم عصر شارلیمان اور اس کے امراء و عمائدین حروف تہجی لکھنا سیکھ رہے تھے ‘‘(۱۷)۔
چوتھی صدی ہجری میں فارسی برصغیر میں وارد ہوئی۔ صدیوں تک یہاں کی سرکاری اور ہمہ گیر زبان رہی۔ اہل نظر کو اس زبان کی برصغیر میں ادبی و ثقافتی اہمیت کا اب تک اعتراف اور احساس ہے۔ ۱۸۳۴ء میں سرکاری زبان کے طور پر اس زبان کی جگہ انگریزی نے لے لی (۱۸) اور علوم مشرقی کے فضلاء بے قدری کا شکار ہونے لگے۔ حالانکہ فارسی کی عاشقانہ مقدس زبان ایسی ہے جسے ہمارے عارف باﷲ صوفیوں نے اپنے روحانی تجربہ کے اظہار کے لئے پانچویں صدی ہجری کے بعد بتدریج ایجاد کیا۔ اس روحانی تجربہ کی جولانگاہ ایک ایسا مقام تھا جو عالمِ دُنیا سے ماورا تھا۔ صوفیاء کرام اپنے عارفانہ کلام میں حقائق کو بیان کرنا چاہتے تھے، ان کے اظہار کے لئے عام زبان میں سمائی اور صلاحیت نہیں تھی(۱۹)۔
عربی اور فارسی کے بعد جب اُردو نے اُن کی جگہ لی، تو ان دونوں زبانوں کی یہ ہزار سالہ میراث بھی اُسی کے حصہ میں آئی اور ایک ہزار سال سے عربی اور فارسی میں مختلف علوم و فنون کی اصطلاحوں کا جو ذخیرہ جمع ہوا تھا وہ سب اُردو میں منتقل ہو گیا۔
اُردو میں نثر کی تصنیف کی ابتداء دکن سے ہوئی اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز المتوفی م۸۲۵ھ/۱۴۲۱ء کی معراج العاشقین اُردو کی پہلی نثری تصنیف مانی جاتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ اس دور کی تصنیف نہیں ہے بلکہ اس کے مصنف مخدوم شاہ حسینی بیجاپوری ہیں جنہوں نے گیارھویں صدی ہجری کے نصف آخر یا بارھویں صدی کے اوائل میں ’’تلاوۃ الوجود‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا تھا (۲۰) اس طرح شاہ بُرہان الدین بیجاپوری المتوفی ۹۰۲ھ/۱۲۹۶ء کی کلمۃ الحق اور مرغوب القلوب وغیرہ اس دور کی تصنیفیں ہیں، مگر یہ سب دکھنی زبان میں ہیں، ان کا سب سے سلیس نمونہ ملا وجہی کی سب رس ہے(۲۱) جس کے متعلق ڈاکٹر سلیم اختر اپنی کتاب اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں رقمطراز ہیں:
’’سب رس ایک ایسی تصنیف ہے جو ایک ادیب نے ادبی اسلوب میں ادبی دلچسپی کے لئے قلمبند کی۔ اس کے مصنف (بلکہ زیادہ بہتر تو مترجم) ملّاوجہی ہیں یہ محمد یحیٰی ابن سیبک فتاحی نیشاپوری کے فارسی منظوم قصہ ’’حسن دول‘‘ کا آزاد نثری ترجمہ ہے جس کو نصیر الدین ہاشمی کے بقول ’’ملا وجہی‘‘ نے غالباً حضرت وجیہہ الدین گجراتی متوفی ۹۹۸ھ کی تالیف سے ترجمہ کیا ہے‘‘(۲۲)۔
اُردو ترقی کی ابتداء اٹھارھویں صدی کے وسط سے فورٹ ولیم کالج سے ہوئی اور ڈاکٹر جان گلگرایسٹ کی کوششوں سے اس نے صاف و سلیس زبان کی شکل اختیار کی، اور اس میں علمی و ادبی تصانیف کا سلسلہ شروع ہوا، اور میرامن دہلوی، میر شیر علی افسوس، میر بہادر علی حسینی، للولال جی، نہال چند لاہوری اور بینی پرشاد وغیرہ کی تصانیف و تراجم سے اُردو میں علمی زبان بننے کی اہلیت پیدا ہوئی، انہوں نے ادبی کتابوں کے ساتھ سنجیدہ علمی تصنیفیں اور ان کے ترجمے بھی کئے، اس وقت سے اُردو میں علمی تصانیف کا سلسلہ شروع ہوا اور چند ہی دنوں میں وہ اتنی ترقی کر گئی اور اس کا علمی و ادبی ذخیرہ اتنا وسیع ہو گیا کہ اس کی شہرت ہندوستان سے نکل کر یورپ تک پہنچ گئی اور انیسویں صدی کے وسط میں یورپ کے فضلاء نے اس کی جانب توجہ شروع کر دی، چنانچہ فرانس کے مشہور فاضل اور محسن اُردو گارسان وتاسی نے اُردو زبان پر اپنے مشہور خطبات دیئے تھے۔ ان خطبات کا اردو ترجمہ انجمن ترقی اردو نے شائع کر دیا ہے جس کی ضخامت آٹھ سو صفحات سے اوپر ہے مگر اردو کی ترقی کے لحاظ سے یہ دور بھی درمیانی تھا ۔ اس کی اصلی ترقی کا زمانہ انیسویں صدی کے آخر سے شروع ہوتا ہے، اس کے تمام بڑے بڑے مصنفین اور اصحاب قلم اسی زمانہ میں پیدا ہوئے، اُردو زبان کے مستقل ادارے اور اشاعت خانے قائم ہونے لگے، جنہوں نے ہر علم و فن کی بلندپایہ کتابوں اور تصانیف سے اُردو کا دامن بھر دیا اور سنجیدہ علمی تالیف و تصنیف کا عام مذاق پیدا ہو گیا، اور اس کی رفتار اتنی بڑھ گئی کہ نصف صدی کے اندر اُردو جیسی تہی دامن زبان علمی زبان بن گئی۔
جدید علوم و فنون کے تراجم اور ان کی تصانیف کا آغاز انگریزی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور خود لکھنؤ میں جہاں انگریزوں کے قدم سب کے آخر میں پہنچے، شاہان اودھ کے زمانہ ہی سے اسکول بک سوسائٹی کے نام سے ایک علمی مجلس یا دارالترجمہ قائم ہو گیا ، جس نے جدید علوم و فنون کی بہت سی کتابیں شائع کیں ، اس ترجمہ اور تصنیف کا سلسلہ انگریزی تعلیم کی توسیع و اشاعت کے ساتھ برابر بڑھتا گیا اور دارالترجمہ حیدر آباد نے اس کو کمال تک پہنچا دیا، اور اُردو میں تمام مغربی علوم و فنون منتقل ہو گئے، چنانچہ جامعہ عثمانیہ میں ان سب کی تعلیم اُردو زبان میں ہوتی تھی اور آج جدید و قدیم علوم میں مذہب و اخلاقیات اور فلسفہ و سائنسی فنون سے لے کر شعر و ادب اور افسانہ و ڈرامہ تک کوئی ایسا علم و فن نہیں جس کی تصانیف یا ترجمے اُردو میں موجود نہ ہوں۔
اُردو کی ترقی و اشاعت کے بہت سے ادارے قائم ہوئے جن کی تفصیل ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں تفصیل سے بیان کر دی ہے ان میں دارالمصنفین ، انجمن ترقی اُردو، دارالترجمہ حیدر آباد، ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد اور ندوۃ المصنفین زیادہ اہم ہیں جنہوں نے اپنی تصنیفات و تراجم سے اُردو کا تصنیفی معیار بلند اور اس کا دامن سنجیدہ علمی تصانیف سے مالا مال کر دیا اور آج اُردو زبان بھی ایک علمی زبان کہلانے کی مستحق ہو گئی۔ ترجمہ کا معیار بڑی حد تک ادبی نوعیت کا حامل ہے اور کسی غیر ملکی ادب کو اپنے ادب میں ڈھالنے کا انتخاب خود مترجم کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ اس کی ذہنی یا جذباتی وابستگی اس مخصوص ادب کے لئے متعین ہے چنانچہ دُنیا کے بیشتر عمدہ مترجم جن کی اشاعت پر ہمیں ناز ہو سکتا ہے یا ہمارے ادب میں ان کی اہمیت سمجھی جا سکتی ہے جو ظہور پذیر ہوئے ہیں ان کے بارے میں مجلہ ’’خیابان‘‘ میں کمال احمد رضوی اپنے مضمون ’اُردو میں تراجم‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’روسی ادب کے کلاسیکی شاہکاروں کو اُردو میں منتقل کرنے کا سب سے پہلا قدم مخمور جالندھری نے اٹھایا جسے کچھ عرصہ بعد سید مطلبی فرید آبادی نے بھی اپنایا اور اُردو میں گورکی کے عظیم ناول ’’ماں‘‘ مائیکل شو لوخوف کے’’ کنوارے کھیت‘‘ اور ’’اور ڈان بہتا رہا‘‘ پڑھنے کو ملے ۔ پھر گورکی کی خودنوشت سوانح، بچپن، جوانی، بڑھاپا بھی اسی دور کی پیداوار تھیں۔ ٹالسٹائی کے عظیم ناول ’’امن و جنگ‘‘ کو بھی مخمور جالندھری نے اُردو میں منتقل کیا۔ چوہدری برکت علی بڑے اشتیاق کے ساتھ یہ ترجمہ چھاپنے کا اہتمام کر رہے تھے کہ ان کی اچانک موت نے یہ ناول مسودوں کی بوسیدہ الماری میں دائمی طور پر مقفل کر دیا۔ مخمور جالندھری نے اسی دور میں ایوان تورگنیف کے ناول ’’باپ بیٹے کا‘‘ ترجمہ کیا۔ یہی ناول کچھ عرصہ بعد انتظار حسین نے ’’نئی پود‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ ترقی پسند تحریک کے داعیوں کی مساعی نے بھی ہمارے ادب کو تراجم سے بہت زیادہ مالا مال کیا ہے اور نظریاتی اہمیت کے باوجود ان تراجم کا معیار بہت بلند تھا‘‘(۲۳)۔
ترقی پسند تحریک کے علاوہ خالص ادبی نوعیت کی تحریکوں میں بھی تراجم نے کافی رواج پا لیا تھا اور اس خاص گروہ کے مدارالہام محمد حسن عسکری ، محمد دین تاثیر اور دوسرے چند برگزیرہ ادیب و نقادوں نے ادب کو ملکی اور وطنی پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی۔ تاثیر تو کوئی خاص ادبی تحریک پیدا کرنے سے پہلے ہی چل بسے البتہ محمد حسن عسکری نے کسی حد تک ایک مخصوص ادب کی نمائندگی نبھائی اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر بعض بہت اونچے پائے کے کلاسیک اُردو میں منتقل کئے جن کے بارے میں کمال احمد رضوی مزید رقمطراز ہیں:
’’فرانسیسی ناول’’سرخ و سیاہ‘‘ اور ’’مادام بواری‘‘ اُردو ادب میں زندہ جاوید تراجم کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس کے علاوہ عسکری کا ترجمہ آخری سلام جو کہ کرسٹوفر اشروڈ کے ’’گڈبائی ٹو برلن‘‘ سے مستعار ہے اچھے اور عمدہ ادب کا حامل ہے۔ اسی گروہ سے سیدہ نسیم ہمدانی بھی تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے بھی فرانسیسی ادب کی ہی اطاعت شعاری قبول فرمائی ہے۔ بالزاک کے یوژینی گراند کا ترجمہ ’’سرد ویران اندھیرا گھر‘‘ ہمیں اردو میں دستیاب ہوا۔جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ان تراجم کا انتخاب خود مترجم کے ہاتھوں میں تھا۔ اس لئے کسی ناول کو اُردو میں منتقل کرنے سے پہلے ناول کے تمام نقوش پہلے ہی مترجم کے ذہن میں محفوظ تھے اور اس کی جذباتی وابستگی اور طبعی مناسبت نے ان کو اپنی زبان میں ڈھالنے میں بڑی مدد کی۔ اسی لئے یہ تراجم ادب میں اپنے معیار کے لحاظ سے بلند قرار دیئے گئے۔ انہی تراجم میں (کمال احمد رضوی کا ترجمہ) ’’سواد شام‘‘ بھی ہے جو ایوان تورگنیف کے ناول ’’اَن دی ایو‘‘ پر مبنی ہے‘‘(۲۴)۔
دوسری زبانوں میں اُردو کتابوں کے مترجمین نے اُردو زبان سے ایسی ذاتی دلچسپی یا اس کے لٹریچر کواپنی زبان میں روشناس کرانے یا اپنی قوم کو اُردو کی تعلیم کے لئے کئے ہیں۔ شاہ معین الدین احمد ندوی ادبی تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’ادبی نقو ش‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ اُردو کے مشہور محسن گارسان دی تاسی نے میرؔ کی مثنوی اڑدرنامہ، تحسین الدین کی مردپ، مسکین کے مرثیوں، نہال چند لاہوری کی تاج الملوک اور بکاولی اور میرامن کی باغ و بہار کا فرنچ زبان میں ترجمہ کیا،کلیات ولی مرتب کر کے شائع کیا۔ اُردو اور فرنچ لغت مرتب کی۔ فرنچ میں اُردو زبان کی تاریخ اور اس کے مصنفین اور تصانیف پر ایک کتاب لکھی، اس قسم کی اردو کی تاریخی خدمات انجام دیں یا اردو زبان کے انگریز محسن ڈاکٹر جان گلگر ایسٹ نے مختلف حیثیتوں سے اردو زبان کی خدمت کی، اس کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں کتابیں لکھیں۔ انگریزوں کی اردو تعلیم کے لئے متعدد کتابیں تالیف کیں اور اردو کی بعض کتابوں کا ترجمہ کرایا۔ تعلیمی سلسلہ میں میرامن کی باغ و بہار اور ڈپٹی نذیر احمد کی مراۃ العروس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا مگر یہ تمام تراجم بیشتر تعلیمی ضروریات یا مترجمین کی اردو سے دلچسپی کی بنا پر کئے گئے، ایسے ترجمے ہندوستان کی بعض دوسری زبانوں کی کتابوں کے بھی ہو چکے ہیں اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ اردو کتابوں کا ترجمہ ان کی علمی اہمیت اور علمی استفادہ کے لئے کیا گیا، مثلاً سرسید کی آثارالصنادید کا انگریزی اور فرنچ میں ترجمہ ہوا، فرنچ کے مترجم گارسان دی تاسی اور اردو کتابوں میں یہ فخر سب سے زیادہ مولانا شبلی اور دارالمصنفین کی کتابوں کو حاصل ہے۔ چنانچہ شعر العجم کا فارسی ترجمہ افغانستان کی وزارت تعلیم کی جانب سے عرصہ ہوا کیا گیا جو حکومت افغانستان کی جانب سے شائع ہو چکا ہے اور نامور مستشرق مسٹربراون نے اپنی مشہور کتاب لٹریری ہسٹری آف پرشیا میں اس سے فائدہ اٹھایا ، جس کا اعتراف اس کتاب میں کیا ہے بلکہ اس کا آخری حصہ جو ۱۵۰۰ء سے لے کر ۱۹۲۴ء تک کے شعراء کے حالات پر مشتمل ہے، اس میں تیموری دور کے تمام شعراء کے حالات بیشتر شعرالعجم سے ماخوذ ہیں، جن کے حوالے حواشی میں موجود ہیں۔ سیرۃ النبی حصہ اول، دوم اور سوم اور الفاروق کا ترجمہ ترکی زبان اور ہندوستان کی بعض زبانوں میں کیا گیا۔ یہ تمام ترجمے دارالمصنفین کے کتب خانہ میں موجود ہیں، عرصہ ہوا مصر کے بعض فضلاء نے اس کے عربی ترجمہ کی اجازت مانگی تھی جو دیدی گئی تھی مگر اس کے بعد پھر کوئی اطلاع نہیں ملی۔ مولانا سید سلیمان ندوی کی کتاب خیام کا ترجمہ بھی ایران میں ہونے والا تھا مگر اس کے متعلق بھی اب تک کوئی علم نہیں ہو سکا، مولانا محمد حسین آزاد کی سخندان فارس کا ترجمہ ایران میں کیا گیا، نواب امداد امام اثر کی ایک کتاب کا جو فن باغبانی پر ہے ڈچ زبان میں ترجمہ ہوا، اس کے علاوہ انگریزوں کی اُردو تعلیم کے سلسلہ میں اس کی متعددکتابوں کے ترجمے کئے گئے جن سے اردو کے علمی ذخیرہ کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے‘‘(۲۵)۔
اُردو ادب کا موجودہ دور بجا طور پر ترجموں کا دور کہلانے کا مستحق ہے۔ تراجم کے سلسلے میں مشہور امریکی ادارے مکتبہ فرنیکلن نے ناشرین کی خاصی مدد کی ہے(۲۶)۔ اس سلسلے میں مکتبہ جدید، شیخ غلام علی اینڈ سنز اور فیروز سنز بھی قابل ذکر ہیں۔ شیخ غلام علی نے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی جلدیں شائع کرنے میں ترجمہ اور تحقیق دونوں کو مدنظر رکھا، اسی طرح مکتبہ جدیدنے ’’ہنری جیمز‘‘ کے ناول ’’پورٹریٹ آف اے لیڈی‘‘ کا انتخاب کر کے امریکا کے ایک کلاسیک ناول کوبہت خوش اسلوبی سے اردو میں شائع کیا ۔ یہ ناول قرۃ العین حیدر نے ترجمہ کیا اور وہ بنیادی وابستگی جو ناول اور مترجم کے درمیان ہوتی ہے اس ترجمے میں پوری طرح نمایاں ہے۔
فیروز سنز نے ’’سو بڑے لوگ‘‘ کے نام سے ایک ترجمے میں ندرت قائم رکھی کہ اس انتخاب میں مشرقی حکماء و علماء کے بھی خاکے شامل کیے تو اس طرح ہمارے پڑھنے والے طبقے کے ہاتھ میں شخصیات کی ایک ٹھوس کتاب آئی جسے حوالہ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فیروز سنز کے لئے یہ موضوع ویسے بھی دل پسند ہے کیونکہ لغات اور انسائیکلوپیڈیا کو شائع کرنے میں اس ادارے نے وہ اہتمام اور جرأت کا ثبوت دیا ہے جو آج کل کے کسی ادارے کے لئے ایسی ضخیم کتاب کا ذمہ اٹھانا بہت بڑا چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہے۔
فیروز سنز نے سو تاریخی واقعات میں بھی جس شرط کو ملحوظ رکھا ہے اور اس طرح ترجمے کے بعد کتاب کی افادیت یوں بڑھ گئی کہ اس میں مولانا غلام رسول مہر نے اصل ترجمہ کے ساتھ ساتھ پچاس خود نوشت ابواب شامل کر کے تاریخی واقعات کو نہ صرف اَپ ٹو ڈیٹ کر دیا بلکہ ایسے واقعات ہماری تہذیب اور تعمیر کے لئے سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔
فیروز سنز نے اس کے علاوہ تراجم کے میدان میں بچوں کے نصابی مطالعہ کو زیادہ آسان اور پُراز معلومات بنانے کے لئے بھی بعض بہت ہی مفید کتابیں شائع کی ہیں ان میں ’’دُنیا کے گرد اسی دن‘‘ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ اسی سلسلہ میں ’’سمندر کے نیچے‘‘ اور ’’غبارے میں پانچ ہفتے‘‘ سائنسی تحقیق اور دریافت سے روشناس کرانے کے لئے نہایت مبارک فال ہیں۔(۲۷)
اشاعتی ادارہ ’’قرطاس‘‘ تصنیف تالیف و ترجمہ سی۔۶۸ سٹاف ٹاؤن کراچی یونی ورسٹی نے ادبی تراجم کے ساتھ تعلیمی مقاصد کو جس طرح ملحوظ رکھا ہے اس سے ادارے کی ٹھوس پالیسی اور تعمیری جذبات پوری طرح مترشح ہیں۔
ادارے نے امام ابو محمد عبداﷲ بن مسلم بن قتیبہ (۲۱۳ھ تا ۲۷۶ھ) کی اسلامی تاریخ پر مبنیٰ کتاب ’’المعارف‘‘ کا ترجمہ فروری ۱۹۹۹ء میں شائع کیا ۔ اس کے مترجم پروفیسر علی محسن صدیقی ہیں جن کی کتاب ۵۳۶ صفحات پر مشتمل ہے(۲۸)۔
ابن قتیبہ نے ۳۷ چھوٹی بڑی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں سے بعض طبع ہو چکی ہیں اور بعض ہنوز طبع نہیں ہوئی ہیں۔ ان کتابوں میں سے مشہور اور مطبوعہ کتابیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
۱۔ غریب القرآن …۲۔ مشکل القرآن …۳۔ تاویل مختلف الحدیث …۴۔ المسائل والاجوبۃ فی الحدیث والفقہ …۵۔ الرد علی الجمہیہ والمشبہہ… ۶۔ ادب الکاتب … ۷۔ المیسر والقداح … ۸۔ الشعر والشعراء… ۹۔عیون الاخبار … ۱۰۔ کتاب المعارف۔
ابن قتیبہ کی جانب ایک کتاب بنام ’’الامامۃ والسیاسۃ‘‘ بھی منسوب ہے۔ اس کتاب کا اُردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور ایک مخصوص گروہ نے اپنے مخصوص عقائد کے اثبات میں اسے استعمال کیا ہے۔ یہ کتاب جعلی ہے اور ابن قتیبہ کی تصنیف نہیں ہے۔
امام ابن قتیبہ کی تصانیف میں کتاب ’’المعارف‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہے جو موضوع کے لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کی مالک ہے۔ اس کتاب کے مطالب تاریخِ اسلام کے وسیع پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ کیونکہ امام ابن قتیبہ کا شمار عربی زبان و ادب کے ممتاز فضلاء میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ عہد عباسی کے اعلیٰ پایہ کے انشاپرداز تھے، بلکہ بعد کے زمانوں میں بھی انہیں یہی مقام حاصل تھا۔ مشہور مورخ و ادیب علامہ ابن خلدون نے عربی زبان کے جن چار انشاء پردازوں کا ذکر کیا ہے کہ ان کی کتابوں سے عربی زبان و ادب کی تحصیل کی جانی چاہیے۔ ان میں الجاحظ، المبرد اور القالی کے ساتھ ابن قتیبہ کا نام بھی شامل ہے۔ دراصل ابن قتیبہ نے بغداد میں تعلیم پائی اور اسی شہر کی علمی فضاء میں ان کی فکری و ذہنی تربیت ہوئی۔ نوجوان ابن قتیبہ کے اخاذ ذہن نے عہد مامونی کی علمی مجالس اور ’’بیت الحکمۃ‘‘ جس کا ذکر اوائل میں ہو چکا ہے کے مباحثوں سے اخذِ فیض کیا۔
ابنِ قتیبہ کی تصنیف المعارف کے مترجم کو عربی زبان سے واقفیت کے ساتھ ساتھ تاریخ، رجال، ادب و نحو کی کتابوں کے مطالعہ کا شوق رہا ہے اور بقول مترجم یہ شوق و تعلق زندگی کی آخری ہچکیوں تک رہے گا۔ مترجم نے کتاب المعارف کو ایک مستعد طالب علم کی طرح سبقاً سبقاً پڑھا ہے۔ مشکل مقامات پر گھنٹوں غور و خوض کیا اور عربی زبان کے بعض فضلاء سے بھی مشورہ کیا اور یوں ہر امکانی کوشش کی ہے کہ ترجمۂ اُردو عربی متن کے مطابق ہو۔ بعض مقامات پر مترجم کو اصل عبارت پر اضافہ کرنا پڑا ہے۔ ایسے اضافوں کو بین القوسین رکھا گیا ہے تاکہ مصنف اور مترجم کی عبارتوں میں فرق قائم رہے۔ بعض مقامات پر مصنف سے اختلافات کی بناپر یا اس کی غلطی کے سبب سے بین القوسین اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ترجمہ کو اصل سے قریب تر رکھنے کی غرض سے مصنف کے کسی جملۂ فقرہ یا لفظ کو ترجمہ سے حذف نہیں کیا گیا ہے۔ یوں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ مکمل، عام فہم اور موثق و مستند رہے۔ اس کوشش میں مترجم کو کسی حد تک کامیابی ہوئی۔
مترجم نے کتاب کا جدید ترین محقق نسخہ، جسے مصری فاضل ثروت عکاشہ نے ایڈٹ کیا ہے، استعمال کیا گیا اور ہر عنوانِ جلی کے آغاز میں اصل کتاب کے صفحات درج کر دیئے گئے ہیں تاکہ اصل سے مراجعت کی جا سکے۔ مترجم نے کتاب کے دس ابواب کو متعدد عنوانات میں منقسم کیا ہے جن میں اسلامی تاریخ کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا۔ یہ کتاب حسنِ ترتیب کانادر نمونہ اور بہترین مضامین کا عمدہ انتخاب ہے۔ اس کی تبویب نہایت دِل آویز ہے۔ اس میں انسابِ عرب کا بیان اختصار کے ساتھ کیا گیا مگر ضروری تفصیل سے صرفِ نظر نہیں کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی دل چسپ معلومات کو نہایت سلیقے سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب یقینا اپنے عہد کے علمی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے اور مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاریخ اسلام کا کوئی طالب علم اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا (۲۹)۔ اس کتاب کے متعدد حوالے پروفیسر مشتاق قمر کے ناول ’’ایک دن کا آدمی‘‘ میں آ چکے ہیں (۳۰)۔
مشتا ق قمر کا یہ ناول انجم پبلشرز راولپنڈی نے شائع کیا ہے ۔ اس ناول کے دیباچہ میں ڈاکٹر وزیر آغا رقمطراز ہیں:
’’مشتاق قمر کا یہ ناول ایک انوکھی ، سدا زندہ رہنے والی تخلیق ہے جسے انگریزی میں ڈھال کر اہلِ مغرب کے سامنے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کیا اکادمی ادبیات پاکستان یہ کام کرنے کو تیا ر ہے۔‘‘ (۳۱)
اکادمی ادبیات پاکستان ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اور مقتدرہ قومی زبان نے تراجم پر کافی کام کرایا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے تراجم پر عظیم کتب کے نام سے بیشتر کتب شائع کی ہیں ۔ ان عظیم کتب کا تقابلی جائزہ کے موضوع پر ایم فِل کے اسکالر عارف حسین وفاقی اُردو یونیورسٹی سے میری نگرانی میں ایم فِل کا تحقیقی مقالہ تحریر کر رہے ہیں (۳۲)۔ مشتاق قمر نے اے اے مائلن کے ڈرامے دی مین ان دی باؤلر ہیٹ کا اُردو ترجمہ ’’آخری سوٹ کیس‘‘ کے نام سے کیا ہے جو ’’مشتاق قمر کے ڈرامے‘‘ میں شامل ہے(۳۳)۔ ’’مشتاق قمر کے ڈرامے‘‘ کے دیباچہ میں معروف مزاح نگار سید باقر علیم رقمطراز ہیں:
’’میں مشتاق قمر کا سینئر تھا۔ ہماری دوستی اُردو ادب کے مشہور طنز نگار کہنیا لعل کپور مرحوم، راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں اور آئرلینڈ کے نامو ر افسانہ نگار جیمز جائس کی بدولت تھی۔ جیمز جائس سے اس کو عشق تھا۔ وہ ان کے افسانوں کو اُردو میں ڈھالنا چاہتا تھا تاکہ لوگ پڑھیں اور ہمارے ادب کا مقام اور بلند ہو۔‘‘ (۳۴)
انجم پبلشرز نے مذکورہ کتب کے علاوہ عاصی کاشمیری کی شاعری کا انگریزی ترجمہ The Collection of Poems in Urdu by Asi Kashmiri شائع کیا جس کے مترجم ایم یعقوب مرزا ہیں (۳۵)۔ تراجم پر بہت سی کتب ہیں اور ادارے کام کر رہے ہیں ۔ تراجم نے ادب کا مقام بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ان تراجم کو شائع کرنے والے اداروں کو بھی خاص مقام حاصل ہے جنہوں نے تاریخ تراجم کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے جس کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد وسیم انجم، صدر شعبہ اردو ، وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد
حوالہ جات
۱۔ مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی، سید ۔ قائم رضا نسیم امروہوی ، سید وغیرہ ۔ مرتبین ۔ جدید نسیم اللغات اُردو۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور وغیرہ ۔ اشاعت پنجم۔ ص ۲۰۹، ۸۶۱
۲۔ مرزا حامد بیگ ،ڈاکٹر۔ مغرب سے نثری تراجم ۔ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔ ۱۹۸۸ء، ص ۱۳
۳۔ فاخرہ نورین ، ڈاکٹر۔ ترجمہ کاری۔ ادارہ تحقیقات اُردو اسلام آباد۔ ۲۰۱۴ء ۔ ص ۱۵
۴۔ صوبیہ سلیم ، ڈاکٹر۔ محمد صفدر رشید۔ مرتبین۔ فن ترجمہ کاری (مباحث) ۔ ادارہ فروغ قومی زبان پاکستان۔ ۲۰۱۲ء صفحات ۳۹۱
۵۔ صفدر رشید ۔ مرتب۔ فن ترجمہ کاری (مباحث) پورپ اکادمی سلام آباد ۔ ۲۰۱۵ء ۔ صفحات ۴۰۷
۶۔ محمد شریف، پروفیسر میاں۔ مسلمانوں کے افکار۔ مجلس ترقی ادب، لاہور۔ طبع اول۔ مئی ۱۹۶۳ء۔ ص ۲۳
۷۔ محمد طاہر فاروقی۔ خاطر غزنوی۔مرتبین۔ خیابان، خاص نمبر۔ اُردو زبان و ادب کا پاکستانی دور ۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۴ء ۔شعبہ اردو ۔ پشاور یونیورسٹی۔ شمارہ نمبر ۵۔ دسمبر ۱۹۶۴ء۔ ص ۵۰۵
۸۔ محمد شریف، پروفیسر میاں۔ مسلمانوں کے افکار۔ ص ۲۴
۹۔ صفدر قریشی ۔وحدت اللسان کا تعارف ۔ ۱۷۳۔سی آبادی نمبر ۱ نزد جامع مسجد وحدت ٹینچ بھاٹہ راولپنڈی۔ ت۔ن۔ ص ۴
۱۰۔ محمد شریف، پروفیسر میاں۔ مسلمانوں کے افکار۔ ص ۲۴، ۲۵
۱۱۔ ایضاً۔ ص ۲۷
۱۲۔ ایضاً ص ۲۸
۱۳۔ معین الدین احمد ندوی، شاہ۔ ادبی نقوش، ادبی تنقیدی مضامین کا مجموعہ۔ ادارہ فروغ اُردو۔ امین آباد نمبر ۳۷، پارک لکھنؤ۔ بار اول۔ ستمبر ۱۹۶۰ء۔ ص ۳۱۶
۱۴۔ محمد شریف ، پروفیسر میاں۔ مسلمانوں کے افکار۔ ص ۲۸
۱۵۔ احسان احمد، مولوی۔ مترجم۔ تاریخ فلسفہ، از کلیمنٹ سی۔ جے ویب۔ نظرثانی و اضافہ۔ منظور احمد۔ شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونیورسٹی،کراچی۔ اشاعت ثانی، جولائی ۱۹۶۹ء ’’پیش لفظ‘‘ ۔ص ’’د‘‘۔
۱۶۔ محمد شریف، پروفیسر میاں۔ مسلمانوں کے افکار۔ ص ۲۹،۳۰
۱۷۔ ایضاً۔ ص ۳۰
۱۸۔ محمد ریاض، ڈاکٹر۔ اقبال اور فارسی شعراء۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ طبع اول۔ ۱۹۷۷ء۔ ص ۱۵،۱۶
۱۹۔ محمد منور، پروفیسر۔ مرتب۔ اقبالیات، (اقبال ریویو)۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ شمارہ نمبر ۲، جلد نمبر ۳۲۔ جولائی ۱۹۹۱ء ص ۴۱
۲۰۔ جمیل جالبی ، ڈاکٹر۔ تاریخ ادب اُردو، جلد اول، مجلس ترقی ادب کلب روڈ لاہور۔ طبع پنجم ۔ مارچ ۲۰۰۵ء۔ ص ۱۵۹، ۱۶۰
۲۱۔ معین الدین احمد ندوی، شاہ۔ ادبی نقوش۔ ص ۳۲۹
۲۲۔ سلیم اختر۔ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ بار اول، ستمبر ۱۹۷۱ء۔ ص ۶۵
۲۳۔ محمد طاہر فاروقی۔ خاطر غزنوی۔ مرتبین ۔ خیابان، شمارہ ۵۔ ص ۵۰۶
۲۴۔ ایضاً ص ۵۰۷
۲۵۔ معین الدین احمد ندوی، شاہ۔ ادبی نقوش۔ ص ۳۳۱
۲۶۔ محمد طاہر فاروقی۔ خاطر غزنوی۔ مرتبین۔ خیابان، شمارہ ۵۔ ص ۵۰۳
۲۷۔ ایضاً ۔ص ۵۰۹
۲۸۔ علی محسن صدیقی، پروفیسر۔ مترجم۔ المعارف از ابن قتیبہ ۔ قرطاس (ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ) سی۔۶۸ سٹاف ٹاؤن کراچی یونیورسٹی، کراچی۔ فروری ۱۹۹۹ء۔ ص ۴، ۳۴
۲۹۔ ایضاً ۔ ص ۴۴
۳۰۔ محمد وسیم انجم۔ مرتب۔ ایک دِن کا آدمی (ناول) از پروفیسر مشتاق قمر۔ انجم پبلشرز۔ کمال آباد ۳، راولپنڈی۔ ۱۹۹۹ء
۳۱۔ ایضاً ۔ ص ۱۳
۳۲۔ افشاں ملک، آثار و کارِ عطش۔ شاخ زریں اسلام آباد۔ مئی ۲۰۱۶ء ص ۲۰۸
۳۳۔ ڈاکٹر محمد وسیم انجم۔ مرتب۔ مشتاق قمر کے ڈرامے ۔ انجم پبلشرز کمال آباد ۳ راولپنڈی۔ ۲۰۰۰ء۔ ص ۹۹
۳۴۔ ایضاً ص ۲۰
۳۵۔ M.Yaqub Mirza. Translator. A Collection of Poems in Urdu by Asi Kashmiri , Anjum Publishers Kamalabad, Rawalpindi. May 2002. Pages 120